Tag: حبیب جالب کی شاعری

  • عوام کے محبوب، حکم رانوں کے معتوب حبیب جالب کی برسی

    عوام کے محبوب، حکم رانوں کے معتوب حبیب جالب کی برسی

    آج سیاسی جبر، سماجی سطح پر ناانصافی، عدم مساوات، طبقاتی اور سرمایہ دارانہ نظام اور وقت کے آمروں کو للکارنے والے حبیب جالب کی برسی ہے۔ 12 مارچ 1993ء کو وفات پاجانے والے حبیب جالب کو ان کے انقلاب آفریں نغمات اور جدوجہد کی وجہ سے شاعرِ عوام کہا جاتا ہے۔

    حبیب جالب نے جو لکھا زبان زدِ عام ہو گیا۔ ظلم اور زیادتی کے خلاف ان کی شاعری نے جہاں عوام میں بیداری اور جوش و ولولہ پیدا کیا، وہیں اپنے اشعار میں وقت کے آمروں اور مفاد پرست ٹولے کو بھی للکارا اور ان کے خلاف آواز بلند کی۔

    حبیب جالب نے غربت، تنگ دستی اور نامساعد حالات کے باوجود بے بس، ناچار اور ناانصافی و طبقاتی نظام کی چکّی میں پسنے والے ہم وطنوں کا ساتھ دیا اور شاعری کے ساتھ سڑکوں پر ریاستی جبر اور عوام دشمن فیصلوں کے خلاف احتجاج بھی کیا، انھوں نے کوڑے بھی کھائے اور زنداں کی صعوبت بھی جھیلی، لیکن پیچھے نہیں‌ ہٹے۔

    بے خوف اور نڈر حبیب جالب کی توانا فکر نے جہاں اردو شاعری کو انقلاب آفریں نغمات سے سجایا، وہیں ان کے رومانوی گیت بھی قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن انھیں اپنی عوامی شاعری کی وجہ سے زیادہ مقبولیت ملی۔

    24 مارچ 1928ء کو میانی افغاناں، ہوشیار پور میں پیدا ہونے والے حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔

    1962ء میں صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف ان کی نظم دستور ملک بھر میں سنی گئی جس کا یہ شعر "ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو، میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا” آج بھی ہر عوامی جدوجہد اور احتجاجی تحریک کا حصّہ ہوتا ہے۔ وہ محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم میں بھی متحرک تھے۔ وہ ایسے انقلابی تھے جو ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔

    برگِ آوارہ، سرِمقتل، عہدِ ستم، حرفِ حق، ذکر بہتے خون کا، گوشے میں قفس کے، حبیب جالب کے شعری مجموعے ہیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے نغمہ نگاری بھی کی۔ تاہم ان کا سب سے بڑا اور روشن حوالہ ان کی عوام دوستی اور پاکستان میں جمہوریت اور عوام کے حقوق کی جدوجہد ہے۔ 2008ء میں حکومتِ پاکستان نے حبیب جالب کے لیے نشانِ امتیاز کا اعلان کیا تھا۔ اس انقلابی شاعر کا مدفن لاہور میں ہے۔

  • حبیب جالب کی’’دستور‘‘ سے مودی کے دستور کو للکارتے بھارتی

    حبیب جالب کی’’دستور‘‘ سے مودی کے دستور کو للکارتے بھارتی

    سیاسی جبر کے مخالف، مساوات کے پرچارک اور انصاف کے متوالے حبیب جالب کے انقلابی ترانے ہندوستان میں گلی گلی گونج رہے ہیں۔

    جالب کی نظموں کے اشعار نعروں کی صورت مودی سرکار کو للکار رہے ہیں۔ بھارتی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کے دوران خاص طور پر نوجوانوں نے پاکستان کے اس عظیم انقلابی شاعر کی مشہور ترین نظم دستور کو اپنا نعرہ اور پرچم بنا لیا ہے۔

    حبیب جالب نے ظلم، زیادتی اور ناانصافی کے خلاف جو ترانے لکھے، وہ مقبول ہوئے۔ جو شعر کہا وہ زبان زدِ عام ہوا۔ کسی دور میں مصلحت سے کام نہ لینے والے حبیب جالب ہر مظلوم کے دل کی آواز بنے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ آمریت اور سیاسی جبر کے خلاف بات کریں، طبقاتی نظام سے لڑنا ہو یا کروڑوں عوام کے حق کے لیے آواز اٹھانی ہو، آج بھی حبیب جالب کے ترانے اور ان کے اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے۔

    مودی کے جنون کی نذر ہوتے بھارت اور ہندتوا کی آگ میں جلتے ہندوستانی معاشرے کے سنجیدہ، باشعور، نڈر اور بے باک عوام شاعرِ انقلاب کی مشہور نظم ‘‘دستور’’ سے حق و انصاف کا الاؤ بھڑکاتے ہوئے سڑکوں پر نظر آرہے ہیں۔ اجتماعات کے دوران حبیب جالب کی نظمیں‌ پڑھی جارہی ہیں اور بینروں‌ پر ان کے اشعار لکھے ہوئے ہیں۔

    گزشتہ دنوں‌ ایک تصویر دنیا کے سامنے آئی جس میں‌ بھارتی لڑکی نے بینر اوڑھا ہوا ہے جو جالب کی مشہور نظم دستور کے اشعار سے سجا ہوا ہے۔

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے

    ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

    میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
    میں بھی منصور ہوں، کہہ دو اغیار سے
    کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

    ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا

    تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
    اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
    چارہ گر دردمندوں کے بنتے ہو کیوں

    تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر
    میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا!