Tag: حسرت موہانی

  • حسرت موہانی: رئیس المتغزلین کا تذکرہ

    حسرت موہانی: رئیس المتغزلین کا تذکرہ

    دورِ جدید کے غزل گو شعراء میں حسرت کو جو مقام حاصل ہوا، وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔ حسرت کے کلام میں تغزل کی فراوانی نے انھیں رئیس المتغزلین مشہور کیا۔ وہ ایک جرات مند سیاست داں اور صحافی بھی تھے اور تحریکِ آزادی میں ان کی خدمات اور عملی کاوشیں بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔

    حسرت کا اصل نام سید فضل الحسن تھا۔ ان کا تخلص حسرت تھا۔ حسرت کا وطن قصبہ موہان ضلع اناؤ تھا۔ 1875ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کر کے علی گڑھ گئے اور وہاں سے 1903ء میں بی اے پاس کیا۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد رسالہ اُردوئے معلی نکالا اور باقاعدہ صحافت شروع کی جو ان کے لیے ایک مشن تھا۔ اس رسالہ میں ادبی مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی مضامین بھی ہوتے تھے اور حسرت بھی اپنے افکار کا بے باکانہ اظہار کرتے تھے۔ 1905ء میں انھوں نے آل انڈیا کانفرنس میں حصہ لیا اور اسی وقت سے وہ سودیشی تحریک کے ممبر بن گئے۔ 1907ء میں حسرت کانگریس سے علیحدہ ہوگئے۔ 1908ء میں اُردوئے معلی میں حکومت کے خلاف ایک مضمون چھاپنے کی پاداش میں قید بامشقت کی سزا ہوئی۔ دو سال قید رہنے کے بعد 1910ء میں رہا ہوئے۔ پرچہ دوبارہ جاری کیا لیکن 1904ء میں گورنمنٹ نے پھر بند کر دیا۔ مجبور ہو کر سودیشی مال کا ایک اسٹور قائم کیا۔ اسی زمانے میں جماعت احرار نے جنم لیا۔ مولانا حسرت موہانی اس کے ایک سرگرم کارکن بن گئے۔ اسی نسبت سے رئیس الاحرار بھی کہلائے۔ وہ آزادی کے بہت بڑے داعی تھے اور اپنی سیاسی سرگرمیوں اور قلم کی وجہ سے معتوب رہے۔ 1919ء میں انھیں پھر گرفتاری دینا پڑی۔ ترک موالات کی تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے 1922ء میں تیسری مرتبہ دو سال کے لئے قید ہوگئی۔ 1935ء میں اردوئے معلی پھر جاری کیا۔ 1936ء میں مسلم لیگ کی نظم جدید سے وابستہ ہوگئے۔ تقسیم ہند کے بعد حسرت ہندوستان ہی میں رہے اور وہاں کے مسلمانوں کا سہارا بنے رہے۔ ان کے نظریات عجیب و غریب تھے۔ ایک طرف وہ سوشلزم کے قائل تھے۔ دوسری جانب ان کی زندگی ایک مرد مومن کی زندگی تھی۔ ان کا ظاہر و باطن یکساں تھا ۔ وہ حق بات کہنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔

    اُن کی تصانیف میں اپنے کلیات کے علا وہ دیوان غالب کی شرح بے حد مقبول ہوئی۔ مولانا حسرت موہانی کا انتقال 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں ہوا۔

    نقاد اور ماہر لسانیات گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ نیاز فتح پوری نے جنوری ۱۹۵۲ء میں سات آٹھ ماہ کے اندر اندر نگار کا ’’حسرت نمبر‘‘ ان کی یاد کے شایان شان شائع کر دیا۔ نیاز نے اس نمبر کے لیے اس زمانے کی تمام بڑی شخصیتوں سے مضامین لکھوائے، مثلاً، مجنوں گورکھپوری، رشید احمد صدیقی، فراق گورکھپوری، آل احمد سرور، احتشام حسین، عبادت بریلوی، کشن پرشاد کول اور خواجہ احمد فاروقی۔ خود نیاز نے اس یادگار نمبر میں پانچ حصے قلم بند کیے اور تذکرۂ حسرت اور انتخاب کلام حسرت کے علاوہ ’’حسرت کی خصوصیات شاعری‘‘ کے عنوان سے جامع مضمون بھی لکھا۔

