Tag: حکایات رومی

  • لالچی سپیرا اور اژدھا

    لالچی سپیرا اور اژدھا

    زمانۂ قدیم ہی سے قصّے کہانیاں انسانوں‌ کی دل چسپی اور توجہ کا محور رہی ہیں۔ بالخصوص بچّے اور نوجوان بہت اشتیاق اور ذوق و شوق سے اپنے بڑوں کی زبانی وہ کہانیاں سنتے رہے ہیں، جو ان تک سینہ بہ سینہ اور کتابوں کے ذریعے پہنچی تھیں۔

    یہ سبق آموز کہانیاں اور حکایات اکثر سچے واقعات پر مبنی ہوتی ہیں جن میں عقل و دانش کی بات اور کوئی ایسا نکتہ بیان کیا جاتا ہے جو بچّوں اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت، فکری اور جذباتی راہ نمائی اور ان کو معاملاتِ زمانہ سکھانے میں‌ مددگار ثابت ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ زمانۂ قدیم میں یہ درس گاہوں کے نصابِ تعلیم کا حصہ ہوا کرتی تھیں اور لوگوں کو زبانی یاد ہوتی تھیں۔ دنیا کی کوئی قوم، کوئی علاقہ یا کوئی براعظم ایسی سبق آموز کہانیوں اور حکایات سے خالی نہیں اور ہر ایک قوم کے پاس لوک کہانیوں اور حکایات کا خزانہ موجود ہے۔ ان حکایات میں ہزاروں سال کے انسانوں کے مشاہدات، تجربات اور خیالات کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جس سے بڑے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں اور اسے اپنے بچّوں کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی ملاحظہ کیجیے۔

    بچّو! یہ ایک سپیرے کا قصہ ہے۔ سپیرا کسے کہتے ہیں، تم جانتے ہو نا؟ یہ وہ آدمی ہوتا ہے جو جنگل بیاباں میں جاکر سانپ پکڑتا ہے اور اسے حکیم اور طبیب وغیرہ کو فروخت کردیتا ہے یا اس کا تماشا دکھا کر روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے۔ اس کے پاس ایک بین ہوتی ہے جسے بجاتا ہوا وہ اپنے شکار کی تلاش میں پھرتا رہتا ہے۔

    ہم جس سپیرے کی کہانی سنا رہے ہیں، وہ دن رات نت نئے اور زہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگل، ویرانوں اور صحرا میں مارا مارا پھرتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سخت سردی کا موسم تھا۔ سپیرا پہاڑوں میں سانپ تلاش کر رہا تھا۔ وہ خاصا تھک گیا تھا اور اب مایوس ہو کر گھر لوٹنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اسے ایک اژدھا نظر آیا۔ یہ ایک بہت بھاری اور بہت لمبا اژدھا تھا۔ سپیرے نے غور کیا کہ اژدھا اس کے پیروں کی آواز اور اس کے بین بجانے پر ذرا بھی حرکت نہیں کر رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ مَر چکا ہے۔ سپیرے نے ہمّت کی اور اژدھے کے قریب گیا۔ اس نے اپنی چھڑی سے اس کے جسم پر متعدد بار ضرب لگائی اور ہلایا بھی، لیکن اس نے ذرا بھی حرکت نہ کی، تب سپیرے کو یقین ہوگیا کہ اژدھا مر چکا ہے، کیوں کہ پہاڑوں پر پچھلے چند ہفتوں کے دوران سخت سردی ہی نہیں پڑی تھی بلکہ برف باری بھی ہوئی تھی۔ سپیرے نے سوچا کہ موسم کی سختی کے باعث وہ شکار کر کے اپنا پیٹ بھرنے میں ناکام رہا ہوگا اور یخ بستہ ہواؤں کو برداشت نہیں کرسکا جس کے سبب اس کی موت واقع ہوگئی۔ سپیرے نے سوچا اگر اس مردہ اژدھے کو کسی طریقے سے شہر لے جاؤں تو اسے دیکھنے والوں کا ہجوم اکٹھا ہوجائے گا اور یہ تماشا کرکے میں خوب مال کماؤں گا۔

