Tag: حمل

  • کیا ایک حمل ہوتے ہوئے دوسرا حمل ٹھہر سکتا ہے؟

    کیا ایک حمل ہوتے ہوئے دوسرا حمل ٹھہر سکتا ہے؟

    حمل ٹھہرنا اور بچے کی پیدائش ایک عام بات ہے۔ اکثر اوقات حاملہ مائیں دو یا تین بچوں کو بھی بیک وقت جنم دیتی ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں ایک حمل ہوتے ہوئے بھی دوسرا حمل ٹھہر سکتا ہے؟

    ایک حمل کی موجودگی میں دوسرا حمل ٹھہرنا سپر فیٹیشن کہلاتا ہے جس میں ایک جنین کی موجودگی کے باوجود دوسرا جنین نمو پانے لگتا ہے۔

    ایسے میں عموماً حاملہ ماں جڑواں بچوں کو جنم دے سکتی ہے تاہم ایسا بھی ہوتا ہے کہ دونوں بچوں کی پیدائش مختلف تاریخوں میں کچھ دن کے وقفے سے ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: جڑواں بچوں کی 77 دن کے فرق سے پیدائش

    یہ عمل جڑواں بچوں کی پیدائش سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جڑواں بچوں کا حمل ایک ساتھ ہی ٹھہرتا ہے اور پیدا ہونے والے بچوں کا وزن اور بلڈ گروپ عموماً یکساں ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ بچہ کسی پیدائشی بیماری کا شکار ہو تو وہ بیماری دونوں بچوں کو ہوتی ہے۔

    اس کے برعکس سپر فیٹیشن میں پہلے ایک اور پھر کچھ وقت کے وقفے کے بعد دوسرا حمل ٹھہرتا ہے۔

    دراصل عام حالات میں جب بیضہ دانی اور رحم کے درمیان انڈوں کا تبادلہ ہوتا ہے تو حمل ٹھہرتا ہے، حمل ٹھہرنے کے بعد یہ دونوں اعضا انڈوں کا تبادلہ بند کردیتے ہیں کیونکہ انہیں ہارمونز کی جانب سے رحم میں موجود بچے کی نشونما کا سگنل ملتا ہے۔

    البتہ کبھی کبھار یہ تبادلہ پھر سے انجام پاجاتا ہے جس کے باعث ایک حمل کے ہوتے ہوئے ہی دوسرا حمل ٹھہر جاتا ہے۔

    حمل ہوتے ہوئے حاملہ ہونے کے اب تک 10 کیسز ریکارڈ کیے جاچکے ہیں۔ آخری کیس آسٹریلیا کی رہائشی ایک خاتون میں دیکھا گیا جن میں 10 دن کے وقفے سے دو حمل ٹھہرے۔

    ان کے ہاں دو بچیوں کی پیدائش تو ایک ہی دن ہوئی تاہم دونوں کا وزن اور بلڈ گروپ مختلف تھا۔

    مزید پڑھیں: سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے تجاویز

    یہ عمل صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ جانوروں میں بھی انجام پاتا ہے۔ چوہے، کینگرو، خرگوش اور بھیڑ وغیرہ میں اس طرح کی ولادتیں عام ہیں۔

    اس عمل کا مشاہدہ سب سے پہلے لگ بھگ 300 قبل مسیح معروف فلسفی ارسطو نے خرگوشوں میں کیا تھا، اس نے دیکھا تھا کہ خرگوش کے ایک ساتھ پیدا ہونے والے بچے جسامت میں مختلف تھے۔

    ارسطو نے دیکھا کہ کچھ بچے واضح طور پر چھوٹے اور کمزور تھے، اس کے برعکس اسی وقت پیدا ہونے والے کچھ بچے معمول کی (نومولود) جسامت کے اور صحت مند تھے۔ بعد ازاں طبی سائنس نے اس پر مزید تحقیق کر کے مندرجہ بالا نتائج اخذ کیے۔

  • کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے، اس کی وجہ ماؤں کا حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی اور غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    سیزیرین ڈلیوری سے متعلق کچھ توہمات نہایت عام ہیں جن کا بڑا سبب کم علمی ہے۔ آج ہم ایسے ہی توہمات اور ان کی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرنے جارہے ہیں۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد نارمل ڈلیوری ناممکن ہے

