Tag: جی 20

  • امریکی وزیر خارجہ کا جی 20 اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان، وجہ کیا ہے؟

    امریکی وزیر خارجہ کا جی 20 اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان، وجہ کیا ہے؟

    واشنگٹن: ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی امریکی حکومت کا دیگر ممالک کے ساتھ تنازعات کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کو جی 20 اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    اعلیٰ امریکی سفارت کار، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو جنوبی افریقہ میں ہونے والے G20 اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے، چند دن قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افریقی ملک کو دی جانے والی مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔

    جنوبی افریقہ 20 سے 21 فروری تک جوہانسبرگ میں جی 20 گروپ آف ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، اس کے دسمبر 2024 سے نومبر 2025 تک جی ٹوئنٹی کی صدارت ہے۔

    تاہم امریکا اور جنوبی افریقہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے،صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فنڈنگ روکنے پر جنوبی افریقہ نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا تھا۔

    روئٹرز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو بغیر کسی ثبوت کے کہا تھا کہ ’’جنوبی افریقہ زمین ضبط کر رہا ہے‘‘ اور ’’کچھ طبقوں کے لوگوں‘‘ کے ساتھ ’’بہت برا سلوک‘‘ کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات ہونے تک فنڈنگ ​​روک دیں گے۔

    پاناما ٹرمپ کی دھمکی کے آگے ڈھیر، امریکی جہاز کینال سے بغیر فیس گزریں گے

    جنوبی افریقی صدر سیرل رامافوسا نے ٹرمپ کی دھمکی کے بعد ملک کی لینڈ پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کوئی زمین ضبط نہیں کی ہے اور اس پالیسی کا مقصد زمین تک عوام کی مساوی رسائی کو یقینی بنانا ہے۔

    ٹرمپ کی تقلید میں مارکو روبیو نے بھی X پر اپنی پوسٹ میں کوئی تفصیل دیے بغیر الزام لگایا کہ ’’جنوبی افریقہ بہت برے کام کر رہا ہے، جیسا کہ نجی املاک کو ضبط کرنا۔ اور یکجہتی، مساوات اور پائیداری کو فروغ دینے کے لیے جی 20 کا استعمال کر رہا ہے۔‘‘

    واضح رہے کہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے ارب پتی ایلون مسک نے، جو ٹرمپ کے قریبی ساتھی ہیں، نے بھی بغیر ثبوت کے جنوبی افریقہ پر ’’کھلے عام نسل پرستانہ ملکیت کے قوانین‘‘ رکھنے کا الزام لگایا ہے، اور کہا کہ سفید فام لوگ اس کا نشانہ بنے۔

    حالاں کہ نوآبادیاتی اور نسلی عصبیت کے سیاہ دور (1948 سے 1990) میں سیاہ فام افریقیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور اس پالیسی کے تحت انھیں جائیداد کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا، اب جنوبی افریقہ کو زمین کی ملکیت کے سوال پر سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

    جنوبی افریقہ میں سیاہ فام آبادی 80 فی صد ہے جب کہ سفید فام صرف 8 فی صد ہیں لیکن اس کے باوجود سفید فام زمینداروں کے پاس اب بھی جنوبی افریقہ کی فری ہولڈ فارم لینڈ کا تین چوتھائی ہے، جب کہ 2017 کے تازہ ترین لینڈ آڈٹ کے مطابق سیاہ فام لوگوں کی ملکیت صرف 4 فی صد ہے۔

    اس عدم توازن کو جزوی طور پر دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے صدر راما فوسا نے گزشتہ ماہ ایک قانون پر دستخط کیے ہیں، جس سے ریاست کو ’’عوامی مفاد میں‘‘ زمین ضبط کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

  • جی 20: موسمیاتی تبدیلی کے شکار ممالک کے لیے مالی امداد کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا

    جی 20: موسمیاتی تبدیلی کے شکار ممالک کے لیے مالی امداد کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا

    جی 20 اجلاس میں رکن ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے شکار ممالک کے لیے مالی امداد کا کوئی وعدہ نہیں کیا۔

    اے ایف پی کے مطابق جی 20 ممالک کے رہنماؤں کے درمیان پیر کو ریو ڈی جنرو میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

    اجلاس سے قبل اقوام متحدہ نے دنیا کی امیر ترین معیشتوں کے رہنماؤں سے درخواست کی کہ وہ آذربائیجان میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تعطل کے شکار مذاکرات بحال کریں، اور گلوبل وارمنگ سے نبرد آزما ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی امداد میں اضافہ کریں۔