    واقعات جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کے بعد حسرت موہانی اردو شاعروں میں شاید پہلے سیاسی قیدی تھے۔ وہ واقعہ جس پر انھیں قید بامشقت کی سزا ہوئی تھی اب تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۰۸ء میں رسالہ اردوئے معلیٰ میں ایک مضمون مصر کے نامور لیڈر مصطفی کمال کی موت پر شائع ہوا جس میں مصر میں انگریزوں کی پالیسی پر بے لاگ تنقید تھی۔ یہ مضمون انگریز سرکار کی نظر میں قابل اعتراض ٹھہرا۔ بقول سید سلیمان ندوی، ’’علی گڑھ کی سلطنت میں بغاوت کا یہ پہلا جرم تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ علی گڑھ کالج کی حرمت کو بچانے کے لیے کالج کے بڑے بڑے ذمہ داروں نے حسرت کے خلاف گواہی دی۔ یہاں تک کہ نواب وقار الملک نے بھی مضمون کی مذمت کی۔ حسرت کو دو برس کی قید سخت کی سزا ہوئی۔ ان کا کتب خانہ اور پریس پولیس کے ظلم وستم کی نذر ہو گیا۔‘‘

    اس سانحے کا دلچسپ پہلو جس سے حسرت کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے، یہ ہے کہ مضمون حسرت کا نہ تھا۔ مضمون پر کسی کا نام نہیں تھا۔ باوجود اصرار کے حسرت نے اس کے لکھنے والے کا نام نہیں بتایا۔

    حسرت کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے، حسرت کی طبیعت بھی

  • جیل میں مر جاؤ تو مکھی اور نکل جاؤ تو…

    جیل میں مر جاؤ تو مکھی اور نکل جاؤ تو…

    الہ آباد کا سینٹرل جیل نینی میں ہے، جہاں جانے کے لیے الہ آباد سے آگے جنی جنکشن پر اترنا ہوتا ہے۔

    ہم لوگ صبح کو وہاں پہنچ کر آٹھ بجے کے قریب سینٹرل جیل میں داخل ہوئے، علی گڑھ جیل کے کپڑے اتار لیے گئے اور کہا گیا کہ یہاں کے کپڑے کچھ دیر میں ملیں گے، اس وقت تک کالے کپڑے پہنو، جن کی کیفیت یہ تھی کہ ان سے زیادہ کثیف غلیظ اور بدبو دار کپڑوں کا تصور انسانی ذہن میں نہیں آسکتا، لیکن قہر درویش بر جانِ درویش وہی کپڑے پہننا پڑے۔ راقم حروف کی نگاہ دور بین نہیں ہے، اس لیے پڑھنے لکھے اوقات کو چھوڑ کر باقی ہر وقت عینک کی ضرورت رہتی ہے۔ چناں چہ علی گڑھ جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بعد معائنہ عینک لگائے رہنے کی اجازت دے دی تھی، لیکن الہ آباد والوں نے اس کو کسی طرح گوارا نہ کیا اور عینک کو داخل دفتر کر کے راقم کی بے دست و پائی کو ایک درجہ اور بڑھا دیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد جیلر صاحب نازل ہوئے اور میرے ساتھ کے تمام اخباروں اور کاغذوں کو اپنے سامنے جلوا کر خاکستر کر دیا اور دفتر میں حاضر ہونے کا حکم صادر فرمایا۔ دفتر میں مجھ کو غضب آلود اور قہر بار نگاہوں سے دیکھ کر ارشاد ہوا کہ اگر یہاں ٹھیک طور سے نہ رہو گے، تو بیمار بنا کر اسپتال بھیجے جاؤ گے اور وہاں مار کر خاک کر دیے جاؤ گے۔ اس خطابِ پُرعتاب کا خاموشی کے سوا اور جواب ہی کیا ہو سکتا تھا۔ جیلر صاحب نے غالباً یہ تقریر محض دھمکانے کی نیت سے کی ہو گی، کیوں کہ بعد میں ان سے مجھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قیدیوں کی نسبت جیل خانے میں یہ مشہور مثل بالکل صحیح ہے کہ ”مر جائیں تو مکھی اور نکل جائیں تو شیر!“ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی قیدی جیل میں مر جائے، تو وہاں اس واقعے کی اہمیت ایک مکھی کے مر جانے سے زیادہ نہ سمجھی جائے گی، لیکن اگر کوئی قیدی وہاں سے نکل بھاگنے میں کام یاب ہو جائے، تو یہ واقعہ اس قدر اہم شمار کیا جائے گا کہ جتنا ایک شیر کا کٹہرے سے نکل جانا!

    ( ”مشاہدات زنداں“ از مولانا حسرت موہانی سے لیا گیا)

  • حسرتؔ موہانی: شاعری، صحافت اور سیاست کے میدان کا رئیس

    حسرتؔ موہانی: شاعری، صحافت اور سیاست کے میدان کا رئیس

    یہ تذکرہ ہے حسرتؔ موہانی کا جن کی فکر اور فن کی کئی جہات ہیں اور ان کی شخصیت کے بھی کئی رُخ۔ اردو ادب میں وہ ایک شاعر، ادیب اور صحافی ہی نہیں بلکہ مجاہدِ آزادی کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ حسرتؔ موہانی اردو ادب کا ایک بڑا نام ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 13 مئی 1951ء کو حسرتؔ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    چھوٹا سا قد، لاغر بدن، گندمی رنگت پر چیچک کے داغ، چہرہ پر داڑھی، سر پر کلا بتونی ٹوپی، پرانی وضع کے چار خانے کا انگرکھا، تنگ پاجامہ جس کے پائنچے ٹخنوں سے اُونچے ہوتے تھے، ایک ہاتھ میں چھڑی اور ایک ہاتھ میں پاندان۔ یہ حسرتؔ کا حلیہ تھا جو ادبی محافل اور سیاسی اجتماعات میں نظر آتے تھے۔ حسرتؔ ایک محقّق، نقّاد اور تذکرہ نگار بھی تھے۔

    نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
    مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

    جنوں کا نام خرد پڑ گیا، خرد کا جنوں
    جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

    حسرتؔ کے یہ اشعار دیکھیے اور اردو کے ممتاز شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کی حسرت کے کلام پر ایک مضمون سے چند سطور پڑھیے؛ "معاصرین بلکہ ہر دور کے اچھے متغزلین، سب کی شاعری میں وہ چیز موجود ہے جسے ہم رس کہتے ہیں لیکن اردو غزل کی تاریخ میں حسرت سے زیادہ یا حسرت کے برابر رسیلی شاعری ہرگز کہیں اور نہ ملے گی۔ میر سوز اور ان کے ہمنواؤں کے ہاتھوں جس طرح کی اردو غزل نے جنم لیا تھا حسرت نے اسے کنیا سے کامنی بنا دیا۔ یہ کام ایک پیدائشی فن کار (Born Master) کا ہے۔ یہ شاعری قدرِ اوّل سے ذرا اتری ہوئی سہی لیکن یہ کارنامہ قدر اوّل کی چیز ہے۔ حسرت کے کلام میں ایک ایسی صفت ہے جو ان کے معاصرین میں نہیں ہے، یعنی وہ صفت جسے اہلِ لکھنو مزہ کہتے ہیں۔ حسرت کے کلام میں باسی پن شاید پیدا ہو ہی نہیں سکتا۔”

    ترقّی پسند تحریک کے سرداروں میں شامل سیّد سجّاد ظہیر نے ’’روشنائی‘‘ میں حسرتؔ کا ذکر یوں کیا ہے کہ ’’ہمارے ملک میں اگر کوئی ایسی ہستی تھی، جسے ہر قسم کے تکلّف، بناوٹ، مصنوعی اور رسمی آداب سے شدید نفرت تھی، اور جو اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لوگ اس کی بات کا بُرا مانیں گے یا ناراض ہو جائیں گے، سچّی بات کہنے اور اس کے مطابق عمل کرنے سے کبھی نہیں جھجکتی تھی، تو وہ حسرتؔ موہانی کی ہستی تھی۔‘‘

