Tag: حنیف رامے

  • جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    جب مشہور شاعر ناصر کاظمی اپنے ایک دوست کی وجہ سے الجھن میں گرفتار ہوئے!

    ناصر کاظمی کی ”برگِ نے“ شائع ہونے لگی تو ناصر نے شاکر صاحب سے گزارش کی کہ آپ میری کتاب کا سرورق بنائیے۔

    شاکر صاحب نے سرورق بنایا۔ ناصر نے بہت پسند کیا۔ ہم سب نے پسند کیا مگر جب حنیف رامے تک یہ خبر پہنچی تو وہ مچل گیا کہ ناصر کی کتاب کا سرورق بنانے کا حق اگر کسی کو ہے تو مجھے ہے۔

    اسے سمجھایا گیا، ناصر نے بھی بہت سمجھایا کہ وہ تو میرے کہنے پر شاکر صاحب نے بنایا تھا اور میں تو ناشر کو (کارواں پبلشرز) یہ سرورق حوالے کر چکا ہوں، مگر حنیف اپنی ہٹ پر قائم رہا۔ اس نے کارواں کے حمید صاحب کے پاس جا کر ناصر کے ساتھ اپنے حقِ رفاقت کو جتایا اور انہیں قائل کرنے میں کام یاب رہا۔ سو ”برگِ نے“ حنیف رامے کے سر ورق کے ساتھ شائع ہوئی۔

    لیجیے یہ ایک اور پیچ پڑ گیا۔ شاکر صاحب ناصر سے خفا خفا پھرنے لگے۔ میں نے ناصر کی طرف سے بہت صفائیاں پیش کیں، مگر شاکر صاحب کے دل میں جو ایک گرہ پڑ گئی تھی وہ نہیں گئی، بس دب گئی۔

    اصل میں یہ جو حنیف رامے کا بات بات میں مچل جانا تھا اس نے میرے اور ناصر کے لیے بہت الجھنیں پیدا کیں۔ شیخ صاحب کے وہ مسائل نہیں تھے جو ہمارے تھے۔ انہیں تو اس حلقۂ دوستاں سے غرض ہی نہیں تھی جس میں ہم اٹھتے بیٹھتے چلے آئے تھے اور اس اٹھنے بیٹھنے میں ہم نے محبت کے رشتے قائم کیے تھے مگر شیخ صاحب اپنے ملنے والے سے پوری وفا مانگتے تھے اور پوری وفا سے نوازتے تھے۔ وفا بلا شرکت غیرے۔ بس اس ایک وجہ سے ان کا حلقۂ ارادت پھیلنے سے پہلے ہی سکڑ گیا۔

    ہمارے دوستوں میں سب سے سرکش مخلوق احمد مشتاق کو جانیے۔ اس نے تو پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں رکھنے دیا۔ پہلے ہی مرحلہ میں شیخ صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ مظفر کو اس انکارِ اطاعت سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شیخ صاحب کی خطائیں شیخ صاحب کے ساتھ، مظفر کی خطائیں مظفر کے ساتھ۔ احمد مشتاق کے یہاں یاروں کی کسی خطا کے لیے معافی کا خانہ نہیں تھا۔ مگر صحیح تولتا تھا۔ ترازو اس کے ہاتھ میں تھی۔ سو ہر یار کی خطاؤں کا پلہ ہمیشہ بھاری ہی دیکھا گیا۔ ادھر شیخ صاحب کی ترازو میں یاروں کی خوبیوں کا پلّہ ہمیشہ بھاری رہا۔ اور حنیف کی مصوّری کو انہوں نے کیا خوب تولا کہ پلّہ اس کا گراں ہوتا ہی چلا گیا۔

    ناصر دوستوں کے معاملہ میں مرنجاں مرنج۔ احمد مشتاق سے بھی آخر دوستی رکھنی تھی اور شیخ صاحب اور حنیف رامے کی بھی دل شکنی منظور نہیں تھی۔ اور ناصر کی رضا میں میری رضا، مگر شاکر صاحب بھی تو دوست تھے بلکہ دوستوں سے بڑھ کر دوست۔ اور ان کی مصوری کی خوشبو تو اب پھیلتی ہی چلی جا رہی تھی۔

    جب ناصر کی ”برگِ نے“ کے سر ورق کا قصّہ نیا پرانا ہو گیا اور شاکر صاحب کی طبیعت بھی بحال ہو گئی تو ایک خواہش نے میرے اندر سر اٹھایا۔ میرا مجموعہ ”شہرِ افسوس“ اشاعت کا منتظر تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کا سر ورق شاکر صاحب سے بنوایا جائے۔ شاکر صاحب نے فوراً ہی ہامی بھر لی، مگر فوراً ہی بیمار بھی پڑ گئے اور ایسے بیمار پڑے کہ طبیعت سنبھلنے ہی میں نہیں آرہی تھی۔

    ادھر ناشر کا سخت تقاضا کہ سرورق کہاں ہے۔ آخر کو میں نے اسپتال جا کر شاکر صاحب سے کہا کہ میں نے آپ کو سر ورق کی ذمہ داری سے آزاد کیا۔ طبیعت پر بوجھ مت لیں اور اچھے ہو جائیں اور واقعی اس کے تیسرے ہی دن ان کی طبیعت بحال ہو گئی اور اسپتال سے گھر منتقل ہو گئے۔

    ہاں جب اس مجموعہ کی افتتاحی تقریب ہونے لگی تو جیسے شاکر صاحب سر ورق والا چڑھا قرض یہاں اتارنا چاہتے تھے۔ تقریب کی صدارت پر اس اعلان کے ساتھ آمادہ ہوئے کہ ان کہانیوں کے بارے میں انہیں ایک نکتہ سوجھا ہے، وہ بیان کریں گے۔

    اسٹیج پر سہیل احمد خان ان کے برابر میں بیٹھے تھے۔ بعد میں بتایا کہ سامنے رکھے کورے کاغذوں پر وہ بہت تیزی سے دوسروں کی سنتے ہوئے کچھ لکھتے چلے جا رہے تھے مگر جب صدارتی کلمات کی باری آئی تو جانے کیا ہوا کہ چند فقرے اس رنگ سے ادا کیے کہ گونگا خود سمجھے یا گونگے کی ماں سمجھے۔ پھر سٹپٹا کر چپ ہو گئے۔

    ارے وہ تو اسٹیج تھا اور سامنے مائیک جو پوری تقریر کا مطالبہ کر رہا تھا، مگر شاکر صاحب تو دوستوں کے بیچ بیٹھ کر بھی گفتگو اس طرح کرتے تھے کہ آدھا فقرہ بول کر چپ ہو گئے اور سمجھ لیا کہ فقرہ یار خود مکمل کر لیں گے اور مفہوم سمجھ لیں گے۔ ایک روز موڈ میں تھے۔ بولے ” انتظار حسین، تمہیں پتہ ہے، ہم مولانا محمد علی کے خاندان سے ہیں۔“

    میں نے ہنس کر کہا کہ ”جب ہی۔“ چکرا کر بولے ”جب ہی کیا۔“

    تب میں نے اپنے ”جب ہی“ کی وضاحت کی اور کہا کہ ”مولانا محمد علی قیامت کے مقرر تھے۔ ان کی گرمیٔ تقریر کو تو تحریکِ خلافت بھی زیادہ دنوں تک نہیں سہار سکی۔ جلدی ہی ڈھے گئی۔ اب پتہ چلا کہ ان کے خاندان کے حصے میں جتنی قوتِ گویائی آئی تھی وہ بھی سب انہوں نے اپنی خطابت میں سمیٹ لی تھی۔ آپ کی قوّتِ گویائی بھی اُدھر ہی سمٹ گئی۔“

    مگر ایک دوست نے کیا خوب کہا کہ شاکر صاحب خود نہیں بولتے، ان کی تصویر بولتی ہے۔ میں نے کہا ’مگر وہ بھی تجریدی زبان بولتی ہے جسے سمجھنے والے ہی سمجھتے ہیں۔“

    (از قلم انتظار حسین)

  • ادب، سیاست اور فنِ مصوری میں نام وَر حنیف رامے کا یومِ وفات

    ادب، سیاست اور فنِ مصوری میں نام وَر حنیف رامے کا یومِ وفات

    پاکستان کے نام ور ادیب و شاعر، مصوّر اور مشہور سیاست داں حنیف رامے یکم جنوری 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    حنیف رامے 1930ء کو تحصیل ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ماسٹرز کیا اور طباعت و اشاعت کا خاندانی کاروبار سنبھال لیا۔ وہ لکھنے پڑھنے کا شوق اور فنون لطیفہ میں‌ دل چسپی رکھتے تھے۔ انھوں نے مصوّری کے فن کو اپنایا اور پھر اردو کے مشہور جریدے سویرا کی ادارت کا موقع ملا تو اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کا بہترین اظہار کیا۔ حنیف رامے نے بعد میں سیاسی اور ادبی جریدہ نصرت بھی جاری کیا۔

    1960ء میں انھوں نے پاکستان مسلم لیگ سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔ بعد میں ذوالفقار علی بھٹو نے ملکی سیاست میں قدم رکھا تو وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن بنے اور اپنے فہم و تدبر اور سیاسی شعور کے سبب قیادت کے قریب ہوگئے۔ انھیں پارٹی منشور اور پروگرام سازی کرنے کا موقع ملا اور اسی دور میں ان کا جریدہ نصرت پارٹی کا ترجمان بن گیا۔ جولائی 1970ء میں حنیف رامے نے روزنامہ مساوات جاری کیا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لاہور سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد میں‌ وزیر خزانہ اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ پی پی پی سے یہ رفاقت 1976ء میں‌ اختلافات کے سبب ختم ہوگئی۔ 1988ء میں دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کے منصب پر فائز ہوئے۔

    اس سیاسی ہنگام اور مصروفیات کے دوران حنیف رامے نے تخلیقی کاموں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ وہ متعدد کتب کے مصنف تھے۔ ان میں پنجاب کا مقدمہ، اسلام کی روحانی قدریں: موت نہیں زندگی اور ان کی نظموں کا مجموعہ دن کا پھول سرِفہرست ہیں۔

    حنیف رامے نے مصوّری میں بھی نام کمایا اور انھیں‌ خطاطی کے فن میں‌ نئے دبستان کا بانی بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

    وفات کے بعد انھیں‌ لاہور کے ایک قبرستان ڈیفنس میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    حنیف رامے، ایک سچا فن کار

    اس کی شخصیت کی کئی جہتیں تھیں۔ وہ سیاست داں، صحافی، ادیب، مقرر، نقاد، دانش ور، خطاط، مصور بھی تھا اور ایک ناشر بھی تھا۔

    پھر یہ بھی کہ اس نے ہر شعبے یا ہر میدان میں نام وری اور مقام حاصل کیا، لیکن ان کام یابیوں اور کام رانیوں کے باوجود اس کی تحمل مزاجی اور میانہ روی میں فرق نہیں آیا۔

    وہ دھیمے مزاج اور لہجے میں بات کرتا تھا اور سوچ سمجھ کر بولتا تھا۔ اقتدار میں بھی رہا، مگر اسے اقتدار کا وہ نشہ نہیں چڑھا جو انسان کو انسان سے دور لے جاتا ہے۔ شہرت اور نام وری کے باوجود اس کا لوگوں سے رشتہ نہیں ٹوٹا۔ اس نے یاریاں بھی نبھائیں اور فرائض بھی پورے کیے۔

    زندگی بھر انسانی رشتوں پر یقین رکھا اور دوستوں کا دوست رہا۔ مجھ سے ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں برادرانہ تعلقات قائم ہوئے تھے جو آخر تک قائم و دائم رہے۔ حالاںکہ اس دوران برسوں ملاقات نہیں ہوتی تھی اور بات چیت میں بھی طویل وقفے آجاتے تھے۔ اس کے باوجود کبھی دوری کا احساس نہیں ہوا۔ جب کبھی ملاقات ہوتی یا ٹےلی فون پر بات ہو جاتی یا پھر خط آجاتا تو قربت و نزدیکی کا احساس قائم رہتا۔

    حنیف رامے کے بزرگوں اور بڑے بھائیوں کا کاروبار کتابوں کی نشر و اشاعت تھا، اس لیے تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد وہ بھی اس پیشے سے منسلک ہوگیا۔ نیا ادارہ اور مکتبۂ جدید کے زیرِ اہتمام شایع ہونے والی کتابوں کی تزئین و ترتیب کے ساتھ ساتھ سرورق بنانے کا کام اس کے سپرد ہوا اور اس طرح آرٹ سے بھی رشتہ جڑا رہا۔ پھر جب بھائیوں میں کاروبار کا بٹوارا ہوا اور رشید احمد چوہدری اور بشیر احمد چوہدری نے الگ الگ کتابوں کے اشاعتی سلسلے شروع کیے تو حنیف رامے نے بشیر احمد چوہدری کو ”میری لائبریری“ کے نام سے مکتبہ قائم کروایا اور خود ”البیان“ کے عنوان سے اشاعتی مکتبے کی ابتدا کی۔

    ایک بات حنیف رامے کے ذہن میں ہمیشہ رہی کہ کم قیمت کتابیں چھپنی چاہییں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ خریدیں اور کتابوں کی اشاعت وسیع پیمانے پر ہو۔ حنیف رامے نے صرف کتابیں چھاپی ہی نہیں بلکہ خود بھی لکھیں اور ایک ادیب کی حےثیت سے بھی نام پیدا کیا۔

    اس کی کتابوں میں ”پنجاب کا مقدمہ“ کو بڑی شہرت ملی اور دیگر صوبوں کے بعض ادیبوں نے اس کے جواب میں بھی بہت کچھ لکھا۔ اسی طرح اس کی کتاب ”دُبِ اکبر“ بھی بڑی توجہ کا مرکز رہی اور پھر زندگی کی آخری تصنیف ”اسلام کی روحانی قدریں موت نہیں زندگی“ کو تو علمی و ادبی حلقوں میں بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی۔

    حنیف رامے کا پسندیدہ موضوع معاشیات و اقتصادیات تھا اور اسی میں اس نے ایم اے کیا تھا۔ لہٰذا اس موضوع کی ایک کتاب کا ترجمہ بھی کیا تھا جو ”اقتصادی ترقی کا منظر اور پس منظر“ کے نام سے شایع ہوئی اور پھر ”اقبال اور سوشلزم“ مرتب کرکے شایع کی تھی۔ اس نے انگریزی میں ایک ناول بھی تحریر کیا۔ اس طرح دیکھیے تو وہ صرف ادب چھاپتا ہی نہیں رہا بلکہ اس کی تخلیق و تحریر میں بھی باقاعدہ شامل رہا۔

    (معروف ادیب اور صحافی شفیع عقیل کی کتاب سے ایک ورق)