Tag: حجاب

  • سویڈن میں حجاب پر پابندی کا قانون کالعدم

    سویڈن میں حجاب پر پابندی کا قانون کالعدم

    اسٹاک ہوم: سویڈن کے ایک قصبے میں حجاب پر عائد پابندی کو کالعدم قرار دے دیا گیا، مقامی بلدیہ کے فیصلے کو عدالت نے کالعدم کیا ہے۔

    یورپی ملک سویڈن کے اسکون نامی علاقے کے قصبے اسکوروپ کی بلدیہ کی حجاب پر پابندی کا قانون مقامی عدالت نے کالعدم قرار دے دیا۔

    مقامی عدالت کے مطابق بلدیہ کا یہ فیصلہ ملک دستور اور مذہبی آزادی کے خلاف تھا جس کے تحت اسے کالعدم قرار دیا جا رہا ہے۔

    اسکوروپ کی بلدیہ نے گزشتہ سال دسمبر میں 13 سال سے کم عمر بچیوں کے حجاب پہننے پر پابندی لگا دی تھی جس پر علاقے میں موجود ایک اسکول کے منتظم اعلیٰ نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

  • حجاب کیوں پہنا! مسلمان ایتھلیٹ مقابلے سے باہر

    حجاب کیوں پہنا! مسلمان ایتھلیٹ مقابلے سے باہر

    اوہایو: امریکی ریاست اوہایو میں 16 سالہ مسلمان ایتھلیٹ نورابوکارام کو حجاب پہننے پر مقابلے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق 16 سالہ مسلمان ایتھلیٹ نورابوکارام کا کہنا ہے کہ حجاب پہننے پر انہیں یہ کہہ کر مقابلے سے باہر کردیا گیا کہ ان کا لباس ریس میں حصہ لینے کے قواعد وضوابط کے خلاف ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق 16 سالہ مسلم ایتھلیٹ نور ابوکارام کے مطابق حجاب پہننے پر انہیں کہا گیا کہ ان کا لباس ریس میں حصہ لینے کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہے۔

    مسلم ایتھلیٹ نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ وہ ہمیشہ سے سیلوانیا نارتھ ویو اسکول ٹیم کی نمائندگی کرتی آ رہی ہیں کبھی بھی ان کے حجاب کی وجہ سے مسئلہ نہیں بنا۔

    نورابوکارام نے کہا کہ سرکاری انتظامیہ اور ان کی ٹیم معائنہ کرنے کے لیے آئی، اس وقت بھی انہیں حجاب کے حوالے سے کچھ نہیں کیا گیا۔

    مسلم ایتھلیٹ نے کہا کہ جب انہوں نے 5 کلو میٹر کی دوڑ کو عبور کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ اسکور بورڈ پر ان کا نام موجود نہیں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ اوہایو ہائی اسکول ایتھلیٹک ایسوسی ایشن نے آئندہ مذہبی قواعد وضوابط میں چھوٹ دینے پر نظرثانی کی یقین دہانی کرائی ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سال پینسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں باسکٹ بال کی 16 سالہ کھلاڑی کو حجاب پہننے پر کھیل چھوڑنے کا کہا گیا۔

  •  حجاب کے خلاف ٹویٹس پرامریکی ’ مس مشی گن‘ اپنے اعزاز سے محروم

     حجاب کے خلاف ٹویٹس پرامریکی ’ مس مشی گن‘ اپنے اعزاز سے محروم

     واشنگٹن:امریکا میں حجاب اور سیاہ فاموں کے خلاف نازیبا ٹویٹ کرنے پر 20 سالہ خوبرو حسینہ کیتھی زو سے ’مس مشی گن‘ کا اعزاز واپس لے لیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں مقابلہ حسن میں کامیابی حاصل کرکے ’مس مشی گن‘ کا اعزاز حاصل کرنے والی 20 سالہ کیتھی زو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنے پیغام میں لکھا کہ تنظیم مس ورلڈ امریکا نے ان سے رابطہ کرکے مِس مشی گن کا اعزاز واپس لینے کے فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔

    کیتھی زو نے اپنے پیغام کے ساتھ ای میل بھی منسلک کی جس میں ’مس ورلڈ امریکا‘ نامی تنظیم نے کیتھی زو کے ٹویٹس کو نامناسب، ناشائستہ اور بے حسی پر مبنی قرار دیتے ہوئے آگاہ کیا کہ اقلیتیوں کی توہین اور نازیبا کلمات پر آپ سے ’مس مشی گن‘ کا اعزاز واپس لے لیا گیا ہے اس لیے آپ سوشل میڈیا پر اس اعزاز سے منسلک تمام پوسٹوں کو حذف کردیں۔

    حسینہ مشی گن کی جانب سے کیے گئے نفرت آمیز ٹویٹس کو حذف کردیا گیا ہے تاہم ایک امریکی اخبار نے ٹویٹس کے اسکرین شاٹس شائع کیے ہیں جن میں کیتھی زو نے یونیورسٹی کے بوتھ پر ’حجاب لیجیے‘ کے الفاظ پر غصے سے بھری ٹویٹ میں حجاب کو خواتین کا استحصال کہا۔

    علاوہ ازیں ایک اور موقع پر مس مشی گن نے ٹویٹر پر نفرت آمیز بیان داغا کہ سیاہ فام افراد کی زیادہ تر ہلاکتیں سیاہ فام افراد کے ہاتھوں ہی ہوتی ہیں؟ دوسروں پر الزام لگانے سے پہلے اپنی برادری میں موجود مسائل حل کریں۔

  • آسٹریا میں خاتون رکن پارلیمنٹ کا حجاب میں خطاب

    آسٹریا میں خاتون رکن پارلیمنٹ کا حجاب میں خطاب

    ویانا : حجاب پر پابندی کے خلاف آسٹرین خاتون نے حجاب پہن کر اپنے ساتھیوں سے سوال کیا کہ ’حجاب سے کچھ بدل گیا، کیا میں اب رکن پارلیمنٹ مارتھا بیسمین نہیں رہی‘؟

    تفصیلات کے مطابق آسٹریا میں پارلیمنٹ کی اکثریت کی عدم موافقت کے باوجود پرائمری اسکولوں میں حجاب پر پابندی کا فیصلہ جاری کر دیا گیا تاہم خاتون رکن پارلیمنٹ مارتھا بیسمین نے اپنے حالیہ خطاب میں اس نئے قانون کو مسترد کر دیا۔

    مذکورہ خاتون رکن نے پارلیمنٹ میں حجاب پہن کر خطاب کیا۔ اس دوران انہوں نے تمام ارکان سے سوال کیا کہ کیا اس طرح (حجاب پہن لینے سے) کچھ بدل گیا، کیا میں اب آسٹریا میں پیدا ہونے والی رکن پارلیمنٹ مارتھا بیسمین نہیں رہی؟۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق مارتھا نے اپنے خطاب کا آغاز مسلمانوں کو ماہ رمضان کی مبارک باد دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے باور کرایا کہ یہ نفرت انگیز مہموں کا نتیجہ ہے کہ مسلمان خواتین کو صرف حجاب پہننے کی وجہ سے سڑکوں پر تنگ کیا جاتا ہے اور نشانہ بنایا جاتا ہے۔

    مارتھا کے مطابق حجاب صرف مسلمان خواتین کی زندگی کا ایک حصہ ہے جو ان کی ثقافت اور تشخص کو ظاہر کرتا ہے مگر اب اس کو مسلمان مخالف پالیسی کی علامت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔

    خاتون رکن پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ "ہم مسلمانوں سے رواداری اور یک جہتی کی اقدار سیکھ سکتے ہیں، حجاب معاشرے میں مسائل پیدا نہیں کرتا ہے۔ تاہم بعض جماعتیں میڈیا پروپیگنڈا چاہتی ہیں تاکہ حجاب کے معاملے کو بنیاد بنا کر چند رائے دہندگان کے ووٹ حاصل کر لیں، یہ ایسا امر ہے جس کو مکمل طور پر مسترد کیا جانا چاہیے۔

    دوسری جانب آسٹریا میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم نے کہا کہ وہ آئینی عدالت سے مطالبہ کرے گی کہ پرائمری اسکولوں میں حجاب پر پابندی کا فیصلہ منسوخ کیا جائے۔

    آسٹریا میں مسلمانوں اور سیاست دانوں کی اکثریت نے اس فیصلے کو غیر آئینی شمار کیا ہے۔سال 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق آسٹریا میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد 7 لاکھ ہے جو مجموعی آبادی کا تقریبا 8% ہے۔

