Tag: حمایت علی شاعر کی برسی

  • حمایت علی شاعر: ہمہ جہت ادبی شخصیت

    حمایت علی شاعر: ہمہ جہت ادبی شخصیت

    اردو ادب میں حمایت علی شاعر کا نام ایک ایسے تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے جنھوں نے نہ صرف تمام مقبول اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی بلکہ ثلاثی کے نام سے تین مصرعوں کی ایک صنف بھی ایجاد کی۔ فلم کی دنیا سے بھی ان کا تعلق بہت مضبوط رہا ہے اور وہ کئی مقبول نغمات کے خالق ہی نہیں فلمی ہدایت کار اور مصنّف بھی تھے۔ حمایت علی شاعر نے ایک بھرپور زندگی بسر کی اور اپنے تخلیق سفر میں کئی کام یابیاں سمیٹیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    حمایت علی شاعر 14 جولائی 1926ء کو اورنگ آباد کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میر حمایت علی تھا اور ادب کی دنیا میں حمایت علی شاعر مشہور ہوئے۔ انھوں نے شاعری اور ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھنے کے ساتھ فلم کے مختلف شعبوں میں کام کر کے اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ تقسیم کے بعد 1950ء کے اوائل میں حمایت علی شاعر کراچی آئے اور ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کرلی۔ 60ء کے عشرے میں بطور فلمی نغمہ نگار اپنا سفر شروع کیا اور ان کے لکھے ہوئے کئی گیت لازوال ثابت ہوئے۔ حمایت علی شاعر کو متعدد ادبی اور فلمی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ فلم ’’آنچل‘‘ اور ’’دامن‘‘ کے گیتوں پر وہ دو بار نگار ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔ 1966ء میں حمایت علی شاعر نے فلم ’’لوری‘‘ پروڈیوس کی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ اس فلم کے لیے تحریر کردہ گیتوں نے بھی دھوم مچائی اور فلم نے کراچی میں گولڈن جوبلی بھی منائی۔ ’’لوری‘‘ کے علاوہ دو اور فلمیں ’’گڑیا‘‘ اور ’’منزل کہاں ہے تیری‘‘ بھی حمایت علی شاعر نے بنائی تھیں۔ حمایت علی شاعر نے تذکرے بھی لکھے، تدوین و تالیف کا کام بھی کیا اور دکن، ممبئی اور کراچی میں قلمی ناموں سے کالم بھی تحریر کیے۔ انھوں نے منظوم ڈرامے بھی لکھے۔

    پاکستان میں منعقدہ مشاعروں میں وہ ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے شریک ہوتے رہے اور مشاعروں کے کام یاب شاعر تھے۔ ان کی غزلوں اور نظموں کے کئی مجموعے بھی شایع ہوئے۔ ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’آگ میں پھول‘‘ 1956ء میں شائع ہوئی اور 1958ء میں اسے صدارتی ایوارڈ دیا گیا۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ’’مٹی کا قرض، تشنگی کا سفر، اور ’’ہارون کی آواز‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا شعری مجموعہ ’’حرف حرف روشنی‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ ان کے تنقیدی مضامین کے بھی تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔

    حمایت علی شاعر اردو ادب کی تاریخ کے واحد شاعر ہیں جن کی خودنوشت بھی منظوم ہے اور 3500 اشعار پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک غزل کو فلم میں بھی شامل کیا گیا تھا جس کا مطلع بہت مشہور ہے

    ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
    دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ

    بنیادی طور پر انھیں ایک رومانوی شاعر کہا جاسکتا ہے لیکن ان کی غزلوں میں ہمیں معروضی حالات کی عکاسی بھی ملتی ہے۔ ناقدین کے مطابق حمایت علی شاعر کے اشعار میں ہمیں شعری طرزِ احساس اور جدید طرزِ احساس کا بڑا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔

    بطور فلمی گیت نگار ان کا کلام معیاری اور ادبی چاشنی سے بھرپور ہے جو ان کی ایک الگ پہچان بنا۔ حمایت علی شاعر کے زیادہ تر فلمی نغمات کی موسیقی خلیل احمد نے ترتیب دی۔ خلیل احمد کے ساتھ ان کی دیرینہ دوستی تھی۔ ان کے گیتوں سے مزین فلموں میں ’جب سے دیکھا ہے تمہیں، دل نے تجھے مان لیا، دامن، اک تیرا سہارا، خاموش رہو، کنیز، میرے محبوب، تصویر، کھلونا، درد دل اور نائلہ شامل ہیں۔ ان کے مقبول ترین فلمی نغمات میں چند کے بول یہ ہیں: جب رات ڈھلی، تم یاد آئے، ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ، نہ چھڑا سکو گے دامن، حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں، نوازش کرم، شکریہ مہربانی ……

    حمایت علی شاعر نے ملی نغمات بھی لکھے جن میں‌ سب سے مشہور نغمہ ’’جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘ ہے۔ یہ نغمہ 1965ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’مجاہد‘‘ کے لیے لکھا گیا تھا۔

    15 جولائی 2019ء کو حمایت علی شاعر کینیڈا میں انتقال کرگئے اور وہیں ان کی تدفین کی گئی۔

  • یومِ وفات: شعر و ادب میں‌ ممتاز حمایت علی شاعر نے فلموں میں اداکاری بھی کی

    یومِ وفات: شعر و ادب میں‌ ممتاز حمایت علی شاعر نے فلموں میں اداکاری بھی کی

    آج اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی گیت نگار حمایت علی شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ تدریس اور ادارت سے وابستہ رہے اور ریڈیو، ٹیلی ویژن پر کام کرنے ساتھ فلموں میں‌ اداکاری بھی کی۔ حمایت علی شاعر 2019ء میں‌ آج ہی دن دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ 14 جولائی 1926ء کو اورنگ آباد، دکن میں‌ پیدا ہوئے، تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے اور سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے روزناموں میں کام کرنے کے ساتھ ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کر لی۔ شاعری کا آغاز کیا تو غزل اور نظم جیسی اصناف میں طبع آزمائی کے ساتھ فلموں کے لیے نغمات بھی لکھنے لگے۔ ان کے کئی گیت بہت مقبول ہوئے۔

    حمایت علی شاعر نے جہاں اردو ادب کو اپنے کلام کی شکل میں خوب صورت شاعری دی، وہیں ایک پختہ اور بلند فکر تخلیق کار کی‌ حیثیت سے انھوں نے شاعری میں ’’ثلاثی‘‘ جیسی صنف بھی متعارف کروائی جو تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ خوب صورت صنفِ سخن اگرچہ مقبول اصناف کے درمیان زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپائی، لیکن کسی خیال کی بندش اور جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے مؤثر اور لطیف ذریعہ ضرور ہے۔ حمایت علی شاعر نے اس صنف میں‌ اپنا کلام بھی پیش کیا جو ندرتِ خیال و وارفتہ جذبات کا نمونہ ہے۔

    وہ متعدد ادبی اور تحقیقی کتب کے مصنّف بھی تھے۔ ان کی تصانیف میں‌ ’آگ میں پھول‘، ’شکستِ آرزو‘، ’مٹی کا قرض‘، ’تشنگی کا سفر‘، ’حرف حرف روشنی‘، ’دودِ چراغِ محفل‘(مختلف شعرا کے کلام)، ’عقیدت کا سفر‘(نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)، ’آئینہ در آئینہ‘(منظوم خودنوشت سوانح حیات)، ’ہارون کی آواز‘(نظمیں اور غزلیں)، ’تجھ کو معلوم نہیں‘(فلمی نغمات)، ’کھلتے کنول سے لوگ‘(دکنی شعرا کا تذکرہ)، ’محبتوں کے سفیر‘(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام) شامل ہیں۔

    انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ‌ کارکردگی جب کہ نغمہ نگاری پر فلمی دنیا کا معتبر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ حمایت علی شاعر کینیڈا میں‌ مقیم تھے اور وفات کے بعد وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

    حمایت علی شاعر نے فلموں میں بھی کام کیا تھا جن میں جب سے دیکھا تمہیں، دل نے تجھے مان لیا، دامن، ایک تیرا سہارا، کنیز، میرے محبوب، تصویر اور کھلونا شامل ہیں۔