    حسرتؔ کے والد کا نام سیّد ازہر حسن اور والدہ شہر بانو تھیں۔ حسرتؔ کی پیدایش کے سال میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، لیکن بیش تر تذکرہ نویسوں‌ نے جنوری 1880ء اور وطن موہان بتایا ہے۔ اُن کا نام سیّد فضل الحسن رکھا گیا۔ خوش حال گھر کے فرد تھے جس کی فضا عمومی طور پر مذہبی تھی اور حسرتؔ بھی ابتدا ہی سے نماز روزہ اور دیگر دینی تعلیمات پر عمل کرنے لگے تھے۔ حسرتؔ کی والدہ اور نانی دونوں ہی فارسی اور اُردو پر نہ صرف قدرت رکھتی تھیں بلکہ شعری و ادبی ذوق بھی اعلیٰ پائے کا تھا۔ چوں کہ ان دو خواتین کی زیرِ تربیت حسرتؔ کا ابتدائی وقت گزرا، لہٰذا اُن میں بھی شعر و ادب سے دل چسپی پیدا ہو گئی۔ طبیعت میں ذہانت اور شوخی بھی بدرجۂ اتم موجود تھی۔ اُس زمانے کے رواج کے عین مطابق حسرتؔ کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ گھر سے شروع ہوا۔ قابل اساتذہ نصاب کے مطابق عربی، فارسی درسیات اور اُردو اسباق کے لیے گھر آ کر تعلیم دیا کرتے۔ ان کی تعلیم اور صحبت کا اثر یہ ہوا کہ حسرتؔ کو نو عمری ہی سے فروعِ دین کا شوق پیدا ہوگیا۔ قرآنِ پاک کی تکمیل کر لی اور پھر فتح پور، ہسوہ کے اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ یہاں عربی و فارسی کے علاوہ انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ حسرتؔ مشرقی اور مغربی تعلیم سے بہرہ وَر ہونے لگے۔ مڈل کے امتحان میں حسرتؔ نے اوّل درجے میں کام یابی حاصل کی اور ان کو وظیفہ عطا کیا گیا۔ چوں کہ اُس وقت موہان میں مڈل سے آگے کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول موجود نہ تھا، لہٰذا حسرتؔ کو 1893ء میں میٹرک کی تعلیم کے لیے فتح پور بھیجا گیا۔ فتح پور میں حسرتؔ نے کم و بیش پانچ برس گزارے۔ اس دوران قابل اساتذہ اور ادبی شخصیات سے اُن کا میل جول رہا اور حسرت نے جو شاعری شروع کرچکے تھے، ان کی صحبت سے خوب فیض اٹھایا۔ 1899ء میں حسرتؔ گورنمنٹ ہائی اسکول، فتح پور سے عربی، فارسی، اُردو اور ریاضی میں امتیازی شان کے ساتھ درجۂ اوّل میں کام یاب ہوئے اور ایک بار پھر سرکاری وظیفے کے مستحق قرار پائے۔ حسرتؔ کی کام یابی کی یہ خبر گزٹ میں شایع ہوئی۔ اسی اثناء میں حسرتؔ کی شادی بھی انجام پا گئی۔ بیوی سمجھ دار اور پڑھی لکھی خاتون تھیں اور شادی کے بعد حسرتؔ علی گڑھ چلے گئے جہاں صحبتوں کا تو پوچھنا ہی کیا۔ سیّد سجّاد حیدر یلدرمؔ اور مولانا شوکت علی سے ہر وقت کا ملنا جلنا رہتا۔ 1901ء میں حسرتؔ نے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کام یابی حاصل کی اور دو سال بعد ایک ادبی رسالہ، ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ جاری کیا جس میں ان کی اہلیہ نے اُن کا ہاتھ بٹایا اور اسی زمانے میں حسرتؔ جو عملی سیاست میں یک گونہ دل چسپی محسوس کرنے لگے تھے کالج کی سطح پر طلباء سرگرمیاں انجام دینے لگے۔ وہ اپنے ساتھیوں‌ کو لے کر مطالبات اور احتجاج میں اتنا آگے چلے گئے کہ کالج انتظامیہ نے ان کو تین بار ہاسٹل سے نکالا۔ ان کی سرگرمیاں انھیں کسی انقلابی تبدیلی کا خواہاں ظاہر کرتی تھیں۔ اسی اثنا میں حسرت نے گریجویشن کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ 1904ء میں حسرتؔ نے پہلی بار کانگریس کے کسی اجلاس میں شرکت کی اور یوں باقاعدہ طور پر ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے ان کا سفر شروع ہوا۔ حسرتؔ نے اسی زمانے میں ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے قیام کے باوجود اس جماعت کا ساتھ نہ دیا۔ یہ ان کے نظریاتی اور سیاسی اختلاف کا معاملہ تھا۔ لیکن چند برس بعد ہی حسرتؔ نے کانگریس سے بھی علیحدگی اختیار کر لی۔ ادھر ان کے رسالے میں ایک مضمون میں‌ انگریز حکومت کی حکمتِ عملی پر جارحانہ انداز میں تنقید کے بعد حسرتؔ کو حراست میں لے لیا گیا اور ان پر غدّاری کا مقدّمہ بن گیا۔ حکومت نے کتب خانہ اور پریس ضبط کر لیا۔ مقدّمہ چلا اور حسرت کو دو برس قید اور جرمانہ 500 روپے کیا گیا۔

    1909ء میں حسرتؔ نے ایک بار پھر ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ کا اجراء کرنا چاہا، مگر کوئی پریس رسالہ چھاپنے کی ہمّت نہیں کر پا رہا تھا۔ تب انھوں نے خود اس کام کا آغاز کیا اور وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر پریس کے سارے کام خود کرنے لگے۔ ’’اُردوئے مُعلّیٰ‘‘ اپنی روش پر گام زن رہا۔ مگر ایک اور موقع وہ آیا کہ رسالہ پھر عتاب کا شکار ہو گیا۔ حسرتؔ نے ہمّت ہارنے کے بجائے عجب قدم اٹھایا۔ وہ دکان کھول کر بیٹھ گئے جہاں علاوہ سودیشی کپڑوں کے دیگر اشیاء بھی موجود ہوتیں۔