    تاہم جی 20 کے اراکین اس بات پر منقسم رہے کہ کس کو مالی امداد دینی چاہیے، انھوں نے اجلاس میں کوئی وعدہ نہیں کیا،

    گلوبل سٹیزن کے شریک بانی مِک شیلڈرک نے کہا کہ عالمی رہنماؤں نے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو اب باکو میں ہونے والی کانفرنس کی طرف دھکیل دیا ہے۔ انھوں نے آذربائیجان کے دارالحکومت کی جانب اشارہ کیا جہاں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اجلاس (کوپ 29) جاری ہے اور جمعہ کو اس کا اختتام ہونے جا رہا ہے۔

    جی ٹوئنٹی میں یوکرین جنگ بڑھنے کا خطرہ اور امریکی نو منتخب صدر ٹرمپ کی ’امریکا فرسٹ‘ پالیسیوں کی واپسی کے امکانات ہی برازیل میں ہونے والے مذاکرات پر حاوی رہے۔

  • جی 20 یا مودی کا ’سفارتی ورلڈ کپ‘ جس میں خطے کے دو اہم پلیئرز نے شرکت سے انکار کیا

    جی 20 یا مودی کا ’سفارتی ورلڈ کپ‘ جس میں خطے کے دو اہم پلیئرز نے شرکت سے انکار کیا

    سیاست میں نہایت متعصبانہ اور متشدد نظریہ رکھنے والے بھارتی ہندو رہنما نریندر دامودرداس مودی ایک طرف ’انڈیا‘ کا نام ’جمہوریہ بھارت‘ سے بدلنا چاہتے ہیں، دوسری طرف خطے میں سفارتی طاقت کے حصول کے بھی شدت سے متمنی ہیں۔

    نئی دہلی میں آج ہفتہ 9 ستمبر سے شروع ہونے والے جی 20 اجلاس نے یکایک مودی کو عالمی سطح پر نمایاں کر دیا ہے، اسی لیے اسے مودی کا ’سفارتی ورلڈ کپ‘ بھی قرار دیا جا رہا ہے، جس میں خطے کے دو اہم پلیئرز نے شرکت سے انکار کر دیا ہے، تاہم امریکی صدر اور سعودی ولئ عہد اور وزیر اعظم کی شرکت بلاشبہ اہم واقعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

    گزشتہ 40 برسوں میں یہ بھارت کا ایک بڑا سفارتی ’میچ‘ ہے، جس میں عالمی رہنما شرکت کر رہے ہیں اور جس نے مودی سرکار کو خبروں کی زینت بنا دیا ہے، پچھلی بار 1983 میں نئی دہلی میں دولت مشترکہ کا سربراہی اجلاس اور غیر وابستہ ممالک کی تحریک (NAM) کے اجلاس کا انعقاد ہوا تھا۔

    مہینوں کی تیاری کے بعد 19 ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل اس ’’گروپ آف ٹوینٹی‘‘ کے اجلاس کا انعقاد تو عمل میں آ گیا ہے، اور اگر چہ اس کا اپنا ایک ایجنڈا ہے، جس میں موسمیاتی مالیات اور قرضوں کی معافی سے لے کر فوڈ سیکیورٹی اور صحت عامہ تک سب کچھ شامل ہے، تاہم مودی سرکار کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اس کے ذریعے اپنی سفارتی طاقت کا مظاہرہ کرے۔

    تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کو ایسی عالمی توجہ اور کسی صورت نہیں مل سکتی تھی، جتنی توجہ انھیں اس سمٹ کے ذریعے مل رہی ہے، جس میں انھیں یہ ہدف ملا ہے کہ وہ گروپ کے لیے اگلے برس کے ایک روڈ میپ کی خاطر تمام ممالک کو سربراہی اجلاس کے اختتام پر کسی مشترکہ معاہدے پر راضی کرے۔

    اس گروپ کے اجلاس کی میزبانی ملنا بلاشبہ بھارت اور بالخصوص مودی سرکار کے حق میں ایک لاٹری جیسا ہے، لیکن کیا واقعی یہ لاٹری جیسا غیر متوقع عمل ہے؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اگرچہ مودی سرکار سفارتی طاقت سے مدہوش نظر آ رہے ہیں، اور طاقت کی اس فراوانی میں انھوں نے دارالحکومت نئی دہلی کو ایک چھاؤنی میں بدل ڈالا ہے، کچی آبادیاں خالی کرا دیں، اسکول اور دفاتر بند کر دیے، سڑکوں پر دکانیں بند کروائی گئیں، اور انسان تو انسان، مودی سرکار کے ’مضطربانہ‘ اقدامات کی زد میں بندر اور کتے بھی آ گئے، اور انھیں شہر میں نکلنے پر ’پابندی‘ عائد کر دی گئی۔ اس سب کے باوجود یہ سارا عمل ایک بڑے علاقائی تزویراتی صورت حال کی غمازی کر رہا ہے۔