  • وہ کون سے ممالک ہیں جہاں برقعے پر پابندی ہے؟

    وہ کون سے ممالک ہیں جہاں برقعے پر پابندی ہے؟

    برسلز: یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں برقعے یا نقاب پر پابندی ہے، حال ہی میں سری لنکا بھی اسی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حال ہی میں سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر خود کش دھماکوں کے بعد ملک بھر میں عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    سری لنکا یہ پابندی عائد کرنے والا کوئی پہلا ملک نہیں اس سے قبل چین کے سنکیانگ علاقے سمیت مختلف یورپی ممالک میں بھی خواتین کے برقع پہنے یا نقاب کرنے پر پابندی ہے۔

    یورپی ممالک کی بات کی جائے تو فرانس، ڈنمارک، نیدر لینڈ، جرمنی، آسٹریا، بیلجیئم، ناروے، بلغاریہ، لگز مبرگ، اٹلی اور اسپین شامل ہے جہاں خواتین کے نقاب پر پابندی عائد ہے۔

    نیدر لینڈ میں خواتین کے لیے ان مقامات پر چہرہ ڈھاپنے پر پابندی ہے جو عوامی ہوں جیسے اسپتال، اسکول، پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ تاہم سڑک چلتی خواتین پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔

    جرمنی میں ڈرائیونگ کے دوران نقاب پر پابندی ہے، جبکہ آسٹریا میں اسکول اور عدالت، ناروے میں صرف تعلیمی اداروں میں حجاب پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے۔

    مندرجہ بالا یورپی ممالک سمیت دیگر ممالک میں مخصوص مقامات اور خاص علاقوں میں مسلمان خواتین کو چہرہ ڈھاپنے کی اجازت نہیں ہے، علاوہ ازیں چین کے سنکیانگ علاقے میں عوامی مقامات پر برقعہ یا نقاب پہننا یا غیر معمولی طور پر لمبی ڈاڑھی رکھنے پر پابندی ہے۔

    خیال رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس پابندی کے اخلاف احتجاج بھی ریکارڈ کرایا جاچکا ہے جس کے تحت اس پابندی کو مذہبی آزادی کے خلاف قرار دیا گیا۔

  • جیسنڈا آرڈرن کو خراج تحسین، آرٹسٹ نے حجاب میں‌ ملبوس 25 میٹر لمبی تصویر بنادی

    جیسنڈا آرڈرن کو خراج تحسین، آرٹسٹ نے حجاب میں‌ ملبوس 25 میٹر لمبی تصویر بنادی

    سڈنی/ولنگٹن : معروف آسٹریلوی مصّور نے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسندا آرڈرن کی حجاب میں ملبوس 25 میٹر لمبی تصویر بنادی جس نے مسلمانوں کے دلوں کو چھو لیا۔

     نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملے کے بعد ملک کی وزیراعظم جیسنڈا ارڈرن نے جس انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اس پر پوری دنیا نے ان کی تحسین کی۔ اب آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں ایک آرٹسٹ نے جیسنڈا ارڈرن کی ایک 25 میٹر اونچی تصویر بنائی ہے جس نے مسلمانوں کے دل موہ لیے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ یہ وہی تصویر ہے جس میں جیسنڈا ارڈرن نے سانحے میں شہید ہونے والے ایک شخص کی رشتہ دار خاتون کو گلے لگایا ہوا ہے اور وزیراعظم کے چہرے پر کرب و الم کے تاثرات نمایاں ہوتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق اس تصویر کے نیچے لفظ ’سلام‘ لکھا گیا ہے۔ یہ تصویر معروف آرٹسٹ لوریٹا لیزیو نے بنائی ہے جو دیواروں پر پینٹنگز بنانے کے حوالے سے دنیا بھر میں معروف ہے اور اب تک درجنوں ممالک میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکا ہے۔

    لوریٹا نے جب اس تصویر کو بنانے کے لیے چندے کی اپیل کی تو صرف ایک دن میں ہی لوگوں نے اسے 11 ہزار آسٹریلوی ڈالر (تقریباً 11لاکھ روپے) چندہ دے دیا۔

    واضح رہے کہ وزیراعظم جیسنڈا ارڈرن کی یہی تصویر دنیا کی بلند ترین عمارت برج خلیفہ پر بھی روشنیوں کی شکل میں آویزاں کی جا چکی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: اتنے لوگوں کی جان لینے والا موت کا حقدار ہے، کزن برینٹن ٹرینٹ

    یاد رہے کہ 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں دہشت گرد حملے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں خواتین وبچوں سمیت 50 نمازی شہید اور 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے، پولیس نے چوبیس گھنٹے کے اندر مرکزی حملہ آور کو گرفتار کرلیا تھا جس کی شناخت 28 سالہ برینٹن ٹیرنٹ کے نام سے ہوئی تھی، حملہ آور آسٹریلوی شہری تھا جس کی آسٹریلیا نے بھی تصدیق کردی تھی۔

