Tag: حاجی لق لق

  • ‘غالب انڈ گوئٹے’

    ‘غالب انڈ گوئٹے’

    مجھ سے روایت کیا کامریڈ باری علیگ نے اور انہوں نے سنا اپنے دوست مرزا کاظم سے اور مرزا کاظم نے سنائی آپ بیتی اور اب آپ مجھ سے سنیے ’’مرزا بیتی‘‘ میرے الفاظ میں اور اس کا ثواب پہنچائیے غالب اور گوئٹے کی ارواح کو اور دعا کیجیے میرے حق میں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

    مرزا کاظم جن دنوں برلن میں تھے ان ایام کا ذکر ہے کہ مرزا صاحب کی ملاقات ایک پنجابی سکھ پریتم سنگھ سے ہوئی اور دونوں تین چار روز تک ایک قہوہ خانے میں ایک دوسرے سے ملتے رہے۔ ایک روز سردار جی نے مرزا صاحب سے کہا کہ بھائی صاحب! بات یہ ہے کہ میں اٹلی جانا چاہتا ہوں اور میرے پاس پیسہ کوئی نہیں۔ اٹلی میں میرا مستقبل بہت شاندار ہوسکتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کچھ روپیہ مجھے بطور قرض دے دیں یا کسی دوست سے دلادیں تو میں اٹلی پہنچ کر تھوڑے ہی عرصے میں قرض چکا دوں گا۔

    مرزا کاظم نے ایک لمحہ بھر سوچنے کے بعد کہا، ’’قرض؟‘‘، ’’سردار صاحب یہاں پردیس میں کون ایسا ہندوستانی فارغ البال ہوسکتا ہے جو اپنے اللّے تللّوں کے علاوہ کسی دوست کو قرض دے سکے؟‘‘

    سردار جی، مجھے کوئی زیادہ روپیہ نہیں چاہیے صرف۔۔۔

    مرزا صاحب، (بات کاٹ کر) ’’اجی کم زیادہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بات یہ ہے کہ کسی سے ایسی درخواست کرنا ہی بے معنی چیز ہے۔‘‘

    سردار جی، (مایوسی کے لہجے میں) تو پھر کیا کیا جائے؟

    مرزا صاحب، کیا کیا جائے، بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

    سردار جی، (پر امید نگاہوں سے دیکھتے ہوئے) وہ کیا، وہ کیا؟

    مرزا صاحب، وہ یہ کہ ہندوستانیوں کی بجائے جرمنوں سے روپیہ حاصل کیا جائے، جو بہت آسان کام ہے۔

    سردار جی، وہ کیسے؟

    مرزا صاحب، میں کل بتاؤں گا۔ آپ اسی وقت یہاں تشریف لے آئیے۔ (سردار جی کی آنکھیں ان الفاظ کو سن کر چمک اٹھیں اور آپ مرزا صاحب کا ’’پیشگی‘‘ شکریہ ادا کر کے رخصت ہوئے۔ رات بھر سردار جی کو نیند نہ آئی اور دوسرے دن وقت مقررہ سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی قہوہ خانے میں پہنچ گئے اور بے صبری کے ساتھ مرزا کاظم کا انتظار کرنے لگے۔ آخر مرزا آئے اور قہوہ کی پیالی پیتے ہوئے یوں گویا ہوئے)،

    مرزا صاحب، دیکھئے سردار جی! مرزا غالب ہندوستان کے بہت بڑے شاعر تھے آپ جانتے ہوں گے؟

    سردار جی، وہی نہ جنہیں انڈین شکسپیئر کہتے ہیں؟

    مرزا صاحب، (مسکراتے ہوئے) نہیں نہیں۔ انڈین شکسپیئر تو آغاحشر کاشمیری مرحوم تھے جو مشہور ڈرامانویس تھے۔ غالب ان سے بہت پہلے عہدِ مغلیہ میں گزرے ہیں۔ آپ کا نام اسد اللہ خاں تھا اور وطن دہلی۔ آپ فارسی اور اُردو دونوں زبانوں کے بہت بڑے شاعر تھے۔ لیکن عمر تنگ دستی میں گزری، آپ کو شراب نوشی کا بہت شو ق تھا۔ اس لیے کبھی فارغ البالی نصیب نہ ہوئی۔

    سردار جی، بالکل میرے چچا ہرنام سنگھ کی طرح، ذیلدار تھا۔ دو سو بیگھہ زمین تھی۔ ضلع بھر میں عزت تھی لیکن شراب نے بیڑا غرق کردیا۔ آج اسے کوئی دس روپے ادھار نہیں دیتا۔

