Tag: حوثی قبائل

  • حوثیوں کا سعودی ایئرپورٹ ابھا پر حملہ، ۹ افراد زخمی

    حوثیوں کا سعودی ایئرپورٹ ابھا پر حملہ، ۹ افراد زخمی

    صنعاء: یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کےابھا ایئرپورٹ پرایک بار پھر حملہ کیا ہے۔ باغیوں کی جانب سے کے گئے حملے میں اب تک افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حکام نے بتایاکہ حملے میں 9 افراد زخمی ہوگئے، جن میں 8 سعودی جبکہ ایک بھارتی شہری شامل ہے۔ سعودی حکام تاحال یہ پتا نہیں لگا سکے ہیں کہ آیا یہ میزائل داغے گئے ہیں ، یا ڈرون حملہ ہے۔

    اس حوالے سے سعودی حکام کی جانب سے ابھی کوئی واضح اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے ، خیال کیا جارہا ہے کہ حوثیوں نے اس حملے میں ڈرونز کا استعمال کیا ہے۔

    بتایا جارہا ہے کہ یہ حملہ رات گئے کیا گیا تھا۔زخمی ہونے والے تما م افراد کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اور سعودی خبر رساں ادارے کے مطابق ایئرپورٹ پر فضائی آپریشن بحال کردیا گیا ہے۔

    گزشتہ مہینے بھی حوثی قبائل کی جانب سے سعودی عرب کےابھا ایئرپورٹ پر کیے گئے ایک میزائل حملے میں ایک شخص جاں بحق اور 21 زخمی ہوگئے تھے۔

    گزشتہ روز بھی حوثی باغیوں نے سعودی حدود میں دو ڈرون طیارے بھیجے تھے ، تاہم بروقت کارروائی کرتے ہوئے سعودی اتحادی افواج نے ڈرون فضا میں ہی تباہ کردیے تھے ۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ حوثیوں نے ڈرون کے ذریعے سعودی شہر عسیر اور جازان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔

    اتحادی افواج کے ترجمان ترکی المالکی کا کہنا ہے کہ حوثی باغی مسلسل سعودی عرب کے شہری آبادی کو نشانہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

    یاد رہے کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی قبائل میں خطے کی بدلتی ہوئی سیکیورٹی صورت حال کے پیش نظر یمن سے سعودی عرب پر حملے تیز کردیے ہیں۔ حوثی قبائل ایک ترجمان نے غیر ملکی خبررساں ادارےسے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جانب سے ایک بڑا آپریشن جاری ہے جس میں سعودی عرب کے ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

  • یمن میں قیام امن کے لیے کاوشیں رنگ لانا شروع ہوگئیں

    یمن میں قیام امن کے لیے کاوشیں رنگ لانا شروع ہوگئیں

    یمن میں کئی سالوں سے دہکتی ہوئی آگ بالاخر دھیمی پڑتی نظر آرہی ہے کہ حوثی قبائل اور یمن کی حکومت نے پورٹ سٹی حدیدہ سے فوجیں نکالنے کے پر رضا مندی ظاہر کردی ہے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس ڈیل تک آجانا جنگ کے خاتمے کی جانب پہلا قدم ہے۔

    یمن میں حوثی قبائل اور یمنی حکومت گزشتہ چار برس سے زائد عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں ۔ خانہ جنگی نے عرب دنیا کے اس دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کو تباہی کی اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ دنیا کی تاریخ کا سب سے شدید قحط یہاں پڑنے جارہا ہے۔ یمنی حکومت کی پشت پر سعودی اتحاد موجود ہے اور حوثی قبائل کی مدد کے لیے ایران کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔

    [bs-quote quote=”
    یمن کے 37 لاکھ عوام کے لیے اناج ساحل پر جہاز میں پڑے پڑے خراب ہورہا ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    گزشتہ سال دسمبر میں سویڈن میں ہونے والے مذاکرات میں ہونے والی جنگ بندی کی ڈیل کے نتیجے میں دونوں متحارب پارٹیوں کی جانب سے حدیدہ سے فوجیں نکالنے پر پہلی بار رضامندی ظاہر کی گئی تھی ، تاہم دونوں کی جانب سے اس کے لیے کوئی مدت طے نہیں کی گئی تھی۔

    پورٹ کی حوالگی پراتفاق

    اقوام متحدہ کا ایک بحری جہاز جس میں یمن کے بھوک سے بے حال شہریوں کے لیے اتنااناج موجود ہے کہ کم ازکم ایک ماہ کی ضرورت کو پورا کرسکے۔ حدیدہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہے لیکن شہر میں امن وامان کی سنگین صورتحال کے سبب اس کے عملے کو شہر میں جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔

    یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    قیامتِ صغریٰ: امن سے یمن تک

    یمنی عوام کی فریاد خدا تک پہنچ رہی ہے، پوپ فرانسس

    اس مسئلے کے حل کے لیے سویڈن سے ہی تعلق رکھنے والے مائیکل لولیز گارڈ نے ، جو کہ اقوام متحدہ کے مبصر مشن کے سربراہ بھی ہیں، انہوں نے تجویز دی تھی کہ دونوں پارٹیاں شہر اور بندرگاہ کو اقوام متحدہ کے حوالے کردیں تاکہ یمنی عوام کے لیے بیرونی دنیا تک رسائی حاصل کرسکیں۔

    ابتدائی طور پر اس معاملے پر اتفاق کرلیا گیا ہے اور اب دونوں پارٹیوں کے وفود اپنی قیادت سے مشاورت کررہے ہیں۔ اگر قیادت کی جانب سے گرین سگنل مل جاتا ہے تو دونوں متحارب فریق آئندہ ہفتے اس معاملے کو حتمی شکل دینے کے لیے ملاقات کریں گے۔

    یمن میں انسانی المیہ

    اس پیش رفت کو طویل عرصے سے جاری یمن جنگ کے خاتمے کی جانب پہلا قدم قرار دیا جارہا ہے ، چار سال سے جاری اس جنگ میں اب تک اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    اقوام متحدہ کی امداد کا کیا ہوگا؟

    ایک جانب جہاں حدیدہ سے فوجیں نکالنے کے معاملے پر پیش رفت ہورہی ہے ، وہیں یمنی شہریوں کے لیے اناج لےکر آنے والے اقوام متحدہ کےجہاز کا معاملہ جوں کا توں ہے۔ اقوام متحدہ کے امداد مشن کے سربراہ مارک لوکوک نے حوثیوں سے درخواست کی تھی کہ وہ ’ریلیف گروپس ‘ کو فرنٹ لائن عبور کرکے حدیدہ کے یمنی حکومت کے زیر اہتمام علاقے تک جانیں دیں جہاں وہ ملیں موجود ہیں جن میں اس اناج کوعوام کے لیے کھانے کے لائق بنایا جاسکے۔

    [bs-quote quote=”سعودی عرب اور یواے ای کو یقین نہیں کہ حوثی قبائل پورٹ سے دست بردار ہوں گے” style=”style-7″ align=”right”][/bs-quote]

    اقوام متحدہ کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ اس اناج سے یمن کے 37 لاکھ عوام کو ایک ماہ تک غذا کی فراہمی کی جاسکتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ اناج خراب ہورہا ہے، اوراگراسے فی الفور ملز تک نہیں پہنچایا گیا تویہ سب ضائع ہوجائے گا۔

    حوثی قبائل فی الحال اقوام متحدہ کے مشن کو فرنٹ لائن عبور کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی سیکیورٹی کی ذمہ داری نہیں لے سکتے ہیں۔ لہذا یمن کے شہریوں کے لیے فی الحال کوئی حوصلہ افزا خبر نہیں ہے۔ا س وقت یمن میں دس لاکھ سے زائد افراد شدید ترین غذائی بحران کا شکار ہیں اور اگر آئندہ ہفتے مذاکرات میں پیش رفت نہ ہوئی تو یہ صورتحال یمن کے باسیوں کے لیے ایک اور قیامت کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

    یمن کےامن میں عالمی کردار

    اس سارےمنظر نامے میں امریکی حکومت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس نے دونوں فریقین پر زور دیا تھا کہ وہ جنگ بندی کرکے معاملے کا حل بات چیت کے ذریعے نکالیں۔ امریکا اس سے قبل سعودی اتحاد کی حمایت کرتا رہا تھا، جس کے پس منظر میں ا مریکا کے ایران کے خلاف عزائم کارفرما تھے ۔ حوثی قبائل ایران کا ایک ملٹری ایڈونچر سمجھے جاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے لبنان میں حزب اللہ، لیکن حزب اللہ کو علی الاعلان ایران کی حمایت حاصل ہے لیکن حوثیوں کےمعاملے ایران اس الزام کی نفی کرتا ر ہاہے۔

    حال میں دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکا اب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے جنگی معاملات سے دست بردار ہورہا ہے ، اور اسی سبب وہ افغانستان میں بھی طالبان سے مذاکرات کرکے اپنے انخلاء کی مدت طے کرچکا ہے، یعنی اب سعودی اتحاد کو اس جنگ میں امریکا کی حمایت زیادہ عرصے تک حاصل نہیں رہنے والی اور امریکا کی مدد کے بغیر یمن کی حکومت اور سعودی اتحاد کے لیے حوثیوں کا مقابلہ کرنا کوئی آسان نہیں ہوگا۔ اسی صورتحال کے پیشِ نظر یمنی حکومت مذاکرات کی میز پر آئی ہے اور حوثی قبائل بھی نصف دہائی سے جاری اس جنگ میں اب تھکن کا شکار ہوچکے ہیں بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب خطے پر تاریخ کے بد ترین قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہو، تو جنگ بندی فریقین کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرچکی ہے۔

    [bs-quote quote=” امریکا اب عالمی منظرنامے پر پھیلے اپنے جنگی منصوبے ختم کررہا ہے جس کے اثرات اس کے اتحادیوں پر مرتب ہوں گے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تاحال اس سارے امن عمل کو مشکوک نگاہوں سےدیکھ رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ حوثی قبائل اتنی آسانی سے اپنے زیر اثر پورٹ سے دست بردار نہیں ہوں گے، ان کے لیے یہ پورٹ ٹیکس وصولی اور یمن کی تمام تر ایکسپورٹ کی آمد و رفت پر اپنی بالادستی کا مرکز ہے۔

    اگر آئندہ ہفتے ہونے والی ملاقات میں دونو ں فریقین حدیدہ کی بندرگاہ کو اقوام متحدہ کے حوالے کرکے اپنی افواج وہاں سے نکالنے کی تاریخ مقرر نہیں کرتے تو یمنی عوام جو پہلے ہی اس جنگ میں اپنا گھر بار ، معیشت اور خاندان ہر شے سے محروم ہوچکے ہیں، ان کے لیے ابتلا کا دور مزید وسیع ہوگا اور یہی ابتلا انہیں اپنے اپنے خطوں میں بر سر اقتدار حوثی قبائل اور یمنی حکومت کے خلاف ایک عوامی جنگ چھیڑنے پر بھی آمادہ کرسکتی ہے۔

  • یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن مشرقِ وسطیٰ کا وہ رستا ہوا زخم ہے جو اب اس حالت میں آگیا ہے کہ اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج بھی ہوسکتا ہے، اس منظرنامے میں سویڈن سے اچھی خبر یہ آئی ہے کہ آئینی حکومت اور برسرِ پیکارِ حوثیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئےہیں۔

    بتایا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر کیے جارہے تھے ، جن میں سے تین پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ دو پر حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ یمن کی آئینی حکومت اور فی الحال ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ان حوثی قبائل کے درمیان کن نکات پر اتفاقِ رائے ہوسکا ہے اور کون سے موضوعات ابھی بھی سرد خانے کی نظر ہوئے؟ اس پر ہم بعد میں نظر ڈالتے ہیں ، پہلے یہ دیکھ لیں کہ یمن تنازعہ آخر ہے کیا اور اس کی عالمی منظر نامے پر کیا اہمیت ہے۔

    یمن جنگ کا پس منظر


    یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکزکیاہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج کئی سال سے جنگ کی عبرت ناک آگ میں جھلس رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے عالمی طاقتیں رواں سال سامنے آئیں اور مملکت میں متحارب دونوں گروہوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا گیا۔

    القاعدہ کے حملوں سے بے حال اس ملک میں عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا اور عبد اللہ صالح کے بعد یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔ اس صورتحال سے القاعدہ نے بھی فائدہ اٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ داعش نے بھی اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی لیکن مجموعی طور پر میدان حوثی قبائل کے ہاتھ رہا۔

    مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد حوثی قبائل کو شکست دینے اور ہادی کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے حملے شروع کرتا ہے جس کے نتیجے میں آئینی حکومت عدن نامی علاقہ چھیننے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن ملک کا مرکزی علاقہ صنعا تاحال حوثی قبائل کے قبضے میں ہے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ایران ان کی درپردہ مدد کررہا ہے۔

    بد ترین انسانی المیہ


    اس ساری خانہ جنگی کے سبب یمن ایک ایسے انسانی المیے میں تبدیل ہوگیا جس کی جنگوں جدید تاریخ میں دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    آئینی حکومت اور حوثی قبائل کے درمیان امن معاہدہ


    سنہ 2016 میں ایک بار حوثی قبائل اور آئینی حکومت نے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم وہ مذاکرات بری طرح ناکام ہوئے اور فریقین ایک دوسرے کو مذاکرات کی ناکامی کا سبب گردانتے رہے ۔ دونوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے باوجود جنگ نہیں روکی گئی جس کے سبب مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ رواں سال سب سے پہلے امریکا نے معاملے کے دونوں فریقوں کو جنگ بند کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا گیا جس کی برطانیہ اور اقوام متحدہ دونوں کی جانب سے حمایت کی گئی۔ امریکا میں یمن کےمعاملے پر سعودی عرب کی حمایت ختم کرنا آپشن بھی موضوع ِ گفتگو رہا جس کے بعد بالاخر دسمبر 2018 میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات کے لیے سویڈن میں اکھٹے ہوئے۔

    یمن کی آئینی حکومت کا وفد پانچ دسمبر کو سویڈن آیا جبکہ حوثی قبائل کا وفد پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ مذاکرات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں منعقد ہوئے ، یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر ہورہے تھے جن میں ایئرپورٹ کا کنٹرول، قیدیوں کا تبادلہ ، معیشت کی بہتری، حدیدہ میں قیام امن اور بحیرہ احمر کنارے واقع القصیر کی بندرگاہ کا کنٹرول شامل ہیں۔

    ایک ہفتہ جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں بالاخر طے پایا ہے کہ صنعاء ایئر پورٹ سے ملکی پروازیں چلانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے پر طے پایا ہے کہ دونوں فریق قیدیوں کا تبادلہ کریں گے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر کو دوبارہ بحال کیا جائے گا تاکہ معیشت کا پہیہ چلے ۔ یہ تین نکات ایسے ہیں جن پردونوں فریق مکمل طور پرراضی ہیں لیکن اصل مسئلہ حدیدہ شہر اور اس سے جڑے پورٹ کا ہے جو کہ یمن کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینی حکومت چاہتی ہے کہ شہر کا اختیار ان کے پاس ہو جبکہ پورٹ کے معاملے پر فریقین اقوام متحدہ کی نگرانی پر رضامند ی کا اظہا رکررہے ہیں تاہم اس کا فارمولا طے ہونا باقی ہے۔ حوثی باغی چاہتے ہیں کہ حدیدہ شہرکوایک نیوٹرل حیثیت دی جائے ۔

    سنہ 2016 کے بعد سے اب تک یمن کے معاملے پر ہونے والی یہ سب سے بڑی پیش رفت ہے اور یمن کے عوام کے لیے اس وقت کی سب سے زیادہ مطلوبہ شے ، یعنی امن کیونکہ امن ہی وہ چابی ہے جس سے سارے راستے کھل جاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین اس معاہدے پر عمل درآمد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں، یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یمن صرف داخلی شورش کا شکار نہیں بلکہ سعوودی عرب اور ایران بھی اس ملک میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار کررہے ہیں اور اگر اس معاہدے سے ان دونوں طاقتوں کے مفادات پر ضر ب آتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ دونوں ممالک بھی ایسے معاشی دور سے گزر رہے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہی سب کے لیے بہتر ہے۔

  • ایران یمن کے حوثی قبائل کواسلحہ فراہم کررہا ہے،امریکہ

    ایران یمن کے حوثی قبائل کواسلحہ فراہم کررہا ہے،امریکہ

    واشنگٹن : امریکہ حکام کے مطابق ایران نے حال ہی میں یمن کے حوثی قبائل کو اسلحہ فراہم کیا ہے،جس کے باعث نو سال سے جاری جنگ میں مزید شدت اور طوالت کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجینسی کے مطابق اسلحہ کی فراہمی یمن میں قیام امن میں مزید رکاوٹوں کا باعث بنے گا،مزید میزائلوں کی فراہمی کا مطلب امریکہ کے لیے مزید درد سر ہے جنہوں نے حوثیوں کے ناکام حملے کے جواب میں پچھلے ہفتے ہی حوثی تنصیبات اور علاقوں کو نشانہ بنایا تھا۔

    غیر ملکی خبر رساں ایجینسی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اعلیٰ حکام نے بتایا ہے کہ حال ہی میں ایران کی جانب سے اسلحہ کی فراہمی براستہ عمان کی گئی ہے،ہمسائیہ ممالک عمان اور یمن کی غیرمحفوظ زمینی سرحد کا فائدہ اُٹھاتے ہوے اسلحے کی اسمگلنگ کو یقینی بنایا گیا ہے۔

    دوسری جانب عمان نے سرحد کے پار اسلحہ اسمگلنگ کے الزام کی بھر پورانداز میں تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمان سرکاری سطح پر اس قسم کی کسی بھی معاملے میں بین الاقوامی قوانین کی سختی سے پابندی کرتا ہے۔

    ایران بعض عرب اور یمنی حکام کے ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کر رہا ہے۔

    تاہم ایرانی حکومت حوثیوں کی جانب سے دارالحکومت پر قبضے کی مذمت سے بھی گریز کرتی آئی ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ یمنی بحران کے حل کے لیے ضروری ہے کہ صدر ہادی منصور حکومت چھوڑ دیں۔

    یمن اور عمان کی تردیدی بیانات کے باوجود امریکہ کی تشویش میں کمہ ہوتی نظر نہیں آتی،امریکی حکام نے ایرن اور عمان کے درمیان تعلقات بہتر بنانے والے مشترکہ دوست سے ایران کی شکایت بھی لگائی اورعمان کے کردار کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا۔

    ذرائع سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی حکام نے بتایا کہ ایران کی جانب سے براستہ عمان یمن کو اسلحہ فراہمی پرتشویش ہے اورامریکہ نے اپنے تحفظات سے متعلقہ حکام کو آگاہ کردیا ہے۔

    19 ماہ سے جاری خانہ جنگی کا اختتام کیا ہوتا ہے اس بحث سے قطع نظر یمن کی عوام کو نہایت مشکل اور دگرگوں حالت کا سامنا ہے جس کا جلد ہی کوئی نہ کوئی مثبت حل نکال لینے چاہیے ورنہ مزید نقصان کا خدشہ لگا رہے گا۔

     

  • یمن : حوثی قبائل اورفوج میں جھڑپوں کےنتیجے میں بیس فوجی ہلاک

    یمن : حوثی قبائل اورفوج میں جھڑپوں کےنتیجے میں بیس فوجی ہلاک

    صنعاء: یمن کے جنوبی صوبے شبوہ میں حوثی قبائل اورفوج میں جھڑپوں کےنتیجے میں بیس فوجی جان کی بازی ہار گئے.

    تفصیلات کے مطابق جھڑپوں کاآغازحوثی قبائل کےحکومتی پوزیشنز پرحملوں کےبعد ہوا،ملٹری کمانڈر کا کہنا ہے کہ حوثی قبائل کےحملےکےجواب میں فوج نے کارروائی کرتے ہوئےحوثی قبائل کےزیرقبضہ علاقوں کاکنٹرول حاصل کرلیاہے، تاہم جھڑپوں کےنتیجےمیں بیس فوجی مارے گئے.

    انڈسٹریل حب شبوہ خانہ جنگی کے باعث مفلوج ہوگیاہے،شبوہ میں حوثی قبائل اورحکومت کےدرمیان جاری کشمکش کے نتیجےمیں القاعدہ کو پنپنےکاموقع مل گیاہےاوراب شبوہ میں تینوں دھڑےبرسرپیکارہیں.

    واضح رہے کہ یمن میں جاری تنازع اب تک چھ ہزاردوسوافرادکی جان لے چکاہے،جبکہ خانہ جنگی کےباعث ملک کی معیشت اور انفراسٹرکچرتباہ ہوچکاہے.

  • یمن: حوثی قبائل کے خلاف فضائی حملوں میں 24 شہری ہلاک

    یمن: حوثی قبائل کے خلاف فضائی حملوں میں 24 شہری ہلاک

    یمن میں سعودی اتحاد کے ساٹھ فوجیوں کے ہلاکت کے ردعمل میں حوثی قبائل کے خلاف فضائی حملوں میں چوبیس شہری ہلاک ہوگئے۔

    حوثی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لینے والے اپنےساٹھ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد متحدہ عرب امارات کے جنگی طیاروں نے یمن میں کئی مقامات پر شدید بمباری کی جس سے چوبیس سے زائد شہری ہلاک ہوگئے اوررہائشی عمارتوں کوشدیدنقصان پہنچا۔

    ماریب میں اسلحہ خانے پر حوثی قبائل کے راکٹ حملے کے نتیجے میں ساٹھ فوجی ہلاک ہوئے تھےجس میں متحدہ عرب امارات کے پینتالیس فوجی ہلاک ہوئے جوکے متحدہ عرب عمارات کی عسکری تاریخ کا سب سے بڑا جانی نقصان ہے۔