Tag: حکایات

  • حضرت معروف کرخی اور مجبور آدمی

    حضرت معروف کرخی اور مجبور آدمی

    حضرت معروف کرخی کے زمانہ میں ایک شریف زادے پر کڑا وقت آ پڑا اور وہ دانے دانے کا محتاج ہو گیا۔ اسی عسرت کی حالت میں اس کے گھر میں ایک بچہ کی ولادت ہوئی۔ بیوی پہلے ہی فاقوں سے لاغر ہو رہی تھی اور زچگی کے بعد تو جیسے وہ نیم جاں‌ ہو گئی۔

    مزید حکایات اور سبق آموز واقعات پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    دایہ نے کہا کہ اس کے کھانے پینے کا خیال نہیں رکھا اور مقوی غذا نہیں دی تو بچنا محال ہے۔ یہ سن کر وہ غریب اور ناچار شخص اسی وقت روزی کی تلاش میں گھر سے نکل پڑا۔ ہنر اس کو کوئی آتا نہ تھا، مگر پہلے وہ ایک بڑے تاجر کے گھر کے کام سنبھالتا رہا تھا۔ اس کی موت کے بعد سے بے روزگار ہوگیا تھا۔ بدقسمتی سے چند ماہ کے دوران کسی نے اسے ایسی کوئی نوکری نہیں دی۔ اس روز وہ دکانوں‌ پر گیا کہ کوئی کام مل جائے، اور لوگوں سے مزدوری مانگتا پھرا جو کسی کام کے عوض چند دینار دے دیتے تو کھانے کے لیے کچھ لے کر گھر چلا جاتا۔ یہ نہ ہوا تو ایک دو لوگ جن سے جان پہچان تھی، ان کو اپنی بپتا سنائی اور کچھ بطور قرض طلب کیا۔ مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔

    اسی پریشانی کے عالم میں وہ دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا۔ وہاں ایک ملاح اپنی کشتی لئے بغداد کے مختلف محلّوں کے نام لے رہا تھا کہ کسی کو وہاں جانا ہو تو کشتی میں سوار ہو جائے۔ شریف زادے نے خودی کے عالم میں ملاح کو پکارا تو ملاح نے اپنی کشتی کنارے کے ساتھ لگا دی اور اس سے دریافت کیا کہ کس محلّہ میں جانے کا ارادہ ہے۔ وہ بیچارہ کیا جواب دیتا، بس ایک ٹُک ملاح کا منہ دیکھنے لگا۔ ملاح نے جھلّا کر کہا عجیب آدمی ہو، مجھے بلایا ہے تو میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ ملاح کی بات سن کر اس غریب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور اس نے اپنی داستان مصیبت بلا کم و کاست کہہ ڈالی۔ ملاح کو اس پر رحم آگیا۔ اس نے شریف زادے کو کشتی پر بٹھا لیا اور کہا کہ میں تم کو ایک محلّہ میں پہنچائے دیتا ہوں، وہاں کی ایک مسجد میں شیخ معروف کرخی عبادت میں مشغول رہتے ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہونا، امید ہے تمہاری مشکل کا کوئی حل نکل آئے۔

    شریف زادہ ملّاح کی بتائی ہوئی مسجد میں پہنچا اور وضو کر کے ایک کونے میں جا بیٹھا۔ حسبِ توقع شیخ معروف کرخی وہاں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس مصیبت زدہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ روتا جاتا اور خود پر بیتنے والے حالات بتاتے جاتا۔ حضرت معروف کرخی اسے نہایت توجہ سے سنتے رہے۔ جب وہ خاموش ہوا تو آپ پھر نماز میں مشغول ہو گئے۔

    اسی اثنا میں آسمان پر سیاہ گھٹا چھا گئی اور اس قدر بارش ہوئی کہ جل تھل ایک ہو گئے۔ وہ غریب بڑا پریشان ہوا کہ بیوی کو ایڑیاں رگڑتے چھوڑ آیا ہوں۔ یہاں آکر بھی مقصد حاصل نہیں ہوا اور حضرت صاحب دوبارہ نوافل میں‌ مشغول ہوچکے ہیں۔ اب اس تاریک رات اور موسلادھار بارش میں خالی ہاتھ گھر کیسے جاؤں…. وہ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک سواری آکر رکی اور ایک شخص مسجد میں داخل ہوا۔ اس نے شیخ معروف کرخی کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے فلاں شخص نے بھیجا ہے اور کہا ہے کہ آپ کو پانچ سو دینار نذر کروں تو وہ اسے اپنی قدر افزائی خیال کرے گا۔ حضرت معروف کرخی نے اس شخص سے کہا کہ میں یہ دینار قبول کرتا ہوں، اور اس غریب آدمی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ تھیلی میرے اس دوست کو دے دو۔ اس شخص نے جو دینار لے کر آیا تھا، حضرت کے کہنے پر دیناروں کی تھیلی اس شریف زادے کے ہاتھ میں دے دی اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔

    اس کے مسجد سے چلے جانے کے بعد حضرت معروف کرخی نے پریشاں حال شخص سے فرمایا کہ بھائی اس تھیلی کو اپنے کام میں لا۔ اللہ نے تیری مدد کی ہے۔ دو وقت کی روٹی کو ترسا ہوا وہ شخص حضرت کرخی کے سامنے تعظیم سے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ ان کی اجازت ملتے ہی اس نے تھیلی کمر سے باندھی اور معروف کرخی کے لیے عزّت اور صحت کی دعائیں کرتا ہوا وہاں سے رخصت ہوا۔ اس نے بغداد کے بازار سے ضرورت کی تمام چیزیں خریدیں اور کشتی میں بیٹھ کر سیدھا گھر پہنچا۔ بیوی اس کے انتظار میں تھی اور جب خاوند کے ہاتھوں میں کھانے پینے کا سامان دیکھا تو اس کی آنکھوں‌ میں آنسو آگئے۔ خاوند نے چولھے کو بھڑکایا اور پکانے بیٹھ گیا۔ اس نے اپنی بیوی سے پورا ماجرا بیان کیا تو وہ بھی معروف کرخی کو ہاتھ اٹھا کر دعائیں دینے لگی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اگلے روز اس شریف زادے نے ان دیناروں سے کچھ مال خریدا اور بازار میں فروخت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے محنت اور دل جمعی سے کام کیا اور اللہ نے ایسی برکت دی کہ کچھ عرصہ بعد شہر کے مرکزی بازار میں ایک چھوٹی سی دکان کر لی۔ وہ نہایت فارغ البالی سے گزر اوقات کرنے لگا۔ ایک روز اس شخص کو وہ ملاّح یاد آیا جس نے اسے بغداد پہنچایا تھا۔ وہ دریا پر پہنچا اور اسے تلاش کرکے اس کے احسان کا بدلہ بھی چکا دیا۔