    حسرتؔ کا سیاسی نظریہ بہت واضح تھا کہ انگریزوں سے آزادی کے لیے عملی جدوجہد کی جائے۔ 1913ء ہی میں ’’مسجدِ کانپور‘‘ کا سانحہ رونما ہوگیا جس میں بہت سی جانیں ضایع ہوئیں۔ اسی پر ایک تحریک چلی، اور اس تحریک کے راہ نماؤں میں حسرتؔ بھی شامل تھے۔1916ء میں حکومت نے جوہرؔ اور ابوالکلام آزاد کو حراست میں لیا، تو حسرتؔ میدان میں نکلے، مگر ان کو بھی پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ برطانوی حکومت حسرتؔ کی شہرت سے خائف بھی تھی اور یہ بھی سمجھتی تھی کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان دونوں کا حسرتؔ کو یکساں قدر کی نگاہ سے دیکھنا، خطرے سے کم نہیں۔ بالآخر مئی 1918ء میں حسرتؔ کی سزا کی مدّت پوری ہوئی اور وہ رہا کیے گئے۔ 1919ء میں’’ جلیانوالہ باغ‘‘ کا سانحہ پیش آیا۔ حسرتؔ کا برطانوی حکومت کے خلاف اور انگریزوں سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کو سیاسی طور پر بیدار کرنے کا سلسلہ جلسے، جلوس، کانگریس اور مسلم لیگ سے اتفاق اور اختلاف کے ساتھ جاری تھا کہ 1922ء میں ایک بار پھر گرفتار کر لیے گئے اور اس کا سبب کانگریس کی خلافت کانفرنس اور مسلم لیگ کے جلسوں میں باغیانہ تقاریر تھیں۔ انھیں قیدِ بامشقّت سنائی گئی۔ دو سال بعد رہائی ملی اور 1925ء میں‌ سال کے آخر میں کانپور میں ’’آل انڈیا کمیونسٹ کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی، جس کی پشت پر حسرتؔ موجود تھے۔ اب انھوں نے خود کو ’’مسلم اشتراکی‘‘ کہنا شروع کردیا۔ اس سیاسی سفر کے علاوہ 1936ء میں ’’انجمنِ ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا قیام عمل میں آیا تو حسرتؔ نے لکھنؤ کی پہلی کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ 1937ء میں حسرتؔ کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور پھر خاندان کی ایک بیوہ سے نکاح کرنے کے بعد مغربی ممالک کے دورے پر گئے۔ وہاں برطانوی سیاسی راہ نماؤں سے ملاقاتیں کیں، ہاؤس آف کامنز کے جلسے میں تقریر کی اور وہاں ہندوستانیوں کی آواز بنے رہے۔ یہاں‌ تک کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا اور حسرتؔ نے بھارت ہی میں رہنا پسند کیا۔ 1950ء میں اپنی زندگی کا آخری اور تیرہواں حج ادا کرنے والے حسرت بیماری کے سبب اگلے سال انتقال کرگئے۔

    حسرتؔ کی تصنیفات و تالیفات میں ’’متروکاتِ سُخن‘‘، ’’معائبِ سخن‘‘، ’’محاسنِ سخن‘‘، ’’نوادرِ سخن‘‘،’’نکاتِ سخن‘‘،’’دیوانِ غالبؔ(اردو) مع شرح‘‘، ’’کلّیاتِ حسرتؔ‘‘، ’’قیدِ فرنگ‘‘، ’’مشاہداتِ زنداں‘‘ اور کئی مضامین شامل ہیں۔

  • ’’تم آدمی ہو یا جنّ؟‘‘

    ’’تم آدمی ہو یا جنّ؟‘‘

    ‘کچھ خطبے کچھ مقالے’ جدید اردو تنقید کے بانیوں میں شامل آل احمد سرور کے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انھوں نے مولانا حسرت موہانی کے علمی و ادبی مرتبے کے ساتھ ان کے سیاسی نظریات اور صحافتی کارناموں پر بات کی ہے۔

    حسرت موہانی اردو کے اک بلند پایہ شاعر، صحافی، نقّاد اور مجاہدِ آزادی تھے جو کانگریس کے حامی تھے۔ انھوں نے ہندوستان کو انقلاب زندہ باد کا نعرہ دیا اور انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ کی وکالت کی، جب کہ مہاتما گاندھی کو سودیشی تحریک کی راہ سجھائی۔ وہ ملک کی آزادی کے حامی اور تقسیم کے مخالف تھے۔ آل احمد سرور نے ان کے رسالے اردوئے معلّٰی کی تعریف میں لکھا:

    "اردو ادب کی تاریخ میں جن رسالوں کے نام خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، ان میں دل گداز، مخزن، اردوئے معلّٰی، زمانہ، نگار اور اردو ممتاز ہیں۔ ان میں اردوئے معلّٰی کئی حیثیتوں سے سرِفہرست ہے۔”

    "یہ رسالہ مولانا حسرت نے اس وقت نکالا جب وہ بی اے کے امتحان سے فارغ ہی ہوئے تھے اور نتیجہ تک نہ نکلا تھا۔”

