Tag: حکایات اور کہانیاں

  • خود غرض دیو(ادبِ اطفال سے انتخاب)

    خود غرض دیو(ادبِ اطفال سے انتخاب)

    ہر سہ پہر اسکول سے واپسی پر وہ سب بچے دیو کے باغ میں کھیلنے کو جایا کرتے تھے۔ یہ باغ بہت ہی خوب صورت تھا، نرم ملائم گھاس کے فرش سے آراستہ، جا بجا خوشنما پھول کھلے ہوئے، یوں محسوس ہوتے جیسے تارے زمین پر اتر آئے ہوں۔ یہی نہیں وہاں بارہ آڑو کے درخت بھی تھے جو بہار کے آتے ہی نازک نازک گلابی اور آبی رنگوں کے پھولوں سے بھر جاتے اور خزاں کے آنے تک مزے دار پھلوں میں تبدیل ہو جاتے۔

    پرندے ان درختوں پر آ کر بیٹھتے اور اتنے مسحور کن گیت گاتے کہ بچے اپنا کھیل روک دیتے اور انہیں سننے میں محو ہو جاتے، وہ ایک دوسرے سے کہتے ہم کتنے خوش ہیں یہاں۔

    ایک دن کیا ہوا، دیو واپس آ گیا، وہ دراصل اپنے دوست کورنش اوگر سے ملنے گیا ہوا تھا۔ وہ چونکہ بہت ہی مختصر گفتگو کیا کرتا تھا اس لئے اسے اپنی بات مکمل کرنے میں سات سال لگے، جب سات سال مکمل ہو گئے اور اس نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا تو اپنے قلعہ میں واپس آنے کا ارادہ کیا۔ جب واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ بچے باغ میں کھیل رہے ہیں۔

    ’’تم سب یہاں کیا کر رہے ہو‘‘ اس نے غراتے ہوئے اتنے زور سے کہا کہ بچے ڈر گئے اور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

    ’’یہ میرا باغ ہے اور میں اپنے سوا کسی کو بھی یہاں کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘ دیو نے غرور سے کہا۔ پھر اس نے باغ کے گرد ایک بہت اونچی دیوار تعمیر کی اور اس پر ایک نوٹس بورڈ آویزاں کر دیا جس پر لکھا تھا ’’بلا اجازت باغ میں آنے والوں کو سزا دی جائے گی۔‘‘

    دیو کی خود غرضی نے بچوں کو بہت آزردہ کر دیا۔ اب ان کے پاس کھیلنے کے لئے کوئی جگہ نہ رہی، انہوں نے سڑک پر کھیلنے کی کوشش کی مگر وہ دھول مٹی اور پتھروں سے اٹی ہوئی تھی، انہیں یہاں کھیلنے میں بالکل مزہ نہ آیا۔

    وہ اسکول سے واپسی پر اس اونچی دیوار سے گھرے ہوئے باغ کے آس پاس منڈلایا کرتے اور باغ کے متعلق باتیں کیا کرتے۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے: ’’ہم باغ میں کتنی خوشی سے کھیلتے تھے۔‘‘
    ٭٭٭
    پھر بہار آن پہنچی، درختوں میں پھول کھلنے لگے اور تمام علاقہ ننھے پرندوں سے بھر گیا لیکن خود غرض دیو کے باغ میں ابھی تک موسم سرما باقی تھا۔ وہاں پرندے گیت گانے نہیں آتے تھے کیونکہ بچے جو وہاں نہیں تھے اور درختوں میں بور آنا تو جیسے بھول ہی گیا تھا۔

    ایک خوب صورت پھول نے گھاس سے سر اٹھایا لیکن جب نوٹس بورڈ کی طرف دیکھا تو بچوں کے لئے بہت اداس ہو گیا اور دوبارہ زمین میں دبک کر گہری نیند سو گیا۔

    وہاں صرف دو ہی لوگ خوش تھے اور وہ تھے برف اور کہر۔ بہار تو اس باغ کا راستہ ہی بھول چکی تھی۔ وہ دونوں خوشی سے چلّاتے ’’اب تو ہم سارا سال یہیں رہیں گے۔‘‘

    برف نے اپنے سفید دبیز کوٹ سے گھاس کو ڈھانپ دیا اور کہرے نے تمام درختوں کو چاندی سے رنگ دیا، پھر انہوں نے کرّۂ شمالی سے آنے والی سرد ہواؤں کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ آ کر رہیں۔ چنانچہ ہوا کا طوفان بھی ان کے ساتھ آ کر رہنے لگا، اس نے بھاری فر کا کوٹ پہن رکھا تھا اور سارا دن زور زور سے باغ میں دھاڑتا رہتا یہاں تک کہ اس نے آتش دان تک الٹ پلٹ کر ڈالے۔

