Tag: حاملہ

  • انڈیا: حاملہ ہندو خاتون کو اسپتال پہنچانے والے مسلمان رکشہ ڈرائیور نے ہزاروں دل جیت لیے

    انڈیا: حاملہ ہندو خاتون کو اسپتال پہنچانے والے مسلمان رکشہ ڈرائیور نے ہزاروں دل جیت لیے

    آسام: مسلمان رکشہ ڈرائیور نے کرفیو کی پروا نہ کرتے ہوئے حاملہ ہندو حاملہ خاتون کو بروقت اسپتال پہنچا کر انسان ہمدردی کی مثال قائم کر دی.

    بھارتی ریاست آسام کے قصبے ہیلاکاندی میں ایک مسلمان رکشہ ڈرائیور نے کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حاملہ خاتون کو اسپتال پہنچا دیا، خاتون نے صحت مند بچے کو جنم دیا، جس کا نام شانتی رکھ دیا گیا۔

    خیال رہے کہ آسام کا قصبہ ہیلاکاندی گزشتہ چند روز سے شدید نسلی فسادات کی زد میں تھا، فسادات کے دوران پولیس فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور 15 زخمی ہوئے، جب کہ 15 سے زائد گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا. واقعات کے بعد کئی روز سے شہر میں کرفیو نافذ ہے.

    ان حالات میں‌ جب ہندو خاتون نندتا کو اسپتال جانا تھا، تو کوئی ایمبولینس میسر نہیں‌ تھی. ایسے میں خاتون کے شوہر روبن کا مسلمان دوست مقبول مدد کے لیے  سامنے آیا. مقبول اپنا رکشہ لے کر وہاں پہنچ گیا اور جوڑے کو فورا اسپتال گیا.

    مزید پڑھیں: انڈیا کا پہلا دہشت گرد ایک ہندو تھا: کمل ہاسن نے انتہا پسندوں کو آئینہ دکھا دیا

    بعد ازاں روبن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کرفیو کی وجہ سے سڑکوں پر ہو کا عالم تھا، لیکن مجھے فکر صرف یہ تھی کہ ہم وقت پر اسپتال پہنچ  پائیں گے یا نہیں۔

    رکشہ ڈرائیور مقبول کا کہنا تھا کہ میں انھیں مسلسل تسلی دے رہا تھا کہ سب کچھ صحیح ہوگا، لیکن میں خود دل ہی دل میں دعائیں کررہا تھا۔

    یہ واقعہ جلد ہی میڈیا کی زینت بن گیا، جس کے بعد مقبول کے کردار کو ہندو مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے.

  • پیدائش سے قبل سرجری کے بعد بچے کو واپس ماں کے رحم میں رکھ دیا گیا

    پیدائش سے قبل سرجری کے بعد بچے کو واپس ماں کے رحم میں رکھ دیا گیا

    ایک نئی زندگی کا اس دنیا میں آنا معمول کا حصہ ہے، لیکن اس عمل سے جڑے بعض اوقات ایسے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جو ایک طرف تو ہمیں دنگ کردیتے ہیں، تو دوسری طرف میڈیکل سائنس کے لیے بھی چیلنج ثابت ہوتے ہیں۔

    لندن کے ڈاکٹرز کو بھی ایسا ہی ایک چیلنج درپیش تھا جس میں انہیں ممکنہ طور پر معذور بچے کا ماں کے رحم سے نکال کر آپریشن کرنا تھا اور پھر اسے واپس ماں کے رحم میں رکھنا تھا۔

    لندن کی رہائشی 25 سالہ بیتھن سمپسن روٹین چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی تو اسے ایک دلدوز خبر سننے کو ملی۔

    ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس کا بچہ اسپائینا بفیڈا نامی مرض کا شکار ہوگیا ہے۔

    اس مرض میں ماں کے پیٹ میں موجود بچے میں ریڑھ کی ہڈی درست نشونما نہیں کرپاتی جو آگے چل کر اسے چلنے پھرنے سے معذور بنا سکتی ہے۔

    ڈاکٹر نے بیتھن کو 3 آپشنز دیے، یا تو وہ اپنے حمل کو گرا دے، یا وہ اسے ایسا ہی چلنے دے جو آگے چل کر ممکنہ طور پر ایک معذور بچے کو جنم دے سکتا تھا، یا پھر وہ ایک خطرناک سرجری کے عمل سے گزرے جس کی کامیابی کا امکان بہت کم تھا۔

