Tag: جیوے پاکستان

  • عالی جی: تہذیب، فن اور ادب کے ایک قدآور کا تذکرہ

    عالی جی: تہذیب، فن اور ادب کے ایک قدآور کا تذکرہ

    پاکستانی شعر و ادب میں جن چند شخصیات نے مجموعی طور پر اپنی انفرادیت اور تخلیقی اُپج کے نقوش چھوڑے ہیں، اُن میں جمیل الدّین عالی کا نام سرِفہرست ہے۔عالی صاحب کی تخلیقی شخصیت کے کئی حوالے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت اور ہمہ صفت شخصیت کے مالک رہے۔

    ایک جانب انہوں نے کئی مقبول اور یادگار ملی نغمات لکھے تو دوسری طرف دوہے جیسی نظر انداز کی گئی صنف کو اپنی تخلیقی قوت کے سبب ایک نئی زندگی دی۔ یہی نہیں جمیل الدین عالی پاکستانی شعر و ادب میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث قابلِ ستایش ہیں۔ اُن کی علمی قابلیت اور دانش وارنہ شخصیت کا ادارک سب کو تھا، اور اسی لیے اُن کے چاہنے والے اُنہیں جمیل الدین عالی کے بہ جائے عالی جی کہہ کے پکارتے تھے۔

    عالی جی کی غیر معمولی انتظامی صلاحیتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس حوالے سے انجمن ترقی اردو جیسے تاریخی ادارے سے طویل علمی وابستگی اور پاکستان کی پہلی وفاقی اردو یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ رائٹرز گلڈ جیسے ادارے میں مرکزی اور انتظامی کردار نے عالی جی کو اُن کی زندگی ہی میں لیجنڈ بنا دیا تھا۔

    جمیل الدین عالی کی شاعری کا سفر 1939ء سے نویں جماعت ہی سے شروع ہو گیا تھا، تاہم جب مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تو استاد کی ضرورت محسوس ہوئی، چچا سراج الدین خاں سائل کی شاگردی میں آئے لیکن اُن کے پہلی ہی مشورے پر عمل نہ کیا اور یوں آگے چل کر بھی کسی باقاعدہ استاد کی شاگردی میں نہ آئے۔ 1956ء میں معروف مزاح نگار اور شاعر ابن انشا جو عالی جی کے دوست تھے، اُنہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق سے ملوانے لے گئے، اسی ملاقات کے بعد جمیل الدین عالی کی نیاز مندی مولوی عبدالحق سے قائم ہوگئی اور اسی نیازی مندی کے سبب وہ انجمن ترقیٔ اردو جیسے تاریخی ارادے سے جڑتے چلے گئے اور یہ تعلق اُن کی آخری سانس تک قائم رہا۔

    عالی جی راٹرز گلڈ کے اعزازی سیکرٹری رہے، منتخب جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ انجمن ترقی اردو کے رکنِ منتظمہ اور معتمدِ اعزازی رہے۔ اردو ڈکشنری بورڈ کے رکن اور اعزازی صدر نشیں بھی رہے۔ وفاقی وزیرِ تعلیم ڈاکٹر عطا الرّحمٰن کے تعاون سے وفاقی اردو کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دلانے میں کام یاب ہوئے، لیکن اس کے پیچھے عالی صاحب کو ایک طویل اور صبر آزما جد وجہد سے گزرنا پڑا۔

    مشاعروں میں وہ اپنی غزلیں اپنے مخصوص ترنم سے سناتے اور خاص طور پر لوگ اُن سے دوہے سنتے اور سنتے ہی چلے جاتے۔وہ اکثر مشاعروں میں اپنے کلام کا اختتام ’جیوے جیوے پاکستان جیسے مقبول عام قومی ترانے پر کرتے اور لوگ دیوانہ وار اُن کے ساتھ اس لازوال قومی ترانے کو اُن کے ساتھ ساتھ دہراتے۔

    عالی جی کا پہلا شعری مجموعہ ’غزلیں، دوہے، گیت ‘ 1957ء میں سامنے آیا، ملی نغمات پر مشتمل مختصر مجموعہ ’جیوے جیوے پاکستان ‘1974ء میں شایع ہوا۔ اسی سال اُن کا غزلوں، نظموں اور دوہے پر مشتمل اہم مجموعہ ’لاحاصل‘ بھی اشاعت پزیر ہوا۔ عالی جی کا آخری شعری مجموعہ ’اے مرے دشت ِ سخن کی صورت میں سامنے آیا۔ انہوں نے خاکہ نگاری کے حوالے سے ایک کتاب ’بس اک گوشۂ بساط‘ کے نام سے لکھی، چند سفر نامے بھی لکھے، عالی جی کی مزید کتابوں میں نئی کرن، شنگھائی کی عورتیں اور ایشین ڈرامے شامل ہیں۔

