Tag: حوثی باغی

  • حوثی باغیوں کی بارودی سرنگیں امدادی کاموں میں رکاوٹ بن گئیں

    حوثی باغیوں کی بارودی سرنگیں امدادی کاموں میں رکاوٹ بن گئیں

    صنعا: انسانی حقوق کی عالم تنظیم ‘ہیومن رایٹس واچ’ کا کہنا ہے کہ یمن میں متحارب حوثی باغی ملک کے مغربی ساحلی علاقوں میں اندھا دھند بارودی سرنگیں بچھا رہے ہیں جس کے نتیجےمیں نہ صرف امدادی آپریشن میں رکاوٹ پیداہوتی ہے بلکہ بڑی تعداد میں شہریوں کی جانی ضائع ہورہی ہیں۔

    عرب خبر رساں ادارے کے مطابق ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حوثی ملیشیا نے 2017ءکے وسط میں یمن کے مغربی ساحلی علاقوں میں بارودی سرنگیں نصب کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان بارودی سرنگیں کے دھماکوں میں سیکڑوں شہری جاں‌بحق یا زخمی ہوئے اور شہری بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو امدادی کاموں میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔

    "ہیومن رائٹس واچ” نے یمن میں‌حوثیوں کی بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے بارے میں ایک رپورٹ اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حوثی ملیشیا کی طرف سے زرعی زمینوں، دیہاتوں، تیل کے کنوؤں اور راستوں کے اطراف میں بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے نتیجے میں 140 شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔

    زیادہ تر ہلاکتیں الحدیدہ اور تعز شہروں میں‌ ہوئیں۔ ان میں 19 بچے شامل ہیں۔ یہ سنہ 2018ء کے اعدادو شمار ہیں۔ حوثیوں کی بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے باعث جنگ زدہ علاقوں میں شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے والی تنظیموں کو امدادی آپریشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

    ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر برائے ایمرجنسی ریلیف پروگرام پریانکا موتا پرتی نےکہا کہ حوثیوں کی شہری علاقوں اور آبادی کے اندر بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے باعث امدادی نہ صرف شہریوں کا جانی نقصان ہورہا بلکہ امدادی کارکنوں کی امدادی کارروائیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ حوثیوں کی بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے باعث شہری خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم ہو رہے ہیں۔

    انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہےکہ حوثیوں کی طرف سے بچھائی گئی بارودی سرنگوں کے ذریعے گاڑیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اس دوران ہونےوالے دھماکوں سے شہریوں کا جانی نقصان ہوتا ہے۔

  • حوثی باغی حدیدہ بندرگاہ جلد خالی کردیں گے، اقوام متحدہ کا دعویٰ

    حوثی باغی حدیدہ بندرگاہ جلد خالی کردیں گے، اقوام متحدہ کا دعویٰ

    صنعا: اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے یمن مارٹن گریفتھس نے دعویٰ کیا ہے کہ یمن کے متحارب فریقین چند ہفتوں کے اندر اندر حدیدہ سے اپنی فورسز نکال لیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن گریفتھس نے توقع ظاہر کی ہے کہ یمن کے متحارب گروپ ساحلی شہر حدیدہ اوربندرگاہ سے چند ہفتوں کے اندر اندر نکل جائیں گے اور علاقے کا کنٹرول اقوام متحدہ کے امن مشن کے سپرد کر دیا جائے گا۔

    عرب ٹی وی کے مطابق اقوام متحدہ کے ایلچی نے ایک بیان میں کہا کہ ابھی تک حدیدہ میں اقوام متحدہ کی فورسز کی تعیناتی کے طریقہ پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے تاہم ہماری کوشش ہے کہ یہ کام چند ہفتوں کے اندر اندر پایہ تکمیل تک پہنچ جائے۔

    مارٹن گریفتھس کا کہنا تھا حدیدہ سے انخلاء ہی چار سال سے جاری جنگ کےخاتمے اور مذاکرات کی بحالی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یمن می آئینی حکومت اور ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی حکومت نے حدیدہ میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے نفاذ سے اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ عن قریب حدیدہ سے اپنی فورسز نکال لیں گے۔

    یمن بحران: حدیدہ میں جنگ بندی کا معاہدہ کچھ دیر بعد ہی ختم ہوگیا

    ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں متحارب فریقین نے حدیدہ میں اقوام متحدہ کی فوج کی تعیناتی سے اتفاق کیا ہے، سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حدیدہ کے معاملے میں پیش رفت کے بعد ملک میں سیاسی عمل کے لیے مذاکرات کا آغاز ہوسکتا ہے۔

  • سعودی اتحادی افواج نے حوثی باغیوں کی ڈرون فیکٹری تباہ کردی

    سعودی اتحادی افواج نے حوثی باغیوں کی ڈرون فیکٹری تباہ کردی

    ریاض: سعودی اتحادی افواج نے یمن میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی جس کے باعث باغیوں کی ڈرون فیکٹری تباہ ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق حوثی باغی ڈرون کی مدد سے سعودی حدود میں فضائی حملے کرتے تھے، اتحادی افواج نے فضائی کارروائی میں ڈرون فیکٹری ہی تباہ کردی۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کا کہنا ہے کہ یہ فضائی کارروائی یمنی دارالحکومت صنعا میں کی گئی، جس کے باعث جنگی تنصیبات میں موجود دیگر جنگی ساز وسامان بھی تباہ ہوئے۔

    عسکری حکام نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ لڑاکا طیاروں نے حوثیوں کے ڈرون تیار کرنے والے ایک پلانٹ اور ایک اسٹور پر بمباری کی، اور باغیوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔

    اس حملے میں متعدد جنگجوؤں کی ہلاکتوں کا بھی امکان ظاہر کیا گیا ہے، البتہ اس حوالے سے فوری طور پر تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

    سعودی اتحادی افواج کے ترجمان ترکی المالکی کا کہنا ہے کہ حوثی ملیشیا کو ان جدید جنگی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے باز رکھا جائے گا۔

    انہوں نے واضح کیا کہ شہریوں کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور اہم تنصیبات اور علاقوں کو ڈرونز کے حملوں کے خطرے سے محفوظ کیا جائے گا۔

    حوثی باغیوں کی سعودی عرب پر ڈرون حملے کی کوشش ناکام، 6 افراد زخمی

    خیال رہے کہ گذشتہ دنوں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی جانب بھیجا گیا ڈرون فضا میں ہی تباہ کردیا گیا تھا، البتہ 6 افراد زخمی ہوئے تھے۔

  • عرب اتحاد نے سعودی عرب کے قریب حوثی باغیوں کے 2 ڈرون طیارے مار گرائے

    عرب اتحاد نے سعودی عرب کے قریب حوثی باغیوں کے 2 ڈرون طیارے مار گرائے

    مریاض: عرب اتحادی فورسز نے سعودی عرب کے قریب حوثی باغیوں کے 2 ڈرون طیارے مار گرائے، آپریشن میں 5 افراد زخمی ہوئے۔

    عرب میڈیا کے مطابق یمن میں آئینی حکومت کی بحالی اور حوثی باغیوں کی سرکوبی کے لیے سرگرم عرب فوجی اتحاد نے حوثیوں کی طرف سے سعودی عرب کے شہر خمیس مشیط کی طرف بھیجے گئے دو ڈرون طیارے مار گرائے۔

    عرب فوجی اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے کہا ہے کہ سعودی محکمہ فضائی دفاع نے خمیس مشیط کی طرف اڑائے گئے حوثیوں کے دو ڈرون طیارے فضا میں ہی تباہ کردئیے۔

    انہوں نے کہا کہ حوثیوں کے ڈرون طیاروں کو تباہ کرنے کے آپریشن کے نتیجے میں جہازوں کے ٹکڑے آبادی پر آکر گرے جس کے نتیجے میں ایک بچے اور خاتون سمیت 5 افراد زخمی ہوئے، متعدد گھروں اور 4 گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔

    مزید پڑھیں: حوثی باغیوں کی سعودی عرب پر ڈرون حملے کی کوشش ناکام، 6 افراد زخمی

    عرب اتحادی فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حوثی باغی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ڈرون طیاروں، بارود سے لدی کشتیوں اور دیگر ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔

    کرنل ترکی المالکی کا کہنا تھا کہ حوثیوں کی یہ تمام کارروائیاں گزشتہ برس دسمبر میں سوئیڈن کی میزبانی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بھی حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی جانب بھیجا گیا ڈرون فضا میں تباہ کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں 6 افراد زخمی ہوئے تھے۔

  • عرب اتحادی فوج کی حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری، 45 جنگجو ہلاک

    عرب اتحادی فوج کی حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری، 45 جنگجو ہلاک

    صنعا: عرب اتحادی فوج نے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 45 جنگجو ہلاک ہوگئے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عرب اتحادی فوج کی جانب سے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں 45 جنگجو ہلاک ہوگئے، عرب اتحاد نے شمالی الضالع میں مریس کے محاذ پر جبل نصی میں باغیوں کے متعدد ٹھکانے تباہ کردئیے۔

    عرب اتحاد نے الضالع گورنری کے شمال مغربی علاقے العود میں حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 19 باغی ہلاک، 55 زخمی ہوگئے۔

    یمن کی سرکاری فوج نے مریس کے محاظ پر الزیلہ کے مقام پر حوثیوں کے ٹھکانوں پر ایک بڑا حملہ کیا جس کے نتیجے میں 26 باغی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

    دوسری جانب شمال مغربی حجی گورنری میں عبس کے مقام پر سرکاری فوج نے ایک کارروائی میں 39 حوثی باغیوں کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: عرب اتحادی فوج کی بمباری، 30 حوثی باغی ہلاک

    دوسری جانب یمن کے ذرائع ابلاغ کے مطابق الضالع اور اب گورنری میں سرکاری فوج اور حوثی باغیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے، طویل لڑائی کے بعد حوثی باغیوں نے مشرقی النادرہ ڈائریکٹوریٹ پر قبضہ کرلیا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کارروائی کے بعد حوثی باغیوں نے جنگجوؤں کی بڑی تعداد جمع کی اور تین بریگیڈ مریس طلب کیے، مریس منگوائے گئے باغی حجور قبائل کے خلاف لڑائی میں پیش پیش رہے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں کشر ڈائریکٹوریٹ میں عرب اتحادی فوجیوں نے باغیوں کے ٹھکانوں پر بم گرائے جس کے  نتیجے میں 30 حوثی باغی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

  • یمن کی موجودہ صورت حال سے کیسے نمٹیں؟ اقوام متحدہ کا اہم اجلاس

    یمن کی موجودہ صورت حال سے کیسے نمٹیں؟ اقوام متحدہ کا اہم اجلاس

    نیویارک: یمن میں خانہ جنگی کا حل نکالنے اور موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کا اہم اجلاس ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق یمن میں مقامی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے ہے تاہم اس کے باوجود دوطرفہ حملوں کو سلسلہ جاری ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یمن میں مذکورہ جنگ بندی معاہدے کو بچانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا۔

    اجلاس بند کمرے میں ہوا جبکہ اجلاس سے متعلق تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں، غیرملکی میڈیا کے مطابق سلامتی کونسل کے اراکین نے معاہدے کو بچانے کے لیے ہرممکن اقدامات پر زور دیا ہے۔

    اجلاس میں خصوصی مندوب برائے يمن مارٹن گرفتھس بھی شریک تھے، جو یمن میں فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی پر مسلسل آواز بلند کررہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے شدید تشویش کے باوجود حملوں کا سلسلہ جاری ہے، رواں ہفتے حوثی باغیوں نے سعودی شہر پر ڈرون سے حملہ کرنے کی کوشش کی جسے سعودی دفاعی نظام نے ناکام بنا دیا تھا۔

    یمن میں جنگ بندی امن کی جانب پہلا قدم ہے: مندوب اقوام متحدہ

    دوسری جانب سعودی اتحادی افواج نے گذشتہ روز یمن میں فضائی بمباری کی جس کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت 22 عام شہری مارے گئے تھے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں یورپی ملک سویڈن میں اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے امن مذاکرات میں دونوں فریقن کے درمیان حدیدہ شہر میں جنگ بندی سمیت کئی نکات پر اتفاق ہوا تھا جس کے بعد یمن میں گذشتہ کئی برسوں سے جاری جنگ کے ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی۔

  • یمن: سعودی اتحادی افواج کا ایک بار پھر فضائی حملہ، 22 عام شہری ہلاک

    یمن: سعودی اتحادی افواج کا ایک بار پھر فضائی حملہ، 22 عام شہری ہلاک

    صنعا: سعودی اتحادی افواج کی جانب سے ایک بار پھر یمن میں فضائی بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں 22 عام شہری مارے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق یمنی صوبے حجہ میں فضائی بمباری کے باعث بائیس عام شہری ہلاک ہوگئے، جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی اتحاد نے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا البتہ اس حملے میں یمنی شہری بھی مارے گئے۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے یمن لیزا گرینڈ کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والے کئی بچوں کو دارالحکومت صنعا بھیجا گیا ہے جہاں انہیں طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔

    سعودی اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے حملے کے حوالے سے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا، جبکہ اقوام متحدہ نے انسانی جانوں کے ضیاع پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

    رواں ہفتے حجہ کے شہر کشر سے تقریباً پانچ ہزار خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا تھا، حوثی باغیوں نے مذکورہ علاقے میں کئی ٹھکانے قائم کررکھے ہیں۔

    سعودی عسکری اتحاد کا فضائی حملہ، 10 عام شہری ہلاک

    خیال رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں عرب اتحاد کے جنگی طیاروں نے یمن کی سمندری حدود میں ماہی گیروں کی کشتی پر فضائی بمباری کی تھی جس کی زد میں آکر 18 ماہی جاں بحق ہوگئے تھے۔

    یاد رہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے جنگ بندی کے اعلان کے باوجود سعودی عسکری اتحاد کے فضائی حملے میں 10 عام شہری ہلاک ہوگئے تھے۔

  • عرب اتحادی فوج کی بمباری، 30 حوثی باغی ہلاک

    عرب اتحادی فوج کی بمباری، 30 حوثی باغی ہلاک

    ریاض: یمن کی حجتہ گورنر میں عرب اتحادی فوج کی بمباری کے نتیجے میں 30 حوثی باغی ہلاک ہوگئے۔

    عرب میڈیا کے مطابق کشر ڈائریکٹوریٹ میں عرب اتحادی فوجیوں نے باغیوں کے ٹھکانوں پر بم گرائے جس کے نتیجے میں 30 حوثی باغی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

    یمن کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ کشر میں المندلہ کے مقام پر حوثی باغیوں کو اسلحہ تقسیم کیا جارہا تھا کہ اس دوران عرب اتحادی فورسز نے بمباری شروع کردی، بمباری کے دوران اسلحہ سے لدی متعدد گاڑیاں بھی تباہ ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: یمن: حوثی باغیوں اور فورسز کے درمیان چھڑپیں، 29 افراد ہلاک

    واضح رہے گزشتہ روز اسی علاقے میں اتحادی فوج نے حوثیوں کو لے جانے والی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا جس میں متعدد جنگجو ہلاک اور زخمی ہوگئے تھے۔

    یاد رہے کہ فروری کے اوائل سے اب تک حجتہ میں حجور قبائل اور باغیوں کے درمیان جاری لڑائی کے دوران 500 سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں حوثی باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں 29 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق تين سال سے زائد عرصے سے جاری يمنی جنگ ميں دس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہيں، فریقین کے درمیان مذاکرات بھی کسی کام نہ آئے۔