    بیتھن اور اس کے شوہر نے سرجری کروانے کا فیصلہ کیا۔

    لندن کے گریٹ آرمنڈ اسٹریٹ ہاسپٹل میں کی جانے والی اس سرجری میں بچے کو ماں کے رحم سے نکال کر اس کی سرجری کی گئی جو کامیاب رہی، اس کے بعد اسے واپس ماں کے رحم میں رکھ دیا گیا تاکہ وہ حمل کا وقت پورا کرسکے۔

    یہ عمل کامیابی سے ہمکنار ہوا، جس وقت بچے کو ماں کے رحم سے نکالا گیا اس وقت اس کی عمر 24 ہفتے تھی۔

    سرجری کے بعد بیتھن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے عزیز و اقارب کو اس کی اطلاع دی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ اور اس کا بچہ صحیح سلامت ہیں۔

    بیتھن نے کہا کہ انگلینڈ میں اس کیفیت کا شکار 80 فیصد بچوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ ’گو کہ یہ عمل مشکل ضرور ہے مگر اس کے بعد ایک صحت مند بچے کو جنم دینا دنیا کا خوشگوار ترین احساس ہے‘۔

    برطانیہ میں یہ سرجری اب تک صرف 4 دفعہ انجام دی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے یہ سرجری بہت سے بچوں کی جانیں بچانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

  • ملازمت پیشہ حاملہ خواتین کو چھٹیاں دی جائیں، تنخواہ حکومت دے گی، سرکاری اعلان

    ملازمت پیشہ حاملہ خواتین کو چھٹیاں دی جائیں، تنخواہ حکومت دے گی، سرکاری اعلان

    نئی دہلی: بھارتی حکومت نے نجی و سرکاری کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ حاملہ ملازمین کو 26 ہفتوں کی چھٹیاں دیں، اُن کی نتخواہوں کے اخراجات حکومت خود برداشت کرے گی۔

    خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے کے وزیر نے یہ اعلان جمعرات کے روز ایک پریس کانفرنس میں کی۔

    اُن کا کہنا تھا کہ ’کئی کمپنیوں کے بارے میں شکایات موصول ہوئیں کہ وہ زچگی کے بعد خواتین پر جلد واپس آنے کے لیے زور ڈالتی ہیں اور اگر وہ نہ آئیں تو اُن کی تنخواہیں کاٹی جاتی ہیں‘۔

    وزیر خواتین و تحفظ اطفال نے اعلان کیا کہ اگر کمپنیوں نے خواتین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تو حکومت ایسی ملازمین جن کی تنخواہیں 15 ہزار سے کم ہیں انہیں سرکاری فنڈ سے 26 ہفتوں کی چھٹی کے پیسے ادا کرے گی۔

    مزید پڑھیں: مشرقی لندن، مسلمان حاملہ خاتون فائرنگ سے جاں بحق، حملہ آور گرفتار

    حکومت نے تمام کمپنیوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ حمل کی وجہ سے کسی ملازمہ کو نوکری سے برطرف نہ کریں بلکہ انہیں چھٹیوں پر بھیجیں، ایسی خواتین جنہیں دوران حمل ہی ملازمت دی جائے تو انہیں کمپنیاں خصوصی رعایت بھی دیں۔

    راکیش سروسٹاوا کا کہنا تھا کہ ’حکومت نجی و کمپنیوں کو یہ رقم لیبر ویلفیئر  فنڈ سے ہر ماہ ادا کرے گی لہذا تمام ملازمین کی تنخواہیں بروقت ادا کی جائیں‘۔

    واضح رہے کہ گزشتہ سال لیبر ویلفیئرز ایسوسی ایشن نے وزیر صحت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ خواتین کے لیے میٹرینٹی کی چھٹیاں 12 ہفتوں سے بڑھا کر 26 ہفتوں تک کردیں۔

    راکیش کا کہنا تھا کہ ’متعدد خواتین نے حکومت کو شکایات درج کروائیں کہ انہیں زچگی کے لیے لی جانے والی چھٹیوں کے دوران ہی نوکری سے زبردستی نکال دیا جاتا ہے‘۔

    یہ بھی پڑھیں: برطانوی کمپنیاں ’حاملہ خواتین‘ کو بوجھ سمجھتی ہیں: تحقیق

    وزیر کا کہنا تھا کہ ’نجی و سرکاری کمپنیاں حاملہ خواتین کے کوائف نامے حکومت کو جمع کرائیں گے تو انہیں 7 ہفتوں کے اندر رقم ادا کردی جائے گی’۔

  • جاپان میں خواتین کو حاملہ ہونے کے لیے اپنی ’باری‘ کا انتظار

    جاپان میں خواتین کو حاملہ ہونے کے لیے اپنی ’باری‘ کا انتظار

    ٹوکیو: 35 سالہ سایاکو جاپان کی رہائشی ہے جو ملازمت پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں بھی ہے۔ وہ اور اس کا شوہر اپنے خاندان میں اضافہ چاہتے ہیں تاہم سایاکو کے باس نے سختی سے منع کیا ہے کہ فی الحال وہ حاملہ ہونے کا خیال دل سے نکال دے کیوں کہ ابھی اس کی ’باری‘ نہیں ہے۔

    جاپان میں ملازمت پیشہ خواتین کو حاملہ ہونے کے لیے باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ نیا رجحان ہے جو جاپان میں فروغ پا رہا ہے جس سے جاپان میں شرح پیدائش میں خاصی حد تک کمی واقع ہوگئی ہے۔

    ویسے تو جاپانی دفاتر اور ادارے دنیا بھر کے اداروں کی طرح حاملہ خواتین کو میٹرنٹی تعطیلات فراہم کر رہے ہیں تاہم ان کا خیال ہے کہ اگر ایک وقت میں کئی حاملہ خواتین تعطیلات پر ہوں گی تو دفتر کے دیگر ملازمین پر کام کے بوجھ میں اضافہ ہوگا۔

    چنانچہ انہوں نے خواتین ملازمین کو مجبور کرنا شروع کردیا ہے کہ وہ باری باری حاملہ ہوں۔

    جاپان میں یہ ایک غیر رسمی اصول بن گیا ہے کہ حاملہ ہوجانے والی خواتین ملازمت سے ہاتھ دھو سکتی ہیں لہٰذا باسز کی مرضی سے ’اپنی باری پر‘ حاملہ ہونا ہی بہتر ہے۔

    مزید پڑھیں: برطانوی کمپنیاں حاملہ خواتین کو بوجھ سمجھتی ہیں

    رواں برس کے آغاز میں یہ غیر رسمی اصول اس وقت اخباروں کی ہیڈ لائن بن گیا جب ایک جوڑے کو اپنی باری کے علاوہ حمل ٹہرانے پر خاتون کے باس سے معافی مانگنی پڑی۔

    دوسری جانب 35 سالہ سایاکو بھی 2 برس سے حمل کے لیے گائنا کولوجسٹ سے رابطے میں تھیں تاہم 2 سال بعد ان کے باس نے کہا کہ ان کی باری ختم ہوچکی ہے اور اب ان کے حاملہ ہونے کی صورت میں وہ ملازمت سے ہاتھ دھو سکتی ہیں۔

    سایاکو کے باس کا کہنا ہے کہ اس وقت دفتر میں موجود ایک اور خاتون ملازم حاملہ ہونے کی زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کی شادی کو کئی برس گزر چکے ہیں اور تاحال وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں۔

    سایاکو کا کہنا تھا کہ اگر وہ اسی دفتر میں رہتیں تو نئے بچے کی پیدائش پر خوشی منانے کے بجائے خود کو مجرم محسوس کرتیں چنانچہ انہوں نے اس ملازمت کو خیرباد کہہ دینا ہی بہتر سمجھا۔

    جاپان کی ایک ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ ماں بن جانے والی خواتین سے امتیازی سلوک کرنا عام رویہ بن چکا ہے۔ جاپان کے ایک قانون کے تحت نئی ماؤں کے کام کرنے کے گھنٹے کم ہوجاتے ہیں تاہم یہ تخفیف صرف ایک گھنٹہ تک ہی محدود ہے۔

    صرف ایک گھنٹے کی تخفیف اور چند میٹرنٹی تعطیلات کے عوض خواتین ملازمین سے نہایت متعصبانہ رویہ برتا جاتا ہے اور مالکان اور باسز مزید کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں ہوتے۔

    ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال خواتین کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے جبکہ وہ ملازمت اور گھر کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دوران حمل پھلوں کا استعمال بچے کی دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    دوران حمل پھلوں کا استعمال بچے کی دماغی صحت کے لیے فائدہ مند

    اوٹاوہ: کینیڈا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ خواتین جو دوران حمل پھلوں کا استعمال زیادہ کرتی ہیں ان کے بچے زیادہ ذہنی استعداد کے حامل ہوتے ہیں۔

    یہ تحقیق کینیڈا کی یونیورسٹی آف البرٹا میں کی گئی۔ تحقیق میں 688 بچوں کو شامل کیا گیا اور ان کے خاندان کی آمدنی اور والدین کی تعلیم کا ڈیٹا حاصل کیا گیا۔

    ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ جن ماؤں نے دوران حمل اپنی غذاؤں میں پھلوں کا استعمال زیادہ رکھا تھا ان کے بچے کا آئی کیول لیول دیگر بچوں کی نسبت بلند تھا۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ جن بچوں کی پیدائش دیر سے ہوتی ہے اور انہیں ماؤں کے شکم میں زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا وہ بچے دیگر بچوں کی نسبت زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

    ان کے مطابق دوران حمل ماؤں کا پھل کھانا بچوں کے لیے اتنا ہی فائدہ مند ہے کہ اگر وہ ایک ہفتہ قبل بھی دنیا میں آجائیں تب بھی انہیں وہی فوائد حاصل ہوں گے جو ماں کے شکم میں مقررہ وقت گزارنے والے بچوں کو حاصل ہوتے ہیں۔

    تاہم ماہرین نے حاملہ ماؤں کو پھلوں کی زیادہ مقدار لینے سے منع کیا۔ پھلوں میں فرکٹوز موجود ہوتا ہے جو ذیابیطس اور وزن میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • قیامت کی نشانی: مرد بچے پیدا کریں گے

    قیامت کی نشانی: مرد بچے پیدا کریں گے

    جدید سائنس نے جہاں ہر شعبے میں بے تحاشہ ترقی کی اور بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں اب ہزاروں سال سے  قدرت کے وضع کردہ طریقۂ حمل میں مداخلت کرتے ہوئے بچے جنم دینے کے عمل کا دائرہ کار بھی مردوں تک پھیلا نے کی کوشش شروع کردی ہے۔

    برطانوی اخبار ’دی انڈپنڈنٹ‘ کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے چوٹی کے طبی ماہرین کے مطابق رحم کی منتقلی کے ذریعے مرد بھی نئی زندگی کو جنم دے سکتے ہیں۔

    امریکن سوسائٹی فار ری پروڈکٹو میڈیسن کے صدر ڈاکٹر رچرڈ پالسن کا کہنا ہے کہ سائنس کی ترقی کے ساتھ یہ عمل بھی ممکن اور نہایت آسان بن چکا ہے۔

    ان کے مطابق وہ افراد جو جنس کی تبدیلی کے عمل سے گزرے ہوں وہ بھی اس طریقہ کار کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دے سکتے ہیں۔

    ڈاکٹر رچرڈ کے مطابق گو کے مرد و خواتین کے اعضا کی ساخت مختلف ہوتی ہے تاہم ان کے جسم کے اندر رحم اور اس کے اندر ایک نئی زندگی کے نمو پانے کے لیے جگہ موجود ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس طریقہ کار کو واقعی عمل میں لایا جائے تو پھر ان ہارمونز کی منتقلی بھی کرنی ہوگی جو خواتین کے جسم میں حمل کے دوران فعال ہوتے ہیں۔

    علاوہ ازیں مردوں اور خواجہ سراؤں کے یہاں جنم دینے کا عمل سیزیرین آپریشن کے ذریعے ممکن ہوسکے گا۔

    دوسری جانب کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حمل اور بچے کی پیدائش خواتین کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے اور انہیں بے شمار مسائل سے بچاتا ہے، لہٰذا فی الحال اس طریقہ کار کو قابل عمل بنانے میں بہت سی پیچیدگیاں درپیش ہیں۔

    خیال رہے کہ آج سے 1400 سال قبل کے اسلامی ماخذوں میں قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی’مردوں کا بچے پیدا کرنے کا تذکرہ بھی ملتا ہے ‘ جس میں کہا گیا ہے کہ آخری زمانوں میں مرد بھی بچے پیدا کریں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    ماں بننا ایک فطری عمل ہے اور یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جو نہایت احتیاط اور توجہ کی متقاضی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک بچے کی زندگی کا دار و مدار اس وقت سے ہوتا ہے جب ماں کے شکم میں اس کے خلیات بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔

    اس وقت ماں کی عادات و غذا بچے کی صحت اور اس کی نشونما کا تعین کرتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق جن بچوں کی پیدائش دیر سے ہوتی ہے اور انہیں ماؤں کے شکم میں زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملتا ہے وہ بچے دیگر بچوں کی نسبت زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔

    دوران حمل ماؤں کو اپنا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کا بچہ صحت مند پیدا ہو۔ ایسے میں کچھ عادات ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں اور ڈاکتڑز کے مطابق انہیں اپنانے سے سختی سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

    وہ عادات کیا ہیں آپ بھی جانیں۔

    ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا

    دوران حمل خواتین کو ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیئے۔ یہ ان کی اور ان کے بچے کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

    وزن کا خاص خیال

    حاملہ خواتین کو اپنے وزن کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ بہت زیادہ یا بہت کم وزن پیدائش کے وقت کئی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے۔

    الکوحل اور سگریٹ نوشی سے پرہیز

    دوران حمل الکوحل کا استعمال اور سگریٹ نوشی بچے کے لیے زہر قاتل ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں ہر سال 1 لاکھ 30 ہزار بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جو منشیات کے مضر اثرات کا شکار ہوتے ہیں۔

    یہ وہ بچے ہوتے ہیں جن کی مائیں دوران حمل منشیات کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے اور وہ دنیا میں آنے سے قبل ہی منشیات کے خطرناک اثرات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بھرپور نیند

    ماں بننے والی خواتین کو اپنی نیند پوری کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نیند کی کمی بچے کی دماغی صحت پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔

    جنک فوڈ سے پرہیز

    دوران حمل بھوک بڑھ جاتی ہے اور وقت بے وقت بھوک لگنے لگتی ہے۔ لیکن خیال رہے کہ حمل کے 9 ماہ کے دوران صحت مند اور غذائیت سے بھرپور غذاؤں کا استعمال کیا جائے اور جنک فوڈ، کیفین یا سافٹ ڈرنک سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کیا جائے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل پھلوں کا استعمال بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    کیفین کا کم استعمال

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دوران حمل چائے یا کافی کا زیادہ استعمال نہ صرف بچے کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خود خواتین کو بھی اس سے کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    سخت ورزش سے گریز

    حاملہ خواتین کو ہلکی پھلکی ورزش کرنی چاہیئے۔ سخت ورزش یا طویل دورانیے تک ورزش جسمانی اعضا کو تھکا دے گی جو تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔

    مائیکرو ویو سے دور رہیں

    مائیکرو ویو اوون سے نکلنے والی تابکار شعاعیں بچے کے دماغ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں لہٰذا مائیکرو ویو سے دور رہیں۔

    مچھلی سے محتاط رہیں

    کچی مچھلی میں مرکری موجود ہوسکتی ہے جو بچے کی دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے لہٰذا کچی مچھلی کی (پکانے سے قبل) صفائی سے پرہیز کریں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • موٹاپا سیزیرین آپریشن کے رجحان میں اضافے کا سبب

    موٹاپا سیزیرین آپریشن کے رجحان میں اضافے کا سبب

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت بچوں کی پیدائش کے لیے سیزیرین آپریشن کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماہرین کے مطابق موٹاپا اس آپریشن کے رجحان میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سیزیرین آپریشن نہ صرف ماں کی صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ بڑے ہونے کے بعد بچے میں بھی طبی مسائل پیدا کرسکتا ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق حاملہ ماؤں میں موٹاپا ان کے سیزیرین آپریشن کی وجہ بن سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فربہ ماؤں کے بچے بھی فربہ ہوتے ہیں جو پیدائش کے وقت پیچیدگی کا سبب بنتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان عادات سے پرہیز ضروری

