Tag: حسن البنا

  • حسن البنا:‌ اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے مقبول لیڈر جنھیں قتل کر دیا گیا

    حسن البنا:‌ اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے مقبول لیڈر جنھیں قتل کر دیا گیا

    دنیا کی تاریخ میں کئی سیاسی اور انقلابی تحریکوں اور کسی مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات ایسی ہیں جن کو زندگی میں‌ بھرپور پذیرائی اور عوامی تائید نصیب ہوئی اور بعد از مرگ بھی ان کی مقبولیت کئی دہائیوں تک برقرار رہی۔ ان کا تذکرہ آج بھی حسبِ موقع ضرور کیا جاتا ہے، اور حسن البنا انہی میں‌ سے ایک ہیں۔

    بیسویں صدی میں حسن البنا کا نام اسلامی دنیا کے مشہور ملک مصر کے ایک مقبول لیڈر کے طور پر گونجا۔ یہ وہ صدی تھی جس میں دنیا نے کئی انقلاب دیکھے اور بہت سی تحریکوں نے سَر اٹھایا۔ مصر میں‌ ایک تحریک کا مقصد اپنے معاشرے کو خالص اسلامی نظام میں ڈھالنا تھا اور ’اخوانُ المسلمین‘ وہ تنظیم تھی جس نے مسلمانوں کو دینی، سیاسی شعور دینے اور ان میں‌ مسلم ثقافت کا تصور اجاگر کرنے کے لیے بڑی سرگرمی سے کام کیا۔ اس تنظیم کی بنیاد 1928 میں وہاں کے ایک معلّم حسنُ البنا نے رکھی تھی۔ اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی۔ یہ وہ دور تھا جب خلافت کے بعد عرب دنیا میں کئی آزاد ریاستیں بن چکی تھیں۔ اس وقت اگرچہ نوآبادیاتی نظام خطرے سے دوچار تھا، لیکن ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ میں کئی ریاستیں اور علاقہ فرانس، اٹلی، برطانیہ اور دوسری طاقتوں کے زیر تسلط تھیں۔ حسن البنا نے عالمی جنگ سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے بکھر جانے تک بہت سیاسی اور سماجی تبدیلیاں‌ دیکھی تھیں۔ مصر میں ان کی تنظیم نے قیام کے بعد نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ عام لوگوں کو بھی جلد اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس تحریک نے مذہب اور سیاست کو یکجا کرنے کا جو تصور دیا تھا اس سے لوگ بہت متاثر تھے۔

    شیخ حسن البنا 14 اکتوبر 1906 کو مصر کی محمودیہ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے شیخ عبدالوہاب حصافی سے تعلیم و تربیت حاصل کی اور سنہ 1927 میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک اسکول سے بطور مدرس وابستہ ہو گئے۔ اس دور میں یہ بات پھیلی کہ نہر سویز کا کنٹرول سنبھالنے والی برطانوی کمپنیاں مصری کارکنوں کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہیں۔ حسن البنا نے طبقاتی اونچ نیچ اور برطانوی انجینئروں اور ان کمپنیوں کے یورپین منیجروں کو عالی شان اور پرآسائش مکانوں میں عیش اڑاتے دیکھا جب کہ مصری باشندے اور ان کمپنیوں‌ کے ساتھ کام کرنے والے مفلوک الحال اور کچے گھروں میں رہنے پر مجبور تھے۔ انھیں یہ بھی محسوس ہوا کہ مصر میں‌ اسلامی اقدار کو اہمیت نہیں‌ دی جارہی۔ اس نے حسن البنا کو اخوان المسلمین کی بنیاد رکھنے پر آمادہ کیا جس کا نصب العین اسلامی تعلیمات کا نفاذ اور بیرونی غلبے کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ صرف چند برس بعد یہ تنظیم ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ مصر کے طول و عرض میں اخوان المسلمین کی شاخیں قائم ہوئیں‌ اور اس کے بینر تلے طلبا اور مزدوروں کو منظم کیا گیا اور عورتوں کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ اس تنظیم کے تحت مدارس قائم کیے گئے اور رفاہ عامہ کے کئی کام انجام دیے جانے لگے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک ایسا نظام بنایا گیا جس کے تحت تنظیم کے کارکن بہترین مسلمان بن سکیں۔ اس کے علاوہ حسن البنا نے اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کردیا۔ رسائل اور اخبارات کے ساتھ مختلف موضوعات پر کتابچوں کے ذریعے انھوں نے اپنے اغراض و مقاصد کی پُر زور تبلیغ کی اور اسلام کو راہ نما مذہب ثابت کیا۔

