Tag: حضرت بہلول

  • بہلول کی باتیں

    بہلول کی باتیں

    کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرت شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔

    شیخ نے مریدوں سے پوچھا: ” تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے؟” لوگوں نے کہا: ” حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟”

    شیخ نے جواب دیا: "ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔” مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سَر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا: "تم کون ہو؟”

    "میں ہوں جنید بغدادی۔”

    "تو اے ابوالقاسم! تم وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟”

    "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔”

    "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو گے؟”

    "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔”

    پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہو کر بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔”

    یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر و مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔” یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔

    شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔”

    "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لیے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔”
    بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا: "کون ہو تم؟”

    "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔”

    بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہو گے؟”

    شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔”

    "تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟”

    "میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بے موقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلقِ خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔” اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کر دیں۔

    بہلول نے کہا: ” کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔” پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔” اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا: "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟”

    شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔”

    "اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟”

    "جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔” یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔

    بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔”

    یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا: "اے حضرت! میں نہیں جانتا۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔”

    کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔”

    پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضا مندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تمہارے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔”

    پھر سونے کے متعلق بتایا: ” اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمہارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔”

    بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔

    حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

  • دنیا کا بے وقوف انسان کون؟

    دنیا کا بے وقوف انسان کون؟

    خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں ایک دانا و حکیم بہلول کے نام سے مشہور تھے۔ اگرچہ ان کے حالاتِ زندگی اور ان سے منسوب روایات اور حکایات کی اسناد کم ہی دست یاب ہیں، مگر ہر دور میں اصحابِ علم و فضل کے یہاں ان کا تذکرہ ضرور ملتا ہے۔

    انھیں غیر معمولی ذہین، دانش مند اور طباع شخص کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں وہ ایک نیک صفت انسان اور اپنے دور کے بڑے دانا تھے اور ہارون الرشید بھی ان سے عقیدت رکھتا تھا۔

    ایک روز ہارون الرشید نے ملاقات کے دوران اپنے ہاتھ میں تھامی ہوئی چھڑی حضرت بہلول کو دی اور کہا کہ یہ چھڑی امانت کے طور پر دے رہا ہوں، یہ اس شخص کو دے دیجیے گا جسے آپ خود سے زیادہ بے وقوف پائیں۔ بہلول نے وہ چھڑی رکھ لی۔ کہتے ہیں کہ ہارون الرشید کی بہلول سے کافی بے تکلفی تھی اور خلیفہ نے انھیں یہ چھڑی دے کر گویا یہ کہنا چاہا تھاکہ دنیا میں بہلول سے زیادہ بے وقوف انسان کوئی نہیں ہے۔

    کئی سال بیت گئے۔ ہارون الرشید کے سخت بیمار ہونے کی اطلاع ملی تو بہلول عیادت کو پہنچے اور پوچھا: امیر المومنین کیا حال ہے؟
    ہارون الرشید نے کہا: کیا حال سنائوں، ایک لمبا سفر درپیش ہے۔ بہلول نے کہا اچھا تو اس سفر کی کیا تیاری کی؟ وہاں پر آپ نے کتنے لشکر بھیجے ہیں، کتنے خیمے اور دیگر آرائش و اسباب کے کیسے انتظامات کیے ہیں؟
    ہارون الرشید نے کہا: بہلول کیسی عجیب بات کرتے ہو، وہ سفر ایسا ہے کہ اس میں کوئی خیمہ نہیں جاتا، کوئی لشکر ساتھ نہیں جاتا۔

    بہلول نے مزید پوچھا: اچھا جناب واپس کب آئیں گے؟ ہارون الرشید نے الجھتے ہوئے کہا کہ تم نے کیسی باتیں شروع کر دی ہیں، وہ سفر آخرت کا سفر ہے، اس سفر پر جانے کے بعد کوئی واپس نہیں آتا۔

    اب بہلول دانا نے کہا: امیر المؤمنین! پھر تو ایک امانت میرے پاس آپ کی بہت مدت سے رکھی ہوئی ہے جو آپ نے یہ کہہ کر دی تھی کہ اپنے سے زیادہ بے وقوف آدمی کو دے دینا، آج مجھے اس چھڑی کا مستحق آپ سے زیادہ کوئی نظر نہیں آتا۔ میں نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ جب آپ چھوٹا سا بھی سفر کرتے اور کہیں جانے کے لیے نکلتے تو خوب تیاری کی جاتی تھی۔ لشکر اور دوسرے اسباب ساتھ ہوتے تھے، لیکن اب جب یہ لمبا سفر درپیش ہے تو اس کی کوئی تیاری ہی نہیں ہے۔

    مجھے اپنے سے زیادہ بے وقوف صرف آپ ہی نظر آتے ہیں۔ یہ چھڑی آپ کو مبارک ہو۔ حضرت بہلول کی یہ حکمت بھری بات سن کر خلیفہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور تذکروں میں لکھا ہے کہ انھوں نے بہلول ایک مدبر و دانا تسلیم کیا۔