    مرزا صاحب، ہاں ہاں، بس غالب کی بھی یہی حالت تھی۔ لیکن تھا بڑا خود دار، مرتا مرگیا لیکن امراء کے سامنے نہ جھکا۔ اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ۔۔۔

    سردار سر تو ہلاتے جاتے تھے لیکن دل میں سوچتے تھے کہ بات تو جرمنوں سے روپیہ حاصل کرنے کی تھی۔ یہ مرزا صاحب غالب کا قصہ کیوں چھیڑ بیٹھے؟ آپ کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ مرزا کاظم نے ان کے دل کی بات کو بھانپ کر ہاتھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ خاموشی سے سنتے جائیے۔

    مرزا صاحب، غالب ایک فلاسفر شاعر تھے اور انہوں نے وہی زمانہ پایا جو جرمنی کے فلاسفر شاعر گوئٹے کو نصیب ہوا۔ گوئٹے بھی۔۔۔

    مرزا صاحب یہاں تک کہہ پائے تھے کہ سردار جی سے صبر نہ ہوسکا اور انہوں نے بات کاٹ کر اپنی بات شروع کر دی۔

    سردار جی، لیکن مرزا صاحب! جہنم میں جائیں غالب اور گوئٹے، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ جرمنوں سے روپیہ حاصل کرنے کی ترکیب بتائیں گے۔

    مرزا صاحب، بالکل درست، اور میں وہی ترکیب تو بتا رہا ہوں۔ آپ ذرا سنتے جائیے۔ آپ ہندوستان کے بہت بڑے مؤرخ، شاعر اور ادیب ہیں۔

    سردار جی، میں اور شاعر؟

    مرزا صاحب، بس آپ چپ رہیے اور میری بات سنیے، آپ اتوار کے دن ’’ہومبرگ ہال‘‘ میں ایک تقریر کریں گے جس میں آپ غالب اور گوئٹے کی شاعری کا موازنہ فرمائیں گے۔

    سردار جی، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ میں تو جرمن زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتا اور نہ غالب اور گوئٹے کی شاعری سے واقف ہوں۔

    مرزا صاحب، آپ اردو زبان میں اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو پنجابی زبان میں تقریر فرمائیے۔ بات صرف یہ ہے کہ بولتے جائیے اور گوئٹے کی شاعری سے آپ واقف نہیں تو ان کا نام تو چنداں مشکل نہیں، ذرا کہیے تو۔

    سردار جی، غالب گوئٹے۔ غالب گوئٹے۔

    مرزا صاحب، بالکل ٹھیک! آپ پاس ہو گئے۔ صرف اتنی بات ہے کہ ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ انگریزی زبان میں جسے ہم اینڈ کہتے ہیں۔ جرمن میں اسے انڈ کہا جاتا ہے۔

    سردار جی، غالب انڈ گوئٹے۔۔۔ غالب انڈ گوئٹے۔

    مرزا صاحب، واہ وا۔ خوب! اب آپ ہندوستان کے بہت بڑے اسکالر ہیں۔ کل برلن کے اخبارات میں اعلان شائع ہوگا کہ ہندوستان کے مشہور اسکالر سردار پر یتم سنگھ اتوار کے دن بوقت شام ہومبرگ ہال میں ’’غالب اور گوئٹے‘‘ کے موضوع پر ایک زبردست تقریر کریں گے۔ داخلہ ٹکٹ کے ذریعہ ہوگا وغیرہ۔

    سردار جی، لیکن میں تقریر میں کہوں گا کیا۔

    مرزا صاحب، جو جی میں آئے کہتے جائیے۔ بس بولتے جائیے اور ہر تین چار جملوں کے بعد ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ کہتے رہیے۔

    اتوار کی شام آپہنچی۔ ہومبرگ ہال جرمن ’’اہل ذوق‘‘ سے کھچا کھچ بھر گیا۔ صدارت کی کرسی پر برلن کے ایک مشہور ماہر ادبیات جلوہ افروز تھے۔ ان کے ایک طرف سردار پریتم سنگھ اور دوسری طرف مرزا کاظم بیٹھے تھے۔ تقریر کا وقت آگیا اور سردار صاحب تقریر کرنے کے لیے اٹھے صاحب صدر نے اٹھ کر حاضرین سے پروفیسر پریتم سنگھ کا تعارف کرایا۔ جس پر ہال خیر مقدم کی تالیوں سے گونج اٹھا۔

