Tag: جیک لندن

  • آوارہ اور مفلس جیک لندن جسے بحیثیت ناول نگار اور صحافی عالمی شہرت ملی

    آوارہ اور مفلس جیک لندن جسے بحیثیت ناول نگار اور صحافی عالمی شہرت ملی

    جیک لندن امریکہ کے اُن اوّلین اہلِ قلم میں شامل ہے جنھیں عالمی سطح پر پذیرائی اور پہچان ملی۔ ادب اور صحافت کی دنیا میں جیک لندن نے شہرت ہی نہیں دولت بھی پائی۔ وہ اپنے وقت میں امریکہ کے مقبول ترین ناول نگاروں‌ میں شامل تھا۔

    کام یابیوں اور شہرت و مقبولیت کا سفر شروع ہونے سے پہلے جیک لندن کو کٹھن وقت اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ حال یہ تھا کہ وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگوں کے آگے دستِ سوال دراز کرتا پھرتا تھا۔ قسمت نے یاوری کی تو وہ اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ جیک لندن سے آٹو گراف لینے کے لیے اس گرد جمع ہو جاتے۔ اسے فن و تخلیق کے شعبے میں عالمی سطح پر سراہا گیا۔

    امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے تعلق رکھنے والا جیک لندن 12 جنوری 1876ء کو پیدا ہوا۔ اس کی طبیعت میں تجسس اور مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ غربت اور افلاس کا عالم یہ تھا کہ جیک لندن نے نوعمری میں ایسے معمولی کام بھی کیے جنھیں ناگوار اور گھٹیا تصوّر کیا جاتا تھا۔ لیکن جیک لندن لوگوں کی پروا کیسے کرتا؟ اسے ایک وقت کی روٹی چاہیے تھی، سو اس نے ہر وہ کام کیا جو اس کے پیٹ کی آگ بجھا سکتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ غربت سے نجات پانے کے لیے جیک لندن نے چوروں اور الٹے سیدھے کام کرنے والوں سے تعلق جوڑ لیا۔ وہ ان کے ساتھ کبھی سونے کی تلاش میں نکلا اور کہیں سمندر سے بیش قیمت موتی ڈھونڈنے کے لیے جتن کرتا رہا۔ وہ مال دار بننے کے لیے ہر جائز اور ناجائز کام کرنے کو تیار تھا۔

    17 برس کی عمر میں جیک لندن ایک بحری جہاز پر ملازم ہوگیا اور جاپان کا سفر کیا۔ اُس نے اس سفر میں‌ بہت کچھ سیکھا اور اپنے تجربات کی روشنی میں کئی سنسنی خیز اور انوکھے کام بھی کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ یہ سب کچھ جیک لندن اپنا مقدر بدلنے کی خاطر کرتا رہا۔ وہ اپنے بارے میں کہتا تھا کہ اس نے کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کی، اس کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزارتا۔ جیک لندن ایک ذہین نوجوان تھا۔ اس کا حافظہ قوی تھا۔ اس نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھا، 19 سال کی عمر میں‌ اُس وقت کام آیا جب اس نے کچھ لکھنے پڑھنے کا ارادہ کیا۔ جیک لندن نے وقت گزارنے کے لیے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا تھا اور یہ ایک بہترین مشغلہ ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں اسے خیال آیا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں‌ تھا۔ جیک لندن نے جب قلم تھاما تو وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک ناول نگار اور صحافی کے طور پر شہرت پائے گا۔

    جب روس اور جاپان کے درمیان جنگ چھڑی تو جیک لندن نے اخباری نمائندے کی حیثیت سے اپنی قسمت آزمائی۔ اس وقت تک وہ مطالعہ اور لکھنے کی مشق سے بہت کچھ سیکھ چکا تھا اور اپنی ذہانت سے واقعات کو بیان کرنے اور رنگ آمیزی پر قادر ہوچکا تھا۔ 1914ء میں اسے جنگی وقائع نگار کے طور پر منتخب کر لیا گیا اور جیک لندن نے بخوبی یہ ذمہ داری نبھائی۔ مگر اس سے قبل کہانی نویس کے طور پر اس نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا۔ اسے ایک حیرت انگیز شخص کہا جاسکتا ہے جس نے نہایت مختصر عمر پائی۔ جیک لندن ایک بے چین روح تھی جس نے جب کچھ کرنے کی ٹھانی تو کر گزری۔ اس نے مفلسی دیکھی، مزدوری کی، سمندر کی دنیا دیکھی اور اپنے تجربات و مشاہدات قلم کار کی حیثیت سے کتابوں میں پیش کردیا۔