    مزید دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں پڑھیں
    ’’آہا یہ تو بہت اچھی جگہ ہے‘‘ وہ خوش ہو کر بولا اور اولوں کو بھی وہاں آنے کی دعوت دی اور وہ بھی وہاں آ کر رہنے لگے۔ وہ ہر روز تین گھنٹے تک قلعہ کی چھت پر دھما چوکڑی مچاتے یہاں تک کہ چھت کے کئی کنگرے ٹوٹ کر گر گئے پھر وہ باغ میں نہایت تیزی سے دائروں کی صورت گھوما کرتے، انہوں نے سرمئی لبادہ پہنا ہوتا اور ان کی سانس برف کی طرح سرد اور کاٹ دار ہوتی۔

    خود غرض دیو پریشان تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس بار بہار کو آنے میں اتنی دیر کیسے ہو گئی۔ وہ اپنے کمرے کی باغ کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا جو سفید دودھیا برف سے ڈھکا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

    ’’مجھے امید ہے موسم جلد ہی تبدیل ہو جائے گا‘‘ اس نے خود کو یقین دلایا۔ لیکن وہاں بہار کبھی نہ آئی اور نہ ہی موسم گرما۔ خزاں نے سارے باغوں کو لذیذ پھل تقسیم کئے لیکن دیو کے باغ کو ایک بھی نہ دیا، وہ بولی ’’ہنھ دیو بہت خود غرض ہے۔‘‘

    سو وہاں موسم سرما ہی رہا اور شمال سے آنے والی سرد ہوا اور اولے، برف، ژالہ باری اور کہرا درختوں پر ادھر سے ادھر کودتے پھاندتے پھرا کرتے۔

    ایک صبح دیو اپنے بستر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک اس نے نہایت ہی دلفریب اور مسحور کن موسیقی کی آواز سنی، وہ اس کے کانوں کو بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی اس نے سوچا شاید بادشاہ کے موسیقار وہاں سے گزر رہے ہیں، لیکن در حقیقت وہ بہت ہی نازک اور خوش الحان بلبل نما پرندہ تھا جو اس کی کھڑکی کے باہر گیت گا رہا تھا۔ دیو نے عرصے سے اپنے باغ میں کسی پرندے کا گیت نہیں سنا تھا اس وقت یہ مدھر آواز اسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔

    تب ہی اولوں نے برسنا چھوڑ دیا اور شمالی سرد ہوا کے جھکڑ بھی ٹھہر گئے۔ یک بیک بہت خوشبو کی لہر نے فضا کو معطر کر دیا جب یہ لہر کھلی کھڑکی سے ہوتی ہوئی اس کی ناک سے ٹکرائی، تو اس نے بے اختیار اپنے بستر سے چھلانگ لگائی اور باہر باغ کی طرف دیکھنے لگا، اس نے خود کلامی کی۔ … اب مجھے یقین ہو گیا ہے بالآخر بہار آ ہی گئی‘‘
    ٭٭٭

    آخر اس نے ایسا کیا دیکھ لیا تھا؟ اس نے بہت ہی شاندار نظارہ دیکھا تھا۔ دیوار میں کئے گئے چھوٹے سے سوراخ کے ذریعے بچّے باغ میں داخل ہو گئے تھے، اور درختوں کی شاخوں پر براجمان تھے۔ اسے ہر درخت پر ایک بچہ بیٹھا ہوا دکھائی دے رہا تھا ان کے واپس آ جانے سے درخت اتنے خوش تھے کہ انہوں نے خود کو پھولوں سے لبریز کر لیا تھا اور ان کی پھولوں بھری ڈالیاں اپنے بازو بچوں کے سروں کے گرد حمائل کئے محسوس ہو رہی تھیں۔ پرندے خوشی سے چہچہاتے پھر رہے تھے اور پھول ہری گھاس سے ایک بار پھر جھانکنے اور مسکرانے لگے تھے۔

    یہ ایک بہت ہی دلکش نظارہ تھا، لیکن باغ کے ایک کونے میں ابھی بھی موسم سرما موجود تھا، یہ باغ کا سب سے آخری سرا تھا جہاں ایک چھوٹا سا لڑکا کھڑا تھا۔ وہ اتنا ننھا منا سا تھا کہ درخت کی شاخوں تک اس کی رسائی ممکن نہ تھی، وہ درخت کے تنے سے لپٹا بری طرح رو رہا تھا۔ بے چارہ درخت ابھی بھی کہرے اور برف سے اٹا ہوا تھا اور اس کے چاروں طرف شمالی سرد ہوا منڈلا رہی تھی۔ درخت نے بچے سے کہا ’’ننھے لڑکے اوپر آ جاؤ۔‘‘ اس نے اپنی شاخیں اتنی نیچے تک جھکا دیں جتنا کہ وہ جھک سکتا تھا مگر بچہ بہت ہی چھوٹا تھا وہ پھر بھی کسی شاخ کو نہیں تھام سکا۔

