Tag: جینیاتی تبدیلی

  • امریکا میں قاتل مچھر پھیلانے کا منصوبہ

    امریکا میں قاتل مچھر پھیلانے کا منصوبہ

    امریکا میں مچھروں سے پھیلنے والی مختلف بیماریوں کو روکنے کے لیے جینیاتی طور پر مختلف مچھروں کی افزائش کی گئی ہے جنہیں ریاست فلوریڈا میں چھوڑا گیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا نے جینیاتی طور پر مختلف مچھروں کی ایک نسل تیار کی ہے، جسے ریاست فلوریڈا میں خطرناک مچھروں کے خاتمے کے لیے چھوڑا گیا ہے۔

    اس منصوبے کا مقصد عام مچھروں سے پیدا ہونے والے امراض جیسے زیکا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

    ماہرین کے مطابق مچھر کئی سنگین امراض کا سبب بنتے ہیں جن میں ڈینگی، زیکا، چکن گونیا، ملیریا اور زرد بخار شامل ہیں۔ امریکا میں کیڑے مار ادویات کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے، اس لیے اب مچھروں میں ان ادویات کے خلاف مدافعت پیدا ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک جینیاتی طور پر مختلف مچھر بنایا گیا ہے۔

    اس مچھر کے تجربات پاناما اور برازیل سمیت مختلف مقامات پر پہلے ہی کیے جا چکے ہیں۔

    منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں فلوریڈا میں ہر ہفتے 12 ہزار جینیاتی طور پر مختلف مچھر چھوڑے جائیں گے جن کی تعداد 1 لاکھ 44 ہزار ہوگی۔

    3 مختلف مقامات پر ان مچھروں کے انڈے رکھے جا چکے ہیں جن میں سے رواں ہفتے مچھر نکل آئیں گے۔ اس مچھر کی مدد سے بیماریوں کا سبب بنے والے مچھر کی آبادی کو گھٹانا اور امراض کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

  • مصنوعی مچھلی کا گوشت مارکیٹ میں آنے کے لیے تیار

    مصنوعی مچھلی کا گوشت مارکیٹ میں آنے کے لیے تیار

    میساچوسٹس: امریکی ماہرین نے اب مصنوعی مچھلی بھی تیار کر لی ہے، جس کا گوشت جلد ہی مارکیٹ میں لوگوں کے لیے دستیاب ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست میساچوسٹس میں واقع ایک بائیو ٹیک کمپنی ایکوا باؤنٹی (AquaBounty) نے دعویٰ کر دیا ہے کہ جلد ہی مصنوعی سامن مچھلی مارکیٹ میں متعارف کر دی جائے گی۔

    یہ مچھلی جینیاتی موڈیفیکیشن کی مدد سے تیار کی گئی ہے، کہا جا رہا ہے کہ اس سے امریکا میں مصنوعی گوشت کی مارکیٹ مزید فروغ پائے گی۔

    یہ سامن مچھلی مختلف اقسام کی سامن مچھلیوں کے جینز کو جوڑ کر بنائی گئی ہے، چوں کہ جینیاتی ایڈیٹنگ کے نئے طریقے سامنے آ چکے ہيں، اس لیے اب محققین پہلے سے کہیں بہتر قسم کے جینز بنا سکتے ہيں۔ جین ایڈیٹنگ کی بدولت ایسے مویشی بھی بنائے گئے ہیں جو گرم موسم میں زندہ رہ سکتے ہيں اور جو وائرل انفیکشن کے خلاف مدافعت بھی رکھتے ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ کیا جین ایڈیٹنگ کامیاب ثابت ہوگی؟ اس کا فیصلہ صارفین کے ہاتھ میں ہے، کیا وہ ایسی سامن مچھلی یا دوسرا گوشت کھانے کو تیار ہوں گے جن پر ”جینیاتی موڈیفیکیشن کے ذریعے بنایا گیا“ لکھا گيا ہو؟ اس سوال کا جواب تب ہی ملے گا جب ایکوا باؤنٹی کی سامن مچھلی مارکیٹ میں متعارف ہوگی۔

    ایکوا باؤنٹی کے مطابق 24 سالوں کی ان تھک کوششوں کے بعد ان کی مچھلی اس مہینے مارکیٹ میں متعارف کر دی جائے گی۔

    اب تک ایکوا باؤنٹی کی سامن مچھلی کے علاوہ کسی بھی جینیاتی موڈیفیکیشن کے ذریعے تیار کردہ جانور کے گوشت کو منظوری نہيں ملی ہے، یہ سامن مچھلی قدرتی مچھلیوں کے مقابلے میں زيادہ جلدی پروان چڑھتی ہے اور اسے منظوری حاصل کرنے میں 20 سال لگے، جس کے بعد مزيد 4 سال دیگر قانونی کارروائیوں میں گزر گئے۔

    امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ہدایات کے مطابق ان مصنوعات پر ”جینیاتی موڈیفیکیشن کے ذریعے بنایا گیا“ کا لیبل لگانا ضروری ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا میں کافی عرصے سے جینیاتی موڈیفیکیشن کے ذریعے بنائے گئے کئی جانور فروخت کیے جا رہے ہيں، گلوفش (Glo Fish) نامی چمکیلی مچھلی پالتو جانوروں کی دکانوں سے بہ آسانی مل جاتی ہے۔