    دونوں میاں بیوی کو جب بھی یہ واقعہ یاد آتا، وہ بے اختیار حضرت معروف کرخی کو دعائیں دینے لگتے۔

    (یہ حکایت اولیا اللہ اور صوفیائے کرام سے منسوب اخلاقی اور نصیحت آمیز واقعات پر مشتمل ایک کتاب حکایاتِ صوفیا سے لی گئی ہے)

  • مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    مجبور لکڑہارا (جرمنی کی لوک کہانی)

    ایک چھوٹے سے گاؤں میں کوئی غریب لکڑہارا ایک جھونپڑی میں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بڑے بیٹے کا نام ہینسل اور بیٹی کا نام گریٹل تھا جو دراصل اس کی پہلی بیوی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد لکڑہارے نے دوسری شادی کر لی تھی۔

    لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    لکڑہارا دن بھر جنگل میں لکڑیاں کاٹتا اور پھر ان کو بازار لے جا کر بیچ دیتا۔ اس سے جو کچھ نقدی ملتی، اس سے گھر کا خرچ چلاتا، لیکن اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ اکثر اس کنبے کو ایک وقت کی روٹی ہی میسر آتی۔ اس کی بیوی، جو بچوں کی سوتیلی ماں تھی، ایک سخت جان اور خود غرض عورت تھی۔

    ایک رات، جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا، لکڑہارے کی بیوی نے اس سے کہا، "ہمارے پاس اتنا کھانا نہیں کہ سب کا پیٹ بھر سکے۔ ہمیں بچوں کو جنگل میں چھوڑ آنا چاہیے تاکہ ان کی ذمہ داری ختم ہو اور ہم دونوں اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہ وہاں کسی طرح کچھ کھا پی کر جی ہی لیں گے۔” لکڑہارا اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا تھا، اس نے انکار کر دیا، لیکن اس نے طرح طرح کی باتیں بنا کر اور طعنے دے کر اپنے شوہر کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کر ہی دیا۔

    اتفاق سے جس رات لکڑہارے کو اس کی بیوی نے اس ظلم اور گھناؤںے کام کے لیے بھوک کا خوف دلاتے ہوئے قائل کیا، ہینسل کسی وجہ سے سو نہیں سکا تھا۔ وہ ایک ہوشیار اور بہادر لڑکا تھا۔ اس رات خاموشی سے زمین پر لیٹے ہوئے ہینسل نے اپنی سوتیلی ماں کا منصوبہ سن لیا تھا۔ پہلے تو وہ گھبرایا مگر پھر اپنے ذہن کو اس کا حل تلاش کرنے کے لیے دوڑانے لگا اور پھر مطمئن ہو کر سو گیا۔ اگلی صبح، سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ کچھ دیر بعد وہ سب جنگل میں لکڑیاں کاٹنے چلیں گے۔ اس نے ہینسل اور گریٹل کو کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی دیا۔ اب ہینسل نے گریٹل کو ساتھ لیا اور جھونپڑی سے باہر نکل گیا، اور تھوڑی ہی دیر میں لوٹ آیا۔

    بچوں نے دیکھا کہ والدین جیسے انہی کے منتظر تھے۔ وہ ہینسل اور گریٹل کو لے کر جنگل کی طرف بڑھنے لگے۔ جنگل شروع ہوا تو ہینسل اپنی جیب سے وہ مخصوص قسم کے پتھر راستے میں گراتا ہوا جانے لگا، جو اس نے صبح کنویں کے قریب ایک عمارت کے کھنڈر سے جمع کیے تھے۔ یہ عام پتھر نہیں تھے بلکہ چاند کی روشنی میں‌ ایک خاص چمک پیدا کرتے تھے۔ وہ یہ پتھر نشانی کے طور پر گرا رہا تھا تاکہ راستہ پہچان سکے۔ گھنے درختوں کے درمیان پہنچ کر سوتیلی ماں نے بچوں سے کہا کہ وہ ایک جگہ بیٹھ جائیں، ہم دونوں ذرا آگے لکڑیاں کاٹنے جا رہے ہیں اور جلد لوٹ آئیں گے، لیکن کافی دیر گزر گئی اور وہ نہیں لوٹے۔ وہ دونوں منصوبہ کے مطابق بچوں کو چھوڑ کر گھر واپس چلے گئے تھے۔

    ادھر دن ڈھلنے کو تھا اور اب انھیں بھوک بھی ستا رہی تھی۔ گریٹل رونے لگی۔ ہینسل نے اسے دلاسہ دیا اور کہا، "چاند نکلنے کا انتظار کرو۔” جب چاندنی پھیلی تو ہینسل کے گرائے ہوئے پتھر چمکنے لگے۔ دونوں بہن بھائی ان کو دیکھتے ہوئے جنگل سے نکل کر گھر واپس پہنچ گئے۔ لکڑہارا انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوا، لیکن سوتیلی ماں غصے سے بھر گئی۔

    کچھ دن عافیت سے گزر گئے مگر پھر وہی کھانے پینے کا مسئلہ اور گھر میں فاقے کی نوبت آن پڑی۔ تب، سوتیلی ماں نے دوبارہ لکڑہارے کو مجبور کیا کہ بچوں کو جنگل میں چھوڑ آتے ہیں۔ اس مرتبہ انھوں نے بچوں کو پہلے سے نہیں بتایا۔ یوں ہینسل رات کو پتھر جمع نہ کر سکا۔ صبح اچانک ہی ان کو سوتیلی ماں نے کسی بہانے سے جنگل جانے کا بتایا۔ وہ سب جنگل کی طرف چل دیے۔ اتفاق سے گھر میں روٹی کے چند ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔ ہینسل نے آنکھ بچا کر وہ اپنی جیب میں ٹھونس لیے۔ راستے میں وہ روٹی کے ٹکڑوں کو گراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس مرتبہ بھی والدین نے وہی کیا، لیکن جب شام ڈھلی تو ہینسل کو واپسی کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر اندازے سے آگے بڑھنے لگا اور دونوں زمین پر غور سے نشانی ڈھونڈنے لگے، لیکن وہ ٹکڑے تو پرندوں نے کھا لیے تھے۔ دونوں بہن بھائی جنگل میں بھوک اور تھکاوٹ سے نڈھال، تین روز تک بھٹکتے رہے۔ اچانک انھیں ایک جھونپڑی نظر آئی، جو مٹھائی، کیک، اور چاکلیٹ سے بنی تھی۔ یہ عجیب و غریب گھر دیکھ کر وہ حیران تو ہوئے مگر بھوک کی شدت کے باعث انھوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر جھونپڑی کو نوچ کر سب چیزیں کھانا شروع کردیں۔ اچانک دروازہ کھلا، اور ایک بوڑھی عورت باہر نکلی۔ وہ نہایت چالاک جادوگرنی تھی۔ اس نے میٹھی آواز میں کہا، "آؤ بچو، اندر آؤ، تمھیں اور بہت کچھ کھانے کو دوں گی۔”

