Tag: حمید اختر

  • حمید اختر: صحافی، ادیب اور ترقی پسند تحریک کا ایک بڑا نام

    حمید اختر: صحافی، ادیب اور ترقی پسند تحریک کا ایک بڑا نام

    خوب رُو، دراز قد حمید اختر کی آواز بھی خوب تھی۔ حمید اختر کو اپنی صلاحیتوں اور اپنی خوبیوں کا ادراک تھا، اور یہی وجہ ہے کہ وہ اداکاری اور صدا کاری کا شوق دل میں لیے قسمت آزمانے بمبئی پہنچ گئے جو اس دور میں فلم اور شوبزنس کا مرکز تھا۔ حمید اختر کی یہ کوشش رائیگاں‌ نہ گئی اور ’آزادی کی راہ پر‘ کے نام سے ایک فلم میں انھیں کسی طرح‌ سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن پھر یہ سفر یہیں تمام بھی ہو گیا۔ انھیں شہرت اور نام و مقام تو ملا مگر بطور اداکار نہیں‌ بلکہ وہ ایک صحافی، کالم نویس، ادیب اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

    حمید اختر 2011ء میں کینسر کے مرض کے باعث 17 اکتوبر کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ متحدہ ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں حمید اختر نے 1924ء میں آنکھ کھولی اور وہیں تعلیم و تربیت کے مراحل طے ہوئے۔ اردو زبان کے مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے۔ اردو کے مشہور مزاح نگار اور شاعر ابن انشاء سے بھی اسکول کے زمانہ میں ہی دوستی ہوگئی تھی۔ وقت کے ساتھ ان کے یہ دوست اور خود حمید اختر بھی علم و فنون میں گہری دل چسپی لینے لگے اور پھر تخلیقی سفر میں خوب نام و مقام پایا۔ وہ زمانہ ہندوستان میں ترقی پسند فکر اور ادبی رجحانات کے عروج کا تھا جب ساحر اور انشاء نے لکھنا شروع کیا اور حمید اختر بھی کوچۂ صحافت میں داخل ہوئے۔ جلد ہی حمید اختر انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوگئے۔ حمید اختر نے اپنی عملی صحافت کا آغاز لاہور میں‌ روزنامہ امروز سے کیا تھا۔ بعد میں وہ اس کے مدیر بنے۔ اسی زمانے میں انھوں نے کالم نگاری شروع کی یہ سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔

    جن دنوں حمید اختر بمبئی میں مقیم تھے، وہاں فلمی دنیا اور ادبی مجلسوں‌ میں ان کی ملاقاتیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے بڑے اہلِ قلم اور ترقی پسند مصنّفین سے ہوئیں اور پھر ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آگئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں اور اہلِ‌ قلم پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی ترقی پسند نظریات اور اپنی سرگرمیوں کے سبب گرفتار ہوئے اور دو سال تک قید میں‌ رہے۔ بعد میں حمید اختر کے قلم نے ’کال کوٹھڑی‘ تحریر کی جو ان کے ایامِ اسیری کی روداد ہے۔

    1970ء میں حمید اختر نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہو گیا۔ حمید اختر نے کالم نگاری کے ساتھ ادبی مضامین بھی سپردِ قلم کیے۔ خاکہ نگاری بھی کی اور یہ خاکے اُن ترقی پسند مصنّفین کے ہیں‌ جن کی رفاقت حمید اختر کو نصیب ہوئی۔ ان کے شخصی خاکوں کی یہ کتاب ‘احوالِ دوستاں’ کے نام سے شایع ہوئی۔ حمید اختر کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ”ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے، یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔”

    حمید اختر نے افسانہ نگاری بھی کی، لیکن صحافتی مصروفیات اور تنظیمی سرگرمیوں‌ کی وجہ سے اس طرف یکسوئی نہ ہوئی، انھوں نے چند فلمی اسکرپٹ بھی تحریر کیے۔ 2010ء میں‌ انھیں تمغائے حسنِ‌ کارکردگی سے نوازا گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن ڈراموں کی معروف اداکارہ صبا حمید انہی کی بیٹی ہیں۔

  • "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹنے والے حمید اختر

    "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹنے والے حمید اختر

    دراز قد اور خوب رُو حمید اختر کی آواز بھی جان دار تھی۔ انھیں اپنی شخصیت کے اس پہلو کا خوب احساس تھا یا پھر وہ اپنے اداکاری کے شوق اور صلاحیتوں کا ادراک کرچکے تھے کہ قسمت آزمانے بمبئی پہنچ گئے۔ حمید اختر کی یہ کوشش رائیگاں‌ نہ گئی اور ’آزادی کی راہ پر‘ کے نام سے ایک فلم میں انھیں کسی طرح‌ سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن یہ سفر یہیں تمام بھی ہو گیا۔