    امریکہ میں بطور کہانی نویس 1900ء میں جیک لندن کی پہچان کا سفر شروع ہوا۔ اس کی کہانیاں امریکی رسائل میں شایع ہوئیں جنھیں بہت پسند کیا گیا۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جن کو امریکہ ہی نہیں امریکہ سے باہر بھی سراہا گیا۔ اس ستائش نے جیک لندن کو جم کر لکھنے پر آمادہ کیا۔ شہرت اور مقبولیت کے اس عرصہ میں جیک لندن نے کتّے کو ایک وفادار جانور کے طور پر اپنی کہانیوں میں‌ پیش کرنا شروع کیا اور واقعات کو اس عمدگی سے بیان کیا کہ لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ مشہور ہے کہ جیک لندن کی بعض کہانیوں کے واقعات سچّے ہیں‌ اور ان کا تعلق مصنّف کی زندگی سے ہے۔ ان میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    امریکہ میں جیک لندن کی مقبولیت کو دیکھ کر اس زمانے کے مشہور اخبارات اور بڑے جرائد نے اسے کہانیوں کا معقول معاوضہ دینا شروع کر دیا تھا۔ جیک لندن نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ قلم بند کی تھی۔

    1916ء میں‌ امریکی مصنّف اور صحافی جیک لندن آج ہی کے روز انتقال کرگیا تھا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔ امریکی مصنّف جیک لندن کی کتابیں بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں اور کئی زبانوں‌ میں ان کے تراجم بھی مقبول ہوئے۔

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن کی کہانی جو امریکا کا مقبول ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن کی کہانی جو امریکا کا مقبول ناول نگار بنا

    جیک لندن نے تکلیف دہ زندگی اور مشکلات کو شکست دے کر ادب اور صحافت کی دنیا میں شہرت پائی تھی۔ اس کا شمار امریکا کے مقبول ناول نگاروں‌ میں ہوتا ہے۔

    ایک وقت تھا جب جیک لندن پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے لوگوں کے آگے دستِ سوال دراز کرنے پر مجبور تھا۔ جب قسمت نے یاوری کی تو وہ اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ آٹو گراف لینے کے لیے اس گرد جمع ہوجاتے۔ جیک لندن کے فن و تخلیق کو عالمی ادب میں سراہا گیا۔

    جیک لندن کا تعلق امریکہ کے شہر سان فرانسسکو سے تھا۔ وہ 12 جنوری 1876ء کو پیدا ہوا۔ جیک لندن کی طبیعت میں تجسس اور مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ غربت اور افلاس کا عالم یہ تھا کہ جیک لندن نے نوعمری میں ایسے معمولی کام بھی کیے جنھیں ناگوار اور گھٹیا تصوّر کیا جاتا تھا۔ لیکن جیک لندن لوگوں کی پروا کیسے کرتا؟ اسے ایک وقت کی روٹی چاہیے تھی، سو اس نے ہر کام کیا۔ یہی نہیں بلکہ غربت اور فاقوں سے تنگ آکر جیک لندن نے چوروں اور راتوں رات امیر ہونے کے لیے الٹے سیدھے کام کرنے والوں سے تعلق جوڑ لیا اور ان کے ساتھ وہ کبھی سونے کی تلاش میں نکلا اور کہیں سمندر سے بیش قیمت موتی ڈھونڈنے کے لیے جتن کیے۔

    جیک لندن کی عمر 17 برس تھی جب وہ ایک بحری جہاز پر ملازم ہوگیا اور جاپان کا سفر کیا۔ اُس نے زندگی میں‌ کئی سنسنی خیز اور انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ یہ سب کچھ جیک لندن اپنا مقدر بدلنے کی خاطر کرتا رہا۔ حال یہ تھا کہ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کی، جیک لندن کو اس کا ہوش نہ رہتا۔ اس کا اکثر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرتا تھا۔

    وہ ایک ذہین نوجوان تھا جس کا حافظہ قوی تھا۔ جیک لندن نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھا، 19 سال کی عمر میں‌ اُس وقت کام آیا جب اس نے کچھ لکھنے پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اس نے وقت گزارنے کے لیے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور یہ ایک بہترین مشغلہ ثابت ہوا۔ اسی زمانے میں اسے خیال آیا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں‌ تھا۔ جیک لندن نے جب قلم تھاما تو وہ نہیں جانتا تھا کہ ایک ناول نگار اور صحافی کے طور پر شہرت پائے گا۔