    اگر ایک طرف نریندر مودی کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ شہر میں ہر سڑک اور چوراہے پر بڑی بڑی تصاویر میں وہ نمایاں ہو رہے ہیں تو دوسری طرف امریکا اور یورپ کی نگاہیں اس وقت اس خطے کی بدلتی سیاسی اور تزویراتی صورت حال پر مرکوز ہیں۔ جس میں گزشتہ برس کے روس کے یوکرین پر حملے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس تناظر میں جی ٹوینٹی سمٹ میں امریکی و یورپی رہنماؤں کی ذوق و شوق سے شرکت ایک واضح معنی کی حامل ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ طاقتیں اب بھارت کے ذریعے خطے کی سیاست اور روس اور چین جیسی طاقتوں پر اثر انداز ہونا چاہتی ہیں۔

    چناں چہ، مودی سرکار جتنی خوش ہو رہی ہے، اتنا یہ معاملہ اس کے لیے اتنا بھی آسان نہیں ہے۔ یہ سربراہی اجلاس مودی کے لیے دو دھاری تلوار کی مانند ہے، کیوں کہ خود اس گروپ میں ایک گہری تقسیم پیدا ہو چکی ہے، جس میں متعدد طاقتوں کے اپنے مسابقتی ایجنڈے ہیں۔ اسی طرح یوکرین جنگ نے بھارت کو ایک مشکل دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے، جب امریکا اور برطانیہ کی جانب سے بھارت پر شدید دباؤ تھا، تب اس نے یہ دباؤ مسترد کرتے ہوئے روس سے سستے تیل کی خریداری کا اٹل فیصلہ کیا۔ اس تناظر میں یہ سوال بہت نازک ہے کہ کیا اتوار کو مودی سرکار کسی مشترکہ معاہدے پر پہنچ سکے گی، یا مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے میں ناکام رہنے والا یہ پہلا G20 سربراہی اجلاس بن جائے گا؟

    اس تناظر کو دیکھا جائے تو اقلیتوں کے حوالے سے مودی سرکار کی پالیسیوں پر ہونے والی تنقید کی آوازیں شاید ہی تشریف لانے والے عالمی رہنماؤں تک پہنچ سکیں۔ بھارت کی ممتاز صحافی اور عالمی شہرت یافتہ ناول نگار ارون دھتی رائے نے عین موقع پر یہ انتہائی اہم آواز اٹھائی ہے کہ ’’عالمی سربراہان جی ٹوینٹی میں شرکت تو کر رہے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے بھارت میں کیا ہو رہا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا ’’بھارت میں مسلمان اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر عالمی سربراہان کو خاموش نہیں رہنا چاہیے۔‘‘ منی پور میں اقلیتی برادری کے ساتھ ہونے والے مظالم پوری دنیا نے دیکھ لیے، خواتین کو سرعام برہنہ کر کے اور تشدد کیے جانے کی آئے دن ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں۔ بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارتی افواج نے وادی کو ایک بدترین چھاؤنی میں بدلا، اور عالمی تنظیموں نے اس پر آواز اٹھائی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اقلیتوں کے لیے جہنم کا روپ بنے بھارت کے اس پہلو سے عالمی رہنما نگاہیں پھیر کر روس اور چین کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کو توجہ دیں گے۔

    امریکا اور یورپی ممالک کا فی الوقت ایک ہی ایجنڈا ہے کہ وہ روس کو کسی طرح قابو کر سکیں، یہی کوشش انھوں نے پچھلی بار انڈونیشیا کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کی، اگرچہ مشترکہ اعلامیہ تو جاری ہوا لیکن روسی حملے پر مکمل اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ بھارت چوں کہ اس وقت خطے میں اپنی بڑھتی ہوئی سفارتی طاقت دکھانے کی کوششیں کر رہا ہے، اس لیے عالمی رہنماؤں کی کوشش ہے کہ وہ مودی سرکار کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلا دیں اور اس معاملے پر مکمل اتفاق رائے پیدا کر دیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ سرے سے مشترکہ اعلامیہ ہی جاری نہ ہو، جو عالمی رہنماؤں کی بڑی ناکامی ہوگی۔

