Tag: جے آئی ٹی سربراہ

  • سانحہ ساہیوال:عدالت نے جےآئی ٹی سربراہ کورپورٹ سمیت طلب کرلیا

    سانحہ ساہیوال:عدالت نے جےآئی ٹی سربراہ کورپورٹ سمیت طلب کرلیا

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیے درخواستوں پرسماعت 4 فروری تک کے لیے ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران آئی پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی نے بتایا کہ تمام اصل ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے جبکہ فرائض میں غفلت برتنے والے پولیس افسران کوٹرانسفرکردیا گیا۔

    آئی جی پنجاب پولیس نے عدالت کو بتایا کہ جےآئی ٹی معاملےکی تحقیقات کررہی ہے، تفتیش مکمل کرکے چالان عدالت میں پیش کردیں گے۔ لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی تمام فریقین کو سن کرفیصلہ کرے۔

    بعدازاں عدالت نے جےآئی ٹی سربراہ کو رپورٹ سمیت طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 4 فروری تک کے لیے ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ دو روز قبل لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال پرجوڈیشل انکوائری کی درخواست پرسماعت کرتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس امجد جاوید سلیمی کو طلب کیا تھا۔

    ساہیوال: مبینہ جعلی مقابلے میں دوخواتین سمیت 4 افراد ہلاک، بچہ زخمی

    یاد رہے کہ 19 جنوری 2018 کو جی ٹی روڈ پر ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد مارے گئے تھے۔

    عینی شاہدین کے مطابق کار سواروں نے نہ گولیاں چلائیں، نہ مزاحمت کی، گاڑی سے اسلحہ نہیں بلکہ کپڑوں کے بیگ ملے۔

  • احتساب عدالت نےالعزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    احتساب عدالت نےالعزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    اسلام آباد : مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان قلمبند کیا گیا۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے بتایا کہ 20اپریل کوایڈیشنل ڈائریکٹرایف آئی اے کے طورپرکام کررہا تھا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ سنایا، عدالت عظمیٰ نے گلف اسٹیل کے قیام، فروخت، واجبات سے متعلق سوالات پوچھے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ سرمایہ قطرسے کیسے برطانیہ، سعودی عرب گیا؟ یہ بھی سوال شامل تھا، سپریم کورٹ نے پوچھا قطری شہزادے حماد بن جاسم کا خط افسانہ تھا یا حقیقت اور حسین نوازکی جانب سے والد کوکروڑوں کے تحائف سے متعلق سوال کیے گئے۔

    واجد ضیاء نے نے عدالت کو بتایا کہ یہ وہ سوال ہیں جن سے متعلق تفتیش کرنی تھی جبکہ لندن فلیٹس سے متعلق بھی سوالات پوچھے گئے، برطانیہ میں کمپنی کا سوال پوچھا گیا جوریفرنس سے متعلق نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تفتیش کرنی تھی نوازشریف اثاثوں کے مالک ہیں یا بےنامی دار، جےآئی ٹی کو60 دنوں میں حتمی رپورٹ کی ہدایات دی گئیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ عدالتی حکم پرجے آئی ٹی کے ناموں کوحتمی شکل دی گئی، مجھے جےآئی ٹی سربراہ اور دیگر5 افراد کوبطورممبرشامل کیا، 10جولائی2017 کوجے آئی ٹی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی۔


    خواجہ حارث اورنیب پراسیکیوٹرکے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہرفقرے پراعتراض نہ اٹھائیں، ہم بھی جواب دیں گے بیان بہت لمبا ہوجائے گا، اپنا اعتراض لکھ لیں بعد میں اس پربحث کرلیں، درست ہو یاغلط آپ نے ہربات پراعتراض کرنا ہے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میری قانونی ذمہ داری ہے اعتراض بنتا ہے تو اٹھاؤں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اس طرح سے بیان ریکارڈ نہیں ہوسکتا۔

    واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ جےآئی ٹی نے یواے ای اورسعودی عرب کوایم ایل ایزبھجوائے، صرف یواے ای نے ایم ایل ایزکا جواب دیا جبکہ سعودی عرب سے ایم ایل ایزکا کوئی جواب نہیں آیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جمع درخواستوں کے تجزیے سے کام شروع کیا، درخواست گزارکی درخواست اورملزمان کی متفرق درخواستوں کا جائزہ لیا۔

    انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے ایف بی آر، ایس ای سی پی سے ریکارڈ جمع کیا، جےآئی ٹی نے متعلقہ افراد کے بیانات بھی قلمبند کیے، طارق شفیع، نوازشریف، شہبازشریف، حسن اورحسین نوازکے بیانات قلمبند کیے۔

    واجد ضیاء نے عدالت میں الدارآڈٹ بیورورپورٹ کی کاپی پیش کرتے ہوئے کہا کہ آڈٹ بیورو کی رپورٹ 2010 سے 2014 تک ہے جبکہ رپورٹ کی کاپی سی ایم اے 432 کے ساتھ منسلک ہے۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ کاپیاں گواہ نے خود تیارنہیں کیں، واجد ضیاء نے کہا کہ حسین نوازکی طرف سے رپورٹ 2010 سے 2015 تک کی تھی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نوازاس عدالت میں پیش ہی نہیں ہوئے، استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسین نوازسے منسوب بیان اس عدالت میں قابل قبول شہادت نہیں ہے، حسین نوازکی فراہم کردہ کاپی والیم 6 میں شامل ہے۔

    کیویوای ہولڈنگ لمیٹڈ کی تصدیق شدہ کاپیاں مارچ 2008کی اسٹیٹمنٹ اور13 مئی 2017 کوسیکرٹری خارجہ کولکھا گیا خط عدالت میں پیش کیا گیا۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اصل خط نہیں پیش کیا گیا، یہ کاپی ہے، واجد ضیاء نے جواب دیا کہ 15مئی 2017 کوخط سے بتایا گیا آپ کا خط پہنچا دیا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ وزارت خارجہ کے افسرآفاق احمد نے خط پہنچ جانے کا بتایا، آفاق احمد نےعدالت میں اس سے متعلق بیان نہیں دیا، سیکرٹری خارجہ سے خط کی باقاعدہ ڈیلیوری رپورٹ مانگی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ 18مئی 2017 کوآفاق احمد نے مجھے دوسراخط بھیجا، 18مئی کے خط کی تصدیق شدہ کاپی پیش کردی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ آفاق احمد گواہ کے طورپرپیش ہوئے خط کا ذکرنہیں کیا جبکہ پیش کی گئی کاپی سے یہ واضح نہیں ہوتا یہ آفس کاپی ہے۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ 24 مئی 2017 کو ہی سیکرٹری خارجہ کو بھی خط لکھا جبکہ 30 مئی 2017 کے خط کی کاپی پہلے پیش کرچکا ہوں۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران قطری شہزادے کا11جون 2017 اور 26 جون 2017 کا خط عدالتی ریکارڈ کاحصہ بنا دیا گیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ کوریئرسروس کا اصل لفافہ بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، 6 جولائی2017 کا قطری شہزادے کا خط عدالتی ریکارڈ کاحصہ بنا دیا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ 4 جولائی کا خط رپورٹ کا حصہ نہیں مگراصل موجود ہے۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور مسلم لیگ ن کے قائد کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔


    شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کی مدت سماعت میں توسیع

    خیال رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو ایک ماہ کا وقت دیا تھا۔

    عدالت عظمیٰ نے نوازشریف اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد احتساب عدالت کوٹرائل مکمل کرنے کی تاریخ میں 9 جون تک کی توسیع کردی تھی۔

    یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 8 مئی کو ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو 10 مئی کو العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی

    شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدراحتساب عدالت میں پیش ہوئے۔

    احتساب عدالت میں فلیگ شپ انویسمنٹ کے تحت کمپنیوں کی فنانشل دستاویز اور آف شورکمپنیوں سے متعلق فلو چارٹ عدالت میں پیش کیا گیا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے چارٹ کی کاپی نہ دینے پر اعتراض کیا جس پر عدالت نے انہیں کاپی فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔

    پاناما جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء جےآئی ٹی کے والیم 3 کی روشنی میں اپنا بیان قلمبند کرا رہے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات سفارت خانے کا جوابی خط عدالت میں پیش کیا گیا جس پرامجد پرویز نے سوال کیا کہ وہ لیٹرکہاں ہے جس کے جواب میں یہ خط آیا؟۔

    جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ وہ لیٹرجس کا یہ جواب ہے وہ والیم 10 میں موجود ہے، مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ وہ لیٹرجس کا یہ جواب ہے وہ والیم 10میں موجود ہے، والیم3 دیا گیا اس میں بھی جوابی خط کی کاپی نہیں ہے۔

    واجد ضیاء کی جانب سے لندن فلیٹ ریفرنس سے متعلق دستاویزات پیش کی گئیں جس پر امجد پرویز نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دستاویزات توعربی میں ہیں، ہمیں توسمجھ نہیں آرہی شاید واجدضیا کوعربی سمجھ آئے۔

    مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ شاید واجدضیاء نےعربی میں ڈگری حاصل کی ہوگی، جےآئی ٹی کے خطوط کے جواب میں برطانوی ایم ایل اے کاجوابی خط بھی پیش کیا گیا جس پرامجد پرویز نے کہا کہ ہمیں وہ خط نہیں دیے گئے جن کے جواب میں یہ خط آئے ہیں، کیسے پتہ لگے گا یہ کون سے خط کا جواب ہے۔

    عدالت میں کیپٹل ایف زیڈای میں نوازشریف کی ملازمت سے متعلق اقاما اورجبل علی فری زون اتھارٹی کی جانب سے تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ کے ساتھ نوازشریف کا کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا کنٹریکٹ بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔

    مریم نواز کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ قانونی شہادت کے تحت دستاویزکو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا اور دستاویزات نوٹری پبلک، پاکستان قونصل، ڈپلومیٹک تصدیق شدہ نہیں ہیں۔

    واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ جفزا اتھارٹی کے لیٹرمیں ملازمت کی تصدیق کی گئی، خط کے مطابق نوازشریف کمپنی کے بورڈچیئرمین تھے اور ماہانہ 10 ہزاردرہم تنخواہ وصول کررہے تھے۔

    مریم نواز کے وکیل نے جفزا اتھارٹی کے خط پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کیسےثابت ہوگا کہ یہ پبلک دستاویز ہے، اس خط کوکہیں سے لیگلائزبھی نہیں کرایا گیا، اس سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا یہ خط کسے لکھا گیا ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جفزا ویسے ہی اتھارٹی ہے جیسے پاکستان میں ایس ای سی پی ہے جس پر امجد پرویز نے کہا کہ یہ کیسے ثابت ہوگا جےآئی ٹی ممبران نے جفزااتھارٹی سے یہ خط لیا، عدالت نے امجدپرویزکے اعتراض کو دستاویزکے ریکارڈ کاحصہ بنا دیا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے احتساب عدالت میں متفرق درخواست دائر کردی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ طے کرلیا جائے واجدضیاء کون سی چیزیں ریکارڈ پرلاسکتے ہیں۔

    مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ پہلےبھی2 باراس بات پربحث ہوچکی ہے، ہماری طرف سے زبانی استدعا کی گئی تھی جبکہ نوازشریف کے وکیل کی جانب سے تحریری درخواست جمع کرائی گئی۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ پہلے اس درخواست پربحث کرلیں، عدالت نے نوازشریف کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا، عدالت کی جانب سے فیصلہ کل سنائے جانے کا امکان ہے۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان گزشتہ 3 سماعتوں سے جاری ہے، بیان مکمل ہونے پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز جرح کریں گے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کی جانب سے اصل قطری خط عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ لفافے پرقطری خط اصل ہونے کی سپریم کورٹ کے رجسٹرارکی تصدیق تھی۔

    احتساب عدالت نے پاناما جے آئی ٹی سربراہ سے استفسار کیا تھا کہ یہ وہ خط نہیں ہے جس کی نقل کل عدالت میں پیش کی گئی تھی جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ اصل خط سربمہرلفافے میں تھا، میراخیال تھا یہ کل والے خط کا اصل ہے۔

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے واجد ضیاء کے پیش کیے گئے خط پراعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے کہا گیا تھا یہ کل والے خط کی اصل ہے اور اب کہا جا رہا ہے یہ کل والے خط کی اصل نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی مریم نواز کی درخواست جزوی طور پرمنظورکرلی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