Tag: حاملہ خواتین

  • کیا حاملہ خواتین کے لیے ایکسرسائز کرنا ٹھیک ہے؟

    کیا حاملہ خواتین کے لیے ایکسرسائز کرنا ٹھیک ہے؟

    اداکارہ مریم نفیس نے بتایا ہے کہ حاملہ خواتین کے لیے یوگا کرنا ٹھیک ہے یا نہیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام ’گڈ مارننگ پاکستان‘ میں اداکارہ مریم نفیس نے شرکت کی اس دوران میزبان ندا یاسر نے سوال کیا کہ بہت ساری حاملہ خواتین کو ایکسرسائز کرتے دیکھا ہے یہ نئی تکنیک سمجھ نہیں آئی تم نے ایسا کچھ سنا ہے۔

    مریم نفیس نے بتایا کہ میری دوست فٹنس ٹرینر ہے اس نے مجھ سے کہا ہے کہ جو تم پہلے ایکسرسائز کرتی تھیں انہیں جاری رکھ سکتی ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ دوست نے بتایا ہے کہ تم ہیوی ویٹ لفٹنگ نہیں کرسکتی لیکن ہلکی پھلکی ایکسرسائز کرسکتی ہو۔

    اداکارہ نے بتایا کہ مجھے اس دوران صبح کی بیماری (مارننگ سکنس) ہوتی ہے وہ نہیں ہوئی، میں خوش قسمت ہوں کیونکہ اس میں بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

    مریم نفیس کا کہنا تھا کہ کچھ خواتین کے لیے یہ معاملہ پیچیدہ ہوتا ہے اب میں نے یوگا کرنا شروع کیا ہے، سفر بھی کرتی ہوں کوئی بھی کام اس وجہ سے نہیں چھوڑا، پروڈکشن کا کام بھی کرتی ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایپس موجود ہوتی ہیں جس سے پتا چل جاتا ہے کہ کیا کھانا ہے اکثر کوئی مجھ سے ہفتے کا پوچھتا ہے تو میں ایپ پر ہی چیک کرتی ہوں۔

    اداکارہ مریم نفیس نے چند روز قبل بے بی مون کی تصاویر بھی شیئر کی تھیں۔

    واضح رہے کہ اداکارہ مریم نفیس نے فلم ساز امان احمد سے اکتوبر 2022 میں شادی کی تھی، ان کے یہاں پہلے بچے کی آمد جَلد متوقع ہے۔

  • حاملہ خواتین بلڈ پریشر سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں؟

    حاملہ خواتین بلڈ پریشر سے کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں؟

    حمل کا دورانیہ خواتین کے لیے ایک تکلیف دہ اور پیچیدہ عمل ہوتا ہے، اکثر خواتین کو حمل کے ایام میں بلڈ پریشر میں اضافے کی شکایات درپیش ہوتی ہیں۔

    اس حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ دوران حمل خواتین کی بڑی تعداد بلڈ پریشر اور بےبی شوگر کا سامنا کرتی ہے۔

    اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے محققین نے بتایا کہ عام طور پر سن اسکرین، میک اپ اور ذاتی نگہداشت کی دیگر مصنوعات میں پائے جانے والے کیمیکلز حمل کو متاثر کرکے بلڈ پریشر میں اضافے کا سب بن سکتے ہیں۔

    ان مصنوعات میں موجود فینولز اور پیرابینز حمل کے 24 سے 28 ہفتوں میں حاملہ خواتین میں بلڈ پریشر کے خطرے کو 57 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں۔

    اس تحقیق کی اہم محقق جولیا ورشاوسکی جو کہ بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں ہیلتھ سائنسز کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں کا کہنا ہے کہ ہمیں روزمرہ کے صابن، لوشن، میک اپ، سن اسکرین اور دیگر ذاتی نگہداشت کی مصنوعات میں ایسے کیمیکل ملے جو پورٹو ریکو میں حاملہ خواتین میں ہائی بلڈ پریشر کے خطرہ کو بڑھاتے ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ فینول اور پیرا بینز کو سن اسکرینز میں یووی فلٹر کے طور پر جبکہ میک اپ میں نقصان دہ بیکٹیریا کی افزائش کو روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ حمل میں ہائی بلڈ پریشر، فینول اور پیرابینز کے درمیان تعلق پریشان کن ہے۔