    جب روس اور جاپان کے درمیان جنگ چھڑی تو جیک لندن نے اخباری نمائندے کی حیثیت سے اپنی قسمت آزمائی۔ 1914ء میں اسے جنگی وقائع نگار کے طور پر منتخب کرلیا گیا اور جیک لندن نے بخوبی یہ ذمہ داری نبھائی۔ مگر اس سے قبل وہ ایک کہانی نویس کے طور پر شہرت پاچکا تھا۔ حیرت انگیز طور پر نہایت مختصر عمر پانے والے جیک لندن نے ایک ولولہ انگیز اور فعال شخص کے طور پر زندگی گزاری۔ مفلسی، مزدوری، سمندر کی دنیا اور اس کے تجربات و مشاہدات نے جیک لندن کو کہانی نویس اور صحافی بنا دیا۔

    امریکہ میں بطور کہانی نویس اس نے 1900ء میں اپنی پہچان کا سفر شروع کیا تھا۔ اس کی کہانیاں امریکی رسائل میں شایع ہونے لگی تھیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جن کو امریکہ میں قارئین نے بہت پسند کیا۔ اس ستائش نے جیک لندن کو جم کر لکھنے پر آمادہ کیا۔ شہرت اور مقبولیت کے اس عرصہ میں جیک لندن نے کتّے جیسے وفادار جانور کو اپنی کہانیوں میں‌ پیش کرنا شروع کیا اور واقعات کو اس عمدگی سے بیان کیا کہ لوگ اس کے دیوانے ہوگئے۔ مشہور ہے کہ جیک لندن کی بعض کہانیوں کے واقعات سچّے ہیں‌ اور ان کا تعلق مصنّف کی زندگی سے ہے۔ ان میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    امریکہ میں جیک لندن کی مقبولیت کو دیکھ کر اس زمانے کے مشہور اخبارات اور بڑے جرائد نے اسے کہانیوں کا معقول معاوضہ دینا شروع کر دیا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ قلم بند کی۔

    جیک لندن نے 1916ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پائی۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔ اس کی کتابیں بیسٹ سیلر ثابت ہوئیں۔

  • جیک لندن: ایک لٹیرا اور کان کن جسے قسمت نے ناول نگار اور صحافی بنا دیا

    جیک لندن: ایک لٹیرا اور کان کن جسے قسمت نے ناول نگار اور صحافی بنا دیا

    جیک لندن کا لڑکپن سمندری مہم جوئی میں گزرا۔ اس نے غربت اور فاقہ کشی دیکھی تھی۔ ایک وقت تھا جب وہ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے گھروں سے روٹیاں مانگ کر کھایا کرتا تھا۔ پھر قسمت نے یاوری کی اور جیک لندن علم و ادب کی دنیا کا معروف نام بن گیا۔

    جیک لندن امریکا کا مقبول ناول نگار تھا جس نے تکلیف دہ اور مشکل حالات کو شکست دے کر شہرت اور مقبولیت ہی نہیں دولت بھی حاصل کی۔ صحافت بھی جیک لندن کا مضبوط حوالہ ہے۔

    12 جنوری 1876ء کو امریکا کے شہر سان فرانسسکو میں پیدا ہونے والے جیک لندن کی طبیعت میں تجسس اور مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ اس نے معمولی نوعیت کے کئی ایسے کام بھی کیے جنھیں سماج میں گھٹیا سمجھا جاتا تھا تاکہ وہ ایک وقت کی روٹی حاصل کرسکے۔ غربت اور فاقوں نے جیک لندن کو چوری اور لوٹ مار کرنے والے گروہ سے تعلق جوڑنے پر مجبور کیا تو کبھی وہ سونے کی تلاش میں نکل پڑا اور کہیں سمندر سے موتی نکالنے کے جتن کیے۔

    17 سال کی عمر میں جیک لندن نے بحری جہاز پر ملازمت اختیار کرلی اور جاپان کا سفر کیا۔ اس نے زندگی میں‌ کئی سنسنی خیز اور انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ جیک لندن اپنا مقدر بدلنے کی خاطر گھر بار چھوڑ کر در بدر پھرتا رہا۔ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کی، وہ خود بھی نہیں‌ جانتا تھا۔ اس کا تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرا۔

    وہ ذہین تھا اور حافظہ اس کا قوی۔ اس نوجوان نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی تھی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھا، 19 سال کی عمر میں‌ اس وقت کام آیا جب اس نے پڑھائی شروع کی۔ وہ ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنے لگا اور مطالعہ کرتے ہوئے اس نے سوچا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں‌ تھا۔

