Tag: حجاب امتیاز علی

  • ظالم محبّت

    ظالم محبّت

    دوسرے دن میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حسین صبح اپنی سحر انگیز آنکھوں کو کھول رہی ہے۔ باغ کی طرف کے دریچے کھلے ہوئے تھے اور آفتاب کی اچھوتی کرنیں گرجنے والے نیلے سمندر پر مسکرا رہی تھیں۔ باغیچے میں راگ گانے والے پرند مصروفِ نغمہ تھے مگر میرا دل اس دل فریب صبح میں بھی پریشان تھا۔

    میں نے سرہانے کی کھڑکی کا سنہرا پردہ ہٹایا اور جھانک کر باغ میں دیکھنے لگی۔

    عین دریچے کے نیچے ایک بڑا سا سرخ گلاب بہار کی عطر بیز ہواؤں میں والہانہ جھوم رہا تھا۔ نہ جانے زندگی کی کون سی تفسیر بیان کررہا ہے! کسے معلوم محبت کے کس پیچیدہ مسئلہ کی تشریح کررہا ہے! میں نے پریشان لہجہ میں اپنے آپ سے کہا۔ اتنے میں پردہ ہٹا۔ دیکھا تو زوناش (بوڑھی حبشی خادمہ) اپنی موٹی کمر سمیت اندر داخل ہورہی ہے: "خاتون روحی!” اس نے قدرے حیران ہوکر کہا۔

    "آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں؟ بیگم زبیدہ ناشتہ کے لئے آپ کا انتظار کررہی ہیں۔”

    صبح کے وقت میں کچھ زیادہ تنک مزاج ہوتی ہوں۔ زوناش سے خصوصاً کچھ چڑ سی ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جھک کر صوفے کے پیچھے سے ستار اٹھا لیا اور اس کے تاروں کو درست کرنے لگی۔ زوناش ایک خوش رنگ ایرانی قالین پر کھڑی مجھ سے سوال پر سوال کئے جارہی تھی۔ اتنے میں دادی زبیدہ کی خادمہ صنوبر اندر آئی۔ خاتون روحی، چائے تیار ہے بیگم آپ کی منتظر ہیں۔

    میں ایک بیزار ادا سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ قد آدم آئینہ کے آگے کھڑی بالوں پر ایک پن لگا رہی تھی کہ ایک خیال نے مجھے چونکا دیا۔

    "زوناش! چائے کی میز پر دادی زبیدہ تنہا ہیں یا چشمی صاحب بھی موجود ہیں؟ مجھے کیا معلوم بی بی؟ زوناش کے ان روکھے سوکھے جوابوں سے مجھے دلی نفرت تھی۔ اور منیر کو رات بخار تو نہیں ہو گیا؟ کیسے رہے؟ یہ سوال میں نے مصلحتاً کیا۔

    "نہیں۔ وہ اچھے ہیں۔” میں تبدیلیٔ لباس کے بعد چپ شاپ نچلی منزل میں آگئی۔ دیکھا تو دادی زبیدہ ایک نفیس ریشمی لباس میں بیٹھی ناشتہ کے لئے میرا انتظار کر رہی تھیں۔ ایک ہاتھ فاختائی رنگ کے دستانہ میں ملفوف تھا۔ دوسرا دستانہ سے خالی تھا۔ اس کی انگلیوں میں سگریٹ پکڑ رکھا تھا جس کا مسلسل دھواں اٹھ اٹھ کر دائرہ کی شکل میں گھوم رہا تھا۔ سامنے حسبِ عادت اخبار پڑا تھا جسے وہ کبھی کبھی پڑھ لیتی تھیں۔ میں نے جاکر انہیں پیار کیا۔ آداب دادی جان پیاری! آداب۔ تم بڑی دیر میں آئی پیاری۔ میں سویرے اٹھ گئی تھی۔ نماز میں کچھ دیر لگ گئی۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے مقابل والی خالی کرسی پر نگاہ ڈالی۔ پھر کچھ تأمل کے بعد پوچھا، چشمی صاحب کہاں ہیں؟ کیا وہ چائے پی چکے؟ وہ آج صبح سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ دادی زبیدہ نے بے پروائی سے کہا: مربہ لو گی؟ لے لوں گی۔ وہ کہاں گئے ہیں دادی جان؟ میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔

    یہ لو گاجر کا حلوا۔ اور یہ شہتوت کا مربہ۔ اس موسم میں صبح کے ناشتہ پر تازہ پھل ضرور کھانے چاہئیں۔ انناس کے قتلے لے لو۔ میں نے بادلِ ناخواستہ ایک ٹکڑا لیا اور چھری سے کاٹ کر کھانے لگی۔ دو منٹ بعد ہمت کر کے وہی سوال دہرایا۔ تو چشمی صاحب کہاں گئے ہیں دادی جان؟