  • کرونا وائرس ویکسین کی تیزی سے تیاری کے لیے طریقہ دریافت ہو گیا

    کرونا وائرس ویکسین کی تیزی سے تیاری کے لیے طریقہ دریافت ہو گیا

    سنگاپور: سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انھوں نے جینیاتی تبدیلیوں کی نشان دہی کے لیے ایک ایسا طریقہ دریافت کیا ہے جو کرونا وائرس کے خلاف تیار کی جانے والی ویکسینز کے ٹیسٹ کے مراحل کو تیز تر کر دے گا۔

    سنگاپور کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جو تکنیک دریافت کی ہے اس کے ذریعے ممکنہ ویکسینز کے مؤثر ہونے کے بارے میں محض چند دن میں پتا چل سکے گا، اس سلسلے میں سنگاپور کے مذکورہ میڈیکل اسکول کو جہاں یہ تکنیک ڈویلپ کی گئی ہے، امریکی بایو ٹک کمپنی نے ممکنہ ویکسینز بھی فراہم کر دی ہیں، جن پر تجربات جاری ہیں۔

    میڈیکل اسکول کے انفکشس ڈیزیز پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر اوئی انگ آنگ نے میڈیا کو بتایا کہ انسانی رد عمل کی بنیاد پر ویکسین ٹیسٹ میں عام طور سے مہینوں لگ جاتے ہیں، تاہم نئے طریقے سے چند ہی دن میں ویکسین کے مؤثر ہونے کے بارے میں معلوم ہو جائے گا، اس طریقے میں جین میں ہونے والی تبدیلی سے یہ معلوم ہوگا کہ کون سے جینز متحرک ہو گئے ہیں اور کون سے غیر متحرک۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ویکسین سے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے فوری تجزیے سے اس کے مؤثر ہونے اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں جلد تعین ہو سکے گا، اس سے قبل ویکسین لینے والے افراد کے جسمانی رد عمل پر انحصار کیا جاتا تھا۔

    سنگاپور کے سائنس دانوں نے یہ بھی واضح کیا کہ تاحال ایسی کوئی منظور شدہ دوا یا حفظ ماتقدم کی ویکسین سامنے نہیں آئی ہے جو کرونا وائرس کے لیے تیر بہ ہدف ہو، اکثر مریضوں کو صرف ایسی دوائیں دی جا رہی ہیں جو علامات کم کرنے میں معاون ہیں، جیسا کہ سانس لینے میں دشواری کے لیے دوا۔

    ماہرین نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ایک ویکسین کی مکمل طور پر تیاری میں ابھی بھی ایک سال کا عرصہ درکار ہے۔ ادھر اوئی انگ آنگ نے کہا کہ وہ ایک ہفتے میں چوہوں پر ویکسین ٹیسٹ کرنا شروع کریں گے جب کہ انسانوں پر تجربات رواں سال کے دوسرے نصف میں شروع ہونا متوقع ہے۔

  • زرعی پیداوار میں جینیاتی تبدیلیوں سے کینسر پھیل سکتا ہے: سیکریٹری فوڈ ریسرچ

    زرعی پیداوار میں جینیاتی تبدیلیوں سے کینسر پھیل سکتا ہے: سیکریٹری فوڈ ریسرچ

    اسلام آباد: سیکریٹری فوڈ ریسرچ ہاشم پوپلزئی نے کہا ہے کہ زرعی پیداوار میں جینیاتی تبدیلیوں سے کینسر پھیل سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے غذائی تحفظ کا راؤ اجمل کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں زرعی پیداوار کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر بحث کی گئی۔

    چیئرمین کمیٹی راؤ اجمل نے کہا کہ زرعی پیداوار میں اضافے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال روکا جا رہا ہے، دنیا بھر میں جینیٹک موڈیفائیڈ فصلیں کاشت کی جا رہی ہیں۔

    چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ قائمہ کمیٹی غذائی تحفظ اور ملکی کاشت کاروں کی جنگ لڑ رہی ہے۔

    اجلاس میں وفاقی سیکریٹری وزارتِ غذائی تحفظ ہاشم پوپلزئی نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی، انھوں نے کہا کہ جینیٹک موڈیفائیڈ فصلوں کی کاشت پر کچھ تحفظات ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  جدید ٹیکنالوجی خصوصاً زراعت میں چین کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں: شاہ محمود

    سیکریٹری فوڈریسرچ کا کہنا تھا کہ جی ایم ٹیکنالوجی کے استعمال سے کینسر پھیل سکتا ہے، جی ایم ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والی پیسٹی سائیڈ کینسر کا سبب بنتی ہیں۔

    ہاشم پوپلزئی نے بریفنگ میں بتایا کہ اگر ہم زرعی پیداوار کے لیے جی ایم ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں گے تو اس سے ہماری ایکسپورٹ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کی ہے، اب جی ایم ٹیکنالوجی کے معاملے پر وزیر اعظم سے ہدایات کا انتظار ہے۔