    ایک عام خیال ہے کہ ایک بار سیزیرین ڈلیوری کے بعد نارمل ڈلیوری کے ذریعے بچے کو جنم دینا ناممکن ہے، یہ خیال بلکل غلط ہے۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد ڈاکٹر ماں کا چیک اپ کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں بتاتے ہیں کہ آیا ان کا اندرونی جسمانی نظام اب اس قابل ہے کہ وہ مستقبل میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے گزر سکتی ہیں یا انہیں ہر بار سیزیرین آپریشن ہی کروانا ہوگا۔

    80 فیصد خواتین میں یہ خدشہ نہیں ہوتا اور ڈاکٹرز انہیں بالکل فٹ قرار دیتے ہیں جس کے بعد ان خواتین میں دیگر بچوں کی پیدائش نارمل طریقہ کار کے ذریعے ہوسکتی ہے۔

    زندگی میں کتنے سیزیرین آپریشن ہوسکتے ہیں

    یہ ماں بننے والی خاتون کے اندرونی جسمانی نظام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنی بار اس تکلیف دہ عمل سے گزر سکتی ہے۔ بعض خواتین کے لیے ایک بار سیزیرین آپریشن کروانے کے بعد مزید سیزیرین آپریشن کروانا خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ایسی خواتین اگر بعد میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے نہ گزر سکتی ہوں تو انہیں ڈاکٹر کی جانب سے واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ ماں بننے سے گریز کریں ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    بعض خواتین متعدد بار سیزیرین آپریشن کے عمل سے گزر سکتی ہیں۔ یہ مکمل طور پر خواتین کی اپنی قوت مدافعت، جسمانی نظام اور صحت مند جسم پر منحصر ہوتا ہے۔

    آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا

    بعض خواتین ڈلیوری کی تکلیف سے بچنے کے لیے سیزیرین آپریشن کروانا چاہتی ہیں تاکہ انہیں سن ہونے والی دوائیں دی جائیں اور انہیں کچھ محسوس نہ ہو۔

    ایسا نہیں ہے کہ سیزیرین آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا، ہلکا پھلکا دباؤ یا تھوڑی بہت تکلیف محسوس ہوسکتی ہے۔ البتہ آپریشن کے بعد درد، جسم میں کپکپاہٹ، متلی اور الٹیاں وغیرہ محسوس ہوسکتی ہیں۔

    صحتیابی کے عرصے میں فرق

    سیزیرین آپریشن کے 4 سے 5 دن بعد ماں کو گھر جانے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ ان کی مکمل صحتیابی کا وقت بھی تقریباً مہینہ بھر ہوتا ہے۔

    اس کے برعکس نارمل ڈلیوری میں ایک سے دو دن بعد گھر جانے کی اجازت مل جاتی ہے اور مکمل صحتیابی بھی صرف 2 ہفتوں میں ہوجاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے تجاویز

  • خواتین کے لیے جنک فوڈ کھانے کا نقصان

    خواتین کے لیے جنک فوڈ کھانے کا نقصان

    ماں بننا خواتین کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے اور اس میں تاخیر ہونا خواتین کو پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے، حال ہی میں ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ زیادہ جنک فوڈ کھانے والی خواتین کو حمل ٹہرنے میں تاخیر کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ایڈیلیڈ کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں خواتین کی غذائی عادات اور حمل کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ وہ خواتین جن کی غذا میں پھل زیادہ اور جنک فوڈ کم شامل ہوتا ہے ان کی زرخیزی میں اضافہ ہوا جبکہ وہ کم وقت میں حاملہ ہوئیں۔

    اس کے برعکس وہ خواتین جو کم پھل کھاتی تھیں، یا بہت زیادہ جنک فوڈ کھاتی تھیں ان کا حمل نہ صرف تاخیر سے ٹہرا بلکہ ان کے حمل میں پیچیدگیاں بھی پیدا ہوئیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    اس سے قبل کی گئی ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو جنم دیتے ہوئے قدرتی طریقہ کار یعنی نارمل ڈلیوری ہی بہترین طریقہ ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

    تحقیق کے مطابق حمل کے دوران ذہن کا ہلکا پھلکا اور خوش باش ہونا ڈلیوری کے عمل کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔ ذہنی دباؤ، خوف یا ٹینشن کسی خاتون کی ڈلیوری کو ان کی زندگی کا بدترین وقت بنا سکتا ہے۔

  • سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    ماں بننا اور ایک نئی زندگی کو جنم دینا جہاں زندگی میں بہت سی تبدیلیاں لے کر آتا ہے، وہیں اس بات کا بھی متقاضی ہوتا ہے کہ اس سارے عرصے کو نہایت احتیاط اور خیال کے ساتھ گزارا جائے تاکہ ماں اور آنے والا بچہ دونوں صحت مند رہیں۔

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے جس کی وجہ حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی، غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    بعض خواتین اپنی مرضی سے سیزیرین آپریشن بھی کرواتی ہیں تاکہ انہیں اذیت ناک تکلیف اور گھنٹوں تک بے چینی نہ سہنی پڑے اور وہ جلد اس مرحلے سے گزر جائیں تاہم یہ چند گھنٹوں کا ریلیف مستقبل میں انہیں بے شمار طبی مسائل سے دو چار کردیتا ہے، علاوہ ازیں آپریشن سے ہونے والی ڈلیوری کے بعد صحت یابی میں بھی نارمل ڈلیوری کی نسبت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو جنم دیتے ہوئے قدرتی طریقہ کار یعنی نارمل ڈلیوری ہی بہترین طریقہ ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ان کے مطابق خواتین کو نارمل ڈلیوری کے لیے حمل کے دوران مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    ذہنی تناؤ سے دور رہیں

    حمل کے دوران ذہنی تناؤ سے دور رہنا اور خوش رہنا بے حد ضروری ہے۔ ذہنی دباؤ اور ٹینشن نہ صرف بچے کی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ حمل کے عرصے کو بھی مشکل بنا سکتا ہے جس کا نتیجہ ایک تکلیف دہ ڈلیوری کی صورت میں نکلتا ہے۔

    حمل کے عرصے کے دوران مراقبہ کریں، میوزک سنیں، کتابیں پڑھیں اور وہ کام کریں جس سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔

    ایسے لوگوں کی کمپنی میں بیٹھیں جو آپ کے ذہن پر خوشگوار تاثر چھوڑیں۔

    ایسی خواتین سے بالکل دور رہیں جو اپنی زچگیوں کے کچھ سچے اور کچھ جھوٹے، بھیانک قصے سنا کر آپ کو ٹینشن میں مبتلا کردیں۔ ایسی خواتین آپ کی ڈلیوری کو بھی ایک بھیانک عمل بنا سکتی ہیں۔ جب بھی آپ کا واسطہ کسی ایسی خاتون سے پڑے تو اس سے دور ہوجائیں اور اس سے ملنے جلنے سے گریز کریں۔

    مزید پڑھیں: حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘

    حمل کے دوران آپ کے ذہن کا ہلکا پھلکا اور خوش باش ہونا آپ کی ڈلیوری کے عمل کو بھی آسان بنا دے گا۔ ذہنی دباؤ، خوف یا ٹینشن آپ کی ڈلیوری کو آپ کی زندگی کا بدترین وقت بناسکتا ہے۔

    معلومات حاصل کریں

    حمل اور بچے کی پیدائش کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس کے لیے اپنی ڈاکٹر، والدہ اور نانی یا انٹرنیٹ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ حمل کے دوران کون سی غذائیں اور کام آپ کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر کا انتخاب

    پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جہاں ڈاکٹرز زیادہ پیسے لینے کے لیے بچے کی پیدائش سی سیکشن کے ذریعے کروانے پر زور دیتے ہیں۔

    ایسے ڈاکٹرز کو جب اپنا مقصد ناکام ہوتا نظر آئے تو یہ لیبر روم سے باہر آ کر ایک مصنوعی ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس سے اہل خانہ کو تاثر جاتا ہے کہ ان کی بیٹی اور ہونے والے بچے کی زندگی خطرے میں ہے اور انہیں بچانے کا واحد حل صرف سیزیرین آپریشن ہی ہے۔

    اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی معتبر، جانے پہچانے اور قابل اعتبار ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بدنام اسپتالوں اور ڈاکٹرز کے پاس جانے سے گریز کریں۔

    حمل کے آخری چند ہفتوں کی صورتحال اس بات کا تعین کردیتی ہے کہ بچہ نارمل ہوگا یا آپریشن سے، اس صورتحال سے ان تمام افراد کو آگاہ رکھیں جو عین وقت میں آپ کے ساتھ اسپتال میں ہوں گے۔

    حمل کے آخری مہینے میں اپنی ڈاکٹر کے علاوہ ایک دو اور ڈاکٹرز کے پاس جا کر بھی چیک اپ کروایا جاسکتا ہے تاکہ متنوع آرا معلوم کی جاسکیں۔

    یاد رکھیں، ماں بننا اور اس عمل میں ہونے والی تکلیف ہونا ایک معمول کا عمل ہے۔ قدرتی طریقے سے ہونے والی ولادت ماں کو جلد صحت یاب کردیتی ہے جبکہ مصنوعی طریقے یعنی آپریشن سے ہونے والی پیدائش طویل المدت نقصانات کا باعث بنتی ہے۔

  • نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    امریکا میں گزشتہ چند دہائیوں میں زچگی کے دوران خواتین کی موت کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجوہات میں طبی عملے کی غفلت اور نسلی امتیاز جیسے حیران کن عوامل شامل ہیں۔

    امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا میں بسنے والی سیاہ فام خواتین میں حمل کے دوران موت کا خطرہ، سفید فام خواتین کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی وجہ سیاہ فام طبقے کے لیے طبی عملے کی لاپرواہی اور ان کی کمزور معاشی حالت ہے۔ اسپتالوں میں سیاہ فام طبقے کو طبی عملے کا امتیازی سلوک سہنا پڑتا ہے جس سے ان کی صحت کو سخت خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    زچگی کے دوران خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات صرف سیاہ فام خواتین تک ہی محدود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق تمام امریکی ماؤں کے لیے حمل کے دوران خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہر امریکی عورت کو حمل کے دوران، اپنی والدہ کے مقابلے میں 50 فیصد زائد سنگین طبی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے قبل زچگی کے دوران اموات کی وجہ زیادہ خون بہنا اور انفیکشن ہوتا تھا، تاہم اب امریکی مائیں موٹاپے، ذیابیطس، امراض قلب، اور سی سیکشن کی شرح میں اضافے کی وجہ سے موت کا شکار ہوسکتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مجموعی طور پر سنہ 1990 سے 2015 کے دوران زچگی کے دوران ماؤں کی اموات میں 44 فیصد کمی آچکی ہے تاہم امریکا میں اس شرح میں اضافہ ہوا۔ امریکا میں چند دہائی قبل 1 لاکھ میں سے 12 ماؤں کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق ہوتا تھا تاہم اب یہ تعداد 17 ہوچکی ہے۔

    رپورٹ میں ماہرین نے زچگی کے بعد ماؤں کے لیے طبی عملے کی غفلت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کی طرف ڈاکٹرز کی توجہ کم ہوجاتی ہے نتیجتاً وہ چھوٹے موٹے طبی مسائل جن پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، سنگین صورت اختیار کر کے جان لیوا بن جاتے ہیں۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ایک طرف تو حاملہ ماؤں کو صحت مند طرز زندگی گزارنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، دوسری طرف طبی عملے کو بھی اس بات کی تربیت دی جائے کہ پہلے مرحلے سے لے کر آخری وقت تک ماں اور بچے دونوں کو توجہ دی جائے۔

  • ان جانوروں کی خطرناک زچگی کے بارے میں جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے

    ان جانوروں کی خطرناک زچگی کے بارے میں جان کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے

    حمل اور ایک نئی زندگی کو جنم دینا ایک نہایت تکلیف دہ عمل ہے جو ماں کو سہنا پڑتا ہے، یہ عمل موت کے منہ سے واپس آنے کے برابر ہے۔

    پیدائش کی یہ اذیت صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں، جانوروں کی مادائیں بھی اس اذیت سے یکساں طور پر گزرتی ہیں اور زمین پر کچھ جانور ایسے بھی ہیں جن کی پیدائش کا عمل اس قدر خطرناک اور ماں کے لیے اس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے جسے جان کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

    کیوی کی ہی مثال لے لیجیئے۔ نیوزی لینڈ کا مقامی پرندہ کیوی کی مادہ جب انڈہ دیتی ہے تو وہ اس کی اپنی جسامت کے 20 فیصد حصے جتنا ہوتا ہے۔

    کیوی

    اسی طرح شنگل بیک لزرڈ (چھپکلی کی ایک قسم) ایک وقت میں ایک سے 2 بچے جنم دیتی ہے۔ یہ دونوں بچے ماں کے جسم کے ایک تہائی فیصد حصے کے برابر ہوتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے انسان کا 7 سالہ بچہ جنم لے۔

    شنگل بیک لزرڈ

    ایک اور جانور جسے ہم کانٹوں والا چوہا کہتے ہیں، پیدائش کے وقت نہایت مشکل صورتحال سے دو چار ہوجاتا ہے۔

    کانٹوں والے چوہے کے سخت کانٹے اسے دشمن سے بچاتے ہیں تاہم اس کے بچے بھی دوسرے جانوروں کی طرح صرف گوشت کے ٹکڑے نہیں ہوتے۔ ان بچوں میں پیدائش کے وقت سے ہی کانٹے موجود ہوتے ہیں گو کہ وہ نرم ہوتے ہیں اور پیدائش کے چند گھنٹوں بعد سخت ہونے لگتے ہیں۔

    کانٹوں والا چوہا

    تاہم اس وقت صورتحال بگڑ جاتی ہے جب یہ بچے الٹی سمت میں ماں کے جسم سے باہر آتے ہیں۔ اس وقت یہ کانٹے ماں کے رحم میں پھنس سکتے ہیں جس سے وہ سخت اذیت میں مبتلا ہوجاتی ہے۔

    لکڑ بگھے کی مادہ کے حمل کا عضو اس کے جسم سے باہر منسلک ہوتا ہے جو پیدائش کے دوران اکثر اوقات دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔

    لکڑ بگھا

    زچگی کا عمل مادہ کے لیے نہ صرف تکلیف دہ بلکہ اکثر اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے، 15 فیصد مادہ لکڑ بگھے پہلے حمل کے دوران موت سے ہمکنار ہوجاتی ہیں۔

    تسمانیہ ڈیول نامی جانور ایک وقت میں 50 بچوں کو جنم دیتا ہے مگر ان کی جسامت نہایت مختصر ہوتی ہے۔ یہ ماں کے رحم سے سفر کرتے ہیں اور اس کے کیسے (کینگرو کی طرح جھولی) میں پہنچتے ہیں جہاں یہ اگلے 4 ماہ گزارتے ہیں۔

    تسمانیہ ڈیول

    مگر ان کی ماں ایک وقت میں صرف 4 بچوں کو دودھ پلا سکتی ہے چنانچہ وہی 4 بچے زندہ بچنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو دیگر بچوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔

  • حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘

    حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘

    خواتین کے حاملہ ہونے میں جہاں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں وہیں ایک دلچسپ پہلو ایسا بھی ہے جو کچھ عرصہ قبل ہی ماہرین کے علم میں آیا ہے۔

    سنہ 2014 میں امریکن سوشیالوجیکل ایسوسی ایشن جرنل میں ایک دلچسپ تحقیق شائع کی گئی جس کے مطابق حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘ یعنی متعدی ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب کوئی خاتون کسی حاملہ خاتون کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہے تو خود اس کے حاملہ ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین اس کی وجوہات یہ پیش کرتے ہیں کہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے مطابقت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ماحول کے مطابق ردعمل دیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    جب کوئی خاتون اپنی کسی حاملہ دوست سے ملاقات کرتی ہیں تو ان میں حمل کے بارے میں مثبت خیالات پیدا ہوتے ہیں اور اس کا اثر ان کی تولیدی صلاحیت پر پڑتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ نفسیاتی طور پر اثر انداز ہونا بھی ہے۔ جب خواتین اپنی دوستوں کو حاملہ دیکھتی ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ اس معاملے میں وہ ان سے پیچھے رہ گئی ہیں، یہ سوچ قدرتی طور پر ان کے حمل کی راہ ہموار کرتی ہے۔

    علاوہ ازیں جب خواتین اپنی ہم عمر دیگر خواتین کو اپنے بچوں کو صحیح سے سنبھالتے اور پرورش کرتے دیکھتی ہیں تو ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے کہ اگر وہ کر سکتی ہیں تو میں کیوں نہیں۔

    یہی سوچ بچوں کی تعداد پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، ایک بچے کی ماں، 3 بچوں کی ماں کو دیکھ کر خود کو کمتر خیال کرتی ہے۔

    اسی طرح جب وہ اپنے ارد گرد موجود دیگر خواتین کو کئی بچے سنبھالتے دیکھتی ہیں تب انہیں بھی خود پر اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی کئی بچے سنبھال سکتی ہیں۔

    کیا آپ اس دلچسپ حقیقت سے واقف تھے؟

  • پیدائش سے قبل سرجری کے بعد بچے کو واپس ماں کے رحم میں رکھ دیا گیا

    پیدائش سے قبل سرجری کے بعد بچے کو واپس ماں کے رحم میں رکھ دیا گیا

    ایک نئی زندگی کا اس دنیا میں آنا معمول کا حصہ ہے، لیکن اس عمل سے جڑے بعض اوقات ایسے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جو ایک طرف تو ہمیں دنگ کردیتے ہیں، تو دوسری طرف میڈیکل سائنس کے لیے بھی چیلنج ثابت ہوتے ہیں۔

    لندن کے ڈاکٹرز کو بھی ایسا ہی ایک چیلنج درپیش تھا جس میں انہیں ممکنہ طور پر معذور بچے کا ماں کے رحم سے نکال کر آپریشن کرنا تھا اور پھر اسے واپس ماں کے رحم میں رکھنا تھا۔

    لندن کی رہائشی 25 سالہ بیتھن سمپسن روٹین چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی تو اسے ایک دلدوز خبر سننے کو ملی۔

    ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس کا بچہ اسپائینا بفیڈا نامی مرض کا شکار ہوگیا ہے۔

    اس مرض میں ماں کے پیٹ میں موجود بچے میں ریڑھ کی ہڈی درست نشونما نہیں کرپاتی جو آگے چل کر اسے چلنے پھرنے سے معذور بنا سکتی ہے۔

    ڈاکٹر نے بیتھن کو 3 آپشنز دیے، یا تو وہ اپنے حمل کو گرا دے، یا وہ اسے ایسا ہی چلنے دے جو آگے چل کر ممکنہ طور پر ایک معذور بچے کو جنم دے سکتا تھا، یا پھر وہ ایک خطرناک سرجری کے عمل سے گزرے جس کی کامیابی کا امکان بہت کم تھا۔

    بیتھن اور اس کے شوہر نے سرجری کروانے کا فیصلہ کیا۔

    لندن کے گریٹ آرمنڈ اسٹریٹ ہاسپٹل میں کی جانے والی اس سرجری میں بچے کو ماں کے رحم سے نکال کر اس کی سرجری کی گئی جو کامیاب رہی، اس کے بعد اسے واپس ماں کے رحم میں رکھ دیا گیا تاکہ وہ حمل کا وقت پورا کرسکے۔

    یہ عمل کامیابی سے ہمکنار ہوا، جس وقت بچے کو ماں کے رحم سے نکالا گیا اس وقت اس کی عمر 24 ہفتے تھی۔

    سرجری کے بعد بیتھن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے عزیز و اقارب کو اس کی اطلاع دی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ اور اس کا بچہ صحیح سلامت ہیں۔

    بیتھن نے کہا کہ انگلینڈ میں اس کیفیت کا شکار 80 فیصد بچوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ ’گو کہ یہ عمل مشکل ضرور ہے مگر اس کے بعد ایک صحت مند بچے کو جنم دینا دنیا کا خوشگوار ترین احساس ہے‘۔

    برطانیہ میں یہ سرجری اب تک صرف 4 دفعہ انجام دی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے یہ سرجری بہت سے بچوں کی جانیں بچانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

  • حمل کے دوران چائے کا استعمال خطرناک قرار

    حمل کے دوران چائے کا استعمال خطرناک قرار

    دبلن: طبی ماہرین نے خواتین کو خبردار کیا ہے کہ وہ حمل کے دوران چائے یا کافی کا زیادہ استعمال نہ کریں کیونکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا بچہ کمزور ہوجاتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئرلینڈ کے ڈبلن میڈیکل کالج یونیورسٹی میں تحقیقاتی مطالعے کا انعقاد کیا گیا جس میں بچوں کے پیدائشی طور پر کمزور ہونے کی وجوہات جاننے کی کوشش کی گئی۔

    ماہرین کے مطابق حاملہ خواتین کے دن میں تین بار چائے یا دو کپ کافی پینے سے بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: حاملہ خواتین کا ڈانس سے علاج کرنے والا ڈاکٹر

    تحقیقاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ چائے یا کافی میں موجود کیفین خون کی روانی کو متاثر کرتی ہے، اسی رکاوٹ کی وجہ سے بچے کی نشوونما متاثر ہوتی ہے اور اُس کا وزن بھی کم رہ جاتا ہے۔

    تحقیق میں ایک ہزار سے زائد ایسی خواتین کا ڈیٹا جمع کیا گیا جن کے ہاں بچوں کی پیدائش ہوچکی ہے۔

    مطالعے کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج کے مطابق 100 ملی گرام سے زائد کیفین حمل کے ابتدائی تین ماہ میں بچے کے وزن کو کم کر دیتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: حاملہ خواتین کی طبی حفاظت کے لیے اسمارٹ کنگن تیار

    ماہرین کے مطابق اگر ابتدائی تین ماہ میں مقررہ مقدار سے 100 ملی گرام زائد کیفین استعمال کی جائے تو بچے کا وزن 72 گرام تک کم ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے اُس کا قد اور سر کی گولائی بھی کم ہوجاتی ہے۔

    ڈاکٹرز نے حاملہ خواتین کو متنبہ کیا ہے کہ زیادہ کیفین استعمال کرنے سے بچے کا وزن 170 گرام تک رہ سکتا ہے۔

  • دورانِ حمل مچھلی کا استعمال بچے کی صحت کے لیے فائدے مند قرار، تحقیق

    دورانِ حمل مچھلی کا استعمال بچے کی صحت کے لیے فائدے مند قرار، تحقیق

    نیویارک: امریکا کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ حمل کے دوران اگر خواتین مچھلی استعمال کریں تو پیدا ہونے والا بچے کی صحت بہت اچھی ہوتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کے گیزل اسکول آف میڈیسن نے حاملہ خواتین اور پیدا ہونے والے بچے کی صحت کے حوالے سے تحقیق کی جس میں 200 سے  زائد مریضوں کا ریکارڈ حاصل کیا گیا۔

    ماہرین نے پیدا ہونے والے بچے اور مذکورہ ماؤں سے دورانِ زچگی حاصل ہونے والے ریکارڈ کا موازنہ کرکے رپورٹ مرتب کی جس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ مچھلی کا گوشت اور سمندر سے حاصل ہونے والی خوراک پیٹ میں موجود نومولود کے لیے انتہائی مفید ہے۔

    مزید پڑھیں: ماؤں کی کم نیند بچوں کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے، تحقیق

    تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مچھلی یا دیگر سمندری خوراک بچے کی انتڑیوں میں موجود اچھے اور برے بیکٹیریا کو برابر رکھتی ہے جس کے نتیجے میں بچے کی صحت اور دیگر مسائل کے ساتھ الرجی جیسی بیماریوں سے وہ محفوظ رہتا ہے۔

    پروفیسر سارا لنڈگرین کا کہنا تھا کہ بچے کے پیٹ میں موجود بیکٹیریا مدافعتی نظام کو مضبوط یا کمزور بناتے ہیں اور اگر ان میں سے کسی بھی بیکٹیریا کی تعداد کم یا زیادہ ہو تو بچے کی صحت کمزور ہوتی ہے اور وہ مختلف طبی مسائل کا شکار رہتا ہے۔

    مزید پڑھیں: حاملہ خواتین کا ڈانس سے علاج کرنے والا ڈاکٹر

    انہوں نے حاملہ خواتین کو متنبہ کیا ہے کہا کہ اگر مائیں حمل کے دوران دودھ سے بنی اشیاء کے زیادہ استعمال گریز کریں کیونکہ اس سے تو منفی بیکٹیریا کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو بچے کی صحت کو برے اثرات مرتب کرتی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