Tag: حفیظ جالندھری

  • جوانی کی لُٹیا

    جوانی کی لُٹیا

    اللہ بخشے حفیظ جالندھری صاحب کے کلام کو قومی ترانے کی صورت ڈیوٹی کے طور پر ہم روز لاکھوں لوگ گاتے ہیں۔

    یہ سمجھ میں آتا ہے یا نہیں آتا لیکن حب الوطنی کے تقاضے نبھاتے گاتے ہیں لیکن اگر ملکہ پکھراج اور اُن کے بعد طاہرہ سید ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ نہ گاتیں تو حفیظ صاحب بھی ادھورے رہتے۔ سیارہ ڈائجسٹ کے دفتر میں وہ اکثر مقبول جہانگیر کو ملنے آتے اور اکثر سموسے کھا رہے ہوتے۔ میں ہمیشہ مؤدب ہو کر ملتا اور ایک روز شومئی قسمت ملکہ پکھراج کی گائیکی کی تعریف کی تو حفیظ صاحب مشتعل ہو گئے۔ کہنے لگے ’اُس نے میرے کلام کا بیڑا غرق کردیا، میں نے اُسے گا کر بتایا تھا کہ اسے اس دھن میں گاؤ لیکن اُس نے اپنی من مانی کی، میری نہ مانی۔‘

    کچھ دیر بعد غصہ کم ہوا تو کہنے لگے، ’اب میں ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ گا کر بتاتا ہوں کہ اسے کیسے گانا چاہیے تھا۔ تب حفیظ صاحب نے منہ ٹیڑھا کر کے اپنا کلام گانا شروع کردیا اور بے شک ایک زمانے میں ہندوستان بھر کے مشاعروں میں اُن کے ترنم کی دھوم تھی لیکن اب اس بڑھاپے میں اُن کی آواز میں دراڑیں آگئی تھیں، نہ سُر پر قابو تھا اور نہ لَے پر کچھ اختیار تھا۔ میں نے شکر ادا کیا کہ ملکہ پکھراج نے ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ اپنی من مرضی سے گایا، اگر حفیظ صاحب کی لَے اختیار کرتیں تو جوانی کی لٹیا کب کی ڈوب چکی ہوتی۔

    (مستنصر حسین تارڑ کی تحریر سے اقتباس)

  • قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کا 122 واں یومِ پیدائش آج منایا جارہا ہے

    قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کا 122 واں یومِ پیدائش آج منایا جارہا ہے

    آج اردو کے قادرُ الکلام شاعر، پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا یومِ پیدائش ہے۔

    ابُوالاثر حفیظ جالندھری کو ان کی پہچان جہاں ان کے قومی ترانے اور ملّی شاعری ہے، وہیں وہ اپنے رومانوی کلام اور گیت نگاری کے لیے بھی مشہور ہیں۔ جب کہ شاہنامۂ اسلام ان کی وہ منظوم تصنیف ہے جس پر انہیں فردوسیٔ اسلام کا خطاب دیا گیا تھا۔

    حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے تھے۔ آج ان کی 122 ویں سال گرہ مناٸی جا رہی ہے۔

    شاہنامۂ اسلام حفیظ جالندھری کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے جو چار جلدوں میں شائع ہوا۔ حفیظ جالندھری کا دوسرا بڑا کارنامہ پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ اس ترانے کی تخلیق کی وجہ سے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ حکومتِ پاکستان نے اسے 4 اگست 1954ء کو قومی ترانے کے طور پر منظور کیا تھا۔ حفیظ جالندھری کی شاعری کی خوبی اس کی غنائیت ہے۔ انہوں نے ایسی لفظیات کا انتخاب کیا جس نے ان کی شاعری کا حُسن بڑھایا اور ہر سطح پر اس کی مقبولیت کا سبب بنی۔ انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کے زمانے میں فوجی گیت بھی لکھے۔

    حفیظ جالندھری کا گیت "ابھی تو میں جوان ہوں” بھی بہت مشہور ہوا۔ بلا شبہ یہ ایک پُراثر گیت ہے جو ملکہ پکھراج کی آواز میں آج بھی سماعتوں میں رس گھول رہا ہے۔ حفیظ جالندھری نے غزلیں بھی کہی ہیں۔

