Tag: حجاب

  • اگر حجاب کرنے کا فیصلہ کیا تو میرا کیریئر ختم ہوجائے گا: مائرہ خان

    اگر حجاب کرنے کا فیصلہ کیا تو میرا کیریئر ختم ہوجائے گا: مائرہ خان

      کراچی: شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ مائرہ خان نے کہا ہے کہ میں حجاب کرنا چاہتی ہوں لیکن اگر میں نے حجاب کرنے کا فیصلہ کیا تو کیریئر ختم ہوجائے گا۔

    اداکارہ مائرہ خان نے حال ہی میں ایف ایچ ایم پوڈکسٹ میں شرکت کی، جہاں اُنہوں نے اپنے کیریئر سمیت مخلتف موضوعات پر گفتگو کی۔

    اسی پوڈکاسٹ کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں وہ حجاب اور پاکستانی کلچر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے نظر آئیں۔

    مائرہ خان نے کہا کہ ایک طرف کترینہ کیف بولڈ لباس میں ہیں اور دوسری طرف میں قمیض شلوار میں ملبوس ہوں تو لوگ مجھے چھوڑ کر کترینہ کیف کو دیکھنا پسند کریں گے۔

    اداکارہ نے کہا کہ اگر میں قمیض شلوار میں اپنی تصویر پوسٹ کروں گی تو اُس پر چند لائکس آئیں گے جبکہ اگر میں بولڈ لباس میں اپنی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کروں گی تو اُس پر 10 ہزار لائکس آئیں گے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by lollywoodspace (@lollywoodspace)

    مائرہ خان نے کہا کہ ہم عرب ممالک کی بات کرتے ہیں، وہاں تو حجاب کا ہی کلچر ہے وہاں ایک نظام ہے کہ چاہے اداکارہ ہو، ماڈل ہو یا اینکر ہو، سب نے لازمی حجاب پہننا ہے یا سر پر ڈوپٹہ ہونا ہے جبکہ ہمارے یہاں پاکستان میں مِکس کلچر ہے۔

    اداکارہ نے کہا کہ ہم اداکارائیں ڈراموں میں حجاب نہیں کرسکتیں کیونکہ ڈراموں میں کردار ایسے ہوتے ہیں کہ ہمیں سر سے دوپٹہ اُتارنا پڑتا ہے، میں چاہتی ہوں کہ حجاب کروں لیکن میرا کیرئیر مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا۔

    اُنہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ اگر میں نے حجاب کرنے کا فیصلہ کیا تو میرا اداکاری کا کیریئر ختم ہوجائے گا، ہم اداکارائیں بھی مجبور ہوتی ہیں، ہمارے دل میں بھی خوفِ خدا ہے لیکن ہم نے اپنے گھر بھی چلانے ہیں۔

    مائرہ خان نے مزید کہا کہ آج کل کوئی بھی عورت نہیں چاہتی کہ گھر سے باہر جائے اور کام کرے، لیکن اگر شوہر اکیلا کمانے والا ہے تو پر باہر جانا پڑتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ARY Digital (@arydigital.tv)

    واضح رہے کہ مائرہ خان اے آر وائی ڈیجیٹل کے رئیلٹی شو ’’تماشہ گھر‘‘ میں  گھر کا حصہ رہی ہیں۔

  • حجاب پر پابندیاں، دنیا نقاب سے کیوں خوفزدہ ہے؟

    حجاب پر پابندیاں، دنیا نقاب سے کیوں خوفزدہ ہے؟

    یورپی میں ممالک میں حجاب پابندیاں لگانے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، حال ہی میں سوئٹزرلینڈ کے حکام نے بھی خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی لگادی ہے، حجاب پر پابندی کی ابتداء کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو سب سے پہلے اس کی ابتداء فرانس سے 2010 میں ہوئی تھی، وہاں کے قانون میں یہ بات واضح طور کہ دے گئی ہے کہ عوامی مقامات پر ایسا لباس نہیں پہنا جاسکتا جس سے آپ کا چہرا چھپ جائے۔ قانون کی خلاف ورزی کی گئی تو بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

    نقاب کی خصوصیات:

    مسلم ممالک میں خواتین عام طور پر نقاب لگاتی ہیں، نقاب لینے سے خواتین کا چہرہ چھپ جاتا ہے، جبکہ عبایا زیب تن کرنے سے خواتین کے پردے کا مکمل انتظام ہوجاتا ہے، عبایا کی ایک قسم برقعہ بھی ہے، یہ خاص طور پر افغانستان میں پہنا جاتا ہے جبکہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں بھی اس کا رواج ہے، اس میں خواتین کی صرف آنکھیں نظر آتی ہیں باقی سارا جسم چھپ جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کی اگر بات کی جائے تو حجاب کی اصطلاح صرف سر پر اسکارف لینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

    مہیسا امینی کی موت:

    گزشتہ سال ایران میں 22سالہ کرد خاتون مہیسا امینی کو حجاب نہ لینے پر حراست میں لیا گیا تھا، تاہم دوران حراست خاتون کی موت واقع ہوگئی تھی، جس کے بعد ایران میں احتجاجی مظاہروں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، مشتعل مظاہرین کی جانب سے مملکت میں بڑے پیمانے پر سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا، سیکورٹی اداروں نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے باعث درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا تھا اور انہیں سخت سزائیں بھی سنائی گئیں، ایرانی حکام کا کہنا تھا کہ مملکت میں ہونے والے مظاہروں کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے، امریکا کی ایما پر ایران میں احتجاجی مظاہروں کو طول دیا گیا۔

    بھارتی طالبہ ”مسکان“ کا معاملہ:

    بھارتی ریاست کرناٹک میں گزشتہ سال فروری میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا جب مسلمان طالبہ ”مسکان“ اپنے کالج کی جانب بڑھی تو ہندو انتہا پسندوں نے نہتی لڑکی کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی اور شدید نعرے بازی کی، اس موقع پر طالبہ نے ڈرنے کے بجائے ”اللہ اکبر“ کی صدائیں بلند کرنا شروع کردیں، طالبہ کا کہنا تھا کہ میں حجاب لے کر کالج میں داخل ہوتی ہوں مگر اپنی کلاس میں داخل ہونے کے بعد حجاب کو اتار دیتی ہوں، پرنسپل نے کبھی اس چیز پر اعتراض نہیں کیا یہ ایک مخصوص ٹولہ ہے جس نے جان بوجھ کر یہ سب کچھ کیا۔

    لندن اور امریکہ میں بھی مسلم خواتین غیر محفوظ:

    گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر کچھ ایسے ویڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا جنہیں دیکھ کر دل غمگین ہوگیا، حجاب لئے ہوئے مسلمان خواتین جو لندن اور امریکا کی ٹرینوں یا بسوں میں سفر کررہی ہوتی ہیں، ان کے ساتھ انتہائی غیر مناسب رویہ اختیار کیا گیا، خواتین کے حجاب کو کھینچ کر اتار دیا گیا یا پھر ان خواتین کو تشدد کو نشانہ بنایا گیا، مگر افسوس غیر انسانی رویہ اختیار کرنے والے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

    مغربی دنیا کی مذہب سے دوری:

    مغربی دنیا نے اپنے مذاہب سے اس قدر دوری اختیار کرلی ہے کہ ان کی مذہب سے عدم دلچسپی اور لا تعلقی نے مذہب کی جگہ ان کے کلچر اور تہذیب نے لے لی ہے، اس لئے اگر کوئی دوسرا شخص اپنے مذہب پر عمل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو یہ چیز انہیں پسند نہیں آتی اور یہ افراد انتہاپسندانہ اقدام کرنے سے پہلے بھی گریز نہیں کرتے، یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ عالمی دنیا میں تیزی سے حجاب پابندی لگانے کا سلسلہ جاری ہے، جس پر کھلے دل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

  • ڈنمارک کے ابتدائی اسکولوں میں حجاب پر پابندی کی تجویز پر مسلمانوں کا شدید رد عمل