    روس اور جاپان کی جنگ کے دوران جیک لندن نے اخباری نمائندے کی حیثیت سے شہرت پائی۔ 1914ء میں جنگی خبر رساں بن کر میکسیکو پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے نہایت مختصر عمر پائی، لیکن ایک ولولہ انگیز زندگی گزاری جس نے اسے ناول نگار بنا دیا اور وہ امریکا بھر میں مقبول ہوا۔

    1900ء میں اس کی وہ کہانیاں منظرِ عام پر آئیں جو اس کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھیں اور اسے جیک لندن نے دل چسپ انداز میں کاغذ پر اتار دیا تھا۔ یہ کہانیاں رسالوں میں شایع ہوئیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جو بہت پسند کی گئیں۔ اب وہ جم کر لکھنے لگا۔ اس نے کتّے جیسے وفادار جانور کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور عمدہ کہانیاں تخلیق کیں۔ بعض کہانیوں کے واقعات اس کی زندگی سے لیے گئے ہیں، جن میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    جیک لندن کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اخبار اور رسائل نے اسے کہانیوں کا معقول معاوضہ دینا شروع کردیا۔ اس امریکی مصنّف نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کی ہے۔

    1916ء میں‌ آج ہی کے دن جیک لندن دنیا سے رخصت ہوگیا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    ایک وقت تھا جب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جیک لندن گھروں سے روٹیاں مانگ کر کھایا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب قسمت نے یاوری کی اور علمی و ادبی تقاریب میں لوگ اسے دیکھتے تو آٹو گراف لینے کے جمع ہوجاتے۔ دنیا بھر میں اسے ایک باکمال تخلیق کار کے طور پر شہرت ملی۔

    وہ اپنے دور کا مقبول ترین ناول نگار بنا۔ شہرت اور مقبولیت کے ساتھ دولت کی دیوی بھی پر جیک لندن پر مہربان ہوئی۔ اسے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    روس اور جاپان کی جنگ کے دوران جیک لندن اخباری نمائندہ بن گیا۔ 1914ء میں جنگی خبر رساں بن کر میکسیکو پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے نہایت مختصر عمر پائی، لیکن ایک ولولہ انگیز، ترنگ اور امنگ سے بھرپور زندگی گزاری جس میں اس نے سب سے بڑی کام یابی ایک ناول نگار اور رائٹر کے طور پر حاصل کی۔

    جیک لندن نے 12 جنوری 1876ء کو سان فرانسسکو، امریکا کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کی فطرت میں‌ تجسس کا مادّہ اور طبیعت میں مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ اس نے کئی معمولی اور گھٹیا سمجھنے جانے والے ایسے کام کیے جس سے ایک وقت کی روٹی حاصل ہو جاتی، اور غربت اور فاقوں سے تنگ آکر چوری، لوٹ مار کے لیے ایک گروہ کا رکن بننا بھی قبول کرلیا، اسی طرح کبھی وہ سونے کی تلاش میں نکلا تو کہیں سمندر سے موتی نکالنے کے لیے جتن کیے۔

    17 سال کا ہوا تو بحری جہازوں پر ملازمت اختیار کرلی اور جاپان کا سفر کیا۔ اس نے زندگی میں‌ بہت سے سنسنی خیز، انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ جیک لندن گھر بار کب کا چھوڑ چکا تھا اور در بدر پھرتا تھا۔ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کاٹی، وہ خود بھی نہیں‌ جانتا تھا۔ اکثر فاقے کرنے پر مجبور ہو گیا اور کبھی مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیا۔ اس کا تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرا۔

    وہ ذہین تھا اور حافظہ اس کا قوی۔ اس نوجوان نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی تھی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھ سکا تھا، وہ 19 سال کی عمر میں‌ اس وقت کام آیا جب اس نے پڑھائی شروع کی۔ اس نے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور پھر اسے جیسے پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جنون ہی ہو گیا۔ وہ ناولوں‌ میں‌ گم ہوگیا اور سوچا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔

    1900ء میں اس کی وہ کہانیاں منظرِ عام پر آئیں جو اس کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھیں اور اسے جیک لندن نے دل چسپ انداز میں کاغذ پر اتار دیا تھا۔ یہ کہانیاں رسالوں میں شایع ہوئیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔ اب وہ جم کر لکھنے لگا۔ اس نے کتّوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور اتنی عمدہ کہانیاں تخلیق کیں جن کا ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ بعض کہانیاں اس کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی ہیں، جن میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    جیک لندن کو اس زمانے میں کہانیوں کا معقول معاوضہ ملنے لگا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کی ہے۔

    1916ء میں‌ آج ہی کے دن یہ ناول نگار دنیا سے رخصت ہوگیا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