    پطرس بخاری کے مطابق حفیظ جالندھری کے قلم کی ایک بے پروا جنبش سے قدرت کی رنگینیاں تصویریں بن بن کر آنکھوں کے سامنے آتی ہیں۔ ایم ڈی تاثیر لکھتے ہیں کہ ساون رت، گھنگور گھٹائوں میں کھیلتی ہوئی بجلی، موروں کی جھنکار ، پپیہوں کی پکار، برسات کی ٹھنڈی ہوا، ہوا میں اڑتے ہوئے آنچل، آنکھوں میں تمنائے دید اور فراق کے آنسو، دل کو انتظار کی دھڑکن یہ ایک مست کیف شاعر کی وہ دنیا ہے جس میں حفیظ گاتا پھرتا ہے۔

    قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے حفیظ جالندھری کا نام بھی زندہ ہے اور ان کا بہت احترام کیا جاتا ہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ جس ملک میں مبینہ کرپشن میں نام زد اعلیٰ سیاسی شخصیات کے ناموں پر تعلیمی ادارے تک قائم ہوگئے، اسی ملک کے قومی ترانے کے خالق کے نام پر نہ تو کوئی پارک ہے اور نہ ہی کوئی تعلیمی ادارہ جو صریحاً ناانصافی ہے۔

    حفیظ جالندھری نے 82 سال کی عمر پائی اور 21 دسمبر 1982ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

    ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    مبارک ہو کہ ختم المرسلیں تشریف لے آئے
    جناب رحمتہ للعٰلمین تشریف لے آئے
    خبر جا کر سنا دو شش جہت کے زیر دستوں کو
    زبردستی کی جرات اب نہ ہوگی خود پرستوں کو
    ضعیفوں بیکسوں آفت نصیبوں کو مبارک ہو
    یتیموں کو غلاموں کو غریبوں کو مبارک ہو

    ہوش میں آ چکے تھے ہم، جوش میں آ چکے تھے ہم
    بزم کا رنگ دیکھ کر سَر نہ مگر اٹھا سکے

    وہ نہ آٸے نہ سہی موت تو آٸے گی حفیظ
    صبر کر صبر ترا کام ہوا رکھا ہے

    وہ کالی کالی بدلیاں
    افق پہ ہو گئیں عیاں
    وہ اک ہجومِ مے کشاں
    ہے سوئے مے کدہ رواں
    یہ کیا گماں ہے بد گماں
    سمجھ نہ مجھ کو ناتواں
    خیالِ زہد ابھی کہاں
    ابھی تو میں جوان ہوں

  • ایک غریب بادشاہ کی کہانی!

    ایک غریب بادشاہ کی کہانی!

    ابا جان بھی بچوں کی کہانیاں سن کر ہنس رہے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح ہم بھی ایسے ہی ننھے بچے بن جائیں۔ وہ چپ نہ رہ سکے۔ بول ہی اٹھے۔ بھئی ہمیں بھی ایک کہانی یاد ہے۔ کہو تو سنا دیں!

    ’’آہا جی آہا۔ ابا جان کو بھی کہانی یاد ہے۔ ابا جان بھی کہانی سنائیں گے۔ سنائیے ابا جان۔ ابا جان سنائیے نا۔‘‘ ابا جان نے کہانی سنانی شروع کی:

    کسی شہر میں ایک تھا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ
    مگر بادشاہ تھا بہت ہی غریب
    نہ آتا تھا کوئی بھی اس کے قریب

    بادشاہ اور غریب۔ سب بچے سوچنے لگے کہ بادشاہ غریب بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شاید ہوتا ہو اگلے زمانے میں۔ ابا سنا رہے تھے:

    کیے ایک دن جمع اس نے فقیر
    کھلائی انہیں سونے چاندی کی کھیر
    فقیروں کو پھر جیب میں رکھ لیا
    امیروں وزیروں سے کہنے لگا
    کہ آؤ چلو آج کھیلیں شکار
    قلم اور کاغذ کی دیکھیں بہار
    مگر ہے سمندر کا میدان تنگ
    کرے کس طرح کوئی مچھر سے جنگ
    تو چڑیا یہ بولی کہ اے بادشاہ
    کروں گی میں اپنے چڑے کا بیاہ
    مگرمچھ کو گھر میں بلاؤں گی میں
    سمندر میں ہرگز نہ جاؤں گی میں

    ابا جان نے ابھی اتنی ہی کہانی سنائی تھی کہ سب حیران ہو ہو کر ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے۔ بھائی جان سے رہا نہ گیا ۔ کہنے لگے ’’یہ تو عجیب بے معنی کہانی ہے، جس کا سر نہ پیر۔‘‘

    ابا جان بولے ’’کیوں بھئی کون سی مشکل بات ہے، جو تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘

    منجھلے بھائی نے کہا ’’سمجھ میں تو آتی ہے مگر پتہ نہیں چلتا۔‘‘ یہ سن کر سب ہنس پڑے ’’خوب بھئی خوب۔ سمجھ میں آتی ہے اور پتہ نہیں چلتا۔‘‘ آپا نے کہا۔

    ’’ابا جان بادشاہ غریب تھا۔ تو اس نے فقیروں کو بلا کر سونے چاندی کی کھیر کیسے کھلائی اور پھر ان کو جیب میں کیسے رکھ لیا۔ مزا یہ کہ بادشاہ کے پاس کوئی آتا بھی نہیں تھا۔ یہ امیر وزیر کہاں سے آ گئے۔ شکار میں قلم اور کاغذ کی بہار کا مطلب کیا ہے۔ اور پھر لطف یہ کہ سمندر کا میدان اور ایسا تنگ کہ وہاں مچھر سے جنگ نہیں ہو سکتی۔ پھر بیچ میں یہ بی چڑیا کہاں سے کود پڑیں جو اپنے چڑے کا بیاہ کرنے والی ہیں۔ مگرمچھ کو اپنے گھونسلے میں بلاتی ہیں اور سمندر میں نہیں جانا چاہتیں۔‘‘

    ننھی بولی’’توبہ توبہ۔ آپا جان نے تو بکھیڑا نکال دیا۔ ایسی اچھی کہانی ابا جان کہہ رہے ہیں۔ میری سمجھ میں تو سب کچھ آتا ہے۔ سنائیے ابا جان پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا جان نے کہا’’بس ننھی میری باتوں کو سمجھتی ہے۔ ہوا یہ کہ:

    سنی بات چڑیا کی گھوڑے نے جب
    وہ بولا یہ کیا کر رہی ہے غضب
    مرے پاس دال اور آٹا نہیں
    تمہیں دال آٹے کا گھاٹا نہیں
    یہ سنتے ہی کرسی سے بنیا اٹھا
    کیا وار اٹھتے ہی تلوار کا
    وہیں ایک مکھی کا پر کٹ گیا
    جلاہے کا ہاتھی پرے ہٹ گیا

    یہاں سب بچے اتنا ہنسے کہ ہنسی بند ہونے میں نہ آتی تھی لیکن بھائی جان نے پھر اعتراض کیا’’یہ کہانی تو کچھ اول جلول سی ہے‘‘ منجھلے بھائی نے کہا’’بھئی اب تو کچھ مزا آنے لگا تھا۔‘‘

    ننھی نے کہا ’’خاک مزا آتا ہے۔ تم تو سب کہانی کو بیچ میں کاٹ دیتے ہوں۔ ہو۔ ہاں ابا جان جلاہے کا ہاتھی ڈر کر پرے ہٹ گیا۔ تو پھر کیا ہوا۔‘‘

    ابا نے کہا ’’ننھی اب بڑا تماشا ہوا کہ:

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور

    ’’کس کے انڈوں نے؟ گیہوں کے—تو کیا گیہوں کے بھی انڈے ہوتے ہیں؟‘‘

    ’’بھئی مجھے کیا معلوم۔ کہانی بنانے والے نے یہی لکھا ہے۔‘‘

    ’’یہ کہانی کس نے بنائی ہے؟‘‘

    ’’حفیظؔ صاحب نے۔‘‘

    ’’ابا اب میں سمجھا۔ اب میں سمجھا۔ آگے سنائیے ابا جان جی۔‘‘ ابا جان آگے بڑھے۔

    مچایا جو گیہوں کے انڈوں نے شور
    لگا ناچنے سانپ کی دُم پہ مور
    کھڑا تھا وہیں پاس ہی ایک شیر
    بہت سارے تھے اس کی جھولی میں بیر
    کریلا بجانے لگا اٹھ کے بین
    لیے شیر سے بیر چہیا نے چھین

    چوہیا نے شیر سے بیر چھین لیے۔ جی ہاں بڑی زبردست چوہیا تھی نا۔ اب بچوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ ابا جان ہماری ذہانت آزمانے کے لیے کہانی کہہ رہے ہیں۔ اماں جان بھی ہنستی ہوئی بولیں ’’اور تو خیر، یہ کریلے نے بین اچھی بجائی‘‘ ننھی بہت خفا ہو رہی تھی۔ سلسلہ ٹوٹتا تھا تو اس کو برا معلوم ہوتا تھا۔ ابا جی کہئے کہئے آگے کہئے۔ ابا جان نے کہا ’’بیٹی میں تو کہتا ہوں، یہ لوگ کہنے نہیں دیتے۔ ہاں میں کیا کہہ رہا تھا۔

    لیے شیر سے بیر چہیانے چھین
    یہ دیکھا تو پھر بادشاہ نے کہا
    اری پیاری چڑیا ادھر کو تو آ
    وہ آئی تو مونچھوں سے پکڑا اسے
    ہوا کی کمندوں میں جکڑا اسے

    بھائی جان نے قہقہہ مارا۔ ’’ہہ ہہ ہا ہا۔ لیجیے بادشاہ پھر آ گیا اور چڑیا بھی آ گئی۔ چڑیا بھی مونچھوں والی۔‘‘ منجھلے بولے، ’’ابا جی یہ ہوا کہ کمندیں کیا ہوتی ہیں۔‘‘ ابا جان نے کہا۔ ’’بیٹے کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔ کمند ہوا چچا سعدی لکھ گئے ہیں۔‘‘

    آپا نے پوچھا۔’’ابا جی یہ سعدی کے نام کے ساتھ چچا کیوں لگا دیتے ہیں؟‘‘ مگر ننھی اب بہت بگڑ گئی تھی۔ اس نے جواب کا وقت نہ دیا اور بسورنے لگی، ’’اوں اوں اوں۔ کہانی ختم کیجیے۔ واہ ساری کہانی خراب کر دی۔‘‘ ابا جان نے اس طرح کہانی ختم کی:

    غرض بادشاہ لاؤ لشکر کے ساتھ
    چلا سیر کو ایک جھینگر کے ساتھ
    مگر راہ میں چیونٹیاں آ گئیں
    چنے جس قدر تھے، وہ سب کھا گئیں
    بڑی بھاری اب تو لڑائی ہوئی
    لڑائی میں گھر کی صفائی ہوئی

    اکیلا وہاں رہ گیا بادشاہ
    ہمارا تمہارا خدا بادشاہ

    (اس کہانی کے خالق مشہور شاعر، ادیب اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری ہیں)

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا یومِ پیدائش

    قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا یومِ پیدائش

    آج پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا یومِ ولادت منایا جارہا ہے۔ وہ 14 جنوری کو متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیم کے بعد کئی شعرا میں سے حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو قومی ترانہ منتخب کیا گیا

    حفیظ جالندھری نظم اور غزل دونوں کے قادرالکلام شاعر تھے۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شایع ہوا۔ اس کے ذریعے انھوں نے اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انھیں فردوسیِ اسلام کا خطاب دیا گیا۔

    حفیظ جالندھری نے یہ قومی ترانہ احمد جی چاگلہ کی دھن پر تخلیق کیا تھا اور 1954ء میں اسے قومی ترانے کے طور پر منظور کیا گیا تھا۔

    حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اور سوز و ساز، افسانوں کا مجموعہ ہفت پیکر، گیتوں کے مجموعے ہندوستان ہمارا، پھول مالی اور بچوں کی نظمیں قابلِ ذکر ہیں۔

    حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر1982ء کو لاہور میں وفات پائی۔ وہ مینار پاکستان کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی برسی

    قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی برسی

    پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    حفیظ جالندھری نے غزل اور نظم کے علاوہ اردو ادب کی مختلف اصنافِ سخن کو اپنی تخلیقات سے مالا مال کیا اور خوب نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے جنھوں نے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری سمویا۔ انھوں نے بچّوں کے لیے بھی نظمیں تخلیق کیں۔

    حفیظ جالندھری 14 جنوری 1900ء کو پنجاب کے مشہور شہر جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ غزل، نظم اور گیت نگاری کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہنامہ اسلام ہے جو چار جلدوں میں شایع ہوا۔ یہ ان کی وہ بامقصد اور اصلاحی تخلیق ہے جس نے انھیں اپنے ہم عصروں میں نمایاں کیا۔ حفیظ جالندھری نے شاہنامہ اسلام لکھ کر اسلامی روایات اور قومی شکوہ کا احیا کیا جس پر انہیں فردوسیِ اسلام کا خطاب دیا گیا۔

    حفیظ جالندھری اپنے لکھے ہوئے قومی ترانے کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    حفیظ جالندھری کے شعری مجموعوں میں نغمہ بار، تلخابہ شیریں اور سوزوساز شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ بھی شایع ہوا جب کہ بچوں کی نظموں پر مشتمل کتاب بھی شایع ہوئی۔

    پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری نے 21 دسمبر 1982ء کو لاہور میں ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ انھیں مینارِ پاکستان کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • 25 روپے کا ٹکٹ، ٹیوشن فیس اور وہ کم بخت!

    25 روپے کا ٹکٹ، ٹیوشن فیس اور وہ کم بخت!

    صوبۂ پنجاب میں سیلاب کے بعد لاہور کے طلبا نے مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں اس وقت کے نام ور شعرا نے شرکت کی۔

    اس مشاعرے کی تمام آمدن متأثرینِ سیلاب پر خرچ کی جانی تھی۔ یعنی یہ مشاعرہ جذبۂ خدمت کے تحت منعقد کیا گیا تھا۔ طلبا اس سلسلے میں خاصے پُرجوش تھے۔

    مشاعرے کی صدارت کے لیے حفیظ جالندھری کا نام لیا گیا جو قومی ترانے کے خالق بھی تھے۔ اس زمانے میں جمع جوڑ کے بعد اتفاقِ رائے سے طے پایا کہ مشاعرہ گاہ میں داخلے کا ٹکٹ 25 روپے کے عوض‌ جاری کیا جائے گا۔

    یہ بھی طے پایا کہ شرکت کے متمنی عام لوگوں‌ کے ساتھ شعرا کو بھی ٹکٹ خریدنا ہو گا۔ غرض یہ کہ سبھی کو اس کارِ خیر میں شامل رکھنا مقصود تھا۔ صدرِ مشاعرہ بھی اس میں شامل تھے۔

    طلبا حفیظ جالندھری کو مشاعرے کی دعوت دینے پہنچے اور تفصیل بتائی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور ان کے جذبے کی داد دی۔ پھر پوچھا، شعرا کے نام بتائیں۔ اس پر طلبا نے فہرست ان کے سامنے رکھ دی۔

    حفیظ جالندھری نے اس فہرست پر نظر ڈالی اور مسکرانے لگے۔ فہرست میں شورش کاشمیری کا نام بھی شامل تھا۔
    حفیظ جالندھری نے ان طالبِ علموں کی طرف دیکھا اور بولے۔

    کیا وقت آگیا ہے، کم بخت (شورش) کو دو روپے ماہوار پر ٹیوشن پڑھایا تھا، اب 25 روپے کا ٹکٹ خرید کر سننا پڑے گا۔

  • قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا 119ویں یوم پیدائش

    قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا 119ویں یوم پیدائش

    لاہور: اردو زبان کے شہرہ آفاق شاعر اور قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کی ایک سو انیسویں سالگرہ آج منائی جارہی ہے۔

    قومی ترانے کے خالق کی حیثیت سے حفیظ جالندھری نے شہرت دوام پائی، ملکہ پکھراج نے ان کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کو گا کر امر کردیا، آپ 82 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    حفیظ جالندھری ایک نامور شاعر اور نثرنگار ہیں آپ 14 جنوری 1900 کو ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے اور آزادی کے وقت آپ لاہور منتقل ہوگئے، آپ کا قلمی نام ’ابولاثر‘ تھا۔

    آپ کا سب سے اہم فنی کارنامہ اسلام کی منظوم تاریخ ہے جس کا نام ’شاہ نامۂ اسلام‘ ہے لیکن آپ کی وجۂ شہرت پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کو شاعرِاسلام اور شاعرِپاکستان کے خطابات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر اعزازات میں انہیں ہلال امتیاز اور تمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں

    کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

    آپ کا موضوع سخن فلسفہ اورحب الوطنی ہے آپ کی بچوں کے لیے لکھی تحریریں بھی بے حد مقبول ہیں۔

    آپ غزلیہ شاعری میں کامل ویکتا تھے، 1925 میں ’نغمہ زار‘ کے نام سے حفیظ کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔ ملکہ پکھراج کا گایا ہوا شہرہ آفاق گیت ابھی ’تو میں جوان ہوں‘ بھی اسی مجموعے میں شامل تھا۔

    آخر کوئی صورت تو بنے خانہٴ دل کی

    کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے

    اس کے بعد سوزوساز، تلخابہ شیریں، چراغ سحر اور بزم نہیں رزم کے عنوانات سے ان کے مجموعہ ہائے کلام سامنے آئے۔

    دیکھا جو تیرکھا کہ کمیں گاہ کی طرف

    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

    حفیظ جالندھری 21 دسمبر 1982 کو انتقال فرماگئے تھے ‘ اس وقت آپ کی عمر 82 سال تھی۔

    شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے

    یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں

  • آج 13 اگست 1954 کو پہلی بار قومی ترانہ نشر ہوا

    آج 13 اگست 1954 کو پہلی بار قومی ترانہ نشر ہوا

    جب قومی ترانے میں جذبہ حب الوطنی اور ملی وحدت کا جنون شامل ہو تو قومی ترانے کی مدھر دھن اور سر آزادی کے پروانوں کو مدہوش کر نے کے ساتھ لطف اندوزکرنے کا ساماں بھی ہوتے ہیں۔

    آج 13 اگست 1954 کا دن پاکستان کی آزادی کے ساتھ ایسا جڑا ہوا ہے جیسے مٹی میں سوندھا پن۔ یہ وہ دن ہے جب ریڈیو پاکستان پر پہلی بار اپنی مخصوص دھن کے ساتھ بیک وقت 11 گلوکاروں کی آواز میں قومی ترانے کو نشر کیا گیا۔

    حفیظ جالندھری کے لکھے گئے قومی ترانے کے لیے سازندے اور اکتارے کے ساتھ سارنگی اور بانسری کی ایسی سریلی دھنوں کو شامل کیا گیا کہ آج تک قومی ترانے کے سر تال پاکستانی قوم کے ہرفرد کے کانوں میں رس گھولتی ہیں۔

    ترانہ تحریر کرنے کے لئے قومی ترانہ کمیٹی نے معروف شاعر ابو الاثرحفیظ جالندھری کو چنا جنہوں نے 1952 میں قومی ترانہ تحریر کر کے قومی ترانہ کمیٹی کو ارسال کردیا۔

    13-1
    حفیظ جالندھری

    قومی ترانہ میں استعمال ہونے والے زیادہ تر الفاظ اردو اور فارسی میں یکساں مستعمل ہیں۔

    اس قومی ترانے کی دھن مرتب کرنے کے لیے میوزک ڈائریکٹر احمد غلام چھاگلہ کو چنا گیا جو قومی ترانے کی دھن مرتب کر کے پاکستان کی تاریخ میں امر ہوگئے۔

    13-2
    احمد غلام چھاگلہ

    یوم آزادی کی تقریبات میں قومی ترانے اور اس کی دھن کے رس گھولتے سر اپنی مخصوص دھن میں جشن آزادی کے تقدس اوراہمیت کو اور بڑھا دیتے ہیں۔

    قومی ترانے میں کل 21 موسیقی کے آلات استعمال کیے گئے ہیں اور 38 مختلف سروں کے سنگم سے ترانہ تشکیل دیا گیا ہے اور اس کا دورانیہ کل 80 سیکنڈ ہے۔

    قومی ترانے کو پہلی بار 11 گلوکاروں نے مل کر گایا تھا جن میں احمد رشدی، شمیم بانو، کوکب جہاں، رشیدہ بیگم، نجم آراء، نسیمہ شاہین، زوار حسین، رشیدہ بیگم، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور اختر وصی علی شامل ہیں۔

  • آج قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا 115واں یومِ پیدائش ہے

    آج قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا 115واں یومِ پیدائش ہے

    آج اردو زبان کے شہرہ آفاق شاعراورپاکستان کے قومی ترانے کے خالق ابولاثرحفیظ جالندھری کا ایک سوپندرھواں یومِ پیدائش ہے۔

    حفیظ جالندھری ایک نامورشاعراورنثرنگارہیں آپ 14 جنوری 1900 کو ہندوستان کے شہر جالندھرمیں پیداہوئے اور آزادی کے وقت آپ لاہورمنتقل ہوگئے، آپ کا قلمی نام ’ابولاثر‘ تھا۔

    آپ کا فنی کارنامہ اسلام کی منظوم تاریخ ہے جس کا نام ’شاہ نامۂ اسلام‘ ہے لیکن آپ کی وجۂ شہرت پاکستان کا قومی ترانہ ہے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں آپ کوشاعرِاسلام اورشاعرِپاکستان کے خطابات سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ دیگراعزازات میں انہیں ہلال امتیازاورتمغۂ حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں تو ڑ دیتا ہوں
    کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

    آپ کا موضوع سخن فلسفہ اورحب الوطنی ہے آپ کی بچوں کے لئے لکھی تحریریں بھی بے حد مقبول ہیں۔

    آپ غزلیہ شاعری میں کامل ویکتاتھے، 1925 میں’نغمہ زار‘کے نام سے حفیظ کاپہلامجموعہ کلام شائع ہوا۔ ملکہ پکھراج کاگایاہوا شہرہ آفاق گیت ابھی’تومیں جوان ہوں‘بھی اسی مجموعے میں شامل تھا۔

    آخر کوئی صورت تو بنے خانہٴ دل کی
    کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے

    اس کے بعد سوزوساز، تلخابہ شیریں، چراغ سحر اوربزم نہیں رزم کے عنوانات سے ان کے مجموعہ ہائے کلام سامنے آئے۔

    دیکھا جو تیرکھا کہ کمیں گاہ کی طرف
    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

    حفیظ جالندھری21دسمبر 1982 کو انتقال فرماگئےاس وقت آپ کی عمر82 سال تھی۔

    شعر وادب کی خدمت میں جو بھی حفیظ کا حصہ ہے
    یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی باتیں نہیں

  • ابوالاثرحفیظ جالندھری کی بتیسویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ابوالاثرحفیظ جالندھری کی بتیسویں برسی آج منائی جارہی ہے

    ارض پاک کی فضاؤں میں گونجتے قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری کو ہم سے بچھڑے بتیس برس بیت گئے۔ ان کی برسی آج ملک بھر میں عقیدت واحترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    ہم ہی میں نہ تھی کوئی بات یاد نہ تم کو آسکے
    تم نے ہمیں بُھلا دیا، ہم نہ تمہیں بُھلا سکے

    دلوں میں اتر جانے والے لطیف اشعار کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری چودہ جنوری انیس سومیں بھارتی شہرجالندھرمیں پیداہوئے۔

    خوبصورت نظموں، شگفتہ غزلوں اور گرجدار رزمیہ گیتوں کے تخلیق کار حفیظ کو شاعراسلام اورشاعرپاکستان کےخطابات سےنوازا گیا۔

    دنیائے ادب میں ان کاایک بڑاکارنامہ شاہنامہ اسلام ہےجس میں انھوں نےتاریخ اسلام کو پرشکوہ الفاظ کاجامہ پہنایا۔انہوں نے مرثیہ نگاری میں بھی ممتاز مقام حاصل کیا۔

    حفیظ  جالندھری بذلہ سنجی اوربرجستہ مکالمےبازی میں بھی کمال کاہنر رکھتے تھے، ان کے اشعار میں لطافت اور مٹھاس ہوتی ہے۔ ان کا ہرشعر سننے اور پڑھنے والوں کےدلوں میں اترجاتاہے۔

    انیس سوپچیس میں نغمہ زارکے نام سے حفیظ کاپہلا مجموعہ کلام شائع ہوا۔

    مشہور گیت ’ابھی تو میں جوان ہوں‘ اسی مجموعے میں شامل تھا۔ اس کےبعد سوزوساز ،تلخابہ شیریں،چراغ سحر اوربزم نہیں رزم کے عنوانات سےان کےمجموعہ ہائےکلام سامنے آئے۔ اکیس دسمبر انیس سو بیاسی کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    نگار ہائے فِتنہ گر۔۔۔ کوئی اِدھر کوئی اُدھر
    اُبھارتے ہوں عیش پر۔۔۔ تو کیا کرے کوئی بشر
    چلو جی قصّہ مختصر  ۔۔۔ تمہارا نقطہء نظر
    درست ہے،تو ہو،مگر۔۔۔ابھی تو میں جوان ہوں

    …………………………………………………….