    "اس رسالے کا سب سے بڑا مقصد ’درستیٔ مذاق‘ قرار دیا گیا تھا۔ اس میں اردو کے سیکڑوں مشہور اور گم نام اساتذہ کے کلام کا انتخاب شائع کیا گیا۔ بہت سے مشہور شعرا کے حالات، قلمی تذکروں اور دوسرے ماخذ سے جمع کر کے شائع کیے گئے۔ یہ محض ادبی رسالہ نہ تھا۔ شروع سے اس میں ملکی اور غیر ملکی سیاست اور حالات حاضرہ پر تبصرے ہوتے تھے۔ اگرچہ اس میں اچھے اچھے ادیبوں اور شاعروں نے مضامین، نظمیں اور غزلیں بھیجیں۔ مگر اس کی بہارِ بیشتر حسرت کے خونِ جگر کی مرہون منت ہے۔”

    "وہ ایک مصروف سیاسی زندگی کے باوجود اسے بہت عرصے تک نکالتے رہے۔ شروع میں یہ اڑتالیس صفحے کا ایک ماہ وار رسالہ تھا مگر جب حسرت کو حکومت کا زبردست مہمان ہونا پڑا تو صفحات بھی کم ہو گئے اور اشاعت بھی باقاعدہ نہیں رہی مگر پرچے کی اشاعت بند نہیں ہوئی۔”

    "پہلے پرچے میں علاوہ چند بلند ادبی مقاصد کے مضمون نگاروں کو معاوضہ دینے کا ذکر بھی کیا گیا تھا۔ معلوم نہیں اس وعدے کو پورا بھی کیا گیا یا نہیں مگر اس کا ذکر ہی حسرت کی اولوالعزمی اور سوجھ بوجھ کی دلیل ہے۔ حسرت نے جب سودیشی تحریک شروع کی تو مولانا شبلیؔ نے لکھا تھا،

    ’’تم آدمی ہو یا جنّ۔ پہلے شاعر تھے، پھر پالیٹیشین بنے اور اب بنیے ہوگئے۔‘‘ علم و علم اور عزم و استقلال کے اس پیکر پر جسے حسرت کہا جاتا ہے یہ بڑی معنٰی خیز تنقید ہے۔”

    "اردوئے معلّٰی کے ادبی کارناموں کا تو اعتراف بھی کیا گیا مگر اس نے سیاست کے میدان میں جو خدمات انجام دی ہیں، ان کی ابھی تک کماحقہ قدر نہیں ہوئی۔ حسرت ایک پکے قوم پرور تھے۔ وہ کالج کی تعلیم کے دوران ہی میں سیاسی مباحث میں شریک ہوتے تھے اور کانگریس کے گرم دل کے دل و جان سے فدائی تھی۔ انھوں نے 1904ء کے بمبئی کے اجلاس کانگریس میں شرکت کے بعد اس کی مفصل روداد اپنے رسالے میں چھاپی اور مسلمانوں کی کانگریس میں شرکت پر زور دیا۔”

  • "مخربِ زبان….”

    "مخربِ زبان….”

    حالی کے دوست بے شمار تھے، لیکن دشمنوں اور مخالفوں کی کمی بھی نہ تھی۔ ان کے مخالفین میں مذہبی، غیرمذہبی اور دوست نما دشمن شامل تھے۔ حالی کی مخالفت کی ایک خاص وجہ ان کی سر سید سے دوستی، علی گڑھ تحریک سے وابستگی اور سرسید کی سوانح حیاتِ جاوید کی تصنیف تھی۔

    یہاں ہم حالی کے چند معاصرین کی معاندانہ تنقید کو مستند حوالوں سے درج کرتے ہیں۔ حسرت موہانی اُردوئے معلّیٰ میں حالی پر سخت اعتراضات کرتے تھے۔ ایک اسی قسم کا واقعہ تذکرہ حالی میں شیخ اسماعیل پانی پتی نے یوں لکھا ہے:

    ”علی گڑھ کالج میں کوئی عظیم الشان تقریب تھی۔ نواب محسن الملک کے اصرار پر مولانا حالی بھی اس میں شرکت کے لیے تشریف لائے اور حسبِ معمول سید زین العابدین مرحوم کے مکان پر فروکش ہوئے۔

    ایک صبح حسرت موہانی دو دوستوں کے ساتھ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ چندے اِدھر اُدھر کی باتیں ہوا کیں۔ اتنے میں سید صاحب موصوف نے بھی اپنے کمرے میں سے حسرت کو دیکھا۔ اُن میں لڑکپن کی شوخی اب تک باقی تھی۔ اپنے کتب خانے میں گئے اور اُردوئے معلیٰ کے دو تین پرچے اُٹھا لائے۔

    حسرت اور اُن کے دوستوں کا ماتھا ٹھنکا کہ اب خیر نہیں۔ اور اُٹھ کر جانے پر آمادہ ہوئے مگر زین العابدین کب جانے دیتے تھے۔ خود پاس بیٹھ گئے۔ ایک پرچے کے ورق الٹنا شروع کیے اور مولانا حالی کو مخاطب کرکے حسرت اور اُردوئے معلیٰ کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے۔ کسی کسی مضمون کی دو چار سطریں پڑھتے اور واہ خوب لکھا ہے کہہ کر داد دیتے۔

