Tag: جینیات

  • کرونا انفیکشن کی شدت اور انسانی جینز میں کیا تعلق ہے؟ بڑی تحقیق کے نتائج سامنے آ گئے

    کرونا انفیکشن کی شدت اور انسانی جینز میں کیا تعلق ہے؟ بڑی تحقیق کے نتائج سامنے آ گئے

    ہلسنکی: کرونا وائرس کی وبا کے آغاز ہی سے دنیا بھر سے ہزاروں سائنس دانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے اس اہم ترین سوال کا جواب تلاش کرنا شروع کر دیا تھا کہ بعض مریضوں میں کووِڈ 19 شدید اور جان لیوا انفیکشن کیوں پیدا کرتا ہے، جب کہ دیگر لوگوں میں معمولی علامات ہی نمودار ہو پاتی ہیں، اور اس سلسلے میں کون سے جینیاتی عوامل کارفرما ہیں۔

    مارچ 2020 میں اکھٹے ہونے والے سائنس دانوں نے ایک نہایت جامع خلاصہ جریدے نیچر میں شایع کیا ہے، جس میں انسانی جینوم میں ایسے 13 مقامات کی نشان دہی کی گئی ہے، جو قوی طور پر شدید کرونا انفیکشن کے ساتھ جڑے ہیں۔

    محققین نے اس سلسلے میں کچھ عمومی عوامل کی بھی نشان دہی کی ہے، جیسا کہ سگریٹ نوشی اور موٹاپا۔ یہ نتائج اب تک کی سب سے بڑی جینوم تحقیقات کے بعد سامنے آئے ہیں، جس میں تقریباً 50 ہزار کرونا مریضوں اور 20 لاکھ غیر انفیکٹڈ افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    یہ عالمی کوشش ’کووِڈ نائٹین ہوسٹ جینیٹکس انیشیئٹیو‘ مارچ 2020 میں اینڈریا گانا نے قائم کی تھی، جو کہ فن لینڈ مالیکیولر میڈیسن انسٹیٹیوٹ کے گروپ لیڈر ہیں، ان کے ساتھ اس ادارے کے ڈائریکٹر مارک ڈیلی بھی ہمراہ تھے، یہ آج انسانی جینیٹکس کا سب سے وسیع ترین اشتراک ہے، جس میں فی الوقت 25 ممالک سے 3 ہزار 300 مصنفین شامل ہیں اور 61 مطالعہ جات ہو چکی ہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ انسانی جینز کووِڈ 19 کی شدت میں کردار ادا کرتے ہیں، اس سے قبل بیماری کی شدت بڑھنے والے متعدد عناصر کی نشان دہی کی گئی تھی، جیسا کہ عمر، جنس، طرز زندگی وغیرہ۔

    اس تحقیق میں مشرقی ایشیائی یا جنوبی ایشیائی افراد میں جنیوم میں 2 لوکیشنز کو یورپی افراد کے مقابلے میں زیادہ عام دریافت کیا گیا، تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ جینز کا ایک دوسرے سے ملنا کووِڈ نائنٹین کی سنگین شدت اور دیگر امراض کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

    مثال کے طور پر ایک جین ڈی پی پی 9 کو کووِڈ نائنٹین کی سنگین شدت سے منسلک کیا گیا ہے، جس کو پہلے پھیپھڑوں کے کینسر اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض کا حصہ بھی بتایا گیا تھا، اسی طرح ’ٹی وائے کے 2‘ نامی جین جو کچھ آٹو امیون امراض پر اثرانداز ہوتا ہے، کو بھی کووِڈ 19 کی سنگین شدت کا باعث دیکھا گیا۔

    ایک اور جینیاتی مقام اے بی او تھا، جو کسی فرد میں خون کے گروپ کا تعین کرتا ہے اور تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ وہ بیماری سے متاثر ہونے کا خطرہ 9 سے 12 فی صد تک بڑھا دیتا ہے۔ اس سے ان تحقیقی رپورٹس کو تقویت ملتی ہے جن میں خون کے مخصوص گروپس اور کووِڈ 19 سے متاثر ہونے کے خطرے کے درمیان تعلق کا ذکر کیا گیا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ صرف وائرل جینوم نہیں بلکہ انسانی جینوم بھی اہمیت رکھتا ہے، یہ واضح ہے کہ جینز کووِڈ نائنٹین کی شدت میں ایک کردار ادا کرتے ہیں اور یہ خطرہ بڑھانے والے متعدد عناصر میں سے ایک ہے۔ اس تحقیق پر ابھی بھی کام جاری ہے اور بہت کچھ دریافت کیا جانا باقی ہے۔

    اب محققین یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آخر کووِڈ نائنٹین کو شکست دینے والے کچھ افراد مہینوں تک طویل المیعاد علامات کا سامنا کیوں کرتے ہیں۔

  • ڈی این اے پر جدید تحقیق نے آریائی تاریخ پر انتہا پسند ہندوؤں کے خیالات جھٹلا دیے

    ڈی این اے پر جدید تحقیق نے آریائی تاریخ پر انتہا پسند ہندوؤں کے خیالات جھٹلا دیے

    واشنگٹن: قدیم ڈی این اے پر جدید ترین تحقیق نے بھارت کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قوم پرست انتہا پسند ہندوؤں کو غصے اور جھنجھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جدید جینیاتی علم نے ثابت کر دیا ہے کہ انڈیا کی طرف مختلف خطوں سے متعدد بار ہجرتیں ہوئیں اور انڈین تہذیب صرف آریائی ثقافت پر مبنی نہیں ہے، نہ ہی انڈین تہذیب کا منبع یہی خطہ ہے۔

