Tag: حبیب جالب

  • "تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟”

    "تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟”

    ایک دفعہ لاہور کے لکشمی چوک میں ایک پولیس والے نے حبیب جالب کی بے عزّتی کر دی۔ کسی نے پولیس والے کو نہ روکا۔

    قریب ہی آغا شورش کاشمیری کے ہفت روزہ چٹان کا دفتر تھا۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک پولیس والے نے جالب سے بدتمیزی کی ہے تو آغا صاحب اپنا کام چھوڑ کر لکشمی چوک میں آئے۔ ایک تانگے والے سے چھانٹا لیا اور پولیس والے کی پٹائی کی اور اس سے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کون ہے؟ یہ جالب ہے۔

    پھر آغا صاحب تھانے جا بیٹھے اور وہاں دھرنا دے دیا۔ کہنے لگے کہ جس شہر کی پولیس حبیب جالب کی بے عزّتی کرے وہ شہر رہنے کے قابل نہیں اس لیے مجھے جیل بھیج دو۔

    پولیس والے معافیاں مانگنے لگے۔ علّامہ احسان الٰہی ظہیر کو پتہ چلا کہ آغا شورش کاشمیری نے تھانے میں دھرنا دے دیا ہے تو وہ بھی دھرنے میں آبیٹھے۔ مظفر علی شمسی بھی آگئے۔ شہر میں شور پڑ گیا۔ گورنر نے تھانے میں فون کیا لیکن آغا صاحب نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ جس شہر میں جالب کی بے عزّتی ہو میں وہاں نہیں رہوں گا۔ بات وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچی تو بھٹو نے فون پر منت کی جس پر آغا صاحب دھرنے سے اٹھے۔

    اس واقعے کے بعد حبیب جالب ہر کسی کو کہتے پھرتے تھے، ’’شورش نے میری عزّت بچا لی، ابھی اس شہر میں رہا جاسکتا ہے۔‘‘

    (سینئر صحافی اور کالم نویس محمد رفیق ڈوگر کی آپ بیتی’’ڈوگر نامہ‘‘ سے انتخاب)

  • حبیب جالب کی’’دستور‘‘ سے مودی کے دستور کو للکارتے بھارتی

    حبیب جالب کی’’دستور‘‘ سے مودی کے دستور کو للکارتے بھارتی

    سیاسی جبر کے مخالف، مساوات کے پرچارک اور انصاف کے متوالے حبیب جالب کے انقلابی ترانے ہندوستان میں گلی گلی گونج رہے ہیں۔

    جالب کی نظموں کے اشعار نعروں کی صورت مودی سرکار کو للکار رہے ہیں۔ بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران خاص طور پر نوجوانوں نے پاکستان کے اس عظیم انقلابی شاعر کی مشہور ترین نظم دستور کو اپنا نعرہ اور پرچم بنا لیا ہے۔

    حبیب جالب نے ظلم، زیادتی اور ناانصافی کے خلاف جو ترانے لکھے، وہ مقبول ہوئے۔ جو شعر کہا وہ زبان زدِ عام ہوا۔ کسی دور میں مصلحت سے کام نہ لینے والے حبیب جالب ہر مظلوم کے دل کی آواز بنے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ آمریت اور سیاسی جبر کے خلاف بات کریں، طبقاتی نظام سے لڑنا ہو یا کروڑوں عوام کے حق کے لیے آواز اٹھانی ہو، آج بھی حبیب جالب کے ترانے اور ان کے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے۔

    مودی کے جنون کی نذر ہوتے بھارت اور ہندتوا کی آگ میں جلتے ہندوستانی معاشرے کے سنجیدہ، باشعور، نڈر اور بے باک عوام شاعرِ انقلاب کی مشہور نظم ‘‘دستور’’ سے حق و انصاف کا الاؤ بھڑکاتے ہوئے سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔ اجتماعات کے دوران حبیب جالب کی نظمیں‌ پڑھی جارہی ہیں اور بینروں‌ پر ان کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔

    گزشتہ دنوں‌ ایک تصویر دنیا کے سامنے آئی جس میں‌ بھارتی لڑکی نے بینر اوڑھا ہوا ہے جو جالب کی مشہور نظم دستور کے اشعار سے سجا ہوا ہے۔

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

    ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

    میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
    میں بھی منصور ہوں، کہہ دو اغیار سے
    کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

    ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

    تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
    اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
    چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں

    تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا!