    حالی بھی ہوں، ہاں سے تائید کرتے جاتے تھے۔ اتنے میں سید صاحب مصنوعی حیرت بلکہ وحشت کا اظہار کرکے بولے:

    ” ارے مولانا یہ دیکھیے آپ کی نسبت کیا لکھا ہے اور کچھ اس قسم کے الفاظ پڑھنا شروع کیے۔ سچ تو یہ ہے کہ حالی سے بڑھ کر مخربِ زبان کوئی نہیں ہوسکتا اور وہ جتنی جلدی اپنے قلم کو اُردو کی خدمت سے روک لیں اُتنا ہی اچھا ہے۔

    فرشتہ منش حالی ذرا مکدّر نہیں ہوئے اور مسکرا کر کہا تو یہ کہا کہ نکتہ چینی اصلاحِ زبان کا بہترین ذریعہ ہے اور یہ کچھ عیب میں داخل نہیں۔“

    کئی روز بعد ایک دوست نے حسرت سے پوچھا اب بھی حالی کے خلاف کچھ لکھو گے؟ جواب دیا جو کچھ لکھ چکا اُسی کا ملال اب تک دل پر ہے۔ حالی کا یہ ضبط، وقار اور عالی ظرفی بڑے بڑے مخالفوں کو شرمندہ اور نکتہ چینوں کو پشیمان کر دیتی تھی۔“

    جب حالی کی شاہ کار کتاب ’حیاتِ جاوید‘ شائع ہوئی تو شبلی نعمانی نے اس کی سخت مخالفت کی۔ مولوی عبدالحق ’چند ہم عصر‘ میں لکھتے ہیں جب میں نے حیاتِ جاوید کا ایک نسخہ ان کو دیا تو دیکھتے ہی فرمایا۔

    ”یہ کذب و افترا کا آئینہ ہے۔“ یہ جملہ سن کر عبدالحق دم بخود رہ گئے کیوں کہ پڑھنے سے پہلے ایسی سخت رائے کیا معنیٰ رکھتی تھی۔

    (سید تقی عابدی کے مضمون سے اقتباس)

  • "صدر بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا!”

    "صدر بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا!”

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    مولانا حسرت موہانی نے عشقیہ مضامین یا رومانوی جذبات کو اپنی شاعری میں نہایت سلیقے اور خوب صورتی سے نبھایا۔ انھوں نے اپنے دور میں غزل کے روایتی موضوعات کو ایک خاص تازگی اور ندرت بخشی ہے۔ یہاں ہم نے جو شعر آپ کی نذر کیا ہے، وہ حسرت کی مشہور ترین غزل کا مطلع ہے۔ اسے متعدد گلوکاروں‌ نے اپنی آواز دی اور اسے لوگوں نے بہت پسند کیا۔

    حسرت موہانی شاعری ہی نہیں بلکہ اپنے نظریات اور سیاسی و عوامی جدوجہد کے لیے بھی مشہور ہیں۔ مشہور ادیب اور صحافی ابراہیم جلیس نے اپنی کتاب ”آسمان کے باشندے“ میں مولانا حسرت موہانی کا تذکرہ کیا ہے جو آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔

    ”مولانا حسرت اپنی ساری زندگی حکومت سے دور اور عوام سے قریب تر رہے۔ اتنے قریب کہ انھوں نے ساری زندگی ریل میں عوام کے ڈبے یعنی تھرڈ کلاس میں سفر کیا۔“

    مولانا شوکت علی مرحوم ایک واقعے کے راوی ہیں کہ مولانا حسرت جب خلافت کانفرنس کے صدر کی حیثیت سے الٰہ آباد روانہ ہورہے تھے تو مولانا شوکت علی نے مشورہ دیا۔

    ”مولانا آپ سیکنڈ کلاس میں سفر کیجیے۔ بی اماں بھی ساتھ ہوں گی، مصارف خلافت کمیٹی ادا کرے گی۔“ مولانا ناراض ہوگئے اور بولے:

    ”صدر بننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں تیسرے درجے ہی میں سفر کروں گا اور خلافت فنڈ سے ایک حبہ بھی نہیں لوں گا۔“

  • نشاطُ النسا بیگم: تحریک آزادیِ ہند کی مجاہد

    نشاطُ النسا بیگم: تحریک آزادیِ ہند کی مجاہد

    ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کا ایک دل آویز کردار اور بیسویں صدی کی چند باہمت اور متحرک خواتین میں بیگم حسرت موہانی بھی شامل ہیں۔

    ان کا اصل نام نشاط النسا بیگم تھا، لیکن انھیں بیگم حسرت موہانی کے نام سے پکارا اور یاد کیا گیا۔