    [bs-quote quote=”بھارت میں پائی جانے والی تہذیب کی قدیم بنیاد انڈیا میں نہیں بلکہ کہیں اور تھی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    دنیا کے نامور ماہرینِ جینیات نے قدیم ڈی این اے پر تحقیقات کے بعد انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں پائی جانے والی تہذیب کی قدیم بنیاد انڈیا میں نہیں بلکہ کہیں اور تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کی تہذیب مختلف نسلوں اور تاریخوں سے مل کر بنی ہے، تاہم دائیں بازو کے ہندو قوم پرستوں کے لیے یہ تحقیقاتی نتیجہ غصے کا باعث بن گیا ہے، ان کا اپنے نسلی طور پر خالص ہونے کے تصور پر اصرار برقرار ہے۔

    ہارورڈ یونی ورسٹی واشنگٹن کے جینیات دان ڈیوڈ ریخ کی قیادت میں ’جنوبی اور وسطی ایشیا میں جینیاتی تشکیل‘ کے موضوع پر تازہ ترین تحقیق مارچ 2018 میں شایع ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں پوری دنیا سے تعلق رکھنے والے 92 محققین نے حصہ لیا جو جینیات، تاریخ، آرکیالوجی اور انتھراپولوجی کے اہم نام ہیں۔

    [bs-quote quote=”دائیں بازو کے ہندو قوم پرستوں کے لیے یہ تحقیقاتی نتیجہ غصے کا باعث بن گیا ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    تحقیق میں انڈیا کی طرف 2 بڑی ہجرتوں کا انکشاف کیا گیا ہے جو گزشتہ 10 ہزار برس کے دوران کی گئیں، پہلی ہجرت مال مویشی بالخصوص بکریاں پالنے والے لوگوں نے جنوب مغربی ایران کے علاقے زگروز سے کی، یہ علاقہ بکریاں پالنے کے حوالے سے اوّلین خطہ سمجھا جاتا ہے۔

    ماہرینِ جینیات نے کہا ہے کہ یہ لوگ 7 ہزار سے 3 ہزار قبل مسیح کے درمیان یہاں آئے اور جنوبی ایشیا میں پہلے سے آباد افریقا سے 65 ہزار برس قبل آئے لوگوں میں گھل مل گئے، اور یہاں ہڑپہ تہذیب کی بنیاد رکھی۔

    دوسری ہجرت کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ یہ 2 ہزار قبل مسیح کے بعد ہوئی، یہ آریائی لوگوں کی ہجرت تھی جو ماہرین کے مطابق قازقستان سے آئے۔ اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ سنسکرت زبان کی ابتدائی شکل انھی لوگوں کے ساتھ اس خطے میں آئی۔

    ماہرینِ جینیات و نسلیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھی لوگوں کے ساتھ گھوڑے پالنے کے علاوہ جانوروں کی قربانی کی مذہبی روایات بھی آئیں، اور انھی لوگوں نے ہندو مت کی ابتدائی شکل کی بنیاد رکھی۔

    [bs-quote quote=”تحقیق میں انڈیا کی طرف 2 بڑی ہجرتوں کا انکشاف کیا گیا ہے جو گزشتہ 10 ہزار برس کے دوران کی گئیں۔ آریا لوگوں سے بھی قبل یہاں جنوب مغربی ایران سے قبیلے نے ہجرت کی جس نے پہلے سے موجود افریقیوں کے ساتھ مل کر ہڑپہ تہذیب کی بنیاد رکھی۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ماہرین نسلیات نے انڈیا کی جانب ہونے والی اور بھی کئی ہجرتوں کا ذکر کیا ہے، جیسا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے لوگوں کی ہجرت جو اسٹرو ایشیاٹک زبانیں بولتے تھے۔

    محققین کے مطابق آریاؤں کی طرح مغل وغیرہ جیسے مسلمان فاتحین نے بھی دوسرے علاقوں سے یہاں ہجرت کی اور اپنے گہرے تہذیبی آثار چھوڑے۔

    نئی تحقیق نے ہندو قوم پرستوں کو اس بات کی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے کہ اس حقیقت کو کیسے تسلیم کیا جائے کہ آریا انڈیا کے ابتدائی باسی نہیں تھے، اور ہڑپہ یا وادیٔ مہران کی تہذیب ان سے بھی پہلے موجود تھی۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اس تحقیق میں حصہ لینے والے ہی ایک محقق ہارورڈ کے سابق پروفیسر سبرامینم سوامی جو انڈیا کی حکمراں جماعت کے رکن پارلیمان بھی ہیں، نے ایک ٹویٹ میں ریخ اینڈ کمپنی کی تحقیق کو جھوٹ کا پلندہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔

    خیال رہے کہ دائیں بازو کے کئی ہندوؤں کے لیے یہ انکشافات قابلِ قبول نہیں، وہ اسکولوں کی تدریسی کتابیں تبدیل کرانے کے لیے مہم چلاتے رہے ہیں تاکہ ان میں سے آریا لوگوں کی باہر سے ہجرت کی باتوں کو نکالا جا سکے۔ ان کے مطابق اس خطے کی تاریخ کی شروعات ہی انڈیا سے ہوئی ہے۔