    جو انناس تم کھا رہی ہو وہ ترش تو نہیں؟ اگر ترش ہو تو کیلا لے لو۔ چشمی صاحب کشتی کی سیر کے لئے گئے ہیں۔ غریب دن رات منیر کے کمرہ میں رہتا ہے۔ آج اس نے چھٹی منائی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس لڑکے کو نہایت شریف پایا۔ یہ انجیر لو بیٹی۔

    میں چپ تھی اور سوچ رہی تھی ۔ منیر کی تیمار داری نے آخر چشمی کو مضمحل کر دیا۔ میں جانتی تھی کہ دوسرے کی تیمار داری ایک دن خود انہیں بیمار کر ڈالے گی۔ میں نے دبی زبان سے پوچھا: "تو کیا چشمی صاحب علیل ہیں دادی جان؟”

    "نہیں۔ ویسے ہی تفریحاً باہر گئے ہیں۔ لڑکی! تمہاری آنکھیں گلابی ہو رہی ہیں۔ طبیعت کیسی ہے؟” "جب سے یہاں آئی ہوں طبیعت کچھ سست سی رہتی ہے ، دادی جان۔”

    دادی زبیدہ نے فکر مندی کے الفاظ میں کہا۔ "سمندر کی ہوا تمہارے لئے مفید ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہوتا تو میں چشمی صاحب سے التجا کرتی کہ تمہیں کشتی کی سیر کے لئے ساتھ لے جائیں۔ بڑا شریف آدمی ہے۔” مالک جانے میرا دل کیوں دھڑکنے لگا ۔ کشتی کی سیر! لہروں کی خاموش موسیقی! جھکی ہوئی خم دار ٹہنیوں کے سایہ میں چشمی جیسے ملاح کے ساتھ ایک نامعلوم آبی راستہ پر چلا جانا! یہ سب کچھ کس قدر رومان آفریں تھا۔

    "شام تک وہ لوٹ آئیں گے۔ میں ان کے ساتھ شام کو باہر جاسکتی ہوں دادی جان؟” میں نے بھولی شکل بناکر پوچھا۔ "ہاں کیوں نہیں مگر منیر سے پوچھ لو۔ منیر سے پوچھ لو!” میری خوشیوں کے افق پرایک سیاہ بدلی ابھرنے لگی۔

    ناشتہ کے بعد میں منیر کی مزاج پرسی کے لئے ان کے کمرے کی طرف گئی۔ دروازہ تک جا کر رک گئی ۔ کہیں چشمی نے اس بد نصیب آدمی کو میرا پیام پہنچا تو نہیں دیا۔ دل دھک سے رہ گیا۔ ڈرتے ڈرتے پردہ ہٹا کر اندر آگئی مگر آثار کچھ ایسے معلوم نہ ہوئے۔ کیونکہ مجھے دیکھ کر منیر کے چہرے پر وہی پرانی شگفتہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نہ جانے کیوں اسے دیکھ کر میرا دل دکھا۔ کچھ دیر بعد میں نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کی کہ میں کیوں اس سے محبت نہیں کر رہی، کیا باوجود کوشش کے میں اس سے محبت نہ کر سکوں گی؟ اپنے منسوب سے!! اپنے ظلم پر خود اپنی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میں نے چہرہ دریچہ کی طرف پھیر لیا۔ پھر بڑی ملائمت سے سوال کیا:

    "منیر! آج تم بہت شگفتہ نظر آرہے ہو ۔ کہو رات کیسی کٹی؟ ”

    "شکریہ! بہت اچھی کٹی۔ نیز محسوس کررہا ہوں کہ صحت بڑی سرعت سے مجھ پر عود کر رہی ہے۔” اسی وقت دادی جان اندر آئیں اور کہنے لگیں: "خدا نے چاہا تو ایک ہفتہ میں بالکل تندرست ہوجاؤ گے۔ پھر انشاء اللہ میں تم دونوں کو ایّام عروسی بسر کرنے کوہ فیروز کے پُر فضا مرغ زاروں میں چھوڑ دوں گی۔” منیر مسکرا پڑا۔ میں دور کہیں فضا میں تک رہی اور تشنج کی سی کیفیت محسوس کررہی تھی۔

    کچھ دیر بعد دادی زبیدہ چہل قدمی کے لئے باہر چلی گئیں اور کمرے پر موت کی سی خاموشی طاری ہوگئی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ ایک ڈوب ڈوب کر ابھر رہا تھا، دوسرا ابھر ابھر کر ڈوب جاتا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے منیر کو دیکھا۔ وہ بغور مجھے تک رہا تھا۔ اس کے گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کا نوجوان چہرہ وفور مسرت سے آفتاب کی طرح دمک رہا تھا۔ وہ مجھ پر جھک کر کہنے لگا۔ "تمہیں کوہ فیروز کے مرغ زار پسند ہیں؟”