    جادوگرنی نے دھوکے سے ان کو اندر بلا لیا اور ہینسل کو ایک پنجرے میں بند کر دیا۔ اسے گریٹل بہت پیاری لگی۔ اس نے گریٹل کو اپنی خادمہ بنا لیا۔ جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ ہینسل کے لیے بہت سا کھانا پکائے تاکہ وہ موٹا ہو جائے اور پھر وہ اسے بھون کر کھا سکے۔ جادوگرنی کی آنکھیں کمزور تھیں، اس لیے وہ ہر روز ہینسل کی انگلیاں چھو کر دیکھتی کہ وہ موٹا ہوا یا نہیں۔ ہینسل نے پنجرے میں رہتے ہوئے اس کی کمزوری کو بھانپ لیا تھا۔ ادھر وہ اپنی بہن سے موقع پاکر اشاروں اشاروں میں باتیں کرتا رہتا تھا۔ وہ یہی منصوبہ بناتے تھے کہ یہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ ایک روز اس نے جادوگرنی کے کھانے سے بچی ہوئی ایک ہڈی کی طرف اشارہ کیا اور گریٹل نے نظر بچا بھائی کو وہ ہڈی تھما دی۔ اب ہینسل نے ہوشیاری سے اپنی انگلی کی جگہ وہ ہڈی جادوگرنی کے چھونے کے لیے آگے بڑھا دی، جسے وہ ظالم ہینسل کی انگلی سمجھی۔ دو تین ہفتوں تک ہینسل اس کے ساتھ یہی کرتا رہا اور جادوگرنی سمجھتی رہی کہ وہ موٹا ہوگیا ہے۔

    آخر کار، جادوگرنی نے گریٹل سے کہا کہ وہ تنور تیار کرے، کیونکہ وہ ہینسل کو بھون کر کھانا چاہتی ہے۔ گریٹل نے معصومیت سے پوچھا، "تنور کو دہکانے کے لیے کیا کروں، مجھے کبھی اس کا تجربہ نہیں‌ ہوا۔ میری مدد کریں۔” جادوگرنی اس کی باتوں میں آگئی۔ اس نے تنور کے اندر جھانک کر اسے سمجھانے کی کوشش کی اور عین اس لمحے جب وہ تنور میں‌ جھانک رہی تھی، گریٹل نے جادوگرنی کو دھکا دیا، اور وہ تنور میں سر کے بل جا گری۔ گریٹل نے قریب پڑا ہوا لکڑی کا موٹا سا ڈنڈا اٹھایا اور جادوگرنی کی کمر پر برساتی چلی گئی۔ اس کے ہاتھ اسی وقت رکے جب گریٹل نے پنجرے سے آواز لگائی کہ وہ اسے باہر نکالے۔

    گریٹل نے ہینسل کو پنجرے سے آزاد کیا جس نے باہر آتے ہی سب سے پہلے تنور کو دہکا دیا تاکہ جادوگرنی کا قصہ تمام ہوجائے۔ اب انھوں نے جھونپڑی کو کھنگالا تو وہاں کافی مقدار میں سونا اور کئی قیمتی چیزیں ملیں۔ دونوں نے ایک بڑی سی چادر میں وہ سب مال جمع کیا اور اسے پیٹھ پر لاد کر وہاں سے نکل گئے۔ کسی طرح دونوں اس جنگل سے باہر نکلنے میں بھی کام یاب ہوگئے۔ آخر کار وہ اپنے گھر پہنچے۔ معلوم ہوا کہ ان کی سوتیلی ماں مر چکی ہے، اور لکڑہارا اپنے بچوں کے ساتھ ناروا سلوک پر پچھتا رہا ہے۔ وہ انھیں دیکھ کر خوشی سے نہال ہوگیا۔ بچوں نے اپنے باپ کو جادوگرنی کی کٹیا سے لوٹا ہوا وہ خزانہ دیا جس سے ان کے باپ نے زمین خریدی اور کھیتی باڑی شروع کی۔ انھوں نے ایک اچھا سا گھر بنوایا اور خوشی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔

    (یہ مشہور جرمن لوک کہانی کا اردو ترجمہ ہے لیکن اس میں کہانی کے مزاج اور تفصیلات کو برقرار رکھتے ہوئے کئی ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں جو اگرچہ اصل کہانی کا حصہ نہیں مگر اسے پُرلطف اور دل چسپ ضرور بناتی ہیں)

  • عقل سے نصیب نہیں بنایا جاسکتا!

    عقل سے نصیب نہیں بنایا جاسکتا!

    کہتے ہیں خوش قسمتی کو عقل و دانش اور دانائی سے اپنے گھر نہیں بلایا جاسکتا بلکہ نصیب تو مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ جو چیز کسی انسان کے نصیب میں نہ ہو وہ اسے اپنی عقل لڑا کر اور دانائی کی بدولت ہرگز حاصل نہیں کرسکتا۔

    اس کہاوت سے متعلق ایک قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص خچر پر سوار کہیں جا رہا تھا۔ اس جانور کے دونوں طرف دو بوریاں لٹکی ہوئی تھیں۔ اسے راستے میں ایک شخص ملا۔ وہ کوئی راہ گیر تھا۔ دونوں میں علیک سلیک ہوئی تو راہ گیر نے خچر سوار سے پوچھا کہ ” ان دونوں بوریوں میں کیا ہے۔”

    مزید دل چسپ کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے کلک کریں
    وہ شخص جو اس خچر اور مال و اسباب کا مالک تھا، اس نے جواب دیا کہ ” ایک بوری میں گندم ہے، اور دوسری طرف کی بوری میں وزن برابر کرنے کے لیے ریت بھری ہے تاکہ میرا جانور برابر وزن کی وجہ سے آسانی سے چل سکے۔”

    مسافر نے یہ سنا تعجب کیا اور کہنے لگا کہ ” بھائی! ریت کی بوری کی کیا ضرورت تھی، اگر گندم ہی کو برابر برابر وزن میں تقسیم کر کے باندھ دیتے تو بے چارے جانور کو ان کا بوجھ ڈھونے میں آسانی ہوتی اور آپ کو بھی اس بلاوجہ کی مشقت سے نجات ملتی۔”

    یہ سن کر خچر سوار حیرانی سے بولا، ”ہاں بھائی! آپ نے بات تو بڑے پتے کی بتائی، لیکن یہ بتائیے کہ اتنی عقل رکھنے کے باوجود آپ پیدل سفر کیوں کر رہے ہیں؟” اس شخص نے کہا کہ ”یہ اپنی اپنی قسمت اور نصیب ہے۔”