    بلاشبہ مودی سرکار اس اجلاس کو آئندہ انتخابات کے لیے سیاسی مہم کے طور پر کیش کر رہے ہیں، لیکن عالمی رہنما اپنی کوشش کی ناکامی کے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے بھی کیا انسانی حقوق کی شدید پامالی پر مبنی بھارت کے اندرونی حالات سے آنکھیں بند کرنا ضروری سمجھیں گے؟

  • پوری دنیا میں جی 20 کا واویلا کرنے والا بھارت بیشتر ممالک کی عدم آمد پر بد حواسی کا شکار

    پوری دنیا میں جی 20 کا واویلا کرنے والا بھارت بیشتر ممالک کی عدم آمد پر بد حواسی کا شکار

    سری نگر: دنیا بھر میں جی 20 کا واویلا کرنے والا بھارت بیشتر ممالک کی عدم آمد پر بد حواسی کا شکار ہے، بیشتر ممالک نے نچلے درجے کے اسٹاف کو بھیج کر منہ پر طمانچہ رسید کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق جی 20 کے سربراہی اجلاس میں بھارت کی جگ ہنسائی کے باعث مُودی سرکار بدحواسی کا شکار ہے ، سیکیورٹی ودیگرانسانی حقوق کی پامالی کے پیش نظر بیشتر ممالک نے نچلے درجے کے اسٹاف کو جی 20 اجلاس میں شرکت کیلئے بھیج دیا۔

    چین کی جانب سے شرکت سے انکار کے بعد سری نگر میں جی 20 سربراہی اجلاس بُری طرح ناکام ہوگئی، چین، ترکیہ ، انڈونیشیا اور سعودی عرب نے جی 20 اجلاس میں شرکت سے صاف انکار کیا۔

    باقی ماندہ اراکین نے بھی سفارتخانے کے نچلےدرجے کے اسٹاف کو بھیج کر بھارت کے منہ پرطمانچہ رسید کردیا ، جس پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور ظلم و بربریت کو معمول پر لانے کی بھارتی کوششوں کو شدید دھچکا لگا۔

    اقوام متحدہ کے اقلیتی مسائل کے اہم رپورٹر کا اہم بیان بھی منظر عام پر آگیا ہے، رپورٹر نے کہا کہ بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں جی 20 کا اجلاس منعقد کرنا حقائق سے چشم پوشی نہیں کر سکتا، بھارت خود انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں کررہا ہے۔

    رپورٹر کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کےحقوق کی پامالی کا سب سے بڑا مجرم ہے، چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان بھی بھارت کے مسخ شدہ چہرے کو ظاہر کرتا ہے۔

    چینی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ چین متنازعہ علاقوں میں جی 20 اجلاس کرنے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔

    سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کی تعیناتی کے باوجود بھی سیکیورٹی خدشات برقرار ہے، اجلاس میں مختلف نوعیت کے حملوں کا خطرہ بھارت کیلئے وبالِ جان بن گیا۔

    بد حواسی میں مودی سرکار نے میڈیا بلیک آؤٹ کر دیا اور مکمل طور پر وادیِ سری نگر کو شٹ ڈاؤن کر دیا ہے۔

    دوسری جانب جی 20 اجلاس کے خلاف دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں میں بھارتی ظلم کی مذمت کی گئی ، مذمت بھارت کے مکروہ اور مذموم عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔

  • ‎نیویارک: یو این ہیڈکوارٹر پر مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے خلاف احتجاج

    ‎نیویارک: یو این ہیڈکوارٹر پر مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے خلاف احتجاج

    ‎نیویارک: یو این ہیڈکوارٹر پر مقبوضہ کشمیر میں جی 20 اجلاس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے مقبوضہ کشمیر میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ امریکا میں آباد کشمیریوں نے احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا، جس میں ڈیجیٹیل ٹرک کے ذریعے بھی آگاہی دی گئی۔‎

    اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے دفتر میں یادداشت پیش کی گئی جس میں دیگر مسائل کے علاوہ انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔

    واشنگٹن میں قائم ورلڈ کشمیر اویئرنس فورم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی نے کہا کہ جی ٹوئنٹی اجلاس سلامتی کونسل کی 16 سے زائد قراردادوں کے منافی ہے‎۔ سابق ممبر کشمیر کونسل ‎سردار سوار خان نے کہا کہ جی ٹوئنٹی ممالک بھارت کے آلہ کار نہ بنیں۔

    ‎جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے راجہ مختار نے کہا کہ کشمیری عوام حق خود ارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں، ‎کشمیر مشن یو ایس اے کے سینئر وائس چیئرمین سردار تاج خان کا کہنا تھا کہ تنازعہ کشمیر کے حل تک خطے کا امن خطرے میں ہے۔

    کشمیر امریکن ویلفیئر ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل سردار ظریف خان نے یو این سکریٹری جنرل سے اپیل کی کہ وہ بھارتی مظالم کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔

  • سعودی معیشت ترقی کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ گئی

    سعودی معیشت ترقی کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ گئی

    ریاض: گزشتہ برس سعودی عرب کی معیشت جی 20 ممالک میں سرفہرست رہی اور اس کی شرح نمو سب سے زیادہ رہی، حکام کا کہنا ہے کہ مملکت نے ہر سطح پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

    اردو نیوز کے مطابق سعودی قائم مقام وزیر اطلاعات ڈاکٹر ماجد القصبی نے مملکت میں نئی تبدیلیوں اور قومی کارکردگی کے حوالے سے وزیر بلدیات و دیہی و آباد کاری امور کے ساتھ مشترکہ کانفرنس کی ہے۔

    ماجد القصبی نے کہا کہ 2022 کرونا وبا کے مسائل اور یوکرینی بحران کے باعث دنیا کے کئی ممالک کے لیے مشکل ثابت ہوا، تاہم مملکت نے ہر سطح پر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم تجارت کے شعبے اور انسانیت نواز امداد کی فراہمی میں سرفہرست رہے، علاوہ ازیں سیاسی، اقتصادی، ٹیکنالوجی، ثقافتی اور کھیلوں کے شعبوں میں عالمی مرکز کی حیثیت بنائی۔

    قائم مقام وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ سعودی ولی عہد نے 2022 کے دوران 21 منصوبے اور اسٹریٹیجک پالیسیاں شروع کیں، ان کا فائدہ مستقبل قریب میں ملے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ وبا کے مسائل اور روس یوکرین بحران کے باعث کاروں کی برآمد میں کمی ریکارڈ کی گئی، انٹرنیشنل سپلائی لائن کو مشکلات پیش آئیں تاہم یہ بات درست نہیں کہ گاڑیوں کی درآمد رجسٹرڈ ڈیلرز تک محدود کردی گئی ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ عام لوگ بھی گاڑیاں درآمد کر سکتے ہیں، شورومز بھی گاڑیاں درآمد کرنے کے مجاز ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ مملکت کےاندر اور باہر سے عمرہ زائرین اور نمازی معمول کے مطابق حرمین شریفین کا رخ کرنے لگے ہیں، عمرہ زائرین کی تعداد 10 ملین تک پہنچ چکی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دانشمند قیادت کے وژن کی بدولت مملکت کی معیشت جی 20 میں شامل ممالک میں سرفہرست رہی، 2022 میں سعودی عرب کی شرح نمو سب سے زیادہ رہی ہے۔

    اس موقع پر وزیر بلدیات و دیہی آباد کاری امور ماجد الحقیل نے کہا کہ سعودی ولی عہد نے ریاض اور گنجان آباد شہروں کے لیے 100 ملین مربع میٹر کی زمین رہائشی پروگرام کے لیے مختص کی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ وزارت گزشتہ 4 برسوں کے دوران 14 لاکھ سے زیادہ خاندانوں کو رہائش کی سہولت فراہم کر چکی ہے، یہ اعداد و شمار گزشتہ 40 برس کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔

    وزیر بلدیات و دیہی آباد کاری امور کا کہنا ہے کہ ایک ماہ سے بھی کم مدت میں ریاض میں بس سروس شروع کی گئی ہے۔

    علاوہ ازیں جدہ شہر کے باشندوں کو سیلاب کے مسائل سے نجات دلانے کے لیے ڈیڑھ ارب ریال کا بجٹ مختص ہے۔

  • وزیر اعظم کی لابنگ کام کر گئی، 20 طاقت ور ممالک نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کر لیا

    وزیر اعظم کی لابنگ کام کر گئی، 20 طاقت ور ممالک نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کر لیا

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی ترقی پذیر ممالک کے لیے لابنگ کام کر گئی، 20 طاقت ور ممالک نے پاکستان کے حق میں فیصلہ کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق جی 20 ممالک نے پاکستان کے لیے 3 اعشاریہ 7 ارب ڈالرز کا قرض معطل کر دیا ہے، پاکستان کو فوری طور پر قرض کی ادائیگی نہیں کرنی پڑے گی۔

    وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اے آر وائی نیوز سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امیر ممالک نے کرونا کے باعث پاکستان کی قرض کی ادائیگی معطل کر دی ہے، گزشتہ برس بھی پاکستان کو یہ سہولت دی گئی تھی۔

    وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے بتایا کہ آج ایک بار پھر پاکستان کے لیے قرض معطلی کی منظوری دی گئی ہے، پاکستان کو 3 اعشاریہ 7 ارب ڈالرز کا قرض چند ماہ میں ادا کرنا تھا، تاہم اس کی معطلی سے اب ملکی زر مبادلہ پر پڑنے والا ممکنہ فوری دباؤ ختم ہو گیا ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سال کے آخر تک حالات بہتر ہوں گے تو قرض ادائیگی ممکن ہو سکے گی۔

    جی سیون ممالک کے حالیہ سربراہ اجلاس کے حوالے سے انھوں نے واضح کیا کہ پاکستان جی7 ممالک کی سیاست میں شامل نہیں ہے، جی 7 ممالک کی اپنی سیاست ہے، ان کا چین مخالف ایجنڈا ہوگا، تاہم پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، ہمارے اور چین کے درمیان مضبوط دفاعی اور معاشی تعلقات ہیں۔

  • جی 20: غریب ممالک کے لیے بڑا اعلان

    جی 20: غریب ممالک کے لیے بڑا اعلان

    ریاض: جی 20 ممالک کے وزرائے خزانہ نے غریب ممالک کو بڑا ریلیف دیتے ہوئے ان کے لیے قرض سروسز کو 2021 تک معطل کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جی ٹوئنٹی کے وزرائے خزانہ اور سینٹرل بینکوں کے گورنرز نے غریب ملکوں پر قرض سروسز کی ادائیگی 2021 تک معطل کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔

    سعودی میڈیا کے مطابق اجلاس نے ادائیگی کے سلسلے میں معطلی کے سابق فیصلے میں توسیع کی ہے، سعودی عرب کی صدارت میں یہ ہنگامی اجلاس آن لائن منعقد کیا گیا جس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔

    اعلامیے میں یہ کہا گیا ہے کہ قرضوں کا مسئلہ حل کرنے کے لیے مزید اقدامات درکار ہوں گے، قرضہ سروسز کی ادائیگی معطل کرنے کے سلسلے میں ہر ملک کے ساتھ خصوصی معاملہ درکار ہوگا۔

    جی 20 وزرائے توانائی کا اہم فیصلہ

    اجلاس میں کہا گیا کہ کرونا بحران کا حجم غیر معمولی ہے اور قرضوں سے بہت سارے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، کم آمدنی والے کئی ممالک کے یہاں مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ جی 20 کے وزرائے خزانہ نے اطمینان دلایا کہ قرضہ سروسز کی ادائیگی کو معطل کرنے والے پروگرام پر عمل درآمد کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔

    اجلاس میں قرضہ دینے والے ممالک سے کہا گیا کہ وہ مکمل شفافیت کا مظاہرہ کریں، اور یہ کہا گیا کہ قرضہ سروسز کے سلسلے میں کارروائی قرضہ لینے والے ملک کی درخواست پر ہوگی۔ اعلامیے کے مطابق مذکورہ ریلیف کے سلسلے میں بنیادی اصول قرضہ دینے والے ادارے طے کریں گے، قرضوں کا بوجھ تقسیم کرنے کا واضح نظام بھی وضع کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ ڈیبٹ سروس معطلی اقدام (DSSI) کا اعلان یورپ میں وبائی امراض کے ابتدائی دنوں کے دوران اپریل میں کیا گیا تھا۔

  • سعودی عرب: 3 قابل اور ذہین خواتین کو اہم ذمہ داری تفویض

    سعودی عرب: 3 قابل اور ذہین خواتین کو اہم ذمہ داری تفویض

    ریاض: سعودی عرب میں ہونے والے اہم سربراہی اجلاس کے لیے ڈیجیٹل ذمہ داریاں 3 قابل اور ذہین خواتین نے سنبھال لیں، اپنے شعبے کی ماہر تینوں خواتین، سربراہی اجلاس ٹی 20 کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو دیکھ رہی ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق 3 نوجوان سعودی خواتین نے اپنے مواد کی تخلیق اور سوشل میڈیا کی رہنمائی کر کے جی 20 کے آئیڈیاز بینک کے ڈیجیٹل ڈیمانڈز کا چارج سنبھال لیا ہے۔

    تھنک 20 (ٹی 20) جو 2012 میں قائم کیا گیا تھا کو جی 20 کا پالیسی تجویز گروپ سمجھا جاتا ہے جو کہ علاقائی اور بین الاقوامی تھنک ٹینکس کے ساتھ تعاون کا ذمہ دار ہے۔