  • دیوانے تو بہت ہیں پرجالب کوئی نہیں

    دیوانے تو بہت ہیں پرجالب کوئی نہیں

    اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب کی آج 26 ویں برسی منائی جارہی ہے‘ ان کی بیٹی طاہرہ جالب نے اس موقع پرکہا کہ آج بھی مسائل وہی ہیں لیکن آج کوئی جالب نہیں ہے۔

    حبیب جالب کو شاعرِعوام اورشاعرِانقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ انہوں نے ساری زندگی حکمرانوں اور کے عوام دشمن فیصلوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزاری اوراسی جدوجہد میں اپنی زندگی کے بارہ قیمتی سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیئے۔

    آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِخرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔

    آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ نظم کرنے پرہوئی۔ آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اورنشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔

    جالب نے زندگی کے بارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیے‘ حوالات تو ان کا آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔جب کوئی نیا افسرآتا تو کہتا تھا کہ باغی جالب کی فائل لے آؤ۔

    جالب غربت کے ماحول میں جیے اور غریب کے عالم میں ہی دنیا سے گزر گئے لیکن اردو کے دامن میں مظاہمتی شاعری کا اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑگئے کہ جب بھی اردو بولنے والے نظام کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کریں گے تو رجز میں جالب کے اشعار ہی پڑھے جائیں گے۔

    ان کا انتقال 13 مارچ 1993 کو لاہور میں ہوا، ویکی پیڈیا پر ان کی تاریخ وفات غلط درج ہونے کے سبب بہت سے ادارے ان کی برسی 12 مارچ کو مناتے ہیں ۔

    ان کی بیٹی طاہرہ جالب اپنے والد کے مشن سے بے پناہ متاثر ہیں اور اسے آگے بڑھانے کے لیےکوشاں ہیں۔اے آروائی نیوز نے ان کی برسی کے موقع پر ان کی بیٹی ’طاہرہ جالب ‘ کا خصوصی انٹرویو کیا جس میں وہ اپنے والد کی جدوجہد اوراپنے اوران کے رشتے کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہارکررہی ہیں۔

    طاہرہ جالب سے خصوصی گفتگو

    اے آروائی نیوز: اپنے اورحبیب جالب کے رشتے کے بارے میں بتائیے‘ بحیثیت باپ آپ نے انہیں کیسا پایا؟۔

    طاہرہ جالب: پہلا سوال ہی انتہائی مشکل ہے‘ ایک باپ اور بیٹی کے رشتے کو کبھی بھی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آج مجھے جو بھی عزت‘ شرف اورمحبتیں ملتی ہیں یہ سب ان کے تعلق سے ہیں۔ ان کی ساری زندگی انتہائی مصروف گزری اور ہمارے پاس مستقل طورپروہ عمر کے ان دنوں میں آئے جب ان کی طبعیت انتہائی ناساز رہنے لگی تھی۔ اس وقت میں ان کے سارے کام میں بہت شوق سے کیا کرتی تھی‘ انہیں نہلانا‘ ان کے بالوں میں کنگا کرنا۔ انہیں شدید ناگوار گزرتا تھا کہ میں انہیں جوتی پہناؤں لیکن علالت کے سبب انہیں یہ برداشت کرنا پڑا جب کہ میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔

    اے آروائی نیوز: جالب نے ہتھکڑی نامی ایک نظم لکھی تھی اس کا پسِ منظر بتائیے؟

    طاہرہ جالب: انہوں نے یہ نظم ہماری بڑی بہن جمیلہ نورافشاں کو مخاطب کرکے لکھی تھی اور باپ بیٹی کے وہ جذبات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہماری وہ بہن اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔

    اے آروائی نیوز: جالب کئی شہروں میں مقیم رہے‘ کراچی اور لاہور میں زندگی کیسی گزری؟

    طاہرہ جالب: میری پیدائش تو خیر لاہور کی ہے‘ جالب صاحب تقسیم کے بعد کراچی آئے تو ان کے بڑے بھائی مشتاق حسین مبارک جو کہ محکمہ اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر تھے۔ کراچی میں جیکب لائن میں انہیں کوارٹر ملا ہوا تھا۔ جالب صاحب انہی کے دفتر میں پیون کی حیثیت سے کام کرتے تھے ‘ وہ انتہائی مشکل دور تھا۔ تایا کے اپنے پانچ بچے تھے اورپھر ہم لوگ بھی انہی کے ساتھ اس کوارٹر میں رہا کرتے تھے۔ لاہور آئے تو یہاں پہلے سنت نگر میں رہے تو وہاں بھی مشکلات درپیش رہیں الغرض آرام دہ زندگی کبھی نہیں گزری۔

    اے آر وائی نیوز: جالب صاحب جن دنوں جیل میں ہوا کرتے تھے تو ان مشکل ایام میں کون لوگ ساتھ دیا کرتے تھے؟