    دیو نے یہ منظر دیکھا تو اس کا دل موم ہو گیا۔ اس نے سوچا میں بھی کتنا خود غرض تھا، اب میری سمجھ میں آیا کہ بہار میرے باغ میں کیوں نہیں آ رہی تھی۔ میں اس ننھے بچے کو درخت پر بٹھا دوں گا اور باغ کے اطراف کی اونچی دیواریں ڈھا دوں گا، میرا باغ بچوں کے کھیلنے کے لئے ہمیشہ وقف رہے گا۔ وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ تھا۔ پھر وہ سیڑھیاں اترتا نیچے پہنچا اور صدر دروازہ آہستگی سے کھول کر باغ میں چلا گیا، لیکن جب بچوں نے اسے دیکھا تو بہت خوف زد ہو گئے اور وہاں سے بھاگ گئے۔ باغ پھر سے برف اور کہرے سے بھر گیا موسم سرما نے اسے پھر سے گھیر لیا تھا۔ صرف وہ ننھا لڑکا بالکل نہ ڈرا اور نہ وہاں سے بھاگا۔

    اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں، دیو نے اسے پشت سے تھاما اور آہستگی سے اپنے ہاتھ میں لے کر درخت کی شاخ پر بٹھا دیا، اور یوں درخت ایک بار پھر بور سے لد گیا، ہر طرف پھول ہی پھول کھل گئے۔ پرندے وہاں آ کر چہچہانے اور گیت گانے لگے، ننھے لڑکے نے اپنے بازو دیو کی گردن میں حمائل کر دیے اور اسے پیار کیا۔ جب دوسرے بچوں نے یہ دیکھا کہ اب دیو پہلے جیسا برا نہیں رہا تو وہ بھاگتے ہوئے واپس آ گئے اور بہار دوبارہ سے باغ میں ہر طرف پھیل گئی۔

    ’’یہ اب تمہارا باغ ہے ننھے بچّو!‘‘ دیو نے کہا۔ اس نے بڑی کلھاڑی اٹھائی اور دیوار کو مسمار کر ڈالا۔ جب دوپہر کے بارہ بجے لوگ مارکیٹ جانے کے لئے وہاں سے گزرے تو انہوں نے دیکھا دیو بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ اتنا خوب صورت باغ انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
    ٭٭٭

    بچّے سارا دن وہاں کھیلتے رہے۔ شام کو دیو کو خدا حافظ کہنے آئے تو اس نے پوچھا ’’تمہارا وہ ننھا دوست کہاں ہے؟، وہی جسے میں نے درخت پر بٹھایا تھا، مجھے وہ بہت اچھا لگا تھا اس نے مجھے پیار بھی کیا تھا‘‘

    بچوں نے جواب دیا، ’’وہ تو چلا گیا، ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم‘‘

    دیو نے ان سے کہا، ’’اس سے کہنا وہ کل ضرور یہاں کھیلنے آئے‘‘ لیکن بچے تو اسے جانتے ہی نہیں تھے نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے، انہوں نے تو اسے پہلے کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔

    دیو اس بات پر اداس ہو گیا۔ ہر دوپہر اسکول کی چھٹی کے بعد بچے دیو کے ساتھ کھیلنے اس کے باغ میں آتے مگر وہ لڑکا دوبارہ کبھی دکھائی نہ دیا۔

    دیو اب بچوں کے ساتھ بہت مہربانی سے پیش آتا۔ وہ اکثر ان سے اس لڑکے کے بارے میں پوچھا کرتا اور اس کی باتیں کرتا وہ کہتا کہ وہ اسے دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔

    وقت گزرتا گیا۔ ….. یہاں تک کہ دیو بوڑھا اور کمزور ہو گیا، وہ اب بچوں کے ساتھ کھیل نہ پاتا بس اپنی بڑی سی وہیل چیئر پر بیٹھا انہیں کھیلتے ہوئے دیکھا کرتا۔ بچے اس کے باغ کو بہت سراہتے، اس پر وہ کہتا ’’میرے باغ میں بہت سے خوب صورت پھول ہیں لیکن بچوں سے بڑھ کر خوب صورت پھول کوئی نہیں۔‘‘