    ڈنمارک کے ابتدائی اسکولوں میں حجاب پر پابندی کی تجویز پر مسلمانوں کا شدید رد عمل

    کوپن ہیگن: ڈنمارک کے ایلیمنٹری اسکولوں میں مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی کی تجویز پر مسلمانوں کا شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈنمارک کے ایلیمنٹری اسکولوں میں مسلمانوں کے اسکارف پہننے پر پابندی کی ایک نئی سفارش کا ڈنمارک میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔

    تجویز کے مطابق ملک بھر کے تمام بچوں کو جدید طرز کی تعلیم اور اسکولوں میں جنسی تعلیم دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ حجاب پہننے پر پابندی کی یہ تجویز حکمراں جماعت کی طرف سے قائم ادارے نے پیش کی تھی۔

    ڈنمارک کی مسلم آبادی میں حکومت کے نئے فیصلوں پر تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، طالبات نے اسکارف نہ پہننے کی پابندی ماننے سے انکار کر دیا ہے، اور ملک کے مختلف شہروں میں مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دیے ہیں۔

    واضح رہے کہ ڈنمارک کی حکمران سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے قائم کردہ ’ڈنمارک کمیشن برائے فراموش شدہ خواتین کی جدوجہد‘ نے ملک کی حکومت سے سفارش کی ہے کہ وہ ڈنمارک کے ابتدائی اسکولوں میں طالبات کے حجاب (مسلمانوں کے سر کا اسکارف) پر پابندی عائد کرے۔

    یہ تجویز 24 اگست کو دی گئی تھی، جو اُن 9 سفارشات میں سے ایک ہے جس کا مقصد اقلیت سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے ’آبرو سے متعلق سماجی اختیار‘ کو روکنا ہے۔

    دیگر سفارشات میں ڈینش زبان کے کورسز فراہم کرنے، نسلی اقلیتی خاندانوں میں بچوں کی پرورش کے جدید طریقوں کو فروغ دینے اور ابتدائی اسکولوں میں جنسی تعلیم کو مستحکم بنانے کی تجویز شامل ہے۔

    اس پابندی کے نفاذ کی صورت میں مسلمان بچیاں اپنا اسکارف اتارنے پر مجبور ہو جائیں گی، طالبات کا کہنا ہے کہ ہمیں ڈنمارک میں مذہب کی آزادی ہے، اور ہم جو چاہیں پہن سکتی ہیں، پابندی کی تجویز حیران کن ہے۔

    آرہس یونیورسٹی کے ڈینش اسکول آف ایجوکیشن کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ارم خواجہ نے اس تجویز کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس پابندی سے مسلم لڑکیوں کو درپیش مسائل حل نہیں ہوں گے، اس کے برعکس، پابندی بڑے مسائل میں اضافہ کر سکتی ہے۔ وہ لڑکیاں جو پہلے ہی منفی سماجی کنٹرول کا شکار ہو رہی ہیں، ان پر ذہنی دباؤ اور بڑھ جائے گا۔

  • بھارت میں ایک اور انسانیت سوز واقعہ، با حجاب خواتین پر لاٹھی چارج (ویڈیو وائرل)

    بھارت میں ایک اور انسانیت سوز واقعہ، با حجاب خواتین پر لاٹھی چارج (ویڈیو وائرل)

    اترپردیش: بھارت میں ایک اور انسانیت سوز واقعہ پیش آیا ہے، باحجاب مسلم خواتین پر پولیس نے بہیمانہ لاٹھی چارج کیا، جس کی (ویڈیو وائرل ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست اترپردیش میں غازی آباد کے علاقے کھوڑا کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے، جس میں خواتین حجاب پہنے سڑک پر نظر آ رہی ہیں اور پولیس ان پر لاٹھی چارج کر رہی ہے۔

    پولیس اہل کاروں نے مسلمان خواتین پر لاٹھیاں کیوں برسائیں، غازی آباد کے پولیس سرکل آفیسر ابھے کمار مشرا نے بتایا کہ گزشتہ اتوار کو یہ واقعہ پیش آیا، پولیس ایک پارٹی پیٹرولنگ کر رہی تھی، سڑک پر ایک جگہ دس پندرہ خواتین جمع ہو گئی تھیں، انھیں دیکھ کر اہل کاروں نے دفعہ 144 کا حوالہ دیتے ہوئے وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی۔