    طاہرہ جالب: ابو نے کُل 12 سال کا عرصہ جیل میں گزارا ہے اور سب سے طویل وقت جو ان کا جیل میں گزرا وہ ضیا الحق کے دور کا تھا جب انہوں نے پونے دو سال جیل میں گزارے۔ اس عرصے میں ان کے جیل سے پیغامات اپنے دوستوں کے نام ‘ محلے کے دوکانداروں کےنام آتے تھے کہ میرے گھر والوں کا خیال رکھنا انہیں راشن وغیرہ کی کمی نہ ہو‘ میں باہر آتے ہی قرضہ ادا کردوں گا تو یہ سارے لوگ بہت خیال رکھتے تھے۔

    اس کے علاوہ جن نامور لوگوں نے ان مشکل اوقات میں ہماری مدد کی ان میں کشور ناہید آنٹی کو میں کبھی نہیں بھول سکتی‘ احسان صاحب تھے‘ منٹو انکل کی طرف سے پیغامات آتے رہتے تھے اور وہ مالی مدد بھی کردیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ اعتزاز احسن بھی اکثرآیا کرتے تھے اورجب جالب صاحب رہا ہوجاتے تو یہی سارے افراد ہمارے ڈیڑھ کمرے کے کچے گھر میں جمع رہتے اور ہمارے ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھاتے پیتے تھے۔

    اے آروائی نیوز: کہتے ہیں کہ ایک کامیاب شخص کی پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘ کیا بیگم ممتاز جالب وہ خاتون ہیں جنہوں نے جالب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا؟

    طاہرہ جالب: جی! یقیناً ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام مرد کے پیچھے عورتوں کا لیکن جالب کا معاملہ الگ ہے ان کی کامیابی کے پیچھے تین خواتین کا ہاتھ ہے۔

    سب سے پہلے تو میری دادی اور جالب صاحب کی والدہ رابعہ بصری جن کی تربیت نے جالب کو حق گوئی کا عادی بنایا اور اتنا بے باک بنایا کہ مصائب کا سامنا کرکے بھی کلمۂ حق نہ چھوڑا جائے۔

    دوسری جالب کی بہن اور میری پھوپی رشیدہ بیگم کہ جن کی محنت کے سبب جالب کا پہلا مجموعہ کلام برگِ آوارہ ممکن ہوا ورنہ جالب خود اس قدر لاپرواہ تھے کہ اپنا کلام کاغذ کے ٹکڑوں اور سگریٹ کے ڈبوں پر لکھ کر ادھر ادھر رکھ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اس سب کلام کو سنبھال کر رکھا اور جالب کو فکری تحریک بھی دیتی رہیں۔

    بیگم ممتازجالب کا کردار

    اور اب بات کرتے ہیں میری والدہ بیگم ممتاز جالب کی‘ یقیناً ان کا بہت بڑا کردار ہے اور میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہی کہ وہ میری ماں ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں بہت ایثار کیا۔ جالب کبھی بھی کسی بھی ایسے موقع پر موجود نہیں ہوتے تھے جب ایک بیوی کو اپنے شوہر کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے خصوصاً بچوں کی پیدائش کے موقع پر بھی۔ لیکن انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا اور والد کو کبھی روز مرہ کی ضروریات کمانے کے لیے مجبورکیا بلکہ ہمیشہ اپنے پھٹے کپڑوں اور تنگی پر راضی رہیں اور ہمیں بھی یہی تربیت دی۔

    یقین کریں کہ والد کی وفات کے بعد اگر کسی موقع پر ہم نے حکومت کی جانب سے کوئی امداد حالات کے تقاضے کے تحت قبول کی تو ہمارے گھرمیں لڑائی ہوجاتی تھی اوروالدہ یہی کہا کرتی تھیں کہ ’یہ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا جالب ہوتے تو وہ کبھی نہیں لیتے‘۔

    اےآروائی نیوز: کیا آج بھی عوام کو بیدار کرنے والی جالب کی شاعری کے اثرات موجود ہیں؟

    طاہرہ جالب: دیکھیں! صورتحال ایسی ہے کہ سب اچھے بھی نہیں اور سب برے بھی نہیں۔ میں جالب کی بیٹی ہوں مجھے ورثے میں ملا ہے کہ میں کسی بھی طور آمریت کو قبول نہیں کرسکتی۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ جمہوری دور ہو یا آمرانہ ‘ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے رولز اینڈ ریگولیشن آتے تھے اور جالب ان کے خلاف بغاوت کرتے تھے۔ آج بھی جمہوری دور ہے اور ایسے قوانین آتے ہیں لیکن اب کوئی ساغر نہیں‘ کوئی ساحرنہیں اورنہ ہی کوئی جالب ہے کہ جو بغاوت کا علم بلند کرے‘ آج عوام کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔

    اے آروائی نیوز: برسرِاقتدار حلقے جب جالب کی نظمیں پڑھتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟

    طاہرہ جالب: ہنستے ہوئے! دیکھے اب اگرکوئی جالب کو پسند کرتا ہے اوران کا کلام پڑھتا ہے تو میں اسے روک نہیں سکتی لیکن مجھے اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ جالب کا کلام پڑھ کر حکمراں طبقے ان کی روح کو کچوکے لگاتے ہیں‘ کیونکہ جالب جن محلات کے خلاف تھے وہ انہیں حکمرانوں کے ہیں۔ انہوں نے پرائیویٹائزیشن کے نام پر مزدور کے منہ سے روٹی چھینی ہے‘ کیا وہ جانتے ہیں کہ محنت کش کے پسینے میں گندھی روٹی کاذائقہ کیسا ہے؟ نہیں نہ تو پھر انہیں جالب کا کلام نہیں پڑھنا چاہیے۔

  • انقلابی شاعر حبیب جالب کا خانوادہ بھی سرکاری نااہلی کے باعث دھکے کھانے پر مجبور

    انقلابی شاعر حبیب جالب کا خانوادہ بھی سرکاری نااہلی کے باعث دھکے کھانے پر مجبور

    لاہور: عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب کی صاحبزادی طاہرہ حبیب جالب نے کہا ہے کہ لیسکو کی جانب سے مجھے 75 ہزار روپے کا بل بھیج دیا گیا، حکومت کی طرف سے ملنے والا وظیفہ اب نہیں لیتے اور نہ مجھے کسی قسم کی مدد چاہیے۔

    اے آروائی کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے طاہرہ حبیب جالب کا کہنا تھا کہ والد کے انتقال کے بعد ماں اور بہن بھائیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت مزدوری کی۔

    اُن کا کہنا تھا کہ کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دیا، حکومت پنجاب کی طرف سے ملنے والا شاعر کوٹے کا وظیفہ لینے کے لیے ہمیں اتنے دھکے کھانے پڑتے تھے کہ اُتنی ہی رقم (25 ہزار) خرچ کرنی پڑ جاتی تھی اس لیے اُس وظیفے کو خود ہی بند کرادیا۔

    مزید پڑھیں:  بغاوت کے علم بردار حبیب جالب کے اہل خانہ کو بجلی کا اضافی بل موصول

    حبیب جالب کی صاحبزادی کا کہنا تھا کہ ابھی آن لائن ٹیکسی چلا رہی ہوں جبکہ ماضی میں پی سی او پر بھی بیٹھ کر  گزر بسر کیا، میں کسی سے مدد نہیں مانگ رہی کیونکہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوچکی۔

    اُن کا کہنا تھا کہ میں ڈھائی مرلے کے گھر میں رہتی ہوں اُس کے باوجود لاہور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (لیسکو) نے پچھلے ماہ 63 ہزار کا بل بھیجا جس کے لیے مختلف دفاتر کے چکر لگائے اور دھکے کھائے۔

    طاہرہ حبیب جالب کا کہنا تھا کہ بجلی کا جائز بل ادا کرچکی مگر پھر75ہزارکا بل بھیج دیا گیا، جب کہ میں نے سب کو جاکر بتایا کہ ہمارا گھر صرف ڈھائی مرلے کا ہے۔

    اُن کا مزید کہنا تھا کہ میں چونکہ ایک نامور شاعر کی بیٹی ہوں اس لیے میرا مسئلہ سامنے آگیا، میڈیا کے لوگوں نے رابطہ کیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بھی صارفین نے اظہار یکجہتی کیا، ہمارے معاشرے میں ایک عام گھرانے کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔

  • بغاوت کے علم بردار حبیب جالب کے اہل خانہ کو بجلی کا اضافی بل موصول

    بغاوت کے علم بردار حبیب جالب کے اہل خانہ کو بجلی کا اضافی بل موصول

    لاہور: شاعری میں بغاوت کے علم بردار جالب کے اہل خانہ کو مبینہ طور پر اضافی بل موصول ہوا ہے.

    ممتاز شاعر کی صاحب زادہ طاہرہ حبیب جالب کے مطابق  گذشتہ دو ماہ سے ان کا بجلی کا بل توقع سے بہت زیادہ آرہا ہے، جس کی وجہ سے شدید اذیت میں مبتلا ہیں۔

    طاہرہ حبیب جالب کے مطابق دو ماہ قبل انھیں 63253 روپے  کا بل موصول ہوا تھا، جس کی بہ مشکل 22326 روپے کی اقساط کروائیں، مگر پھر موسم کی تبدیلی اور بجلی کی کھپت میں کمی کے باوجود 31267 روپے کا بھاری بل آگیا.