  • امریکا، مسلم خاتون فوجی کا حجاب اتارنے کے حکم کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ

    امریکا، مسلم خاتون فوجی کا حجاب اتارنے کے حکم کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ

    واشنگٹن: امریکی فوج میں شامل مسلمان خاتون نے حجاب اتارنے سے متعلق توہین آمیز روئیے کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق سپورٹ بٹالین کی مسلم سارجنٹ کیسیلا ویلڈویانوز نے بتایا کہ وہ باحجاب خاتون ہیں اور ان کے کمانڈ سارجنٹ میجر نے دیگر سپاہیوں کی موجودگی میں جبراً حجاب اتارنے کا حکم دیا۔

    مسلم سارجنٹ کا کہنا تھا کہ مسلمان شناخت ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے ہی ساتھی فوجیوں سے انتہائی نفرت آمیز رویے کا سامنا ہے۔

    چھبیس سالہ امریکی مسلمان فوجی نے بتایا کہ مجھے بعض اوقات دہشت گرد اور داعش کہہ کر پکارا جاتا ہے، مجھ پر ایسے جملے کسے گئے کہ میں نائن الیون حملے کی ذمہ دار ہوں، فوج میں بہت نفرت اور دشمنی ہے۔

    مزید پڑھیں: پولیس کازبردستی حجاب اتارنے پرخاتون کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم

    کیسسیلا نے کہا کہ اپنے خلاف مذہبی متعصبانہ رویہ اختیار کیے جانے پر فوج کے محکمہ حقوق میں شکایت درج کرائی لیکن اعلیٰ افسران نے اسے غیر مصدقہ قرار دے کر مسترد کردیا۔

    انہوں نے کہا کہ کرنل ڈیوڈ زین نے گزشتہ برس جون میں فوجی یونیفارم کے ساتھ حجاب پہننے کی اجازت دی اور جب حجاب پہنا تو تب سے ہی ساتھی فوجیوں کی جانب سے شدید نفرت کا سامنا ہے۔

    کیسیلا کا کہنا تھا کہ فوج کے محکمہ حقوق میں ان کی درخواست مسترد ہونے پر وہ امریکی فوج کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گی۔

    واضح رہے کہ امریکی فوج میں سر ڈھانپنے اور حجاب لینے سے متعلق پالیسی 2017 میں متعارف کرائی گئی تھی جس کا تذکرہ آرمی مینیول 2017-03 میں درج ہے۔

  • کینیڈین ریاست کوبیک میں سرکاری ملازمین کے حجاب پر پابندی

    کینیڈین ریاست کوبیک میں سرکاری ملازمین کے حجاب پر پابندی

    اوٹاوا : کینیڈین ریاست کیوبیک کی حکومت نے بھی سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے والے افراد پر مذہبی علامات سمجھی جانے والی اشیاء زیب تن کرنے پر پابندی عائد کرنے کی تیاری کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق آزاد خیالات اور مذہبی شدت پسندی سے عاری سمجھے کے ملک کینیڈا کی ریاست کیوبیک کی حکومت نے بھی مذہبی منافرت پیدا کرنے کے لیے سرکاری ملازمین پر مذہبی علامات سمجھی جانے والی چیزیں پہننے پر پابندی لگانے کی تیاری کرلی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مذکورہ قانون منظور ہونے کے بعد کیوبیک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت کولیشن آوینیر کیوبیک اور کینیڈین وزیر اعظم کے درمیان کشیدگی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کینیڈا میں مذہبی آزادی کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور شدت پسندی کے خلاف سرگرم ہیں۔

    جسٹن ٹروڈو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیا اب کینیڈین حکومت جو ایک آزاد معاشرہ ہے لوگوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر قانونی حیثیت سے نوازے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ تجویز کردہ قانون کے نفاذ کے بعد عدلیہ، پولیس افسران اور اساتذہ سمیت وہ تمام سرکاری ملازمین متاثر ہوں گے جو خود فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں۔

    مزید پڑھیں : یورپی عدالت نےملازمین کےحجاب پہننے پر پابندی عائد کردی

    مجوزہ قانون کے ناقدین کا کہنا ہے کہ مذکورہ قانون سے کسی بھی قسم کا حجاب کرنے والی مسلمان خواتین متاثر ہوں گی۔

