Tag: حماس

  • اسرائیلی وزیر دفاع کا رفح پر حملے جاری رکھنے کا اعلان

    اسرائیلی وزیر دفاع کا رفح پر حملے جاری رکھنے کا اعلان

    اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کا کہنا ہے کہ جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح کے قریب ایک علاقے میں فوج کی دراندازی اور گزرگاہ کنٹرول کرنے کا عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حماس کے خاتمے یا تمام یرغمالیوں کی رہائی ممکن نہیں ہوجاتی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ان کا ملک زیرحراست افراد کی بازیابی کے لیے رعایتیں دینے کے لیے تیار ہے لیکن اگر زیر حراست افراد کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو وہ غزہ بھر میں کارروائیاں تیز کردی جائیں گی۔

    حماس کی طرف سے جنگ بندی کے حوالے سے قبول کردہ تجویز کواسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اسرائیلی مطالبات سے بہت دور قرار دیا۔

    اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حماس کی تجویز کا مقصد اسرائیلی افواج کو رفح میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔

    دوسری جانب وائٹ ہاؤس پرُامید ہے کہ حماس اور اسرائیل‘بقیہ خلا’ کو بھی ختم کر سکتے ہیں۔

    بائیڈن انتظامیہ کو امید ہے کہ اسرائیل اور حماس اپنی جنگ بندی کی بات چیت میں ”بقیہ خلا کو ختم”کر سکتے ہیں اور جلد ہی ایک معاہدہ طے پا جائے گا۔

    غزہ جنگ بندی کیلئے قطر، مصر، حماس اور امریکا کے مذاکرات جاری

    قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ دونوں فریقوں کی پوزیشنوں کا قریبی جائزہ بتاتا ہے کہ وہ بقیہ خلا کو ختم کرنے کے قابل ہو جائیں اور ہم اس عمل کی حمایت کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے جا رہے ہیں۔

  • اب اسلامی دنیا کو فلسطین، القدس کی آزادی کی بات کرنی ہوگی، مولانا فضل الرحمان

    اب اسلامی دنیا کو فلسطین، القدس کی آزادی کی بات کرنی ہوگی، مولانا فضل الرحمان

    جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اب اسلامی دنیا کو فلسطین اور القدس کی آزادی کی بات کرنی ہوگی۔

    مولانا فضل الرحمان کا کاتقریب سےخطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مسلم دنیا اسرائیل کے معاملے پر تذبذب کا شکار کیوں ہوگئی ہے؟ حماس نے حملہ کرکے دوبارہ سے فلسطین کے تصفیے کو اجاگر کیا، حماس کے حملے سے فلسطین کو آزاد کرنے کا موضوع دوبارہ اوپر آگیا ہے، حماس نے حملہ کرکے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے موضوع کو توڑ دیا ہے۔

    فضل الرحمان نے کہا کہ فلسطین سے آئے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں، لوگوں کے دماغ میں اسرائیل سے متعلق عجیب سوالات ڈالے جاتے ہیں۔ اسرائیل کے حوالے سے تاریخی حقائق کا یہ کچھ نہیں بتاتے۔

    انھوں نے کہا کہ حرمین الشریفین کی طرح مسجدالاقصیٰ کا مسئلہ بھی امت کا مسئلہ ہے، مسجدالاقصیٰ کی آزادی کیلئے ہر مسلمان کٹ مرنے کو تیار ہے۔

    جے یو آئی (ف) کے قائد نے کہا کہ آج کی صورتحال میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ کہا جاتا ہے اسرائیل حقیقت ہے، تسلیم کرنے میں کیاقباحت ہے، کہا جاتا ہے عربوں نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہم کیوں نہ کریں۔

    خطہ فلسطین کا ذکر تاریخ میں ہزار سالوں تک مل سکتا ہے مگر خطہ اسرائیل کا کہیں نہیں۔ اسرائیل کے حق میں یو این قرارداد پر بانی پاکستان محمد علی جناح نے پہلا ردعمل دیا۔ محمدعلی جناح نے کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔ جناح نے کہا اسرائیل کی صورت میں عربوں کے دل میں خنجر گھونپ دیا گی۔

    فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے 1967 میں گولان کی پہاڑیوں اور دیگرعلاقوں پر قبضہ کیا، اقوام متحدہ نے 1967 کی جنگ میں عرب علاقے پر قبضے کو ناجائز قرار دیا،

    انھوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت نے ایک دوسرے کو تسلیم کیا لیکن کشمیر پر تنازع برقرار ہے۔ روس نے افغانستان میں جنگ چھیڑ کرغلطی کی اور ٹوٹ گیا، سویت یونین کے ٹوٹنے پر امریکا ایک محوری نظام بن کرسامنے آیا،

    فضل الرحمان نے کہا کہ مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو اسرائیل نے صحرائے سینا کےعلاقے خالی کردیے۔ صیہونیت اور نسل پرستی ایک چیز ہے، نسل پرستی کے خلاف یو این قرارداد موجود ہے۔

    سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ آج اقوام متحدہ میں فلسطین سے متعلق قراردادیں کہاں ہیں، غزہ میں شہر برباد کردیے گئے، کوئی اسپتال اور دکان نہیں، پانی کے ذخائر ختم کردیے گئے۔

    انھوں نے کہا کہ امریکا انسانی حقوق کا علمبردار نہیں انسانی حقوق کا قاتل ہے، امریکا کو سپرپاور کیوں تسلیم کریں، وہ ہمارے پڑوس میں شکست کھاکر بھاگا ہے۔ مسلمانوں میں توہمت نہیں ہوسکی مگر جنوبی افریقا قتل عام پرعالمی عدالت انصاف میں گیا۔

    مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں شہباز شریف کی حکومت کب ہے؟ ملک میں حکومت جن کی ہے ان کی بات اب کرنی پڑے گی۔ اس اسمبلی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی تو قوم اینٹ سے اینٹ بجادے گی۔

  • کس صورت میں اسرائیل سے معاہدہ نہیں ہوگا؟ حماس کا اہم بیان

    کس صورت میں اسرائیل سے معاہدہ نہیں ہوگا؟ حماس کا اہم بیان

    حماس کے ترجمان عبدالطیف الکانو کا کہنا ہے کہ مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا چاہتے ہیں، ہمارے مطالبات جائز ہیں۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اپنے بیان میں عبدالطیف الکانو کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات پر تمام دھڑوں نے اتفاق کیا ہے۔

    ترجمان حماس کے مطابق ہم جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا چاہتے ہیں۔ مستقل جنگ بندی کو یقینی بنانا مذاکرات کی پیشرفت کی لازمی بنیاد ہے۔

    عبدالطیف الکانو کا مزید کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بے گھر ہونے والے افراد کی ان کے گھروں پر واپسی جلد از جلد ممکن ہو، انہوں نے کہا کہ ان مطالبات کی منظوری کے بغیر کوئی بھی معاہدہ کامیاب نہیں ہوگا۔

    دوسری جانب امریکا کی 20 سے زائد جامعات میں غزہ میں ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف 11 روز سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

    بحیرہ احمر میں حوثیوں کے امریکی جہازوں پر حملے

    رپورٹ کے مطابق کولمبیا یونیورسٹی میں طلباء مظاہرین کے مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے بعد انتظامیہ نے طلباء کو معطل کرنا شروع کردیا ہے۔

  • حماس غزہ کی آبادی کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہا ہے، اسرائیلی وزیر خارجہ

    حماس غزہ کی آبادی کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہا ہے، اسرائیلی وزیر خارجہ

    اسرائیلی وزیر خارجہ کیٹز نے کہا ہے کہ حماس غزہ کی آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی قیادت کے وارنٹ جاری ہونے سے اسرائیلی فوجیوں کو نقصان پہنچے گا، اپنے دفاع سے روکنا کھلے عام اسرائیل کی تباہی کا مطالبہ ہے۔

