Tag: حکایات سعدی

  • لومڑی کا رزق (حکایاتِ‌ سعدی)

    لومڑی کا رزق (حکایاتِ‌ سعدی)

    ایک درویش کسی جنگل میں سفر کر رہا تھا۔ اس کی نظر ایک لنگڑی لومڑی پر پڑی جو بے بسی کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔ درویش کے دل میں خیال آیا کہ اس لومڑی کے رزق کا انتظام کیسے ہوتا ہوگا جب کہ یہ شکار کرنے کے قابل نہیں ہے؟

    درویش ابھی یہ بات سوچ رہاتھا کہ اسے ایک شیر دکھائی دیا جو ایک گیدڑ کو اپنے منہ میں گرفت کیے اس لومڑی کے قریب آیا اور زمین پر پھینک کر اس کا گوشت نوچنے لگا۔ شیر نے اس کا کچھ حصّہ کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی لومڑی نے بچا کھچا گوشت کھانا شروع کیا اور اپنا پیٹ بھر کر آگے بڑھ گئی۔

    درویش نے یہ دیکھا تو اسے محض اتفاق پر محمول کیا اور سوچنے لگا کہ اب جب بھوک اس لومڑی کو ستائے گی تو کیا اس پر پھر قسمت اسی طرح‌ مہربان ہوسکے گی۔ اسے یہ مشکل نظر آرہا تھا۔ اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ لومڑی دوبارہ اپنا پیٹ کیسے بھرے گی وہیں قیام کیا۔ اگلے روز بھی ایک شیر منہ میں شکار دبائے اس جگہ آیا اور اس نے کچھ گوشت کھانے کے بعد باقی چھوڑ دیا۔ لومڑی نے وہ باقی گوشت کھا لیا اور اپنا پیٹ بھر لیا۔ درویش سمجھ گیا کہ اس کے رزق کا انتظام اللہ کی طرف سے ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی درویش کے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ وہ بھی توکل کرے اور خود پیٹ بھرنے کے لیے جستجو نہ کرے۔ اس نے سوچا کہ میرا رزق اللہ مجھے خود پہنچا دے گا جس طرح لنگڑی لومڑی کو شیر کے ذریعے رزق پہنچا رہا ہے۔

    درویش یہ فیصلہ کرنے کے بعد ایک جگہ جاکر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا رزق بھی اس تک پہنچ جائے گا مگر کئی دن گزر گئے اس کے لئے کھانے کی کوئی شے نہ آئی یہاں تک کہ وہ کمزوری کی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس دوران اس نے نزدیک ایک مسجد کے محراب سے یہ آواز سنی کہ اے درویش! کیا تو لنگڑی لومڑی بننا چاہتا ہے یا پھر شیر جو اپنا شکار خود کرتا ہے جس میں سے خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے۔

    حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ رزق پہنچانے کا انتظام اللہ کی طرف سے ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بندہ اچھا بھلا ہو اور وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے کہ اللہ نے جب رزق دینے کا وعدہ کیا ہے تو بیٹھے بٹھائے رزق پہنچائے گا بلکہ اس کے لئے اسے جستجو کرنا ضروری ہے۔ محنت کرنے کے بعد ہی پھل کھانا مزہ دیتا ہے۔ وہ لوگ جو محتاج ہیں اور محنت نہیں کرسکتے ان کا انتظام قدرت کی جانب سے ایسا ہوتا ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن یہ سب ایک نظام کے تحت ہوتا ہے اور یہ ہر ایک کی خواہش کے تابع نہیں‌ ہے۔

  • کسرِ نفسی (حکایت)

    کسرِ نفسی (حکایت)

    فارسی زبان میں چند کتابوں میں جو شہرت شیخ سعدی کی حکایتوں پر مشتمل کتابوں کو حاصل ہوئی اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ حضرت سعدی کی حکایات پڑھ کر بے اختیار دل جھوم اٹھتا ہے۔ ان کی سادہ اور اخلاقی حکایتیں فارسی کی وہ نثر ہے جس میں ہمارے لیے ایک جہان پوشیدہ ہے۔

    دنیا کی کئی زبانوں جرمنی، فرانسیسی، ہندی، انگریزی، اردو اور مختلف خطّوں کی مقامی زبانوں میں بھی ان کی حکایات کا ترجمہ مقبول ہوا۔ یہاں ہم شیخ سعدی سے منسوب ایک حکایت بعنوان ‘کسرِ نفسی کا درجہ نقل کررہے ہیں​۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک سال دریائے نیل نے مصر کی زمین کو سیراب نہ کیا۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کے آثار پیدا ہو گئے اور لوگ بلبلا اٹھے۔ کچھ لوگ حضرت ذوالنون مصری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ اللہ والے ہیں، دعا کریں کہ بارش ہو جائے۔ قحط پڑا تو مخلوق خدا کے ہلاک ہو جانے کا خطرہ ہے۔
    جب لوگ چلے گئے تو حضرت ذوالنون مصری نے اپنا سامان سفر باندھا اور ملک بدین کی طرف نکل گئے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گھٹا چھاگئی اور کھل کر مینہ برسا۔ جل کا تھل ہو گیا۔ قحط کا خطرہ ٹل گیا۔

    حضرت ذوالنون مصری بارش ہونے کے بیس روز بعد واپس اپنے علاقہ تشریف لائے تو لوگوں نے وطن چھوڑ کر چلے جانے کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا۔
    "لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث جانوروں، پرندوں کا رزق کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے خیال کیا کہ اس سرزمین میں سب سے زیادہ گناہ گار اور خطا کار میں ہی ہوں چنانچہ یہاں سے چلا گیا۔”

    اس حکایت سے ہم کو سبق یہ دیا گیا کہ حضرت کا ایسا فرمانا ازراہِ کسر نفسی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ خاکسار انسان ہی سرفراز ہوتا ہے۔ کسر نفسی کا درجہ بہت بڑا ہے۔ خاکسار بن کر اور غرور و پارسائی سے بچ کر ہی انسان سرخرو ہوتا ہے۔

  • دنیا دار کا پیٹ (حکایتِ‌ سعدی)

    دنیا دار کا پیٹ (حکایتِ‌ سعدی)

    جزیرۂ کیش میں مجھے ایک تاجر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے چالیس کارندے تھے اور ڈیڑھ سو اونٹوں پر مالِ تجارت لدا ہوا تھا۔ وہ ایک رات مجھے اپنے گھر لے گیا مگر خیالی پلاؤ پکانے میں نہ تو رات بھر مجھے سونے دیا اور نہ خود سویا۔

    وہ تاجر اُس رات اتنا بولا کہ ہانپ ہی گیا اور ایسا لگتا تھا کہ اب مزید بولنے کی اس میں سکت باقی نہیں‌ رہی۔ کبھی کہتا کہ میرا فلاں مال ترکستان میں پڑا ہے اور فلاں شے ہندوستان میں رکھی ہے۔ کبھی کہتا کہ اسکندریہ چلیں، وہاں کی آب و ہوا بڑی خوش گوار ہے، پھر خود ہی کہہ دیتا جائیں کیسے؟ راستے میں دریائے مغرب بڑا خطرناک ہے۔ کبھی یوں کہتا کہ جس سفر کا میں نے ارادہ کر رکھا ہے اگر وہ پورا ہو جائے تو پھر عمر بھر ایک جگہ گوشۂ قناعت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کروں گا۔

    میں نے دریافت کیا، بتائیے تو وہ کون سا سفر ہے؟ کہنے لگا، فارس سے چین میں گندھک لے جاؤں گا، سنا ہے وہاں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے اور چین سے پیالیاں خرید کر روم بھیجوں گا اور وہاں سے ان کے عوض رومی کپڑا ہندوستان لے جاؤں گا۔ پھر ہندوستان سے ہندوستانی فولاد لے کر حلب میں پہنچاؤں گا اور اس کے بدلے میں آئینے خرید کریمن میں لے جاؤں گا اور پھر یمنی چادریں اپنے وطن فارس میں لا کر مزے سے ایک دکان کھول کر بیٹھ جاؤں گا اور سفر کو خیر باد کہہ دوں گا۔

    ذرا اس جنون کو تو ملاحظہ فرمائیے! بس اسی طرح بکتے بکتے اس نے رات گزار دی۔ اس نے اتنی بکواس کی کہ پھر گویا بات کرنے کو اس کے پاس کچھ رہا نہیں۔ آخر اس نے میری طرف توجہ کی اور کہا:

    شیخ صاحب! آپ نے بھی دنیا دیکھی ہے، اپنے دیکھے سُنے سے ہمیں بھی تو کچھ بتلائیے۔

    اس کے جواب میں ایک شعر میں نے اسے سنایا:

    گفت چشم تنگِ دنیا دار را
    یا قناعت پرو کند یا خاکِ گور

    اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ دنیا دار کا پیٹ کبھی بھرتا نہیں، اسے یا تو صبر ہی بھرے یا پھر خاکِ گور۔

    (حضرت شیخ سعدی شیرازی سے منسوب ایک حکایت)

  • ملّاح اور دو بھائی (حکایتِ سعدی)

    ملّاح اور دو بھائی (حکایتِ سعدی)

    ایک بار میں (شیخ سعدی) سفر پر روانہ ہوا اور کشتی کے ذریعے دریا پار کر رہا تھا۔ ہماری کشتی کے پیچھے ایک اور نسبتاً چھوٹی کشتی آ رہی تھی جس میں چند مسافر بیٹھے ہوئے تھے۔

    اتفاق ایسا ہوا کہ چھوٹی کشتی دریا کے بہاؤ میں توازن کھو بیٹھی اور الٹ گئی۔ اس میں جو مسافر سوار تھے، وہ پانی میں‌ ڈوب گئے۔ چند ہی لمحوں بعد میں نے دیکھا کہ وہ لوگ پانی میں‌ غوطے کھا رہے ہیں۔ ہماری کشتی کے سبھی مسافر ان کی حالت پر افسوس کر رہے تھے اور ان کی جان بچانے کے لیے ہمیں کچھ سوجھتا نہ تھا۔ اتنے میں‌ ایک امیر آدمی نے اِس کشتی کے ملاح سے جس میں ہم سوار تھے کہا، اگر تُو ڈوبتے مسافروں کو بچانے کی کوشش تو میں تجھے بھاری انعام دوں گا۔

    یہ بات سن کر ملاح فوراً دریا میں کود گیا اور وہ دو افراد کے قریب گیا جن میں سے ایک کو کسی طرح بچا لایا۔ دوسرے نے دریا بُرد ہونے سے پہلے ملاّح کی طرف بڑی امید سے دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں‌ بڑی حسرت تھی۔ مآل کار وہ دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ میں نے ملّاح سے کہا کہ تُو نے اپنی طرف سے ان دونوں کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ ڈوبنے والے کی زندگی ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس وجہ سے تیری کوشش کام یاب نہ ہوئی۔

    ملّاح میری یہ بات سن کر مسکرایا اور پھر کہا، ”بے شک یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس مسافر کے ڈوبنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایک بار مجھے کوڑے سے پیٹا تھا۔ تم کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ جسے میں‌ بچا لایا ہوں، اسی دریا برد ہوجانے والے شخص کا حقیقی بھائی ہے۔ جس وقت اس نے مجھے پیٹا تھا، وہ طاقت ور تھا اور ناجائز ایسا کیا تھا۔ میں اس سے بدلہ نہ لے سکا تھا، لیکن وہ بات میرے دل میں کھٹکتی رہتی تھی۔ آج مجھے وہی بات یاد آ گئی اور میں نے اسے بچانے کے لیے ویسی کوشش نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ رہا اس مسافر کا معاملہ جسے میں بچا کر لایا ہوں تو اس نے ایک بار مصیبت کے وقت میری امداد کی تھی۔ میں صحرا میں پیدل سفر کر رہا تھا اور بری طرح تھک چکا تھا۔ یہ ادھر سے گزرا تو اس نے مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا۔ بس اس کی وہ بات مجھے اس وقت یاد آ گئی اور میں نے اسے بچا لیا۔

    ملّاح کی یہ بات سن کر میں نے دل میں کہا، سچ ہے۔ انسان جو عمل بھی کرتا ہے، اسی کے مطابق اسے پھل ملتا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ترجمہ : جس نے نیک عمل کیا وہ اپنے نفس کے لیے کیا اور جس نے برائی کی، اپنے نفس کے لیے کی۔

    (کتاب سعدی صاحب کی کہانیاں سے انتخاب، مترجم نامعلوم)

  • تین سو انسٹھ داؤ

    تین سو انسٹھ داؤ

    کسی لائق فائق پہلوان کا ایک شاگرد ایسا تھا جو اپنے فن میں یکتا تھا۔ اس نے اپنے استاد سے ہر قسم کا داؤ پیچ سیکھا۔ استاد نے تین سو ساٹھ داؤ پیچ میں سے تین سو انسٹھ داؤ سکھا دیے لیکن ایک نہ سکھایا۔​

    شاگرد جب کشتی کے فن میں اس مقام پر جا پہنچا جہاں اس کا مقابل کوئی نہ رہا تو دماغ میں فتور آ گیا۔ اس نے بادشاہ کے دربار میں استاد کو ذلیل کرنے کے لیے یہ کہا کہ اس کا استاد اس سے بزرگی اور تربیت میں برتر ہے لیکن فنِ پہلوانی اور شہ زوری میں نہیں۔ اگر بادشاہ سلامت چاہیں تو مقابلہ کا حکم دیں اور میں اسے چٹکی بجاتے ہی ہرا دوں۔​

    بادشاہ نے اس کی آزمائش کا فیصلہ کیا اور استاد اور شاگرد کے درمیان کشتی کا وقت مقرر کر دیا۔

    وقتِ مقررہ پر ایک وسیع و عریض اکھاڑے میں مقابلہ شروع ہوا۔ بادشاہ، اس کے وزیر، امیروں کے علاوہ ہزاروں لوگ مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ نقارے پر چوٹ پڑی۔ شاگرد خم ٹھونک کر مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا اس طرح میدان میں آیا جیسے طاقت کا جو پہاڑ بھی سامنے آئے گا، وہ اسے اکھاڑ پھینکے گا۔​

    استاد خوب جانتا تھا کہ اس کا شاگرد نوجوانی کے زعم میں مبتلا ہے اور کافی شہ زور بھی ہے لیکن وہ خوب سوچ سمجھ کر میدان میں اترا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ بادشاہ یہ مقابلہ دیکھ رہا تھا۔ کبھی کوئی غالب آتا تو کبھی کوئی داؤ سے نکل جاتا اور وہ پھر آمنے سامنے ہوتے۔ سنسنی خیز مقابلے میں سب کی دل چسپی بڑھ رہی تھی۔ زور آزمائی کے دوران تماش بینوں کو اندازہ ہوا کہ استاد نے شاگرد کے ہر داؤ کو ناکام بنا دیا۔ آخر کار اس نے وہ پوشیدہ داؤ آزمایا جو اپنے شاگرد کو نہ سکھایا تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ اچانک استاد نے کوئی ایسا داؤ کھیلا کہ شاگرد زمین پر آرہا۔ وہ چاروں شانے چت ہوا۔ استاد سینے پر چڑھ بیٹھا۔

    لوگوں نے واہ واہ شروع کردی۔ خوب شور مچایا۔ استاد کو بادشاہ نے انعام و اکرام سے نوازا اور شاگرد کو خوب لعن طعن کی۔ اس نے کہا۔” او ناہنجار! تجھے اپنے استاد کو للکار کے کیا ملا۔ سوائے ذلّت کے اور ندامت کے۔ کہاں گیا تیرا دعویٰ؟”

    شاگرد نے جواب دیا۔” استاد مجھ سے طاقت کے زور پر نہیں بلکہ اس داؤ کی وجہ سے جیتا ہے جو اس نے مجھ سے چھپا رکھا تھا اور لاکھ اصرار اور تقاضہ بھی سکھانے میں ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔”

    استاد نے جواب دیا۔” یہ داؤ میں نے اسی دن کے لیے اٹھا رکھا تھا کیونکہ داناؤں نے کہا ہے کہ اس قدر قوت دوست کو بھی نہ دو کہ بوقتِ دشمنی اسی طاقت کے بل پر تم کو شدید نقصان پہنچائے۔”​

    (یہ حکایت شیخ سعدی سے منسوب ہے)

  • بزدل غلام

    بزدل غلام

    ایک بادشاہ اپنے چند درباریوں کے ساتھ دریا کنارے سیر کو گیا۔ دریا کے دونوں کناروں پر دور تک درخت اور سبزہ پھیلا ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کررہے ہیں۔ فضا میں پرندوں کی پرواز اور ان کی چہکار سے بادشاہ کا دل شاد ہو گیا۔

    کچھ دیر وہاں چہل قدمی کرنے کے بعد بادشاہ نے کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کی خواہش ظاہر کی تو فوراً ایک بڑی کشتی حاضر کردی گئی۔ بادشاہ اور درباریوں کے ساتھ چند غلام بھی کشتی میں‌ سوار ہوگئے۔ ان میں ایک غلام ایسا تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا۔ دریا کی روانی اور بہتے پانی کے شور میں‌ لہروں پر کشتی کے ڈولنے سے وہ خوف زدہ ہوگیا۔ اسے ڈر ہوا کہ کشتی ڈوب جائے گی اور وہ تیرنا بھی نہیں‌ جانتا، تب کیا ہو گا۔ جیسے ہی سفر شروع ہوا خوف کے مارے وہ غلام رونے لگا۔ بادشاہ کو اس کا اس طرح رونا اور خوف زدہ ہونا بہت ناگوار گزرا۔ پہلے تو سب نے اسے سمجھایا، لیکن اس کا رونا دھونا بند نہ ہوا تب ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا۔ اس پر بھی غلام چپ ہو کر نہ دیا۔

    کشتی میں ایک جہاں دیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے اجازت دی تو اس دانا شخص نے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ جب وہ غلام تین چار غوطے کھا چکا تو اسی دانا شخص نے دوسرے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکال لو۔ چنانچہ دو غلام جو اچھے تیراک بھی تھے، فوراً دریا میں کودے اور سَر کے بال پکڑ کر خوف زدہ غلام کو کشتی تک لے آئے اور اس میں‌ گھسیٹ لیا۔ سب نے دیکھا کہ وہ غلام جو ذرا دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف سے بری طرح رو رہا تھا، اب بالکل خاموش اور پُر سکون ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا ہے۔

    بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ آخر اس بات میں کیا بھلائی تھی کہ تم نے ایک ڈرے ہوئے شخص کو دریا میں پھنکوا دیا تھا اور مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اب خاموش بھی ہو گیا ہے؟

    دانا شخص نے جواب دیا حضور والا! اصل بات یہ تھی کہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہ اٹھائی تھی۔ اس طرح اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہ تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب ان دونوں کی حقیقت اس پر روشن ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ خاموش ہو گیا ہے۔

    جس نے دیکھی نہ ہو کوئی تکلیف، قدر آرام کی وہ کیا جانے
    نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ، جَو کی روٹی کو کب غذا مانے

    سبق: یہ حکایت حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب ہے، جس میں انھوں نے انسان کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے کبھی تکلیف دیکھی ہی نہ ہو وہ اس راحت اور آرام کی قدر و قیمت کا اندازہ ہی نہیں‌ لگا سکتا جو اسے حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایسا شخص جسارت اور قوّتِ برداشت سے بھی محروم ہوتا ہے۔ آسودہ، پُرمسرت اور کام یاب زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جس نے کسی بھی قسم کا رنج اور مشکل دیکھی ہو اور کسی بھی طرح کا راحت بھرا وقت گزارا ہو۔

  • دال میں کچھ کالا ہے!

    دال میں کچھ کالا ہے!

    کسی پوشیدہ بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مثل بولتے ہیں، یعنی جس معاملے میں‌ ظاہراً تو کچھ نہ ہو، لیکن باطن میں کوئی نہ کوئی عیب یا خرابی ضرور ہو۔ اس مثل کو سمجھنے کے لیے یہ کہانی پڑھیے۔

    کہتے ہیں ایک نوعمر تجارت کی غرض سے کسی شہر میں گیا۔ جاتے وقت اس کے محلّے داروں اور خیر خواہوں نے اسے خبردار کردیا تھا کہ جہاں جا رہے ہو وہاں کے لوگ انتہائی جھگڑالو اور شرپسند ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنا۔

    یہ نوعمر تاجر اپنا سامان لیے شہر پہنچا تو وہاں ایک سرائے میں قیام کے ساتھ چند دنوں کے لیے ایک مقامی شخص کو اپنے کام نمٹانے کے لیے اجرت پر رکھ لیا۔ ایک دن ہی گزرا تھا کہ کوئی کانا آدمی اس نوعمر سوداگر کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ غالباً آپ کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے آپ خود یہاں تشریف لائے ہیں؟ وہ بیچارے جب بھی یہاں تشریف لاتے تو اسی سرائے میں قیام کرتے تھے۔ وہ لڑکا اس کانے شخص کی باتوں سے سمجھ گیا کہ یہ کوئی چالاک اور دغا باز قسم کا انسان ہے، اس لیے وہ ہوشیار ہو گیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد کانے نے کہا۔ آپ کے والد آنکھوں کی تجارت کرتے تھے۔ ان کے پاس میں نے اپنی ایک آنکھ گروی رکھ کر کچھ روپے لیے تھے، اب آپ وہ روپے لے کر میری آنکھ واپس کر دیجے۔ نوعمر سوداگر یہ سن کر بہت گھبرایا اور اس کانے کو کل کا وعدہ کر کے اس وقت تو ٹال دیا۔ اگلے دن جب وہ آیا تو سوداگر خود کو اس کے جواب کے لیے تیار کر چکا تھا۔ اس نے کانے سے کہا کہ میرے پاس والد مرحوم کی گروی رکھی ہوئی سیکڑوں آنکھیں ہیں۔ میں رات بھر تمہاری آنکھ تلاش کرتا رہا لیکن نہ مل سکی۔ اب صرف یہی طریقہ ہے کہ تم دوسری آنکھ بھی مجھے دے دو تاکہ میں اس کے ساتھ ملا کر تلاش کر لوں اور تمہیں دے سکوں۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں کسی دوسرے کی آنکھ بدل نہ جائے۔ کانے نے جب یہ سنا تو سمجھ گیا کہ یہاں دال گلنا دشوار ہے۔ وہ سوداگر بچّے سے اپنی جان چھڑوا کر وہاں سے نکل گیا۔

    جب یہ نوعمر سوداگر منافقوں کے اُس شہر کو چھوڑنے لگا تو اس نے ملازم کو تنخواہ دینا چاہی۔ ملازم نے کہا کہ حضور نے ملازمت دیتے وقت کہا تھا کہ کچھ دیں گے، روپوں کا معاہدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے مجھے روپے نہیں بلکہ کچھ چاہیے۔ سوداگر سوچنے لگا کہ اس سے کیسے چھٹکارا حاصل کروں۔ اس نے ملازم کو بازار بھیج دیا اور اس روز کی پکی ہوئی مسور کی دال ایک کوزے میں بھری۔ پھر تھوڑی سی کالی مرچیں ڈال کر کوزے کو الماری میں رکھ دیا۔

    ملازم جب واپس آیا تو سوداگر بچے نے کہا کہ دیکھو تو الماری میں کیا رکھا ہے؟ حضور اس میں دال ہے۔ نوعمر تاجر نے کہا! اور کیا ہے؟ ملازم بولا۔ کالا کالا معلوم ہوتا ہے۔ سوداگر بولا! کالا کالا کیا ہے؟ ملازم نے کہا، حضور کچھ ہے۔ اسی وقت اس نوعمر سوداگر نے کہا! میں نے جو ‘کچھ’ دینے کا وعدہ تم سے کیا تھا، وہ یہی ہے۔ تم اسے اٹھا لو اور اپنے گھر کا راستہ لو۔ اس وقت سے یہ مثل مشہور ہو گئی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

  • "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    "میری ایک آنکھ نکال دیجیے”

    ایک بادشاہ کو اس کے وزیروں اور مشیروں نے بتایا کہ حضور آپ کی سلطنت میں دو ایسے شخص بھی رہتے ہیں جن سے ان کے اڑوس پڑوس والے بے حد تنگ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں دربار میں طلب کرکے سرزنش کی جائے۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ مجھے ان کے متعلق تفصیل بتاؤ تاکہ دیکھا جاسکے کہ ان کا قضیہ دربارِ شاہی میں لانے کے قابل ہے بھی یا نہیں۔

    وزیر نے عرض کی کہ بادشاہ سلامت ان دونوں میں سے ایک حاسد ہے اور ایک بخیل، بخیل کسی کو کچھ دینے کا روادار نہیں اور حاسد ہر کسی کے مال سے حسد رکھتا ہے۔ بادشاہ نے ان دونوں کو دربار میں حاضر کرنے کا حکم صادر کردیا۔

    اگلے روز جب دونوں بادشاہ کے حضور پیش ہوئے تو، بادشاہ نے پوچھا کہ تم دونوں کے متعلق مشہور ہے کہ ایک حسد میں مبتلا رہتا ہے اور دوسرا حد درجے کا کنجوس ہے، کیا یہ سچ ہے؟

    وہ دونوں یک زبان ہو کر بولے نہیں بادشاہ سلامت، یہ سب افواہیں ہیں، جو نجانے کیوں لوگ پھیلا رہے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر کہا، اچھا پھر میں تم دونوں کو انعام دینا چاہتا ہوں، وہ انعام تم دونوں کی مرضی کا ہوگا، جو مانگو گے ملے گا، اور جو پہل کرتے ہوئے مانگ لے گا اسے تو ملے گا ہی مگر دوسرے کو وہی انعام دگنا کرکے دیا جائے گا۔

    اب دونوں کشمکش میں گرفتار ہوگئے۔ وہ چاہتے تھے کہ دوسرا ہی پہل کرے، کنجوس نہیں چاہتا تھا کہ میں پہلے بول کر زیادہ انعام سے محروم رہوں، اور حاسد اسی سوچ میں تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میں مانگوں، اس کا دگنا انعام اس بخیل کو بھی ملے۔ وہ بھی بنا مانگے۔ اس کشمکش میں دنوں نے کافی وقت گزار دیا مگر بولنے میں پہل کسی نے بھی نہ کی۔

    اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے بادشاہ نے ان دونوں پر ایک جلّاد مقرر کیا، اسے حکم دیا کہ تین تک گنتی گنو اور اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی بولنے میں پہل نہ کرے تو قید خانے میں ڈال دو،

    جلّاد نے جیسے ہی گننا شروع کیا تو حاسد فوراً بول اٹھا۔

    "بادشاہ سلامت، میری ایک آنکھ نکال دیجیے!”

    (قدیم عربی حکایت سے ماخوذ)

  • چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    چرواہے کا بیٹا (حکایت)

    یہ سرزمینِ عرب کے ایک بادشاہ اور اس کے مصاحبِ خاص کا قصّہ ہے جس میں‌ ہمارے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں ایک روز کسی طرح ایک شخص دربار میں‌ داخل ہونے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے۔ اندر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ بادشاہ آج کسی بات پر خوش ہے اور دربار کا ماحول بہت اچھا ہے۔

    اس شخص نے بادشاہ کو سلام کرکے عاجزانہ انداز میں اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت طلب کی۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس نے کہا کہ میں بے روزگار ہوں، جو کام مل جاتا ہے، کر لیتا ہوں اور محنت سے جی نہیں‌ چراتا، مگر کچھ عرصے سے قسمت نے یاوری نہ کی اور بہت تنگی سے گزر بسر کرتا رہا، اب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے۔

    بادشاہ نے اس کی قابلیت پوچھی تو کہا۔ "سیاسی (یعنی معاملہ فہم اور دانا) ہوں۔”

    بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے شاہی اصطبل کا انچارج بنا دیا جائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ کام پر لگ گیا۔ چند ہفتے بعد بادشاہ نے اسے طلب کرکے اپنے سب سے چہیتے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔

    اس شخص نے جو اب شاہی سواری کے لیے مخصوص گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج تھا، جواب دیا، "حضور، وہ نسلی نہیں ہے۔”

    یہ سن کر بادشاہ کو تعجب ہوا۔ اس نے سائیس کو بلاکر اس بابت دریافت کیا۔ اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ہے، لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مر گئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر زندہ رہا اور اسی کے ساتھ پلا بڑھا ہے۔

    بادشاہ نے انچارج سے پوچھا، تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ گھوڑا اصیل نہیں ہے۔؟

    اس نے کہا، جب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سَر نیچے کر لیتا ہے جب کہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سَر کو اٹھا لیتا ہے۔

    بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا۔ اس نے داد اور انعام کے طور پر اصطبل کے رئیس کے گھر اناج، بھنے دنبے اور حلال پرندوں کا عمدہ گوشت بھجوایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی ملکہ کے محل میں تعیناتی کا حکم بھی جاری کردیا۔ چند دنوں بعد بادشاہ نے اس مصاحب سے اپنی زوجہ کے بارے رائے مانگی۔

    اس نے کہا، طور و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں، لیکن "شہزادی نہیں ہے۔” یہ سن کر بادشاہ کو بہت غصّہ آیا، اور اس نے اپنی ساس جو خود ایک ملک کی ملکہ تھی، کو بُلا کر معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ اس نے کہا، حقیقت یہ ہے کہ آپ کے والد نے بچّی کی پیدائش پر ہی اس کا رشتہ آپ کے لیے مانگ لیا تھا، لیکن وہ ایک بیماری کے سبب سال بھر ہی زندہ رہ سکی اور ہم نے بادشاہ یعنی آپ کے والد سے تعلق اور قرابت داری کے لالچ میں کسی کی بچّی گود لے کر پالی اور اسی سے آپ کی شادی ہوئی ہے۔

    اب بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا کہ "تم نے کیسے جان لیا کہ میری زوجہ کسی شاہی خاندان کی عورت نہیں ہے۔”

    اس نے کہا، "وہ اپنے خادموں کے ساتھ بدسلوکی میں کسی جاہل سے بھی بدتر ہیں۔”

    اب تو بادشاہ نے اس شخص کو دانا اور نہایت عقل مند مان لیا۔ اس نے بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں بطور انعام بھی دیں۔ ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں خاص منصب عطا کیا۔

    کچھ وقت گزرا تو بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور کہا کہ میرے بارے میں کچھ بتاؤ۔

    اس مصاحبِ خاص نے کہا، "جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔” بادشاہ نے امان کا وعدہ کیا، اس نے کہا: "آپ کا طور طریقہ اور چلن بتاتا ہے کہ آپ بادشاہ زادے نہیں‌ ہیں۔”

    بادشاہ کو یہ سن کر سخت غصّہ آیا، مگر وہ جان کی امان دے چکا تھا، سو چپ رہا اور سیدھا اپنی ماں کے پاس گیا۔ اس نے اپنے بارے میں ماں سے دریافت کیا تو اس نے بتایا:

    "اس مصاحب کی بات سچ ہے، تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو، ہماری اولاد نہیں تھی تو ہم نے تمھیں لے کر پالا اور کسی کو اس کی خبر نہ ہونے دی کہ تم ہماری حقیقی اولاد نہیں‌ ہو۔”

    بادشاہ نے مصاحب کو پھر بلایا اور پوچھا، بتا، "تجھے کیسے علم ہوا؟”

    اس نے کہا، جب شاہانِ وقت کسی کو انعام و اکرام دینا چاہتے ہیں تو اسے ہیرے موتی، جواہرات دیتے ہیں اور اشرفیوں میں‌ تولتے ہیں، لیکن آپ بھیڑ بکریوں اور بھنا ہوا گوشت عنایت کرتے ہیں جیسے ایک معمولی رئیس کا طور ہوتا ہے۔”

    یہ حکایت اس وقت بیان کی جاتی ہے جب کسی کی خاص عادت اور طرزِ عمل کی بنیاد پر اس کے خصائل اور اخلاقی حالت کے بارے میں رائے دینا ہو۔

  • بادشاہ کی وصیت

    بادشاہ کی وصیت

    ایک بادشاہ لا ولد تھا۔ جب اس کی موت کا وقت نزدیک آیا تو اس نے وصیت کی کہ میری موت کے دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، میری جگہ اسے بادشاہ بنا دیا جائے۔

    خدا کی قدرت کا تماشا دیکھیے کہ دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ ایک فقیر تھا۔ اس کی ساری زندگی در در بھیک مانگتے اور اپنی گدڑی میں پیوند پر پیوند لگانے میں گزری تھی اور اچانک ہی اسے ایک بڑی سلطنت اور محل نصیب ہو گیا۔

    امیروں، وزیروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق اسے بادشاہ بنا دیا اور وہ تاج و تخت اور خزانوں کا مالک بن کر بہت شان سے زندگی گزارنے لگا۔ قاعدہ ہے کہ حاسد اور کم ظرف لوگ کسی کو آرام میں دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں۔ اس فقیر کے ساتھ بھی یہی ہوا جو اب بادشاہ بن گیا تھا۔ اس کے دربار کے کچھ امرا نے آس پاس کے حکم رانوں سے ساز باز کر کے ملک پر حملہ کروا دیا اور بہت سا علاقہ حملہ آوروں نے فتح کر لیا۔

    فقیر بادشاہ بہت افسردہ رہنے لگا۔ انھی دنوں اس کا ایک ساتھی فقیر ادھر آ نکلا اور اپنے یار کو ایسی حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اسے مبارک باد دی کہ خدا نے تیرا مقدر سنوارا اور فرشِ خاک سے اٹھا کر تختِ افلاک پر بٹھا دیا۔

    فقیر کی یہ بات بالکل درست تھی۔ کہاں در در کی بھیک مانگنا اور کہاں تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہونا، لیکن اس شخص کو تو اب بادشاہ بن جانے کی خوشی سے زیادہ ملک کا کچھ حصہ چھن جانے کا غم تھا۔ غم ناک آواز میں بولا، ہاں دوست تیری یہ بات تو غلط نہیں لیکن تجھے کیا معلوم کہ میں کیسی فکروں میں گھرا ہوا ہوں۔ تجھے تو صرف اپنی دو روٹیوں کی فکر ہو گی، لیکن مجھے ساری رعایا کی فکر ہے۔

    شیخ سعدیؒ کی اس حکایت میں یہ سچائی اور سبق پوشیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا اعزاز پا کر بھی انسان کو سچا اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ طاقت و منصب، جاہ و جلاس اس کی خواہشات بڑھا دیتے ہیں اور اگر ان میں‌ سے کوئی پوری نہ ہو تو وہ اداس اور افسردہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس سے مال و دولت چھن جائے یا اس میں‌ کمی آجائے تو اسے روگ لگ جاتا ہے۔