    ان کا کہنا ہے کہ بقایا جات ملا کر اب موجودہ بل 78527 روپے واجب الادا ہے۔

    جالب کی صاحب زادی کا کہنا ہے کہ وہ لگ بھگ ڈھائی مرلے کے پورشن میں رہائش پذیر ہیں، اے سی، استری اور واشنگ مشین کا استعمال بے حد کم ہے.

    ایک نجی ٹیکسی کمپنی سے بہ طور ڈرائیور منسلک طاہرہ حبیب جالب کا کہنا تھا کہ انھیں سمجھ میں نہیں‌ آرہا کہ یہ بھاری بل کیسے ادا کریں.


     مزید پڑھیں: باغی جالب کی فائل آج بھی کھلی ہے؟


    انھوں‌ نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ان کے میٹر سے کوئی بجلی چوری کر رہا ہے، کیوں کہ ماضی میں بھی ایسا واقعہ ہوچکا ہے.

    طاہرہ حبیب کا کہنا تھا کہ انھوں‌ نے بھاگ دوڑ کرکے بل کی قسطیں کروائی ہیں، جو  27000  روپے بنتی ہیں اور یہ بھی ایک سفید پوش شخص کے لیے بہت بھاری رقم ہے.

  • باغی جالب کی فائل آج بھی کھلی ہے؟

    باغی جالب کی فائل آج بھی کھلی ہے؟

    اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب کی آج 25 ویں برسی منائی جارہی ہے‘ ان کی بیٹی طاہرہ جالب نے اس موقع پرکہا کہ آج بھی مسائل وہی ہیں لیکن آج کوئی جالب نہیں ہے۔

    حبیب جالب کو شاعرِعوام اورشاعرِانقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ انہوں نے ساری زندگی حکمرانوں اور کے عوام دشمن فیصلوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزاری اوراسی جدوجہد میں اپنی زندگی کے بارہ قیمتی سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیئے۔

    آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِخرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔

    آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ نظم کرنے پرہوئی۔ آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اورنشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔


    جالب نے زندگی کے بارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیے‘ حوالات تو ان کا آنا جانا لگا ہی رہتا تھا

    جب کوئی نیا افسرآتا تو کہتا تھا کہ باغی جالب کی فائل لے آؤ


    جالب غربت کے ماحول میں جیے اور غریب کے عالم میں ہی دنیا سے گزر گئے لیکن اردو کے دامن میں مظاہمتی شاعری کا اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑگئے کہ جب بھی اردو بولنے والے نظام کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کریں گے تو رجز میں جالب کے اشعار ہی پڑھے جائیں گے۔

    ان کی بیٹی طاہرہ جالب اپنے والد کے مشن سے بے پناہ متاثر ہیں اور اسے آگے بڑھانے کے لیے ان دنوں ’فکر جالب فاؤنڈیشن‘ کے نام سے ایک این جی اوکے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔

    اے آروائی نیوز نے ان کی برسی کے موقع پر ان کی بیٹی ’طاہرہ جالب ‘ کا خصوصی انٹرویو کیا جس میں وہ اپنے والد کی جدوجہد اوراپنے اوران کے رشتے کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہارکررہی ہیں۔

    post-4
    طاہرہ جالب

    طاہرہ جالب سے خصوصی گفتگو


    اے آروائی نیوز: اپنے اورحبیب جالب کے رشتے کے بارے میں بتائیے‘ بحیثیت باپ آپ نے انہیں کیسا پایا؟۔

    طاہرہ جالب: پہلا سوال ہی انتہائی مشکل ہے‘ ایک باپ اور بیٹی کے رشتے کو کبھی بھی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آج مجھے جو بھی عزت‘ شرف اورمحبتیں ملتی ہیں یہ سب ان کے تعلق سے ہیں۔ ان کی ساری زندگی انتہائی مصروف گزری اور ہمارے پاس مستقل طورپروہ عمر کے ان دنوں میں آئے جب ان کی طبعیت انتہائی ناساز رہنے لگی تھی۔ اس وقت میں ان کے سارے کام میں بہت شوق سے کیا کرتی تھی‘ انہیں نہلانا‘ ان کے بالوں میں کنگا کرنا۔ انہیں شدید ناگوار گزرتا تھا کہ میں انہیں جوتی پہناؤں لیکن علالت کے سبب انہیں یہ برداشت کرنا پڑا جب کہ میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔

    post-1
    جالب بیماری کے ایام میں امین مغل کے ہمراہ

    اے آروائی نیوز: جالب نے ہتھکڑی نامی ایک نظم لکھی تھی اس کا پسِ منظر بتائیے؟

    طاہرہ جالب: انہوں نے یہ نظم ہماری بڑی بہن جمیلہ نورافشاں کو مخاطب کرکے لکھی تھی اور باپ بیٹی کے وہ جذبات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہماری وہ بہن اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔

    اے آروائی نیوز: جالب کئی شہروں میں مقیم رہے‘ کراچی اور لاہور میں زندگی کیسی گزری؟

    طاہرہ جالب: میری پیدائش تو خیر لاہور کی ہے‘ جالب صاحب تقسیم کے بعد کراچی آئے تو ان کے بڑے بھائی مشتاق حسین مبارک جو کہ محکمہ اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر تھے۔ کراچی میں جیکب لائن میں انہیں کوارٹر ملا ہوا تھا۔ جالب صاحب انہی کے دفتر میں پیون کی حیثیت سے کام کرتے تھے ‘ وہ انتہائی مشکل دور تھا۔ تایا کے اپنے پانچ بچے تھے اورپھر ہم لوگ بھی انہی کے ساتھ اس کوارٹر میں رہا کرتے تھے۔ لاہور آئے تو یہاں پہلے سنت نگر میں رہے تو وہاں بھی مشکلات درپیش رہیں الغرض آرام دہ زندگی کبھی نہیں گزری۔

    اے آر وائی نیوز: جالب صاحب جن دنوں جیل میں ہوا کرتے تھے تو ان مشکل ایام میں کون لوگ ساتھ دیا کرتے تھے؟

    طاہرہ جالب: ابو نے کُل 12 سال کا عرصہ جیل میں گزارا ہے اور سب سے طویل وقت جو ان کا جیل میں گزرا وہ ضیا الحق کے دور کا تھا جب انہوں نے پونے دو سال جیل میں گزارے۔ اس عرصے میں ان کے جیل سے پیغامات اپنے دوستوں کے نام ‘ محلے کے دوکانداروں کےنام آتے تھے کہ میرے گھر والوں کا خیال رکھنا انہیں راشن وغیرہ کی کمی نہ ہو‘ میں باہر آتے ہی قرضہ ادا کردوں گا تو یہ سارے لوگ بہت خیال رکھتے تھے۔

    post-3
    جالب کی گرفتاری کا منظر

    اس کے علاوہ جن نامور لوگوں نے ان مشکل اوقات میں ہماری مدد کی ان میں کشور ناہید آنٹی کو میں کبھی نہیں بھول سکتی‘ احسان صاحب تھے‘ منٹو انکل کی طرف سے پیغامات آتے رہتے تھے اور وہ مالی مدد بھی کردیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ اعتزاز احسن بھی اکثرآیا کرتے تھے اورجب جالب صاحب رہا ہوجاتے تو یہی سارے افراد ہمارے ڈیڑھ کمرے کے کچے گھر میں جمع رہتے اور ہمارے ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھاتے پیتے تھے۔

    اے آروائی نیوز: کہتے ہیں کہ ایک کامیاب شخص کی پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘ کیا بیگم ممتاز جالب وہ خاتون ہیں جنہوں نے جالب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا؟

    طاہرہ جالب: جی! یقیناً ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام مرد کے پیچھے عورتوں کا لیکن جالب کا معاملہ الگ ہے ان کی کامیابی کے پیچھے تین خواتین کا ہاتھ ہے۔

    سب سے پہلے تو میری دادی اور جالب صاحب کی والدہ رابعہ بصری جن کی تربیت نے جالب کو حق گوئی کا عادی بنایا اور اتنا بے باک بنایا کہ مصائب کا سامنا کرکے بھی کلمۂ حق نہ چھوڑا جائے۔

    دوسری جالب کی بہن اور میری پھوپی رشیدہ بیگم کہ جن کی محنت کے سبب جالب کا پہلا مجموعہ کلام برگِ آوارہ ممکن ہوا ورنہ جالب خود اس قدر لاپرواہ تھے کہ اپنا کلام کاغذ کے ٹکڑوں اور سگریٹ کے ڈبوں پر لکھ کر ادھر ادھر رکھ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اس سب کلام کو سنبھال کر رکھا اور جالب کو فکری تحریک بھی دیتی رہیں۔

    post-2

    بیگم ممتازجالب کا کردار

    اور اب بات کرتے ہیں میری والدہ بیگم ممتاز جالب کی‘ یقیناً ان کا بہت بڑا کردار ہے اور میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہی کہ وہ میری ماں ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں بہت ایثار کیا۔ جالب کبھی بھی کسی بھی ایسے موقع پر موجود نہیں ہوتے تھے جب ایک بیوی کو اپنے شوہر کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے خصوصاً بچوں کی پیدائش کے موقع پر بھی۔ لیکن انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا اور والد کو کبھی روز مرہ کی ضروریات کمانے کے لیے مجبورکیا بلکہ ہمیشہ اپنے پھٹے کپڑوں اور تنگی پر راضی رہیں اور ہمیں بھی یہی تربیت دی۔