    سعودی عرب نے گذشتہ سال یکم دسمبر سے جی 20 کی صدارت حاصل کی ہے اور ٹی 20 نے سال بھر میں ایسے واقعات اور ویبنارز کی قیادت کی ہے جو سائبر سکیورٹی، موسمیاتی تبدیلی اور کرونا وائرس جیسے معاملات کو حل کرتے ہیں۔

    لما یاسین، ولینہ الحمدان اور نورہ الحسین کو ٹی 20 کے مواصلات سنبھالنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور ڈیجیٹل مواد تخلیق میں ان کے تجربے کی کمی مسئلہ ثابت نہیں ہوئی تھی۔

    لما یاسین جو چھ سال قبل جدہ سے منتقل ہوئی تھیں کنگ عبد اللہ پٹرولیم اسٹڈیز اینڈ ریسرچ سینٹر (کے اے پی ایس اے آر سی) میں ایک ریسرچ ایسوسی ایٹ اور سافٹ ویئر ڈویلپر ہیں۔ وہ پارٹ ٹائم سافٹ ویئر انجینئرنگ کی طالبہ بھی ہیں۔

    سینئیر ریسرچ اینالسٹ الحمدان کے اے پی ایس اے آر سی کی انرجی انفارمیشن مینجمنٹ ٹیم کے ساتھ ڈیٹا اینالسٹ اور ویب ڈویلپر کی حیثیت سے کام کرتی ہیں۔ وہ سربراہی اجلاس کی تیاریوں کے عروج پر اگست میں ٹیم میں شامل ہوئیں۔

    نورہ الحسین کمپیوٹر سائنس پس منظر کے ساتھ 2017 میں کے اے پی ایس اے آر سی میں شامل ہوئیں۔ تینوں خواتین مواصلات اور سوشل میڈیا کے تکنیکی حصوں میں مدد کے لیے متحد ہوئیں۔

    یہ تینوں خواتین ٹی 20 ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو دیکھ رہی ہیں تاکہ پردے کے پیچھے کام کرنے والے افراد اور گروپ کے عالمی سامعین کے ساتھ رابطہ پیدا کیا جا سکے۔

    ٹی 20 سربراہی اجلاس 31 اکتوبر سے یکم نومبر کے درمیان ہوگا جس میں 21 اور 22 نومبر کو ریاض میں ہونے والے جی 20 قائدین کے سربراہی اجلاس کے لیے کلیدی پالیسی سفارشات پیش کی جائیں گی۔

  • جی 20کا ترقی پذیر ممالک کو ریلیف، پاکستان کے قرضوں پر رعایت کا اطلاق یکم مئی سے ہوگا

    جی 20کا ترقی پذیر ممالک کو ریلیف، پاکستان کے قرضوں پر رعایت کا اطلاق یکم مئی سے ہوگا

    اسلام آباد : وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جی 20 کاترقی پذیر 67 ملکوں کو قرض ریلیف دینے کا فیصلہ خوش آئند ہے، جی ٹوئنٹی نے وزیراعظم  کی تجویز کی توثیق کی،یہ چوتھاگلوبل انیشیٹوہے جو عمران خان نےلیا، پاکستان کے قرضوں پررعایت کااطلاق یکم مئی سے ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے 12اپریل کو عالمی لیڈرز سے اپیل کی ، انھوں نے استدعاکی کورونا نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لےرکھاہے، 20 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوچکے ہیں، پوری دنیا متاثر ہے۔

    وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ صرف پاکستان نہیں امریکایورپ میں کاروبار بند ، بےروزگاری بڑھ رہی ہے،دنیا بھر میں معیشتیں متاثر ہو رہی ہیں، وزیراعظم کا مؤقف تھا اس وائرس کا ترقی پذیر ممالک زیادہ متاثرہوں گے ، انھوں نے بتایا مجھے اندازا ہے اس کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا۔

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں ہیلتھ کیئر سسٹم پر دباؤ زیادہ ہے، ترقی پذیرممالک کی آمدن گررہی ہے اور اخراجات بڑھ رہےہیں ، یہ ہونہیں سکتا ہےچین یورپ متاثر ہوں تو پاکستان متاثر نہ ہو، دنیا بھر میں ایکسپورٹ متاثر اور برآمدات بھی کم ہورہی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اسدعمر،عبدالحفیظ شیخ اور حماد اظہر سے اپنا لائحہ عمل شیئر کیا، ہم نے وزرا کے مشوروں کو شامل کرکے مؤثر حکمت عملی بنائی، وزیراعظم سے اپنی حکمت عملی شیئر کی جس کو انھوں نے سراہا۔