    "بہت منیر!” دھڑکتے ہوئے دل سے میں نے کہا۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا۔ نہایت دھیمے لہجہ میں بولا: "میری جان! زندگی کی کلی ایسے ہی مرغزاروں میں کھل کر پھول بنتی ہے۔ روحی اس دن کا خیال کرو جس دن ہم دونوں۔۔۔ پھولوں سے سجے ہوئے پھلوں سے لدے ہوئے باغیچوں میں چنبیلی کی معطر بیلوں تلے ایک دوسرے کی محبت کا اعتراف کریں گے۔”

    میرے دل پر ایک تیر سا لگا کیونکہ میں ابھی تک اس کشتی کا خواب دیکھ رہی تھی جس کا ملاح چشمی تھا۔ دو منٹ بعد مجھے اپ نی خاموشی کا احساس ہوا۔ بولی: "واقعی منیر! باغیچوں میں چنبیلی کی بیلوں تلے محبت کا رات گانا بے حد پرلطف ہوگا۔”

    "اور پھر ہم دونوں”۔۔۔ منیر نے جملہ ختم نہ کیا۔ مگر "ہم دونوں” کے لفظ نے میرے کاہیدہ جسم میں ایک ارتعاش پیدا کردیا۔ کون دونوں۔۔۔؟ منیر اور میں۔۔؟ یا دو محبت کرنے والے دل؟

    کچھ دیر بعد میں منیر کے کمرے سے باہر نکل آئی۔ باغ کے زینے پر کھڑی سوچتی رہی۔ آہ! میری زندگی کا پلاٹ کتنا عجیب ہے! اگر میں منیر سے نفرت کر سکتی تو میں ان الجھنوں میں مبتلا نہ ہوتی۔ اگر محبت کر سکتی تو ان تمام مصائب کا خاتمہ ہو جاتا! مگر آہ! اس شخص سے نہ میں محبت کر سکتی نہ نفرت! میرے دل میں منیر کے لئے ہمدردی موجود تھی۔ میں اپنے آپ کو اس کی گنہگار محسوس کر رہی تھی۔ آہ! گناہ کا احساس! محبت کی مجبوری!

    میں باغ میں چلی گئی اور فوارہ کے قریب ایک کوچ پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں بار بار نہر کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ چشمی کی کشتی واپس آ رہی ہوگی مگر نہ آئی۔ جب دوپہر کی گرم ہوائیں چلنے لگیں تو میں اپنے کمرے میں آ گئی۔ بہت دیر ایک صوفے پر پڑے موجودہ حالات پر غور کرتی رہی۔ چشمی دوپہر کے کھانے پر بھی نہ آئے تو مجھے شبہ ہوا کہ وہ مصلحتاً گھر سے باہر رہنا پسند کرتے ہیں۔

    جب سائے ڈھل گئے اور ہواؤں میں دوپہر کے آفتاب کی تمازت کم ہوگئی تو میں بلاارادہ پھر باغ میں گھاٹ پر نکل آئی اور آنے والی کشتیوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ میں انتظار کی درد انگیز خلش محسوس کر رہی تھی۔

    سورج زیتون کی ٹہنیوں کے اوپر تھا۔ کچھ دیر بعد وہ درختوں کی شاخوں تلے نظر آنے لگا۔ نہر کا پانی خالص سونے کی طرح سنہرا ہو گیا اور پورا باغیچہ دھوپ کی لہروں میں جگمگا اٹھا۔ دور۔۔ سنہری سنہری لہروں میں ایک ننھی سی نیلے رنگ کی کشتی نظر آنے لگی۔ میرا دل دھڑکا۔

    اللہ جانے کیوں یہ آج کل غیر معمولی طور پر دھڑکنے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد میں گنگنانے لگی

    چشم قمر کو بھی مرے خوابوں پہ رشک ہے
    پیش نظر ترا رخ روشن ہے آج کل
    جس آستاں کو سجدۂ پرویں بھی بار تھا
    وہ آستاں جبیں کا نشیمن ہے آج کل

    بانس کے سر بلند درختوں پر ایک ہد ہد زور سے گا رہا تھا کہ اتنے میں وہ نیلی کشتی گھاٹ پر آ لگی۔ ادھر میرے دیکھتے دیکھتے چشمی اتر آئے۔ ان کی نظر مجھ پر پڑی۔”

    آپ یاں کیا کررہی ہیں خاتون روحی؟” انہوں نے بچوں کے سادہ لہجہ میں پوچھا۔

    لیکن میں کیا جواب دیتی؟ کیا یہ کہہ دیتی کہ آپ کے انتظار نے قریب المرگ کر رکھا تھا۔ توبہ توبہ۔ یہ کس طرح کہہ سکتی تھی۔ کچھ بوکھلا سی گئی۔ بولی: "میں؟ یوں ہی یہاں بیٹھی تھی۔ اندر بہت گرمی تھی۔ آج کا دن بڑا گرم رہا۔ آپ کہاں گئے تھے؟” یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی جاپانی وضع کی نارنجی چھتری کھول لی۔

    "میں ذرا دل بہلانے نکل گیا تھا۔”

    "ہاں” میں نے کہا۔

    "گھر میں وحشت ہوتی ہوگی۔ تیمار داری کوئی دل چسپ کام نہیں۔”

    "یہ آپ کیا فرماتی ہیں خاتون روحی!” چشمی نے مؤثر لہجے میں کہا۔ "منیر صاحب کی تیمار داری میرا ایک مرغوب فرض ہے۔ آپ نہیں جانتیں مجھے ان سے کتنی محبت ہے۔”

    "میں جانتی ہوں” میں نے سنجیدگی سے کہا۔ "آپ نہیں جانتیں” چشمی ہنس کر بولے: "اس کا اندازہ یا تو منیر لگا سکتے ہیں یا پھر میرا دل۔”

    میں اب بھی سنجیدہ تھی: "افوہ! اتنی گہری محبت ہے؟” یہ کہتے ہوئے میں نے ایک بے چینی سی محسوس کی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ چشمی نے میری وحشت کو محسوس کیا پھر کہنے لگے: "آپ گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں بہت گرمی ہے۔ شمشاد کے درختوں کی طرف چلیے، اس چبوترے پر ہمیشہ ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔” اس نے میرا بازو تھام لیا اور شمشاد کے درختوں کے پاس سنگ مرمر کے ایک سفید چبوترہ پر لے گیا۔

    "میں گھبرائی ہوئی نہیں ہوں، صبح سے ایک افسانہ لکھ رہی تھی۔ ایک جگہ پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں تو سوچنے کے لئے ادھر نکل آئی۔ کیا اپنے افسانہ کا پلاٹ آپ کو سناؤں؟ آپ کوئی رائے دے سکیں گے؟”

    "زہے نصیب!” چشمی نے کہا: "مگر میں صائب الرّائے نہیں۔ ویسے افسانے بڑی دل چسپی سے پڑھتا ہوں۔ فرمائیے۔”

    "تو سنئے!” میں نے کہا: "مگر افسانہ کچھ زیادہ رنگین ہے۔ آپ مجھ پر عریاں بیانی کا الزام تو نہ لگائیں گے۔”

    "میری مجال نہیں۔ میں موپاساں کے افسانے پڑھ چکا ہوں”۔ چشمی نے کہا۔
    "توبہ کیجئے۔ یہ افسانہ ایسا نہیں۔ اس کی عریانی میں بھی زندگی کا درد پوشیدہ ہے”۔

    "فرمائیے”۔

    میں نے احتیاطاً ایک دفعہ اور کہا: "مجھ پر شوخی کا الزام کسی طرح بھی نہیں لگ سکتا کیونکہ یہ پلاٹ میرا اپنا نہیں۔ میں نے کہیں سے لیا ہے۔ اس لئے اس کی کوئی ذمہ داری مجھ پر نہیں بلکہ اس کے مصنف پر عائد ہوتی ہے۔”

    "بالکل”۔ میں کہنے لگی: "افسانہ دو مردوں اور ایک عورت سے شروع ہوتا ہے۔”

    "اف!” چشمی نے کہا: "یہ پلاٹ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں۔۔۔”
    "ٹھہریے، دیکھئے چشمی صاحب! پہلے آپ پلاٹ سن لیجئے پھر آپ سے آپ کی رائے پوچھی جائے گی۔”

    "بہت اچھا!”

    "تو ایک عورت اور دو مرد۔ عورت اس مرد سے بے پروا ہے جو اس سے محبت کرتا ہے۔ مرد اس عورت کو نہیں چاہتا جس سے یہ عورت محبت کرتی ہے۔ تو ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟” چشمی کہیں دور ہری ہری دوب کے اس پار سنہری لہروں کو دیکھ رہے تھے۔

    "میں زود فہم نہیں ہوں۔ اک دفعہ پھر آسان زبان میں کھول کر فرمائیے۔”

    کھول کر! یہ ظالم اس کتاب کو کھول کر پڑھنا چاہتا ہے! آہ۔۔۔ میں بولی: "آپ نہیں سمجھے۔ عورت اس مرد کو چاہتی ہے جس کے متعلق اسے خود خبر نہیں کہ وہ مرد بھی اس سے محبت کر رہا ہے یا نہیں اور اس مرد کو نہیں چاہتی جس کے متعلق اسے علم ہے کہ اس سے محبت کر رہا ہے۔ میں کسی قدر کانپ رہی تھی۔

    "اب میں سمجھ گیا”۔ چشمی نے دور کہیں فضا میں تکتے ہوئے کہا۔

    "تو پھر ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟”

    "مگر سوال یہ ہے”۔ چشمی کہنے لگے: "عورت جس مرد کو چاہتی ہے اس کے متعلق اس کے پاس اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ وہ مرد بھی اس پر جان نہیں دے رہا۔”

    "کیا۔۔۔؟” بیساختہ میں بول پڑی ۔ میرے چہرے پر سرخی دوڑ گئی: "آپ نے کیا کہا ؟وہ مرد؟۔۔۔”

    چشمی کے چہرے پر بے چینی اور اضطراب کی علامات نمودار ہوئیں، کہنے لگے: میں۔۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اپنے محبوب سے عورت کو گمان ہونے کے اسباب کیا ہیں؟”

    واقعی میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا: "تو۔۔۔ تو کیا وہ مرد بھی۔” اتنا کہہ کر میں یک لخت رک گئی۔

    "ہاں تو آپ چپ کیوں ہو گئیں؟ پورا پلاٹ سنا ڈالیے۔”

    "ختم ہو گیا۔” میں نے کہا: "بس اتنی ہی بات پوچھنی تھی۔ آج کئی دن سے اس پلاٹ کو سوچ رہی تھی کہ ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟ کیا وہ مرد بھی۔ اس سے محبت کرتا ہے؟” میری آواز لرز گئی۔ میرا چہرہ کیلے کے نوخیز پتے کی طرح زرد پڑ گیا۔

    ہائے کبھی کاہے کو میں نے ایسی مصیبتیں اٹھائی تھیں؟ میرے معبود مجھ پر رحم کر۔ چشمی نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے پر فکرمندی کے آثار تھے۔ سنجیدہ لہجہ میں بولے: "تو کیا عورت کو اس دوسرے مرد سے جس کی محبت کا اسے یقین نہیں، واقعی محبت ہے۔”

    "ہائے، ہاں۔ شدید شدید ہے چشمی صاحب !” میرے منہ سے نکل گیا۔ پھر میں سہم گئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ دعا کے پیرایہ میں میرے ہونٹوں سے اک آہ نکل گئی کہ اے عشق! نسوانی خودداری کو اس طرح پامال نہ کرو۔ یہ سچ ہے کہ تیرے آہنی ہاتھوں نے شاہنشاہوں کے تاج چکنا چور کر دیے مگر ایک بے بس مظلوم لڑکی پر رحم کر۔ آہ محبت کی مجبوریاں!

    بڑی دیر تک ہم خاموش رہے۔ نارنجی رنگ کا بڑا سا آفتاب سمندر کی لہروں میں غرق ہونے لگا۔ باغ پر ایک افسردگی سی چھا گئی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے چشمی کی طرف دیکھا۔ ان کا چہرہ سفید ہو رہا تھا۔ ان کی گہری نیلی آنکھیں اداس نظر آ رہی تھیں۔ لیکن دفعتاً انہوں نے کہا:
    "آپ نے افسانہ کے تیسرے فرد کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ اس کا کیا ہوگا؟”

    میں بوکھلا سی گئی۔ غم ناک لہجہ میں بولی: "یہ ایک نامکمل پلاٹ ہے چشمی صاحب۔ میں اسے ختم نہیں کر سکی۔ نہیں معلوم، اس پلاٹ کے اختتام پر کتنی زندگیوں کا انحصار ہے۔”

    میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ جھٹ میں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔
    "ایسے پلاٹ عموماً بہت مشکل ہوتے ہیں خاتون روحی! بہرحال ایسی افسانوی باتوں پر آپ زیادہ غور نہ فرمایا کیجیے۔”

    "شعر اور افسانہ تو میری جان ہے اور اس پر غور کرنا میری زندگی۔” میں نے بمشکل کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی: "چلیے دادی جان چائے پر انتظار کر رہی ہوں گی۔”

    (نوٹ:‌ بیسویں صدی کی حجاب امتیاز علی کا نام اردو فکشن نگاروں میں سرفہرست ہے۔ ان کی تحریروں کا دل کش انداز اور اردو زبان و ادب کی ترقی میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ حجاب امتیاز علی کا یہ دل چسپ اور یادگار افسانہ "ظالم محبت” کے عنوان سے پہلی بار 1938 میں شائع ہوا تھا۔)

  • ’انار کلی‘ کے خالق امتیاز علی تاج کا تذکرہ

    ’انار کلی‘ کے خالق امتیاز علی تاج کا تذکرہ

    امتیاز علی تاج کی شخصیت بڑی متنوع تھی۔ ’انار کلی‘ ان کا شاہ کار ڈرامہ تھا۔ انہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی ذہانت اور تخلیقی شعور کا اظہار کیا اور ریڈیو فیچر، فلمیں، مکالمہ نویسی کے ساتھ جو ڈرامے لکھے ان میں سب سے زیادہ شہرت ’انار کلی‘ کو ملی تھی۔

    یہ وہ اردو ڈرامہ ہے جس پر بے شمار فلمیں بنیں، اسے نصابی کتب میں‌ شامل کیا گیا اور جامعات میں‌ اس پر تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ اردو ادب کے نام وَر نقّادوں نے اسے نقد و نظر کے لیے موضوع بنایا۔ یہ ڈراما شہزادہ سلیم (جہانگیر) اور انار کلی کے فرضی معاشقے پر مبنی تھا۔

    امتیاز علی تاج کو ایک قاتل نے ہمیشہ کے لیے ہم سے چھین لیا تھا۔ 19 اپریل 1970ء کو دَم توڑنے والے امتیاز تاج پر دو چاقو برداروں نے رات کو اس وقت حملہ کیا جب گہری نیند میں‌ تھے۔ ان کی شریکِ حیات بھی ان کے ساتھ سو رہی تھیں۔ چاقو کے وار سے زخمی ہونے والے امتیاز علی تاج چند گھنٹے زندگی اور موت سے لڑتے رہے اور پھر ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں۔ ان کے قتل کی وجہ معلوم نہیں کی جاسکی اور قاتل بھی گرفتار نہیں‌ ہوسکے۔

    انار کلی کے علاوہ چچا چھکن امتیاز تقاج کا تخلیق کردہ وہ کردار ہے جس سے صرف اردو دنیا نہیں بلکہ دیگر زبانوں کے ادیب اور باذوق قارئین بھی واقف ہیں۔ امتیاز علی تاج کو علم و ادب کا شوق ورثے میں ملا تھا۔ ان کی والدہ محمدی بیگم مشہور رسائل کی مدید اور مضمون نگار تھیں جب کہ شریکِ حیات کا نام حجاب امتیاز علی تھا جو اپنے وقت کی نام ور افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔ ان کے دادا سید ذوالفقار علی سینٹ اسٹیفنز کالج دہلی کے فیض یافتہ اور امام بخش صہبائی کے شاگرد تھے۔ اسی طرح والد ممتاز علی اپنے وقت کی قابل ترین علمی و دینی ہستیوں کے قریبی دوست اور ہم مکتب رہے تھے۔

    اردو کے اس مشہور ڈرامہ نویس نے 13 اکتوبر 1900ء میں‌ جنم لیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے آنرز کیا کے بعد ایم اے انگریزی کے لیے داخلہ لیا مگر امتحان نہ دے سکے۔ وہ اپنے کالج میں ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے اور ڈرامہ اور شاعری سے خاص دل چسپی رکھنے کے سبب طلبا میں نمایاں تھے۔ خود بھی غزلیں اور نظمیں کہتے تھے۔ امتیاز تاج نے افسانہ نگاری ے ساتھ کئی عمدہ تراجم بھی کیے۔ انہوں نے آسکر وائلڈ، گولڈ اسمتھ و دیگر کی کہانیوں کے ترجمے کیے جو بہت پسند کیے گئے۔ امتیاز علی تاج نے ادبی اور سوانحی نوعیت کے مضامین بھی لکھے۔ گاندھی جی کی سوانح پر مبنی ان کی کتاب ’بھارت سپوت‘ کے علاوہ محمد حسین آزاد، حفیظ جالندھری اور شوکت تھانوی پر ان کے مضامین بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

    امتیاز تاج کا شمار مستند صحافیوں میں‌ بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنا صحافتی سفر ’’تہذیب نسواں‘‘ سے شروع کیا تھا اور پھر ’کہکشاں‘ کے نام سے ایک ماہنامہ رسالہ شائع کیا جس نے مختصر عرصہ میں اپنی پہچان بنا لی۔ امتیاز علی تاج نے بعد میں ایک فلم کمپنی ’تاج پروڈکشن لمیٹیڈ‘ کے نام سے بھی بنائی۔

  • حجاب امتیاز علی، گوشت پوست سے عاری ڈھانچے اور انسانی ہڈیاں!

    حجاب امتیاز علی نے تاریخ، نفسیات، سائنس، علمِ نجوم اور مذاہبِ عالم کا مطالعہ جم کر کیا تھا، اِس لیے وہ کردار نگاری کی سطح پر دادی زبیدہ، جسوتی، سر جعفر، ڈاکٹر گار، زوناش اور چچا لوث جیسے بڑے رومانی کردار خلق کر پائیں۔

    یہ سب کردار حجاب کے تخلیق کردہ فنٹاسٹک ماحول میں جیتے ہیں۔ یہ حجاب کی خیالی ریاستوں شموگیہ اور کیباس کے باشندے ہیں جو اکثر چہل قدمی کرتے ہوئے حجاب کے خلق کردہ خیالی جنگل ناشپاس تک چلے جاتے ہیں۔

    حجاب امتیاز علی اپنی افتادِ طبع کی تشکیل سے متعلق خود بتاتی ہیں، ’’میری ادبی زندگی کا گہرا تعلق میرے بچپن کی تین چیزوں سے ہے۔ فضا، ماحول اور حالات۔ میرے بچپن کا ابتدائی زمانہ جنوب میں دریائے گوداوری کے ہوش رُبا کناروں پر گزرا۔

    ہوتا یہ تھا کہ کالی اندھیری راتوں میں گوداوری کے سنسان کناروں پر ہندوﺅں کی لاشیں جلائی جاتی تھیں۔ جلانے کے دوران ہڈیاں اور سَر اس قدر ڈراﺅنے شور کے ساتھ چیختے تھے کہ انہیں سن کر ہوش اڑ جاتے تھے۔ اس سرزمین پر گوشت پوست سے عاری انسانی ڈھانچے اور ہڈیاں جگہ جگہ پڑی رہتی تھیں اور چیخ چیخ کر انسان کے فانی ہونے کا یقین دلایا کرتی تھیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جب ان ساحلوں پر رات پڑتی تو ہڈیوں کا فاسفورس اندھیرے میں جل اٹھتا تھا اور میلوں فاصلے سے غولِ بیابانی کی طرح ان ویرانوں میں روشنیاں رقصاں نظر آتی تھیں۔ یہ دہشت خیز منظر ہیبت ناک کہانیوں کے لکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ غرض ان کا حسن اور رات کی خوف ناکی، یہ تھی فضا۔ ایسی فضا میں جو شخص بھی پلے اور بڑھے اس میں تھوڑی بہت ادبیت، شعریت اور وحشت نہ پیدا ہو تو اور کیا ہو۔

    تیسری بات حالات کی تھی۔ جنھوں نے مجھے کتاب و قلم کی قبر میں مدفون کر دیا۔ مدفون کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ اگر میں نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ادبی مشاغل میں دفن نہ کردیا ہوتا تو میں کبھی کی ختم ہوگئی ہوتی۔ وہ زمانہ مرے لیے بے حد حزن و ملال کا تھا۔ مری والدہ ابھی جواں سال ہی تھیں کہ اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ان کی موت مرے خرمن پر بجلی بن کر گری۔ اس زمانے میں میرا ذہنی توازن درست نہ تھا۔ لڑکپن تھا، اس پر شدید ذہنی دھچکا ماں کی موت کا تھا۔ ان دونوں نے مل کر مجھے اعصابی بنا دیا تھا۔‘‘

    (ممتاز ادیب حجاب امتیاز علی کی کتاب’’میری ادبی زندگی‘‘ سے اقتباس)

  • انسانی کنبہ

    انسانی کنبہ

    جب میں چھوٹی تھی تو مجھے چمکیلی دوپہروں میں باغ میں بیٹھ کر ننھی چڑیوں کے نغمے سننے کا بڑا شوق تھا۔ مجھے اڑتی ہوئی تتلیاں بھی بے حد پسند تھیں، لیکن میں نے کبھی تتلی کو پکڑ کر اس کے پَر نہیں نوچے، مجھے خیال آتا تھا کہ تتلی کی بھی ایسی ہی جان ہے جیسے میری اپنی ہے۔

    اچھا، اب ایک دوپہر کا قصہ بیان کرتی ہوں۔ میں اپنے باغ کی دیوار پر سَر رکھے آنے جانے والوں کا تماشا دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں کیا ہوا کہ میری نظر لڑکوں کی ایک ٹولی پر پڑی جو بغل میں اپنی کتابوں کے بستے لیے اسکول سے گھر واپس آرہے تھے۔

    یہ لڑکے بے حد شوخ و شریر تھے۔ ہنستے کھیلتے اور باتیں کرتے ہوئے آرہے تھے۔ بعض تو چھلانگیں لگا رہے تھے۔ یکایک میں نے دیکھا کہ ان میں سے جو لڑکا سب سے چھوٹا تھا، اسے ایک پتّھر سے ٹھوکر لگی، اور ٹھوکر لگتے ہی وہ بے چارہ بری طرح چت زمین پر آرہا۔ اس کی کتابوں کا بستہ کھل گیا۔ ساری کتابیں زمین پر بکھر گئیں۔

    اس کی جیب میں کھیلنے کی گولیاں تھیں۔ وہ بھی لڑھکتی ہوئی ادھرادھر چلی گئیں۔ اس کی ٹوپی دور جاگری۔

    لڑکوں کا ہنسی سے برا حال ہوگیا، مگر میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جس کی عمر نو سال کی ہوگی اپنی ہنسی ختم کر کے گرے ہوئے لڑکے کی طرف دوڑا۔ اسے اٹھایا۔ اس کی پیشانی کی چوٹ کو اپنے رومال سے پونچھا۔ اپنے پانی کی تھرمس کھول کر زخمی لڑکے کو پانی پلایا۔ پھر اس کی کتابیں بستے میں بھریں، اس کی گولیاں چن چن کر اس کی جیب میں بھریں اور ننھے لڑکے کی انگلی پکڑ کر اسے اس کے گھر کی راہ پر چھوڑ دیا، اور خود اپنی راہ چلا گیا۔

    میں بے حد متاثر ہوئی۔ سوچنے لگی۔ اے بچے! اگر دنیا کے سارے انسانوں کے سینے میں تجھ سا دل اور اخلاق میں تجھ سا دھیما پن ہو تو آج ہماری دنیا کو فوجوں، ایٹم بموں، ہتھیاروں اور چھرّوں کی کیا ضرورت رہ جائے گی؟ ساری انسانی آبادی ایک کنبہ نہ بن جائے!

    (حجاب امتیاز علی کا شمار اردو کی اوّلین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے، ان کے افسانوں اور رومانی انداز کی کہانیاں بہت مشہور ہوئیں۔ بچّوں کے لیے لکھی گئی اپنی اس مختصر کہانی کے ذریعے انھوں نے دنیا بھر کے لیے امن اور سلامتی کا درس اور ایک آفاقی پیغام دیا ہے)

  • نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار حجاب امتیاز علی 19 مارچ 1999ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں برصغیر پاک و ہند کی اوّلین خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ علم و ادب کی رسیا اور فنونِ لطیفہ کی شائق حجاب امتیاز علی نے دنیائے ادب کو متعدد خوب صورت افسانے اور کہانیاں‌ دیں جنھیں‌‌ قارئین نے بے حد پسند کیا۔

    وہ 4 نومبر 1908ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سید محمد اسماعیل نظام دکن کے فرسٹ سیکریٹری تھے اور والدہ عباسی بیگم اپنے دور کی نام ور اہلِ قلم تھیں۔ حجاب امتیاز علی نے عربی، اردو اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور پھر افسانے لکھنے کا آغاز کیا جو مختلف ادبی رسالوں میں شایع ہوئے۔ حجاب اسماعیل کے نام سے ان کی تحریریں اس زمانے کے مقبول ترین رسالے تہذیبِ نسواں میں شایع ہوتی تھیں جس کے مدیر مشہور ڈراما و ناول نگار امتیاز علی تاج تھے۔ 1929ء میں امتیاز علی تاج نے اپنا مشہور ڈرامہ انار کلی ان کے نام سے معنون کیا اور 1934ء میں یہ دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔

    حجاب اسماعیل نے شادی کے بعد حجاب امتیاز علی کے نام سے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے متعدد افسانوی مجموعے اور ناولٹ یادگار چھوڑے جن میں میری نا تمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے، لاش اور ہیبت ناک افسانے، خلوت کی انجمن، نغماتِ موت، ظالم محبّت، وہ بہاریں یہ خزائیں شامل ہیں۔ حجاب امتیاز علی نے تہذیب نسواں کی ادارت بھی کی۔

    ہوا بازی کا شوق رکھنے والی حجاب امتیاز علی نے ایک فلائنگ کلب کی رکنیت اختیار کرکے برصغیر پاک و ہند کی پہلی خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وفات کے بعد انھیں لاہور کے مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

  • دنیا کی پہلی مسلم خاتون پائلٹ ۔ حجاب امتیاز علی

    دنیا کی پہلی مسلم خاتون پائلٹ ۔ حجاب امتیاز علی

    کراچی: ایمیلیا ایئرہارٹ نامی پہلی خاتون ہوا باز کے نام سے تو سب ہی واقف ہوں گے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی پہلی مسلم خاتون ہوا بازکون تھیں۔

    آئیے آج ہم آپ کا تعارف کراتے ہیں حجاب امتیازعلی سے جو کہ دنیا کی پہلی ہوا باز خاتون اورپاکستان کی صفِ اول کی مصنفہ ہیں۔

    حجاب امتیاز نے ہوا بازی کا آغاز انگلینڈ میں کیا اوراکتوبر1936 میں انہوں نے باضابطہ ہوا بازی کا لائسنس بھی حاصل کیا۔

    حجاب نے 1930 کے اوائل میں نامور صحافی اورافسانہ نگار امتیاز علی تاج سے شادی کی۔

    امتیاز علی تاج ہی کی طرح حجاب عباسی کا شماربھی پاکستان کی صفِ اول کے مصنفین میں ہوتا ہے۔

    حجاب  ہوا بازی کی شوقین تھی اوروہ اکثرلاہورفلائنگ کلب میں ہونے والے مقابلوں میں حصہ لیتی رہیں تھیں۔

    یہ تصویر 1936 میں انقلاب نامی اخبار نے شائع کی تھی

    ایک نامور مصنف نے اپنی سرنوشت میں لکھا ہے کہ ’’ایک مرتبہ وہ امتیاز علی تاج کے گھر کے لان میں تشریف فرما تھے کہ حجاب تشریف لائیں اور کہا کہ وہ تھوڑی دیر میں آتی ہیں، تھوڑی دیر بعد ایک چھوٹا جہاز ان کے لان کے اوپر چکر لگانے لگا اور حجاب اس سے ہاتھ باہر نکال کر ہوا میں اپنا رومال لہرا رہیں تھیں‘‘۔

    حجاب امتیاز نے فنِ تحریر کی دنیا میں قدم رکھا تو آپ کے ناول شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگے جن میں لیل ونہار، صنوبر کے سائے میں، تصویرِ بتاں اورمیری ناتمام محبت شامل ہیں۔

    حجاب عباسی لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں اپنے بچوں کے ساتھ مقیم تھیں۔ 1999 میں آپ لاہورمیں انتقال کرگئیں۔