    سردار صاحب نے اپنی تقریر شروع کی۔

    ’’صاحبان! مرزا اسد خاں غالب دہلی کے رہنے والے تھے، اردو فارسی دونوں زبان کے شاعر تھے۔ شراب بہت پیتے تھے اس لیے ان کی عمر تنگ دستی میں گزری۔ دہلی ہندوستان کا دارالسلطنت ہے۔ وہاں ایک گھنٹہ گھر بھی ہے۔ چاندنی چوک میں سودا بیچنے والوں کی صدائیں بہت پیاری ہوتی ہیں ہر طرف سے آوازیں آتی ہیں۔ غالب انڈ گوئٹے۔‘‘

    مجمع نے پر زور تالیاں بجا کر آسمان سرپر اٹھا لیا اور جب تالیوں کی گونج ختم ہوئی تو سردار صاحب نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’دہلی سے تین سو میل کے فاصلے پر لاہور ہے۔ میں ضلع لاہور کا رہنے والا ہوں۔ ہمارا علاقہ بڑا زرخیز ہے۔ پچھلے سال بارشیں کم ہوئی تھیں۔ اس لیے فصلیں اچھی نہ ہوئیں، اس سال گورو مہاراج کی کرپا ہے۔ نہر میں بھی پانی خوب رہا اور بارشیں بھی اچھی ہوگئیں، امید ہے کہ گیہوں کی فصل اچھی رہے گی۔ لاہور کی بہت سی چیزیں دیکھنے لائق ہیں۔ مثلاً شاہی مسجد، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سمادھی، چڑیا گھر عجائب گھر غالب انڈ گوئٹے۔‘‘

    پھر تالیوں سے فضا گونج اٹھی اور صاحب صدر کے لبوں پر تبسم رقص کرنے لگا۔ آپ نے میز پر ہاتھ مار مار کر مقرر کی ’’جادو بیانی‘‘ کی داد دی۔ سردار صاحب نے اپنی حوصلہ افزائی ہوتی دیکھی تو ذرا زیادہ بلند آواز سے تقریر کرنے لگے۔ فرمایا،

    ’’غالب انڈ گوئٹے کی بدقسمتی تھی کہ انہوں نے شری دربار صاحب امرتسر کے درشن نہ کیے۔ حتیٰ کہ وہ ضلع گورداسپور بھی نہ جاسکے، ورنہ وہاں کا گڑ کھا کر انھیں نانی سپنے میں یاد آجاتی۔ ضلع امرت سرمیں ایک گائوں چمیاری ہے۔ وہاں کے خربوزے بہت مشہور ہیں، قصور کی میتھی بہت خوشبودار ہوتی ہے اور پھر غالب انڈ گوئٹے کے کیا ہی کہنے گویا انڈیا انڈ جرمنی!‘‘

    اس دفعہ سردار نے استاد کے بتائے ہوئے سبق ’’غالب انڈ گوئٹے‘‘ پر ’’انڈیا انڈ جرمنی‘‘ کا اضافہ کرکے کمال کر دکھایا اور ان الفاظ نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ تالیوں سے ہال گونج اُٹھا۔ سردار صاحب نے تقریر جاری رکھی اور دو تین فقرے کہنے کے بعد فرمایا کہ،

    ’’صاحبان! اب غالب کے اشعار بھی سنیے!‘‘

    اس مقام پر مرزا کاظم نے اُٹھ کر حاضرین سے جرمن زبان میں کہا کہ پروفیسر پریتم سنگھ اب غالب کے چند اشعار سنائیں گے۔ سردار صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں یہ گانا شروع کردیا،

    اساں نِت دے
    نی اساں نِت دے شرابی رہنا نی ہرنام کورے نارے
    اودھ وِچ کندھ کرلئے

    مرزا کاظم کرسی سے اچھل پڑے، جس پر حاضرین نے تالیوں سے فضا میں گونج پیدا کردی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب نے ان اشعار کو بے حد پسند کیا ہے سردار صاحب پھر بولے!