    خیال رہے کہ سنہ 2017 میں ریاست کیوبیک میں عوامی سروسز فراہم کرنے اور لینے والے افراد کے چہرے کو مکمل طور پر چھپانے پر پابندی عائد کی گئی تھی جسے جون 2018 میں کینیڈین عدالت نے منسوخ کردیا تھا۔

  • جرمنی: عبادت گاہوں میں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے جرمن زبان بولنا لازمی قرار

    جرمنی: عبادت گاہوں میں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے جرمن زبان بولنا لازمی قرار

    برلن: جرمنی میں مذہبی عبادت گاہوں میں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے جرمن زبان بولنا عنقریب لازمی ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق جرمنی میں ایسا قانونی مسودہ تیار کرلیا گیا ہے جس کے تحت جرمنی میں مذہبی عبادت گاہوں میں فرائض کو انجام دینے کے لیے مذہبی شخصیات کو جرمن زبان بولنا لازمی ہوگا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ قانونی مسودہ جلد پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا، اس قانون کا اطلاق یورپین ممالک سے آئے شہری پر نہیں ہوگا۔

    غیر ملکی وہ مذہبی شخصیات جو عبادت گاہوں میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دیتے ہیں اگر انہیں جرمن زبان نہیں آتی تو سیکھنا ضروری ہوگا، بصورت دیگر حکام کی جانب سے ایکشن لیا جائے گا۔

    جرمن زبان سے واقفیت کا لازمی ثبوت پیش کرنا صرف مسلمانوں کی مساجد کے آئمہ کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں میں فرائض انجام دینے والے غیر ملکیوں کے لیے لازمی ہوگا۔

    خیال رہے کہ ایک جانب مسلمان سمیت دیگر مذہبی شخصیات کے لیے جرمن زبان سیکھنے پر زور دیا جارہا ہے تو دوسری جانب وہاں خواتین کے حجاب پر بھی پابندی ہے۔

    جرمنی کی عدالت نے گذشتہ سال مارچ میں مسلمان خواتین ڈرائیور پر نقاب کے استعمال پر پابندی برقرار رکھتے ہوئے انہیں ڈرائیونگ کے دوران چہرہ ڈھانپنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔

  • فرانس میں‌ مسلم خواتین کے حجاب پر ایک اور قدغن

    فرانس میں‌ مسلم خواتین کے حجاب پر ایک اور قدغن

    پیرس : کھیلوں کی مصنوعات تیار کرنے والی معروف کمپنی نے فرانسیسی سیاست دانوں نے کی جانب سے تنقید کے بعد حجاب بنانے پر پابندی عائد کردی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فرانس سمیت یورپ کے کئی ممالک میں مسلمان خواتین کے چہرہ چھپانے پر پابندی عائد ہے لیکن اب فرانس میں مسلمان خواتین کے لیے حجاب تیار کرنے والی کمپنی ڈکاتھ لان نے حجاب کی تیاری پر پابندی لگا دی۔

    ڈکاتھ لان کا شمار دنیا کی بہترین کمپنیوں میں ہوتا ہے کہ جو کھیلوں کا سامان تیار کرتی ہے، مذکورہ کمپنی مسلمان خواتین کےلیے بھی ملبوسات کی تیاری کرتی ہے باالخصوص ڈیزائن حجاب کی لیکن کمپنی نے فرانس میں حجاب کی تیاری پر پابندی لگا دی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ کھیلوں کی ملبوسات تیار کرنے والی کمپنی کی ملبوسات و حجاب مراکش سمیت کئی عرب ممالک میں فروخت ہوتے ہیں۔

    کمپنی ترجمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ ماہ سے فرانسیسی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی جانب سے مسلمان خواتین کے حجاب اور برقعے شدید تنقید کا نشانہ بنارہے تھے اس لیے صرف فرانس میں حجاب کی تیاری پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ فرانسیسی سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ مکمل طور پر برقعے میں ملبوس مسلمان خواتین یورپ کے لیے خطرہ ہیں حجاب والی خواتین شدت پسند بھی ہوسکتی ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  فرانس میں مسلمانوں پر حلال ٹیکس نافذ کرنے پر غور

    یاد رہے کہ 2004 میں فرانسیسی پارلیمنٹ نے ریاست کے تمام اسکولوں میں چہرے کے نقاب سمیت تمام مذہبی شعائر پر پابندی لگا دی تھی، اور 2010 میں قانون کے ذریعے عوامی مقامات پر بھی چہرہ ڈھانپنے پر پابندی لگائی۔