    اس پر خچر سوار شخص نے کہا، ” پھر تو ایسی عقل کو اپنے ہی پاس رکھیے جو آپ کو پیدل چلا رہی ہے اور مجھے خچر اور گھوڑے نصیب ہیں۔ مجھ کو میری کم عقلی اور بے وقوفی مبارک کہ میں اپنے سفر کے لیے ایک خچر تو رکھ سکتا ہوں اور ایک آپ ہیں کہ عقل مند ہونے کے باوجود پیدل کتنی دور دور کا سفر کرنے پر مجبور ہیں۔”

    (مصنف و مترجم نامعلوم)

  • ایک بکری کیوں؟

    ایک بکری کیوں؟

    بہت پرانی بات ہے کہ کسی گاؤں میں ایک آسودہ حال شخص رہتا تھا۔ اس کا جانوروں کا باڑہ تھا۔ وہ ان کا دودھ بیچتا اور گھی، مکھن وغیرہ نکال کر شہر کی دکانوں پر فروخت کرتا تھا۔ اس سے گھر میں‌ مال و دولت کی فراوانی تھی۔

    مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ایک مرتبہ باڑے میں کوئی بیماری پھیل گئی۔ اس کے جانور ایک ایک کر کے مر گئے۔ وہ بہت پریشان ہوا مگر خوب مال جمع کررکھا تھا۔ اس لیے روزمرہ کے اخراجات پورے کرتا رہا۔ مگر رفتہ رفتہ اس کی دولت خرچ ہوگئی اور نوبت فاقوں تک آگئی۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اسے کہا کہ دوسرے گاؤں کا سردار تمہارا دوست ہے، تم اس کے پاس جاؤ، اسے اپنی ہریشانی بتاؤ اور اس سے مالی مدد کا تقاضا کرو۔ اس نے بیوی کی بات مان لی اور اگلے ہی دن وہ صاف ستھرا لباس پہن کے دوسرے گاؤں اپنے دوست کے پاس پہنچ گیا۔ اس کا دوست بہت خوش ہوا اور اپنے اس مال دار دوست کی خوب آؤ بھگت کی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اب اس کی کیا حالت ہوچکی ہے۔ رات کو بیٹھک لگی تو بدحال دوست نے کہا کہ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اور یہ کہہ اس نے اپنے تمام حالات اس کے گوش گزار کر دیے۔

    یہ سب سن کے دوسرا دوست کہنے لگا، کوئی مسئلہ نہیں، میں تمہاری مدد ضرور کروں گا۔ پھر اس نے اپنے ملازم کو آواز دی اور کہا میرے دوست کے لیے ایک بکری لے آؤ۔ اور اس شخص کو تاکید کی یہ بکری لے جاؤ، اگر دوبارہ میری مدد کی ضرورت پڑے تو پھر میرے پاس چلے آنا۔ اس نے اس شخص کی بیوی بچوں کے لیے کچھ تحائف بھی ساتھ کر دیے۔

    حالات کا ستایا ہوا وہ دوست کافی حیران ہوا کہ یہ علاقے کا سردار ہے اور مجھے صرف ایک بکری پہ ٹرخا رہا ہے۔ خیر وہ بکری لے کے چپ چاپ گھر آ گیا۔ اس کی بیوی بھی صرف ایک بکری دیکھ کے حیران ہوئی۔ لیکن کچھ نہ بولی۔ وہ لوگ بکری کا دودھ نکال کے پیتے رہے، کچھ دودھ اگر بچ رہتا تو اسے بیچ دیتے۔ یوں کسی حد تک بھوک مٹنے لگی۔ ایک ماہ گزرا وہ بکری مر گئی۔ دونوں میاں بیوی بہت پریشان ہوئے۔ بیوی نے پھر یاد دلایا دوست نے کہا تھا ضرورت پڑے تو دوبارہ آ جانا۔

    وہ پھر سے دوست کے پاس گیا جس نے خوب آؤ بھگت کی اور مدعا پوچھا۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ بکری مر گئی ہے۔ دوست نے ملازم کو بلایا اور ایک بکری اور منگوا کر اس شخص کو یہ کہہ کے رخصت کردیا کہ جب ضرورت پڑے میرے پاس چلے آنا۔

    وہ شخص بکری لے کے گھر آیا اور پچھلے دنوں کی طرح گزارہ کرنے لگا۔ کچھ عرصہ بعد یہ بکری بھی مر گئی۔ وہ پھر دوست کے پاس گیا اور وہ دوست اسی طرح پیار محبت سے پیش آیا اور اپنے قسمت کے مارے اس دوست کو ایک اور بکری دے کر وہی بات دہرا دی کہ ضرورت پڑے تو بلاتکلف چلے آنا۔

    وہ گھر آیا بکری کا دودھ نکالا بیچا اس بار قسمت سے دودھ بیچ کے زیادہ اچھی رقم کمانے لگا۔ یہ شخص سمجھدار تھا۔ اس نے روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کیا لیکن بچت کر کے ایک اور بکری خرید لی۔ اللہ نے اس میں برکت دی اور اس کے حالات بہتر ہونے لگے۔ اس نے مزید جانور خریدے اور گھر میں پھر خوشحالی آنے لگی۔

    ایک دن اس کی بیوی نے اسے یاد دلایا کہ یہ سب تمہارے دوست کی مدد کی وجہ سے ہوا ہے۔ تم کو اس کا شکریہ ادا کرنے جانا چاہیے۔

    اگلے دن وہ شخص تیار ہوا اور خوشی خوشی دوست کی طرف روانہ ہوگیا۔ دوست اس کو دیکھ کے بہت خوش ہوا۔ اس کی خوب آؤ بھگت کی اور آنے کا مدعا پوچھا، اس نے دوست کا شکریہ ادا کیا اور اسے بتایا کہ اس کی مدد کی وجہ سے اس کے حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں۔

    یہ سن کے وہ دوست بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنے ملازمین کو بلایا اور کہا کہ باڑے سے 50 جانور کھولو اور اس شخص کے ساتھ جا کے اس کے گھر چھوڑ کے آؤ۔ وہ دوست یہ جان کر بہت حیران ہوا کہ جب شدید برا وقت تھا تو صرف ایک بکری اور جب حالات بہتر ہونے لگے ہیں تو 50 جانور دے رہا ہے۔ اگر یہ پچاس جانور اس کا دوست اس وقت دے دیتا تو وہ پہلے ہی سنبھل چکا ہوتا۔ اس نے اہنے دل کی بات اسے کہہ دی۔