    اسیں مرگئے۔
    نی اسیں مرگئے کمایاں کردے نی ہر نام کورے نارے
    اجے تیرے بند نہ ہے ہائے نی اسیں مرگئے

    اس دفعہ بھی حسب معمول کافی داد ملی۔ لیکن داد کی حد تو اس وقت ہوئی جب سردار صاحب نے غالب کی وہ ’’مثلث‘‘ سنائی جس کی ٹیپ کا مصرعہ یہ تھا،

    ’’موڑیں بابا ڈانگ والیا چھئی‘‘

    ڈیڑھ گھنٹہ گزر گیا اور سردار پریتم سنگھ مورخ، شاعر اور ماہر ادبیات کی تقریرختم ہوئی، اس کے بعد مرزا کاظم اٹھے اور انھوں نے نہایت فصیح جرمن زبان میں بیان کیا کہ پروفیسر نے جس قابلیت کے ساتھ غالب اور گوئٹے کا موازنہ کیا ہے شاید ہی آج تک کسی نے کیا ہو۔ کم از کم برلن میں تو آج تک ایسی تقریر نہ ہوئی ہوگی اور مجھے فخر ہے کہ میرے ملک نے پروفیسر صاحب جیسے آدمی پیدا کیے ہیں۔ میں اس پوری تقریر کا ترجمہ کر کے برلن کے اخبارات میں شائع کراؤں گا اور آپ دیکھیں گے کہ میرے وطن کے مایہ ناز ماہر ادبیات نے علم و فضل کے کیا کیا دریا بہائے ہیں۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے پروفیسر صاحب کے خیالات سننے کی تکلیف گوارا فرمائی۔

    اس کے بعد صاحب صدر اٹھے اور انھوں نے پروفیسر صاحب اور مرزا کا ظم کا شکریہ حاضرین کی طرف سے ادا کی اور جلسے کے اختتام کا اعلان کیا۔ پھر کیا تھا بڑے بڑے ادیب، شاعر، اخبار نویس اور رئیس سردار صاحب سے مصافحہ کرنے کو لپکے اور آپ کو بڑی مشکل سے ہال کے دروازے تک لے جایا گیا۔ اسی رات کو مرزا کاظم پروفیسر پریتم سنگھ کو ٹرین پر سوار کرانے کے لیے اسٹیشن تک لے گئے اور دونوں کی جیبیں نوٹوں سے پُر تھیں۔

    (اردو ادیب اور مشہور طنز و مزاح نگار حاجی لق لق کی ایک دل چسپ تحریر)

  • فلم ایکٹریس کی ڈاک

    فلم ایکٹریس کی ڈاک

    دراصل سب سے زیادہ ڈاک تو اس سرکاری افسر کی ہوتی ہے، جس نے کلرکی کی اسامی کے لیے اشتہار دے رکھا ہو۔ اور اس سے دوسرے درجے پر اس شخص کی ڈاک ہوتی ہے جس نے امساک کی گولیاں بطور نمونہ مفت کا اعلان کر رکھا ہو۔ لیکن دل چسپ ترین ڈاک صرف دو شخصیتوں ہی کی ہوتی ہے۔ ایڈیٹر کی ڈاک اور فلم ایکٹرس کی ڈاک۔

    جس قسم کے خطوط ایکٹرس کو روزانہ موصول ہوتے رہتے ہیں اس کے چند نمونے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔ پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔

    فلمی ایڈیٹر کا ایک خط

    محترمہ، تسلیم!
    ’’فلم کی بات‘‘ تازہ پرچہ ارسال خدمت ہے، سرورق پر اپنی سہ رنگی تصویر ملاحظہ فرمائیے اور یاد رہے کہ اس ہفتہ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی تصویر شائع کرنا ضروری تھا کیونکہ رسالہ کے اندر اس کی وہ تقریر درج ہے جو اس نے فلموں کی حمایت میں کی۔ لیکن میری قربانی دیکھیے کہ میں نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے آپ کی تصویر شائع کی کہ اگر میں غازی موصوف کی تصویر شائع کرتا تو ان کی فلمی تقریر کے علاوہ انٹریو کانفرنس کی مناسبت سے یہ پرچہ سیکڑوں کی تعداد میں فروخت ہوجاتا۔ لیکن میں نے اس کی پروا نہیں کی اور آپ کی تصویر کی مناسبت سے اس تازہ فلم ’’تیر کی نوک‘‘ پر بھی بسیط تبصرہ کر دیا ہے جس میں آپ نے ہیروئن کا پارٹ ادا کیا ہے۔

