Tag: حکایات سعدی

  • نادان منشی

    نادان منشی

    ایک منشی خاصے عرصے سے بیروزگار تھا اور بہت پریشان تھا۔ ایک دن وہ شیخ سعدی کے پاس گیا اور اپنا حال بیان کرنے کے بعد کہا کہ آپ کی بادشاہ کے دربار تک رسائی ہے، کسی سے کہہ سُن کر کوئی کام دلوا دیں۔ اس کی بات سن کر شیخ صاحب نے کہا، بھائی، بادشاہوں کی ملازمت خطرے سے خالی نہیں ہوتی۔ نان ہاتھ آنے کی امید کے ساتھ جان جانے کا امکان بھی ہوتا ہے۔

    انھوں نے یہ نصیحت اس کی بھلائی کے خیال سے کی تھی، لیکن وہ سمجھا کہ بزرگ اسے ٹالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شیخ‌ سعدی کو کہنے لگا، یہ بات ٹھیک ہے، لیکن جو لوگ ایمان داری اور محنت سے اپنا کام کریں، انھیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ نے سنا ہو گا کہ میلے کپڑے ہی کو دھوبی پٹرے پر مارتا ہے۔

    شیخ صاحب نے اسے پھر سمجھایا کہ تُو ٹھیک کہتا ہے۔ سانچ کو آنچ نہیں، بہت مشہور بات ہے، لیکن بادشاہوں اور حاکموں کے بارے میں لومڑی کی سی احتیاط برتنی چاہیے جو گرتی پڑتی بھاگتی چلی جاتی تھی۔ کسی نے پوچھا کہ خالہ لومڑی کیا مصیبت پڑی ہے جو یوں بھاگی چلی جا رہی ہو؟ لومڑی بولی، میں نے سنا ہے بادشاہ کے سپاہی اونٹ بیگار میں پکڑ رہے ہیں۔ اس نے ہنس کر کہا، عجب بے وقوف ہے، اگر اونٹ پکڑے جا رہے ہیں تو تجھے کیا ڈر؟ تُو لومڑی ہے۔ لومڑی نے جواب دیا، تیری بات ٹھیک ہے، لیکن اگر کسی دشمن نے کہہ دیا کہ یہ اونٹ کا بچّہ ہے، اسے بھی پکڑ لو تو میں کیا کروں گی؟ جب تک یہ تحقیق ہو گی کہ میں لومڑی ہوں یا اونٹ کا بچّہ، میرا کام تمام ہو چکا ہو گا۔ مثل مشہور ہے کہ جب تک عراق سے تریاق آئے گا، وہ بیمار چل بسا ہو گا جس کے لیے تریاق منگوایا گیا ہو گا۔

    یہ سُن کر بھی منشی نے اپنی فریاد جاری رکھی۔ شیخ نے اس کی حالت دیکھتے ہوئے اسے بادشاہ کے دربار میں ملازمت دلوا دی، شروع شروع تو اسے ایک معمولی کام ملا لیکن وہ آدمی قابل تھا، اس لیے بہت ترقّی کر گیا اور عزّت و آرام کے ساتھ زندگی گزارنے لگا۔

    شیخ صاحب انہی دنوں حج پر چلے گئے اور جب لوٹے تو دیکھا کہ وہ منشی بھی ان کے استقبال کو آیا ہوا ہے، لیکن اس کی حالت سے پریشانی ظاہر ہوتی تھی۔ حالات پوچھے تو اس نے کہا دربار میں بھیجنے سے پہلے آپ نے جو بات کہی تھی، وہ بالکل ٹھیک تھی۔ میں نے اپنی قابلیت اور محنت سے ترقّی کی تو حاسد بھی پیدا ہوگئے اور انھوں نے الزام لگا کر مجھے قید کروا دیا۔ اب حاجیوں کے قافلے لوٹنے کی خوشی میں شاہی حکم پر قیدیوں کو آزاد کیا گیا ہے، تو اسی میں مجھے بھی رہائی نصیب ہوئی ہے۔ ورنہ بادشاہ نے تو یہ جاننے کی کوشش بھی نہ کی کہ میں بے گناہ ہوں اور الزام کی تحقیق تک نہ کروائی۔ شیخ سعدی نے افسوس کا اظہار کیا اور منشی اپنی راہ ہولیا۔

    حضرت شیخ سعدیؒ سے منسوب مختلف کتب میں منقول اس حکایت میں بادشاہوں اور حاکم و امرا کا قرب حاصل کرنے کے بجائے قناعت اور صبر کا راستہ اپنانے کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ اس وقت کے مطلق العنان بادشاہوں کی ہر الٹی سیدھی بات قانون کی حیثیت رکھتی تھی اور دربار سازشی عناصر سے بھرے رہتے تھے اور اکثر ان کی وجہ سے منشی جیسے قابل اور سیدھے سادے لوگ مشکل میں گرفتار ہو جاتے تھے۔ آج کے صاحبِ اختیار لوگوں کا بھی یہی معاملہ ہے، طاقت ور اور بااختیار اگر عدل و انصاف کرنے اور اپنی عقل سے کام لینے سے قاصر ہو تو اس کا قرب خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔

  • خوشامد

    خوشامد

    کسی جنگل میں ایک پیڑ کے نیچے لومڑی آرام کررہی تھی کہ کہیں‌ سے ایک کوّا اڑتا ہوا آیا اور درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ گیا۔ لومڑی نے دیکھا کہ کوّے کی چونچ میں ایک بڑا سا گوشت کا ٹکڑا دبا ہوا ہے۔ اس کا جی بہت للچایا اور وہ ترکیب سوچنے لگی کہ اسے کیسے ہڑپ کرسکے۔

    ادھر کوّا اس بات سے بے خبر اپنا سانس بحال کررہا تھا کہ اس کے لائے ہوئے گوشت کے ٹکڑے پر لومڑی کی نیّت خراب ہوچکی ہے۔

    کوّا اس وقت چونکا جب لومڑی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک واہ وا شروع کردی۔ وہ ایک سانس میں‌ بولے جارہی تھی کہ سبحان اللہ جیسی تیری صورت ہے، ویسی ہی سیرت بھی تُو نے پائی ہے۔ تیرے پر کیا خوش رنگ ہیں اور اس کی سیاہی کیسی چمک دار ہے۔ تیرے گلے پر کیسا اجلا نشان ہے اور تیری چونچ کتنی مضبوط اور حسین ہے۔

    کوّا اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھول گیا۔ پہلے کبھی کسی نے اس کی ایسی تعریف نہیں‌ کی تھی۔ ادھر لومڑی بولے ہی جارہی تھی۔‌ اے پرند تُو اپنی سیرت میں بھی یکتا ہے اور میں‌ نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ تُو بڑا دور اندیش بھی ہے، مگر قدرت نے ایک صفت سے تجھے محروم رکھا ہے تاکہ تُو اپنی اوقات میں رہے اور کسی میں کوئی کمی دیکھے تو اسے حقیر جان کر طعنہ نہ دے سکے۔ کوّا جس نے اب تک اپنے لیے صرف تعریفی کلمات سنے تھے، اچانک ایسی بات سن کر تڑپ اٹھا اور یہ جاننے کے لیے فوراً اپنا منہ کھول دیا کہ وہ کس صفت سے محروم ہے؟

    کوّے نے جیسے ہی منہ کھولا، اس کی چونچ سے گوشت کا ٹکڑا نکلا اور لومڑی کے سامنے آ گرا جس نے اسے ہڑپ کرنے میں‌ بس اتنی ہی دیر لگائی جتنی دیر میں‌ کوئی پلک جھپکتا ہے۔ کوّا سمجھ گیا تھا کہ لومڑی نے اسے بے وقوف بنایا ہے۔

    لومڑی نے کوّے سے کہا، اے کم عقل، تُو کس صفت سے محروم ہے، سچ پوچھ تو مجھے بھی اس کا کچھ علم نہیں‌، لیکن میں‌ یہ ضرور جانتی ہوں کہ خوشامد سے سو کام نکل سکتے ہیں۔

    (ماخوذ از حکایت)

  • ہرن کیوں‌ پچھتایا؟

    ہرن کیوں‌ پچھتایا؟

    ایک جنگل میں‌ ہرن کو پیاس لگی تو وہ اپنے محفوظ ٹھکانے سے نکلا اور ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ آس پاس کوئی درندہ تو چھپا ہوا نہیں‌ ہے۔ اطمینان کرنے کے بعد وہ دریا کی طرف بڑھنے لگا۔

    قسمت اچّھی تھی، راستے میں کسی سے مڈ بھیڑ نہ ہوئی اور وہ دریا کنارے پہنچ گیا۔ دریا کے صاف شفاف اور میٹھے پانی سے سیراب ہونے کے لیے اس نے اپنا منہ ڈالا تو اُس آبِ زُلال میں اپنا سر نظر آیا۔

    وہ اپنے سَر پر موجود سینگوں کو دیکھنے لگا اور کچھ دیر بعد دکھ، غصّے اور بے بسی کی ملی جلی کیفیت میں افسوس سے کہنے لگا کہ اگر میرے دبلے دبلے پاؤں اس خوب صورت شاخ دار سَر کی مانند ہوتے تو میں اپنے دشمنوں کو خاطر میں‌ نہ لاتا۔ ان کے لیے مجھے ہڑپ کرنا یوں آسان نہ ہوتا اور منہ کی کھاتے۔

    وہ ہرن اسی سوچ میں‌ گم تھا کہ اچانک شکاری کتّوں کے بھونکنے کی آواز اُس کے کان میں‌ پڑی جو لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی جارہی تھی۔ ہرن گھبرایا اور سوچا کہ اب کیا کروں، کتے اس کے قریب آچکے تھے۔ اس نے چوکڑی بھری اور ذرا فاصلے پر موجود درختوں کے جھنڈ میں گُم ہونے کے ارادے سے گھستا چلا گیا۔

    ہرن تیز رفتار اور پھرتیلا جانور تھا، وہ انھیں کہیں کا کہیں پیچھے چھوڑ چکا تھا، لیکن کتے اس کے تعاقب میں تھے۔ درختوں کے درمیان پہنچ کر اسے ایک جگہ جھاڑیاں نظر آئیں اور اس نے لمحوں میں فیصلہ کیاکہ وہ ان کے اندر سے ہوتا ہوا مزید آگے نکل جاسکتا ہے۔ وہ جیسے ہی جھاڑیوں میں گھسا، اس کے سینگ کانٹوں میں اُلجھ گئے۔ اس نے اپنے سَر کو بارہا جھٹکا، لیکن سینگ ان جھاڑیوں میں ایسے پھنسے کہ چھڑا نہ سکا۔

    اسی کوشش کے دوران اس نے دیکھا کہ چار پانچ کتے اس کے سَر پر پہنچنے کو ہیں۔ آخر کتوں نے ہرن پر حملہ کردیا اور اسے شکار کرکے اپنا پیٹ بھرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    کتوں کے حملہ کرنے کے بعد جب ہرن نے دیکھا کہ اب اس کی موت یقینی ہے، تب اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور نہایت افسوس سے کہنے لگا! دوستوں کو میں نے دشمن سمجھا اور دشمنوں کو دوست۔ میں اپنی شاخوں(سینگوں) پر فریفتہ ہوا تھا، مگر انھوں نے مجھے اس مصیبت میں گرفتار کیا، اور اپنے پاؤں کی طرف حقارت سے دیکھا تھا، لیکن پاؤں ہی کے سبب تو دریا سے بھاگ کر جنگل تک آیا تھا اور ہر بار یہی تو میری جان بچاتے رہے ہیں۔

    ہرن کو خیال آیا کہ وہ تو اس بار بھی اپنی ٹانگوں ہی کی بدولت سارا میدان طے کر آیا تھا، لیکن جب اس نے قدرت کی صنعت گری میں تعجب کیا اور عیب نکالا تو اس کا یہ حال ہوا۔

    کہتے ہیں، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کی صنعت و تخلیق میں عیب تلاش کرنے والا نادان دراصل اس کی حکمتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔

    (ماخذ: کتاب جوہرِ اخلاق)

  • درویش وزیر! (حکایت)

    درویش وزیر! (حکایت)

    کسی بادشاہ نے معمولی خطا پر اپنے وزیر کو اس کے منصب سے ہٹا دیا۔ فراغت کے دنوں‌ میں وزیر کو درویشوں کی صحبت میں‌ بیٹھنے کا موقع ملا اور اس نے خود کو بہت مطمئن، آسودہ اور روحانی طور پر مسرور پایا۔ ادھر تھوڑا عرصہ گزرنے پر بادشاہ کو احساس ہوگیا کہ وزیر کی خطا ایسی نہ تھی کہ اسے یوں دربار سے نکال دیا جاتا۔ اس نے وزیر کو دربار میں طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالے اور جو ہوا اسے فراموش کردے۔

    اس پر سابق وزیر نے بادشاہ سے جو کہا وہ دنیا داروں اور درباریوں کے لیے حیران کُن تھا۔ درباریوں‌ نے سنا کہ اس نے بادشاہ کو نہایت نرم اور مؤدب لہجے میں‌ انکار کردیا اور وجہ دریافت کرنے پر کہا کہ اب گوشہ نشیں‌ ہے اور سمجھتا ہے کہ جو لوگ مکانِ عافیت میں‌ بیٹھ جاتے ہیں‌ وہ دوسروں کی ناخوشی اور اپنی سلامتی کے خوف سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

    بادشاہ نے یہ سن کر اصرار کیا اور کہاکہ مجھے سلطنت کے انتظام کے واسطے ایک عقل مند اور تجربہ کار وزیر کی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے لیے تم سے بہتر کوئی نہیں‌ ہے۔

    وزیر نے جواب دیا۔ آپ کو ایک عقل مند چاہیے اور اگر میں‌ یہ منصب قبول کرتا ہوں تو یہ میری کم عقلی اور نادانی ہو گی۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے کاموں کا ذمہ ہی نہ لیا جائے۔ بادشاہ سلامت غور کیجیے کہ ہُما تمام پرندوں میں کیوں‌ اتنا معزز ہے؟ وہ اس لیے کہ وہ ہڈیاں کھا لیتا ہے، لیکن کسی جانور کو نہیں‌ ستاتا۔

    سابق وزیر نے بادشاہ کو ایک حکایت بھی سنائی۔ اس نے کہا کہ ایک مرتبہ کسی نے سیاہ گوش سے پوچھا، تم نے شیر کے قریب رہنا کیوں پسند کیا؟ سیاہ گوش نے جواب دیا، اس لیے کہ اس کے شکار کا بچا ہوا کھاؤں اور اپنے دشمنوں سے محفوظ رہوں، میں‌ شیر کے دبدبہ میں حفاظت سے زندگی بسر کررہا ہوں اور یوں دوسرو‌ں کی دشمنی سے محفوظ ہوں۔

    بادشاہ اس کی بات غور سے سن رہا تھا۔ وزیر نے اسے نرم اور اپنی طرف متوجہ پایا تو مزید حکمت و دانائی کے موتی بکھیرے۔ کہنے لگا، بادشاہ سلامت! دانا کہتے ہیں بادشاہوں کا مزاج بدلتا رہتا ہے، ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ کیوں کہ ایک وقت تو وہ سلام کرنے اور آداب بجا لانے پر رنجیدہ اور ناراض ہوسکتے ہیں اور دوسرے وقت گالیاں کھا کر انعام دیتے ہیں۔

    بادشاہ پر اس کی باتوں‌ کا بہت اثر ہوا۔ اس نے اپنے سابق وزیر اور حال کے اس درویش مزاج شخص کو درباری منصب قبول کرنے پر مجبور نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور عزت کے ساتھ رخصت کردیا۔

    درویشوں کی صحبت میں اس دنیا اور جاہ و منصب کی حقیقت سے واقف ہوجانے والے اس شخص نے دربار سے رخصت ہوتے ہوئے کہا کہ اگر انسان اپنی عزت اور مرتبہ کو پہچان لے تو لازم ہے کہ وہ اس کا لحاظ رکھے، اور دل لگی اور ہنسی مذاق اُن مسخروں کے لیے چھوڑ دے جن کی کسی دربار میں‌ کمی نہیں‌ اور جو ہمہ وقت اس کام کے لیے حاضر رہنا پسند کرتے ہیں۔

    ( نامعلوم مصنف کی کہانی سے ماخوذ)

  • وہ جھوٹ جس نے زندگی بچالی

    وہ جھوٹ جس نے زندگی بچالی

    کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے سامنے کسی ملزم کو پیش کیا گیا اور کوتوال نے بادشاہ سے اجازت طلب کی کہ دربار میں اس کا مقدمہ سنایا جائے۔

    بادشاہ نے مقدمہ سنا اور ملزم کو موت کی سزا سنا دی۔ بادشاہ کا فیصلہ جان کر سپاہیوں نے ملزم کو پکڑا اور دربار سے باہر کی طرف لے کر چلے۔

    ملزم نے باہر جاتے ہوئے بادشاہ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ سچ ہے کہ جان کا خوف بڑا ہوتا ہے۔ کسی شخص کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہوگی کہ اسے قتل کرنے کا حکم دیا جا چکا ہو اور وہ سپاہیوں کے نرغے میں مقتل کی طرف جا رہا ہو۔

    ملزم کو سزا سنائی جاچکی تھی اور اس کے دل سے کم از کم یہ خوف دور ہو گیا تھا کہ اس کی بکواس بادشاہ سن لے یا کوئی دوسرا سن کر بادشاہ کو بتا دے تو وہ طیش میں‌ آکر اس کا سَر قلم کروا دے۔ یہ تو اب یوں‌ بھی ہونے ہی والا تھا۔

    بادشاہ نے قیدی کو کچھ کہتے دیکھا تو اس نے ایک وزیر، جو قیدی کے نہایت قریب تھا، سے پوچھا کہ یہ کیا کہہ رہا تھا؟ بادشاہ کا یہ وزیر بہت نیک دل تھا۔ اس نے سوچا، اگر ٹھیک بات بتا دی جائے تو بادشاہ غصّے میں‌ آجائے گا اور ممکن ہے قتل کرانے سے پہلے قیدی کو جسمانی تکلیف اور آزار دے۔

    اس رحم دل وزیر نے جواب دیا۔ جناب یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ پاک ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وزیر کی بات سن کر بادشاہ مسکرایا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کو آزاد کر دیا جائے۔

    بادشاہ کا ایک اور وزیر بھی دربار میں‌ موجود تھا جو اس رحم دل وزیر کا بڑا مخالف اور ایک تنگ دل انسان تھا۔ اس نے موقع غنیمت جانا اور خیر خواہی جتانے کے انداز میں بولا۔

    یہ بات ہر گز مناسب نہیں ہے کہ کسی بادشاہ کے وزیر اسے دھوکے میں رکھیں اور سچ کے سوا کچھ اور زبان پر لائیں۔ اب اس نے بادشاہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ سچ یہ ہے کہ وہ قیدی حضور کی شان میں گستاخی کر رہا تھا۔ اس نے غصہ ضبط کرنے اور بھلائی سے پیش آنے کی بات نہیں کی۔

    وزیر کی یہ بات سن کر بادشاہ نے کہا۔ اے وزیر! تیرے اس سچ سے جس کی بنیاد بغض اور کینے پر ہے، تیرے بھائی کی غلط بیانی بہتر ہے کہ اس سے ایک شخص کی جان بچ گئی۔

    یاد رکھ! اس سچ سے جس سے کوئی فساد پھیلتا ہو، ایسا جھوٹ بہتر ہے جس سے کوئی برائی دور ہونے کی امید ہو۔ وہ سچ جو فساد کا سبب ہو، اس سے بہتر نہیں‌ کہ وہ جھوٹ زباں پر آئے جو فساد اور اس کی تباہ کاریوں کا راستہ روک لے۔ حاسد وزیر بادشاہ کی یہ بات سن کر بہت شرمندہ ہوا۔

    بادشاہ نے قیدی کو آزاد کرنے کا حکم بحال رکھا اور اپنے وزیروں کو نصیحت کی کہ شاہانِ وقت ہمیشہ اپنے وزیروں اور مشیروں کی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر وہ اسے اچھا مشورہ اور بھلی بات کہیں‌ تو یہ سب کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

    یہ حکایت حضرت شیخ‌ سعدیؒ سے منسوب ہے۔ تاہم اس حکایت کے بیان کا مدعا اور مقصود یہ ہے کہ مصلحتا اور نیک نیتی کے ساتھ کسی برائی اور بڑے فساد کو روکنے کے لیے جھوٹ بولا جاسکتا ہے، لیکن پیشِ نظر کوئی اعلیٰ و ارفع مقصد ہو تو اسے معاملہ فہمی اور تدبیر کہا جاسکتا ہے، ورنہ جھوٹ اور دروغ گوئی بدترین فعل ہی ہے۔

  • اللہ کے نافرمان بندے اور رزق، ایک حکایت

    اللہ کے نافرمان بندے اور رزق، ایک حکایت

    شیخ سعدی سے منسوب صدیوں پرانی یہ حکایت اور ایسے سبق آموز واقعات آج بھی ایک بہترین معاشرے اور خوب صورت سماج کی تشکیل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

    یہ حکایت عدم برداشت کے اس دور میں خاص طور پر بااختیار افراد کو غور و فکر پر آمادہ کرتی ہے۔

    یہ ان چند نیک اور قابل لوگوں کا تذکرہ ہے جو میرے رفیق بھی تھے۔ ان کا ظاہر اور باطن ایک تھا۔ ان کی اسی خوبی کی وجہ سے ایک امیر نے ان کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ یوں وہ روزی کمانے کی فکر اور اس حوالے سے جھگڑوں سے بچے ہوئے تھے۔

    ان کے شب و روز کسی محتاجی، تنگی کے بغیر نہایت عزت اور وقار سے گزر رہے تھے۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان میں سے ایک سے کچھ لغزش ہوئی اور وہ امیر ان سے بد ظن ہو گیا۔ اسے ان سبھی کے نیک اور شریف ہونے پر شبہہ ہوا اور اس نے ان کا وظیفہ بند کر دیا۔

    شیخ سعدی بیان کرتے ہیں کہ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو میں نے امیر کے آگے اپنے ان رفقا کی صفائی پیش کرنے کا ارادہ کیا اور اس غرض سے ایک روز امیر کے درِ دولت پر پہنچا۔ اس کا دربان مجھے نہیں جانتا تھا، سو دروازے ہی سے لوٹنا پڑا۔ حسنِ اتفاق تھا کہ وہاں ایک شخص نے مجھے پہچان لیا اور یوں امیر تک رسائی ممکن ہوئی۔ امیر نے مجھے دیکھا تو خوشی کا اظہار کیا اور مسند پر خاص جگہ بیٹھنے کو کہا، لیکن میں عام صف میں بیٹھ گیا اور اس کی عنایتوں کا شکریہ ادا کر کے اپنے دوستوں کی بات چھیڑی۔

    اس گفتگو میں جب میں نے یہ کہا کہ اللہ پاک ہی رزق دینے والا ہے، وہ اپنے نافرمان بندوں کا رزق بھی بند نہیں کرتا، تو اس پر یہ بات اثر کر گئی۔ امیر کا دل پسیج گیا اور اس نے نہ صرف ان کا وظیفہ جاری کر دیا بلکہ پچھلے جتنے دنوں کا وظیفہ نہیں ملا تھا وہ بھی ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ میں نے اس عالی ظرف کی بخشش کا شکریہ ادا کیا اور لوٹ آیا۔

    اس حکایت کا حاصل یہ ہے کہ امرا کو اپنے مرتبے اور منصب کا ہر حالت میں لحاظ کرنا چاہیے۔ ان کو معمولی باتیں نظر انداز کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی لگن ہونی چاہیے۔ معاشرے کے مستحق لوگوں کی امداد اس سے مشروط نہ ہو کہ امداد لینے والا شخص کامل ہو۔ انسان سے کبھی بھی، کسی قسم کی خطا، کوتاہی ہو سکتی ہے۔ تب غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی اپنے نافرمان بندوں کو برابر روزی پہنچاتا ہے اور جو ان کے مقدر میں لکھا ہو اس میں کوئی کمی نہیں کرتا۔