    یہ سن کے دوست مسکرایا اور کہنے لگا، جب تم پہلی بار آئے تھے تو میں سمجھ گیا تھا تم پر وقت برا ہے، میں تمہیں ان دنوں میں بہت سے جانور بھی دیتا تو وہ سب مر جاتے یا تم اپنی پریشانی کے دونوں میں ان کو سنبھالنے میں ناکام ہوجاتے اور اس کا نتیجہ بھی نقصان ہی کی شکل میں‌ نکلتا۔ دیکھو! تم کھانے پینے اور ضرورت کے لیے ان میں سے جانور بیچ بھی سکتے تھے۔ تمہاری عقل اس محتاج اور مشکل میں کام نہ کرتی اور تم ایسے فیصلے کرتے جن سے مشکلات ٹلنے کے بجائے بڑھتیں۔ اس لیے میں نے تمہیں ہر مرتبہ صرف ایک بکری دی تاکہ تمہارا گزارہ ہوتا رہے۔ اب جب تمہارا برا وقت ٹل چکا ہے اور خوشحالی تمہارے دروازے پر دوبارہ دستک دے رہی ہے تو میرا فرض ہے میں تمہاری مدد اپنی دوستی کے شایان شان کروں۔ اب مجھے کوئی ڈر نہیں ہے، یہ سب جانور تمہارے کام آئیں گے۔

    یہ سن کے وہ شخص بہت خوش ہوا اور اپنے دوست کی حکمت کا قائل ہو گیا۔

    (قصے کہانیاں اور حکایات سے ماخوذ)

  • اگر میں گالیاں قبول نہ کروں تو…؟

    اگر میں گالیاں قبول نہ کروں تو…؟

    خیر اور شر کے درمیان کھینچا تانی اور لڑائی روزِ اوّل سے ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ انسان نے صدیوں‌ سے اس زمین پر رہتے ہوئے فطرت اور اس کے مظاہر میں‌ غور و فکر کیا اور اپنی جبلّت و بشری کم زویوں کو بھی سمجھا اور یہ جانا کہ وہ اپنی کج روی، حسد اور نفرت کے سبب کئی خرابیوں‌ کو جنم دے چکا ہے۔ ہر عہد میں دانا و بینا لوگ اور اہلِ خرد ہم تک سبق آموز واقعات، حکمت کی باتیں پہنچاتے اور ہمیں نصیحت کرتے رہے ہیں جو سینہ بہ سینہ منتقل ہونے کے بعد آج کتابوں‌ میں محفوظ ہیں۔

    یہاں ہم ایک ایسی ہی نصیحت نقل کر رہے ہیں جو آپ کی توجہ کا باعث بنے گی۔

    کہتے ہیں کہ ایک شخص کسی بزرگ کے پاس گیا۔ وہ نجانے کس بات پر غصہ سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے بزرگ گالیاں دینا شروع کر دیں۔ وہ خاموشی سے اس کے چپ ہونے کا انتظار کرتے رہے۔ جب وہ شخص اپنی بھڑاس نکال چکا اور گالیاں دینا بند کر دیں تو بزرگ نے بہت شائستگی سے اسے مخاطب کیا:

    ”اے بیٹے! مجھے ایک بات کا جواب دو کہ اگر کوئی شخص تمہیں تحفہ دے اور تم اس سے وہ تحفہ لینے سے انکار کر دو تو تحفہ کس کے پاس رہے گا؟“

    اس شخص نے بڑی رکھائی سے جواب دیا کہ ”یہ بھی کوئی دریافت کرنے والی بات ہے، وہ یقیناً اسی شخص کے پاس رہے گا جو اسے تحفہ دینا چاہتا تھا۔“

    بزرگ مسکرائے اور صرف اتنا کہہ کر منہ پھیر لیا ”بیٹے! میں نے بھی تمہاری گالیاں قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

  • امام مالک بن انسؒ اور "لا ادری…”

    امام مالک بن انسؒ اور "لا ادری…”

    یہ ایک حکایت ہے اور ایسی شخصیت سے متعلق ہے جنھیں عالمَ اسلام میں بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اس کے مصنف بھی ایک بڑے عالم فاضل ہیں۔ ہم بات کررہے ہیں امام جمال الدین ابن الجوزیؒ کی جن کی کتاب صید الخاطر سے یہ پارہ لیا گیا ہے۔ اس کا اردو ترجمہ مولانا عبد المجید انور نے کیا ہے اور یہ امام جوزی کے خیالات، واردات قلبی اور مشاہدات پر مبنی کتاب ہے۔

    امام جوزی لکھتے ہیں: جب کسی عالم کا قصد صحیح ہو جاتا ہے تو وہ تکلّفات سے بری ہو جاتا ہے۔ بہت سے علماء ایسے ہیں جنھیں "لا ادری "(میں نہیں جانتا) کہتے ہوئے حیا آتی ہے چنانچہ وہ اپنی وجاہت قائم رکھنے کے لیے فتویٰ صادر کر دیتے ہیں تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ انھیں جواب نہیں آیا۔ اگرچہ خود انھیں بھی اپنی بات پر یقین نہیں ہوتا اور یہ انتہائی ذلت اور رسوائی کی بات ہے۔

    حضرت امام مالک بن انسؒ کا واقعہ ہے کہ ایک آدمی نے ان سے مسئلہ پوچھا، آپ نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا "لا ادری” تو سائل کہنے لگا، میں نے آپ تک پہنچنے کے لیے کئی شہر عبور کیے ہیں۔ فرمانے لگے اپنے شہر میں واپس جا کر کہہ دینا کہ میں نے مالک سے مسئلہ پوچھا تھا انھوں نے جواب میں کہا کہ میں نہیں جانتا۔ اس شخص کے دین اور عقل کو دیکھیے کہ اس نے تکلّف سے کس طرح جان بچا لی اور الله تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہوا اور پھر اگر لوگوں کے ہاں اپنی وجاہت ہی مقصود ہے تو ان کے قلوب کسی اور کے قبضے میں ہیں۔ والله میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو نفلی صوم و صلٰوة کی کثرت کے ساتھ ساتھ خاموش مزاج بظاہر مسکین طبع اور سادہ لباس والے تھے مگر لوگوں کے دل ان سے بیزار تھے اور ان کی نگاہ میں وہ کچھ عزت نہ رکھتے تھے اور ایسے حضرات بھی دیکھے جو فاخرہ لباس پہنتے ہیں۔ بظاہر مسکنت اور نوافل کی کثرت بھی نہیں مگر لوگوں کے قلوب ان کی محبّت میں کٹے جاتے ہیں۔ میں نے اس کے سبب میں غور کیا، وہ میرے نزدیک ان کا حسن باطن تھا جیسا کہ حضرت انس بن مالکؒ کے بارے میں ہے کہ ان کے ہاں نفلی صوم و صلٰوة کی کثرت نہ تھی بلکہ باطن کا نور تھا۔ پس جس کا باطن درست ہو جائے اس کی فضیلت کی خوشبو پھیلنے لگتی ہے اور لوگوں کے قلوب اس سے مہک اٹھتے ہیں۔

  • فطرت نہیں بدلتی (حکایت)

    فطرت نہیں بدلتی (حکایت)