    اسرائیلی وزیر خارجہ کیٹز کا کہنا تھا کہ حماس غزہ کی آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہا ہے۔

    واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیلی آرمی چیف، وزیراعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

    اسرائیلی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو اعلیٰ قانونی عہدیداروں کی طرف سے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے اشارے ملے ہیں۔

    اسرائیلی اخبار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وارنٹ گرفتاری کی اطلاعات پر اسرائیلی وزیر اعظم خوفزدہ اور غیر معمولی دباؤ کا شکار ہیں۔

    برطانیہ میں پناہ گزینوں کیخلاف بڑے آپریشن کی تیاریاں

    میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی عدالت انصاف میں غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں کی تحقیقات ہورہی ہیں، جس پر کارروائی ہوسکتی ہے۔

  • اسرائیل کیساتھ جنگ بندی: حماس کا بڑا بیان سامنے آگیا

    اسرائیل کیساتھ جنگ بندی: حماس کا بڑا بیان سامنے آگیا

    حماس کے اعلیٰ سیاسی رہنما خلیل الحیہ نے اسرائیل کیساتھ جنگ بندی سے متعلق ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

    خبر رساں ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں حماس کے اعلیٰ سیاسی رہنما نے کہا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ پانچ سال یا اس سے زیادہ عرصے کی جنگ بندی پر راضی ہونے کی خواہاں ہے۔

     انہوں نے کہا کہ اگر 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم ہوتی ہے تو حماس ہتھیار ڈال دے گی اور ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہو جائے گی۔

    ان کا مزید کہنا تھا اب تک اسرائیل کو حماس کو تباہ کرنے میں کامیابی نہیں ملی، اسرائیل حماس کی 20 فیصد صلاحیتوں کو بھی تباہ نہیں کر سکا ہے، اگر وہ (حماس) کو ختم نہیں کر سکتے تو اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل اتفاقِ رائے کی طرف جانا ہے۔

    واضح رہے کہ خلیل الحیہ حماس کے اعلیٰ عہدے دار ہیں جو جنگ بندی اور یرغمالوں کے تبادلے کے لیے مذاکراتی عمل میں حماس کی نمائندگی کر چکے ہیں، ان کا لہجہ کبھی مفاہمانہ تو کبھی جارحانہ ہوتا ہے۔

  • مقہور فلسطینیوں کو کون بچائے گا؟

    مقہور فلسطینیوں کو کون بچائے گا؟

    دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک موجود ہو جہاں مسلمان جرمِ مسلمانی کی سزا نہ بھگت رہے ہوں۔ یہ سزا کہیں اخلاقیات کے پردے میں دی جا رہی ہے اور کہیں اخلاقیات کی دھجیاں اڑا کر اس کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

    گو کہ فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے اسرائیل کو اس حقیقت سے آشنائی ہوئی ہے کہ اس کے اردگرد موجود مسلم عرب ممالک کے لیے ان بے چارے فلسطینیوں کی حیثیت سوائے ’’اضافی بوجھ‘‘ کے اور کچھ نہیں اس نے ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک شروع کر دیا ہے۔ 1972ء سے آج تک شاید ہی کوئی دن ایسا ہو گا جب ان بدقسمت فلسطینیوں نے سُکھ کا سانس لیا ہو۔’’بالفور‘‘ کے نتیجے میں قائم ہونے والی ناجائز یہودی ریاست اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں کو کبھی برابر کے انسان نہیں سمجھا۔ درجنوں عالمی معاہدوں کو کبھی جوتے کی نوک پر رکھا، صابرہ و شتیلہ کے کیمپوں کا قتل عام اور درندگی ماضی کی بات نہیں حال کا قصہ ہے کیونکہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور بظاہر اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسرائیلی حکومت اپنا ایجنڈا پورا نہ کر لے۔