    حمید اختر کو شہرت اور نام و مقام تو ملا مگر بطور اداکار نہیں‌ بلکہ ایک صحافی، کالم نویس، ادیب اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے۔ وہ 2011ء میں کینسر کے مرض سے ہار گئے۔ حمید اختر کا انتقال 17 اکتوبر کو ہوا تھا۔

    متحدہ ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں حمید اختر نے 1924ء میں آنکھ کھولی اور وہیں تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے۔ اردو زبان کے مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے اور اردو کے مشہور مزاح نگار اور شاعر ابن انشاء سے بھی اسکول کے زمانہ میں ہی دوستی ہوگئی تھی۔ وقت کے ساتھ ان کے یہ دوست اور خود حمید اختر بھی علم و فنون میں گہری دل چسپی لینے لگے۔ وہ زمانہ ہندوستان میں ترقی پسند فکر اور ادبی رجحانات کے عروج کا تھا جب ساحر اور انشاء نے تخلیقی سفر شروع کیا اور حمید اختر نے بھی کوچۂ صحافت میں قدم رکھ دیا۔ جلد ہی وہ انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوگئے۔ حمید اختر نے اپنی عملی صحافت کا آغاز لاہور میں‌ روزنامہ امروز سے کیا اور بعد میں اس کے مدیر بنے۔ اسی سفر کے دوران انھوں نے کالم نگاری شروع کی اور یہ سلسلہ آخری عمر تک جاری رہا۔

    جن دنوں حمید اختر بمبئی میں مقیم تھے، وہاں فلمی دنیا اور ادبی مجلسوں‌ میں ان کی ملاقاتیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے بڑے اہلِ قلم اور ترقی پسند مصنّفین سے ہوئیں اور پھر ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آگئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں اور اہلِ‌ قلم پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی ترقی پسند نظریات اور اپنی سرگرمیوں کے سبب گرفتار ہوئے اور دو سال تک قید میں‌ رہے۔ بعد میں حمید اختر کے قلم نے ’کال کوٹھڑی‘ تحریر کی جو ان کے ایامِ اسیری کی روداد ہے۔

    1970ء میں حمید اختر نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہوگیا۔

    حمید اختر نے خاکہ نگاری بھی کی اور یہ خاکے اُن ترقی پسند مصنّفین کے ہیں‌ جن کی رفاقت حمید اختر کو نصیب ہوئی۔ ان کے شخصی خاکوں کی یہ کتاب ‘احوالِ دوستاں’ کے نام سے شایع ہوئی۔ حمید اختر کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گی۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ”ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے، یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔”

    حمید اختر نے افسانہ نگاری بھی کی، لیکن صحافتی مصروفیات اور تنظیمی سرگرمیوں‌ کی وجہ سے اس طرف یکسوئی سے توجہ نہیں‌ دے سکے، انھوں نے چند فلمی اسکرپٹ بھی تحریر کیے۔ 2010ء میں‌ حمید اختر کو تمغائے حسنِ‌ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ پی ٹی وی کے ڈراموں کی مقبول اداکارہ صبا حمید انہی کی بیٹی ہیں۔

  • یومِ وفات:‌حمید اختر کا تذکرہ جنھوں نے "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹی

    یومِ وفات:‌حمید اختر کا تذکرہ جنھوں نے "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹی

    دراز قد اور خوب رُو حمید اختر کی آواز بھی جان دار تھی۔ انھیں اداکاری کا شوق ہوا تو قسمت آزمانے بمبئی کی فلم نگری کا رخ کیا جہاں انھیں کسی طرح ’آزادی کی راہ پر‘ نامی ایک فلم میں سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن یہ سفر یہیں تمام ہوا اور حمید اختر نے ایک صحافی، ادیب، فلم ساز اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔

    آج حمید اختر کا یومِ وفات ہے۔ 2011ء میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔

    1924ء میں ضلع لدھیانہ میں پیدا ہونے والے حمید اختر مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے۔ انھیں نوجوانی میں اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر ابن انشاء کی رفاقت بھی نصیب ہوئی اور یوں فکروفن اور علم و ادب سے تعلق گہرا ہوتا چلا گیا۔ اسی ذوق و شوق اور ترقی پسند رجحانات نے حمید اختر کو انجمن ترقی پسند مصنفیں سے ناتا جوڑنے پر آمادہ کر لیا۔

    جن دنوں وہ بمبئی میں مقیم تھے، وہاں انھیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے ترقی پسندوں سے ملنے کا موقع ملا اور بعد میں ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی گرفتار ہوئے اور دو سال کے لیے زنداں میں رہنا پڑا۔

    ’کال کوٹھڑی‘ حمید اختر کے انہی ایامِ اسیری کی روداد ہے۔ 1970ء میں انھوں نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہوگیا۔

    حمید اختر نے اپنے ترقی پسند ساتھیوں کے خاکے بھی احوالِ دوستاں کے نام سے لکھے ہیں۔ ان کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    ” ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