    سردیوں کی ایک صبح وہ اپنے کمرے میں کپڑے بدلتے ہوئے کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہا تھا۔ اسے اب موسم سرما برا نہیں لگتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا یہ بہار اور پھولوں کے آرام کا وقت ہے، انہیں کچھ وقت کے لئے سونا بھی ہوتا ہے، باہر دیکھتے ہوئے اس نے حیرت سے اپنی آنکھوں کو رگڑا اور خوب غور سے بار بار دیکھا جیسے اسے اپنی بصارت پر یقین نہ آیا ہو، یہ بلا شبہ بہت ہی خوب صورت نظارہ تھا، باغ کے انتہائی کونے میں ایک درخت سفید پھولوں سے لدا ہوا تھا اس کی شاخیں سنہری اور نقرئی پھلوں کے بوجھ سے زمین پر جھک آئی تھیں۔ ….. اور۔ …. ان کے نیچے وہی ننھا لڑکا کھڑا تھا۔

    دیو خوشی سے اچھلتا کودتا سیڑھیوں سے اتر کر باغ میں پہنچ گیا اور گھاس پر لوٹتا جب لڑکے کے قریب پہنچا تو اس کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔ اس نے بے چینی سے لڑکے سے پوچھا ’’تمہارے جسم پر زخموں کے نشان کیسے ہیں، کس نے تمہیں زخمی کیا‘‘ لڑکے کی ہتھیلیوں اور پیروں پر کسی کے تیز ناخنوں کے نشان تھے۔
    ٭٭٭

    ’’وہ کون ہے، جس نے تمہیں زخم دیے؟ مجھے بتاؤ۔‘‘ دیو بے تابی‘‘ چلّایا۔ ’’میں اپنی تلوار سے اس کا کام تمام کر دوں گا۔‘‘

    ’’نہ۔۔۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔ ’’یہ تو پیار کے زخم ہیں‘‘دیو نے اچنبھے سے لڑکے کی طرف دیکھ کر سوال کیا ’’آخر تم کون ہو؟‘‘ ایک تکلیف دہ کراہ اس کے منہ سے نکلی اور وہ بچّے کے قدموں میں بیٹھ گیا۔

    لڑکا دیو کو دیکھ کر مسکرایا اور اس سے کہنے لگا۔ ’’ایک بار تم نے مجھے اپنے باغ میں کھیلنے دیا تھا، آج میں تمہیں اپنے ساتھ اپنے باغ میں لے جانے کو آیا ہوں۔ جانتے ہو میرا باغ کہاں ہے؟

    جنّت میں ہے میرا باغ!‘‘
    ٭٭٭
    اسکول سے واپسی پر بچے جب کھیلنے کے لئے باغ میں آئے تو انہوں نے دیکھا باغ کے آخری سرے پر درخت کے نیچے دیو لیٹا ہوا تھا۔ انہوں نے قریب جا کر دیکھا وہ تو مر چکا تھا اور سفید پھولوں نے اس کے جسم کو پوری طرح ڈھانپ دیا تھا۔

    (آسکر وائلڈ کی کہانی جسے سلمیٰ‌ جیلانی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے)

  • ایک کہانی جو ہماری سوچ کو بدل سکتی ہے!

    ایک کہانی جو ہماری سوچ کو بدل سکتی ہے!

    یہ ایک بادشاہ کی کہانی ہے، جس میں ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ ہمارے لیے اکثر مصیبت اور کسی افتاد کے موقع پر صبر کرنا یقیناً آسان نہیں ہوتا، ہم عام زندگی میں اکثر جلد بازی اور عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہم میں سے بہت کم لوگ مثبت طرزِ فکر اپناتے ہیں۔ مگر یہ ایسی کہانی ہے جو کئی لوگوں کی سوچ کو بدل سکتی ہے۔

    یہ ایک سلطنت کے شہزادے اور اس کے بچپن کے دوست کی کہانی ہے۔ وہ اکٹھے کھیل کود کر جوان ہوئے تھے۔ ان کی دوستی مثالی تھی اور وہ ایک دوسرے کے راز دار بھی تھے۔ جب اپنے باپ کی موت کے بعد اس شہزادے نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی تو اپنے اُس دوست کو فراموش نہیں کیا۔ وہ اسے ہمہ وقت ساتھ رکھتا تھا۔ بادشاہ کے اس کی عادت تھی کہ جب بھی اس کی زندگی میں کوئی اچھی بُری بات ہوتی تو وہ کہتا کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔

    ایک روز بادشاہ اپنے اسی دوست کے ساتھ شکار پر گیا۔ جنگل میں ایک مقام پر پہنچ کر انھوں نے اپنا خیمہ گاڑ دیا۔ بادشاہ کے دوست نے بندوق میں بارود بھرا اور بندوق تیار کر کے بادشاہ کو تھما دی۔ وہ جنگل میں آگے بڑھے تو بادشاہ کو ہرن دکھائی دیا۔ بادشاہ نے ہرن کا نشانہ باندھ کر گولی چلائی تو نشانہ چوک گیا لیکن اچانک بادشاہ کو اپنے ہاتھ میں تکلیف کا احساس ہوا۔ دیکھا تو اُس کا انگوٹھا کٹ چکا تھا۔ بادشاہ کو شدید جلن محسوس ہو رہی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کے دوست نے حسبِ‌ عادت کہا ’جو ہوتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے، اس میں یقیناً کوئی بہتری ہو گی۔ اس موقع پر بادشاہ نے یہ سنا تو اسے بڑا غصّہ آیا اور بولا: یہ بہتر نہیں ہے، میرا انگوٹھا ضائع ہو گیا ہے۔ وہ فوراً محل لوٹ آئے اور بادشاہ نے داروغہ کو بلا کر حکم دیا کہ اس کے دوست کو قید خانے میں ڈال دیا جائے۔

    اس واقعہ کو ایک سال گزر گیا۔ ایک روز بادشاہ دوبارہ شکار کھیلنے گیا اور گھنے جنگل میں اپنے ساتھیوں اور محافظ دستے سے بچھڑ گیا۔ جنگل میں‌ اسے توہم پرست اور وحشی صفت قبیلے کے لوگوں نے پکڑ لیا اور اپنے علاقے میں لے گئے۔ یہ آدم خور بھی تھے۔ انھوں نے بادشاہ کے ہاتھ باندھ دیے اور آگ بھڑکا دی۔ اب دو لمبے چوڑے قبائلی بادشاہ کی طرف بڑھے۔ وہ اسے جان سے مارنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ اچانک اُن میں سے ایک کی نظر بادشاہ کے انگوٹھے پر پڑی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی اور اپنی زبان میں‌ کہا کہ یہ تو معذور ہے۔ دراصل وہ قبیلہ بہت وہمی اور وہاں کے سب لوگ توہم پرست تھے۔ وہ کسی جسمانی معذوری کا شکار انسان کو نہیں کھاتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح دیوتا ان سے ناراض ہوجائے گا۔ لہٰذا انھوں نے بادشاہ کو رہا کر دیا۔

    بادشاہ گرتا پڑتا کسی طرح اپنے محل میں پہنچا اور سب سے پہلے اپنے دوست کو جیل سے نکال کر دربار میں لانے کا حکم دیا۔ اسے جنگل سے بھاگتے ہوئے مسلسل یہ خیال ستاتا رہا تھا کہ کس طرح اُس کا انگوٹھا کٹ گیا تھا اور اُس کے دوست نےت کہا تھا کہ جو ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے۔ جب اُس کا دوست آیا تو بادشاہ اس سے بے اختیار لپٹ گیا اور معافی مانگتے ہوئے اُسے ساری روداد سنا دی اور کہا کہ میں نے تمھارے ساتھ بہت بُرا کیا اور جیل میں‌ ڈلوا دیا۔ واقعی یہ اچھا ہوا تھا کہ اس روز میرا انگوٹھا کٹ گیا تھا۔ آج اس انگوٹھے کے نہ ہونے کی وجہ سے میری جان بچ گئی۔

    بادشاہ کا دوست اس کی بات سن کر مسکرایا اور بولا: یہ بھی بہتر ہی ہوا کہ آپ نے مجھے جیل بھجوا دیا۔ اپنے دوست کی یہ بات سن کر بادشاہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ یہ کس طرح‌ بہتر ہوا دوست، تم ایک سال تک جیل میں رہے اور کہہ رہے ہو کہ اچھا ہوا۔ بادشاہ کا دوست بولا: اگر میں جیل میں نہ ہوتا تو یقیناً تم مجھے شکار پر اپنے ساتھ لے گئے ہوتے اور وہ جنگلی مجھے ہڑپ کر چکے ہوتے کیونکہ میرا انگوٹھا صحیح سالم ہے۔ اس نے مزید کہا، زندگی میں اکثر جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ یقیناً اچھے کے لیے ہوتا ہے، لیکن انسان فطرتاََ جلد باز واقع ہوا ہے جب کہ قدرت کسی اور طرح ہمارا ساتھ دے رہی ہوتی ہے۔ اُمید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے اور سوچ ہمیشہ مثبت رکھنی چاہیے۔