Tag: حسین حقانی

  • امریکا میں سابق سفیر حسین حقانی کو پاکستان واپس لانے کا فیصلہ

    امریکا میں سابق سفیر حسین حقانی کو پاکستان واپس لانے کا فیصلہ

    اسلام آباد: ایف آئی اے نے امریکا میں سابق سفیر حسین حقانی کو پاکستان واپس لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے انٹر پول ہیڈ کوارٹرز کو حسین حقانی کی حوالگی سے متعلق خط لکھ دیا ہے۔

    انٹرپول کو لکھے گئے خط میں ایف آئی اے نے کہا ہے کہ حسین حقانی کے خلاف 2018 میں اختیارات کے ناجائز استعمال، 2 ملین ڈالرز خرد برد، اور دھوکا دہی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

    خط میں ایف آئی اے نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ملزم حسین حقانی عدالتی مفرور ہیں، اور پاکستان میں ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے، اس لیے انٹرپول حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ جاری کرے۔

    ایف آئی اے نے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا

    یاد رہے کہ میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصوراعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    ان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔

  • سپریم کورٹ نےمیموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹادیا

    سپریم کورٹ نےمیموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹادیا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نےمیموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹادیا ، چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ درخواست گزارنہیں آتےتوہم کیوں اپناوقت ضائع کریں، پاکستان، مسلح افواج، آئین اور عوام اتنے کمزور نہیں کہ ایک میموسے لڑکھڑا جائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس کی سماعت کی، سماعت میں چیف جسٹس نے استفسار کیا 8 سال سے یہ کیس التوا کا شکار ہے، درخواست گزارکہاں ہیں، درخواست گزارنہیں آتےتوہم کیوں اپناوقت ضائع کریں۔

    درخواست گزارنہیں آتےتوہم کیوں اپناوقت ضائع کریں، چیف جسٹس کے ریمارکس

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کیس پڑھ کرحیرت ہوئی،حسین حقانی کی گرفتاری یاحوالگی ریاستی معاملہ ہے، سپریم کورٹ کاکیس سےاب کوئی تعلق نہیں رہا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکومت نےاس کیس میں ایف آئی آردرج کی تھی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا تواب یہ ریاست کاکام ہے، ایف آئی آر کے مطابق کام کرے، آرٹیکل6 کا مقدمہ چلاناہے تو چلائیں، سپریم کورٹ کیس میں کہاں آتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی کا کہنا تھا کہ عدالت سےاتفاق کرتاہوں ریمارکس کیساتھ کیس نمٹادیں ۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ  قوم، حکومت اورفوج اتنی کمزور نہیں کہ ایک میموسے لڑکھڑا جائیں، افواج پاکستان، جمہوریت اور آئین بہت مضبوط ہیں، اس قسم کے میموز سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    پاکستان، مسلح افواج، آئین اور عوام اتنے کمزور نہیں کہ ایک میموسے لڑکھڑا جائے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میموسےمتعلق درخواستیں عجلت میں دائرکی گئیں، حسین حقانی کی گرفتاری اورٹرائل ریاست کامعاملہ ہے، ریاست چاہے تو حسین حقانی کیخلاف کاروائی کرسکتی ہے، اس معاملےمیں ایف آئی آردرج ہوچکی ہے اور ایک کمیشن2012میں معاملےکی رپورٹ دےچکاہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا کیا ریاست اب بھی میموسے خوف محسوس کرتی ہے، حسین حقانی پر کچھ اور الزامات بھی ہیں ، گزشتہ سماعت پرنیب کو حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئےکہاگیا تھا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے میموگیٹ اسکینڈل کیس نمٹا دیا۔

    یاد رہے 9 فروری کو سپریم کورٹ نے میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا تھا اور اٹارنی جنرل، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کئے گئے تھے۔

    واضح رہے فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس میں ملوث امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے جبکہ حسین حقانی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں : میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا

    خیال رہے میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    حسین حقانی میمو گیٹ کے مرکزی ملزم ہیں اور پیپلز پارٹی کر دور حکومت میں امریکن سفیر رہے چکے ہیں۔

    حسین حقانی پرالزام ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔

    اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

    جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا، رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔

  • میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا

    میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا

    اسلام آباد: میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق میمو گیٹ کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے نیا بینچ تشکیل دے دیا ہے، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ 14 فروری کو کیس کی سماعت کرے گا۔

    تین رکنی بینچ میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہیں، اٹارنی جنرل، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل اور نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کو نوٹس جاری کردئیے گئے ہیں۔

    میمو گیٹ اسکینڈل

     حسین حقانی میمو گیٹ کے مرکزی ملزم ہیں اور پیپلز پارٹی کر دور حکومت میں امریکن سفیر رہے چکے ہیں۔

     میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    مزید پڑھیں: امریکا میں پاکستانی شہریوں نے حسین حقانی کو آڑے ہاتھوں لے لیا

    حسین حقانی پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔

    اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

    جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔

  • امریکا میں پاکستانی شہریوں نے حسین حقانی کو آڑے ہاتھوں لے لیا

    امریکا میں پاکستانی شہریوں نے حسین حقانی کو آڑے ہاتھوں لے لیا

    واشنگٹن: امریکا میں پاکستانی شہریوں نے سابق سفیر حسین حقانی کو آڑے ہاتھوں لے لیا، شہریوں نے حسین حقانی کو پاکستان مخالف سرگرمیوں پر غدار قرار دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کو جنوبی ایشیا سے متعلق کانفرنس میں شہریوں نے آڑے ہاتھوں لے کر غدار قرار دے دیا۔

    [bs-quote quote=”آپ غدار ہیں، پاکستان کی برائیاں کر رہے ہیں، پاکستان آؤ، عدالتوں کا سامنا کرو۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”شہریوں کا مطالبہ”][/bs-quote]

    امریکا میں پاکستانی شہریوں کے تند و تیز سوالات کے آگے حسین حقانی بے بس دکھائی دیے۔

    شہریوں نے میمو گیٹ اسکینڈل میں ایف آئی اے کو مطلوب اشتہاری ملزم حسین حقانی سے سوال کیا کہ وہ وطن سے باہر پاکستان مخالف پروگرام کیوں کرتے ہیں؟

    پاکستانی شہری نے کہا ’آپ غدار ہیں، پاکستان کی برائیاں کر رہے ہیں، پاکستان آؤ، عدالتوں کا سامنا کرو، پاکستان کیوں نہیں آتے۔‘

    حسین حقانی پاکستانی شہریوں کو کوئی جواب نہ دے سکے، جان چھڑاتے ہوئے کہا ’ایسے سب کے سامنے بات نہیں ہوتی۔‘


    یہ بھی پڑھیں:  سپریم کورٹ کا نیب کو حسین حقانی کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم


    حسین حقانی ’انسانی حقوق اور دہشت گردی کے خلاف جنوبی ایشیا‘ (SAATH) نامی کانفرنس میں شریک تھے، جہاں مقررین نے پاکستانی اداروں کے خلاف کھل کر ہرزہ سرائی کی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 18 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کے دوران عدالتی معاون نے بتایا کہ حسین حقانی کے معاملے پر ایف آئی اے نے انٹرپول سے رابطہ کر لیا ہے جب کہ حسین حقانی کے دائمی وارنٹ بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

  • سپریم کورٹ کا نیب کو حسین حقانی کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم

    سپریم کورٹ کا نیب کو حسین حقانی کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت کے دوران حسین حقانی کو واپس لانے کا معاملہ ایف آئی اے سے لے کرنیب کے سپرد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے میموگیٹ اسکینڈل کی سماعت کی۔

    عدالت عظمیٰ میں سماعت کے آغاز پرچیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ امریکا حسین حقانی کو حوالے کرنے سے انکارکرتا ہے تو کیا حل ہوگا؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں امریکا کے قانون کے مطابق کارروائی کا آغاز کرنا ہوگا۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کیا ان کی عدالت میں جانے کے لیے ہمارے پاس کافی مواد موجود ہے؟ جس پرڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمیں ان کی عدالت میں نہیں جانا پڑے گا۔

    انہوں نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ محکمہ خارجہ کے شعبہ باہمی تعاون مشاورت سے رابطہ کرنا پڑے گا۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کہ کرپشن کیس کے تحت حسین حقانی کی تحویل مانگی جائے، کام کے لیے نیب کا ادارہ موثر ہوگا۔

    سپریم کورٹ نے حسین حقانی کوواپس لانے کا معاملہ ایف آئی اے سے لے کرنیب کے سپرد کردیا اور اس حوالے نیب کو احکامات جاری کردیے۔

    عدالت عظمیٰ نے نیب کو حسین حقانی کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ایک ماہ میں ملزمان کی حوا لگی کا قانون پارلیمنٹ سے منظورکرایا جائے۔

    بعدازاں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کی سماعت 3 ستمبر تک ملتوی کردی۔

  • میمو کمیشن کیس سپریم کورٹ میں‌ سماعت کے لیے مقرر

    میمو کمیشن کیس سپریم کورٹ میں‌ سماعت کے لیے مقرر

    اسلام آباد: میمو کمیشن کیس سماعت کے لیے مقرر کرلیا گیا ہے، سماعت 30 اگست کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق میمو کمیشن کیس سماعت کے لیے مقرر کرلیا گیا، سماعت 30 اگست کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کرے گا، ڈی جی ایف آئی اے، اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردئیے گئے۔

    حسین حقانی کی واپسی سے متعلق ڈی جی ایف آئی اے رپورٹ پیش کریں گے، مقدمے کے فریق سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا، مقدمے میں مسلم لیگ (ن) کے اکثر رہنما 2011 میں درخواست گزار ہیں۔

    یا د رہے کہ میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    حسین حقانی پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔

    اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

    جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔

  • امریکا نے حسین حقانی کی حوالگی کے بدلے اپنا بندہ مانگ لیا

    امریکا نے حسین حقانی کی حوالگی کے بدلے اپنا بندہ مانگ لیا

    اسلام آباد: ڈی جی ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ امریکا نے حسین حقانی کی حوالگی سے انکار کرتے ہوئے ان کے بدلے اپنا ایک بندہ مانگ لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں میموگیٹ اسکینڈل کی سماعت ہوئی، عدالت نے پوچھا کہ سنا ہے حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ وصول کرنے سے انکار کیا گیا ہے۔

    ڈی جی ایف آئی نے عدالت کو بتایا کہ میری امریکیوں سے بات ہوئی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا بھی ایک بندہ آپ کے پاس ہے، میں نے ان کو حسین حقانی کے ریڈ وارنٹ بھی دکھائے۔

    سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ امریکا نے حسین حقانی کو ریڈ وارنٹ دینے سے انکار کیا، تو عدالت کو بتایا جائے کہ کوئی ملزم بیان حلفی دے اور پھر پیش نہ ہو تو کیا حکومت اسے بھیجنے سے انکار کرسکتی ہے؟

    ڈی جی ایف آئی کا کہنا تھا کہ حسین حقانی کی کرپشن کے حوالے سے بھی امریکیوں کو بتایا گیا لیکن ان کی طرف سے تعاون نہیں کیا جارہا ہے۔ انھوں نے الطاف حسین کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ بانی ایم کیو ایم کیس میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، انٹرپول میں پانچ بھارتی افسران ہیں لیکن ایک بھی پاکستانی نہیں ہے۔

    سپریم کورٹ کی حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئے30 دن کی ڈیڈلائن

    عدالت نے میمو گیٹ اسکینڈل میں معاونت کے لیے ممتاز ماہر قانون احمر بلال صوفی کو مقرر کردیا جو حسین حقانی کی وطن واپسی کے سلسلے میں عدالت کی معاونت کریں گے، کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی۔

    واضح رہے کہ فروری میں سپریم کورٹ نے حسین حقانی کا ریڈ وارنٹ جاری کردیا تھا جب کہ مارچ کے اختتام پر سپریم کورٹ نے حکومت کو حسین حقانی کو ملک واپس لانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی تھی۔

    عدالتی احکامات کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، حسین حقانی

    یاد رہے کہ 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے بعد امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے امریکی حکام کو پاکستان میں فوجی بغاوت کے خطرے کے پیش نظر ایک خط بھیجا تھا جس میں امریکا سے جمہوری حکومت کی مدد کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ 2012 سے یہ کیس زیر التوا رہا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • عدالتی احکامات کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، حسین حقانی

    عدالتی احکامات کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، حسین حقانی

    نیویارک : میموگیٹ کیس میں مطلوب حسین حقانی کی پاکستان کی اعلی عدلیہ کے خلاف ہزرہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی احکامات کی میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق میمو گیٹ کیس کے مرکزی کردار حسین حقانی نے عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑادیا اور کہا کہ جب وارنٹ موصول ہوں گے تو اس سے بھی نمٹ لیں گے۔

    وائس آف امریکا کو انٹرویو دیتے ہوئے حسین حقانی نے پاکستان کی اعلی عدلیہ پر ہرزہ سرائی کی اور کہا کہ عدالتی احکامات میرے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

    امریکہ میں بیٹھ عدالت کا مذاق اڑاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلے بھی عدالتی تماشہ لگایا گیا تھا اب بھی لگایا گیا ہے۔

    جب اُن سے پوچھا گیا کہ اعلیٰ عدالت کے احکامات اُن کے لیے کس قدر اہم ہیں تو حسین حقانی نے کہا کہ نہ صرف میرے لیے، بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی ان احکامات کےکوئی معنی نہیں۔

    عدالت کا سامنا کرنے سے گھبرانے والے حسین حقانی کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستان جاکرعدالت کا سامنا کرنے کا بیان کبھی نہیں دیا۔

    عدالت پرسنگین الزام عائدکرتےہوئے حسین حقانی نے یہ کہا کہ آؤ آؤ آؤ کی گردان کرنے سے سازش کی بو آتی ہے۔


    مزید پڑھیں : سپریم کورٹ کی حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئے30 دن کی ڈیڈلائن


    یاد رہے کہ  سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس کے مرکزی ملزم  سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لئے30 دن کی ڈیڈلائن دی تھی اور کہا تھا کہ ، اس کے بعد کوئی عذر برداشت نہیں کیا جائے گا۔

    یاد رہے چند روز قبل سابق امریکی سفیر حسین حقانی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ مقدمہ پریڈی تھانے میں وکیل مولوی اقبال حیدر کی مدعیت میں مملکت کے خلاف سازش کی دفعات کے تحت درج کیاگیا تھا۔

    واضح  رہے کہ میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    حسین حقانی  پر  یہ  الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔

    اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

    جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا، رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • سپریم کورٹ کی حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئے30 دن کی ڈیڈلائن

    سپریم کورٹ کی حسین حقانی کو وطن واپس لانے کیلئے30 دن کی ڈیڈلائن

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس کے مرکزی ملزم  سابق سفیر حسین حقانی کو وطن واپس لانے کے لئے30 دن کی ڈیڈلائن دے دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے سوچ رہا ہوں زیرالتوا مقدمات میں میڈیا تبصروں پر پابندی لگادوں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے میمو گیٹ سکینڈل کی سماعت کی، عدالتی حکم پر سیکریٹری داخلہ اورسیکریٹری خارجہ عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تین ہائی کورٹس کے چیف جسٹز نے فیصلہ دیا جسےکوڑے میں پھینک دیا، جس پر ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ اسی وقت درج ہوجانا چاہیے تھا جو ابھی درج ہوا۔

    جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا بتایا جائے کتنے دن میں کارروائی مکمل کریں گے، ڈی جی ایف آئی اے نے جواب میں کہا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے وارنٹ جاری کئے ہیں، وارنٹ کراچی اور واشنگٹن میں حسین حقانی کے گھر بھیجیں گے، حسین حقانی نہ آئے تو وکیل کے ذریعے مقدمہ کریں گے۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نےریمارکس دیے کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر تبصرے کیے جاتے ہیں، کہا گیا میموگیٹ کیس پھر سن کر گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں، ہم گڑے مردے نہیں اکھاڑ رہے بلکہ قانون پر عمل یقینی بنا رہے ہیں، پتہ کچھ ہے نہیں اور قانون و آئین پر تبصرے کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا جنہیں کمنٹس دینے کا بہت شوق ہے، ان کو بلالیتے ہیں، سنجیدگی سے غور کررہا ہوں کیوں نہ زیرالتوامقدمات میں میڈیا تبصروں پرپابندی لگا دوں۔

    جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 3ہائیکورٹ کےچیف جسٹس نےمیموکمیشن پرفیصلہ دیالیکن عمل نہ ہوا اور حکم دیا کہ حسین حقانی کو تیس دن میں وطن واپس لائیں، اس کے بعد کوئی عذر برداشت نہیں کیا جائے گا۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت ایک ماہ کیلئے ملتوی کردی۔


    مزید پڑھیں : میمو گیٹ اسکینڈل کے مرکزی ملزم سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج


    گزشتہ روز سماعت میں سپریم کورٹ نے میمو گیٹ کیس میں ایف آئی اے کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری خارجہ کو طلب کیا تھا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دو دن میں کارروائی مکمل کریں زیادہ وقت نہیں دیں گے، یہ پاکستان اور پاکستانی عدالتوں کےوقار کامعاملہ ہے۔ ایک شخص عدالت سے جھوٹ بول کر چلا گیا، کیا ریاست بے بس ہے کہ اسےگرفتار نہیں کر سکتی۔

    یاد رہے چند روز قبل سابق امریکی سفیر حسین حقانی کے خلاف بغاوت کا مقدمہ مقدمہ پریڈی تھانے میں وکیل مولوی اقبال حیدر کی مدعیت میں مملکت کے خلاف سازش کی دفعات کے تحت درج کیاگیا تھا۔

    واضح  رہے کہ میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    حسین حقانی  پر  یہ  الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔

    اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔

    جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا، رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ایف آئی اے نے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا

    ایف آئی اے نے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف مقدمہ درج کرلیا

    اسلام آباد : امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ درج کرلیا، مقدمےمیں کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال اوردیگر سنگین دفعات شامل کی گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق میمو گیٹ اسکینڈل کیس میں ملوث امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیا گیا ہے۔

    ایف آئی اے نے ان کیخلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے، اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ حسین حقانی کیخلاف مقدمہ اینٹی کرپشن سرکل نے مکمل انکوائری کے بعد درج کیا ہے۔

    حسین حقانی کےخلاف مقدمہ سنگین دفعات کےتحت درج کیا گیا مذکورہ مقدمے میں کرپشن،اختیارات کا ناجائز استعمال اور دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔

    ذرائع کے مطابق حسین حقانی کیخلاف ایف آئی اے ریڈ وارنٹ کے اجراء کا عمل جلد شروع کرے گی، اس سے قبل حسین حقانی کی گرفتاری کیلئےانٹر پول سے ریڈ وارنٹ کے اجراء کی درخواست بھی کی گئی تھی۔

    یاد رہے کہ میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصوراعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا۔

    ان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو مسدود کرنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک میمو بھیجا تھا۔


    مزید پڑھیں: میمو گیٹ اسکینڈل، حسین حقانی کے وارنٹ گرفتاری جاری


    اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا، جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔

    رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