    عالی صاحب کی ایک کتاب اُن کی غیر معمولی طویل ترین نظم ’انسان ‘ ہے، اس نظم کی پہلی جلد 7800 مصرعوں پر مشتمل ہے۔ اُنہوں نے’انسان‘ کو 1950ء کے عشرے میں شروع کیا اور 2007ء میں یہ طویل ترین نامکمل نظم، پہلے حصے کے طور پر شایع ہوئی، ایک اندازے کے مطابق عالی صاحب اپنے انتقال تک اس اہم نظم کے دس ہزار سے زاید مصرعے لکھ چکے تھے۔ یہ نظم طوالت کے علاوہ اپنی فارم، اپنے اسلوب، اپنے ڈکشن اور اپنے ہمہ جہتی موضوعات کے سبب بھی اہم ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار انسان اور اس کا تاریخی و ارتقائی سفر ہے۔

    عالی جی کے ابتدائی دور کے دو شعر ملاحظہ کجیے

    کچھ نہ تھا یاد بہ جز کارِ محبت اک عمر
    وہ جو بگڑا ہے تو اب کام کئی یاد آئے

    تم ایسے کون خدا ہو کہ عمر بھر تم سے
    اُمید بھی رکھوں اور نا اُمید بھی نہ رہوں

    دوسری جانب جمیل الدین عالی نے کئی دہائیوں تک بڑی معتبر اور معیاری کالم نگاری بھی کی۔ اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی، تہذیبی اور سیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی۔

    جمیل الدین عالی زندگی بھر کئی محاذوں پر نبرد آزما رہے۔ ایک جانب اُن کا خاندانی پس منظر، بھرپور شخصیت، ذہانت اور علمیت کے باوصف زندگی کے مختلف طبقات میں نمایاں رہی۔ علم وادب سے براہ راست وابستگی نے بھی اُن کی اہمیت میں چار چاند لگائے رکھے جب کہ بیوروکریسی میں شامل ہونے کے سبب وہ کئی اہم اور بڑے عہدوں پر فائز رہے۔ اُنہیں 1991ء ’تمغۂ حسنِ کارکردگی‘، 1998ء ، میں ’ہلالِ امتیاز‘ اور اکادمی ادبیات کی جانب سے ’کمالِ فن ‘ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    جمیل الدین عالی نے سات مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں کراچی میں پیپلز پارٹی کی جانب سے حصہ لیا لیکن ناکام رہے جب کہ ایم کیو ایم کی حمایت سے وہ 1997ء میں سینیٹ کی سیٹ پر منتخب ہوئے۔

    جمیل الدین عالی کی شخصیت اور اُن کی شاعری کا ذکر اُن کے ملی نغمات کے بغیر اداھورا رہ جائے گا۔ اس ضمن میں اہم بات یہ ہے کہ اپنے اکثر مقبولِ عام نغموں کی دھنیں بھی خود عالی جی نے بنائیں کیوں کہ یہ اُن کا شوق رہا ہے، تاہم انہوں نے اپنی کسی دُھن کو موسیقار کے تخلیقی مزاج پر حاوی نہیں ہونے دیا۔

    جیوے جیوے پاکستان پاکستان پاکستان جیوے پاکستان

    دین، زمین، سمندر، دریا، صحرا، کوہستان
    سب کے لیے سب کچھ ہے اس میں، یہ ہے پاکستان

    ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر، نام ور موسیقار اور گلوکار مہدی ظہیر نے عالی صاحب کا ایک ایسا یادگار اور شان دار ترانہ ریکارڈ کرایا جس نے غیرمعمولی مقبولیت حاصل کی۔ یہ ملی ترانہ پاکستان میں منعقد ہونے والی پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ہنگامی طور پر عالی جی نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی فرمایش پر راتوں رات لکھا، اور مہدی ظہیر نے اپنی ولولہ انگیز آواز میں گا کے امر کر دیا:

    ہم تابہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں
    ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں

    پاکستان کے تمام ملی نغمات میں عالی جی کے لکھے ہوئے، اس ملی نغمے کو ہمیشہ یادگار حیثیت حاصل رہے گی۔ یہ ملی نغمہ جس خوب صورتی، جذبۂ حب الوطنی اور وارفتگی سے لکھا گیا، میڈم نور جہاں نے اپنی لافانی اور سُریلی آواز میں اُس ملی نغمے کو اُسی قدر سپردگی، تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنے فوجی بھائیوں کی نذر کیا:

    اے وطن کے سجیلے جوانو
    میرے نغمے تمھارے لیے ہیں

    جمیل الدین عالی نے ایک طویل، بھرپور، خوش حال اور خوش خوش و خرم زندگی گزاری۔ وہ عارضۂ قلب کی بڑھتی ہوئی پیچدگیوں کے ساتھ کچھ ضمنی امراض میں بھی مبتلا ہوئے اور 23 نومبر 2015ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے، تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔

    (عالی جی کے یومِ وفات پر معروف شاعر، ادیب اور سینئر صحافی خالد معین کے مضمون سے منتخب پارے)

  • جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جیوے جیوے پاکستان ایک ایسا ملّی نغمہ ہے جسے پانچ سال کا بچّہ اور زندگی کی 70 دہائیاں دیکھ لینے والا کوئی بزرگ بھی جھومتے ہوئے، سرخوشی کے عالم میں اور احساسِ مسّرت میں ڈوب کر ایک ہی ردھم میں خوبی سے گنگنا سکتا ہے۔

    یہ لازوال نغمہ جمیل الدّین عالی کا لکھا ہوا ہے۔ آج جشنِ آزادی پر ہم ان کا یہ نغمہ ہی نہیں ’ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں، اے وطن کے سجیلے جوانو، جو نام وہی پہچان، پاکستان، پاکستان، اتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا، بھی سن رہے ہیں اور عالی جی کو بھی یاد کررہے ہیں۔

    جیوے جیوے پاکستان کو دوسرا قومی ترانہ اس ملّی نغمے کی عوامی مقبولیت کے پیشِ نظر کہا جاتا ہے۔ عالی جی نے وطنِ عزیز کے لیے جو نغمات لکھے وہ لازوال ثابت ہوئے۔ ان کے نغمات کو الن فقیر نے مخصوص انداز میں گایا گیا اور نصرت فتح علی خان کی منفرد گائیکی میں بھی محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان کو بھی بہت سنا اور پسند کیا گیا۔

    جمیل الدین عالی، جنھیں عالی جی کہا جاتا تھا، ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد تھا جنھوں نے حبُ الوطنی، اپنی زبان اور ثقافت کی محبّت کو اپنے نغمات کے ذریعے ہمارے دلوں میں اتارا اور ایسی ملّی شاعری کی جو زبان زدِ عام ہو گئی۔

  • واہگہ بارڈر پر قومی پرچم اتارنے کی پروقار تقریب، شہریوں کا زبردست جوش وخروش

    واہگہ بارڈر پر قومی پرچم اتارنے کی پروقار تقریب، شہریوں کا زبردست جوش وخروش

    لاہور: واہگہ بارڈر پر پاکستان زندہ باد اور اللہ اکبر کی صداؤں کے درمیان پرچم اتارنے کی تقریب منعقد ہوئی، جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، پرچم کشائی کی تقریب میں روایتی جوش و جذبہ دیکھنے میں آیا۔

    تفصیلات کے مطابق جشن آزادی پر واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب روایتی جوش وخروش کے ساتھ منعقد ہوئی، جس میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی، فضا نعرہ تکبیراللہ اکبراور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔

    ننھے سپاہی نے سب کا لہو گرما دیا، ہزاروں پاکستانی بچے، نوجوان بوڑھے اور خواتین جوق در جوق اس تقریب کو دیکھنے کے لیے واہگہ بارڈر پہنچے۔

    پاکستان رینجرز کے شیر دل جوانوں کے بوٹوں کی گھن گھرج اور وطن کی حفاظت کے جذبے سے مامور پریڈ پاکستانیوں کا لہو خوب گرماتی رہی، واہگہ پر موجود کیا بچے، بزرگ، خواتین سب ہی بہت پُرجوش اور بھرپور انداز میں اپنے سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔

    اس موقع پر فضا پاکستان زندہ باد، نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور جیوے جیوے پاکستان کے نعروں سے گونجتی رہی. قبل ازیں ملی نغموں اور قومی ترانوں پر لوگ والہانہ انداز میں رقص کرتے رہے اور بھنگڑا ڈالتے رہے۔

    تقریب میں‌ بالخصوص نوجوانوں اور بچوں کاجو ش و جذبہ دیدنی تھا، منچلوں کے بھنگڑوں اور نعرے بازی نے ماحول کو گرمائے رکھا، فلک شگاف نعروں کی گونج، جوش وجذبے سے جگمگاتے چہروں اورلہراتے پرچموں کے ساتھ واہگہ بارڈر پر ہونے والی تقریب نے 1965 کی تاریخی فتح کی یادیں تازہ کردیں۔