    سرکل آفیسر نے کہا کہ خواتین اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کر رہی تھیں، تاہم انھوں نے صحافیوں کے پوچھنے پر بھی یہ نہیں بتایا کہ ان کے مطالبات کیا تھے، پولیس افسر نے یہ تسلیم کیا کہ خواتین کے ساتھ نامناسب سلوک کیا گیا اور ان پر لاٹھی چارج کیا گیا، جس کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے۔

    حجاب سے متعلق سوال پر بھی پولیس افسر ابھے کمار مشرا نے کنی کترائی، اور کوئی جواب نہیں دیا، جان چھڑاتے ہوئے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، اور ایک ٹیم کو تفتیش کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اس کیس میں کسی اہل کار کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے، واقعے کی ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے اور اس میں کسی شخص کا ذکر ہے تاہم ابھے مشرا نے اس کی شناخت ظاہر نہیں کی، اور کہا واقعے میں ملوث اہل کاروں سے متعلق معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، شناخت کے بعد ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

  • حجاب ممنوع: دسویں جماعت کی طالبہ نے امتحانات کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی

    حجاب ممنوع: دسویں جماعت کی طالبہ نے امتحانات کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی

    کرناٹک: بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک اسکول میں‌حجاب کی اجازت نہ ملنے پر دسویں جماعت کی مسلمان طالبہ نے امتحانات کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق منگل کو ایک مسلمان طالبہ نے کرناٹک کے شیوموگا ضلع کے ایک اسکول میں حجاب کی اجازت نہ دیے جانے پر دسویں جماعت کے امتحانات کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دے دی۔

    حجاب کے سلسلے میں تنازعہ اور احتجاج کرناٹک بھر میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، شیوموگا ضلع کی طالبہ نے کہا کہ اگر اسے حجاب پہن کر امتحانی ہال کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ اپنے امتحانات کا بائیکاٹ کر دے گی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مذکورہ لڑکی دسویں جماعت کے امتحانات میں بیٹھنے کے لیے حجاب پہن کر اسکول گئی تھی، جب اسے کلاس روم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تو اس نے امتحانات کا بائیکاٹ کیا اور یہ کہہ کر اسکول سے باہر چلی گئی کہ وہ امتحان دینے کی بجائے حجاب میں رہنا پسند کرے گی۔

    یہ واقعہ ایسے ماحول میں سامنے آیا ہے جب ریاستی حکومت کی جانب سے کلاسیں دوبارہ کھولنے کے فیصلے کے بعد کئی والدین اپنے بچوں کو حجاب پہن کر اسکول بھیجنے پر اصرار کر رہے ہیں، پیر کو اسکول کھلنے کے بعد دوسرے دن بھی کئی طالبات نے پابندی کے خلاف احتجاج کیا۔

    مسلمان لڑکی نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم بچپن سے ہی حجاب پہن کر بڑے ہوئے ہیں اور ہم اسے ترک نہیں کر سکتے، میں امتحان میں نہیں بیٹھوں گی اور گھر چلی جاؤں گی۔

    احتجاج کے ایک اور واقعے میں، کرناٹک کے کوڈاگو ضلع کے تقریباً 20 مسلم طالبات نے نیلے ہڈیکیرے پبلک اسکول میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا، یہ اس وقت ہوا جب اسکول انتظامیہ نے طالبات کو حجاب پہننے سے روکنے کی کوشش کی اور کلاسوں میں جانے سے پہلے اسے ہٹانے کو کہا، اس کے رد عمل میں طالبات نے اسکول سے واک آؤٹ کر کے احتجاج شروع کر دیا۔

    گزشتہ روز کرناٹک کے ایک اور سرکاری اسکول میں انتظامیہ نے طالبات سے امتحان میں بیٹھنے سے قبل حجاب اتارنے کی ہدایت کی، تو اس پر طالبات نے حجاب اتارنے کی بجائے امتحانات کا بائیکاٹ کرنے کو ترجیح دی۔