    آپ اس تبصرے کو غور سے پڑھیے اور دیکھیے کہ پارٹ کے اندر جہاں جہاں آپ نے لغزشیں کی ہیں۔ میں نے ان لغزشوں کو آپ کی بہترین خوبیاں ثابت کیا ہے۔ دوست مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تم نے مس……. کو دنیا بھر کی ایکٹرسوں سے بڑھا دیا ہے۔ لیکن میں ان سے کہتا ہوں کہ محترمہ فی الحقیقت دنیا بھر کی ایکٹرسوں کی سرتاج ہیں اور عنقریب بالی وڈ والے آپ کو بلانے والے ہیں۔

    پچھلی دفعہ جب میں نے آپ کی ایکٹری پر ایک ہنگامہ خیز مضمون لکھا تھا۔ اس وقت سے آپ کے دشمن میرے رسالے کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں اور مجھے بہت نقصان ہو رہا ہے، آپ نے جو دس روپے کا منی آرڈر بھیجا تھا اس سے کاتب کا بل بھی نہ چکایا جا سکا۔ پانچ اور ہوتے تو کم ازکم یہ بلا تو سَر سے ٹل جاتی۔

    بہرحال آپ میرا خیال رکھیں نہ رکھیں، مجھے تو آپ کی ترقی کا ہر وقت خیال رہتا ہے اور خواہ میرے رسالے کی اشاعت کتنی ہی کیوں نہ گھٹ جائے، میں حق گوئی سے باز نہیں رہ سکتا تھا۔

    اور سچ پوچھو تو یہ آپ پر کوئی احسان بھی نہیں کیونکہ آپ کے فنی اوصاف پر مضامین لکھنا فن کی خدمت کرنا ہے۔ اور حاضریٔ حسن کی تعریف پر خامہ خرسائی کرنا مصورِ فطرت کے شاہکار کا اعتراف۔ ساٹھویں سالگرہ مبارک!
    نیاز مند ایڈیٹر

    ایک بیرسٹر کا خط

    مس صاحبہ!
    آداب عرض
    اگر آپ اخبارات میں عدالتی کالموں کا مطالعہ کرتی ہیں تو ضروری بات ہے کہ آپ میرے نام سے واقف ہوں، کیونکہ میں نوجوان ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے شہر کا ایک کامیاب ترین قانون داں ہوں بلکہ ملک کے ہر حصے میں بلایا جاتا ہوں۔

    باعثِ تحریر آنکہ میں نے ایک مقامی رسالہ ’’داستان فلم‘‘ میں آپ کے خلاف ایک مضمون پڑھا ہے، جو تعزیرات فلم کی دفعہ 99 کی زد میں آتا ہے۔ اور ایڈیٹر پر ’’ازالہ کی حیثیت فلمی‘‘ کا دعوی دائر کیا جاسکتا ہے، رسالہ ایک بڑے سرمایہ دار کی ملکیت ہے اور اس سے بہت بڑی رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اگر آپ میری مؤکل بننا چاہیں تو میری قانونی خدمات حاضر ہیں اور پانچ ہزار روپے کی ڈگری مع حرجہ خرچہ کے دلانے کا یقین دلاتا ہوں۔

    باقی رہا میرے محنتانہ کا سوال، اس کے متعلق عرض ہے کہ مجھے اپنے نیاز مندوں ہی میں شمار کیجیے اور اس وہم میں نہ پڑجائیے کہ میں نقد معاوضہ کے لالچ میں آکر یہ تجویز پیش کر رہا ہوں۔ خدا نے مجھے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ البتہ میرا مطلب یہ ہے کہ زرِ نقد کی بجائے محنتانہ کی اور صورتیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اور اصولاً مجھے اور آپ کو کسی نہ کسی صورت پر متفق ہوجانا چاہیے۔ تشریح کی ضرورت نہیں، آپ ماشاء اللہ عقل مند ہیں۔ البتہ اس سلسلے میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ قانون کی رُو سے کوئی مؤکل اپنے وکیل سے محنتانہ ادھار نہیں کرسکتا۔

    یعنی محنتانہ نقد ہو یا بصورتِ ’’جنس‘‘ ہر حالت میں پیشگی لینا لازمی ہے۔ ورنہ وکیل پر حکومت مقدمہ چلا دیتی ہے۔ میں کنگال بنک کے مشہور مقدمۂ غبن کے سلسلے میں کلکتہ آرہا ہوں۔ ارشاد ہو تو قدم بوسی کا فخر حاصل کروں۔
    بندہ
    بیرسٹر ایٹ لا، عمر 25 سال

    شاعر کا خط

    جانِ جہاں!
    خدا جانے وہ کیسا زمانہ تھا، جب کہ شعراء کی قدر تھی، قدر دان اُمراء کسی شاعر کے ایک شعر پر خوش ہوکر اسے زر و جواہر سے مالا مال کر دیتے تھے۔ اب تو زبانی داد بھی بمشکل ملتی ہے۔ بقول حضرت اکبرؔ مرحوم؛

    بوسہ کیا ان سے گلوری بھی نہیں پاتا ہوں
    میں روز انہیں جاکے سنا آتا ہوں
    وہ یہ کہتے ہیں، کہ واہ خوب کہا ہے واللہ
    میں یہ کہتا ہوں کہ آداب بجا لاتا ہوں

    میں نے آپ کی شان میں نصف درجے قصیدے لکھ کر فلمی رسالوں میں شائع کرائے ہیں اور ان کی کاپیاں بھی آپ کی خدمت میں بھجواتا رہا۔ لیکن آپ سے اتنا نہیں ہوسکا کہ شکریے کی چٹھی ہی ارسال کر دیتیں۔ میں نے پچھلے دنوں لکھا تھا کہ اپنے دستخطوں سے اپنی ایک تصویر مرحمت فرمائیے۔ لیکن جواب نہ ملا۔ کیا قدر دانیِ فن اسی کا نام ہے؟
    سنا ہے آپ کی سال گرہ قریب آرہی ہے۔ ارادہ ہے کہ ایک قصیدہ لکھ کر خود حاضر ہوں گا۔
    والسلام
    خادم

    (اردو کے معروف مزاح نگار، کالم نویس اور صحافی حاجی لق لق کی شگفتہ بیانی)

  • حاجی لق لق کی ‘آمدنی اور خرچ’ پڑھیے

    حاجی لق لق کی ‘آمدنی اور خرچ’ پڑھیے

    اصل نام تو ان کا عطا محمد تھا، لیکن دنیائے ادب میں حاجی لق لق کے نام سے مشہور ہیں۔ لق لق ان کا تخلّص ہے۔

    حاجی لق لق 1898 میں پیدا ہوئے اور 1961 میں لاہور میں وفات پائی۔ طنز و مزاح میں نام ور ہوئے۔ سماجی اور سیاسی موضوعات کو شاعری میں‌ سمویا اور مسائل و مشکلات کی نشان دہی کرتے ہوئے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    حاجی لق لق نے اس نظم ‘آمدنی اور خرچ’ میں منہگائی اور حالات کے مارے عوام کی مالی مشکلات اور ضروریات کے بوجھ کا جو نقشہ کھینچا تھا، وہ آج بھی اسی شدّت سے بالخصوص غریب و متوسط طبقے کے مصائب و آلام اور ان کی ابتر حالت کا عکّاس ہے۔

    نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ آمدنی اور خرچ’
    کرایہ مکاں کا ادا کرنے جاؤں
    کہ بزاز و خیّاط کا بِل چکاؤں
    دوا لاؤں یا ڈاکٹر کو بلاؤں
    کہ میں ٹیکس والوں سے پیچھا چھڑاؤں
    خدارا بتاؤ کہاں بھاگ جاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    بہت بڑھ گیا ہے مکاں کا کرایہ
    ادھر نل کے آبِ رواں کا کرایہ
    بقایا ہے ‘برقِ تپاں’ کا کرایہ
    زمیں پر ہے اب آسماں کا کرایہ
    ہے بچوں کی فیس اور چندہ ضروری
    کتب کاپیوں کا پلندہ ضروری
    شکم پروری کا ہے دھندہ ضروری
    یہ آدم کی ایجادِ بندہ ضروری
    بلا کے مصارف ہیں کیا تاب لاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    عزیزوں کی امداد مہماں نوازی
    غریبوں کو خیرات احساں طرازی
    خوراک اور پوشاک میں دنیا سازی
    ادھر فلم کا شوق اور ادھر عشق بازی
    ضروری یہاں سگریٹ اور پان بھی ہے
    عدالت میں جانے کا امکان بھی ہے
    ہے بھنگی بھی دھوبی بھی دربان بھی ہے
    اور اک ساڑی والے کی دکان بھی ہے
    کہاں جاؤں کس کس سے پیچھا چھڑاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    ہیں میلے بھی اسلامی تہوار بھی ہیں
    ہم ایسے مواقع پہ خوددار بھی ہیں
    بہت خرچ کرنے کو تیار بھی ہیں
    بلا سے جو بے برگ و بے بار بھی ہیں
    کسے داستانِ مصارف سناؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں