Tag: حافظ شیرازی

  • اسرارِ خودی: اقبال کی وہ مثنوی جس کے درجن بھر اشعار پر تنازع کھڑا ہوگیا

    اسرارِ خودی: اقبال کی وہ مثنوی جس کے درجن بھر اشعار پر تنازع کھڑا ہوگیا

    شعرائے متقدمین اور نثر نگاروں کے درمیان ادبی معرکہ آرائی، معاصرانہ چشمک کے علاوہ بعض ایسے تنازع بھی کتابوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں‌ جن میں اپنے عہد کی نام ور شخصیات اور مشاہیر کا نام سامنے آتا ہے۔ یہ جھگڑے کہیں خالص ادبی نوعیت کے تھے تو کبھی ان کی وجہ محض عداوت اور حسد رہا۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کو بھی اپنی مثنوی میں قدیم صوفی شعرا پر تنقید کے بعد اپنی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    ادبی تحریریں‌ اور علمی و تحقیقی مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں

    فارسی کی مثنوی اسرارِ خودی کی اشاعت 1915ء میں ہوئی جو اقبال کے فلسفیانہ خیالات پر مبنی تھی۔ اسرارِ خودی کو چند سطروں میں سمیٹا جائے تو یہ ایسی مثنوی تھی جس میں اقبال نے اس دنیا کا تصور پیش کیا ہے جس میں مسلمان اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بنیاد پر متحد ہوں۔ اقبال کی فکر کہتی ہے کہ اس کی تکمیل کے لیے ‘خودی’ پر انحصار کرنا ہوگا اور عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ لیکن صوفی شاعروں کے ترکِ دنیا کا فلسفہ بے عملی کی ترغیب دیتا ہے جو مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ ہے۔ اقبال نے صوفیا پر تنقید کرتے ہوئے زور دیا کہ مسلمانوں کو گوشہ نشینی کی نہیں عملی میدان میں‌ اترنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ اقبال نے فارسی کے معروف شاعر حافظ شیرازی پر بھی تنقید کی اور ساتھ ہی فلسفۂ وحدت الوجود پر بھی سوال اٹھایا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ بعض ایرانی شعرا نے وحدت الوجود سے متعلق جو نکتہ طرازیاں کی ہیں، وہ صرف پُرکشش ہیں، مگر اس شاعری نے تقریباً تمام اسلامی دنیا کو ذوقِ عمل سے محروم کردیا ہے جسے خودی کا فلسفہ بیدار کرسکتا ہے۔

    ادبی تذکروں میں یہ تفصیل کچھ اس طرح پڑھنے کو ملتی ہے:

    علّامہ اقبال کی فارسی مثنوی 1915ء میں شائع ہوئی۔ اس میں افلاطونؔ اور حافظ شیرازیؔ پر علّامہ نے تنقید کی تھی۔ انہوں نے حافظؔ پر 35 اشعار میں تنقید کرتے ہوئے مسلمانوں کو حافظ کے کلام سے دور رہنے کی تلقین کی تھی جس پر ادبی حلقوں میں بحث چھڑ گئی۔ اخباروں میں ان کے خلاف مضامین لکھے گئے۔ اہلِ تصوف علاّمہ سے بدظن ہوگئے۔ بعض حضرات نے ان کی مثنوی کا منظوم جواب دیا۔ جہلم کے میاں ملک محمد قادری نے اپنے منظوم جواب میں حافظ شیرازی کا دفاع کیا، اسی طرح پیر زادہ مظفر احمد فضلی نے ’اسرارِ خودی‘ کے جواب میں ’’رازِ بے خودی‘‘ کے عنوان سے مثنوی لکھی جس میں علاّمہ اقبال پر تنقید اور حافظ کا دفاع کیا گیا تھا۔

    فارسی کے عظیم شاعر حافظ پر تنقید سے حسن نظامی اور اکبر الٰہ آبادی بھی ناراض ہوئے۔ مؤخرالذّکر نے مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام اپنے خطوط میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ’اسرار خودی‘ کے شائع ہونے کے دو سال بعد انہوں نے مولانا دریا بادی کو ایک خط تحریر کیا:’’اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے۔ کہتے ہیں عجمی فلاسفی نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے اور یہ بات غلط ہے، خلافِ اسلام ہے۔‘‘

    جب ’رموز بے خودی‘ شائع ہوئی تو اقبالؔ نے اس کا نسخہ اکبر الہ آبادیؔ کو بھی روانہ کیا جنھوں نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ انہوں نے مولانا دریا بادی کو لکھا: ’اقبال نے جب سے حافظ شیرازی کو علانیہ بُرا کہا ہے میری نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ ان کی مثنوی اسرارِ خودی آپ نے دیکھی ہوگی۔ اب رموزِ بے خودی شائع ہوئی ہے۔ میں نے نہیں دیکھی۔ دل نہیں چاہا۔‘ تاہم بعد میں اکبر الہ آبادی ہی نے علامہ اقبال اور حسن نظامی میں صلح کروا دی۔

    حافظ پر تنقید سے اہلِ تصوف بھی علّامہ سے ناراض ہوئے۔ انہوں نے اس تنقید کو تصوّف دشمنی پر محمول کیا۔ چنانچہ 15 جنوری 1916ء کو علامہ اقبال نے ’’وکیل‘‘ میں ’اسرارِ خودی اور تصوّف‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس سے یہ سطور ملاحظہ ہوں:

    ’’شاعرانہ اعتبار سے میں حافظؔ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں لیکن ملّی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراضِ زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے۔ اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو پست یا کمزور کرنے کا میلان رکھتے ہوں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔ جو حالت خواجہ حافظ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ حالت افرادِ قوم کے لیے جو اس زمان و مکان کی دنیا میں رہتے ہیں نہایت ہی خطر ناک ہے۔‘‘

    انہوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کو بھی اس کے دو ماہ بعد ایک خط میں یہی بات دہرائی اور فن کے متعلق اپنا نظریہ واضح کیا۔ لکھتے ہیں: ’’خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ویسا شاعر ایشیا میں آج تک پیدا نہ ہوا اور غالباً پیدا بھی نہ ہوگا لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والے کے دل پر پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور اور ناتواں کرنے والی ہے۔‘‘

    ادھر علاّمہ اقبال کی حمایت میں مولانا اسلم جیراجپوری نے بھی ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ خواجہ حافظ ؔ کے بارے میں اس طرح کی آرا پہلے بھی ظاہر کی جاچکی ہیں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے منادی کرا دی تھی کہ دیوانِ حافظ کوئی نہ پڑھے کیوں کہ لوگ اس کے ظاہری معنیٰ سمجھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔

  • جب ہندوستانی شعرا نے فارسی ترک کر کے ریختہ میں‌ شعر گوئی کو تحریک دی!

    جب ہندوستانی شعرا نے فارسی ترک کر کے ریختہ میں‌ شعر گوئی کو تحریک دی!

    فارسی اگرچہ ایران (فارس) کی زبان تھی، تاہم فتحِ دلّی کے بعد سے ہی بادشاہوں، علما، صوفیا اور شعرا نے اس زبان کو اپنا لیا اور اسے خوب فروغ دیا۔

    غیر ملکی زبان فارسی کو ہندوستانی نسل کے فارسی شعرا نے جس قدر عزّت بخشی تھی تو انہیں بھی اس بات کا حق حاصل تھا کہ ایرانی النّسل فارسی علما و شعرا اُن کی اس علمی اور شعری رواداری کا خیر مقدم کریں لیکن ایرانی النسل علما و شعرا تو ابتدا ہی سے یعنی عہدِ سلاطین ہی سے ہندوستانی النّسل فارسی علما و شعرا کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے چلے آ رہے تھے اور جن کے وار سے امیر خسرو بھی بچ نہیں سکے تھے۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں مثلاً عبید زاکانی کا امیر خسرو پر پھبتی کسنا، عراقی کا فیضی کے متعلق اہانت آمیز بات کہنا، شیخ علی حزیں کی دریدہ دہنی وغیرہ۔

    یہاں یہ بھی عرض کر دینا چاہتی ہوں کہ بعض معروف ایرانی النّسل شعرا مثلاً عبدالرّحمٰن جامی، حافظ شیرازی اور جمال الدّین عرفی نے امیر خسرو کی زبان دانی کی تعریف کی ہے اور حافظ شیرازی نے تو انہیں ’’طوطیٔ ہند‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا ہے، تاہم ہندوستانی النّسل فارسی علما و شعرا کے تعلق سے ایرانی النسل علما و شعرا کا عام رویّہ وہی تھا جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایرانی شعرا کے نزدیک ہندوستانی نژاد فارسی شعرا ثقہ کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔

    میرے خیال میں اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ اوّل یہ کہ ایرانیوں کا ملکی و قومی عصبیت رکھنا، جس کی واضح صورت پورے اسلامی تاریخ میں نمایا ں ہے۔ دوم وہ حریفانہ چشمک جو عام طور پر علما و شعرا میں پایا جاتا ہے۔ اس حریفانہ چشمک کے طویل سلسلے کی روک تھام اور نفسیاتی گرہ کشائی کے لیے دلبرداشتہ ہو کر دہلی کے بزرگ سعد اللہ گلشن نے پہل کی تھی اور انہوں نے ولی دکنی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ فارسی کو ترک کر کے ریختہ (اردو) میں اشعار کہیں۔ اُس کے بعد سراج الدّین علی خان آرزو نے اس پر بھرپور عمل کیا اور ریختہ میں شاعری کرنے کو تحریک کی صورت عطا کی۔

    جب شیخ علی حزیں 35-1734 میں ایران سے ہندوستان آئے تو انہوں نے اپنی ایک خود نوشت ’’تذکرۃُ الا حوال‘‘ لکھی جس میں اپنی عصبیت اور نفرت کا بَرملا اظہار کیا۔ اس میں ہندوستانی فارسی شعرا کے خلاف نہ صرف سخت نکتہ چینی کی بلکہ اہانت آمیز ہجویں بھی لکھیں۔ ’’محاکماتُ الشّعرا‘‘ میں محسن نے لکھا ہے کہ ’’کسی ہندوستانی کی طرف سے حزیں کا دل نہ دکھائے جانے کے باوجود انہوں نے ’تذکرۃُ الاحوال‘ میں بادشاہ سے لے کر گدائے بے نوا تک کے خلاف زہر اگلا اور اس خیال کی اشاعت کی کہ ہندوستان فضل و کمال کے لیے زمینِ شور کا حکم رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ انہیں تمام دارُالخلافت میں ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جو رتبۂ فضیلت رکھتا ہو۔‘‘ (بحوالہ اردو ادب کی تاریخ از تبسم کاشمیری)

    سراج الدّین علی خان آرزو جو اپنے وقت کے بڑے عالم، استاد اور بڑے شاعر تھے، انہوں نے’’ تذکرۃُ الاحوال ‘‘کا حرفاً حرفاً عالمانہ جواب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ لکھ کر دیا اور حزیں کی خود سری اور غرور کو توڑنے کے لیے اُس میں پوشیدہ خامیوں اور غلطیوں کی طرف واضح اشارے کیے۔ آرزو کی اس کوشش نے انہیں ہندوستانی شعرا کے درمیان ہیرو بنا دیا۔ اس تاریخی معرکہ آرائی کے بعد ہندوستانی شعرا کو یہ احساس ہو گیا کہ فارسی میں خواہ وہ کتنی بھی دست گاہی حاصل کر لیں، ایرانی النّسل فارسی شعرا انہیں زبان داں تسلیم نہیں کریں گے۔ لہٰذا آرزو نے جو انہیں فارسی کی جگہ ریختہ (اردو) میں شاعری کرنے کی رغبت دلائی تھی، اُس نے اس دور کے نوجوان شعرا کو اِس طرف مائل کر لیا اور یہی دلّی دبستانِ شاعری کا نقطۂ آغاز تھا۔

    اُس دور کے نوجوان شعرا جن میں بیش تَر آرزو کے شاگرد تھے، انہوں نے ریختہ میں شاعری کرنا شروع کر دی۔ اُن کے اتباع میں دیگر استاد شاعروں کے شاگردان نے بھی ریختہ کو اپنا لیا۔ اِس طرح ریختہ کی تحریک وجود میں آئی۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عطیہ رئیس کے علمی و تحقیقی مضمون سے انتخاب، یہ تحریر تصوف، اردو شاعری اور اُس کا پیش و پس کے عنوان سے شایع ہوئی تھی)

  • جب اخبارات و رسائل میں علّامہ اقبال کے خلاف تحریریں شایع ہوئیں!

    جب اخبارات و رسائل میں علّامہ اقبال کے خلاف تحریریں شایع ہوئیں!

    علّامہ اقبال کی فارسی مثنوی 1915ء میں شائع ہوئی۔ اس میں افلاطونؔ اور حافظ شیرازیؔ پر علّامہ نے تنقید کی تھی۔

    انہوں نے حافظؔ پر 35 اشعار میں تنقید کرتے ہوئے مسلمانوں کو حافظ کے کلام سے دور رہنے کی تلقین کی تھی جس پر ادبی حلقوں میں بحث چھڑ گئی۔ اخباروں میں ان کے خلاف مضامین لکھے گئے۔ اہلِ تصوف علاّمہ سے بدظن ہوگئے۔ بعض حضرات نے ان کی مثنوی کا منظوم جواب دیا۔ جہلم کے میاں ملک محمد قادری نے اپنے منظوم جواب میں حافظ شیرازی کا دفاع کیا، اسی طرح پیر زادہ مظفر احمد فضلی نے ’اسرارِ خودی‘ کے جواب میں ’’رازِ بے خودی‘‘ کے عنوان سے مثنوی لکھی جس میں علاّمہ اقبال پر تنقید اور حافظ کا دفاع کیا گیا تھا۔

    فارسی کے عظیم شاعر حافظ پر تنقید سے حسن نظامی اور اکبر الٰہ آبادی بھی ناراض ہوئے۔ مؤخرالذّکر نے مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام اپنے خطوط میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ ’اسرار خودی ‘کے شائع ہونے کے دو سال بعد انہوں نے مولانا دریا بادی کو ایک خط تحریر کیا: ’’اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑا شوق ہے۔ کہتے ہیں عجمی فلاسفی نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے اور یہ بات غلط ہے، خلافِ اسلام ہے۔‘‘

    جب ’رموز بے خودی‘ شائع ہوئی تو اقبالؔ نے اس کا نسخہ اکبر الہ آبادیؔ کو بھی روانہ کیا جنھوں نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ انہوں نے مولانا دریا بادی کو لکھا: ’اقبال نے جب سے حافظ شیرازی کو علانیہ بُرا کہا ہے میری نظر میں کٹھک رہے ہیں۔ ان کی مثنوی اسرارِ خودی آپ نے دیکھی ہوگی۔ اب رموزِ بے خودی شائع ہوئی ہے۔ میں نے نہیں دیکھی۔ دل نہیں چاہا۔‘ تاہم بعد میں اکبر الہ آبادی ہی نے علامہ اقبال اور حسن نظامی میں صلح کروا دی۔

    حافظ پر تنقید سے اہلِ تصوف بھی علّامہ سے ناراض ہوئے۔ انہوں نے اس تنقید کو تصوّف دشمنی پر محمول کیا۔ چنانچہ 15 جنوری 1916ء کو علامہ اقبال نے ’’وکیل‘‘ میں ’اسرارِ خودی اور تصوّف‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس سے یہ سطور ملاحظہ ہوں:

    ’’شاعرانہ اعتبار سے میں حافظؔ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں لیکن ملّی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراضِ زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے۔ اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو پست یا کمزور کرنے کا میلان رکھتے ہوں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔ جو حالت خواجہ حافظ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ حالت افرادِ قوم کے لیے جو اس زمان و مکان کی دنیا میں رہتے ہیں نہایت ہی خطر ناک ہے۔‘‘

    انہوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کو بھی اس کے دو ماہ بعد ایک خط میں یہی بات دہرائی اور فن کے متعلق اپنا نظریہ واضح کیا۔ لکھتے ہیں: ’’خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ویسا شاعر ایشیا میں آج تک پیدا نہ ہوا اور غالباً پیدا بھی نہ ہوگا لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والے کے دل پر پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور اور ناتواں کرنے والی ہے۔‘‘

    ادھر علاّمہ اقبال کی حمایت میں مولانا اسلم جیراجپوری نے بھی ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ خواجہ حافظ ؔ کے بارے میں اس طرح کی آرا پہلے بھی ظاہر کی جاچکی ہیں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ اور نگ زیب عالمگیر نے منادی کرا دی تھی کہ دیوانِ حافظ کوئی نہ پڑھے کیوں کہ لوگ اس کے ظاہری معنیٰ سمجھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔

    (تذکرۂ شخصیات و ادب سے اقتباس)