    اس کی وجہ یہ کہ حمل کے دوران ہائی بلڈ پریشر نال میں خون کے بہاؤ کو کم کر دیتا ہے، اس طرح جنین آکسیجن اور غذائی اجزاء سے محروم ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں نشوونما متاثر ہوسکتی ہے۔

    اسی طرح ہائی بلڈپریشر صرف جنین کو ہی نہیں بلکہ حاملہ ماؤں کے لیے بھی خطرناک ہے، جس سے ان کی پیچیدگیوں جیسے پری لیمپسیا اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ ماں اور بچہ دونوں میں یہ امکان بھی بڑھ جاتا ہے کہ وہ حمل کے طویل عرصے بعد ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دل کی بیماری میں مبتلا ہوں سکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں محققین نے شمالی پورٹو ریکو میں 1000 سے زیادہ حاملہ خواتین کی صحت کی جانچ پڑتال کی، جس میں تمام حاملہ خواتین کے پیشاب کے نمونوں کا ٹیسٹ کرایا گیا تو سب ہی میں فینول اور پیرابینز پائے گئے۔

    واضح رہے کہ تحقیق میں شامل تمام خواتین کا بلڈ پریشر ابتدا اور بعد میں حمل کے دوران ٹیسٹ کیا گیا تھا۔

     

  • عالمی یوم خواتین: غزہ میں 60 ہزار حاملہ خواتین غذائی قلت کا شکار

    عالمی یوم خواتین: غزہ میں 60 ہزار حاملہ خواتین غذائی قلت کا شکار

    8 مارچ خواتین کے عالمی کے موقع پر غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان اشرف القدرہ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ غزہ کے مشکل ترین حالات میں اب بھی تقریباً 5000 خواتین ہر ماہ بچوں کوجنم دے رہی ہیں۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی بمباری سے تباہ حال غزہ میں 60 ہزار حاملہ خواتین کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    غزہ میں حاملہ خواتین اور نئی ماؤں کو خوراک، پانی اور طبی امداد کی زبردست قلت کے درمیان خود کو اور اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے مسلسل جدوجہد کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    اقوام متحدہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع کے دوران قابض اسرائیلی فوج نے غزہ میں تقریباً 9000 سے زائد خواتین کو قتل کیا ہے۔

    اقوام متحدہ کی ایجنسی، جو صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے پرعزم ہے، کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ غزہ میں روزانہ قتل عام کا سلسلہ جاری ہے، اوسطاً 63 خواتین روزانہ کی بنیاد پر لقمہ اجل بن رہی ہیں۔ جس سے ان کے خاندان تباہ ہو گئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ غزہ کی 2.3 ملین آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے، خواتین سخت جدوجہد کا سامنا کررہی ہیں جیسے کہ ملبے کے نیچے یا کوڑے دان سے کھانا تلاش کرکے گزر بسر کررہی ہیں۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں 60,000 کے قریب خواتین حاملہ ہیں اور ہر روز تقریباً 180 خواتین ناقابل تصور حالات میں بچے پیدا کررہی ہیں۔

    غزہ میں صحت کے نظام کی اگر بات کی جائے تو دو تہائی ہسپتال اور تقریباً 80 فیصد صحت کی سہولیات ناپید ہوچکی ہیں حاملہ خواتین ملبے کے درمیان یا خیموں یا کاروں میں بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔

    اسرائیل نے قبریں کھود کر 47 میتیں غزہ واپس بھیج دیں

    اقوام متحدہ کے مطابق، پانچ میں سے چار خواتین، یا 84 فیصد، رپورٹ کرتی ہیں کہ ان کے گھر والے نصف یا اس سے کم کھانا کھاتے ہیں جو وہ تنازعہ شروع ہونے سے پہلے کھاتے تھے۔ ماؤں اور بالغ خواتین کو کھانا جمع کرنے کا کام دیا گیا ہے۔ خواتین اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے خود ایک وقت کا کھانا نہیں کھاتیں۔

  • کووڈ 19 حاملہ خواتین کو سنگین نقصانات پہنچانے کا سبب

    کووڈ 19 حاملہ خواتین کو سنگین نقصانات پہنچانے کا سبب

    گزشتہ 2 برسوں میں مختلف تحقیقات سے علم ہوا ہے کہ کووڈ 19 ہر عمر کے افراد کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے، اب حال ہی میں حاملہ خواتین پر کی جانے والی تحقیق میں اس کے تشویش ناک نتائج سامنے آئے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق پیدائش کے نتائج پر کرونا کے اثرات کے بارے میں پہلی بڑی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثرہ حاملہ خواتین کو زچگی اور نوزائیدہ بچوں میں سنگین پیچیدگیوں کے زیادہ خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق میں کرونا وائرس سے لاحق خطرات کا تعین کرنے کے لیے دنیا بھر کے 18 کم، متوسط اور زیادہ آمدنی والے ممالک کے 43 میٹرنٹی اسپتالوں سے 21 سو حاملہ خواتین کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔

    وائرس سے متاثرہ ہر خاتون کا موازنہ ایک ہی ہسپتال میں ایک ہی وقت میں جنم دینے والی 2 غیر متاثرہ حاملہ خواتین سے کیا گیا۔

    یو سی برکلے کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ایک معاون محقق، رابرٹ گنیئر اور برکلے پبلک ہیلتھ کے ڈیٹا تجزیہ کار اسٹیفن راؤچ نے اس منصوبے کے شماریاتی تجزیے کی قیادت کی۔

    گونیئر نے کہا کہ حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں پر کرونا وائرس کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے، تاکہ طبی ماہرین کو خطرات سے آگاہ کیا جا سکے اور حاملہ خواتین میں ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ کو کم کیا جا سکے۔

    تحقیق سے علم ہوا کہ علامتی کرونا انفیکشن زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی پیچیدگیوں اور بیماری میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ منسلک تھا، یہ تجویز کرتا ہے کہ معالجین کو حاملہ خواتین کے ساتھ کرونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات پر عمل درآمد کرنا چاہیئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ حمل کے دوران کرونا سے متاثر ہونے والی خواتین میں قبل از وقت پیدائش، پری ایکلیمپسیا، انفیکشن، انتہائی نگہداشت میں داخل ہونے اور یہاں تک کہ موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    جبکہ زچگی کے دوران اموات کی تعداد مجموعی طور پر کم رہی، حمل کے دوران اور بعد از پیدائش مرنے کا خطرہ غیر متاثرہ حاملہ لوگوں کے مقابلے کرونا سے متاثرہ خواتین میں 22 گنا زیادہ تھا۔

    متاثرہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے، جیسے کہ ایسے حالات جن میں نوزائیدہ کو انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں داخلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    تاہم، کرونا سے متاثرہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے صرف 12.9 فیصد شیر خوار بچے پیدائش کے بعد کرونا پازیٹیو پائے گئے، تاہم دودھ پلانے سے نوزائیدہ میں وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھتا دکھائی نہیں دیا۔

    گونیئر کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے، ہم نے دیکھا کہ کرونا پازیٹو خواتین جن میں وائرس کی علامات واضح نہیں تھیں، ان کے نتائج زیادہ تر ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو کرونا نیگیٹو تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج میں صحت عامہ کے اقدامات کی تیاری کے دوران حاملہ خواتین کی صحت کو ترجیح دینے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی میں تولیدی ادویات کے پروفیسر اسٹیفن کینیڈی کا کہنا تھا کہ اب ہم جان چکے ہیں کہ ماؤں اور بچوں کے لیے خطرات اس سے کہیں زیادہ ہیں جو ہم نے وبائی امراض کے آغاز میں سوچے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ انفیکشن سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت اب واضح ہے، اس سے حاملہ خواتین کو ویکسی نیشن کی پیشکش کے معاملے کو بھی تقویت ملتی ہے۔

  • کورونا ویکسینیشن : این سی او سی کی حاملہ  خواتین کیلئے اہم ہدایات جاری

    کورونا ویکسینیشن : این سی او سی کی حاملہ خواتین کیلئے اہم ہدایات جاری

    اسلام آباد : نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو بھی ویکسین لگانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کورونا ویکسین اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت پر اثر نہیں کرتی۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کو بھی ویکسین لگانے کی ہدایت کردی اور کہا حاملہ،دودھ پلانےوالی خواتین کیلئے ویکسین محفوظ اورمؤثرہے۔

    ان سی او سی کا کہنا تھا کہ کورونا ویکسین حمل کے کسی بھی مرحلےمیں لگائی جاسکتی ہے، کورونا ویکسین اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت پراثرنہیں کرتی۔

    خیال رہے پاکستان میں کورونا صورتحال میں بہتری آنے لگی ہے، ملک میں مثبت کیسز کی شرح 4 فیصد ہوگئی ہے ، این سی او سی کے مطابق ملک میں ایک دن میں 81 مریض جاں بحق ہوگئے جبکہ 1800 سے زائد کیسز سامنے آئے۔

  • حاملہ خواتین کرونا ویکسین کب لگوا سکتی ہیں؟

    حاملہ خواتین کرونا ویکسین کب لگوا سکتی ہیں؟

    کراچی: پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین کو حمل کے 3 ماہ گزرنے کے بعد کرونا وائرس ویکسین لگوائی جاسکتی ہے۔ کرونا ویکسین کا ماں اور بچے پر کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں ہوتا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حاملہ خواتین کو حمل کے 3 ماہ گزرنے کے بعد کرونا وائرس ویکسین لگوائی جاسکتی ہے۔

    ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ حمل کے پہلے 3 ماہ میں کسی قسم کی میڈیکیشن حتیٰ کہ طاقت کی دوائیں اور وٹامن بھی نہیں دیے جاتے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا ویکسین کا ماں اور بچے پر کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں ہوتا، پہلے 3 ماہ میں چونکہ ویکسین نہیں لگائی جارہی تو حاملہ خواتین گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں۔

    ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ دیگر افراد کے لیے جو بھی ویکسین دستیاب ہے اسے فوری لگوایا جائے، کسی مخصوس ویکسین کا انتظار نہ کریں۔

    یاد رہے کہ ملک میں اب تک 3 کروڑ 70 لاکھ 43 ہزار 561 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 1 کروڑ 34 لاکھ 34 ہزار 605 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • کووڈ ویکسی نیشن: حاملہ خواتین کے لیے نئی ہدایت

    کووڈ ویکسی نیشن: حاملہ خواتین کے لیے نئی ہدایت

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے حاملہ خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن ضرور کروائیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے اپنی سفارشات اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حاملہ خواتین کو کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن ضرور کروانی چاہیئے۔

    اس سے قبل امریکی طبی ادارے نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ اگر آپ حاملہ ہیں تو کووڈ ویکسین لگوا سکتے ہیں، مگر اب سی ڈی سی نے سفارشات میں حاملہ خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ضرور ویکسین کا استعمال کریں۔

    یہ سفارشات نئے ڈیٹا کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کی گئی ہیں۔

    نئی سفارشات میں کہا گیا کہ کووڈ 19 ویکسی نیشن 12 سال یا اس سے زائد عمر کے تمام افراد بشمول حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین، اولاد کے لیے کوشش کرنے والی یا مستقبل میں اولاد کے حصول کی خواہشمند خواتین کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔

    سی ڈی سی کے مطابق شواہد سے حمل کے دوران کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ویکسی نیشن کا محفوظ اور مؤثر ہونا ثابت ہوتا ہے، ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ ویکسین کے فوائد ممکنہ نقصانات سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

    سی ڈی سی کے ڈویژن آف ری پروڈکٹو ہیلتھ کی سربراہ ساشا ایلنگٹن نے کہا کہ ہم نے حمل کے دوران ویکسین کے محفوظ ہونے سے متعلق کوئی ایک خدشہ بھی نہیں دیکھا۔

    انہوں نے کہا کہ کووڈ سے حاملہ خواتین کے سنگین حد تک بیمار ہونے اور دیگر پیچیدگیوں جیسے قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، ویکسین سے کووڈ کی روک تھام کی جاسکتی ہے اور یہ اس کا بنیادی فائدہ ہے۔

    امریکی طبی ادارے نے کہا کہ اس کے وی سیف ڈیٹا سیف کے نئے تجزیے میں ویکسین کے مضر اثرات اور محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس تجزیے میں حمل کے 20 ہفتے سے قبل فائزر / بائیو این ٹیک یا موڈرنا ویکسینز استعمال کرنے والی خواتین میں اسقاط حمل کے خطرے میں کوئی اضافہ دریافت نہیں ہوا۔

    اسی طرح حمل کی آخری سہ ماہی میں بھی ویکسی نیشن سے خواتین یا ان کے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی خدشات دریافت نہیں ہوئے۔ ویکسی نیشن کروانے والی خواتین میں اسقاط حمل کی شرح 13 فیصد رہی جو کہ ویکسین استعمال نہ کرنے والی خواتین کے برابر تھی۔

    ساشا ایلنگٹن نے اس افواہ کو مسترد کردیا کہ ویکسین سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اب تک ایسا کوئی ڈیٹا نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ ویکسین بانجھ پن کا باعث بن سکتی ہیں۔

    سی ڈی سی کی ویب سائٹ میں بھی بتایا گیا کہ کسی بھی ویکسین بشمول کووڈ 19 ویکسینز کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں، جو مردوں یا خواتین میں بانجھ پن کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوں۔

  • کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے؟

    کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے؟

    کراچی : ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین کورونا وبا کے دوران سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں،  محدود پیمانے پر کی گئی تحقیق کے دوران کورونا متاثرہ حاملہ خواتین میں شرح اموات آٹھ فیصد ہے، ویکسین لگوانے سے بچے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا, ترجیحی بنیادوں پر  ویکسین لگائی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی کے زیراہتما م آگہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا ، جس میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے انفیکشن ڈیزیز کی پروفیسر اسما نسیم ، سول اسپتال کراچی گائنی وارڈ کی پروفیسر ڈاکٹر نازلی حسین اور پروفیشنل ڈیولپمنٹ سینٹر ڈائریکٹر پروفیسر سارا قاضی نے شرکت کی۔

    ماہرین صحت نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام آراگ آڈیٹوریم میں "کیا حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لگوانی چاہیے” کے عنوان سے آگہی پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کورونا سے متاثرہ حاملہ خواتین میں شرح اموات کی مصدقہ معلومات ابھی دستیاب نہیں تاہم محدود پیمانے پر کی گئی تحقیق کے مطابق کورو ناکی پیچیدگیوں کے باعث حاملہ خواتین میں شرح اموات آٹھ فیصد ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی افواہوں کا شکار ہونے کے بجائے حاملہ خواتین کو ترجیحی بنیادوں پر کورونا ویکسین لگائی جائے، اس سےجنم لینے والےبچے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا جب کہ دودھ پلانے والی ماؤں کے بچوں کے جسم میں دودھ کے ذریعے اینٹی باڈی منتقل ہو جائیں گے۔

    آگہی پروگرام میں ماہرین کے پینل نے شرکاء کے سوالوں کے جواب بھی دیئے، پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ حمل کے دوران خواتین کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں نمونیہ اور انفلوئنزا سمیت مختلف بیماریاں حملہ آور ہو سکتی ہیں، کورونا سے پہلے بھی خواتین کو انفلوئنزا سمیت دیگر ویکسین لگائی جاتی تھیں ۔

    آگہی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اسماء نسیم نے کہا کہ کورونا پاکستان کی حاملہ خواتین میں بہت سے مسائل کو جنم دے رہا ہے، حمل کے دوران خواتین مختلف قسم کے خطرات میں گھری ہوتی ہیں، اس لئے لازم ہے کہ ویکسین لگوائی جائے۔

    پروفیسر اسماء کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دستیاب تمام ویکسین عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور شدہ ہیں، اس موقع پر انہوں نے پاکستان میں دستیاب تمام ویکسین کے بنانے کے طریقے کار اس کے مثبت اثرات اور تاثیر کے حوالے سے بھی روشنی ڈالی۔

    انھوں نے مزید کہا کہ دنیا میں کورونا سے پہلے دنیا میں آر این اے ویکسین نہیں بنائی گئی، کورونا کے دوران دنیا میں پہلی مرتبہ آر این اے ویکسین بنائی گئی ہے، ابیولا کے وقت تحقیق کار اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ آر این اے ویکسین بنائی جا سکتی ہے۔

    پروفیسر اسماء کا کہنا تھا کہ ان ایکٹیویٹڈ وائرس( یعنی وائرس کو غیر فعال کرنے) کےطریقے سے ویکسین بنانے کے لیے طویل تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، اس لئے کسی بھی قسم کی افواہوں کا شکار ہوئے بغیرکورونا کی ویکسین لگوائی جائے۔

    انھوں نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے تمام ویکسین کے مؤثر ہونے کی شرح بھی بتائی ہے، اکثر ویکسین 50 فیصد سے زیادہ مؤثر ہیں بالفرض کوئی ویکسین پچاس فیصد بھی موثر ہے تو وہ لگوائی جاسکتی ہے کورونا سے کم از کم پچاس فیصد تو تحفظ کرے گی ایسی صورت میں جب حاملہ خواتین رسک پر ہو ں تو مزید رسک نہ لیا جائے۔

    اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر نازلی حسین نے کہا کہ حاملہ خواتین میں کورونا کی شرح اموات کے حوالے سے پاکستان میں مصدقہ اعداد و شمار تودستیاب نہیں لیکن ایران میں اس موضوع پر تحقیق ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں واضح ہوا ہے کہ کورونا سے متاثرہ خواتین میں قبل از وقت بچوں کی پیدائش، ماں کے پیٹ کے اندر بچوں کی موت اور آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھ گئی ہے۔

    نازلی حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں محدود پیمانے پر جمع کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق زچگی کے دوران متاثرہ خواتین میں کورونا کی پیچیدگیوں کے باعث موت کی شرح آٹھ فیصد ہیں اسے روکنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر ویکسین لگوانے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گائنی وارڈز میں مریض کے ساتھ ڈاکٹر بھی سب سے زیادہ خطرے میں ہیں کیونکہ ان کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے ، پی سی آر کی رپورٹ کا انتظار نہیں کیا جاسکتا ، ڈاکٹر کو فوری اپنے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں ڈاکٹرز کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کورونا ویکسین لگوانے کے باوجود حفاظتی لباس اور احتیاط لازمی ہے۔

    پروفیسر سارہ قاضی کا کہنا تھا کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی جانب سے آ گہی پروگرام کا مقصد لوگوں زندگی کے تحفظ کا شعور پیدا کرنا ہے۔

  • دنیا کی پہلی بچی کی پیدائش جس پر کرونا بے اثر ہے

    دنیا کی پہلی بچی کی پیدائش جس پر کرونا بے اثر ہے

    فلوریڈا: امریکا میں ایک ایسی بچی کا جنم ہوا ہے جس کے خون میں کرونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز موجود ہیں، اس حوالے سے اس بچی کو دنیا کی پہلی نوزائیدہ بچی قرار دیا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست فلوریڈا کے علاقے پام بیچ کاؤنٹی میں رواں برس جنوری کے آخر میں پیدا ہونے والی بچی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کی پہلی بچی ہے جو کو وِڈ 19 کے اینٹی باڈیز کے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔

    رپورٹس کے مطابق اس بچی کی ماں کو دوران حمل کرونا وائرس کے خلاف ویکسین لگائی گئی تھی۔