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 1 ہزار میں سے 36 بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہو رہے ہیں۔

    چند عشروں قبل تک پیدائش کے وقت ہونے والی پیچیدگی ماں اور بچے دونوں کی ہلاکت کا باعث بنتی تھی تاہم جدید سائنس نے سیزیرین آپریشن کو آسان اور عام بنا دیا ہے۔

    سیزر روم کی پیدائش کے وقت کیا جانے والا آپریشن

    سیزیرین آپریشن کا سب سے پہلا کیس روم کے بادشاہ جولیس سیزر کی پیدائش کے وقت کیا گیا جس کی پیدائش 1 سو سال قبل مسیح ہوئی۔

    تاریخی کتابوں کے مطابق سیزر کی پیدائش کے وقت اس کا باپ جو اس وقت روم کا حکمران تھا، نہایت خوش تھا۔ سیزر کی زچگی اس کی ماں کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوئی۔ بچہ ماں کے کولہے کی ہڈی کے تنگ ہوجانے کی وجہ سے عام طریقے سے ڈیلیور نہ ہو پایا۔

    دوسری جانب سیزر کے باپ نے دائیوں کو پیغام بھجوا دیا کہ اگر اس کے تخت کے وارث کو کچھ ہوا تو وہ سب کو مار ڈالے گا۔ اتنے میں سیزر کی ماں درد کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔

    تب ایک تجربہ کار دائی نے مشکل ترین فیصلہ کیا اور خنجر سے مردہ ماں کا پیٹ چاک کر کے بچے کو زندہ باہر نکال لیا۔

    یہیں سے سیزیرین آپریشن کی ابتدا ہوئی جو آنے والے وقتوں میں ماں اور بچے کی جان بچانے کا سبب بھی بن گئی۔

  • حاملہ خواتین کی طبی حفاظت کے لیے اسمارٹ کنگن تیار

    حاملہ خواتین کی طبی حفاظت کے لیے اسمارٹ کنگن تیار

    بنگلہ دیش میں ایک ایسا ہائی ٹیک کنگن تیار کرلیا گیا جو حاملہ خواتین کو مضر صحت دھوئیں سے خبردار کرے گا اور انہیں ان کی صحت سے متعلق تجاویز بھی دے گا۔

    ایک بنگلہ دیشی ٹیک کمپنی کی جانب سے تیار کیا جانے والا یہ کنگن جنوبی ایشیا میں حاملہ خواتین، زچاؤں اور نومولود بچوں کی صحت کے اقدامات کو بہتر کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

    کوئل نامی کنگن کے اس منصوبے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ ایجاد دیہی خواتین کو مدنظر رکھتے ہوئے کی ہے۔ گاؤں دیہاتوں میں موبائل فون باآسانی کام نہیں کر تے لہٰذا بہت کم خواتین کسی ہنگامی صورتحال میں ڈاکٹر یا ایمبولینس تک رسائی پاسکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    علاوہ ازیں موبائل فون ہر خاتون کو دستیاب بھی نہیں ہوتا اور گھر میں موجود موبائل فون زیادہ تر گھر کے مردوں کے پاس ہوتا ہے۔

    مضبوط پلاسٹک سے تیار کیے جانے والے اس کنگن میں طویل مدت تک کام کرنے والی بیٹری نصب کی گئی ہے جو حمل کے 9 ماہ تک آرام سے چل سکے گی۔ اس کنگن کو کام کرنے کے لیے نہ تو چارجنگ کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی انٹرنیٹ کنکشن کی۔

    ایک بار بیٹری ختم ہوجانے کے بعد اسے چارج کر کے دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    یہ کنگن استعمال میں بھی آرام دہ ہے اور جنوبی ایشیا جہاں شادی شدہ خواتین میں ہاتھوں کو چوڑیوں اور کنگنوں سے سجائے رکھنے کا رواج ہے، وہاں انہیں پہننے میں بھی کوئی الجھن نہیں ہوگی۔