  • مسکان کے حق میں ٹوئٹ کرنے والی خاتون صحافی کے ایک کروڑ 77 لاکھ ضبط

    مسکان کے حق میں ٹوئٹ کرنے والی خاتون صحافی کے ایک کروڑ 77 لاکھ ضبط

    نئی دہلی:‌ حجاب کے لیے کالج میں‌ جنونی ہندوؤں کے سامنے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرنے والی لڑکی مسکان کے حق میں ٹوئٹ کرنے والی ایک بھارتی خاتون صحافی کے ایک کروڑ 77 لاکھ روپے ضبط کر لیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق مودی سرکار اپنی ہندو انتہا پسند پالیسیوں پر تنقید پر بھی سزائیں دینے لگی ہے، بھارتی مسلمان صحافی رعنا ایوب کو سچ بولنے پر ایک بار پھر بی جے پی کے عتاب کا سامنا ہے، خاتون کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے.

    بھارتی میڈیا کے مطابق خاتون صحافی رعنا ایوب کی ایک کروڑ روپے سے زائد کی رقم ضبط کر لی گئی ہے۔

    بھارتی تحقیقاتی ایجنسی نے مسلمان صحافی پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا ہے، مودی کی ظالمانہ پالیسیوں پر تنقید کرنے پر رعنا ایوب کو ماضی میں قتل کی دھمکیاں بھی ملتی رہی ہیں۔

    مسلمان صحافی کا کہنا ہے کہ انھیں ہمیشہ سے سچ بولنے پر جان سے مارنے جیسی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں، لیکن کوئی بھی گروہ یا سیاست دان انھیں سچ لکھنے سے نہیں روک سکتا۔

    کرناٹک میں باحجاب لڑکی مسکان کو ہراساں کیے جانے پر ایک ٹوئٹ میں رعنا ایوب نے بھارتی عوام سے سوال کیا تھا کہ اپنی انتخابی مہم میں مودی نے اقلیتوں کے حقوق کی بات کی تھی، لیکن کیا ان کا اصل چہرہ دیکھنے کے بعد ان کو ایک اور چانس دیا جانا چاہیے؟

  • بھارت: نہتی لڑکی کے اللہ اکبر کے نعروں نے انتہا پسند ہندوؤں کے دل دہلا دیے (ویڈیو)

    بھارت: نہتی لڑکی کے اللہ اکبر کے نعروں نے انتہا پسند ہندوؤں کے دل دہلا دیے (ویڈیو)

    کرناٹک: بھارتی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلورو میں ایک نہتی کالج طالبہ کے اللہ اکبر کے نعروں نے انتہا پسند ہندوؤں کے دل دہلا دیے۔

    سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جسے بھارت کے متعدد شہریوں کے آفیشل اکاؤنٹس سے شیئر کیا جا رہا ہے، جس میں ایک کالج طالبہ انتہا پسند ہندوؤں کے جتھے کے سامنے بھرپور ایمانی قوت کا مظاہرہ کرتے نظر آتی ہیں۔

    یہ ویڈیو بنگلورو کے ایک کالج کے باہر کی ہے، جہاں برقعے میں ملبوس مسلم طالبہ اسکوٹر پر آتی ہیں، تو کالج کے باہر موجود ہندوتوا گروپ کے انتہا پسند نعرے بازی کر کے طالبہ کو ہراساں کرنے لگتے ہیں۔

    انتہا پسند ہندوؤں نے نہتی مسلمان طالبہ کے سامنے جمع ہو کر جے شری رام کے نعرے لگانے شروع کیے تو مسلم طالبہ نے ان سے ڈرنے کی بجائے ان کے دہشت گردانہ اقدام کا بہادری سے سامنا کیا، اور مشتعل ہجوم کے آگے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔

    بھارت میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے کا معاملہ شدت اختیار کرگیا

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نہتی مسلمان لڑکی زعفرانی اسکارف پہنے لڑکوں کے آگے ڈٹ کر اللہ اکبر کے نعرے لگا رہی ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ کرناٹک کے ایک سرکاری اسکول میں مسلمان طالبات کو حجاب پہننے سے روکا گیا تھا، جس کے بعد 2 اور تعلیمی اداروں میں بھی پابندی کے احکامات جاری کر دیے گئے تھے۔

    حجاب پر پابندی کے خلاف مسلم طلبہ بھرپور احتجاج کر رہے ہیں، مسلمان خواتین کوحجاب پہننےسے روکنے کے معاملے پر بھارتی ہائی کورٹ آج حجاب سے روکنے کے خلاف مسلمان خواتین کی پٹیشن پر فیصلہ سنانے جا رہی ہے۔

    محبوبہ مفتی نے ویڈیو پر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ایک مسلمان لڑکی کو دن دہاڑے بغیر کسی نتیجے کے خوف کے ہراساں کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے غنڈوں کو اقتدار والوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ انھوں نے لکھا ایسے واقعات کو مجموعی صورت حال سے ہٹ کر نہیں دیکھا جانا چاہیے، کیوں کہ بی جے پی کو امید ہے کہ اس سے یوپی انتخابات میں پولرائزیشن میں مدد ملے گی۔

  • بھارت: سرکاری کالج کا باحجاب لڑکیوں کے خلاف شرمناک قدم

    بھارت: سرکاری کالج کا باحجاب لڑکیوں کے خلاف شرمناک قدم

    بنگلورو: بھارتی ریاست کرناٹک کے ایک سرکاری کالج میں حجاب پہننے والی مسلمان لڑکیوں کو کلاسز لینے سے روک دیا گیا ہے، یہ مسلمان لڑکیاں کئی ہفتوں سے کلاس روم کے باہر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست کرناٹک کے سرکاری کالج میں حجاب کرنے والی طالبات کو 20 دنوں سے کلاس روم سے باہر بٹھایا جا رہا ہے، اور انھیں اندر آنے کی اجازت نہیں ہے، کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ برقع یا حجاب ڈریس کوڈ نہیں اس لیے ان لڑکیوں کو کلاس میں نہیں بٹھایا جا سکتا۔

    یہ دسمبر کی ایک صبح کی بات ہے جب 18 سالہ اے ایچ الماس اور ان کی دو سہیلیاں کلاس میں داخل ہوئیں، تو ٹیچر نے فوراً ان پر چیخ کر کہا: "باہر نکل جاؤ۔” مسلمان لڑکیوں کو کلاس روم میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی کیوں کہ انھوں نے حجاب یا سر پر اسکارف پہنا ہوا تھا۔

    الماس نے الجزیرہ کو بتایا کہ جب ہم کلاس روم کے دروازے پر پہنچے تو ٹیچر نے کہا کہ ہم حجاب کے ساتھ داخل نہیں ہو سکتے، اور انھوں نے ہم سے حجاب ہٹانے کو کہا۔

    تب سے کرناٹک کے ضلع اڈوپی کے سرکاری خواتین کے کالج میں 6 مسلم طالبات کا ایک گروپ اپنے کلاس روم کے باہر بیٹھنے لگا ہے کیوں کہ انتظامیہ کا الزام ہے کہ وہ حجاب پہن کر قواعد کی خلاف ورزی کر رہی ہیں، جو کہ یونیفارم کا حصہ نہیں ہے۔

    تاہم طالب علموں نے اس زبردستی کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کا مذہبی حق ہے اور ان کا حجاب کوئی قانون نہیں اتروا سکتا، اور نہ ہی اسکول میں ایسا کوئی اصول ہے۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت کے یہ طلبہ اب روز کلاس سے باہر بیٹھ کر پڑھائی کرتی ہیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی ہیں جو 31 دسمبر سے جاری ہے۔

    انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ ریاست میں اس طرح کی کوئی پابندی نہیں تاہم مسلم لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے. ان لڑکیوں کو اپنی کلاسوں سے غیر حاضر قرار دیا گیا ہے حالاں کہ ان کا کہنا ہے کہ وہ روزانہ کالج جاتی ہیں۔

    اپنے حجاب اور کالج یونیفارم پہنے کلاس کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھی طالبات کی ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ ان لڑکیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں ان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر تفریق برتی گئی، تاہم انھوں نے کبھی آواز نہیں اٹھائی۔

    واضح رہے کہ بھارت میں مودی سرکار کے پیروکاروں کی انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے، مسلمانوں کو تشدد اور مارنے کی دھمکیاں دینے کے بعد اب حجاب کرنے والی طالبات کو کلاسوں دور رکھا جانے لگا ہے۔

