Tag: حمیر اطہر کی تحریریں

  • "کتاب کی تقریبِ رونمائی اور میں!”

    "کتاب کی تقریبِ رونمائی اور میں!”

    کل مجھے ایک کتاب کی تقریبِ رونمائی میں جانا پڑا۔ لفظ ”پڑا“ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اب ایسی تقریبات میں جانے کو دل بالکل نہیں چاہتا کہ یہ اپنے مقررہ وقت سے تین چار گھنٹے بعد شروع ہوتی ہیں۔

    رونمائی خواہ دلہن کی ہو یا کتاب کی۔ تقریب کا تاخیر سے شروع ہونا معمول کی بات ہے۔ چوں کہ میرے لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ سرِ شام دفتر سے پہلے گھر جاؤں اور پھر بعد مغرب نکل کر کتاب کی تقریبِ رونمائی کے لئے آؤں، لہٰذا۔۔۔ ان تقریبات میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے لیکن اس کا کیا علاج کہ بعض لوگوں کے منہ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر مروّت سے کام لینا پڑتا ہے۔ یعنی منہ دیکھے کی مروّت میں ماری جاتی ہوں۔ مروّت واقعی بُری چیز ہے۔

    بہرکیف۔۔۔ ذکر ہورہا تھا ایسی ہی ایک تقریبِ رونمائی کا جہاں منہ دیکھے کی مروّت میں جانا پڑا۔ تقریب کا وقت ساڑھے چار بجے شام مقرر تھا۔ میں ساڑھے پانچ بجے پہنچی تو مہمانِ خصوصی اور دیگر مقررین کا ذکر تو کجا خود صاحبِ کتاب یعنی ”میزبانِ خصوصی“ اور حاضرینِ محفل کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ گنتی کے چار لوگ بیٹھے تھے۔ محاورتاً نہیں حقیقتاً، میں بھی انہی ”مجبوروں“ میں شامل ہوگئی، جنہیں وقت پر پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ ساڑھے پانچ سے چھ اور ساڑھے چھ بھی بج گئے۔ حاضرین کی تعداد تو بتدریج بڑھتی رہی مگر میزبان، مقررین سب غائب۔ پونے سات بجے میزبان کی صورت نظر آئی۔ سات بجے، جب میں نے واپسی کی راہ لی، تقریب شروع ہونے کے دور دور تک آثار نہ تھے۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق مہمانِ خصوصی ”ٹھیک“ ساڑھے سات بجے تشریف لائے۔ دیگر مقررین پروگرام کے اختتام تک نہ آسکے۔ آخر آٹھ بجے کچھ ”فی البدیہہ مقررین“ کی موجودگی کو غنیمت جان کر پروگرام شروع کیا گیا۔

    اس قسم کی تقریبات میں جا کر مجھے یہ احساس شدت سے ستاتا ہے کہ آخر ہم لوگ وقت کی پابندی کرنا کب سیکھیں گے؟ اس سلسلے میں منتظمین کی جانب سے ہمیشہ یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ چوں کہ ”لوگ“ وقت پر نہیں آتے لہٰذا پروگرام میں تاخیر ہوتی ہے۔ آخر یہ ”لوگ“ کون ہیں۔ مہمانِ خصوصی، مقررین یا حاضرین؟ جہاں تک حاضرین کا تعلق ہے تو ان کی سو فی صد حاضری ضروری نہیں۔ ایک مرتبہ آپ جی کڑا کر کے دس حاضرین کی موجودگی میں تقریب شروع کرا دیں، آئندہ لوگ وقت پر نہ آئیں تو میرا ذمہ۔ اتنی بڑی ذمہ داری اتنی آسانی سے میں اِس لئے لے رہی ہوں کہ یہ میرا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ جو لوگ وقت کے پابند ہیں ان کی تقریبات میں حاضرین بھی وقت کی پابندی کرتے ہیں لیکن جہاں خود میزبانِ خصوصی کا یہ عالم ہو کہ تقریب کے وقت سے دو گھنٹے تاخیر سے پہنچے، وہاں ہما شما حاضرین سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟

    سوال یہ ہے کہ آخر پابندیٔ وقت کی عادت کیسے ڈالی جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس مسئلے کا سب سے آسان اور موزوں حل یہ ہے کہ ان ”تقریب کاروں“ یعنی منتظمین کو تربیت کی خاطر صرف ایک ہفتے کے لئے ”تخریب کاروں“ کے حوالے کر دیا جائے۔ کراچی کے رہنے والوں کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ یہ تخریب کار وقت کے کتنے پابند ہیں۔ ان کا کوئی آپریشن ہو، مجال ہے کہ ایک منٹ تو کجا ایک سیکنڈ کی بھی تاخیر ہوجائے۔ اگرچہ کراچی کے باہر کے لوگوں کا ان تخریب کاروں سے اتنا واسطہ نہیں پڑتا۔ تاہم، جتنا بھی پڑتا ہے وہ یہ باور کرانے کے لئے کافی ہے کہ یہ تخریب کار وقت کی کتنی قدر کرتے ہیں۔ انہیں بس اسی ایک چیز کی تو قدر ہے ورنہ یہ تو وہ برین واشڈ، بے نیاز لوگ ہیں کہ انسانی جان بلکہ انسانیت تک کی پروا نہیں کرتے اور اسے ہر دم اپنی ٹھوکروں میں رکھتے ہیں۔

    سیانوں کا قول ہے کہ وقت کی قدر کرو، ایسا نہ ہو کہ پھر کل وقت خود تمہاری قدر نہ کرے۔ لگتا ہے کہ ان تخریب کاروں نے اس قول کو نہ صرف خوب پڑھا ہے بلکہ اپنی گرہ میں بھی باندھ لیا ہے۔ لہٰذا وقت سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ وقت کی قدر کرنے کا ہی فیض ہے کہ آج تک ان کا کوئی ”آپریشن“ ناکام نہیں ہوا۔ ورنہ اس ملک میں جتنے آپریشن کئے گئے ہیں ان میں ماسوائے آپریشن ”فیئر پلے“ کے اور کوئی آپریشن شاید ہی کامیاب ہوا ہو۔ اس اکلوتے آپریشن کی کامیابی کی وجہ بھی پابندیٔ وقت ہے۔ اگر جنرل ضیاالحق (مرحوم) اُس رات اتنی پھرتی نہ دکھاتے تو صبح ذوالفقار علی بھٹو(مرحوم) اُن کا دھڑن تختہ کر چکے ہوتے۔

    خیر یہ بات تو یونہی برسبیلِ تذکرہ نکل آئی۔ بتانا یہ مقصود تھا کہ اس ملک میں حکیم محمد سعید کے بعد اگر کوئی اور وقت کا پابند ہے تو وہ یہ تخریب کار ہی ہیں۔ معلوم نہیں انہوں نے یہ اچھی عادت حکیم صاحب سے ہی سیکھی ہے یا۔۔۔ اگر سیکھی بھی ہے تو کیا بُرا کیا۔ اچھی عادت کہیں سے ملے اسے اپنانا ہی چاہیے۔

    (سینئر صحافی اور مصنّف حمیرا اطہر کے 1992ء کے ایک مطبوعہ کالم سے اقتباس)

  • انصاف کی ”ترازو“ چوری ہوگئی!

    انصاف کی ”ترازو“ چوری ہوگئی!

    کچھ لوگوں کو اب خبر ملی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے صدر دروازے کے باہر نصب انصاف کی علامت ”ترازو“ کے دونوں پلڑے غائب ہوگئے ہیں، حالاں کہ ہائی کورٹ جانے اور اس سڑک سے گزرنے والوں کے لئے یہ خبر نہ پرانی ہے اور نہ ہی چونکا دینے والی۔

    جن لوگوں کا واسطہ عدالتوں سے پڑتا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ صدر دروازے سے انصاف کی ترازو کے پلڑے ہی نہیں، عمارت کے اندر سے انصاف بھی غائب ہوچکا ہے۔ بھلا جس ملک میں عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں وہاں کوئی منصف انصاف کی ترازو کیسے تھام سکتا ہے؟ اور اگر کسی منصف نے اس کی ہمت بھی کی تو اس کے لکھے گئے فیصلے کی روشنائی خشک ہونے سے پہلے ہی اس کے تبادلے، رخصت یا ریٹائرمنٹ کا حکم صادر کر کے گویا خود اس کے ہاتھ قلم کر دیے گئے اور انصاف کی ترازو کے خالی پلڑے ہوا میں جھولتے رہ گئے۔

    اگرچہ انصاف کی ترازو کے یہ پلڑے اسی غیر محسوس طریقے سے غائب ہوئے ہیں جس طرح معاشرے سے انصاف، لیکن، مقامِ حیرت ہے کہ انصاف غائب ہونے کی کسی کو خبر نہ ہوئی اور اگر کسی کو ہوئی بھی تو اس نے کوئی واویلا نہیں کیا یا شاید خود میں اتنی ہمت نہ پائی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انجام کو سامنے رکھتے ہوئے چپ سادھ لی ہو۔ اس کے برعکس ترازو کے پلڑے غائب ہونے کی لوگوں کو نہ صرف خبر ہوگئی بلکہ بہت سے لوگ اس فکر میں غلطاں و پیچاں بھی پائے گئے کہ آخر یہ پلڑے کیوں اور کس طرح غائب ہوئے؟ حالاں کہ ذرا سا غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ یعنی جب معاشرے میں انصاف ہی نہیں رہا تو پھر ترازو اور اس کے پلڑوں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے؟ کوئی عقل مند انہیں اتار کر لے گیا ہوگیا کہ انصاف نہ سہی ان پلڑوں کی عزت ہی محفوظ رہ جائے۔

    یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ پلڑے، معاشرتی اور سماجی ناانصافیوں کا بوجھ سہار نہ سکنے کے باعث خود ہی کہیں منہ چھپا گئے ہوں یا پھر کوئی ضرورت مند انہیں ”پلیٹیں“ جان کر اتار لے گیا ہو، اس طرح اور کچھ نہیں تو ان میں کھانا تو کھایا ہی جاسکتا ہے۔ گویا یہ پلڑے کسی کو انصاف فراہم نہیں کرسکے تو کیا ہوا کسی کا پیٹ بھرنے کے کام تو آگئے۔ ہر چند موجودہ بے روزگاری، مہنگائی اور کراچی میں آئے دن کی ہڑتالوں کے باعث یہ امر بھی اپنی جگہ بجائے خود ایک سوال ہے کہ جب بہت سے گھروں میں چولہے ہی نہیں جل پاتے تو ان پلیٹوں میں ڈالنے کے لئے کھانا کہاں سے آتا ہوگا؟ اس صورتِ حال میں یہ بات زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ کوئی سادہ لوح انہیں روٹیاں ہی سمجھ کر لے گیا ہو کہ بھوک میں تو کواڑ بھی پاپڑ لگتے ہیں۔

    یہ بھی ممکن ہے کہ کسی ضرورت مند نے ان پلڑوں کو بیچ کر اپنے بیوی بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرلیا ہواگر ایسا ہے تو کم از کم یہ اطمینان تو حاصل ہوا کہ انصاف کی ترازو کے ان پلڑوں نے کسی کو انصاف بے شک نہ دیا ہو، دو وقت کی روٹی تو مہیا کردی۔ اس دور میں یہی بات بڑی بات ہے پیارے۔ یوں بھی جس شہر میں لوگ گٹر کے ڈھکن تک چوری کرنے سے دریغ نہ کرتے ہوں وہاں ان پلڑوں کی چوری پر حیرت کرنا کیا معنی؟ عین ممکن ہے کہ ان پلڑوں کو تھالیاں جان کر ایوان میں پہنچا دیا گیا ہو۔ بے شک ان دنوں وہاں لوٹوں کا رواج ہے اور گھوڑوں کی سوداگری ہورہی ہے۔ لیکن، تھالی کے بینگن کی اہمیت و افادیت سے کون انکار کرسکتا ہے؟ کون سا عہد یا دورِ حکومت ہوگا جب تھالی کے بینگن سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو؟ اِدھر کچھ عرصہ سے تھالی کے بینگن کی جگہ لوٹوں نے لے لی ہے۔ ہوسکتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہو کہ یہ بینگن اپنی تھالیوں سے محروم ہوگئے تھے اور بغیر تھالی کے بینگن آپ جانیں انہیں ”بے گُن“ بھی کہا جاتا ہے اور وہ محض ”بھرتا“ بنانے کے کام ہی آسکتے ہیں یا زیادہ عزت افزائی مقصود ہو تو زیادہ مرچ مسالہ لگا کے ”بگھارے بینگن“ کے نام سے حیدرآباد کی شاہی ڈش قرار دیا جاسکتا ہے۔ توقع ہے کہ تھالیوں کے دستیاب ہوتے ہی یہ بینگن اپنی سابقہ حیثیتوں پر بحال ہوجائیں گے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان پلڑوں کو کچھ شریر بچے لے گئے ہوں اور تھالیاں پھینکنے اور پکڑنے والا کھیل کھیل رہے ہوں جسے ایک زمانے میں ٹیلی ویژن نے ”فرزبی“ کے نام سے متعارف کرایا تھا اور جب مائیں اپنے باورچی خانوں میں محض اس لئے تالا لگا کے رکھتی تھیں کہ کہیں ان کے لاڈلے سپوت کھانا کھانے کی رکابیوں سے گلی میں فرزبی کا میچ نہ کھیلنے لگیں۔ اگر یہ خیال درست ہو، اور ان پلڑوں کے غائب کرنے میں بچوں کا ہی ہاتھ ہو تو بھی اس میں بُرا منانے کی چنداں ضرورت نہیں، کیوں کہ جب ہمارے بڑے، ملک میں انصاف کو پنگ پانگ کی گیند یا کوئی اور کھلونا سمجھ کر اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں تو کیا بچوں کا ان پلڑوں پر بھی حق نہیں بنتا جو محض علامتی ترازو کی زینت تھے اور عملی طور پر کسی کام کے نہیں تھے۔ اب کوئی پرچون یا سبزی فروش تو وہاں اپنی دکان جما کر نہیں بیٹھ سکتا تھا کہ ترازو سے کوئی مثبت کام ہی لیا جاسکتا کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں اسے ”توہینِ عدالت“ کا نوٹس مل جاتا اور اس کی بقیہ زندگی اس عمارت کے اندر وہ ”چیز“ تلاش کرتے گزر جاتی جس کا اس میں وجود بھی باقی نہیں رہا۔

    قصّہ مختصر یہ کہ ان پلڑوں سے اب جو بھی کام لیا جا رہا ہو وہ ان کے بیکار اور بے مقصد لٹکے رہنے سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہمیں تو بس یہ حسرت ہے کہ اے کاش! ہم میں ان پلڑوں کو غائب کرنے کی ہمت ہوتی تو آج وہ ہمارے ڈرائنگ روم کی کسی دیوار کی زینت ہوتے۔ ایسے ہی، جس طرح ہماری آپا (بیگم شوکت صدیقی) نے اپنے ڈرائنگ روم میں اپنا ”جہیزی ٹفن کیریئر اور دیگر اینٹیک (Antiques) برتن بھانڈے بطور آرائش ڈال رکھے ہیں اور ہم بھی اپنی آنے والی نسلوں کو وہ ”اینٹیک“ یہ کہہ کر بڑے فخر سے دکھاتے کہ یہ اس زمانے کی یاد گار ہیں جب عدالتوں اور معاشرے میں انصاف کا رواج ہوا کرتا تھا۔

    (طنز و مزاح نگار، فیچر رائٹر اور سینئر صحافی حمیرا اطہر کا یہ کالم 1995ء میں کراچی کے ایک روزنامے میں شایع ہوا تھا اور یہ ان کی فکاہیہ تحریروں کے مجموعے ‘بات سے بات’ میں شامل ہے)