    کنگن میں نصب کیا گیا سسٹم خواتین کو مقامی زبان میں ان کی صحت سے متعلق آگاہی دیتا رہے گا۔ ساتھ ہی وہ یہ تجاویز بھی دے گا کہ حاملہ خاتون کو کیا کھانا چاہیئے اور کب ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیئے۔

    یہ کنگن اس وقت ایک الارم بھی بجائے گا جب اسے پہننے والی خاتون کے گرد کاربن مونو آکسائیڈ گیس کا زہریلا دھواں بڑی مقدار میں پھیل جائے گا۔ یہ دھواں عموماً اس وقت خارج ہوتا ہے جب دیہی علاقوں میں لکڑی، گوبر یا کوئلے کے چولہے جلائے جاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کوریا کی بسوں میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی الارم نصب

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 830 خواتین زچگی یا حمل کے دوران مختلف پیچیدگیوں کے باعث موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ ان اموات میں سے ایک تہائی اموات جنوبی ایشیا میں ہوتی ہیں۔

    دوسری جانب بنگلہ دیش میں 70 فیصد بچوں کی پیدائش گھروں میں ہوتی ہے۔ طبی سہولیات کی عدم موجودگی، صفائی کے فقدان اور مختلف پیچیدگیوں کے باعث ہر سال 77 ہزار نومولود بچے جبکہ 5 ہزار مائیں زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں۔

    کوئل نامی اس کنگن کو بنگلہ دیش کے ساتھ بھارتی ریاست اتر پردیش کے دیہی علاقوں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • فطرت کے قریب وقت گزارنے والی حاملہ ماؤں کے بچے صحت مند

    فطرت کے قریب وقت گزارنے والی حاملہ ماؤں کے بچے صحت مند

    یوں تو فطری ماحول، درختوں، پہاڑوں یا سبزے کے درمیان رہنا دماغی و جسمانی صحت پر مفید اثرات مرتب کرتا ہے، تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ وہ حاملہ مائیں جو اپنا زیادہ وقت فطرت کے قریب گزارتی ہیں، وہ صحت مند بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ حاملہ خواتین جو اپنے حمل کا زیادہ تر وقت پرسکون و سر سبز مقامات پر گزارتی ہیں، ان کا بلڈ پریشر معمول کے مطابق رہتا ہے اور وہ صحت مند بچوں کو جنم دیتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بچوں میں بڑے ہونے کے بعد بھی مختلف دماغی امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ فطرت کے قریب رہنا آپ کو موٹاپے اور ڈپریشن سے بھی بچاتا ہے۔

    مذکورہ تحقیق کے لیے درمیانی عمر کے ان افراد کا تجزیہ کیا گیا جو سبزے سے گھرے ہوئے مقامات پر رہائش پذیر تھے۔ ماہرین نے دیکھا کہ ان میں مختلف بیماریوں کے باعث موت کا امکان پرہجوم شہروں میں رہنے والے افراد کی نسبت 16 فیصد کم تھا۔

    woman-2

    ماہرین نے بتایا کہ ان کے ارد گرد کا فطری ماحول انہیں فعال ہونے کی طرف راغب کرتا ہے، جبکہ وہ ذہنی دباؤ کا شکار بھی کم ہوتے ہیں۔

    ایسے افراد شہروں میں رہنے والے افراد کی نسبت دواؤں پر انحصار کم کرتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ لوگ جتنا زیادہ فطرت سے منسلک ہوں گے اتنا ہی زیادہ وہ جسمانی و دماغی طور پر صحت مند ہوں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سرسبز مقامات پر زندگی گزارنے کے علاوہ، اگر لوگ پر ہجوم شہروں میں رہتے ہیں تب بھی انہیں سال میں ایک سے دو مرتبہ کسی فطری مقام پر وقت ضرور گزارنا چاہیئے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    ان کے مطابق روزمرہ کی زندگی میں ہمارا دماغ بہت زیادہ کام کرتا ہے اور اسے اس کا مطلوبہ آرام نہیں مل پاتا۔ دماغ کو پرسکون کرنے کے لیے سب سے بہترین علاج کسی جنگل میں، درختوں کے درمیان، پہاڑی مقام پر یا کسی سمندر کے قریب وقت گزارنا ہے۔

    اس سے دماغ پرسکون ہو کر تازہ دم ہوگا اور ہم نئے سرے سے کام کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