Tag: حبیب ولی محمد

  • معروف گلوکار حبیب ولی محمد کا تذکرہ

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد کا تذکرہ

    حبیب ولی محمد کو ہم سے جدا ہوئے آٹھ سال بیت گئے ہیں، لیکن ان کی آواز میں غزلیں، کئی فلمی گیت اور ملّی نغمات آج بھی ہماری سماعتوں میں رَس گھول رہے ہیں۔ 4 ستمبر 2014ء کو وفات پانے والے حبیب ولی محمد شوقیہ گلوکار تھے جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بدولت پاکستان بھر میں پہچانے گئے۔

    پاکستان کے اس معروف گلوکار کا آبائی وطن برما تھا جہاں انھوں نے شہر رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا اور تقسیم کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے۔ حبیب ولی محمد نے طویل عرصہ علالت کے بعد امریکا میں‌ وفات پائی۔ ان کی عمر 93 سال تھی۔

    حبیب ولی محمد منفرد آواز کے مالک تھے اور ان کی وجہِ شہرت غزل گائیکی تھی۔ مشہور غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘ کے علاوہ ان کی آواز میں ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ جیسا کلام باذوق سامعین میں بہت مقبول ہوا۔ معین احسن جذبی کی غزل ‘مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے’ نے حبیب ولی محمد کی شہرت کو گویا بامِ عروج تک پہنچا دیا تھا۔

    حبیب ولی محمد کو بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے فلمی گیت بھی گائے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے، لیکن ان کی آواز میں ملّی نغمات اور خاص طور پر غزلوں کے ریکارڈ بہت پسند کیے گئے۔ اس معروف گلوکار کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ٹی وی، ریڈیو اور فلم کے لیے کئی گیت اور غزلیں‌ گائیں اور ان کے گائے ہوئے لافانی نغمات آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔ تاہم انھیں‌ ایک غزل گائیک کے طور پر زیادہ شہرت ملی۔وہ 4 ستمبر 2014ء کو امریکا میں‌ وفات پا گئے تھے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔

    حبیب ولی محمد برما کے شہر رنگون میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا تھا۔ تقسیم کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے تھے۔

    انھیں غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘ گانے کے بعد بے حد شہرت ملی۔ اس کے بعد انھوں کئی نغمے اور غزلیں گائیں جو ہر خاص و عام میں مقبول ہوئیں۔ ان کی گائی ہوئی مشہور غزلوں میں ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ شامل ہیں۔ ان کی یہ غزل نہایت مقبول ہوئی جو معین احسن جذبی کی تخلیق تھی، مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے!

    حبیب ولی محمد کو بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے بہت کم فلمی گیت گائے جب کہ انھوں نے متعدد ملّی نغمے بھی گائے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ وہ شوقیہ گلوکار تھے۔ اس معروف گلوکار کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • معروف گلوکار حبیب ولی محمد امریکہ میں انتقال کر گئے

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد امریکہ میں انتقال کر گئے

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد امریکہ کے شہر لاس اینجلس کے اسپتال میں انتقال کرگئے، انکی عمر ترانوے برس تھے۔

    حبیب ولی محمد انیس سو اکیس میں برما کے شہر رنگون میں پیدا ہوئے، جس کے بعد ان کا گھرانہ ممبئی منتقل ہوگیا، حیب ولی محمد کو بچپن میں قوالی سننے کا بے حد شوق تھا۔

    انیس سو سینتالیس میں نیویارک سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان کا رخ کیا، انہوں نے مشہور شعرا کے کلام پڑھ کراپنی آواز کا جادو جگایا ۔ حبیب ولی محمد نے فلمی نغمے بھی گائے، جن میں ایک غزل آج جانے کی ضد نہ کرو آج بھی سننے والوں کو یاد ہے۔

    حبیب ولی محمد کے ملی نغموں میں سے روشن و رخشان نیر و تاباں پاکستان رہےشامل ہے۔