Tag: حماس

  • حماس اہلکار  نے اسرائیلی قیدی کو کیوں مار ڈالا؟ وجہ سامنے آگئی

    حماس اہلکار نے اسرائیلی قیدی کو کیوں مار ڈالا؟ وجہ سامنے آگئی

    فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے اہلکار نے اسرائیلی قیدی کو قتل کردیا، اسرائیلی قیدی کو قتل کیے جانے کی اہم وجہ بھی سامنے آگئی۔

    عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی قیدیوں کی حفاظت پر معمور اہلکار کو جب یہ معلوم ہوا کہ اس کے 2 بچوں کو شہید کردیا گیا ہے تو طیش میں آکر اس نے اسرائیلی کو ہلاک کردیا۔

    ابوعبیدہ کے مطابق یہ واقعہ قیدیوں کے ساتھ برتاؤ کے حوالے سے ہماری اقدار اور مذہبی تعلیمات کی عکاسی نہیں کرتا ہے اور قیدیوں پر حملے کے 2 واقعات کے بعد ہم اس حوالے سے ہدایات کو سخت کریں گے۔

    ابوعبیدہ نے بتایا کہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی فوج کے مظالم کے باعث اسرائیلی قیدیوں کو جن خطرات کا سامنا ہے اس کی مکمل ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔

    سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر حماس کی جانب سے قتل ہونے والے اسرائیلی کی تصویر بھی شائع کی گئی ہے۔

    غزہ میں ظلم جاری، شہید فلسطینیوں کی تعداد 40 ہزار سے تجاوز کرگئی

    واضح رہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری ونگ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ اس کے ایک محافظ کی جانب سے حماس کی قید میں موجود ایک اسرائیلی کو مار دیا گیا ہے۔

  • اسرائیل کا میزائل حملے میں حماس عہدیدار کو شہید کرنے کا دعویٰ

    اسرائیل کا میزائل حملے میں حماس عہدیدار کو شہید کرنے کا دعویٰ

    اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا ہے کہ جنوبی لبنان کے شہر صیدا میں حماس کے ایک عہدیدار کو شہید کردیا گیا ہے۔

    عرب میڈیا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جنوبی لبنان کے شہر صیدا میں حماس کے ایک عہدیدار کو شہید کیا ہے، جس کے بعد علاقے میں وسیع پیمانے پر کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

    دوسری جانب پینٹاگون کے ترجمان پیٹرک رائیڈر کا کہنا ہے کہ ایران یا اس کے ایجنٹوں کے کسی بھی حملے کو روکنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے خطے میں مزید فوجی صلاحیتیں تعینات کر دی گئی ہیں۔

    پینٹاگون کے ترجمان پیٹرک رائیڈر نے اس حوالے سے تصدیق کی ہے، اُنہوں نے کہا کہ امریکہ کشیدگی میں اضافہ نہیں دیکھنا چاہتا لیکن جواب دینے کے لیے تیار ہے۔

    پینٹاگون ترجمان نے مزید کہا کہ اڈے ”عین الاسد“ پر امریکی افواج پر حملہ ایران کے عدم استحکام کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکہ اس حملے کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

    غزہ میں اسرائیلی فوج کی اسکول پر بمباری، 100 فلسطینی شہید

    امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں اور فوجی سازو سامان پر خرچ کرنے کے لیے 3.5 بلین ڈالر فراہم کرے گا۔

  • اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    31 جولائی کو شہادت کا ایک اور پھول کھلا اور اسماعیل ہنیہ بھی مادرِ‌ گیتی پر نثار ہو گئے۔ یہ ارضِ فلسطین کا آخری بیٹا نہیں تھا جس نے اب آنکھیں موند لی ہیں بلکہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کفایہ پر مزاحمت کا رنگ مزید گہرا ہوگیا ہے۔ اب یحیٰی السنوار سامنے آئے ہیں جنھیں اکثر خان یونس کے قصاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    اسماعیل ہنیہ نے آزادی کے راستے میں اپنی جان ہی نہیں‌ گنوائی ہے بلکہ وہ اپنا گھر بار، اپنے لختِ جگر اور اعزّہ کی قربانیاں بھی دے چکے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کا اجلاس ہوا اور نئے سربراہ کے طور پر یحیٰی السنوار کا نام سامنے آیا۔ ایک طرف اسرائیل کی غزہ اور دیگر علاقوں میں فلسطینیوں پر بمباری جاری ہے اور دوسری جانب حماس کے حالیہ فیصلے نے گویا شاخِ زیتون کی چمک اور اس کے روغن کی آب و تاب مزید بڑھا دی ہے۔ یحیٰی السنوار کا انتخاب اس عزم کا اعادہ بھی ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت تیز ہوگی اور حماس کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ پچھلے سال 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کی کارروائی کے بعد صیہونی فوج نے فلسطینیوں پر گولہ بارود برسانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تاحال جاری ہے۔ امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں اسماعیل ہنیہ سے قبل بھی حماس کے متعدد راہ نما اور کارکن مارے جا چکے ہیں اور اب اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ یحییٰ سنوار کو بھی نشانہ بنائے گا۔ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تو ایک عرصہ سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے۔ انھیں مسعود پزشکیان کی بطور صدر تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا تھا اور وہیں تہران میں ایک فضائی حملہ میں انھیں شہید کردیا گیا۔ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جارہا ہے، لیکن اسرائیل نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے جب کہ ایران نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے اور اب مشرقِ وسطیٰ‌ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

    ارضِ فلسطین پر صیہونی ریاست کا قیام اور اس کے لیے صدیوں سے وہاں بسے ہوئے عرب مسلمانوں‌ کی جبراً بے دخلی اس دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ننگ اور غضب ہے۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح‌ نہتے فلسطینیوں اور محدود وسائل اور صلاحیت کے حامل حماس اور دوسرے مزاحمتی گروہوں سے اپنی تربیت یافتہ اور باقاعدہ فوج کے ذریعے جنگ لڑتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو روند رہا ہے، لیکن‌ اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ غزہ میں انسانی آبادیوں، گھروں اور اسپتالوں پر بمباری، فلسطینیوں کو ڈھال بنا کر حماس کے خلاف کارروائی، طبّی امداد اور خوراک پہچانے والی تنظیموں کے رضا کاروں کو نشانہ بنانا اور گولہ بارود کی زد پر رکھنا اسرائیل کے نزدیک اگر جنگ ہے، تو حماس اور دوسر ے مزاحمتی گروہ یہ جنگ اُس وقت تک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں جب تک ایک بھی رکن زندہ ہے۔

    دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کئی جنگوں‌ اور خوں ریز واقعات کی بنیاد جبر اور وہ ناانصافی تھی جس سے نفرت اور انتقام کا جذبہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوا۔ اقوام یا مختلف خطّوں میں لسانی، مذہبی اور ثقافتی گروہوں کو جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنے دشمن کو انتقام کی آگ میں پھونک دیا۔ کیا اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ جن بچّوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین، بہن بھائی مارے جارہے ہیں، وہ بڑے ہو کر اسرائیل کا وجود تسلیم کرلیں‌ گے یا موقع ملنے پر اپنی زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے تاکہ باقی ماندہ زندگی وہاں عافیت سے بسر کرسکیں؟ فلسطین یا کسی بھی سرزمین سے اس قوم کا وجود مٹانا آسان نہیں‌ جو صدیوں سے وہاں بسی ہوئی ہے۔ اقوامِ عالم میں بدنام اور دہشت گرد اسرائیل یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ صیہونی ریاست کے قیام اور استحکام کے لیے اس کا یہ قتلِ عام اور تشدد ہر فلسطینی بچّے میں جذبۂ حریّت اور انتقام کو مہمیز دے رہا ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل کا مقصد صرف غزہ اور دیگر علاقوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی ہی نہیں ہوگا بلکہ وہ فلسطینی مسلمانوں‌ کی نسل کُشی کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس بات کو تقویت ملتی ہے، وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے اُس بیان سے جس میں وہ دنیا سے شیطانی قوت (حماس) کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے عہدنامۂ عتیق (تورات) سے ایک پیرا کا حوالہ دیتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں دانش ور اور انسان دوست شخصیات نے نیتن یاہو کے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے سفاک اور جنونی کہا ہے۔

    آج اسرائیل کی آبادی لگ بھگ 98 لاکھ بتائی جاتی ہے جس میں یہودی اور وہ فلسطینی شامل ہیں جو اسرائیل میں بسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ فلسطین کا وہ علاقہ ہے جس میں‌ غربِ اردن اور غزہ شامل ہیں اور وہاں کی آبادی پچپن لاکھ ہے۔ لیکن 1948ء سے قبل صورتِ حال مختلف تھی۔ اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے لگ بھگ پانچ سو دیہات اور قصبات میں آباد ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے یک دم نکال کر ہمسائیہ ممالک میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اسی سال اقوامِ متحدہ نے ایک قرار میں ان فلسطینیوں کی واپسی کا وعدہ کیا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور فلسطینیوں کی زمین حیلے بہانوں اور طاقت کے بل پر ہتھیانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ عرب مسلمانوں کو اسرائیل کی حدود میں جانے کے لیے توہین آمیز سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر چوکیاں ہیں جہاں تلاشی اور کاغذات دیکھنے کے بہانے ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور فلسطینی اپنی ہی زمین پر قیدی کی طرح رہنے پر مجبور ہیں۔ 2018ء میں اسرائیلی عرب شہریوں پر عرصۂ حیات اس وقت مزید تنگ ہو گیا جب پارلیمنٹ نے قومی ریاست کا ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کا وطن قرار دیا گیا۔ جب کہ غیر یہودیوں کو اس ایکٹ کے ذریعے باضابطہ طور پر درجہ دوم کا شہری بنا دیا گیا۔

    فلسطین میں‌ اترنے والے صیہونیوں نے اپنے گھناؤنے منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کی بے دخلی کے ساتھ ان کے تاریخی محلّے اور عمارتیں مسمار کرکے وہاں جدید تعمیرات کی ہیں۔ قدیم آبادیوں کے صدیوں پرانے نام تبدیل کیے اور اپنے تعلیمی نصاب کو اس طرح ترتیب دیا کہ جو تاریخی حقائق کو مسخ اور لسانی و ثقافتی اقدار کو یکسر مٹا کر نئی ریاست کی سیاسی، مذہبی، تاریخی و ثقافتی شناخت کو اجاگر کرے اور نئی نسل اسے قبول کرلے۔ اسرائیلی حکومت نے کتب خانوں اور بلدیہ کی عمارتوں کو اس لیے اڑا دیا کہ کہیں کئی سو سال پرانا ریکارڈ، شہر کی تاریخ اور فلسطین کی اصل شناخت سے متعلق نادر دستاویز موجود ہوں تو باقی نہ رہیں تاکہ ازسرِ‌ نو مرضی کا ریکارڈ بنا کر خطّے میں اپنی شناخت کو قائم کیا جاسکے۔

    فلسطینی شہری فوجی قوانین کے تحت محدود نقل و حرکت کے ساتھ کئی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ جب کہ 1966ء میں اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کو فوجی قوانین سے آزاد کرتے ہوئے ریاست نے قانونی شہری تو تسلیم کیا مگر عملاً وہ اب تک دوسرے درجے کے ہی شہری ہیں۔ ان سے صحت، تعلیم و روزگار اور رہائش سمیت ہر شعبے میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور وہ گویا ایک قید خانے میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی عربوں کو ثقافتی اظہار سے روکا گیا ہے۔ حتیٰ کہ فلسطین کا جھنڈا لہرانے پر بھی سزا دی جاسکتی ہے۔

    اسرائیلی فوج دنیا کی ایک تربیت یافتہ اور جدید اسلحے اور جنگی ساز و سامان سے لیس طاقت وَر فوج ہے۔ اسرائیلی فوج اور عرب ممالک سے اس کی جنگیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے متحد عرب افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے کئی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا، اور آج اسرائیل سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری اقوام سے آگے ہے۔ اب صرف حماس کی بات کریں تو وہ اپنی مالی اور دفاعی ضروریات کے لیے بالخصوص ایران کی طرف دیکھتا ہے جب کہ لبنان، شام اردن، عراق اور دوسرے عرب ممالک سے امداد کا خواہاں رہتا ہے۔ ادھر اسرائیل کا جاسوس نیٹ ورک بڑا مضبوط ہے اور اسی کی بدولت اسماعیل ہنیہ یا دوسرے حماس اور حزب اللہ کے بڑے راہ نماؤں کو اسرائیل اپنا نشانہ بنا چکا ہے۔ زمینی فوج کے علاوہ اسرائیل کی فضائیہ نے بھی قتلِ عام میں اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

    یہ درست ہے کہ حماس، حزب اللہ اور ایران یا دیگر عرب ممالک کے حمایت یافتہ گروہ اسرائیل کو معمولی نقصان پہنچا پاتے ہیں، لیکن اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں فلسطینیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حالیہ جنگ بھی حماس کی ایک ایسی ہی کارروائی کے جواب میں شروع کی گئی تھی۔ لیکن کیا ایک نادارِ زمانہ، ستم رسیدہ اور درماندہ قوم کو اسرائیل کے آگے سَر جھکا دینا چاہیے تاکہ ان کا گھر بار اور ان سب کی زندگی محفوظ رہے؟ محکوم اقوام کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ اس خیال کی نفی کرتی ہے۔ فلسطین بالخصوص غزہ اور دوسرے علاقے وہاں کے باشندوں کے لیے قید خانے سے کم نہیں اور وہ روزانہ جس اذّیت، کرب اور مقبوضہ علاقے میں داخلے پر جس ذلّت اور توہین کا سامنا کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، اور وہاں زندگی اپنا مفہوم کھو چکی ہے۔ لیکن ان حالات میں‌ فلسطین کا مسلمان عالمی ادارۂ انصاف، خاص طور پر اسلامی دنیا کی طرف دیکھتا ہے تو اسے کس قدر رنج اور مایوسی ہوتی ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اپنی آزادی کی جنگ اسے خود ہی لڑنی ہے اور امّتِ مسلمہ کی طرف دیکھنا بے سود ہے۔

    اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے جہاں حماس کو دھچکا پہنچایا وہیں ایران کو عالمی سطح پر خفّت کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ اس کے ملک میں ایک مہمان شخصیت کو نہایت آسانی سے قتل کردیا گیا اور اب تک ایران کچھ نہیں کرسکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران کوئی بڑی کارروائی نہیں کرسکے گا اور صرف دھمکیوں تک محدود رہے گا۔ یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر جنگ مسلّط کرنے کے بعد سے اب تک کوئی بھی اسلامی ملک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ مگر شاید فلسطینی اب اس کے عادی ہوچکے ہیں‌ اور وہ جان چکے ہیں کہ ان کو اپنی جنگ لڑتے رہنا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے بھی کہا تھا، ’اس خون سے ہم مستقبل کی امید پیدا کریں گے اور اپنے لوگوں، اپنے مقصد اور اپنی قوم کے لیے آزادی حاصل کریں گے۔‘

  • توقع کرتے ہیں فلسطین کی جدوجہد میں ہر قسم کی مدد کی جائے گی، حماس رہنما اسامہ حمدان کی اے آر وائی نیوز سے گفتگو

    توقع کرتے ہیں فلسطین کی جدوجہد میں ہر قسم کی مدد کی جائے گی، حماس رہنما اسامہ حمدان کی اے آر وائی نیوز سے گفتگو

    حماس کے محکمہ پبلک ریلیشنز کے نائب سربراہ اسامہ حمدان نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اسلامی امہ کا اہم ملک ہے اور ہمیں فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں اس سے ہر قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔

    اسامہ حمدان نے کہا ’’ہم توقع کرتے ہیں کہ فلسطین کی جدوجہد میں ہر قسم کی مدد کی جائے گی، ہمیں فلسطین کی جدوجہد میں ہر قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘

    انھوں نے کہا ہر مسلمان کی تمنا ہوتی ہے کہ شہادت نصیب ہو اور اسماعیل ہنیہ کو اپنی منزل نصیب ہوئی ہے، حماس میں نئے سربراہ کے انتخاب کا باقاعدہ ایک طریقہ کار موجود ہے، اور امید ہے جلد ہی حماس کے نئے سربراہ کا اعلان کر دیا جائے گا۔

    اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے وقت میں موقع پرموجود تھا، ترجمان حماس خالدالقدومی

    ادھر اے آر وائی نیوز کے پروگرام اعتراض ہے میں حماس کے ترجمان خالد القدومی نے بتایا کہ وہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے وقت میں موقع پر موجود تھے، انھوں نے کہا ’’میں عمارت کی دوسری منزل پر مقیم تھا اور واقعہ چوتھی منزل پر ہوا، میں موقع پر پہنچا تو دیکھا بلڈنگ کی باہر کی دیوار ٹوٹی ہوئی تھی۔‘‘

    خالد القدومی نے کہا ’’ایسا لگا کہ کمرے کی دیوار کو کسی چیز نے باہر سے ہٹ کیا ہے، راکٹ یا کسی چیز نے چوتھی منزل پر ہٹ کیا جس کا اثر دوسری منزل تک گیا، اسماعیل ہنیہ کے کمرے میں اندر دھماکا نہیں ہوا بلکہ باہر سے ہٹ کیا گیا۔ نیویارک ٹائمز اور ٹیلی گراف کے اپنے مفادات ہیں۔‘‘

    خالد القدومی نے مزید کہا کہ ہماری تحریک میں نضم و ضبط ہے اسی حساب سے سربراہ مقرر کیا جائے گا، حماس کے اپنے ٹی او آرز ہیں، فی الحال شوریٰ معاملات چلائے گی، ابھی خون تازہ ہے، صورت حال دیکھیں گے یا نئے الیکشن کرائے جائیں گے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ حماس کے پولیٹیکل بیورو کے ارکان کی تعداد 17 ہے۔

  • حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ دوحہ میں سپردِ خاک

    حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ دوحہ میں سپردِ خاک

    حماس رہنما اور سابق فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں تدفین کردی گئی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق نماز جنازہ میں خالد مشعل، امیر قطر شیخ تمیم بن حمد، اسماعیل ہنیہ کے بیٹے، فلسطینی تنظیموں، الفتح، اسلامی جہاد اور دنیا بھر سے لوگ شریک ہوئے۔

    مسجد امام محمد بن عبدالوہاب میں نماز جمعہ کے بعد اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی، حماس کے شہید رہنماء اسماعیل ہنیہ کو دوحہ کے لوسیل قبرستان میں علامہ یوسف القرضاوی کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔

    حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کی تصاویر اور فلسطینی پرچم اٹھائے سوگوار افراد کی بڑی تعداد شہید کے جنازے میں شریک ہوئی، نعروں کی گونج میں حماس رہنماء کی میت امام محمد بن عبدالوہاب مسجد میں لائی گئی۔

    اسماعیل ہنیہ شہید نے آخری گفتگو میں کیا کہا تھا؟

    واضح رہے کہ حماس کے شہید رہنماء اسماعیل ہنیہ کی نمازِ جنازہ گزشتہ روز تہران میں ادا کی گئی تھی، جس میں لاکھوں شہریوں نے شہید کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔

  • اسماعیل ہنیہ کا قتل،  حماس کا بدلہ لینے کا اعلان

    اسماعیل ہنیہ کا قتل، حماس کا بدلہ لینے کا اعلان

    غزہ : حماس نے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کردیا اور کہا قتل کی سزا دی جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق حماس کے ترجمان حماس موسیٰ ابو مرزو کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل بزدلانہ کارروائی ہے، سیاسی سربراہ کے قتل کابدلہ لیا جائے گا۔

    ترجمان حماس سمیع ابو زہری نے بھی سیاسی سربراہ کے قتل کو ایک بزدلانہ فعل قرار دیتے ہوئے کہا کہ سربراہ کے قتل کی سزا دی جائے گی۔

    سمیع ابو زہری کا کہنا تھا کہ سربراہ کا قتل جارحیت میں اضافہ ہے لیکن ان پر حملہ کر کے دشمن اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کرسکےگا۔

    ترجمان نے مزید کہا کہ حماس یروشلم کو آزاد کرانے کے لیے کھلی جنگ کرنے کیلئے تیار ہے اور مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی کیلئے ہر قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔

    یاد رہے حماس کے سربراہ کو ایران کے شہر تہران میں شہید کر دیا گیا۔

    ایرانی ٹی وی کے مطابق ان کی رہائش گاہ کو علی الصبح نشانہ بنایا گیا، حملے میں ان کا ایک محافظ بھی شہید ہوا۔

    حماس نے سربراہ کی شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے ان کے سربراہ اسرائیلی حملے میں شہید ہوئے، وہ ان دنوں ایران کے صدرکی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے ایران میں مقیم تھے۔

    واضح رہے غزہ جنگ کے دوران حماس کے سربراہ کے خاندان کے درجنوں افراد شہید ہوچکے ہیں، جن میں انکے بھائی بیٹے بہو پوتے پوتیاں بھی شامل ہیں۔

  • اسماعیل ہنیہ کی شہادت، پاسداران انقلاب کا اہم بیان

    اسماعیل ہنیہ کی شہادت، پاسداران انقلاب کا اہم بیان

    تہران: ایرانی پاسداران انقلاب نے حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی تصدیق کردی، بیان میں کہا گیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی پاسداران انقلا ب کا کہنا ہے کہ حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں شہید کیا گیا ہے، اسماعیل ہنیہ کے قتل کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

    ایرانی پاسداران انقلا ب کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فورسز پہلے ہی اسماعیل ہنیہ کے اہلخانہ کونشانہ بنا چکی ہیں، اسماعیل ہنیہ کے بھائی، بہن، پوتے، نواسی اسرائیلی بمباری میں شہید ہوچکے تھے۔

    واضح رہے کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں شہید کردیا گیا۔

    اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے تہران گئے تھے، حملے میں اسماعیل ہنیہ کا ایک محافظ بھی شہید ہوا۔

    ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق غزہ جنگ کے دوران اسماعیل ہنیہ کے خاندان کے درجنوں افراد جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔

    ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں ان کی قیام گاہ پر نشانہ بنایا گیا، ایران نے اسماعیل ہنیہ پر قاتلانہ حملے کی تحقیقات جلد سامنے لانے کا اعلان کردیا ہے۔

    حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں شہید کردیا گیا

    حماس کے اعلامیہ کے مطابق حماس نے اسماعیل ہنیہ کے شہید ہونے کی تصدیق کردی ہے، حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کواسرائیلی ایجنٹوں نے نشانہ بنایا ہے۔

  • امریکی کانگریس میں نیتن یاہو کے خطاب پر حماس کا رد عمل آ گیا

    امریکی کانگریس میں نیتن یاہو کے خطاب پر حماس کا رد عمل آ گیا

    امریکی کانگریس میں نیتن یاہو کے خطاب پر حماس نے اپنا رد عمل ظاہر کر دیا، حماس نے تقریر کو ’جھوٹ کا پلندہ‘ قرار دے دیا۔

    الجزیرہ کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی امریکی کانگریس میں تقریر ’’جھوٹ سے بھری ہوئی‘‘ تھی اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنگ بندی کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔

    اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر کے جواب میں جاری بیان میں حماس نے کہا کہ قیدیوں کے بارے میں نیتن یاہو کا تبصرہ ’خالص جھوٹ‘ ہے، حماس نے کہا یرغمالیوں کی اسرائیل واپسی کی تیز کوششوں پر نیتن یاہو کے ریمارکس خالص جھوٹ اور اسرائیلی، امریکی اور عالمی رائے عامہ کے لیے گمراہ کن ہیں۔

    حماس نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ نیتن یاہو کو جنگی مجرم کے طور پر گرفتار کر کے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حوالے کر دیا جاتا، اس کی بجائے وہ امریکی کانگریس کے سامنے اپنی شبیہ چمکانے کی کوشش کر رہے ہیں، آئی سی سی نے نیتن یاہو کے خلاف جنگی جرائم کے لیے وارنٹ گرفتاری کی درخواست کی ہے۔

    ایک دن میں 150,000 فلسطینیوں کو افراتفری کے عالم میں خان یونس سے نکلنا پڑا

    حماس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل ایک وحشیانہ جنگ کی قیادت کر رہا ہے، جس کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کو ختم کرنا ہے، اور جس میں شہریوں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے تمام بین الاقوامی قوانین، اصولوں اور انسانی ہمدردی کے معاہدوں کی اس طرح خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جس کی جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

    حماس نے یہ بھی کہا ہے کہ نیتن یاہو وہ شخص ہے جس نے مصر اور قطر کے بھائیوں کی طرف سے ثالثی کی مسلسل کوششوں کے باوجود جنگ کو ختم کرنے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے تک پہنچنے کی تمام کوششوں کو ناکام بنایا۔

  • غزہ جنگ ختم ہونے کے بعد حکومت کس کی ہو؟ حماس نے تجویز دے دی

    غزہ جنگ ختم ہونے کے بعد حکومت کس کی ہو؟ حماس نے تجویز دے دی

    اسرائیلی فورسز سے بر سر پیکار فلسطینی جانبازوں کی تنظیم حماس نے غزہ میں جنگ کے بعد خودمختار حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

    اے ایف پی کے مطابق حماس نے جنگ بندی مذاکرات میں اسرائیل کے زیرِ قبضہ مغربی کنارے اور غزہ میں غیر جانب دار شخصیات پر مشتمل ایک خودمختار حکومت کے قیام کی تجویز دی ہے۔

    حماس کے اعلیٰ عہدے دار حسام بادران نے کہا ہے کہ انھوں نے تجویز پیش کی ہے کہ جنگ کے بعد ایک غیر جانب دار حکومت غزہ اور مغربی کنارے کے معاملات کو دیکھے اور عام انتخابات کے لیے راہ ہموار کرے۔ انھوں نے واضح کیا کہ غزہ کے انتظامی امور فلسطین کا اندرونی معاملہ ہے، جنگ کے بعد کی صورت حال پر وہ کسی بھی بیرونی فریق کے ساتھ بات نہیں کریں گے۔

    غزہ کے تل الحوا محلے سے انخلا کے بعد درجنوں لاشیں برآمد، جان بوجھ کر نشانہ بنائے جانے کا انکشاف

    حماس کے ایک عہدے دار کے مطابق غیر جانب دار حکومت کے حوالے سے یہ تجویز ثالثوں قطر، مصر اور امریکا کو دے دی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے مطالبہ کیا تھا کہ مصر کی سرحد کے ساتھ غزہ کے علاقے اور فیلاڈیلفی راہداری کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا۔ حماس کا مطالبہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسرائیل غزہ کے علاقوں سے نکل جائے۔

  • غزہ جنگ: اسرائیل آخر چاہتا کیا ہے؟

    غزہ جنگ: اسرائیل آخر چاہتا کیا ہے؟

    شریکی سنگھ سندھو

    چند روز قبل ایک تصویر نظر سے گزری جس میں ایک باپ اپنے بیٹے کو منہدم غسل خانے میں صابن لگا کر نہلا رہا ہے۔ دیار اجڑ گیا لیکن دیارِ دل اب بھی روشن ہے۔

    ایسی کئی تصویریں اور ویڈیوز ہر روز انٹرنیٹ پر نظر آتی ہیں۔ سہمے ہوئے بچے، ماتم کناں مائیں۔ جہاں تک نظر جاتی ہے تباہی، ویرانی، کنکریٹ کی عمارتوں کے کھنڈر۔ ساحر لدھیانوی نے خوب کہا تھا کہ میرے بربط کے سینے میں نغموں کا دم گھٹ گیا ہے، تانیں چیخوں کے انبار میں دب گئی ہیں، اور گیتوں کے سَر ہچکیاں بن گئے ہیں۔ اور آج کا غزہ ان الفاظ کی عکاسی کر رہا ہے۔

    اسرائیلی بم برسا رہے ہیں اور شہریوں کو مار رہے ہیں۔ فلسطینی اپنے گھروں کو چھوڑ رہے ہیں اور عارضی پناہ گاہوں سے بھی بھاگنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اور اب بھی تقریباً 7 ماہ پر محیط غزہ میں اسرائیل کی جنگ ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ راقم سمیت یہ سوال کتنے ہی ذہنوں‌ میں اٹھ رہا ہے کہ آخر اسرائیل چاہتا کیا ہے؟ کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا؟

    اسرائیل کے حکومتی بیانیے کے لحاظ سے اس خون خرابے کے درج ذیل مقاصد ہیں۔

    1- غزہ سے یرغمالیوں کی واپسی
    2- حماس کی فوج اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم کرنا
    3- اس بات کو یقینی بنانا کہ غزہ اسرائیل کے خلاف دوبارہ کبھی خطرہ نہیں بنے گا

    غزہ میں برپا اس جنگ کے تاریخی پس منظر اور حماس کی کارروائی کے تناظر میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جس سے ایک کہانی یاد آتی ہے۔ جب بھیڑیے نے میمنے پر ایک الزام لگا کر کہ تم میرا پانی جھوٹھا کر رہے ہو، چیر پھاڑ دیا، جب کہ بھیڑیا بلندی پر تھا اور میمنا نیچے گھاٹی میں۔

    بعض ماہرین کے نزدیک یہ تباہی اور ہلاکتیں ہی تو اس جنگ کا مقصد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اقتدار میں رہنے کے لیے اس جنگ کو طول دے رہے ہیں۔ اس جنگ کے پسِ پردہ عزائم صرف فلسطینیوں‌ کو مٹانا اور بے دخل کرنا ہے۔

    دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ فوج غزہ میں حماس کو "ختم کرنے کے مرحلے” کے قریب ہے۔ ہم حماس کی دہشت گرد فوج کو جڑ سے ختم کر دیں گے اور اس کی باقیات پر حملے جاری رکھیں گے یہاں تک کہ اسرائیل حماس کے خلاف اپنی جنگ میں اپنے مقاصد حاصل کر لے گا۔

    پھر وہی بات کہ تم نے مجھے پچھلے سال گالی دی تھی۔ تم نے میرا پانی گدلا کیا۔

    کچھ سنا سنا لگتا ہے کہ ہم تو مشرق وسطیٰ میں امن کے خواہاں ہیں، ہم عراق میں جمہوریت قائم کر کے واپس جائیں گے، ہم افغانستان کو طالبان کے استبداد سے نجات دلوا کر یہاں عوام دوست حکومت تشکیل دے کر جلد لوٹ جائیں گے۔ بعید نہیں کہ آئندہ سالوں میں سننا پڑے کہ ہم تو بس نیوکلیئر اثاثوں کی محفوظ امریکی مقامات پر منتقلی چاہتے ہیں۔ ورنہ پاکستان کی خود مختاری میں دخل اندازی ہمارا مقصد نہیں۔

    بہرحال مجھے کیا ، میرا تو بجلی کا بل ہی مجھے خون رلانے کو کافی ہے۔

    (یہ بلاگ/ تحریر مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)