  • حوثی باغیوں کے حملے میں زخمی ہونے والے یمنی فوج کے نائب سربراہ جاں بحق

    حوثی باغیوں کے حملے میں زخمی ہونے والے یمنی فوج کے نائب سربراہ جاں بحق

    ریاض: حوثی باغیوں کے حملے میں زخمی ہونے والے یمنی فوج کے نائب سربراہ میجر جنرل صالح زندانی جاں بحق ہوگئے۔

    عرب میڈیا کے مطابق وزیر اطلاعات عمر الاریانی نے تصدیق کی کہ العند بیس پر ہونے والے حملے میں زخمی ہونے والے میجر جنرل صالح زندانی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ یمن میں 10 جنوری کو ملٹری بیس میں ہونے والی پریڈ کے دوران ہونے والے ڈرون حملے میں جنرل صالح زندانی سمیت 11 افراد زخمی ہوئے تھے۔

    حوثی باغیوں کے حملے میں میجر جنرل صالح زندانی سمیت یمن کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔

    مزید پڑھیں: سعودی دفاعی نظام نے حوثی باغیوں کا میزائل مار گرایا

    دوسری جانب عرب اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں کا ایک ڈرون مار گرایا ہے اور ان کے فضائی کیمپوں پر حملے کیے ہیں۔

    عرب اتحاد کے ترجمان کے مطابق عرب اتحاد کے لڑاکا طیاروں نے یمن کے دارالحکومت صنعا کے نواح میں پرزوں سے جوڑ کر ڈرون بنانے کے ماہرین اور ان کی ذخیرہ گاہوں کو فضائی حملوں میں نشانہ بنایا ہے اور اس دوران میں شہریوں کے جانی نقصان سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے۔

    عرب اتحاد کے مطابق حوثیوں نے ساحلی شہر الحدیدہ کے مشرق میں فوجی کیمپ قائم کردئیے ہیں اور یہ سویڈن میں دسمبر میں طے شدہ جنگ بندی کے سمجھوتے کی خلاف ورزی ہے۔

    عرب اتحاد کے مطابق حوثی باغی یمن میں سرکاری فوج کے خلاف جنگ کے لیے بچوں کو بھرتی کررہے ہیں۔

  • یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن میں جنگ کے بھڑکتے شعلوں کو اب تین سال بیت چکے ہیں، یہ جنگ اس عرب بہار کے نتیجے میں رونما ہوئی جو کہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے خون آلود بہار ثابت ہوئی ہے۔ یمن میں تنازعے کی ابتدا ہوئی 2011 میں جب طویل عرصے سے مسند حکومت پر فائزعلی عبداللہ الصالح کو عوامی دباؤ کے نتیجے میں اقتدار اپنے نائب منصور ہادی کو سونپنا پڑا۔

    نئے صدر ہادی کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ القائدہ کے حملے، جنوبی یمن میں جاری علیحدگی پسند تحریک، فوجی حکام کی سابق صدر سے وفاداریاں اور ان کے ساتھ ساتھ کرپشن ، بیروزگاری اور امن و امان کے مسائل شامل تھے ۔

    [bs-quote quote=”عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    آگے بڑھنے سے قبل ہم ایک نظر ڈالتے ہیں یمن کے جغرافیے اور وہاں کے سماجی ڈھانچے پر جس کا اس جنگ میں انتہائی اہم کردار ہے۔یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکز کی اہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج ایک ایسی آگ میں جھلس رہا ہے جس کے سدباب کا مستقبل قریب میں دو ر دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔

    [bs-quote quote=”یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد 56 فی صد جب کہ زیدی شیعوں کی 42 فی صد ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    چلیں اب واپس چلتے ہیں ماضی کے منظر نامے کی طرف جس سے ہمیں واپس حال میں آنے میں مدد ملے گی۔ عبد اللہ صالح کے دور اقتدار میں حوثی قبائل جو کہ زیدی شیعوں پر مشتمل ہیں ، انہوں نے مرکزی حکومت کے ساتھ پہلے سے جنگ چھیڑ رکھی تھی ، جیسے ہی عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی ، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔

    جنگ کے شعلے عروج پر


    اسی عرصے میں سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والا کثیر القومی اتحاد یمن کے تنازعے میں مداخلت کرتا ہے ، یہ وقت ہے مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔

    حوثی قبائل کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران کی حمایت اور مدد حاصل ہے جس کے سبب خطے کے سنی ممالک میں تشویش پیدا ہونا یقیناً ایک قابلِ فہم بات تھی اور اسی سلسلے میں سعودی اتحاد نے یمن پر فضائی حملے شروع کیے کہ کسی طرح یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کردیا جائے ۔ اس اتحاد کو امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات فراہم کی جاتی رہیں، جن کی بنا پر سعودی عرب نے چن چن کر یمن پر حملے کیے۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات کی مدد سے یمن پر مہلک فضائی حملے کیے۔ دوسری طرف حوثی قبائل کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کر دیا جائے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    سعودی اتحاد اگست 2015 میں جنوبی یمن کے ساحلی شہر عدن میں داخل ہوتے ہوئے حوثی قبائل اور ان کے حواریوں سے شہر کا تسلط لے کر اٹھے اور ہادی عدن نامی شہر میں اپنی عارضی حکومت بنانے میں کام یاب ہوگیا، حالاں کہ وہ تاحال یمن واپس نہیں آ ئے ہیں۔

    عدن کو چھڑائے جانے کے باوجود ابھی تک صنعا پر حوثیوں کا تسلط برقرار ہے اور جنوبی شہر تیز بھی ان کے تسلط میں ہے جہاں سے وہ سعودی عرب کی سرحدوں میں میزائل فائر کرتے ہیں۔ حوثیوں کی جانب سے کیے جانے والے ان میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔

    بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سارے خونی منظر نامے میں دو فریق اوربھی ہیں اور ان میں سے ایک ہے القائدہ ( عرب ) اور اسی کے متوازی دولتِ اسلامیہ کے حمایت یافتہ جہادی گروپ، یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے سابق صدرصالح کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیا اور بعد میں بھی ہادی کی حکومت کے لیے وبالِ جان بنے رہے ۔ انہوں نے جنوبی یمن میں علاقوں پر قبضے کیے اور بالخصوص عدن میں ایسے خون آشام حملے کیے ہیں کہ آسمان لرز اٹھا۔

    [bs-quote quote=”حوثی قبائل کے میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا، دوسری طرف القائدہ اور دولتِ اسلامیہ نے سعودی اتحاد کے زیرِ قبضہ علاقے عدن میں بے پناہ تباہ کن حملے کیے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جہاں ایک جانب یہ سارے عناصر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوکر یمن کو دنیا کی برباد ترین ریاست میں تبدیل کررہے ہیں وہی نومبر 2017 میں یمنی دار الحکومت صنعا پر ہونے والے بیلسٹک میزائل حملے نے سعودی عرب میں تشویش کی لہر دوڑادی جس کے بعد یمن کا محاصرہ شدید ترین کردیا گیا جس سے وہاں دنیا کی تاریخ کا بد ترین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ سعودی اتحاد کا مؤقف ہے کہ وہ اس محاصرے سے یمن کے باغیوں کو ایران کی جانب سے اسلحے کی سپلائی کی روک تھام کر رہا ہے جب کہ تہران اس الزام کی ہمیشہ سے تردید کرتا آیا ہے۔

    سعودی اتحاد کا کچھ بھی مؤقف ہو لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پابندیوں سے ایک ایسا انسانی قحط جنم لے رہا ہے جو کہ دنیا نے کئی دہائیوں سے نہیں دیکھا ہے۔ تین سال کے عرصے میں اقوام متحدہ کی جانب سے قیام امن کے لیے کئی بار مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار ایسی تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہوئیں۔

    طویل عرصے بعد اس سارے منظر نامے میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ کچھ دن قبل امریکا نے جنگ کے دونوں مرکزی فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ بند کرکے تیس دن کے اندرمذاکرات کی میز پر آئیں ۔ امریکی وزیردفاع جم میٹس کی جانب سے سامنے آنے والے اس مطالبے کی برطانیہ نے بھی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات ہی اس تنازعے کا واحد حل ہیں۔

    [bs-quote quote=”ایک طرف امریکا نے یمن میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے، دوسری طرف سعودی اتحاد نے تباہ کن حملوں میں مزید شدت پیدا کر دی ہے، تیسری طرف شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جنوبی یمن سے علیحدگی کا پھر مطالبہ شروع کر دیا ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اس مطالبے کے ساتھ ہی حکومتی افواج اور سعودی اتحاد کی جانب سے حوثی قبائل کے خلاف کارروائیوں میں انتہائی شدت آگئی ہے اور لگتا یہ ہے کہ وہ قیام امن کے مذاکرات سے پہلے حوثیوں کو فیصلہ کن ضرب دینا چاہتے ہیں۔ یمن کی حکومت کے لیے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ 1990 میں جنوبی یمن سے الحاق کرنے والے شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جو کہ اب تک حوثیوں کے خلاف حکومت کے ہمراہ صف آرا تھے ، اب انہوں نے ایک بار پھر جنوبی یمن سے علیحدگی کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ اب مذاکرات کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسندوں کا معاملہ بھی سامنے رہے گا۔ اس تمام تر منظرنامے میں لگتا تو یہ ہے کہ یمن کےعوام کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں اور قیام امن کے لیے ابھی ایک طویل سفر ہے جو یمن کے شہریوں نے طے کرنا ہے۔

    یمن جنگ کے انسانی زندگی پراثرات


    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔ اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    [bs-quote quote=”اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    حرف ِآخر


    ان سارے عوامل کے پیشِ نظر ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے ، بصورت دیگر مشرقِ وسطیٰ کا یہ دوسرا بڑا عرب ملک ، مسلم حکمرانوں کی ان بین الاقوامی سطح کی بے وقوفیوں کا شکار بن کربالکل ہی برباد ہوجائے گا۔ مسلم حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ عرب بہار کے نام پر اس خطے کے انسانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ عالمی طاقتوں کی سجائی ہوئی بساط ہے اور اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ خطے کے عوام اسلحے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ اور ان فیکٹریوں کے مالکان کی عیاشیوں کی قیمت اپنے لہو سے ادا کررہے ہیں۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    وزیراعظم پاکستان اپنے دورۂ سعودی عرب کے بعد اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ سعودی عرب اگرچاہے تو پاکستان یمن کے تنازعے میں مصالحت کار کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ امریکی مطالبہ بھی یہی ہے کہ فریقین مذاکرات کی میز پر آئیں تو سعودی عرب کے لیے یہ سب سے اچھا موقع ہے کہ یمن کی اس بے مقصد جنگ سے وہ خود کو باہر نکال لے،بہ صورتِ دیگر وہ یہاں گردن تک دھنس چکا ہے اور فی الحال اس کے باہر نکلنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا۔

    جاتے جاتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ کئی سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس کا عنوان ’قیامتِ صغرا ‘تھا۔ مؤلف کا نام ابھی یاد نہیں آرہا ہے لیکن کتاب میں احادیث کے حوالے سے وہ علامات جمع کی گئیں تھیں جن کا قیامت سےپہلے ظہور ہونا ہے۔ انہی میں سے ایک یہ بھی تھی کہ عدن( یمن ) کی گہرائیوں میں سے ایک ایسی ہولناک آگ برآمد ہوگی جو سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ محض چند سال کے بعد ہی قیامت کی وہ علامت مجسم ہوکر سامنے آچکی ہے اور اب یہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں یا مزید تیل ڈال کراسے پورے خطے میں پھیلادیتے ہیں۔