    کسی ملک میں لٹیروں کا کوئی گروہ بڑا طاقت ور ہوگیا۔ اس میں شامل لٹیروں کے پاس بہت سے ہتھیار بھی تھے۔ وہ لوگوں سے لوٹ مار کرتے اور قتل سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ہر طرف اس گروہ کی دہشت پھیل گئی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں کی شکایات پر بادشاہ نے اپنی فوج کو ان لٹیروں کی سرکوبی کا حکم دے دیا۔ یہ چور ملک کی ایک پہاڑ کی چوٹی پر قابض تھے۔ یہی ان کی کمین گاہ تھی۔

    ایک روز فوج کے چند سپاہیوں نے علاقے کو گھیر کر لٹیروں کے خلاف کارروائی شروع کی لیکن ناکام ہوگئے۔ کیونکہ لٹیرے پہاڑی کی ایسی پوزیشن پر تھے کہ ان کو نقصان ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ موقع ملتے ہی بادشاہ کے سپاہیوں کو نشانہ بناتے اور خود محفوظ رہتے۔ شاہی فوج کی یہ چھوٹی سی ٹکڑی انھیں کوئی نقصان پہنچائے بغیر ناکام لوٹ گئی۔ اس طرح اس گروہ کی ہمّت بڑھ گئی۔ وزیرِ دفاع نے صلاح مشورہ کے بعد ایک فیصلہ کیا اور ایک جاسوس نے جب یہ اطلاع دی کہ لٹیرے کہیں گئے ہوئے ہیں تو چند تجربہ کار، جنگ آزمودہ لوگ اس پہاڑ کی طرف نکلے اور وہاں ایک گھاٹی میں چھپ گئے۔ رات گئے ڈاکو کہیں سے لوٹ مار کے بعد واپس آئے، ہتھیار اتارے، لوٹا ہوا مال غار میں رکھا اور تھکن کی وجہ سے پڑ کر سو گئے۔ رات کا ایک حصہ گزر گیا تو وہ ماہر لڑاکا گھاٹی سے نکلے اور انھیں نیند کے عالم میں‌ پکڑ لیا۔ تیزی سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور صبح بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا۔ سب جانتے تھے کہ ابھی بادشاہ کے حکم پر ان کو مار دیا جائے گا۔ ان لٹیروں میں ایک خوب صورت نوجوان بھی تھا جس کی ابھی داڑھی پھوٹ رہی تھی۔ ایک وزیر کو اس پر ترس آیا اور بادشاہ سے اس کی سفارش کی کہ اس بے چارے نے ابھی اپنی جوانی بھی نہیں دیکھی۔ میری سفارش قبول کرتے ہوئے اس کا خون معاف کیا جائے۔ یہ آپ کا اس سے زیادہ مجھ پر احسان ہوگا۔ بادشاہ یہ سن کر لال پیلا ہو گیا کیونکہ یہ بات اس کے مزاج کے خلاف تھی۔ جس کی اصل بری ہو وہ نیکوں کا سایہ بھی برداشت نہیں کرتا۔ نااہل کی تربیت کرنا ایسا ہی جیسے گنبد پر اخروٹ رکھنا۔ بادشاہ نے کہا کہ ان چوروں کی جڑ کاٹ دینا ہی بہتر ہے کیونکہ آگ کو بجھا کر چنگاری چھوڑ دینا یا سانپ کو مار دینا اور اس کے بچّے کی حفاظت کرنا عقلمندی نہیں ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اگر بادل سے آبِ حیات بھی برسے تب بھی تجھے بید کی شاخ سے پھل نہ ملے گا، کمینے کے ساتھ وقت ضائع نہ کر، کیونکہ بوریے کے نرکل سے شکر نہیں ملے گی۔

    وزیر نے بادشاہ کی یہ بات سن کر بادلِ نخواستہ رضا مندی ظاہر کی اور بادشاہ کی رائے کو سراہا اور عرض کیا آپ کا فرمان بجا مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی صحبت میں رہ کر ان جیسا ہو گیا ہے۔ اب اگر اس کو معاف کر دیا جائے تو نیکوں کی صحبت میں رہ کر ہو سکتا ہے نیک ہو جائے۔ ابھی بچّہ ہے اور ان کی صحبت کے اثر نے بھی اس کی طبیعت میں جڑ نہیں پکڑی۔ وزیر کی یہ بات سن کر دربار میں سے کچھ اور لوگ بھی اس کے ہمنوا ہوگئے۔چنانچہ بادشاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی معاف کردیا۔ اس لڑکے کو وزیر نے اپنے ایک شاہی خادم کے سپرد کردیا۔ اور اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور ایک استاد نے اس کو آداب سکھائے، بات چیت کا طریقہ بتایا، شاہوں کی بارگاہ میں بیٹھنے کا سلیقہ تک سکھایا اور واقعی سب اس کو پسند کرنے لگے۔ ایک دن وزیر نے بادشاہ کے سامنے اس کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دیں کہ عقلمندوں کی کوششوں نے اس کی طبیعت پر بہتر اثر کیا ہے اور اس نے پرانی عادتیں چھوڑ دی ہیں۔

    بادشاہ نے مسکرا کر کہا!آخر کار بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے، اگرچہ انسانوں کے ساتھ تربیت پائے۔ وزیر یہ سن کر چپ ہوگیا مگر دل میں بادشاہ کی اس بات کا بڑا ملال ہوا۔ تقریباً دو سال گزرے ہوں گے کہ اس لڑکے کی چند آوارہ مزاج اور بدمعاش قسم کے لڑکوں سے دوستی ہوگئی۔ اس کا اکثر وقت ان کے ساتھ گزرنے لگا۔ وزیر کے شاہی خادم نے اس جانب توجہ نہ دی۔ اور نہ ہی وزیر سے اس کا ذکر کیا۔ ایک روز عجیب بات ہوئی۔ وہ لڑکا اور اس کے دوست کسی طرح وزیر کے گھر میں‌ گھس گئے۔ انھوں نے وزیر اور اس کے دو بیٹوں کو قتل کر کے اس کا سارا مال جمع کیا اور بھاگ گئے۔ وہ لڑکا اب اپنے انہی ساتھیوں‌ کو لے کر چوروں کی گھاٹی میں جا کر رہنے لگا۔ اس نے بغاوت کر دی تھی۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے افسوس کرتے ہوئے اپنی انگلی دانتوں میں دبائی اور کہا، گھٹیا لوہے سے اچھی تلوار نہیں بن سکتی، سکھانے پڑھانے سے نالائق، لائق نہیں ہو سکتا، جس کی طبیعت میں برائی رچ بس جائے اس پر تربیت بھی اثر نہیں کرتی لہٰذا ہر وقت اس کے شر سے محتاط رہنا چاہیے۔

    (ماخوذ از سبق آموز کہانیاں اور حکایت)

  • بے فکری کا زور (حکایت)

    بے فکری کا زور (حکایت)

