Tag: حمل

  • حاملہ ہونے کی خبریں، ماورا حسین نے خاموشی توڑ دی

    حاملہ ہونے کی خبریں، ماورا حسین نے خاموشی توڑ دی

    (یکم ستمبر 2025): پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ ماورا حسین نے اپنے حاملہ ہونے کی خبروں پر خاموشی توڑ دی ہے۔

    ماورا حسین پاکستانی شوبز کا ایک جانا پہچانا نام تو ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ انہوں نے بالی وڈ کی فلم ‘صنم تیری قسم’ میں ادکاری کے جوہر دکھا کر بھارتی ناظرین کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔

    ماورا ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستانی شوبز کا حصہ ہیں انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور وی جے اے آر وائی میوزک میں کیا، انہوں نے بے شمار مشہور ڈراموں میں کام کیا اس کے علاوہ وہ پاکستانی فلم ‘جوانی پھر نہیں آنی 2’ میں اداکار و پروڈیوسر فہد مصطفیٰ کے مدِ مقابل نظر آئی تھیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by MAWRA (@mawrellous)

    اداکارہ ماورا نے اپنے دیرینہ دوست امیر گیلانی سے طویل عرصے تک تعلقات کے بعد اچانک نکاح کیا، ادکارہ کے نکاح کی مختصر لیکن خوبصورت تقریب 5 فروری کو لاہور میں منعقد ہوئی جس میں صرف ان کے قریبی عزیز و اقارب شریک ہوئے جس کے بعد باقاعدہ رخصتی ہوئی۔

    حال ہی میں اداکارہ نے ایک تقریب میں شرکت کی، اس دوران ان کی کئی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں، ویڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد مختلف سوشل میڈیا پیجز کی جانب سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ ماورا حسین حاملہ ہیں۔

    تاہم ماورا حسین نے فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اسی تقریب میں شرکت کے دوران پہنے گئے لباس میں اپنی تصاویر شیئر کرتے ہوئے حمل سے متعلق چہ مگوئیاں کرنے والے سوشل میڈیا پیجز کو جواب دیا اور واضح کیا کہ وہ حاملہ نہیں ہیں اور ایسی افواہیں پھیلانا بند کی جائیں۔

    انہوں نے تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا کہ ‘افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے، مجھے "دم نال دم بھرا گی رانجیھا وے” دور لطف اٹھانے دیں، اداکارہ نے انسٹا اسٹوریز میں بھی درخواست کی کہ مزید ایسی افواہیں نہ پھیلائی جائیں۔

  • حبا بخاری اور آریز نے حمل سے متعلق گردشی خبروں پر خاموشی توڑ دی

    حبا بخاری اور آریز نے حمل سے متعلق گردشی خبروں پر خاموشی توڑ دی

    پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ حبا بخاری اور اداکار آریز احمد نے حمل سے گردشی خبروں پر ردعمل ظاہر کر دیا۔

    حال ہی میں اداکارہ نادیہ خان نے شو کے دوران حبا بخاری اور آریز احمد کو آن ایئر متوقع بچے کی پیدائش کی مبارک باد دی تھی، بعدازاں نادیہ خان نے اس حوالے سے مزید وضاحت پیش کی تھی۔

    نادیہ خان نے کہا تھا کہ انہیں آریز احمد نے خود ایک ڈرامے کی شوٹنگ کے دوران بتایا تھا کہ اہلیہ امید سے ہیں اور بہت جلد ان کے ہاں پہلے بچے کی آمد متوقع ہے اور انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ آریز احمد اس بات کو اپنے مداحوں سے خفیہ رکھ رہے ہیں۔

    تاہم اب پاکستان کے مقبول جوڑے نے ان گردشی خبروں پر خاموشی توڑتے ہوئے کسی کا نام لیے بغیر یوٹیوب پر وی لاگ میں ردعمل ظاہر کیا ہے۔

    اداکارہ نے کہا کہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت سی تصاویر اور باتوں کو توڑ موڑ کر سیاق و سباق سے ہٹ کر صرف چند ویوز اور لائکس کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ لوگ اس بات کا بھی خیال نہیں رکھتے کہ ان کی اس حرکت سے اہل خانہ پر اور جس کے لیے بولا جارہا ہے اس پر کیا گزر رہی ہوتی ہے۔

    آریز احمد نے کہا کہ اگر یوٹیوب کی تمام خبروں پر یقین کیا جائے تو ہمارے 6 سے 7 بچے پہلے ہی موجود ہیں، جبکہ حبا بخاری کا کہنا ہے کہ ایسی گردشی خبروں کی کئی بار تردید کرنے کے باوجود بھی لوگ بعض نہیں آتے۔

    اداکارہ حبا بخاری نے کہا کہ وہ کسی کے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں، یہ افواہیں تکلیف دہ ہیں اور ان کو پھیلانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم حقیقی لوگ ہیں جو ان خبروں اور بیانات سے متاثر ہوتے ہیں۔

  • پوسٹ پارٹم ڈپریشن کسے کہتے ہیں؟

    پوسٹ پارٹم ڈپریشن کسے کہتے ہیں؟

    کسی بھی خاتون کے لیے بچے کی پیدائش قابل دید خوشی کی بات ہوتی ہے لیکن کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو زچگی کے بعد پریشانی، مایوسی، غصہ اور انجانے خوف کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر نیلم ناز نے پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی وجوہات اور اس کے علاج سے متعلق اہم باتیں بیان کیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بچے کی پیدائش کے بعد ستر سے اسی فیصد خواتین کے مزاج میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں، انہیں بے بی بلیوز کہتے ہیں مگر ایسا چند دنوں کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد طبعیت خود ہی ایک ہفتے کے اندر نارمل ہو جاتی ہے۔

    لیکن اگر یہ علامات ہفتوں یا مہینوں تک چلی جائیں تو یہ ’پوسٹ پارٹم ڈپریشن‘ کہلاتا ہے اور یہ علامات ایک سال تک ظاہر ہو سکتی ہیں تاہم اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔

    ان علامات میں شدید اضطراب اور اداسی، نیند کی کمی، بلاوجہ غصہ اور چڑ چڑاپن، بھوک نہ لگنا، بچے کے ساتھ جذباتی لگاؤ محسوس نہ ہونا، خود کو یا بچے کو نقصان پہنچانے کے خیالات اور بہت زیادہ رونا وغیرہ شامل ہیں۔

    ڈاکٹر نیلم ناز نے بتایا کہ میرے دو بچے ہیں اور میں نے یہ چیز دونوں بار نوٹ کی، اکثر ماؤں کے ساتھ یہ کیفیت چھ ماہ سے دوسال تک رہ سکتی ہے،

    انہوں نے کہا کہ حمل کے دوران جسم میں ہارمونز جیسے کہ ایسٹروجن اور پروجیسٹرون کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے اور زچگی کے بعد اس میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے موڈ میں تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو ان علامات کا باعث بنتی ہیں۔

    اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زچگی کے بعد بہت سی خواتین کا وزن بڑھ جاتا ہے، اس کے علاوہ ماحول میں تبدیلی، ننھے بچے کی ذمہ داری اور جب یہ ساری چیزیں ذہن ایک ساتھ قبول نہیں کرپاتا تو پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے خواتین کو خود ہمت کرنی ہوتی ہے بصورت دیگر اسکے علاج کیلیے ادویات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں 13 فیصد خواتین بچے کی پیدائش کے بعد اس ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح اس سے بڑھ کر 20 فیصد ہو جاتی ہے۔

    یونیورسٹی آف ٹورنٹو کینیڈا کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستانی ماؤں میں پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی شرح 28 فیصد سے زیادہ ہے۔

  • ’میں حمل سے نہیں مگر۔۔۔۔‘ اُشنا شاہ نے کیا کہا؟

    ’میں حمل سے نہیں مگر۔۔۔۔‘ اُشنا شاہ نے کیا کہا؟

    معروف اداکارہ و ماڈل اشنا شاہ نے اپنے حمل سے ہونے سے متعلق افواہوں کی تردیدی کردی۔

    گزشتہ دنوں ایک لباس کی منفرد تراش خراش کے سبب قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا کہ اداکارہ اشنا شاہ حاملہ ہیں اس پر اداکارہ نے ایک ویڈیو کے ذریعے باقاعدہ طور پر ان افواہوں کی تردید بھی کی تھی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)

    فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اشنا شاہ نے اپنے مداحوں کے ساتھ سوال جواب کے سیشن کا آغاز کیا، جہاں ان سے ایک مداح نے پوچھا کہ کیا آپ ماں بننے والی ہیں؟

    پاکستان کی معروف اداکارہ نے پوچھے گئے سوال پر بطور ثبوت ویڈیو شیئر کی ہے، جس میں وہ اپنے ڈھیلی ڈھالی قمیص کو پیٹ سے تنگ کرتے ہوئے اپنی فٹنس دکھا رہی ہیں۔

    سات ہی اداکارہ اشنا شاہ نے یہ بھی کہا کہ ’نہیں میں حمل سے نہیں ہوں مگر ناراض ضرور ہوں۔‘

  • اداکارہ پرینیتی چوپڑا نے اپنے حمل سے متعلق افواہوں پر خاموشی توڑ دی

    اداکارہ پرینیتی چوپڑا نے اپنے حمل سے متعلق افواہوں پر خاموشی توڑ دی

    ممبئی: بھارت کی معروف اداکارہ پرینیتی چوپڑا نے اپنے حمل سے متعلق افواہوں پر خاموشی توڑ دی ہے۔

    بالی ووڈ اداکارہ پرینیتی چوپڑا نے اپنی فلم کے ٹریلر لانچ کے موقع پر گزشتہ روز ایک تقریب میں شرکت کی جہاں انہوں نے بطور ہیروئن ڈھیلا ڈھالا گاؤن پہنا ہوا تھا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Viral Bhayani (@viralbhayani)

    اس تقریب ویڈیو سامنے آنے کے بعد بھارتی میڈیا پر ہر جگہ اُن کے حاملہ ہونے سے متعلق افواہیں گردش کرنےلگی تھیں۔

    اب اداکارہ پرینیتی چوپڑا نے فوٹو اینڈ شیئرنگ ایپ انسٹاگرام اسٹوری پر ردِ عمل کا اظہار کیا ہے، اداکارہ کہا کہ ’کفتان، اوور سائز یا کوئی بھی آرام دہ لباس پہن لو تو اُسے حمل سے جوڑ کہہ دیا جاتا ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Viral Bhayani (@viralbhayani)

    اداکارہ نے اپنی اس اسٹوری کے آخر میں ہنسنے کے ایموجی کا بھی استعمال کیا ہے، واضح رہے کہ پرینیٹی کے ڈھیلے کپڑوں کے انتخاب نے اُن کے حمل سے ہونے سے متعلق افواہوں کو مزید ہوا دے دی تھی۔

    واضح رہے کہ اداکارہ پرینیتی نے معروف سیاستدان راگھو چڈھا سے گزشتہ سال ستمبر میں شادی کی تھی۔

  • بچوں میں آٹزم کا خطرہ پیدا ہونے سے قبل ہی، لیکن کیسے؟

    بچوں میں آٹزم کا خطرہ پیدا ہونے سے قبل ہی، لیکن کیسے؟

    حمل کے دوران خواتین کی خوراک پیدا ہونے والے بچے کی جسمانی و ذہنی صحت پر اثرات مرتب کرتی ہے، ایسے میں حاملہ خواتین کے لیے مضر غذائی اشیا سے بچنا ضروری ہے۔

    حال ہی میں کی گئی نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حمل کے دوران پینے کے پانی میں لیتھیئم کی زیادہ مقدار حاملہ خواتین کے بچوں میں آٹزم کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔

    یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، لاس اینجلس (UCLA) کے ماہرین کی جاما پیڈیا ٹرکس نامی جرنل میں شائع تحقیق میں پہلی مرتبہ قدرتی طور پر پانی میں موجود لیتھیئم کے آٹزم کا سبب بننے کی نشاندہی کی گئی ہے۔

    تحقیقی ٹیم کی سربراہ یو سی ایل اے کے ڈیوڈ گیفن اسکول آف میڈیسن کی پروفیسر بیئٹ رٹز کا کہنا تھا کہ پینے کے پانی میں انسان کی ذہنی نشونما پر اثر انداز ہونے والی آلودگیوں کی سخت جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تجرباتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کچھ مادوں اور پانی میں قدرتی طور پر موجود لیتھیئم بچوں کی ذہنی نشونما پر اثر انداز ہو کر ان میں آٹزم کا شکار ہونے کا خطرہ پیدا کر دیتا ہے۔

    ڈاکٹر بیئٹ رٹز کا کہنا تھا کہ لیتھیئم بیٹریوں کو تلف کرنے کے لیے زمین میں دبانے یا کہیں پھینک دینے سے لیتھیئم کے زیر زمین پانی میں شامل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اس سے مستقبل میں لیتھیئم سے آلودہ پانی کا مسئلہ ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھر سکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حالیہ تحقیق ڈنمارک کے ہائی کوالٹی ڈیٹا پر مشتمل ہے، تحقیق کے لیے ڈاکٹر بیئٹ رٹز اور ڈنمارک کے ماہرین کی جانب سے ڈنمارک میں 1997 سے لے کر 2013 تک پیدا ہونے والے بچوں اور ان میں سے ذہنی امراض کا شکار ہونے والے بچوں کے ڈیٹا اور ملک کے نصف حصے کو پانی مہیا کرنے والے 151 واٹر ورکس کے ڈیٹا میں لیتھیئم کی مقدار کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق کے دوران 63 ہزار سے زائد بچوں کے میڈیکل ریکارڈز کا تجزیہ کیا گیا جس دوران 12 ہزار 799 بچوں کے آٹزم کا شکار ہونے کے شواہد سامنے آئے۔

    واضح رہے کہ یورپی ممالک میں ڈنمارک کو ایسا ملک شمار کیا جاتا ہے جہاں لوگ پینے کے لیے بوتل کے پانی کے بجائے زیادہ تر کھلے پانی کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ملک میں پینے کے پانی میں شامل اجزا کا تجزیہ کرنے کے لیے بھی باقاعدہ ایک منظم طریقہ کار موجود ہے۔

  • بانجھ پن اور حمل کی پیچیدگیوں کا شکار خواتین کے لیے ایک اور خطرہ

    بانجھ پن اور حمل کی پیچیدگیوں کا شکار خواتین کے لیے ایک اور خطرہ

    حمل میں پیچیدگیاں خواتین کی مجموعی صحت پر برا اثر ڈالتی ہیں تاہم اب ماہرین نے اس کے طویل المدتی خطرات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق نصف درجن سے زائد ممالک میں کی جانے والی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو خواتین بانجھ پن سمیت حمل سے متعلق مسائل کا شکار رہتی ہیں، ان کے فالج میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    آسٹریلیا، جاپان، چین، امریکا، برطانیہ، نیدر لینڈز اور سویڈن کے ماہرین کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ حمل سے متعلق خواتین میں جان لیوا فالج کے شکار ہونے کے امکانات بھی کافی حد تک بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین نے مذکورہ تحقیق کے دوران متعدد ممالک سے تعلق رکھنے والی 6 لاکھ 18 ہزار 851 خواتین کے ڈیٹا کا جائزہ لیا، ان خواتین میں سے 1 لاکھ کے قریب خواتین کے حمل ضائع ہو چکے تھے جبکہ 25 ہزار کے قریب خواتین کے رحم میں ہی بچوں کی موت واقع ہوگئی تھی۔

    تحقیق میں شامل لاکھوں خواتین ایسی تھیں جن کو بانجھ پن کی شکایت سمیت حمل سے متعلق دیگر طرح کی پیچیدگیوں کا سامنا بھی رہا تھا۔

    ماہرین نے مذکورہ تمام خواتین میں سے لاکھوں خواتین کو سوالنامے بھی بھجوائے جبکہ باقی خواتین کی ہیلتھ ہسٹری اور ان کی موت سے متعلق تفصیلات دیکھیں۔

    مذکورہ تحقیق کو ماہرین نے 8 مختلف مراحل میں مکمل کیا، جس کے نتائج سے معلوم ہوا کہ بانجھ پن سمیت حمل کی پیچیدگیوں میں مبتلا خواتین میں فالج کے شکار ہونے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین کے رحم میں بچوں کی اموات ہوئیں یا پیچیدگیوں کی وجہ سے جن کا حمل ضائع ہوا ان میں سے 2.8 فیصد خواتین خطرناک جبکہ 0.7 فیصد خواتین جان لیوا فالج کا شکار بنیں۔

    نتائج کے مطابق مجموعی طور پر جن خواتین کے حمل 3 یا اس سے زائد بار ضائع ہو چکے ہوتے ہیں ان میں حمل ٹھہرنے کے بعد بچوں کو جنم دینے والی خواتین کے مقابلے میں خطرناک فالج کا شکار ہونے کے امکانات 35 فیصد جبکہ جان لیوا فالج کے امکانات 82 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین نے نتائج سے اخذ کیا کہ خواتین میں حمل کی متعدد پیچیدگیوں سمیت ان کے بانجھ پن اور ان کے رحم میں بچوں کی اموات کا فالج سے گہرا تعلق ہے۔

    علاوہ ازیں ماہرین نے بتایا کہ ممکنہ طور پر ایسی خواتین میں فالج کے شکار ہونے کا تعلق ان میں اینڈوکرائن امراض کا ہونا بھی ہوسکتا ہے، یعنی ایسی خواتین کے جسم کو خون کی بہتر ترسیل کرنے والے مخصوص غدودوں میں خرابی کا بھی حمل کی پیچیدگیوں اور فالج سے تعلق ہو سکتا ہے۔

  • حاملہ ماؤں کی کووڈ ویکسی نیشن بچوں کے لیے بھی فائدہ مند

    حاملہ ماؤں کی کووڈ ویکسی نیشن بچوں کے لیے بھی فائدہ مند

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایسے نومولود بچے جن کی ماؤں نے حمل کے دوران کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے ویکسی نیشن کروائی ہوتی ہے، ان میں پیدائش کے بعد بیماری سے اسپتال داخلے کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔

    یہ پہلی تحقیق ہے جس سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسی نیشن سے نہ صرف حاملہ خواتین کو تحفظ ملتا ہے بلکہ ان کے نومولود بچوں کو بھی بیماری کے اثرات سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

    یو ایس سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کی تحقیق میں بتایا گیا کہ جن خواتین نے حمل کے دوران موڈرنا یا فائزر ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کیں، ان کے بچوں میں پیدائش کے 6 ماہ بعد تک کووڈ 19 سے اسپتال میں داخلے کا خطرہ کم ہوگیا۔

    سی ڈی سی کے شعبہ اطفال کی سربراہ ڈاکٹر ڈانا مینی ڈالمین نے بتایا کہ سی ڈی سی ڈیٹا میں حقیقی دنیا کے شواہد فراہم کیے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حمل کے دوران کووڈ 19 کا استعمال خواتین کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کو بھی کم از کم 6 ماہ تک تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر ان بچوں میں ماں میں بیماری کے خلاف لڑنے والی اینٹی باڈیز منتقل ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ جب خواتین حمل کے دوران کووڈ ویکسین استعمال کرتی ہیں تو ان کے جسم میں بیماری سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور یہ اینٹی باڈیز آنول کی نالی کے خون میں بھی موجود ہوتی ہیں۔

    تحقیق کے مطابق اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس طرح اینٹی باڈیز بچوں میں منتقل ہوتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہمیں معلوم تھا کہ اس طرح بچوں میں اینٹی باڈیز منتقل ہوتی ہیں مگر اس تحقیق سے قبل اس کو ثابت کرنے والا ڈیٹا ہمارے پاس نہیں تھا۔

    تحقیق کے دوران جولائی 2021 سے جنوری 2022 کے دوران 6 ماہ سے کم عمر بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا، اس مقصد کے لیے اسپتال میں داخل ہونے والے 379 بچوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا جن میں سے 176 کووڈ جبکہ باقی دیگر وجوہات کے باعث طبی مراکز میں داخل ہوئے تھے۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ حمل کے دوران ماں کی ویکسی نیشن بچوں کو کووڈ سے متاثر ہونے پر اسپتال میں داخلے کے خطرے سے بچانے کے لیے 61 فیصد تک مؤثر ہیں۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ ویکسینز کی افادیت اس وقت 80 فیصد ہوجاتی ہے جب ماؤں نے حمل کے 21 ویں ہفتے کے بعد اور بچے کی پیدائش سے 14 دن پہلے ویکسی نیشن مکمل کی ہو۔

    اسی طرح 21 ہفتے سے قبل ویکسی نیشن کروانے والی ماؤں کے بچوں میں ویکسین کی افادیت 32 فیصد تک رہ جاتی ہے۔

    اس تحقیق میں ویکسین کے بوسٹر ڈوز کی افادیت کے ڈیٹا کو شامل نہیں کیا گیا تھا یا یہ نہیں دیکھا گیا کہ حمل سے قبل ویکسی نیشن کروانے سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ تھا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے 88 فیصد بچوں کی پیدائش ایسی ماؤں کے ہاں ہوئی تھی جن کی ویکسی نیشن نہیں ہوئی تھی۔

    انہوں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ حمل کے آغاز میں ویکسینز کی افادیت کے تخمینے کو احتیاط سے لینا چاہیئے کیونکہ تحقیق کا پیمانہ زیادہ بڑا نہیں تھا۔

  • حاملہ خواتین کرونا ویکسین کب لگوا سکتی ہیں؟

    حاملہ خواتین کرونا ویکسین کب لگوا سکتی ہیں؟

    کراچی: پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین کو حمل کے 3 ماہ گزرنے کے بعد کرونا وائرس ویکسین لگوائی جاسکتی ہے۔ کرونا ویکسین کا ماں اور بچے پر کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں ہوتا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حاملہ خواتین کو حمل کے 3 ماہ گزرنے کے بعد کرونا وائرس ویکسین لگوائی جاسکتی ہے۔

    ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ حمل کے پہلے 3 ماہ میں کسی قسم کی میڈیکیشن حتیٰ کہ طاقت کی دوائیں اور وٹامن بھی نہیں دیے جاتے۔

    انہوں نے کہا کہ کرونا ویکسین کا ماں اور بچے پر کوئی سائیڈ افیکٹ نہیں ہوتا، پہلے 3 ماہ میں چونکہ ویکسین نہیں لگائی جارہی تو حاملہ خواتین گھر سے باہر نکلنے سے گریز کریں۔

    ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ دیگر افراد کے لیے جو بھی ویکسین دستیاب ہے اسے فوری لگوایا جائے، کسی مخصوس ویکسین کا انتظار نہ کریں۔

    یاد رہے کہ ملک میں اب تک 3 کروڑ 70 لاکھ 43 ہزار 561 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 1 کروڑ 34 لاکھ 34 ہزار 605 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • کووڈ ویکسی نیشن: حاملہ خواتین کے لیے نئی ہدایت

    کووڈ ویکسی نیشن: حاملہ خواتین کے لیے نئی ہدایت

    امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے حاملہ خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن ضرور کروائیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن نے اپنی سفارشات اپ ڈیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حاملہ خواتین کو کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ویکسی نیشن ضرور کروانی چاہیئے۔

    اس سے قبل امریکی طبی ادارے نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ اگر آپ حاملہ ہیں تو کووڈ ویکسین لگوا سکتے ہیں، مگر اب سی ڈی سی نے سفارشات میں حاملہ خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ضرور ویکسین کا استعمال کریں۔

    یہ سفارشات نئے ڈیٹا کی بنیاد پر اپ ڈیٹ کی گئی ہیں۔

    نئی سفارشات میں کہا گیا کہ کووڈ 19 ویکسی نیشن 12 سال یا اس سے زائد عمر کے تمام افراد بشمول حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین، اولاد کے لیے کوشش کرنے والی یا مستقبل میں اولاد کے حصول کی خواہشمند خواتین کے لیے تجویز کی جاتی ہے۔

    سی ڈی سی کے مطابق شواہد سے حمل کے دوران کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ویکسی نیشن کا محفوظ اور مؤثر ہونا ثابت ہوتا ہے، ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ ویکسین کے فوائد ممکنہ نقصانات سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

    سی ڈی سی کے ڈویژن آف ری پروڈکٹو ہیلتھ کی سربراہ ساشا ایلنگٹن نے کہا کہ ہم نے حمل کے دوران ویکسین کے محفوظ ہونے سے متعلق کوئی ایک خدشہ بھی نہیں دیکھا۔

    انہوں نے کہا کہ کووڈ سے حاملہ خواتین کے سنگین حد تک بیمار ہونے اور دیگر پیچیدگیوں جیسے قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، ویکسین سے کووڈ کی روک تھام کی جاسکتی ہے اور یہ اس کا بنیادی فائدہ ہے۔

    امریکی طبی ادارے نے کہا کہ اس کے وی سیف ڈیٹا سیف کے نئے تجزیے میں ویکسین کے مضر اثرات اور محفوظ ہونے کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    اس تجزیے میں حمل کے 20 ہفتے سے قبل فائزر / بائیو این ٹیک یا موڈرنا ویکسینز استعمال کرنے والی خواتین میں اسقاط حمل کے خطرے میں کوئی اضافہ دریافت نہیں ہوا۔

    اسی طرح حمل کی آخری سہ ماہی میں بھی ویکسی نیشن سے خواتین یا ان کے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے کوئی خدشات دریافت نہیں ہوئے۔ ویکسی نیشن کروانے والی خواتین میں اسقاط حمل کی شرح 13 فیصد رہی جو کہ ویکسین استعمال نہ کرنے والی خواتین کے برابر تھی۔

    ساشا ایلنگٹن نے اس افواہ کو مسترد کردیا کہ ویکسین سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، اب تک ایسا کوئی ڈیٹا نہیں جس سے معلوم ہوتا ہو کہ ویکسین بانجھ پن کا باعث بن سکتی ہیں۔

    سی ڈی سی کی ویب سائٹ میں بھی بتایا گیا کہ کسی بھی ویکسین بشمول کووڈ 19 ویکسینز کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں، جو مردوں یا خواتین میں بانجھ پن کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوں۔