  • افغان طالبان نے خواتین سے متعلق اہم حکم جاری کر دیا

    افغان طالبان نے خواتین سے متعلق اہم حکم جاری کر دیا

    کابل: افغان طالبان نے خواتین سے متعلق نیا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حجاب اور قریبی رشتہ دار مرد کے بغیر سفر نہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت نے خواتین کا کسی قريبی رشتہ دار مرد اور حجاب کے بغير طویل سفر ممنوع قرار دے ديا۔

    افغان حکومت نے ہدایت کی ہے کہ طویل سفر کرنے والی خواتین کو کسی مرد کے بغیر ٹرانسپورٹ کی سہولت مہیا نہ کی جائے، البتہ قریبی سفر کرنے والی خواتین پر یہ پابندی لاگو نہیں ہوگی۔

    افغانستان میں طالبان کا خواتین سے متعلق نئے قوانین کا اعلان

    یہ حکم نامہ وزارت امر بالمعروف نہی عن المنکر کی جانب سے جاری کیا گیا ہے، جس میں ٹرانسپورٹرز کو حکم دیا گیا ہے کہ حجاب کے بغیر عورتوں کو گاڑیوں پر سوار ہونے کی اجازت نہیں ہوگی، وزارت کے ترجمان صادق عاکف مہاجر نے بتايا کہ تنہا سفر کرنے والی خواتين اگر خاندان کے کسی رکن يا مرد کے ساتھ نہ ہوں، تو انھيں 45 میل سے زيادہ فاصلے تک سفر کی اجازت نہيں۔

    موسیقی کے حوالے سے طالبان کا بیان آ گیا

    وزارت کے ترجمان صادق عاکف مہاجر نے واضح کيا کہ سفر کرنے والی خواتين کے ليے بھی حجاب اب لازمی ہے، یاد رہے کہ 26 اگست کو ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں کہا تھا کہ خواتین کا نقاب اور گھروں میں رہنے والی بات بے بنیاد ہے، خواتین کو اگر 3 یا اس سے زیادہ دن کے سفر پر جانا ہے، تو محرم کا ساتھ ہونا لازمی ہوگا۔

  • ایک اور یورپی ملک میں حجاب پر پابندی کا قانون منسوخ

    ایک اور یورپی ملک میں حجاب پر پابندی کا قانون منسوخ

    یورپی ملک آسٹریا کی آئینی عدالت نے ملک میں حجاب پر پابندی کے قانون کو منسوخ کردیا ہے۔ یہ قانون گزشتہ برس نافذ کیا گیا تھا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جمعے کی رات ایک اجلاس کے دوران اس بات کا اعلان کیا گیا کہ پرائمری اسکولوں ميں اسکارف پہنے پر پابندی کا قانون آئين کے منافی ہے لہٰذا آئینی عدالت نے اسے منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اسکولوں میں اسکارف اور حجاب پر پابندی کا قانون گزشتہ سال کے موسم خزاں میں جاری کیا گیا تھا۔

    اب آسٹریا کی آئینی عدالت کے حکم پر آسٹریا کے چانسلر بغیر کسی تاخیر کے سابقہ قانون کو منسوخ کیے جانے کے پابند ہیں۔

    آسٹریا میں اسلام دشمنی میں پیش پیش انتہا پسند عناصر ابتدائی طور پر پرائمری اسکولوں میں حجاب پر پابندی کے قانون کے ذریعے بتدریج ہائی اسکولز، کالجوں اور پھر یونیورسٹی کی سطح پر اس طرح کی پابندیاں لگانے کا ارادہ رکھتے تھے۔

    تاہم اب آسٹریا میں مقیم مسلم کمیونٹی کے اعتراض اور تگ و دو کے نتیجے میں آئینی عدالت نے اس قانون کو آئين کے منافی اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی منسوخی کے احکامات صادر کر دیے ہیں۔

    اس قانون کی منسوخی کے بعد پرائمری اسکول کی مسلم طالبات کو اب اسکولز ميں آ کر اپنا اسکارف اتارنے کی ضرورت نہيں رہے گی۔