    برطانوی رکن پارلیمنٹ جارج گیلو وے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کی بربادی اور تباہی کے ’’رائٹرز‘‘ برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ ہیں کیونکہ فلسطین کی تباہی کے تمام ’’اسکرپٹ‘‘ اس پارلیمنٹ نے ’’انڈورس‘‘ کئے ہیں۔ جنگِ عظیم کے زمانے سے اب تک برطانیہ نے اسرائیل کی ہر جائز نا جائز خواہش کو اپنی پارلیمنٹ کے ذریعے دنیا بھر میں مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس لئے ہمیں (یعنی برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کو) کھلے دِل سے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا چاہئے۔

    گزشتہ کئی روز سے پھر وحشت و بربریت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران طیاروں سے بمباری اور میزائل حملوں کے ذریعے بچوں اور خواتین نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا۔اسرائیل کو اس کے مذموم عزائم سے روکا نہ گیا تو وہ اپنے ریاستی وجود کو تحفظ دینے کے نام پر غزہ کو تباہی و بربادی کا نمونہ بنا ڈالے گا- دنیا کو یہ حقیقت سمجھ لینی چاہیے کہ فضائی حملوں کے بعد اسرائیل غزہ میں زمینی دہشت گردی کے ذریعے ظلم و جبر کے جو پہاڑ توڑرہا ہے، ان کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کا تصوّر ختم ہو کر رہ جائے گا۔

    اسرائیلی جارحیت کے خلاف عالمی برادری کے رد ِعمل پر نگاہ ڈالی جائے تو اقوام متحدہ کی اپیلوں کے سوا کہیں سے کوئی جاندار آواز بلند نہیں ہو رہی- لندن اور نیو یارک سمیت بعض یورپی اور امریکی شہروں میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں، امریکی صدر باراک اوباما(اس وقت یہ منصب اوباما کے پاس تھا) نے جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے کا اعلان تو کر رکھا ہے تاہم عملی طور پر اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی- فرانس اور جرمنی جیسے ممالک اسرائیل سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں- عالمی برادری کی اس دورُخی اور منافقت سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ غزہ کی 41 کلو میٹر لمبی اور چھ سے بارہ کلو میٹر چوڑی پٹی پر رہنے والے اٹھارہ لاکھ افراد کو نقل مکانی یا اسرائیلی بمباری میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ حماس کے خلاف کارروائی کے نام پر اسرائیل فضائی اور زمینی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا اور عالمی برادری اس پر زیادہ سے زیادہ مذمت کی قرار داد پیش کرتی رہے گی۔ دُنیا بھر میں انسانی حقوق کی علمبردار، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ٹھیکیدار اور شدت پسندی سے لڑنے والی عالمی قوتوں کی مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم پر خاموشی کا نتیجہ ہے کہ مختلف ممالک میں عسکری تنظیمیں طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتی ہیں۔ فلسطینیوں پر جاری ظلم کے دوسرے پہلو کو دیکھا جائے تو کرۂ ارض پر پھیلے 56 اسلامی ممالک بھی صہیونیت کے اس تماشے کو خاموش تماش بین کی مانند دیکھ رہے ہیں۔ انڈونیشیا سے سعودی عرب اور مراکش سے پاکستان تک کے حکمران اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کو کافی سے زیادہ خیال کررہے ہیں- صورتحال پر غور اور مشترکہ مذمتی قرار داد کے لیے گزشتہ دنوں او آئی سی کا اجلاس بھی منعقد ہوا تاہم حقیقت یہی ہے کہ ایسے اجلاسوں اور مذمتی بیانات سے اسرائیل جیسی ظالم ریاست کی سوچ میں تبدیلی ممکن نہیں۔

    غزہ میں جاری خونریزی دراصل اُمتِ مسلمہ کی قیادت کے لیے لمحۂ آزمائش ہے- دنیا میں اگر اُمت ِاسلامیہ کا وجود ہے تو اس ریاستی تشدد کے خلاف تعزیت اور مذمت پر اکتفا کرنے کے بجائے اسے روکنے کے لیے اپنی قوت کو بروئے کار لانے کی تدبیر کرے۔ دنیا کو احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ معدنی وسائل سے افرادی قوت اور جغرافیائی وحدت سے ذہنی ہم آہنگی تک اہلِ اسلام میں کامل یکسوئی ہے جس لمحے عالمی برادری کو یہ احساس ہو گیا اگلے ہی لمحے فلسطین تک مسلمانوں کے حقوق محفوظ ہو جائیں گے۔

    اسرائیل نے جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی اپیلوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ پر اپنا تباہ کن حملہ اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک جنوبی اسرائیل کے ان شہروں میں امن و سکون قائم نہیں ہو جاتا جو فلسطینی راکٹوں کی زد میں ہیں۔ مغربی دُنیا اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے- یہ ہماری بدقسمتی ہے یا سفارتی نااہلی کہ وہ لوگ جنہیں فلسطین کا پاسبان ہونا چاہیے تھا آج مغرب کے عشرت کدوں میں اپنی جوانیاں اور دولت برباد کر رہے ہیں-

    (معروف ادیب اور کالم نگار طارق اسماعیل ساگر کا یہ مضمون 2014 میں شایع ہوا تھا، جس میں بیان کردہ حقائق اور معلومات کو چھوڑ دیا جائے تو آج وہی حالات ہمارے سامنے ہیں)

  • اسرائیلی جارحیت کے جواب میں حماس کا جوابی وار، کتنے ٹینک تباہ کئے؟

    اسرائیلی جارحیت کے جواب میں حماس کا جوابی وار، کتنے ٹینک تباہ کئے؟

    اسرائیلی جارحیت کے جواب میں حماس کی جانب سے بھرپور جوابی حملوں کا سلسلہ جاری ہے، حماس کا کہنا ہے کہ الشفاء اسپتال کے گرد 3 اسرائیلی ٹینکوں کو الیاسین راکٹ سے تباہ کردیا گیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ الشفاء اسپتال کا محاصرہ کرنے والی اسرائیلی فوج پر القسام بریگیڈ نے متعدد حملے کیے، 2 دنوں میں اسرائیلی فوجیوں اور ٹینکوں پر حملوں کی ویڈیو بھی جاری کی گئی ہیں۔

    ویڈیو میں عمارت میں مورچہ بند اسرائیلی فوجیوں کو اسنائپر گن سے نشانہ بنایا گیا، جس کی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی ہے۔

    حماس کے مطابق اسرائیلی فوج نے الشفاء میڈیکل کمپلیکس میں متعدد سہولیات کو تباہ کردیا اور اسپتال کے ارد گرد کی عمارتوں پر بھی شدید بمباری کی جارہی ہے۔

    حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجی الشفاء اسپتال کے طبی عملے اور مریضوں سے بدسلوکی کر رہے ہیں جبکہ اسرائیلی فوج نے الشفاء اسپتال سے بے گھر افراد کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔

    حماس کے مطابق عالمی برادری اور اقوام متحدہ صہیونی قتل مشین کو روکنے میں ناکام ہیں۔ الشفاء کمپلیکس کی تباہی پر عالمی برادری کی خاموشی شرمناک ہے، الشفاء اسپتال کا محاصرہ اقوام متحدہ کی رسوائی اور اخلاقی ناکامی ہے۔

    امریکا کا غزہ جنگ بندی کیلئے سیکیورٹی کونسل میں قرارداد لانے کا فیصلہ

    عرب ممالک غزہ میں زندگی کی سہولیات کی تباہی روکنے کیلئے فوری اقدامات اُٹھائیں، عالمی برادری اور اقوام متحدہ واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے میں بھی ناکام ہیں۔