    ایک دن اکبر بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک ہاتھی کے بے قابو ہو کر چھوٹ جانے سے ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل ہونے لگا۔ بادشاہ نے کھڑکی کی طرف منہ کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان نے دوڑتے ہوئے ہاتھی کی دُم پکڑ کر اسے رکنے پر مجبور کردیا ہے۔

    بادشاہ نے بیربل کو اس کی شہ زوری کا تماشا دکھا کر پوچھا۔ ’’کچھ سوچو تو سہی۔ اس میں اتنا زور کہاں سے آگیا۔‘‘

    بیربل نے عرض کی۔ ’’جہاں پناہ! یہ صرف بے فکری کا زور ہے۔ اپنے کام اور معاش کی فکر میں مبتلا یا کوئی پریشان حال ہوتا تو اس کے لیے یہ آسان نہ تھا۔‘‘

    بادشاہ کو وزیر کی اس بات پر تعجب ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ واقعی کوئی ہر طرف سے بے فکر اور آزاد ہو تو اس میں اتنی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ بیربل نے دیکھا کہ بادشاہ کسی سوچ میں گم ہے تو اس نے بھانپ لیا کہ وہ اس کی بات پر شبہ میں‌ پڑ گیا ہے۔ بیربل نے فوراً اس شہ زور کو دربار میں بلوا لیا اور کہا۔ ’’جہاں پناہ تمہاری شہ زوری دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آج سے ایک روپیہ روزانہ تمہیں تنخواہ ملا کرے گی اور کام صرف یہ ہے کہ شہر کے باہر فلاں خانقاہ پر عین شام کے وقت چراغ جلا آیا کرو۔ لیکن یاد رہے کہ اگر ایک دن بھی وقت سے آگے پیچھے پہنچو گے تو پھانسی دے دی جائے گی۔

    نوجوان سن کر آداب بجا لایا اور ہدایت کے مطابق ہر روز خانقاہ پر چراغ جلانے لگا۔ مگر تھوڑے دن گزرے تھے کہ کہیں کسی کا بیل چھوٹ گیا۔ اتفاق سے اس نوجوان نے جو خانقاہ پر چراغ جلانے جارہا تھا، یہ منظر دیکھ لیا اور اس بیل کی بھی دُم پکڑنی چاہی تو اس میں ناکام ہوا۔ وہ بیل کو تو کیا روکتا، اس کے ساتھ خود ہی دور تک گھسٹتا ہوا چلا گیا۔ بیل کی دُم اس نوجوان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور بیل بھاگا تو یہ دھم سے زمین پر آگرا۔

    کسی نے یہ ماجرا بیربل تک پہنچا دیا اور بیربل نے بادشاہ کو یہ بات بتائی۔ تب، اکبر بیربل کی ذہانت کا قائل ہوگیا اور کہا، واقعی فکرمندی بڑی بری چیز ہے۔‘‘

    (ہندوستانی حکایات سے انتخاب)

  • نو سو ننانوے اشرفیاں

    نو سو ننانوے اشرفیاں

    ملّا نصر الدّین کو ایک عقل مند، دانا اور ایسا خوش مزاج کہا جاتا ہے جو ہنسی مذاق اور تفریح میں لوگوں کے ظاہر و باطن کی اصلاح کا کام کرتا تھا۔ کتنے ہی قصّے، دانائی کی باتیں اور لطائف ملّا نصر الدّین سے منسوب ہیں، اور یہ ایک ایسا قصّہ ہے جو دل چسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔

    کہتے ہیں کہ ملّا نصر الدّین کے پڑوس میں ایک مال دار شخص رہتا تھا جو بہت کنجوس تھا۔ وہ اپنا مال تجوری میں بھرتا جاتا تھا اور کسی غریب اور محتاج کی مدد کو آمادہ نہ تھا۔ ملّا نے کئی مرتبہ اسے سمجھایا کہ خدا نے تمہیں دولت عطا کی ہے، اس میں سے کچھ غریب اور مفلس لوگوں پر خرچ کیا کرو، تاکہ خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ لیکن اس نے ملّا ہمیشہ ٹال دیا۔ آخر ملّا نصر الدّین کو اس سے مال نکلوانے اور کنجوس کو سبق سکھانے کی ایک ترکیب سوجھی۔

    ایک روز صبح سویرے وہ نماز پڑھ کر زور زور سے دعا مانگنے لگا، یا اللہ، اگر تو مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیج دے تو میں اسے محتاجوں پر صرف کر دوں۔ لیکن اگر اس میں ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو میں اسے ہرگز قبول نہ کروں گا۔

    وہ یہ دعا اتنے بلند آواز میں کر رہا تھا کہ اس کا کنجوس پڑوسی متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے یہ دعا سنی تو سوچا کہ ملّا بڑا ایمان دار بنتا ہے، اسے آزمانا چاہیے۔ یہ سوچ کر اس نے ایک تھیلی میں نو سو ننانوے اشرفیاں بھر لیں اور اس میں کاغذ کا ایک ٹکڑا ڈال دیا جس پر لکھا تھا کہ اگر یہ نعمت قبول نہ ہو تو اسے اپنے صحن سے باہر گلی میں جھانکے بغیر پھینک دینا۔ اب وہ گھر سے نکل کر ملّا کے صحن کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ عین اس وقت جب ملّا نصر الدّین نے دعائیہ کلمات دہرائے تو کنجوس شخص نے تھیلی اس کے صحن میں پھینک دی۔

    ملّا نصر الدین نے لپک کر تھیلی اٹھا لی اور اس میں سے اشرفیاں نکال نکال کر گننے لگا۔ کل نو سو ننانوے اشرفیاں تھیں۔ ساتھ ہی وہ تحریر بھی اس کے ہاتھ لگی مگر ملّا نے با آوازِ بلند خدا کا شکر ادا کیا اور کہنے لگا۔ یا اللہ، تُو نے میری دعا قبول کی ہے، ایک اشرفی کم ہے تو کوئی بات نہیں، یہ اشرفی پھر کبھی دے دینا۔ ادھر ملّا جی کے کنجوس پڑوسی نے جب یہ سنا تو سخت پریشان ہوا۔ وہ سمجھا تھا کہ ملّا اشرفیاں گننے کے بعد خدا سے شکوہ کرے گا اور تھیلی باہر پھینک دے گا۔ لیکن یہاں تو اس کے برعکس ہوا اور ملّا نے وہ اشرفیاں رکھ لیں۔

    کنجوس پڑوسی کی سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا کرے۔ اسے اچانک یہ احساس ستانے لگا کہ ملّا بہت چالاک ہے اور اس نے دھوکے سے میری اشرفیاں ہتھا لی ہیں۔ اس کے ذہن میں یہ بات آئی ہی تھی کہ وہ تیزی سے ملّا کے گھر کا دروازہ پیٹنے لگا۔ ملّا کو دروازے پر دیکھتے ہی کہنے لگا تم بہت بے ایمان شخص ہو۔ لاؤ، میری اشرفیاں واپس کرو۔ تم نے تو کہا تھا کہ ہزار میں سے ایک اشرفی بھی کم ہوئی تو واپس کر دوں گا، لیکن اب تم وہ تھیلی قبول کرنے پر تیار ہو۔

    ملّا نصر الدّین نے بھی غصّے کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا، تم کون ہوتے ہو مجھ سے اشرفیاں مانگنے والے، یہ تو میرے خدا نے مجھے بھیجی ہیں، شاید تم نے سنا ہو کہ اُس سے گڑگڑا کر اس کے لیے دعا کر رہا تھا۔ جاؤ یہاں سے، اپنا کام کرو۔

    کنجوس شخص سیدھا قاضی کی عدالت میں گیا اور ملّا کی شکایت کردی۔ قاضی صاحب نے ملّا نصر الدّین کو طلب کرلیا۔ وہ کنجوس ملّا نصر الدّین کے پاس گیا اور کہا چلو، تمہیں قاضی صاحب بلاتے ہیں۔ ملّا نے جواب دیا، تم دیکھ رہے ہو کہ میرا لباس پھٹا پرانا ہے، میں اس شرط پر جانے کے لیے تیار ہوں کہ تم مجھے اچھے اچھے کپڑے لا کر دو، اس کنجوس نے عجلت میں یہ شرط بھی منظور کر لی اور صاف ستھرے کپڑے ملّا کو لا کر دے دیے۔ اس کے بعد ملّا نے مزید فرمائش کردی۔ کہنے لگا، میاں کیا اتنا قیمتی لباس پہن کر پیدل ہی قاضی کی عدالت میں جاؤں، لوگ دیکھیں گے تو دل میں کیا کہیں گے، جاؤ اپنا گھوڑا لے آؤ، اس پر سوار ہو کر جاؤں گا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مال دار پڑوسی نے اپنا گھوڑا بھی ملّا جی کے حوالے کر دیا اور وہ نہایت شان و شوکت سے گھوڑے پر سوار ہو کر قاضی کی عدالت میں پہنچے۔

    قاضی صاحب نے دونوں کو غور سے دیکھا۔ ملّا نصر الدّین کا قیمتی لباس اور سواری کا گھوڑا بھی جب کہ مدعی پیدل آیا تھا۔ اس نے قاضی کے روبرو سارا قصّہ سنایا تو قاضی صاحب نے ملّا جی سے کہا کہ وہ اس پر اپنی صفائی دے۔

    ملّا نصر الدّین نے کہا، حضور! یہ میرا پڑوسی ہے اور بڑا جھوا شخص ہے، ابھی تو یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کی نو سو ننانوے اشرفیاں ہتھیا لی ہیں اور کچھ دیر بعد کہے گا کہ یہ لباس جو میں پہنے ہوئے ہوں وہ بھی اسے کا ہے۔

    یہ سنتے ہی جلد باز اور بے وقوف پڑوسی چلّا اٹھا، ہاں جناب، یہ لباس بھی میرا ہے، میں نے اسے پہننے کے لیے دیا تھا۔

    ملا نصر الدین نے مسکرا کر قاضی کی طرف دیکھا اور بولا، جناب سن لیا آپ نے، یہ لباس بھی اس کا ہو گیا اور ابھی دیکھیے یہ کہہ دے گا کہ گھوڑا بھی اسی کا ہے۔

    اشرفیوں کا حقیقی مالک اس وقت ہوش کے بجائے جوش سے کام لے رہا تھا۔ اس نے غصّے کے عالم میں کہا، ہاں حضور، یہ گھوڑا میرا ہی ہے، اس فریبی نے مجھ سے سواری کے لیے مانگا تھا۔

    قاضی کو اس کنجوس کا یہ انداز ناگوار گزرا اور اس نے خیال کیا کہ یہ کوئی احمق اور نہایت ہی جاہل انسان ہے، جو اس کا وقت ضایع کررہا ہے۔ قاضی نے اس کی کچھ نہ سنی اور ڈانٹ پھٹکار کر اس کا مقدمہ خارج کر دیا۔

    بعد میں‌ وہ کنجوس روتا پیٹتا ملّا نصر الدّین کے گھر پہنچ گیا اور اس کی بڑی منت سماجت کی۔ تب ملّا نے اس شرط پر اس کی اشرفیاں، لباس اور گھوڑا واپس کیا کہ وہ آدھی اشرفیاں غریبوں میں بانٹ دے گا اور آئندہ بھی نادار لوگوں کی مدد کرتا رہے گا۔

  • بادشاہ کے تین سوال

    بادشاہ کے تین سوال

    ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو تین سوالوں‌ کا درست جواب دینے پر آدھی سلطنت دینے کا وعدہ کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ چاہے تو یہ چیلنج قبول کرے اور اگر اسے لگتا ہے کہ ناکام ہوجائے گا تو معذرت کر لے، لیکن ان سوالوں کو جان لینے کے بعد اسے جواب لازمی دینا ہو گا اور اس امتحان میں ناکامی کی سزا موت ہوگی۔

    وزیر لالچ میں آگیا۔ اس نے سوچا ایسا کون سا سوال ہے جس کا جواب نہ ہو۔ وہ کسی دانا اور عالم سے پوچھ کر بادشاہ کو ضرور جواب دے سکے گا۔ اس نے ہامی بھر لی۔ بادشاہ نے اس کے سامنے اپنا پہلا سوال یہ رکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟ اور تیسری بات جو بادشاہ نے پوچھی وہ یہ تھی کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟

    بادشاہ نے اپنے وزیر کو ایک ہفتہ کی مہلت دی اور وزیر نے سلطنت کے عالی دماغ اور دانا لوگوں کو اکٹھا کرلیا۔ وہ ان کے سامنے یہ سوال رکھتا گیا لیکن کسی کے جواب سے وزیر مطمئن نہیں ہوا۔ اسے موت سر پر منڈلاتی نظر آنے لگی۔ مہلت ختم ہونے کو تھی، تب وزیر سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر محل سے فرار ہوگیا۔ چلتے چلتے رات ہوگئی۔ ایک مقام پر اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا۔ وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دیے۔ اس نے پہلے سوال کا جواب دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ اسی طرح‌ دوسرا جواب تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔ اور تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کے جواب بتا دوں تو مجھے کیا ملے گا؟ سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔

    کسان کی بات سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے شاہی اصطبل کا نگران بنانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا۔ وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤ گے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے ہرکارے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤ گے۔ یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے مسترد کر دیا۔ اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا۔ کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے، بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لو تو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتا دوں گا۔ یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔

    وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
    تو کسان نے کہا کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے! جس کے لیے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے!