Tag: حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء

  • سلطانُ المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کا تذکرہ

    سلطانُ المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کا تذکرہ

    ہندوستان کی سرزمین اولیا اللہ اور صوفیائے کرام کے روشن و پاکیزہ کردار اور نیکی و محبت پر مبنی تعلیمات کی وجہ سے ہمیشہ جگماتی رہی ہے۔ وہ صوفیا جن کے عمل اور فکر کی روشنی نے ایک جہان کو متاثر کیا ان میں ایک محبوب الہیٰ نظام الدین بھی ہیں جن کی تعلیمات کا مرکز و محور محبت اور خیر تھا۔ یہ لطف و کرم کسی ایک طبقے اور مذہب کے لیے نہیں بلکہ ہر ایک کے لیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے چاہنے والوں میں ہر مذہب اور ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے۔ خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے دہلی میں واقع مزار پر آج بھی مسلمان ہی نہیں ہندو، سکھ اور دیگر مذاہب کے لوگ ذوق و شوق سے آتے ہیں اور جذب و کیف کے عالم میں سرشار ہو کر لوٹتے ہیں۔

    خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی ولادت شہر بدایوں میں 27 صفر 636 ہجری (1238ء) میں ہوئی جنھیں عقیدت مند اور سلاسلِ اولیاء میں محبوبِ الٰہیؒ، سلطان المشائخ، سلطان الاولیاء، تاج المقربین کے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت صاحب کا سنہ وفات 3 اپریل 1325ء ہے۔ آپ سلسلۂ چشتیہ کے معروف صوفی بزرگ ہیں اور اصل نام سید محمد نظام الدین، والد کا نام سید احمد بخاری ہے۔ آپ ؒ نجیب الطرفین سادات میں سے ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے دادا سید علی بخاری اور ان کے چچا زاد بھائی حضرت سید عرب اہل وعیال کے ہمراہ بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں آباد ہوئے تھے۔ یہ دونوں بزرگ اپنے وقت کے بڑے متفقی اور پرہیز گار تھے اور ان کا شمار معزز ہستیوں میں ہوتا تھا۔ حضرت نظام الدین اولیاء محبوبِ الٰہی ؒ بمشکل پانچ برس کے ہوئے کہ والد کا انتقال ہوگیا، لیکن والدہ حضرت بی بی زلیخا نے محنت اور کام کرکے اپنے یتیم بچے کی عمدہ پرورش کی۔ یہ آمدنی اتنی قلیل ہوتی کہ معمولی غذا کے سوا کچھ ہاتھ نہ آتا۔ تنگ دستی کے ساتھ وقت گزرتا رہا اور اللہ کا فضل و کرم تھا کہ آپ نے بہت جلد قرآن حفظ کرلیا۔ اس کے بعد آپ نے مولانا علاءالدین اصولی ؒ کے درس میں شرکت کا سلسلہ شروع کیا۔ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد فقۂ حنفی کی مشہور کتاب "قدوری” ختم کی۔ مولانا علاء الدین اصولی ؒنے اپنے شاگرد کے سر پر دستارِ فضیلت باندھی۔ دستار بندی میں اپنے وقت کے ایک ولی اور دیگر بزرگ شریک تھے جن کی دعاؤں کے ساتھ حضرت نظام الدین اولیاء علم اور معرفت کے نئے سفر پر نکلے۔

    دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے قرب میں ہی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒکے بھائی حضرت شیخ نجیب الدین متوکل ؒکی رہائش گاہ تھی۔ آپ اکثر حضرت شیخ نجیب الدین متوکل ؒ سے ملاقات فرماتے تھے۔ حضرت شیخ نجیب الدین متوکلؒ کی زبانی حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒکی فضیلت و مرتبہ کے بارے میں پتا چلتا رہتا تھا اور دل میں ان کی عقیدت راسخ ہوگئی اور خواہش غلبہ پانے لگی کہ حضرت بابا فرید سے ملاقات کی جائے۔ چنانچہ حضرت نظام الدین اولیاء نے پاک پتن کا قصد کیا اور دربار عالیہ میں حاضر ہوگئے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒء نے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے دست مبارک پر بیعت کی اور بارگاہ سے علمی و روحانی فیض حاصل کیا۔ ایک مدت کے بعد نظام الدین اولیاءؒ خدمت گزاری اور طاعت شعاری سے مرتبۂ کمال کو پہنچے تو بابا فرید الدین گنج شکر ؒ نے آپ کو خلق خدا کی ہدایت و تکمیل کی اجازت دے کر 659 ہجری کو دہلی جاکر توحید اور ہدایت کا کام کرنے کا حکم دیا۔ تب وہ دہلی آگئے۔ آپ علوم القرآن پر دسترس رکھتے تھے۔ آپ جس طرح اسرار طریقت و حقیقت میں مکمل تھے، ویسے ہی علوم فقہ و حدیث و تفسیر و صرف و نحو، منطق، معانی، ادب میں فاضل تھے۔

    حضرت نظام الدین اولیاءؒ کو دہلی میں بہت مقبولیت ملی۔ عام و خاص سب لوگ ان کی طرف رجوع کرنے لگے۔ اور ایک جہاں تھا جو آپ کی صحبت میں نیکی اور خیر کی طرف آنے لگا۔ ان کا خود کا حال یہ تھا کہ تمام اوقات ریاضت اور مجاہدہ میں گزارتے اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کمال جذب و فیض عطا فرمایا۔ وہ حلیم و بردبار، حسن سلوک کے پیکر اور تارک دنیا تھے لیکن خلق خدا کی مدد کو ہمیشہ تیار رہے۔

    مشہور ہے کہ وصال سے قبل حضرت محبوب الٰہیؒ نے شیخ سید نصیر الدین روشن چراغ دہلوی ؒ کو وہ تبرکات جو حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرؒ سے ان تک پہنچے تھے، سونپ دیے۔ ان کو دہلی میں رہ کر رشد و ہدایت عام کرنے کی تلقین کی اور لگ بھگ 94 برس دنیا میں گزار کر پردہ کرلیا۔ آپ کے مزار پر آج بھی دہلی میں لاکھوں عقیدت مند فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں۔

    نظام الدین اولیاؒ کا ذکر آئے تو ان کے خاص مرید امیر خسرو کا ذکر بھی آتا ہے۔ وہ خسرو جو اقوامِ عالم میں ایک شاعر، موسیقار اور عالم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جن کو لوگ طوطیٔ ہند کے نام سے پکارتے ہیں اور شاعری کی مختلف اصناف میں اپنا مقام پیدا کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب حضرت نظام الدینؒ پاکپتن سے دہلی تشریف لائے تو ان کی عمر صرف بیس برس تھی۔ اس عمر میں فرید گنج شکرؒ سے خلافت کی سند حاصل کرکے وہ یہاں آئے تو امیر خسرو کے گھر میں بھی ان کا نام سنا گیا اور پھر خسرو ان کے دربار میں‌ پہنچے اور حضرت سے بیعت کی درخواست کی۔ وہ بیعت عشق کے اٹوٹ رشتے میں ڈھل گئی اور پھر حضرت نظام الدینؒ کے وصال کے چھ ماہ بعد امیر خسرو نے بھی داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیا۔ خسرو نے اپنے مرشد کی شان میں کئی منقبتیں کہی ہیں اور ان کی قبر بھی حضرت صاحب کے مزار سے کچھ فاصلے پر ہے۔

  • طوطیٔ ہند امیر خسرو اور حضرت نظام الدّین اولیاء

    طوطیٔ ہند امیر خسرو اور حضرت نظام الدّین اولیاء

    کہا جاتا ہے کہ حضرت امیر خسرو کو ان کے عہد کے ایک بادشاہ نے ’’ملکُ الشعراء‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا مگر وہ کشورِ سخنوری کے ایسے شہنشاہ ثابت ہوئے جس کی سلطنت آج تک قائم ہے۔

    برصغیر میں کوئی سخن ور پیدا ہی نہیں ہوا جسے ان کا ہم سَر کہا جائے۔ امیر خسرو کی شاعرانہ عظمت ہی نہیں موسیقی کے فن میں بھی انھیں یکتا و یگانہ کہا جاتا ہے۔ فنِ‌ موسیقی میں ان کی کچھ ایجادات اور اختراعات کا بھی تذکرہ محققین نے کیا ہے۔

    خسروؔ نے اپنی شاعری اور موسیقی کو خالص ہندوستانی رنگ دیا جس کی تقلید بعد کے فن کاروں نے کی۔ آئیے، امیر خسرو کی زندگی کے مختلف ادوار پر نظر ڈالتے ہیں۔

    ابتدائی زندگی
    محققین کے مطابق امیر خسرو کی ولادت اتر پردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی تھی جو گنگا کے کنارے واقع ہے۔ زیادہ تر مؤرخین نے ان کا سنہ پیدائش 1252ء بتایا ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب سلطان ناصرالدّین محمود نے سلطنت کو سنبھال رکھا تھا۔ خسرو کا اصل نام یمین الدّین محمود تھا مگر شہرت انھیں ان کے تخلّص سے ملی۔

    خاندانی پس منظر
    خسروؔ کے والد امیر سیف الدّین محمود کا خاندان وسطِ ایشیا کے شہر سمر قند کے قریب کش کا رہنے والا تھا مگر مغلوں کی تاراجی سے پریشان ہوکر بلخ میں آبسا تھا۔ بعد میں وہاں‌ سے سکونت ترک کی اور ان کے والد ہندوستان چلے آئے۔ یہاں کسی طرح پٹیالی کی چھوٹی سی جاگیر مل گئی۔ امیر سیف الدّین محمود ایک سپاہی تھے اور معرکوں پر اکثر جایا کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ خسرو کی عمر سات سال تھی جب وہ والد کے سائے سے محروم ہوگئے اور پرورش و تربیت نانا نے کی۔ اس گھرانے کا ہندو پس منظر تھا اور وہاں رہتے ہوئے لوک گیت اور بھجن بھی خسرو کے کان میں پڑتے تھے۔ ایک طرف انھیں عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم بھی دی جارہی تھی۔ اس ماحول میں خسرو کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    شاعری کا آغاز
    اس دور میں اچھے گھرانوں میں زبان و ادب کی تعلیم بھی ضرور دی جاتی تھی اور ماحول علمی ہوتا تھا جس میں شعر وسخن سے رچا بسا تھا۔ چنانچہ خسرو بھی مکتب میں ہی شعر سنانے لگے۔ خسرو بیس سال کی عمر تک ایک دیوان مرتب کر چکے تھے۔

    درباروں سے وابستگیاں
    مسلم عہدِ سلطنت میں شعراء کو ملازم رکھنے کا عام رواج تھا جو کہ وسط ایشیا اور ایران سے یہاں پہنچا تھا۔ سلطان غیاث الدین بلبن کا دور تھا جب خسروؔ آزادانہ طور پر تلاشِ معاش کے لیے نکلے۔ انھیں بھی بادشاہ کا ایک شاہ خرچ بھتیجا مل گیا جو علی گڑھ (کول) کا جاگیر دار تھا۔ خسرو اس کی نوازشات سے فیض یاب ہونے لگے۔

    امیر خسرو نے دوسری ملازمت سلطان بلبن کے بیٹے بغرا خان کے ہاں کی جو سامانہ (پنجاب) کا گورنر تھا۔ بغرا خاں، سلطان بلبن کے ساتھ بنگال کی بغاوت فرو کرنے گیا۔ خسروؔ بھی ساتھ تھے۔ بغاوت فرو ہوئی اور بغرا خاں کو وہاں کا گورنر بن کر لکھنوتی (موجودہ مرشد آباد) میں رکنا پڑا۔ شہزادے کے اصرار پر خسرو کو بھی کچھ دن رکنا پڑا۔ چھے مہینے بعد بہانہ کرکے دہلی چلے آئے۔

    یہ 1280ء کی بات ہے جب وہ اس وقت کے گورنر ملتان کے ملازم ہوگئے جو بے حد قابل اور مردم شناس ہونے کے ساتھ ساتھ رزم و بزم میں یکتا تھا۔ اس نے خوب قدردانی کی۔ ملتان صوفیا، شعراء، موسیقار اور اہلِ علم و فن کا مرکز تھا۔ یہیں خسرو نے اپنا دوسرا دیوان ترتیب دیا۔ یہیں قوالی کی صنف ایجاد کی۔ بعد میں‌ دہلی چلے گئے جہاں سلطان نے بلا بھیجا اور کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ چند مہینے بعد ان کے ہاتھ میں مثنوی ’’قران السعدین‘‘ تھی جس میں‌ ان کا فنِ سخن وری عروج پر تھا۔ اسے سن کر پورا دربار دم بخود رہ گیا۔ سلطان کیقباد نے انھیں ڈھیروں انعام و اکرام سے نوازا اور ’’ملک الشعراء‘‘ کا خطاب بھی دیا۔

    نظام الدّین اولیاء کی بارگاہ میں
    جلال الدّین خلجی کے عہد میں دو سال تک امیر خسرو دہلی میں رہے اور اسی دوران ان کا خانقاہِ نظام الدین اولیاء سے ربط گہرا ہوگیا۔ مرید بھی بہت پہلے ہوچکے تھے، مگر مرشد کی خدمت میں وقت بتانے اور روحانی فیوض و برکات کے حصول کا موقع اب میسر آیا تھا۔دل کے سکون کا احساس مرشد کی خدمت میں آکر ہونے لگا۔ لگ بھگ چالیس سال کے تھے جب ایک دیوان مرتب ہوا جس میں‌ مرشد کی منقبت کے بعد بادشاہ کا ذکر آتا ہے۔ یہ پہلا دیوان تھا جس میں انھوں نے اپنے مرشد کی مدح خوانی کی ہے۔

    علمی و ادبی خدمات
    انھوں نے خمسہ نظامی کی طرز پر خمسہ لکھا اور تصوف و اخلاقیات کے موضوع پر اپنی پہلی کوشش ’’مطلعُ الانوار‘‘ پیش کی۔ انھوں نے مثنوی ’’شیریں خسرو‘‘ اور ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ لکھی۔ دورِ علائی کا بارہ سال جائزہ لیتے اور مشاہدہ کرتے ہوئے امیر خسرو نے ’’خزائن الفتوح‘‘ پیش کی جو ان کا پہلا نثری کارنامہ تھا۔ انھوں نے اس کتاب میں اپنے عہد کی تاریخ پیش کی ہے جو، اب سند کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ کتاب ’’تاریخِ علائی‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اسی کے بعد حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کو ’’افضل الفواد‘‘ کے نام سے جمع کیا اور صخیم نثری تصنیف ’’رسائلُ الاعجاز‘‘ مکمل کی۔

    آخری ایّام
    اپنے پیر و مرشد کے وصال کے ٹھیک چھے مہینے بعد خسروؔ بھی 1325ء دارِ بقا کو چلے جنھیں ان کے مرشد کی پائنتی میں جگہ ملی جہاں صدیوں بعد بھی عام دنوں میں‌ اور عرس کے موقع پر لوگ زیارت کے لیے پہنچتے ہیں۔

    (ماخوذ از تاریخِ فیروزشاہی، تاریخِ فرشتہ، شعراء العجم، خسرو شناسی)

  • حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے 711ویں عرس کی تقریبات جاری

    حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے 711ویں عرس کی تقریبات جاری

    دہلی: حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے سالانہ عرس کا آج تیسرا روز ہے۔ عرس میں بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے لاکھوں عقیدت مند شریک ہیں ۔

    سلسلہ چشتیہ کے روحانی بزرگ سلطان المشائخ ، محبوب الہٰی حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے سات سو گیارہویں سالانہ عرس کے  تیسرے روز کی تقریبات جاری ہیں، خواجہ نظام الدین اولیاء کے عرس میں بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر سے لاکھوں عقیدت مند شریک ہیں۔

    خواجہ نظام الدین اولیاء سے عقیدت رکھنے والے غیرمسلموں کی بڑی تعداد بھی عرس میں شرکت کرتی ہے، عرس کے پہلے روز افتتاحی تقریب کے موقع پر خواجہ نظام الدین اولیاء کے مزار کو عرق گلاب اور عطریات کیساتھ غسل دیا گیا۔

    غسل کی تقریب سید نظام نظامی کی رہنمائی میں کی گئی، غسل کے بعد اجمیر شریف سے لائی گئی چادر خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر چڑھائی گئی۔

    عرس کی تقریبات میں محفل سماع کو خاص اہمیت حاصل ہے، جس میں عقیدت مند قوال صوفانہ کلام پیش کرتے ہیں اور صوفیائے کرام کا امن و آشتی کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

    حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کے موقع پر دہلی کے علاوہ دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