    وہ اژدھا کیا تھا، ستون کا ستون تھا۔ سپیرے کے لیے اسے اپنے ساتھ لے جانا مشکل تھا۔ مگر اس نے دماغ لڑایا اور کسی طرح درختوں کے چند بڑے بڑے پتّوں کو جمع کر کے سوکھی ہوئی مضبوط شاخوں کی مدد سے اژدھے کے جسم کو ان پر پتّوں پر ڈال دیا۔ اب اس نے درختوں کی چھال سے ایک قسم کی رسّی بٹ لی اور جان لیا کہ وہ بڑی آسانی سے اژدھے کو کھینچ سکتا ہے۔ سپیرے نے خوشی خوشی شہر کا رخ کیا۔ وہ اسے ہموار راستے پر گھسیٹ کر اور ناہموار جگہوں پر پتّوں سمیت دونوں ہاتھوں میں‌ اٹھا کر، الغرض کسی طور شہر کے مصروف علاقے کے مرکزی بازار میں لے آیا۔ سپیرے کے اس کارنامے کی شہر میں دھوم مچ گئی۔ جس نے سنا کہ شہر میں فلاں سپیرا ایک نایاب نسل کا اژدھا پکڑ کر لایا ہے، وہی سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے چل پڑا۔ سیکڑوں ہزاروں لوگ آتے اور اژدھے کا مالک سپیرا دیکھتا کہ خاصے لوگ جمع ہوگئے ہیں‌ تو وہ اس کے جسم پر سے وہ چادر ہٹا دیتا جو اس نے یہاں‌ پہنچ کر ڈال دی تھی۔ اس کے ساتھ وہ لوگوں کو پہاڑوں کی جانب اپنے سفر اور خطرناک سانپوں کی تلاش کا قصّہ بڑھا چڑھا کر سناتا جاتا اور اس کا سچ جھوٹ سن کر لوگ حیران بھی ہوتے اور باتیں‌ بھی بناتے، مگر اسے انعام اور اس تماشے پر بخشش کے طور پر اشرفیاں ضرور دیتے۔ سپیرے کو اور چاہیے بھی کیا تھا۔ وہ ان لوگوں کے مذاق کا نشانہ بن کر اور ایسی ویسی باتیں سن کر بھی خوش تھا، کیوں کہ وہ شام کے آغاز سے اس وقت تک جتنی رقم جمع کرچکا تھا، وہ ایک سے دو ہفتے تک سپیرے اور اس کے گھر والوں کی کھانے پینے کی ضرورت کو کافی تھی۔ سپیرا لالچ میں آگیا اور گھر لوٹنے کے بجائے مرکزی چوک پر اژدھے کے ساتھ ہی سو گیا۔ اسے گھر جانے اور اس رقم کو اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنے کا خیال ہی نہیں آ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا زیادہ سے زیادہ مال بنا لے۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا تو کسے معلوم تھا کہ یہ دن سپیرے پر آج کیسا غضب ڈھائے گا۔

    بچّو! جب سپیرا اژدھے کے ساتھ شہر آیا تھا، تو شام کا وقت شروع ہوچکا تھا۔ سورج ٹھنڈا‌ پڑنے کے بعد ڈوبنے کو تھا۔ مگر آج تو اژدھا مسلسل سورج کی تپش اور سخت دھوپ میں پڑا رہا تھا۔ دراصل وہ اژدھا زندہ تھا اور پہاڑوں پر سخت سردی اور برف باری کی وجہ سے اس کا جسم سُن ہو چکا تھا۔ برف سے ٹھٹھرنے کے باعث وہ بے حس و حرکت ایسا پڑا تھا جیسے مردہ۔ آج جیسے جیسے سورج کی براہِ راست تپش اور دھوپ اس کے جسم پر پڑی، اس کا منجمد جسم زندگی کی طرف لوٹنے لگا۔ دوپہر کو سخت دھوپ تھی اور لالچ کا مارا سپیرا جو اسے مردہ سمجھ رہا تھا، اژدھے کے قریب ہی کھڑا تھا۔ اچانک اژدھے کے جسم میں تھرتھری پیدا ہوئی اور اس نے اپنا منہ کھول دیا۔ اژدھے کا منہ کھولنا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدحواسی اور خوف کے عالم میں جس کا جدھر منہ اٹھا اسی طرف کو بھاگا۔ سپیرے نے جب اچانک بھگدڑ مچتے دیکھی اور شور سنا تو پلٹا اور تب مارے دہشت کے سپیرے کا خون ہی گویا اس کی رگوں میں جم گیا۔ اس نے دل میں کہا غضب ہو گیا۔ یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا۔ ابھی وہ بھاگنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدھے نے اپنا بڑا سا منہ کھول کر اس سپیرے کو نگل لیا۔ لوگ تو اس افتاد سے ہڑبڑا کر دور جا کھڑے ہوئے تھے اور اکثر تو وہاں سے بھاگ ہی نکلے تھے۔ کون اس بیچارے سپیرے کو بچاتا؟