    یقین کریں کہ والد کی وفات کے بعد اگر کسی موقع پر ہم نے حکومت کی جانب سے کوئی امداد حالات کے تقاضے کے تحت قبول کی تو ہمارے گھرمیں لڑائی ہوجاتی تھی اوروالدہ یہی کہا کرتی تھیں کہ ’یہ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا جالب ہوتے تو وہ کبھی نہیں لیتے‘۔

    اےآروائی نیوز: کیا آج بھی عوام کو بیدار کرنے والی جالب کی شاعری کے اثرات موجود ہیں؟

    طاہرہ جالب: دیکھیں! صورتحال ایسی ہے کہ سب اچھے بھی نہیں اور سب برے بھی نہیں۔ میں جالب کی بیٹی ہوں مجھے ورثے میں ملا ہے کہ میں کسی بھی طور آمریت کو قبول نہیں کرسکتی۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ جمہوری دور ہو یا آمرانہ ‘ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے رولز اینڈ ریگولیشن آتے تھے اور جالب ان کے خلاف بغاوت کرتے تھے۔ آج بھی جمہوری دور ہے اور ایسے قوانین آتے ہیں لیکن اب کوئی ساغر نہیں‘ کوئی ساحرنہیں اورنہ ہی کوئی جالب ہے کہ جو بغاوت کا علم بلند کرے‘ آج عوام کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔

    اے آروائی نیوز: برسرِاقتدار حلقے جب جالب کی نظمیں پڑھتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟

    طاہرہ جالب: ہنستے ہوئے! دیکھے اب اگرکوئی جالب کو پسند کرتا ہے اوران کا کلام پڑھتا ہے تو میں اسے روک نہیں سکتی لیکن مجھے اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ جالب کا کلام پڑھ کر حکمراں طبقے ان کی روح کو کچوکے لگاتے ہیں‘ کیونکہ جالب جن محلات کے خلاف تھے وہ انہیں حکمرانوں کے ہیں۔ انہوں نے پرائیویٹائزیشن کے نام پر مزدور کے منہ سے روٹی چھینی ہے‘ کیا وہ جانتے ہیں کہ محنت کش کے پسینے میں گندھی روٹی کاذائقہ کیسا ہے؟ نہیں نہ تو پھر انہیں جالب کا کلام نہیں پڑھنا چاہیے۔


     

  • انقلابی شاعرحبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 24برس بیت گئے

    انقلابی شاعرحبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 24برس بیت گئے

    کراچی : عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کی چوبیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ حبیب جالب 28 فروری 1928ء کو متحدہ ہندوستان کے ضلع ہوشیار پور کے ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئے، حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔

    اینگلو عریبک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے 15 سال کی عمر سے ہی مشق سخن شروع کردی تھی، ابتداء میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہا کر تے تھے۔ معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف قلم سے لڑنے والے حبیب جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو حق بات پر ڈٹ جانے کا سبق دیتی ہے۔

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
    ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    حبیب جالب کی یہ شہرہ آفاق نظم ان کی اپنی آواز میں قارئین کی نذر

    نڈر بے باک باہمت حوصلہ مند شاعر حبیب جالب حبیب جالب جب قلم اٹھاتا ہے تو اقتدار کے ایوان لرز اٹھتے ہیں، ترقی پسند شاعر ہونے کی حیثیت سے جالب نے جنرل ایوب خان اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف لکھا، جالب کی شاعری میں انقلاب کا درس ہے۔

    رقص، زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
    تو کہ ناواقفِ آداب غلامی ہے ابھی

    وہ ساری عمر انقلاب کی آس میں جیلیں کاٹتے رہے اور پولیس سے مار کھاتے رہے جس پر وہ فخر کا اظہار کرتے تھے۔

    ایک مرتبہ جیل میں ان سے کہا گیا کہ انہیں کاغذ اور قلم فراہم نہیں کیا جائے گا جس پر انہوں نے جواب دیا ‘میں آپ کے محافظوں کو اپنے شعر سناؤں گا اور وہ اسے دیگر افراد کو سنائیں گے اور اس طرح یہ لاہور تک پہنچ جائے گا۔’

    ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
    پتھر کو گُہر ، دیوار کو دَر ، کرگس کو ہُما کیا لکھنا

    جالب کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ وہ کئی طرح سے معاشرے میں رائج روایات کے خلاف تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی بائیں بازو کی ترقی پسند تحریک کے لیے وقف کردی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عوامی سطح پر وہ اس تحریک کی سب سے زیادہ وکالت کرتے تھے۔

    جہل کے آگے سر نہ جھکایا میں نے کبھی
    سِفلوں کو اپنا نہ بنایا میں نے کبھی
    دولت اور عہدوں کے بل پر جو اینٹھیں
    ان لوگوں کو منہ نہ لگایا میں نے کبھی
    میں نے چور کہا چوروں کو کھل کے سر محفل
    دیکھ اے مستقبل

    جالب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہیں شوشلزم کے پیچیدہ خیالات کو سیاست، شاعری اور طنز و مزاح کا روپ دینا آتا تھا۔

    habib-post-01

    دستورحبیب جالب کی ایسی نظم تھی کہ جس نے عوام کو حبیب جالب کے عشق میں گرفتار کردیا، حبیب جالب نے جو دیکھا اور جو محسوس کیا نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس کو اپنے الفاظ میں ڈھال دیا۔

    حبیب جالب تیرہ مارچ 1993ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی انقلابی شاعری کا پیدا کردہ ولولہ آج بھی لوگوں کے دلوں کو گرماتا ہے۔

  • حبیب جالب کی یاد میں تقریب، رضا ربانی، افراسیاب خٹک اور حاصل بزنجو شریک

    حبیب جالب کی یاد میں تقریب، رضا ربانی، افراسیاب خٹک اور حاصل بزنجو شریک

    اسلام آباد: انقلابی شاعر حبیب جالب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے شہر اقتدار میں اک خوبصورت شام کا اہتمام کیا گیا۔

    اسلام آباد کے تفریحی مقام لوک ورثہ میں سجائی گئی ایک دلکش محفل میں عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کی شخصیت ، کردار اور شاعری کی محاسن کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

    محفل میں شریک چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی ، سینٹر افراسیاب خٹک اورمیر حاصل بزنجو نے حبیب جالب کی آمریت اورغیر جمہوری حکومتوں کے خلاف جدوجہد پر روشنی ڈالی۔

    شاعری تقریب میں حبیب جالب کے خیالات کی عکاسی کے لیے منفرد انداز اپنایا گیا جس نے حاضرین محفل کے دلوں کو چھو لیا، سیاستدانوں اورعلم و ادب کا ذوق رکھنے والوں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے اس محفل میں بھرپور شرکت کی۔


    Habib Jalib by arynews

  • شاعرِانقلاب حبیب جالب کوبچھڑے 22 برس بیت گئے

    شاعرِانقلاب حبیب جالب کوبچھڑے 22 برس بیت گئے

    اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب1928ء میں بھارتی پنجاب کے دسوہہ ضلع ہوشیارپورمیں پیدا ہوئےانہیں شاعرِعوام اور شاعرِ انقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اینگلوعربک ہائی سکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی اور ایک نجی روزنامہ سے منسلک ہوئے، بعد ازاں لائل پورٹیکسٹائل مل میں ملازمت اختیارکرلی۔

    ،پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957میں شائع کیا،مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالاخرلاہور میں مستقل آباد ہوگئے، آپ اپنے ہی اس شعر کی عملی تفسیرتھےکہ

    یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
    جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

    آزادی کے بعد کراچی آگئے اورکچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔ 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی

    ایوب خان اور یحیٰی خان کے دورِآمریت میں متعدد بارقید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالب کو 1960 کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے’سرِمقتل‘ کے عنوان سے چند اشعارکہےجو حکومتِ وقت نے ضبط کر ليۓ ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالب نے1960 اور 1970 کے عشروں بہت خوبصورت شاعری کي جس ميں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپوراحتجاج کيا

    نومبر 1999 میں جب اس وقت کے حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو مشرف کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالب کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔

    1958میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا ،1962میں اسی ایوبی آمریت نےنام نہاد دستور پیش کیا جس پرجالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگادی۔ ،

    ایسے دستورکو، صبح بےنورکو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    1970کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکژیتی پارٹی کو منتقل نہی کیا بلکہ ان پرگولیاں برسایئں اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کررہا تھاتو یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہہ رہے تھے۔

    محبت گولیوں سے بورہے ہو
    وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
    گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
    یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

    1974میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسندِ اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کردیا،اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی

    قصر شاہی سے یہ حکم صادرہوا
    لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو

    ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں کہا

    ظلمت کو ضیاء صرصرکوصبا
    بندے کوخدا کیا لکھنا

    آمریت کے بعد جب پیپلزپارٹی کا پہلا دورحکومت آیا اورعوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا

    وہی حالات ہیں فقیروں کے
    دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
    ہربلاول ہے دیس کا مقروض
    پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

    آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِ خرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔

    آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ تحریرپرشہرت حاصل ہوئی۔

    آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اور نشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔ آپ کی وفات 13 مارچ 1993 کو لاہور میں ہوئی۔