    وزیرخارجہ نے کہا کہ وزیراعظم کو بتایا کہ اس حکمت عملی سے رسک بھی اٹھانا پڑسکتاہے، جس پر وزیراعظم نے کہا موجودہ صورت حال میں رسک بھی لیجئے ، بلاآخر وزیراعظم نے مؤثر حکمت عملی کے تحت ایک اپیل 12اپریل کو کی، عالمی لیڈرز سے اپیل کے دن یواین سیکریٹری جنرل کو درخواست دی، عالمی لیڈرز کو بھی وزیراعظم کی اپیل کے بعد خطوط ارسال کئے۔

    شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ کل شام چینی وزیرخارجہ سے اس موضوع پر تفصیلی تفتگو ہوئی ، چین جی 20کا اہم ملک ہے ، جی 7اجلاس میں بھی ہماری حکمت عملی زیربحث آئی، جی 7سے پہلے یورپی یونین کےاجلاس میں بھی معاملہ زیربحث لایا گیا، موجودہ صورتحال میں جی 7کےایم رکن چین،روس کا اعتماد ضروری تھا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ جی 20کےاجلاس میں وزیراعظم عمران خان کےمؤقف کو سراہا گیا ، یواین سیکریٹری جنرل نے وزیراعظم کے مؤقف کو سراہا اور توثیق کی، ترقی پذیر76ممالک کو ڈیٹ ریلیف دینےکا فیصلہ ہوگیا جو بہت خوش آئند ہے ، ایم ڈی آئی ایم ایف ،ورلڈ بینک نے بھی اس تجویز کی توثیق کی۔

    وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ عبدالحفیظ شیخ سے آج اس صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی، یہ چوتھا گلوبل انیشیٹوہے جوعمران خان نے لیا، دفترخارجہ نے معاونت کی ، عبدالحفیظ شیخ کا خیال ہے اس کی مزید تفصیلات آنے کا انتظار کرنا ہوگا، قرضوں میں رعایت کااطلاق پاکستان سمیت 76ممالک پر ہوگا۔

    شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی تجویز کا مثبت اثر 76ممالک پرپڑے گا ، پاکستان کو قرضوں پر رعایت کا اطلاق یکم مئی سے ہوگا، رعایت کامعاملہ دیکھاجائےتو تمام مالیاتی ادارے شامل ہوجاتے ہیں۔

    سارک فورم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے سارک فورم خراب کرنےکی مکمل کوشش کی ، کورونا کی صورتحال پر ہم سارک فورم کا حصہ بنے۔

    اپوزیشن سے متعلق وزیرخارجہ نے کہا اپوزیشن کی شمولیت کیساتھ اسپیکر کی قیادت پارلیمانی کمیٹی بنی ، پارلیمانی کمیٹی میں پی پی، ن لیگ، پی ٹی آئی تینوں کی نمائندگی ہے، پارلیمانی کمیٹی میں وزیراعظم،پی ٹی آئی حکومت کا وژن سامنے رکھاہے، این سی اوسی کی شکل میں ہم نے نیوٹرل باڈی تشکیل دی، جس میں تمام صوبوں کی نمائندگی شامل ہے۔

    شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی زیرصدارت قومی رابطہ کمیٹی میں بھی تمام صوبےشامل ہیں، سندھ کےوزیراعلیٰ قومی رابطہ کمیٹی میں صوبےکی نمائندگی کررہےہیں، وزیر اعظم سب سے پہلے جس کی بات سنتے ہیں وہ مرادعلی شاہ ہیں، ہماری نیت سب کو لیکر چلنے کی ہے۔

    کورونا کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ کوروناوائرس کب تک رہے گا اس پر مختلف آرا ہیں ،ہرروزصورتحال مختلف ہے،م تو چاہتے ہیں پاکستانی راتوں رات واپس آجائیں ، پاکستانیوں کوواپس لانے کیلئے تمام اقدامات ضروری ہیں اور واپسی سے پہلےٹیسٹنگ اور قرنطینہ سہولتوں کو بھی مدنظررکھنا ہے۔

    وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ چین آزمائش سے سرخرو ہوا تو سب سے پہلے ہم انھیں مبارکباددینےگئے، حفاظتی سامان کیلئے چین نے پاکستان کو دیگر ممالک پر ترجیح دی ، توقع ہے آئی ایم ایف پاکستان کیلئےآج1.4ارب ڈالرزکی منظوری دے گا۔