    سپیرے کو نگلنے کے بعد اژدھا رینگتا ہوا آگے بڑھا، اور ایک بڑے اور قدیم پیڑ کے مضبوط تنے سے خود کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اندر موجود اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئیں۔

    بچّو! یہ مولانا روم سے منسوب حکایت ہے جس میں ہمارے لیے یہ سبق پوشیدہ ہے کہ محض نام و نمود اور مال کی خواہش میں کیا گیا کوئی کام خطرے سے خالی نہیں‌ ہوتا۔ خوب سوچ سمجھ کر اور مشورہ کر کے ہی کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جس کی اچھائی اور نفع کا خوب یقین نہ ہو۔ اس حکایت سے ایک دوسرا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ ہمارا نفس بھی سردی میں ٹھٹھرے ہوئے اژدھے کی مانند ہے جسے جب عیش و آرام کی حدّت اور سازگار ماحول ملتا ہے تو وہ بیدار ہوجاتا ہے اور تب ہماری ہی جائز و ناجائز خواہشوں کی شکل میں ہمیں نگلنے کو لپکتا ہے۔

  • برتر کون….؟ (دل چسپ حکایت)

    برتر کون….؟ (دل چسپ حکایت)

    ایک دفعہ چیونٹی اور ایک مکھّی کہیں آمنے سامنے ہوگئیں۔ باتوں باتوں میں‌ ایسا ہوا کہ ان میں اس بات پر تکرار شروع ہوگئی کہ کون برتر ہے۔

    مکھی کہنے لگی کہ دنیا میں کون سی مجلس عیش و نشاط کی ہوتی ہے کہ جس میں ہم شریک نہیں ہوتے۔ سارے بُت خانے اور عالی شان عمارتیں میرے لیے کھلی رہتی ہیں۔ بتوں کے آگے کا خاصہ ہم چکھتے ہیں اور شاہ زادوں کی دعوت کھاتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ بغیر خرچ اور دردِ سر کے یہ سب چیزیں ہم کو میسّر ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی بادشاہوں کے تاج پر پاؤں رکھ دیتے ہیں اور کبھی کبھی نازنینوں کے لب سے لب ملاتے ہیں۔ بھلا تیری کیا حقیقت ہے کہ میرے آگے اپنی بزرگی جتاتی ہے؟

    چیونٹی نے یہ سنا تو غصّے سے جواب دیا، چپ رہ! اور فخرِ بے ہودہ نہ کر۔ تجھے کیا معلوم نہیں کہ مہمان اور بن بلائے میں کتنا فرق ہے؟ اور تیری صحبت کو لوگ ایسا پسند کرتے ہیں کہ جہاں تجھے پاتے ہیں مار ڈالتے ہیں۔ تجھ سے کسی کو کچھ حاصل نہیں، یہاں تک کہ جس چیز کو تُو چھوتی ہے اس میں پِلو پڑ جاتے ہیں۔ اور خوب صورتوں کے منہ چومنے پر ناز مت کر۔ گھورے پَر کے غلیظ کے سوا تیرے منہ سے کیا نکلتا ہے جس کو معشوق اور لطیف طبع لوگ پسند کریں۔ اور میرا حال یہ ہے کہ بندی جو خود پیدا کرتی ہے، اسی کو کھاتی ہے اور لوٹ اور تاراج سے علاقہ نہیں رکھتی اور گرمیوں کے دن میں خوب ذخیرہ کرتی ہے تاکہ جاڑوں میں اوقات بسر ہو۔ اور تیری زندگی اس کے برعکس کٹتی ہے کہ چھے مہینے اٹھائی گیروں کی طرح ادھر اُدھر سے لوٹ پاٹ کر کھاتی ہے اور باقی چھے مہینے فاقہ کرتی ہے۔

    حاصلِ کلام یہ کہ انسان کو بات منہ سے نکالتے ہوئے خوب سوچ لینا چاہیے اور اپنی حیثیت و مرتبہ دیکھ کر بات کرنا چاہیے۔ ہم جب تک اپنے گریبان میں نہیں‌ جھانکتے، ہمیں‌ اپنا آپ ہی اچھا نظر آتا ہے، لیکن جب دوسروں سے اپنے بارے میں سنتے ہیں تو جو حقیقت سامنے آتی ہے، وہ ہمارے لیے باعثِ شرم اور آزار بھی ہوسکتی ہے۔ سچ ہے، ہر ایک کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے۔