  • امریکی نائب صدر کا حماس سے جنگ بندی کا مطالبہ

    امریکی نائب صدر کا حماس سے جنگ بندی کا مطالبہ

    امریکی نائب صدر کاملا ہیرس نے حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ بندی پر راضی ہوجائیں، امریکی نائب صدر کاملا ہیرس نے اسرائیل کو غزہ میں امداد کی ترسیل پر بھی پر زور دیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر کاملا ہیرس نے کہا کہ انہوں نے حماس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر چھ ہفتے کی جنگ بندی پر رضامند ہوجائیں۔

    امریکی نائب صدر کاملا ہیرس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو تباہ شدہ علاقوں میں امداد کی ترسیل بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، غزہ میں بے گناہ لوگ انسانی تباہی کا شکار ہیں۔

    امریکی نائب صدر کا کہنا تھا کہ غزہ میں لوگ بھوک سے مررہے ہیں، وہاں کے حالات غیرانسانی ہیں، اسرائیلی حکومت کو بغیر کسی بہانے کے امداد کی ترسیل میں نمایاں اضافہ کرنا ہوگا۔

    بھارت: ہسپانوی سیاح کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے 3 ملزمان گرفتار

    انہوں نے کہا کہ اس وقت میز پر ایک معاہدہ موجود ہے، حماس کو اس معاہدے پر رضامندی کی ضرورت ہے۔ غزہ میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد وہاں فوری جنگ بندی ہونی چاہیے۔

  • نیوزی لینڈ نے حماس کو دہشت گرد تنظیم نامزد کردیا

    نیوزی لینڈ نے حماس کو دہشت گرد تنظیم نامزد کردیا

    نیوزی لینڈ بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق نیوزی لینڈ کے حکام کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے حملوں نے اس تصوّر کو توڑ دیا ہے کہ اس کے سیاسی اور عسکری ونگز الگ کیے جا سکتے ہیں۔

    نیوزی لینڈ کی حکومت کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر تنظیم ان خوفناک دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔

    نیوزی لینڈ کی جانب سے اپنے ملک میں حماس کے اثاثوں کو منجمد کرنے اور اسے کسی قسم کی معاونت فراہم کرنے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی فوج کی بربریت تھمنے کا نام نہیں لے رہی، ایک اور افسوسناک واقعے میں اسرائیلی فوج نے مزید 77 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔

    غزہ کے وزارت صحت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ غزہ کے جنوب مغربی علاقے میں امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی جس کے باعث 77 فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے۔

    ڈھاکا: 7 منزلہ عمارت میں خوفناک آگ بھڑک اُٹھی، 43 افراد ہلاک

    وزارت صحت کے بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں پیش آنے والے افسوسناک سانحے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 100 سے زائد ہوسکتی ہے۔

  • چین کے اسرائیل مخالف مؤقف پر حماس نے کیا کہا ؟

    چین کے اسرائیل مخالف مؤقف پر حماس نے کیا کہا ؟

    حماس نے عالمی عدالت انصاف میں چین کے اسرائیل مخالف مؤقف کو سراہا ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق حماس ترجمان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے حق خودارادیت پر زور دینے والے چین کے بیان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    حماس کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی عدالت میں آواز اٹھانے والے تمام ممالک کے بیانات کی قدر کرتے ہیں۔

    واضح رہے کہ چین نے آئی سی جے سے کہا ہے کہ عدالت کو فلسطینیوں کے ساتھ انصاف سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔

    چین نے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) سے کہا ہے کہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے متعلق سماعت کے دوران فلسطینیوں کو انصاف سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔

    چین کی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر ما زنمن نے جمعرات کو نیدرلینڈز کے دی ہیگ میں عدالت کو بتایا کہ ”انصاف میں کافی تاخیر ہوئی ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے۔

    اسرائیل کا فلسطینیوں پر تشدد کو حقِ دفاع کہنا قابل قبول نہیں، روس

    ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو او پی ٹی (مقبوضہ فلسطینی علاقوں) پر اپنا قبضہ شروع کیے 57 سال گزر چکے ہیں اور مقبوضہ علاقوں پر قبضے اور خودمختاری کی غیر قانونی نوعیت بدستور برقرار ہے۔