Tag: حفیظ ہوشیارپوری

  • حفیظ ہوشیار پوری: دل نشیں لب و لہجے کے شاعر کا تذکرہ

    حفیظ ہوشیار پوری: دل نشیں لب و لہجے کے شاعر کا تذکرہ

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
    تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

    ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن پر گلوکار مہدی حسن اور نسیم بیگم کی آواز میں نشر ہونے والی یہ غزل آج بھی ہماری سماعتوں میں تازہ ہے۔ اس کے اشعار ہمارے دل پر گویا نقش ہوچکے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے والے اس لافانی غزل کے خالق کا نام ہے حفیظ ہوشیار پوری جو 10 جنوری 1973ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج اس معروف شاعر کی برسی ہے۔

    ایک طرف تو اس غزل کے اشعار سلاست، سادگی، روانی اور سہلِ ممتنع کی عمدہ مثال ہیں اور دوسری جانب گلوکار مہدی حسن اور نسیم بیگم نے بھی اس کلام کو جس انداز سے گایا ہے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    حفیظ، یکم جنوری 1912ء کو جھنگ کے ایک قصبہ میں پیدا ہوئے، مگر اپنے آبائی علاقہ ہوشیار پور کی نسبت اپنے نام سے جوڑی اور حفیظ ہوشیار پوری مشہور ہوئے۔ حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبد الحفیظ سلیم تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیار پور سے حاصل کی۔ 1936ء میں فلسفے میں بی اے اور ایم اے کیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے اور ممبئی اور لاہور کے ریڈیو اسٹیشنوں پر خدمات انجام دینے کے بعد تقسیمِ ہند کے موقع پر ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لی۔ حفیظ ہوشیار پوری نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن انہیں شہرت غزل سے ملی۔ مشہور اور باکمال شاعر ناصر کاظمی بھی حفیظ ہوشیار پوری کے شاگرد رہے۔

    ریڈیو سے قبل حفیظ ہوشیار پوری نے چند چھوٹی موٹی ملازمتیں کیں، میاں بشیر احمد کے ساتھ ’’انجمن ترقی اردو‘‘ کے سیکرٹری رہے۔ اپنے وقت کے مشہور رسالہ ’’پھول‘‘ اور ’’تہذیبِ نسواں‘‘ کی ادارت بھی کی۔ حفیظ ہوشیار پوری کو شروع سے ہی شعر و ادب سے شغف تھا اور اس کا سبب ان کے نانا تھے جن کو سیکڑوں اشعار ازبر تھے اور ان کے گھر میں کتب کے ساتھ رسائل و جرائد بھی آتے تھے۔

    حفیظ ہوشیار پوری کا سب سے بڑا شعری وصف ان کی سادگی اور سلاست ہے۔ وہ چھوٹی بحر میں بڑی سادگی سے بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ انھوں نے غزل کی کلاسیکی روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کی شاعری میں ندرتِ خیال اور نکتہ آفرینی بھی ملتی ہے جسے ان کے ہم عصر شعرا نے بھی سراہا ہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے نظمیں بھی کہیں اور قطعاتِ تاریخِ وفات بھی، مگر ان کی محبوب صنفِ سخن غزل ہی تھی اور غزل ہی ان کی صحیح پہچان ہے۔ بحیثیت غزل گو شاعر حفیظ ہوشیار پوری اپنے بہت سے اشعار کی بدولت ہمیشہ یاد رہیں‌ گے۔ حفیظ ہوشیار پوری کے یہ اشعار دیکھیے۔

    تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا
    اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا
    ……..

    دِل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظ
    بات دل میں کہاں سے آتی ہے
    ……..
    اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
    تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

  • اردو کے ممتاز شاعر حفیظؔ ہوشیار پوری کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز شاعر حفیظؔ ہوشیار پوری کا تذکرہ

    حفیظؔ ہوشیار پوری فلسفہ کے طالب علم رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل فلسفیانہ خیالات اور مسائل سے تہی نہیں لیکن بطور شاعر انھوں نے اسے بڑی خوبی سے نبھایا اور ان کی غزل، فلسفیانہ موشگافیوں کا چیستاں نہیں بنی۔ ان کے کلام میں فلسفیانہ خیالات قاری کو بیزار نہیں کرتے۔ حفیظؔ ہوشیار پوری کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
    تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

    ملکہ پکھراج کی آواز میں حفیظ کی ایک اور غزل بھی پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی باذوق قارئین اور دلدادگانِ غزل و موسیقی نے خوب پڑھی اور بارہا سنی جس کا مطلع ہے:

    بے زبانی زباں نہ ہو جائے
    رازِ الفت عیاں نہ ہو جائے

    حفیظ ہوشیار پوری کا اوّل الذّکر کلام تو پاکستان کے ہر بڑے گلوکار نے گایا۔ ان میں سب سے پہلا نام تو مہدی حسن کا ہے اور پھر نسیم بیگم، فریدہ خانم، اقبال بانو جیسی گلوکاراؤں نے بھی یہ کلام گایا اور خوب داد سمیٹی۔

    یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے بعد ریڈیو پر قیامِ پاکستان سے متعلق جو اعلان نشر ہوا تھا، وہ حفیظ ہوشیار پوری کا تحریر کردہ تھا۔

    اردو کے معروف شاعر حفیظؔ ہوشیار پوری دس، گیارہ برس کی عمر سے ہی اردو اور فارسی میں شعر کہنے لگے تھے۔ وہ شاعر ہی نہیں تاریخ گو بھی تھے۔

    حفیظ ہوشیار پوری کا اصل نام شیخ عبدالحفیظ سلیم تھا۔ وہ 5 جنوری 1912ء کو دیوان پورہ ضلع جھنگ میں پیدا ہوئے تھے، مگر اپنے آبائی وطن ہوشیار پور کی نسبت سے ہوشیار پوری کہلائے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوئے اور قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان کا حصّہ بن کر کام کرتے رہے۔ حفیظ ہوشیار پوری نے ابتدا میں نظمیں بھی لکھیں اور منظوم تراجم بھی کیے مگر ان کی شناخت ان کی غزل گوئی اور ان کی تاریخ گوئی بنی۔ حفیظ ہوشیار پوری کا مجموعہؔ کلام ’’مقامِ غزل‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔

    حفیظ نے جس زمانے میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور کا رخ کیا تھا تو یہاں کی علمی فضا میں شعر و ادب کے بڑے بڑے ناموں کی گونج تھی۔ گورنمنٹ کالج کے اساتذہ میں صوفی تبسّم، پطرس بخاری اور پروفیسر ڈکسن نے حفیظؔ کا شعری ذوق نکھارا اور ان کے طالبِ علم ساتھیوں میں فیض، ن۔ م۔ راشد جیسے نام شامل تھے۔ اس کے علاوہ کئی اور نام ہیں جو اردو ادب کی اُس کہکشاں کا حصّہ تھے جس کی چمک دمک اور تابانی سے اردو دنیا خیرہ تھی۔ اس سازگار شعری ماحول میں حفیظؔ کی سب سے پہلی نظم ’’تجدیدِ محبت‘‘ تھی۔ یہ کلام نام وَر شاعر اختر شیرانی کے رسالے ’’خیالستان‘‘ میں 1931ء میں شائع ہوا۔ اور اگلے سال ان کی پہلی غزل ’’نیرنگِ خیال‘‘ کے ایک شمارے کی زینت بنی اور حفیظ نے ادبی حلقوں سے داد و تحسین سمیٹی۔

    معاصرین کی نظر میں حفیظ ایک اچھے شاعر تھے اور انھیں سندِ قبولیت بھی حاصل تھی۔ مگر یہ کہنا غلط نہیں کہ اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کو اس زمانے میں وہ توجہ اور اہمیت نہیں دی گئی جو ان کا حق تھا۔ آسان زبان، سلاست و روانی، مشکل، ثقیل اور کرخت الفاظ سے گریز کرکے حفیظ نے اپنی غزل کو عام فہم بنایا۔

    ذوالفقار علی بخاری جیسے بڑے ادیب، شاعر اور براڈ کاسٹر نے حفیظ کے سانحہؔ رحلت پر لکھا ’’حفیظؔ جیسا پختہ شاعر مشکل ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ کیا نہیں جانتا تھا۔ محقق تھا، عالم تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ بحیثیت انسان واقعی عظیم تھا۔ میرا بہی خواہ تھا۔ دوست تھا اور دوست بھی وفادار۔ اللہ اس کو غریق رحمت کرے آمین۔‘‘

    10 جنوری 1973ء کو حفیظ ہوشیار پوری طویل علالت کے بعد کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