    (ماخذ: جوہرِ اخلاق، مصنّف ایسوپ)

  • فقیہ کی دستار اور چور

    فقیہ کی دستار اور چور

    ایک دفعہ کسی فقیہ نے کپڑے کی بہت سے چندیاں دھوئیں اور پاک صاف کرکے انہیں اپنے سَر پر عمامے کے نیچے اس طرح‌ باندھ لیا کہ اس کا عمامہ بلند اور وزنی دکھائی دے اور لوگ سمجھیں کہ بڑا عالم فاضل ہے جس کے سَر پر ایسی بھاری دستار سجی ہوئی ہے۔

    بلاشبہ ان حقیر اور بے قیمت دھجیوں سے دستار کا وزن دگنا تگنا ضرور ہوگیا، لیکن قلبِ منافق کی طرح وہ اندر سے پست، کم حیثیت اور بے قیمت ہی تھی۔ دراصل فقیروں کی گدڑیوں کے ٹکڑے، بوسیدہ اور سڑی ہوئی روئی اور پوستین کی دھجیاں اس عمامے کی بنیاد تھیں۔

    وہ فقیہ یہ وزنی عمامہ سَر پر باندھ کر اگلے روز صبح سویرے ایک مدرسے کی طرف چلا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ وہاں اس کی یہ اونچی اور سجیلی دستار اس کی عزت و عظمت کا ایک سبب بنے گی۔ وہ سمجھ رہا تھاکہ عزّت اور تکریم ہی نہیں کچھ ہدیہ بھی اپنی جانب متوجہ ہونے والوں سے حاصل کر سکے گا۔

    راستے میں‌ ایک چور نے تاڑ لیا کہ ایک قیمتی دستار والا چلا آرہا ہے۔ جوں ہی وہ فقیہ نزدیک آیا چور نے دستار جھپٹ لی اور بھاگا تاکہ اسے بازار میں بیچ کر ٹکے کھرے کرے۔

    فقیہ نے اُسے آواز دی کہ ارے بھائی! یہ دستار کدھر لیے جاتا ہے اور کس دھوکے میں ہے؟ ذرا اسے کھول کر بھی دیکھ لے اس کے بعد جی چاہے تو بڑے شوق سے لے جا۔ میں نے تجھے عطا کی۔

    فقیہ کی یہ آواز سن کر اُچکے نے دوڑتے دوڑتے اس وزنی دستار کو کھولا اور ایک جگہ سے اس کی سلائی ادھیڑ دی۔ اس میں سے رنگ برنگی کپڑوں کی دھجیاں نکل نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ یہاں تک کہ اس کے ہاتھ میں بوسیدہ کپڑا رہ گیا جسے جھّلا کر زمین پر پھینکا اور رک کر کہنے لگا۔

    اے غریب اور فریبی انسان! تُو نے اس دغا بازی سے خواہ مخواہ میری محنت برباد کی۔ یہ کیسا فریب دیا تُو نے کہ ظاہر میں ایسی عمدہ دستار بنائی جس نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں‌ تیرے سر سے کھینچ لوں اور بازار میں بیچ کر مال بناؤں؟ تجھے ذرا حیا نہ آئی ایسا مکر کرتے ہوئے۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ بیٹھے بٹھائے ایک گناہ کیا اور وہ بھی بے لذّت۔

    فقیہ نے اس کی بات سن لی تھی۔ اس نے چور کو جواب دیا، تُو سچ کہتا ہے کہ بے شک یہ دھوکا تھا، لیکن یہ سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کردیا کہ لے جانے سے پہلے اسے کھول کر دیکھ لے۔ اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ؟ کچھ میرا قصور ہو تو بتا۔ اس لٹیرے نے فقیہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    سبق: اے عزیز! فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے اس کا بھی اس نے سب پر اظہار کر دیا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  • بھیڑ اور درہم (حکایتِ رومی)

    بھیڑ اور درہم (حکایتِ رومی)

    ایک شخص اپنی بھیڑ کو کہیں لے کر جارہا تھا۔ اس نے ایک لمبی رسّی سے اس بھیڑ کو باندھ رکھا تھا۔

    راستے میں ایک چور نے موقع دیکھ کر رسّی کاٹی اور بھیڑ کو لے کر چل دیا۔ مالک کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ دائیں‌ بائیں دوڑنے لگا۔

    اتنے میں‌ چور اس بھیڑ کو چھپا کر ایک کنویں پر آ بیٹھا اور زار قطار رونے اور واویلا کرنے لگا۔ بھیڑ کے مالک کو شبہ تو ہوا، لیکن یہ حالت دیکھ کر اس نے پوچھا، اے بھائی کیوں روتا ہے؟

    اس (چور) نے جواب دیا کہ میری روپوں کی تھیلی کنویں‌ میں گرگئی ہے، اگر کسی کو کنویں میں اترنا آتا ہے تو اترے اور تھیلی نکال لائے، اس کا پانچواں‌ حصّہ میں‌ خوشی خوشی اسے دے دوں گا، میری تھیلی میں پانچ سو درہم ہیں۔

    بھیڑ والے نے دل ہی دل میں سوچا کہ یہ دس بھیڑوں‌ کی قیمت ہے۔ اگر ایک دروازہ بند ہُوا تو کیا ہے، دس دروازے کھل گئے۔ میری ایک بھیڑ گئی تھی، خدا نے بدلے میں‌ اونٹ دلوا دیا۔

    وہ فوراً کپڑے اتار کنویں میں‌ اترا۔ ادھر چور اس کے کپڑے بھی سمیٹ کر بھاگ گیا۔

    سبق: ہوشیار آدمی کو چاہیے سیدھے راستے سے گھر جائے، جہاں احتیاط نہیں ہوتی اور سوچ سمجھ کر کام نہیں‌ کیا جاتا، وہاں لالچ طاعون لے آتا ہے۔

    (کتاب حکایاتِ رومی سے انتخاب جس کے مترجم مرزا شاہ صاحب لبیب ہیں)

  • چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    یہ سرزمینِ عرب کے ایک بادشاہ اور اس کے مصاحبِ خاص کا قصّہ ہے جس میں‌ ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں ایک روز کسی طرح ایک شخص دربار میں‌ داخل ہونے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے۔ اندر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ بادشاہ آج کسی بات پر خوش ہے اور دربار کا ماحول بہت اچھا ہے۔

    اس شخص نے بادشاہ کو سلام کرکے عاجزانہ انداز میں اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت طلب کی۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس نے کہا کہ میں بے روزگار ہوں، جو کام مل جاتا ہے، کر لیتا ہوں اور محنت سے جی نہیں‌ چراتا، مگر کچھ عرصے سے قسمت نے یاوری نہ کی اور بہت تنگی سے گزر بسر کرتا رہا، اب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔

    بادشاہ نے اس کی قابلیت پوچھی تو کہا۔ "سیاسی (یعنی معاملہ فہم اور دانا) ہوں۔”

    بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے شاہی اصطبل کا انچارج بنا دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ کام پر لگ گیا۔ چند ہفتے بعد بادشاہ نے اسے طلب کرکے اپنے سب سے چہیتے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔

    اس شخص نے جو اب شاہی سواری کے لیے مخصوص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج تھا، جواب دیا، "حضور، وہ نسلی نہیں ہے۔”

    یہ سن کر بادشاہ کو تعجب ہوا۔ اس نے سائیس کو بلاکر اس بابت دریافت کیا۔ اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ہے، لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر زندہ رہا اور اسی کے ساتھ پلا بڑھا ہے۔

    بادشاہ نے انچارج سے پوچھا، تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ گھوڑا اصیل نہیں ہے۔؟

    اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سَر نیچے کر لیتا ہے جب کہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سَر کو اٹھا لیتا ہے۔

    بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے داد اور انعام کے طور پر اصطبل کے رئیس کے گھر اناج، بھنے دنبے اور حلال پرندوں کا عمدہ گوشت بھجوایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ملکہ کے محل میں تعیناتی کا حکم بھی جاری کردیا۔ چند دنوں بعد بادشاہ نے اس مصاحب سے اپنی زوجہ کے بارے رائے مانگی۔

    اس نے کہا، طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں، لیکن "شہزادی نہیں ہے۔” یہ سن کر بادشاہ کو بہت غصّہ آیا، اور اس نے اپنی ساس جو خود ایک ملک کی ملکہ تھی، کو بُلا کر معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ اس نے کہا، حقیقت یہ ہے کہ آپ کے والد نے بچّی کی پیدائش پر ہی اس کا رشتہ آپ کے لیے مانگ لیا تھا، لیکن وہ ایک بیماری کے سبب سال بھر ہی زندہ رہ سکی اور ہم نے بادشاہ یعنی آپ کے والد سے تعلق اور قرابت داری کے لالچ میں کسی کی بچّی گود لے کر پالی اور اسی سے آپ کی شادی ہوئی ہے۔

    اب بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا کہ "تم نے کیسے جان لیا کہ میری زوجہ کسی شاہی خاندان کی عورت نہیں ہے۔”

    اس نے کہا، "وہ اپنے خادموں کے ساتھ بدسلوکی میں کسی جاہل سے بھی بدتر ہیں۔”

    اب تو بادشاہ نے اس شخص کو دانا اور نہایت عقل مند مان لیا۔ اس نے بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام بھی دیں۔ ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں خاص منصب عطا کیا۔

    کچھ وقت گزرا تو بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور کہا کہ میرے بارے میں کچھ بتاؤ۔

    اس مصاحبِ خاص نے کہا، "جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔” بادشاہ نے امان کا وعدہ کیا، اس نے کہا: "آپ کا طور طریقہ اور چلن بتاتا ہے کہ آپ بادشاہ زادے نہیں‌ ہیں۔”

    بادشاہ کو یہ سن کر سخت غصّہ آیا، مگر وہ جان کی امان دے چکا تھا، سو چپ رہا اور سیدھا اپنی ماں کے پاس گیا۔ اس نے اپنے بارے میں ماں سے دریافت کیا تو اس نے بتایا:

    "اس مصاحب کی بات سچ ہے، تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو ہم نے تمھیں لے کر پالا اور کسی کو اس کی خبر نہ ہونے دی کہ تم ہماری حقیقی اولاد نہیں‌ ہو۔”

    بادشاہ نے مصاحب کو پھر بلایا اور پوچھا، بتا، "تجھے کیسے علم ہوا؟”

    اس نے کہا، جب شاہانِ وقت کسی کو انعام و اکرام دینا چاہتے ہیں تو اسے ہیرے موتی، جواہرات دیتے ہیں اور اشرفیوں میں‌ تولتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ بکریوں اور بھنا ہوا گوشت عنایت کرتے ہیں جیسے ایک معمولی رئیس کا طور ہوتا ہے۔”

    یہ حکایت اس وقت بیان کی جاتی ہے جب کسی کی خاص عادت اور طرزِ عمل کی بنیاد پر اس کے خصائل اور اخلاقی حالت کے بارے میں رائے دینا ہو۔

  • چالاک درزی اور سپاہی (حکایتِ رومی)

    چالاک درزی اور سپاہی (حکایتِ رومی)

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چند دوست کہیں مل بیٹھے۔ باتوں باتوں میں ایک دوست نے کسی درزی کا تذکرہ چھیڑ دیا۔ اس نے کہا درزی بڑا عیّار ہے۔ لاکھ ہوشیاری سے کام لو، مگر وہ اپنا کام کر جاتا ہے اور کپڑا چوری کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔

    وہاں ایک سپاہی بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ مجھے دھوکا دینا بہت مشکل ہے، میں کل ایک تھان لے کر اس درزی کے پاس جائوں گا اور اپنے سامنے کٹوا کر کرتا سلواؤں گا۔ اگر وہ تھان سے کچھ کپڑا اڑا لے تو میں زین سمیت گھوڑا ہار جاؤں گا۔

    اگلے روز وہ سپاہی اطلس کا تھان لے کر درزی کی طرف چلا۔ اپنا گھوڑا ایک طرف باندھا اور درزی کے پاس جاکر یوں مخاطب ہوا، درزی! میں نے سنا ہے تُو بڑا چالاک ہے۔ تُو اوروں کو دائو دیتا ہو گا، مگر میں تیرے داؤ میں آنے والا نہیں۔

    درزی نے کہا قبلہ! تشریف رکھیے آپ کے دل میں کس نے شک ڈالا۔ کام کرتے عمر گزر گئی۔ میں ایک کترن تک حرام سمجھتا ہوں۔ کسی اور الّو کو میں جُل دے بھی دوں، مگر آپ جیسے کائیاں مجھ سے کب دھوکا کھا سکتے ہیں؟ جب درزی نے ہاتھ میں قینچی لی، تو سپاہی چوکنا ہو کر بیٹھ گیا اور اس نے درزی کی آنکھوں پر اپنی آنکھیں لگا دیں۔

    درزی نے سوچا کہ اسے باتوں میں لگا کر اور چٹکلے سنا کر غافل کرنا چاہیے چناں چہ اس نے اسے یہ لطیفہ سنانا شروع کیا۔

    ایک درزی کی شادی ہوئی۔ بیوی پڑھی لکھی ملی، اسے استادوں کے ہزاروں شعر یاد تھے۔ وہ ایک دن اشعار سنا سنا کر خاوند سے داد مانگنے لگی اور پوچھا کہ بتائو کیا سمجھے؟ وہ سمجھتا کیا خاک! اسے تو ساری ابجد بھی یاد نہ تھی۔ جب بیوی نے سخت اصرار کیا تو وہ دل میں کچھ سوچ کر بیٹھا بیٹھا سر ہلانے لگ گیا۔ بیوی بولی، میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ تم شعروں کا مطلب سمجھتے ہو اور مجھے یونہی دم دیتے ہو کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔

    شوہر نے کہا، جو کچھ میری عقل میں آتا ہے میں بتا دیتا ہوں۔ بیوی بولی ہاں بتاؤ۔ اس نے کہا، اللہ کی قسم میں سمجھتا ہوں کہ تُو میرے پاس ٹکتی نظر نہیں آتی۔ یہ لطیفہ سن کر سپاہی مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہوگیا۔ درزی نے موقع کو غنیمت جانا اور تھان سے ایک چوتھائی حصہ کاٹ کر الگ رکھ لیا۔

    سپاہی نے کہا، ہاں ایک اور چٹکلہ ہو جائے۔ درزی نے ایسا ہی ایک اور لطیفہ سنایا۔ سپاہی کے پیٹ میں مارے ہنسی کے بل پڑ گئے۔ ہنستے ہنستے جب اس کا سرزمین پر جا لگا درزی نے ایک چوتھائی حصہ کپڑا اور کاٹ لیا۔

    اس کے بعد ترک سپاہی نے فرمائش کی کہ استاد! ایک لطیفہ اور بھی سنا دو۔ درزی نے کہا اب اور فرصت نہیں۔ جلد ناپ دو ورنہ کرتا بگڑ جائے گا اور بدن پر تنگ آئے گا۔ ادھر درزی اس سپاہی کا کُرتا تیّار کرنے بیٹھا اور اُدھر سپاہی نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کا گھوڑا تو چور لے اڑا ہے۔

    سبق: یہاں سپاہی سے مراد وہ شخص ہے، جو اپنے تقویٰ کے زعم پر شیطانی صحبت میں جا بیٹھتا ہے اور شیطان درزی کی طرح اس کو خواہشاتِ نفسانی (لطیفوں اور ہنسی مذاق کی باتوں)‌ میں لگا کر اس کی عمر کے تھان کو رات دن کی قینچی سے کاٹ ڈالتا ہے۔

    (مثنوی مولانا جلال الدّین رومی سے انتخاب)

  • بوڑھے کا جواب(حکایت)

    بوڑھے کا جواب(حکایت)

    کسی ملک میں آبادی سے دور ایک پہاڑی مقام پر کوئی بوڑھا رہتا تھا جس کی ساری زندگی مطالعہ اور غور و فکر میں گزری تھی اور وہ اپنے فہم اور تدبر کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔

    مقامی اور دور دراز کے علاقوں کے لوگ بھی اس کے پاس مشورہ لینے، اپنے مسائل کا حل پوچھنے کے لیے آتے تھے۔ وہ اس بوڑھے سے اپنی مشکلات بیان کرتے تو وہ ﺍنھیں کوئی اچھی بات اور ان کے مسئلے کا آسان حل بتا دیتا۔

    کچھ ایسے لوگ بھی اس کے پاس آتے جو اس کی علمیت اور ذہانت کا امتحان لیتے اور مشکل سوالات پوچھتے۔ وہ ان کو درست جواب دیتا اور مسئلے کا حل بتا کر خوش کردیتا۔

    وہ بوڑھا سبھی کو ان کے مسائل کا حل بتا کر یہ تاکید ضرور کرتا تھا کہ اب اس پر عمل کرنا تمھارا کام ہے۔

    اسی پہاڑ کے قریب ایک بستی تھی جہاں غریب اور محنت کش لوگ رہتے تھے، ان کے بچے اور نوجوان لڑکے بہت شریر اور آوارہ گرد تھے۔ وہ اس بوڑھے سے اکثر ٹیڑھے سوال کرتے اور اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے تھے۔

    ایک صبح اس بستی کے شریر لڑکے نے اپنے دوستوں سے کہا: آؤ اس بوڑھے کو تنگ کرتے ہیں، آج وہ ہمارے سوال کا جواب نہیں‌ دے سکے گا۔ سب بہت خوش ہوئے اور ان کا اشتیاق بڑھا کہ دیکھیں وہ کس طرح اس دانا بوڑھے کو لاجواب کرتا ہے۔

    اس لڑکے نے ایک کبوتر اپنے ہاتھوں میں‌ چھپا لیا، اس نے سوچا کہ بوڑھے سے پوچھے گا کہ اس کے ہاتھوں میں جو کبوتر ہے وہ زندہ ہے یا مردہ، اگر وہ کہے گا کہ زندہ ہے تو میں اسے دبا کر مار دوں گا، لیکن وہ کہے گا کہ مردہ ہے تو میں اسے آزاد کردوں گا اور اس کی پرواز سب کے سامنے اس کے زندہ ہونے کا ثبوت ہوگی۔ یوں بوڑھے کو بڑی شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔

    لڑکا اپنے ساتھیوں سمیت بوڑھے کے پاس پہنچا اور وہی سوال پوچھا جو اس کے ذہن میں تھا۔

    اس کے ساتھی لڑکے بڑی بے تابی سے بوڑھے کے جواب کے منتظر تھے۔ اس دانا بوڑھے نے ایک نظر ان سب کو دیکھا اور پھر لڑکے کی طرف متوجہ ہوا

    "اس کبوتر کے مردہ یا زندہ ہونے سے فرق نہیں‌ پڑتا، یہ ضرور ہے کہ وہ تمھارے ہاتھوں میں ہے، اور تم اس کے ساتھ جیسا پسند کرو وہ سلوک کرسکتے ہو۔”

    یہ کہہ کر وہ اپنے گھر کے اندر چلے گئے اور لڑکے اس روز ایک سبق سیکھ کر لوٹے کہ انسان کسی شعبدے، دھوکے سے خود کو نہیں منوا سکتا بلکہ اس کا عمل اس کی دانائی اور ذہانت کا ثبوت ہوتی ہے۔

    (یہ حکایت جلال الدین رومی سے منسوب ہے)

  • مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    برصغیر پاک و ہند میں حضرت جلال الدین رومی کو صرف شاعر نہیں بلکہ عظیم صوفی اور بزرگ کی حیثیت سے نہایت عقیدت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دنیا انھیں تیرھویں صدی عیسوی کا ایک بڑا صوفی اور مفکر مانتی ہے اور جلال الدین رومی کو بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    مولانا رومی کی شہرۂ آفاق تصنیف ان کی ایک مثنوی ہے جسے نہایت دیگر کتب کے مقابلے میں نہایت معتبر اور قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے اور برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ترکی، ایران کے باشندے رومی کی اس تصنیف سے خاص لگاؤ اور گہری عقیدت رکھتے ہیں۔

    مولانا جلال الدین رومی کو صرف اس خطے میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں عظیم صوفی بزرگ مانا جاتا ہے اور ان مثنوی کو شاہ کار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی رباعیات، حکایات اور دیگر کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔

    مولانا رومی مذہب اور فقہ کے بڑے عالم اور حضرت شمس تبریز کے ارادت مند تھے۔ مسلمان دانش ور، درگاہوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات ان کے افکار کو روحانیت اور دانائی کا راستہ سمجھتے اور اسے اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔

    مولانا کی مثنوی اور ان کی شاعری کا دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ مختلف تاریخی کتب اور تذکروں کے مطابق ان کا اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔

    آپ کا لقب جلال الدین اور شہرت مولانا روم سے ہوئی۔ کہتے ہیں ان کا وطن بلخ تھا جہاں 1207 عیسوی میں آپ نے آنکھ کھولی۔ تعلیم اور تدریس کی غرض سے مختلف ملکوں کا سفر کیا اور 66 سال کی عمر میں 1273 عیسوی میں دنیا سے رخصت ہوئے اور ترکی میں دفن کیے گئے۔