    حسن البنا نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا آغاز کیا تو دیگر سلطنت کے مسلمان حکم رانوں سے بھی رابطہ کیا۔ انھیں اپنی فکر اور مقصد سے آگاہ کیا اور سنہ 1936 میں مصر کے بادشاہ اور دیگر عرب حکمرانوں کو بذریعہ مکتوب اسلامی نظام کے نفاذ کی طرف متوجہ کیا۔ اس کے دو سال بعد انھو‌ں نے مصر میں سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو برطانوی تسلط کے خلاف صف آرا کر دیا۔ حسن البنا نے سنہ 1948 میں فلسطین سے برطانیہ کے انخلا کے بعد جہاد فلسطین میں عملی حصہ لیا اور اخوان رضا کاروں نے بھی مقابلے میں شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس سے اخوان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ 1948ء میں مصری حکومت نے تنظیم کے خلاف برطانوی دباؤ پر آپریشن شروع کر دیا اور اس کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

    اس کے تین ہفتے بعد مصر کے وزیر اعظم نقراشی پاشا کا قتل ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ اسی کے جواب میں ایک کارروائی میں 12 فروری 1949ء کو حسن البنا ایک نامعلوم قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 43 برس تھی۔

  • حسنَ البنا: مصر کے عوام کا مقبول لیڈر جسے قتل کر دیا گیا

    حسنَ البنا: مصر کے عوام کا مقبول لیڈر جسے قتل کر دیا گیا

    دنیا کی تاریخ میں بعض شخصیات ایسی ہیں‌ جن کو زندگی میں‌ بھی بھرپور عوامی پذیرائی ملی اور موت کے بعد بھی ان کی مقبولیت ایک عرصہ تک برقرار رہی اور حسن البنا انہی میں‌ سے ایک ہیں۔

    بیسویں صدی میں اسلامی دنیا میں کئی تحریکوں نے جنم لیا جن کا مقصد اپنے معاشرے کو خالص اسلامی نظام میں ڈھالنا تھا۔ مصر میں ’اخوانُ المسلمین‘ وہ تنظیم تھی جس نے مسلمانوں کو دینی، سیاسی شعور دینے اور ان میں‌ مسلم ثقافت کا تصور اجاگر کرنے کے لیے بڑی سرگرمی سے کام کیا۔ اس تنظیم کی بنیاد 1928 میں مصر کے ایک 22 سالہ معلّم حسنُ البنا نے رکھی تھی۔ اس وقت عرب دنیا میں آزاد ریاستیں وجود میں آچکی تھیں۔ حسن البنا نے عالمی جنگ سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے بکھر جانے تک بہت سیاسی اور سماجی تبدیلیاں‌ دیکھی تھیں۔ ان کی تنظیم نے نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ عام لوگوں کو بھی جلد اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس تحریک نے مذہب اور سیاست کو یکجا کرنے کا جو تصور دیا تھا اس سے لوگ بہت متاثر تھے۔

    شیخ حسن البنا کی تاریخ پیدائش 14 اکتوبر 1906 ہے۔ وہ مصر میں محمودیہ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے شیخ عبدالوہاب حصافی سے تعلیم و تربیت حاصل کی اور سنہ 1927 میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک سکول سے بطور مدرس وابستہ ہو گئے۔ اس دور میں یہ بات پھیلی کہ نہر سویز کا کنٹرول سنبھالنے والی برطانوی کمپنیاں مصری کارکنوں کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہیں۔ حسن البنا نے طبقاتی اونچ نیچ اور برطانوی انجینئروں اور ان کمپنیوں کے یورپین منیجروں کو عالی شان اور پرآسائش مکانوں میں عیش اڑاتے دیکھا جب کہ مصری باشندے اور ان کمپنیوں‌ کے ساتھ کام کرنے والے مفلوک الحال اور کچے گھروں میں رہنے پر مجبور تھے۔ انھیں یہ بھی محسوس ہوا کہ مصر میں‌ اسلامی اقدار کو اہمیت نہیں‌ دی جارہی۔ اس نے حسن البنا کو اخوان المسلمین کی بنیاد رکھنے پر آمادہ کیا جس کا نصب العین اسلامی تعلیمات کا نفاذ اور بیرونی غلبے کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ صرف چند برس بعد یہ تنظیم ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ مصر کے طول و عرض میں اخوان المسلمین کی شاخیں قائم ہوئیں‌ اور اس کے بینر تلے طلبا اور مزدوروں کو منظم کیا گیا اور عورتوں کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ اس تنظیم کے تحت مدارس قائم کیے گئے اور رفاہ عامہ کے کئی کام انجام دیے جانے لگے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک ایسا نظام بنایا گیا جس کے تحت تنظیم کے کارکن بہترین مسلمان بن سکیں۔ اس کے علاوہ حسن البنا نے اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کردیا۔ رسائل اور اخبارات کے ساتھ مختلف موضوعات پر کتابچوں کے ذریعے انھوں نے اپنے اغراض و مقاصد کی پُر زور تبلیغ کی اور اسلام کو راہ نما مذہب ثابت کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حسن البنا نے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔ سنہ 1936 میں انھوں نے مصر کے بادشاہ اور دیگر عرب حکمرانوں سے ایک خط کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ اس کے دو سال بعد انھو‌ں نے مصر سیاسی اصلاحات کے ساتھ مصر پر برطانوی تسلط کے خلاف عوام کو صف آرا کردیا۔ حسن البنا نے سنہ 1948 میں فلسطین سے برطانیہ کے انخلا کے بعد جہاد فلسطین میں عملی حصہ لیا اور اخوان رضا کاروں نے بھی مقابلے میں شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس سے اخوان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ 1948 میں مصری حکومت نے تنظیم کے خلاف برطانوی دباؤ پر آپریشن شروع کر دیا اور اس کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

    اس کے تین ہفتے بعد مصر کے وزیراعظم نقراشی پاشا کا قتل ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ اسی کی جوابی کارروائی میں 12 فروری 1949 کو حسن البنا بھی ایک نامعلوم قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 43 برس تھی۔

  • پیرس، معروف اسلامی اسکالر پروفیسر طارق رمضان زیادتی کے الزام میں گرفتار

    پیرس، معروف اسلامی اسکالر پروفیسر طارق رمضان زیادتی کے الزام میں گرفتار

    پیرس : آ کسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ معاصرِ مذاہب اور فلسفے کے پروفیسر طارق رمضان کو دو خواتین کے ساتھ زیادتی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے، طارق رمضان اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا کے نواسے بھی ہیں.

    بین الااقوامی میڈیا کے مطابق آکسفورڈ سمیت متعدد درس گاہوں میں مذہب اور فلسفے کی تعلیم دینے والے پروفیسر اور فلاسفر طارق رمضان کو دو خواتین کے ساتھ زیادتی کے الزامات میں حراست میں لے کر مزید تفتیش کے لیے جیل منتقل کردیا گیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق پروفیسر طارق رمضان جو اخوان المسلمین کے بانی حسن البنا کے نواسے بھی ہیں کے خلاف 2016 میں ہینڈا یاری نامی خاتون نے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا اس کے علاوہ 2009 میں بھی ایک قسم کی ایک شکایت سامنے آئی تھی۔

    علاوہ ازیں چار سوئس خواتین نے بھی جنیوا میں دوران تعلیم پروفیسر طارق رمضان پر جنسی ہراسگی کا الزام عائد کیا تھا تاہم پروفیسر طارق رمضان نے ان تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے ایسی کوششوں کو انہیں بدنام کرنے کی سازش اور اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش قراردیا۔

    فلسفے اور مذہب کے پروفیسر طارق رمضان نے اپنے بیان میں موقف اختیار کیا کہ الزام عائد کرنے والی خاتون ہینڈا ایاری مسلمان مخالف شدت پسند گروہ کی رکن ہیں اور آج کل سیکولر فیمنیسٹ گروپ کی سربراہی بھی کر رہی ہیں جن کا ایجنڈا ہی اسلام مخالف ہے اسی لیے وہ منفی پروپیگنڈہ کرر ہی ہیں۔

    خیال رہے حسن البنا کے نواسے پروفیسر طارق رمضان کے والد سعید رمضان بھی ممتاز اسلامی اسکالر تھے جنہیں مصری صدر جمال عبدالناصر کے دور میں جلاوطن کردیا گیا تھا جس کے بعد یہ گھرانہ پہلے سعودی عرب اور پھر سوئٹزرلینڈ منتقل ہوا جہاں پروفیسر طارق رمضان کی پیدائش ہوئی۔

    پروفیسر طارق رمضان نے سوئٹزرلینڈ میں ہی گریجویشن کی اور پھر فلسفہ اور فرانسیسی ادب کی تعلیم حاسل کی جس کے بعد عربی اور مطالعہ علوم اسلامی کی تعلیم جامعۃ الازہر سے حاصل کی اور درس و تدریس کو اپنا اوڑنا بچھونا بنایا، وہ عراق پر اتحادی فوجوں کے حملے کے سخت ناقد بھی تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