Tag: حقیقت

  • مشہور بھارتی فلم شعلے سے متعلق یہ حقیقت آپ جانتے ہیں؟

    مشہور بھارتی فلم شعلے سے متعلق یہ حقیقت آپ جانتے ہیں؟

    بھارتی فلم انڈسٹری کی شہرۂ آفاق فلم ’شعلے ‘ سے متعلق ایک حقیقت سامنے آئی ہے۔

    فلمساز رمیش سپی کی 1975 میں ریلیز ہونے والی فلم مشہور فلم ’شعلے‘ آج بھی اپنے جاندار ڈائیلاگس اور فلم اداکاروں کی شاندار اداکاری کی وجہ سے فلمی شائقین کے دلوں پر راج کرتی ہے۔

    فلم شعلے میں بالی ووڈ کے معروف اداکار دھرمیندر، امیتابھ بچن، امجد خان، سنجیو کمار، ہیما مالنی اور جیا بچن کے علاوہ اسرانی، جگدیپ نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ اس فلم میں کس اداکار کو کتنا معاوضہ دیا گیا تھا، یہ فلم 3 کروڑ کے بجٹ سے بنائی گئی تھی، اس فلم میں کام کرنے کیلئے دھرمیندر کو ڈیڑھ لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کیا گیا اور دھرمیندر اس وقت کے سب سے مہنگے اداکار سے طور پر جانے جاتے تھے۔

    اس فلم میں دھرمیندر کے بعد سنجیو کمار سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے دوسرے اداکار تھے جنہوں نے اس فلم کیلئے ایک لاکھ 25 ہزار روپے کا معاوضہ لیا تھا جبکہ امیتابھ بچن اس فلم میں سیکنڈ لیڈ پر تھے لیکن اس کے باوجود انہیں سنجیو کمار سے کم معاوضہ دیا گیا جو ایک لاکھ روپے تھا۔

    بسنتی کا کردار ادا کرنے والی ہیما مالینی کو 75 ہزار روپے اور رادھا کا کردار ادا کرنے والی جیا بچن کو صرف 35 ہزار روپے دیے گئے جس کے پیش نظر جیا بچن اس فلم میں سب سے کم معاوضہ لینے والی اداکارہ تھیں جبکہ سامبا (میک موہن) کو 12 ہزار، کالیا کا کردار ادا کرنے والے وجو کھوٹے کو 10 ہزار اور امام صاحب کا کردار ادا کرنے والے اداکار اے کے ہنگل کو صرف 8 ہزار روپے میں کاسٹ کیا گیا تھا۔

    فلم کے سب سے مشہور کردار گبر سنگھ یعنی امجد خان نے اس مشہور کردار کو ادا کرنے کے لیے صرف 50 ہزار روپے لیے تھے۔

    واضح رہے کہ یہ فلم جاوید اختر اور سلیم خان کے مشترکہ پراجیکٹس میں سب سے مشہور ہے، کئی سال گزر جانے کے باوجود ’شعلے‘ آج بھی فلمی شائقین کے دلوں پر راج کرتی ہے۔

  • ٹی 20 ورلڈ کپ: پاپوا نیوگنی ٹیم کی چونکا دینے والی حقیقت

    ٹی 20 ورلڈ کپ: پاپوا نیوگنی ٹیم کی چونکا دینے والی حقیقت

    ٹی 20 ورلڈ کپ میں دوسری بار شرکت کا اعزاز پانے والی پاپوا نیوگنی (پی این جی) کی ٹیم سے جڑی ایک حقیقت سب کو چونکا دینے والی ہے۔

    آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 میں شریک 20 ٹیموں میں ایک ٹیم پاپوا نیوگنی کی بھی ہے۔ یہ نو آموز ٹیم دوسری بار میگا ایونٹ میں شرکت کر رہی ہے۔ اس سے قبل 2022 کے ٹورنامنٹ میں وہ کوئی بھی میچ جیت نہیں سکی تھی۔

    اس کرکٹ ٹیم سے جڑی ایک ایسی حقیقت بھی ہے جو سب کو چونکا کر رکھ دے گی کیونکہ ایسا کسی اور کرکٹ ٹیم کے ساتھ نہیں اور وہ حقیقت یہ ہے کہ اس ٹیم  کے ایک کھلاڑی کی دو نسلوں نے ٹیم کی قیادت کی اور خاندان کے کئی افراد ٹیم سے جڑے ہیں۔

    دیگر کئی ممالک کی طرح پاپوا نیوگنی میں بھی برطانوی مشنری نے کرکٹ متعارف کرائی۔ اس سے قبل وہاں کرکٹ سے ملتا ایک کھیل کھیلا جاتا تھا، جس میں گیند کی جگہ پتھر اور 50 فیلڈر ہوتے تھے۔

    اے آر وائی نیوز کے اسپورٹس پروگرام میں اسپورٹس تجزیہ کار شاہد ہاشمی نے بتایا کہ پاپوا نیوگنی کی ٹیم میں ایک ہی آل راؤنڈر اسپنر ہے چارلس ایمینی جب کہ ان کی فاسٹ بولنگ بہت اچھی ہے۔

    شاہد ہاشمی نے اس دلچسپ حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ چارلس ایمینی کا پورا خاندان ہی پی این جی کرکٹ سے وابستہ رہا ہے۔ ان کے دادا اور والد نے پاپوا نیوگنی کی ٹیم کی قیادت کی۔ اس کے علاوہ کرکٹر کی والدہ اور خالہ بھی ویمنز ٹیم کی کپتان رہ چکی ہیں جب کہ دو کزن پی این جی سے کھیل چکے ہیں۔

     

    واضح رہے کہ پاپوا نیوگنی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے رسائی تک کئی مرحلے طے کیے اور میگا ایونٹ میں جگہ بنانے کے لیے اس نے آئرلینڈ سمیت بڑی ایسوسی ایٹس ٹیموں کو کوالیفائنگ راؤنڈ میں شکست دی۔

    https://urdu.arynews.tv/t20-world-cup-surprising-revelation-about-canadian-team/

  • تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    دنیا بھر میں موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے بدترین اثرات کو دیکھتے ہوئے ان سے بچاؤ اور مطابقت کے لیے نئے نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور انہی میں سے ایک ’تیرتا ہوا شہر‘ بھی ہے جو جلد حقیقت بننے والا ہے۔

    کچھ عرصے پہلے اس کا تصور پیش کیے جانے کے بعد اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا تھا، تاہم اب اقوام متحدہ نے خود اس منصوبے کی سرپرستی لے لی ہے اور اسی دہائی میں یہ منصوبہ مکمل کردیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد تیرتے ہوئے شہر ایک حقیقت بن جائیں گے۔

    اس شہر کی تعمیر سطح سمندر میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہے، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے دنیا کے 90 فیصد شہروں کے زیر آب آجانے کا خدشہ ہے۔

    منصوبے کے ابتدائی خاکے کے مطابق یہاں ہزاروں افراد کے رہنے کے لیے گھر ہوں گے، جبکہ یہاں ٹاؤن اسکوائرز اور مارکیٹس بھی بنائی جائیں گی۔

    اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ہونے والی ایک میٹنگ میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 10 سال کا عرصہ پیش کیا گیا ہے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شہرسونامی اور دیگر خطرناک سمندری طوفانوں کے دوران قائم رہ سکیں گے؟

    اس حوالے سے پروجیکٹ کی ٹیم میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبہ اوشیئن انجینئرنگ کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ اس شہر کو ایسا بنایا جائے کہ یہ درجہ 5 کے طوفانوں میںبھی  قائم رہ سکے۔

    کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے تعمیراتی منصوبے بنانے کا مقصد کلائمٹ چینج کی اصل وجوہات اور انہیں کم کرنے کے اقدامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔

    ایک اور خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ صرف امرا کے لیے مخصوص ہوجائے گا جیسا اس سے قبل دبئی میں ہوچکا ہے اور غریب افراد زمین پر کلائمٹ چینج کے شدید اثرات سہنے کے لیے رہ جائیں گے۔

    مذکورہ عالیشان منصوبے کے حوالے سے پیش رفت اقدامات جلد سامنے آنے شروع ہوجائیں گے۔

  • دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    ہماری دنیا جیسے جیسے ترقی یافتہ ہورہی ہے ویسے ویسے ہماری زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں ہمیں کئی فوائد دیے ہیں وہیں بیماریوں اور نقصانات کی شکل میں ایسے تحائف بھی دیے ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں تھا۔

    انہی میں ایک تحفہ ذہنی امراض کا بھی ہے جن کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ذہنی صحت بہتر بنانے کی تجاویز

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔

    ایک عام تصور یہ ہے کہ ذہنی امراض کا مطلب پاگل پن اور خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دماغ کا صرف پریشان ہونا یا الجھن کا شکار ہونا بھی دماغی مرض ہے اور اس کے لیے کسی دماغی امراض کے ماہر سے رجوع کیا جانا چاہیئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے دل کی بیماریوں کے لیے امراض قلب کے ماہر، یا جلدی بیماریوں کے لیے ڈرماٹولوجسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ذہنی کیفیات میں تبدیلی لائیں

    ترقی پذیر ممالک میں 85 فیصد دماغی امراض کے شکار افراد کو کسی علاج تک کوئی رسائی حاصل نہیں، یا وہ شرمندگی اور بدنامی کے خوف سے اپنا علاج نہیں کرواتے۔ وجہ وہی، کہ دماغی مرض کا مطلب پاگل پن ہی لیا جاتا ہے۔

    یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دماغی امراض میں سب سے عام امراض ڈپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 15 کروڑ 40 لاکھ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    مزید پڑھیں: انسانی دماغ کے بارے میں دلچسپ معلومات

    یہاں ہم آپ کو دماغی امراض کے بارے میں قائم کچھ مفروضات کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ بھی ان مفروضوں کو درست سمجھتے ہوں، اور ان کی بنیاد پر دماغی امراض کا شکار افراد کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہوں، ایسی صورت میں مندرجہ ذیل حقائق یقیناً آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔

    :پہلا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد تشدد پسند ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

    :حقیقت

    درحقیقت دماغی امراض کا شکار افراد کی حالت ایسی ہوتی ہے جیسے وہ کسی بڑے سانحے سے گزرے ہوں، اور انہیں زیادہ دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔

    :دوسرا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کم پائے جاتے ہیں۔

    :حقیقت

    ہم میں سے ہر 4 میں سے ایک شخص کسی نہ کسی دماغی عارضہ کا شکار ہوتا ہے۔

    :تیسرا مفروضہ

    بلوغت کی عمر تک پہنچنے والے بچوں کی دماغی کیفیت میں تبدیلی آتی ہے اور یہ ایک عام بات ہے۔

    :حقیقت

    یہ واقعی ایک نارمل بات ہے لیکن یہ 10 میں سے 1 نوجوان کی دماغی صحت میں ابتری کی طرف اشارہ ہے۔ اگر ان تبدیلیوں کو درست طریقے سے ہینڈل  کیا جائے تو یہ ختم ہوسکتی ہیں بصورت دیگر یہ دماغی مرض کی شکل میں نوجوان کو سختی سے جکڑ لیں گی اور تاعمر اپنا نشانہ بنائے رکھیں گی۔

    :چوتھا مفروضہ

    نوجوانوں کے لیے آسان عمل ہے کہ وہ اپنے دوستوں سے اپنے جذبات بیان کریں۔

    :حقیقت

    درحقیقت نوجوان افراد اپنے خیالات بتانے سے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ کہیں ان کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ دونوں صورتوں میں یہ چیز ان کی دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔

    :پانچواں مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد کی واحد جگہ نفسیاتی اسپتال ہیں۔

    :حقیقت

    دماغی امراض کا شکار افراد اگر اپنا مناسب علاج کروائیں، اور ان کے قریبی افراد ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں تو وہ ایک نارمل زندگی گزار سکتے ہیں، آگے بڑھ سکتے ہیں اور ترقی کرسکتے ہیں۔

    :چھٹا مفروضہ

    دماغی امراض کا شکار افراد بعض اوقات برے رویوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ رویہ مستقل ہوتا ہے۔

    :حقیقت

    ایسے وقت میں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ برے رویے کی وجہ ان کا مرض ہے، اور یہ رویہ عارضی ہے۔

    :ساتواں مفروضہ

    دماغی امراض ساری عمر ساتھ رہتے ہیں اور ان کا شکار شخص کبھی صحت مند نہیں ہوسکتا۔

    :حقیقت

    مناسب علاج اور دیکھ بھال کے بعد یہ افراد ایک صحت مندانہ زندگی جی سکتے ہیں۔

  • آب حیات کی داستان حقیقت بننے والی ہے؟

    آب حیات کی داستان حقیقت بننے والی ہے؟

    آپ نے آب حیات کے بارے میں تو بہت سنا ہوگا، اسے سن کر یقیناً آپ کے دل میں بھی خواہش جاگتی ہوگی کہ کاش آپ بھی اسے حاصل کرسکیں تاکہ آپ ہمیشہ جوان رہ سکیں۔ اس موضوع پر آپ نے بہت سی کہانیاں اور فلمیں بھی دیکھی ہوں گی۔ اگر آپ بھی آب حیات کو حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو جان جائیے کہ آپ کی خواہش صرف 2 سال بعد حقیقت میں بدلنے والی ہے۔

    کینیڈا کی مک ماسٹر یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے نتیجہ میں سائنسدان ایسی دوا بنانے میں تقریباً کامیاب ہوچکے ہیں جو ڈیمنشیا اور دیگر بڑھاپے کی بیماریوں کو ختم کر سکتی ہے۔

    یہ دوا 30 اقسام کے وٹامن اور معدنیات سے بنائی گئی ہے اور بہت جلد یہ فروخت کے لیے پیش کی جانے والی ہے۔ اسے ایک سپلیمنٹ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    سائنسدان پرامید ہیں کہ یہ دوا اعصاب کو تباہ کردینے والی بیماریوں جیسے الزائمر اور پارکنسن کے بڑھنے کی رفتار کو کم کر سکتی ہیں۔

    سائنسدانوں نے اس دوا کا تجربہ چوہوں پر کیا۔ چوہے کے دماغ پر ایک سال کی عمر میں ویسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے انسانی دماغ پر الزائمر کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس دوا کو کئی ماہ تک چوہے کی خوراک میں شامل کر کے انہیں استعمال کروایا گیا اور سائنسدانوں کے مطابق اس کے اثرات حیرن کن تھے۔

    کچھ عرصے مزید استعمال تک اس دوا نے خلیوں کی تباہی کے عمل کو مکمل طور پر ختم کردیا۔

    تحقیق میں شامل پروفیسر جینیفر لیمن کے مطابق یہ دوا کئی بیماریوں کو ختم کر کے انسانی زندگی کے معیار کو بہتر بنا سکتی ہے۔

    اس دوا کا اگلا مرحلہ اسے انسانوں پر استعمال کروا کر دیکھنا ہے جس سے علم ہوگا کہ انسانوں پر اس کے سائیڈ افیکٹس ہوتے ہیں یا نہیں جس کے بعد اسے مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کردیا جائے گا۔