    وہ ہندوستان کی ان خواتین میں سے تھیں جن کے شوہروں نے آزادی ہند کی خاطر انگریزوں کے خلاف قلم کی طاقت سے بھی کام لیا اور سرکار مخالف جلسوں اور تحریکوں میں بھی آگے آگے رہے۔ اس دوران مار پیٹ، گرفتاری اور سزا پانے والے اپنے خاوند کا ان عورتوں نے حوصلہ بڑھایا اور انھیں اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹنے کی تلقین کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ ہر کڑے وقت میں ان کے ساتھ ہیں۔ بیگم حسرت موہانی نے بھی نہ صرف یہ سب دیکھا، اور جھیلا بلکہ گھر کی ذمہ داریاں بھی نبھاتی رہیں اور تحریک کے لیے بھی کام کیا۔

    ایک موقع پر جب حسرت موہانی کو انگریزوں نے گرفتار کر لیا تو بیگم حسرت موہانی نے آزادی کی تحریک میں اپنا نام لکھوا لیا اور شوہر کے شانہ بشانہ تحریک میں حصہ لیا۔ ہندوستا ن کی مجاہد خواتین کی تاریخ لکھی جائے تو بیگم حسرت کا ذکر لازمی کیا جائے گا۔

    نشاط النسا بیگم 1885 میں موہان کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ شادی کے بعد انھوں نے حسرت موہانی کے ساتھ اخبار اور دیگر کام بھی دیکھے اور ہر موقع پر ان کی مدد کی۔ نشاط النسا بیگم آل انڈیا کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ممبر تھیں۔

    بیگم حسرت موہانی کے عزم و استقلال اور ان کی تحریکی سرگرمیوں اور شوہر پرستی نے انھیں دیگر خواتین سے ممتاز کیا اور سبھی ان کی شخصیت اور عمل سے متاثر رہے۔ اس وقت کے جید اور ممتاز راہ نماؤں اور شخصیات نے بیگم حسرت موہانی کی ہمت اور ان کی قربانیوں کا اعتراف کیا ہے۔

    بیگم حسرت موہانی تعلیم نسواں کی بڑی حامی تھیں۔ نامساعد حالات، تحریکی کاموں کا دباؤ اور دیگر ذمہ داریوں‌ کے ساتھ مالی دشورایوں نے انھیں جلد تھکا دیا اور وہ بیمار رہنے لگیں۔ 18 اپریل 1937 کو ہندوستان کی آزادی کا خواب دیکھنے اور اس کے لیے میدانِ عمل میں‌ متحرک نظر آنے والی یہ عظیم خاتون خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

  • اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو غزل کے موجد ثانی ۔ حسرت موہانی

    اردو شاعری میں کلاسک کی حیثیت رکھنے والے اس شعر کے خالق حسرت موہانی کی آج 66 ویں برسی ہے۔

    چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
    ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے

    قیام پاکستان سے قبل جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار، انگریزوں کی غلامی کا دور اور اس کے بعد تحریک پاکستان کا غلغلہ اٹھا تو اردو شاعری حسن و عشق کے قصوں کو چھوڑ کر قید و بند، انقلاب، آزادی اور زنجیروں جیسے موضوعات سے مزین ہوگئی۔ غزل میں بھی انہی موضوعات نے جگہ بنالی تو یہ حسرت موہانی ہی تھے جنہوں نے اردو غزل کا ارتقا کیا۔

    البتہ اس وقت کے بدلتے ہوئے رجحانات سے وہ بھی نہ محفوط رہ سکے اور ان کی شاعری میں بھی سیاست در آئی۔ وہ خود بھی سیاست میں رہے۔ پہلے کانگریس کے ساتھ تھے پھر کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔

    حسرت موہانی ایک صحافی بھی تھے۔ 1903 میں انہوں نے علی گڑھ سے ایک رسالہ اردو معلیٰ بھی جاری کیا۔ 1907 میں ایک حکومت مخالف مضمون شائع ہونے پر انہیں جیل بھی بھیجا گیا۔

    ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
    اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

    ان کا یہ مشہور زمانہ شعر اسی دور کی یادگار ہے۔

    علامہ شبلی نعمانی نے ایک بار ان کے لیے کہا تھا۔ ’تم آدمی ہو یا جن؟ پہلے شاعر تھے پھر سیاستدان بنے اور اب بنیے ہو گئے ہو۔‘ حسرت موہانی سے زیادہ متنوع شاعر اردو شاعری میں شاید ہی کوئی اور ہو۔

    حسرت کی شاعری سادہ زبان میں عشق و حسن کا بہترین مجموعہ ہے۔ ان کی شاعری کو ہر دور میں پسند کیا جاتا ہے۔ حسرت کا شمار بیسویں صدی کے بہترین غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے۔

    بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بے تابیاں
    ہم یہ سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا

    اردو غزل کو نئی زندگی بخشنے والا یہ شاعر 13 مئی 1951 کو لکھنؤ میں انتقال کر گیا۔