Tag: حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ

  • حضرت عثمانؓ آج بھی مدینے میں صاحبِ جاگیر ہیں

    حضرت عثمانؓ آج بھی مدینے میں صاحبِ جاگیر ہیں

    مدینہ منورہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر باقاعدہ جائیداد رجسٹرڈ ہے اور آج بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام پر بجلی اور پانی کا بل آتا ہے۔

    تیسرے خلیفہ راشد عثمان بن عفان بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف نے زمانہ جاہلیت میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا، جوانی میں تجارت کا پیشہ اختیار کیا۔

    اپنے زمانے کے ارب پتی تھے، سخاوت کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ فروغ اسلام اور استحکام دین کیلئے اپنی دولت کو بے دریغ نچھاور کیا۔

    اسلام قبول کرنے والے چوتھے مرد حضرت عثمان رضی اللّہ تعالی عنہ کی یوں تو دینی خدمات بے شمار ہیں، قرآن پاک کی نقلیں تیار کروا کر مختلف علاقوں میں محفوظ کروا دی گیئں، مسجد قبا کے لیے وسیع مالی امداد، خود زکوة نکالنے کے طریقے کو رائج کرنا، پہلے باقاعدہ اسلامی بحری بیڑے کی تیاری وغیرہ شامل ہیں۔

    تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ نبوت کے تیرہوں سال میں جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وہاں پینے کے پانی کی بہت قلت تھی ،مدینہ منورہ میں ایک یہودی کا کنواں تھا جو مسلمانوں کو پانی مہنگے داموں فروخت کرتا، اس کنویں کا نام "بئرِ رومہ” یعنی رومہ کا کنواں تھااور پریشانی کے عالم میں مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "کون ہے جو یہ کنواں خریدے اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دے؟ ایسا کرنے پر اللہ تعالیٰ اسے جنت میں چشمہ عطاءکرے گا۔

    news-3
    حضرت عثمانؓ کا کنواں

    حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اس یہودی کے پاس گئے اور کنواں خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا، کنواں چونکہ منافع بخش آمدنی کا ذریعہ تھا اس لیے یہودی نے اسے فروخت کرنے سے انکار کر دیا توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ تدبیر کی کہ پورا کنواں نہ سہی، آدھا کنواں فروخت کر دو۔ آدھا کنواں فروخت کرنے پر ایک دن کنویں کا پانی تمہارا ہو گا اور دوسرے دن میرا ہو گا، یہودی ان کی اس پیشکش پر لالچ میں آ گیا۔ اس نے سوچا کہ حضرت عثمان اپنے دن میں پانی مہنگے داموں فرخت کریں گے، اس طرح اسے زیادہ منافع کمانے کا موقع مل جائے گا، چنانچہ اس نے آدھا کنواں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فروخت کر دیا۔

    سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے وہ کنواں اللہ کی رضا کے لئے وقف کر کے اپنے دن مسلمانوں کو کنویں سے مفت پانی حاصل کرنے کی اجازت دے دی، لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دن مفت پانی حاصل کرتے اور اگلے دن کے لئے بھی ذخیرہ کر لیتے، یہودی کے دن کوئی بھی شخص پانی خریدنے نہ جاتا۔

    یہودی نے دیکھا کہ اس کی تجارت ماند پڑ گئی ہے تو اس نے حضرت عثمان سے باقی آدھا کنواں بھی خریدنے کی پیشکش کر دی جس پر حضرت عثمان راضی ہو گئے اور کم و بیش پینتیس ہزار درہم میں پورا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔

    اس دوران ایک مالدار آدمی نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو کنواں دوگنا قیمت پر خریدنے کی پیش کش کی، حضرت عثمان نے فرمایا کہ "مجھے اس سے کہیں زیادہ کی پیش کش ہے”تو وہ شخص بھی اپنی پیشکش بڑھاتاچلاگیااور حضرت عثمان یہی جواب دیتے رہے۔یہاں تک اس آدمی نے کہا کہ "حضرت آخر کون ہے جو آپ کو دس گنا دینے کی پیش کش کر رہا ہے؟”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ’میرا رب مجھے ایک نیکی پر دس گنا اجر دینے کی پیش کش کرتا ہے۔

    news-1

    وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں اس کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا اور اسی دور میں ہی اس باغ کی دیکھ بھال ہوئی، بعد ازاں آلِ سعود کے عہد میں اس باغ میں کھجور کے درختوں کی تعداد تقریباً پندرہ سو پچاس ہو گئی۔ حکومتِ وقت نے اس باغ کے گرد چاردیواری بنوائی اور یہ جگہ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر رجسٹرڈ کردی۔

    وزارتِ زراعت یہاں کی کھجوریں بازار میں فروخت کرتی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر بینک میں جمع کرواتی رہی، چلتے چلتے یہاں تک اس اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا جہاں فندق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا۔

    اس رہائشی ہوٹل سے سالانہ پچاس ملین ریال آمدنی متوقع ہے جس کا آدھا حصہ غریبوں اور مسکینوں کی کفالت اور باقی آدھا حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوگا، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے اس عمل اور خلوصِ نیت کو اللہ رب العزت نے اپنی بارگاہ میں ایسے قبول فرمایا اور اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیا۔

  • یومِ شہادتِ خلیفہ سوئم، ذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    یومِ شہادتِ خلیفہ سوئم، ذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    خلیفہ راشد سوئم، کامل حیا و ایمان حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا نام عثمان کنیت ابوعبداللہ اورابوعمراور لقب ذوالنورین تھا، آپ کے والد کا نام عفان بن ابی العاص تھا۔ آپکا تعلق شہرمکہ کے قبیلہ قریش کی شاخ بنوامیہ سے تھا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کاشمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے، آپ عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں، آپ کا شمارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب شوریٰ میں بھی ہوتا ہے۔ اُمت مسلمہ میں کامل الحیاء والایمان کے الفاظ آپ کی ہی شان میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔

    حضور اکرم ﷺ نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ

    میں اس سے کس طرح شرم نہ کروں ، جس سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں‘۔

    حضرت عثمان نے ابتدائی زمانہ اسلام میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا، آپ نے اسلام کی راہ میں بڑے شدائد برداشت کیے ،مگردامے ،درمے اورسخنے اسلام کے لیے سرگرم رہے، قبول اسلام کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کا نکاح حضور اکرمﷺ کی صاحبزادی حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہمہ سے ہوگیا، بعدازاں آپ کو ہجرت حبشہ کاشرف بھی حاصل ہوا اور راہ اسلام میں آپ اپنا آبائی وطن ترک کرکے حبشہ چلے گئے۔

    رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ دونوں(یعنی میاں بیوی) لوط علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے اللہ کی طرف ہجرت کی ہے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ بھی مدینہ چلے آئے،جہاں آپ نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے گرانقدر کارنامے انجام دیے۔غزوہ بدر کے دوران ہی جب حضرت رقیہ کا وصال ہو گیا تو آنحضرت ﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادی حضرت اُم کلثوم رضی اللہ تعالیٰ  کا نکاح بھی حضرت عثمان سے کر دیا جس کہ بعد آپ کا لقب ذوالنورین یعنی دو نوروں والا ہو گیا۔

    نو ہجری میں جب حضرت ام کلثوم کا بھی وصال ہوگیا اس موقع ابن اثیر نے حضرت علی سے روایت کی نقل ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ

    ’اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں انہیں یکے بعد دیگرے عثمان سے بیاہ دیتا‘۔

    مدینہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کو میٹھے پانی کی بڑی تکلیف تھی۔شہر مدینہ میں بئررومہ کے نام سے میٹھے پانی کاایک کنواں تھا حضرت عثمان نے ۳۵ ہزاردرہم کے عوض یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا جس پر نبی اکرم نے آپ کو جنت کی بشارت دی۔


    حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کنواں


    حضرت عثمان کا ایک لقب غنی بھی تھا اوردرحقیقت آپ اس لقب کے پوری طرح مستحق تھے، یوں تو ساری عمر آپ نے اپنا مال بڑی فیاضی سے راہ اسلام میں خرچ کیا تاہم غزوہ تبوک میں آپ کا مالی انفاق حد سے بڑھ گیا آپ نے اس موقع پر روایات کے مطابق نو سو اونٹ،ایک سوگھوڑے ،دو سو اوقیہ چاندی اور ایک ہزار دینار خدمت نبویﷺ میں پیش کیے جس پرخوش ہو کر نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آج کے بعد عثمان جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہوگا۔

    واقعہ صلح حدیبیہ 6 کے نازک موقع پر یہ حضرت عثمانؓ ہی تھے جنہوں نے سفارت کے فرائض انجام دیے اور نبی اکرم کے نمائندے کی حیثیت سے آپ کا پیغام قریش تک پہنچایا اور اس سلسلے میں اپنی جان تک کی پروا نہ کی، اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عثمان کا سب سے عظیم کارنامہ جمع قرآن کا انجام دیا۔

    ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو نبی اکرم ﷺکے اس محبوب خلیفہ کو ایک عظیم سازش ، جو کہ درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے عظیم سازش تھی کے بعد اس عالم میں قتل کر دیا گیا کہ جب آپ اپنے گھر میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھےاور کئی دن کے روزے سے تھے۔

    جنت البقیع میں موجود حضرت عثمان ؓ کی قبر مبارک

    آپ کی شہادت کے وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام آپ کے گھر کے دروازے پر پہرہ بھی دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود بلوائی آپ کے گھر میں پیچھے کی سمت سے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور عین تلاوت قرآن کی حالت میں خلیفہ وقت اور امیرالمومنین کو شہید کر دیا گیا۔