    پام بیچ کے مقامی ماہرین امراض اطفال ڈاکٹر پال گلبرٹ اور ڈاکٹر چاڈ روڈنِک نے میڈیا کو بتایا کہ ہمارے علم کے مطابق یہ ایسی پہلی بچی ہے، اور اس کی ماں ایک فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکر ہے، جنھیں 36 ہفتوں کے حمل کے وقت موڈرنا ویکسین دی گئی تھی۔

    انھوں نے بتایا کہ بچی کی پیدائش کے بعد اس کے آنول نال سے خون کا نمونہ لیا گیا، تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ماں سے بچی کو اینٹی باڈیز منتقل ہوئی ہیں یا نہیں، کیوں کہ حمل کے دوران دوسری ویکسینز میں بھی ایسا ہوتا ہے، خون کے ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ بچی میں نئے کرونا وائرس کے اینٹی باڈیز موجود ہیں۔

    اسرائیل میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ معلوم ہوا تھا کہ وائرس کے خلاف ویکسین لینی والی حاملہ خواتین اپنے بچوں کو بھی یہ تحفظ منتقل کر دیتی ہیں۔ یروشلم یونی ورسٹی کی تحقیق میں فروری میں ایسی 20 حاملہ خواتین کو فائزر کی ویکسین دی گئی تھی، اور ان سب کے بچوں میں پلیسینٹا (آنول نال) کے ذریعے اینٹی باڈیز منتقل ہوئیں۔

    تاہم گلبرٹ اور روڈنِک کا کہنا ہے کہ ویکسین لینے والی ماؤں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو پھر بھی کرونا وائرس انفیکشن کا خطرہ لاحق رہتا ہے، اس سلسلے میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے کہ ایسے بچوں کو کتنے عرصے تک تحفظ فراہم ہوتا ہے، نیز یہ بھی تعین کرنا ہے کہ بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے خون میں کتنے اینٹی باڈیز کا ہونا ضروری ہے۔

    گزشتہ ماہ فائزر کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایک تحقیقی مطالعے کے لیے 4 ہزار حاملہ خواتین کو کلینکل ٹرائل کے لیے رجسٹرڈ کرے گی، تاکہ ان پر کرونا ویکسین کے اثرات کا تفصیلی مطالعہ کیا جا سکے۔

  • حاملہ خواتین و بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے اہم اقدام

    حاملہ خواتین و بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے اہم اقدام

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر کا کہنا ہے کہ حاملہ، دودھ پلانے والی خواتین اور ان کے کمزور بچوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے احساس نشوونما پروگرام جلد شروع کیا جا رہا ہے۔

    وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے انسداد غربت ثانیہ نشتر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ اسٹنٹنگ کی روک تھام پر مبنی احساس نشوونما پروگرام جلد شروع کیا جا رہا ہے، پروگرام کے تحت قبائلی ضلع خیبر کے نشونما مرکز کی تیاریاں تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ احساس نشوونما پروگرام میں صارف خواتین کو نشونما کیش وظائف بھی دیے جائیں گے، اس سلسلے میں تمام نشونما مراکز پر اے ٹی ایم مشینیں خاص طور پر نصب کی جا رہی ہیں تاکہ احساس صارف خواتین کو بائیو میٹرک تصدیق کے ذریعے ادائیگیوں میں سہولت ہو۔

    انہوں نے کہا کہ احساس نشونما پروگرام کے ذریعے حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین اور ان کے کمزور بچوں کو اسٹنٹنگ کے مرض سے بچاؤ کے لیے صحت بخش اضافی غذا کے پیکٹ فراہم کیے جائیں گے۔

    ثانیہ نشتر کا کہنا تھا کہ شفافیت کے پیش نظر نشونما مراکز پر صحت بخش غذا کے پیکٹوں کے اسٹاک کی ترسیل و تقسیم کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جائے گا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ احساس نشونما پروگرام سے مستفید ہونے والی خواتین کی آگاہی کے لیے ان کی اور ان کے بچوں کی خوراک اور صحت و صفائی کے حوالے سے خصوصی معلوماتی چارٹ اور پوسٹر بھی مرتب کیے گئے ہیں۔