Tag: حکایات

  • بیش قیمت کیا؟ (سبق آموز کہانی)

    بیش قیمت کیا؟ (سبق آموز کہانی)

    دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی شے یا انسان کے لیے بعض حالات میں ازحد ضروری چیز کیا ہوسکتی ہے؟ یقیناً ہر ایک کا جواب مختلف ہوگا۔ کوئی ہیرے جواہرات، بہت سی جائیداد اور ایک بڑے اور جمے جمائے کاروبار کو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے ضروری سمجھتا ہوگا، لیکن یہ کہانی قدرت کی عطا کردہ ایک نعمت کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں ہمارے لیے سبق پوشیدہ ہے۔

    کہتے ہیں کسی ملک کی ملکہ نے ایک روز اپنے زیرِ ملکیت سب سے بڑے بحری جہاز کے کپتان کو بلا کر کہا۔ ”‌ فوراً بادبان چڑھاؤ، لنگر اٹھاؤ اور جہاز لے کر روانہ ہو جاؤ۔ تم کوشش کر کے دنیا کے ان حصّوں میں بھی جاؤ جہاں اب تک جانے کا اتفاق نہیں ہوا ہے اور وہاں جو چیز تم کو سب سے زیادہ عمدہ، عجیب اور قیمتی نظر آئے، جہاز میں بھر کر لے آؤ۔ قیمت کی ہرگز پروا نہ کرنا۔ میں ایک بار اپنے ملک والوں کو ایسی چیز دکھانا چاہتی ہوں جسے حقیقی معنوں میں سب سے زیادہ قیمتی اور ایک آسمانی نعمت کہا جا سکے۔“

    ملکہ حکم دے چکی تھی۔ کپتان کے لیے سوچ بچار کا وقت بچا ہی کہاں تھا۔ کپتان فوراً ساحل پر پہنچا۔ اپنے معاون ملاحوں کو جمع کیا اور انھیں‌ یہ بات بتائی اور ساتھ ہی فوراً روانگی کا اعلان کرتے ہوئے عملے کو جہاز کے بادبان کھول کر اس کا لنگر اٹھانے کی ہدایت کردی۔ جہاز چل پڑا اور کچھ دیر بعد سمندر کے بیچ میں پہنچ گیا۔

    تب، کپتان نے اپنے تمام نائبیں اور عملہ میں شامل پرانے اور بڑی عمر کے ساتھیوں کو بلا کر مشورہ کیا کہ انھیں کس سمت جانا چاہیے اور اگر وہ کسی ملک پہنچتے ہیں تو وہاں‌ سے کیا خریدنا چاہیے۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ کسی نے کہا کہ عمدہ ریشم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ کسی نے کہا کہ ایسے زیورات خریدے جائیں جن کی بناوٹ اور ساخت بالکل نئی ہو۔ کسی نے کہا کہ کیوں نہ اعلیٰ قسم کے نیلم، زمرد، لعل و یاقوت یا بڑے بڑے موتی خریدے جائیں اور پھر اپنی نگرانی میں ان کے زیورا ت تیار کرائے جائیں۔ لیکن ان سب چہ مگوئیوں کے دوران میں ایک کمزور سا ملاح، جس کے بارے میں کہا جا سکتا تھا کہ وہ ہمیشہ فاقے کرتا رہا ہے، کسی قدر ہچکچاتا ہوا بولا۔’’ معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں پر کبھی برا وقت نہیں آیا، اس لیے تم کسی چیز کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کرسکتے۔ بتاؤ جب تم بری طرح بھوکے یا پیاسے ہو تو کون سا ہیرا یا موتی، زیور یا کپڑا کھا پی کر زندہ رہ سکتے ہو۔ اطمینان کی زندگی کے لیے خوراک کا ایک لقمہ، پانی کا ایک گھونٹ اور عمدہ ہوا میں ایک سانس ….سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس لیے کھانے کی چیزوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور کھانے کی چیزوں میں گیہوں ہمارے لیے بنیادی غذا ہے۔ دنیا میں اس سے زیادہ قیمتی چیز کوئی نہیں۔ میں نے زندگی میں بہت سے فاقے کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہے۔ اگر تم بھی ان پہلوؤں پر غور کر لو تو میرے ہم خیال ہوجاؤ گے۔“

    سب لوگ حیران رہ گئے۔ ملاح کی بات ان کے دل میں اتر گئی۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ”‌گیہوں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ پورا جہاز اس سے بھر لیا جائے کہ جب قحط بھی پڑے تو اس کا مقابلہ ہو سکے۔“

    لہٰذا جہاز کا رخ سرزمینِ مصر کی طرف پھیر دیا گیا جہاں کا گیہوں اس زمانے میں بہت مشہور تھا۔ کہتے تھے کہ وہاں‌ کا گیہوں سب سے زیادہ اچھا اور صحت بخش ہوتا ہے۔ یہ جہاز پانی پر مسافت طے کر کے مصر کی بندرگاہ پر جا لگا۔ وہاں قانونی تقاضے پورے کرنے اور محصول ادا کرنے کے بعد کپتان اور اس کے ساتھی شہر میں‌ داخل ہوسکے۔ شہر میں کپتان نے محکمۂ تجارت سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھ کر گیہوں کے سب سے بڑے تاجر تک پہنچ گیا۔ ان کا کاروبار بہت پھیلا ہوا تھا اور اس وقت مصر میں گیہوں کی بڑی مقدار ذخیرہ تھی۔ کپتان نے سودا کیا اور بہت سا گیہوں خرید کر جہاز کے اوپر لاد لیا۔

    اب ملکہ کے دیس کی سنیے۔ جہاز روانہ ہو جانے کے بعد خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اس پورے خطے میں سمندری طوفان کی صورت میں بڑی آفت آ پہنچی جس کی وجہ سے تمام آبادی اور زرعی زمینیں زیرِ‌ آب آگئیں۔ کھیت برباد اور لہلہاتی فصلیں مٹ گئیں۔ بڑی تعداد میں لوگ در بدر ہوگئے اور حالت یہ تھی وہاں لوگوں کو فاقے کرنے پڑ گئے۔ خود ملکہ کے گودام بھی غلّے اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء سے خالی ہو گئے۔ ایسے میں وہاں کے لوگوں سمیت اس ملکہ کے بھی ہوش ٹھکانے آ گئے تھے۔ دور تک کوئی آسرا اور امداد کا امکان نہ تھا۔ جس ملک میں خزانہ زر و جواہر سے بھرا ہوا تھا، وہاں عام لوگ تو ایک طرف خود ملکہ اور شاہی خاندان، وزیر، امیر سبھی غذائی قلّت اور اجناس کی عدم دست یابی کی وجہ سے سخت پریشان تھے۔ ملکہ کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی۔ پورے ملک میں سخت مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔

    جیسے جیسے دن گزر رہے تھے، بھوک سے اموات کا سلسلہ بھی دراز ہوتا نظر آرہا تھا۔ کئی آبادیوں کا نام و نشان نہ رہا تھا اور جو جہاں تھا، وہاں سے اس کا نکلنا مشکل تھا۔ کیوں کہ سواری اور باربرداری کے جانور پانی میں بہہ گئے تھے اور بچّوں، عورتوں اور بوڑھوں کو چھوڑ کر جوان مردوں کا غذا اور محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں‌ نکلنا آسان نہ تھا۔ ملکہ سخت پریشان تھی اور کچھ سوجھتا نہ تھا کہ کیسے خود کو اور اپنی رعایا کو اس مصیبت سے نکالے۔

    ایک روز بہت دور سمندر کے سینے پر جہاز کے مستول نظر آئے۔ سمندری محافظوں کو معلوم ہوا کہ یہ تو وہی جہاز ہے جو ملکہ کے حکم پر نکلا ہوا تھا۔ ملکہ کو خبر دی گئی۔ بندرگاہ سے متصل شہر کے بچّے، بوڑھے، عورت، مرد سب اور خود ملکہ اور اس کے وزراء بھی اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہوگئے اور جہاز کے لنگر انداز ہونے تک طرح طرح کی باتیں ان کے دماغ میں‌ آرہی تھیں کہ نجانے جہاز پر کون سی قیمتی چیز آئے گی۔ زندگی میں پہلی بار سب لوگ دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی چیز دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ اس جہاز نے ان کو کچھ وقت کے لیے اپنی مصیبت سے بے نیاز کردیا تھا۔ تجسس بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ جہاز لنگر انداز ہوا اور کپتان کو معلوم ہوا کہ ساحل پر ملکہ خود موجود ہے اور اس کا ملک آفت زدہ ہے۔

    کپتان جہاز سے اتر کر تیزی سے ملکہ کی جانب بڑھا اور ملکہ کو دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ وہ بہت کم زور اور افسردہ تھی۔ بیماری کے باوجود ملکہ ساحل تک آئی تھی۔ اس نے کہا۔ ”‌ملکہ میں ایک بہت ہی قیمتی چیز لایا ہوں جو حقیقتاً زندگی کا سہارا ہے۔‘‘

    ”‌ وہ کیا؟“ ملکہ نے پیشانی پر بِل ڈالتے ہوئے پوچھا۔

    ”‌ آپ اس سے واقف ہوں گی اسے کہتے ہیں گیہوں۔‘‘ کپتان نے جواب دیا۔

    ”‌گیہوں؟“ ملکہ نے حیرانی اور کچھ مسرت کے ساتھ دہرایا۔

    ارد گرد کھڑے لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو وہ خوشی سے چلّا اٹھے، اور ”‌گیہوں گیہوں“ کے نعرے لگانے لگے۔ ملکہ نے خوشی سے کہا۔”‌ گیہوں…. واہ تم نے کمال کر دیا۔“

    اس کڑے وقت میں وافر مقدار میں گیہوں کی صورت میں کوئی دوسری چیز قیمتی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ فوراً گیہوں جہاز سے اتروا کر گودام میں رکھوائی گئی اور ملک بھر میں‌ تقسیم کا عمل شروع ہوا۔ یوں اس سن رسیدہ ضعیف ملاح کی دور اندیشی نے نہ صرف ملکہ کو خوش کردیا بلکہ اس ملک کے لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بھی پوری ہوئی اور انھوں نے نعمت کی قدر جان لی۔

    (قدیم لوک کہانی)

  • عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    ایک عقاب بادلوں کی چادروں کو چیرتا ہوا کوہ قاف کی چوٹیوں پر پہنچا اور ان کا چکر لگا کر ایک صدیوں پرانے دیودار کے درخت پر بیٹھ گیا۔

    وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا اس کی خوب صورتی میں وہ محو ہوگیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے۔ کہیں پر دریا میدانوں میں چکر لگاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔ کہیں پر جھیلیں اور جھیلوں کے آس پاس درختوں کے کنج پھولوں سے لدے ہوئے بہار کی پوشاک میں رونق افروز ہیں۔ کہیں پر سمندر خفگی سے اپنے ماتھے پر بل ڈالے کوّے کی طرح کالا ہو رہا ہے۔

    اے خدا عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’میں تیرا کہاں تک شکر ادا کروں۔ تو نے مجھے اڑنے کی ایسی طاقت دی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں ہے جہاں میں پہنچ نہ سکوں، میں فطرت کے منظروں کا لطف ایسی جگہ بیٹھ کر اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی پہنچ نہیں۔‘‘

    ایک مکڑی درخت کی ایک شاخ سے بول اٹھی۔’’تو آخر کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے؟ کیا میں تجھ سے کچھ نیچی ہوں؟‘‘

    عقاب نے پھر کر دیکھا۔ واقعی ایک مکڑی نے اس کے چاروں طرف شاخوں پر اپنا جالا تن رکھا تھا اور اسے ایسا گھنا بنا رہی تھی کہ گویا سورج تک کو عقاب کی نظر سے چھپا دے گی۔

    عقاب نے حیرت سے پوچھا ’’تو اس سربلندی پر کیسے پہنچی؟ جب وہ پرندے بھی جنہیں تجھ سے کہیں زیادہ اڑنے کی طاقت ہے، یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں کرتے؟ تو کمزور اور بے پر کیا چیز ہے۔ کیا تو رینگ کر یہاں آئی؟‘‘

    مکڑی نے جواب دیا۔ ’’نہیں ایسا تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’تو پھر یہاں کیسے آگئی؟‘‘

    ’’جب تو اڑنے لگا تھا تو میں تیری دم سے لٹک گئی اور تُو نے خود مجھے یہاں پہنچا دیا۔ لیکن میں یہاں اب تیری مدد کے بغیر ٹھہر سکتی ہوں، اور اس لئے میری گزارش ہے کہ تو اپنے آپ کو بے کار بڑا نہ ظاہر کر اور سمجھ لے کہ میں ہی۔۔۔‘‘

    اتنے میں ایک طرف سے ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے مکڑی کو اڑا کر زمین پر گرا دیا۔

    میرا خیال ہے اور آپ کو بھی مجھ سے اتفاق ہوگا کہ دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جو اس مکڑی سے بہت مشابہ ہیں۔ ایسے لوگ بغیر کسی قابلیت اور محنت کے کسی بڑے آدمی کی دم میں لٹک کر بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایسا سینہ پھیلاتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو عقابوں کی سی طاقت بخشی ہے، مگر بات صرف یہ ہے کہ کوئی ذرا پھونک دے اور وہ اپنے جامے سمیت پھر زمین پر پہنچے ہوتے ہیں۔

    (معروف ہندوستانی اسکالر، ادیب اور ماہرِ تعلیم محمد مجیب کے قلم سے ایک حکایت)

  • ملّاح اور دو بھائی (حکایتِ سعدی)

    ملّاح اور دو بھائی (حکایتِ سعدی)

    ایک بار میں (شیخ سعدی) سفر پر روانہ ہوا اور کشتی کے ذریعے دریا پار کر رہا تھا۔ ہماری کشتی کے پیچھے ایک اور نسبتاً چھوٹی کشتی آ رہی تھی جس میں چند مسافر بیٹھے ہوئے تھے۔

    اتفاق ایسا ہوا کہ چھوٹی کشتی دریا کے بہاؤ میں توازن کھو بیٹھی اور الٹ گئی۔ اس میں جو مسافر سوار تھے، وہ پانی میں‌ ڈوب گئے۔ چند ہی لمحوں بعد میں نے دیکھا کہ وہ لوگ پانی میں‌ غوطے کھا رہے ہیں۔ ہماری کشتی کے سبھی مسافر ان کی حالت پر افسوس کر رہے تھے اور ان کی جان بچانے کے لیے ہمیں کچھ سوجھتا نہ تھا۔ اتنے میں‌ ایک امیر آدمی نے اِس کشتی کے ملاح سے جس میں ہم سوار تھے کہا، اگر تُو ڈوبتے مسافروں کو بچانے کی کوشش تو میں تجھے بھاری انعام دوں گا۔

    یہ بات سن کر ملاح فوراً دریا میں کود گیا اور وہ دو افراد کے قریب گیا جن میں سے ایک کو کسی طرح بچا لایا۔ دوسرے نے دریا بُرد ہونے سے پہلے ملاّح کی طرف بڑی امید سے دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں‌ بڑی حسرت تھی۔ مآل کار وہ دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ میں نے ملّاح سے کہا کہ تُو نے اپنی طرف سے ان دونوں کو بچانے کی کوشش کی، لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ ڈوبنے والے کی زندگی ہی ختم ہو چکی تھی۔ اس وجہ سے تیری کوشش کام یاب نہ ہوئی۔

    ملّاح میری یہ بات سن کر مسکرایا اور پھر کہا، ”بے شک یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ لیکن اس مسافر کے ڈوبنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایک بار مجھے کوڑے سے پیٹا تھا۔ تم کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ جسے میں‌ بچا لایا ہوں، اسی دریا برد ہوجانے والے شخص کا حقیقی بھائی ہے۔ جس وقت اس نے مجھے پیٹا تھا، وہ طاقت ور تھا اور ناجائز ایسا کیا تھا۔ میں اس سے بدلہ نہ لے سکا تھا، لیکن وہ بات میرے دل میں کھٹکتی رہتی تھی۔ آج مجھے وہی بات یاد آ گئی اور میں نے اسے بچانے کے لیے ویسی کوشش نہ کی جیسی کرنی چاہیے تھی۔ رہا اس مسافر کا معاملہ جسے میں بچا کر لایا ہوں تو اس نے ایک بار مصیبت کے وقت میری امداد کی تھی۔ میں صحرا میں پیدل سفر کر رہا تھا اور بری طرح تھک چکا تھا۔ یہ ادھر سے گزرا تو اس نے مجھے اپنے اونٹ پر بٹھا لیا۔ بس اس کی وہ بات مجھے اس وقت یاد آ گئی اور میں نے اسے بچا لیا۔

    ملّاح کی یہ بات سن کر میں نے دل میں کہا، سچ ہے۔ انسان جو عمل بھی کرتا ہے، اسی کے مطابق اسے پھل ملتا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ترجمہ : جس نے نیک عمل کیا وہ اپنے نفس کے لیے کیا اور جس نے برائی کی، اپنے نفس کے لیے کی۔

    (کتاب سعدی صاحب کی کہانیاں سے انتخاب، مترجم نامعلوم)

  • بھیڑیے کی آنکھ

    بھیڑیے کی آنکھ

    یہ ایک بھوکے بھیڑیے کی کہانی ہے جو شکار کی تلاش میں گھومتے گھومتے ایک ایسے غار کے دہانے پر آپہنچا جس کے اندر سے تازہ گوشت کی بُو آرہی تھی۔

    اسے سخت بھوک لگی تھی اور تازہ گوشت کی بُو بھیڑیے کو بے حال کیے دے رہی تھی۔ وہ غار کے اندر چلا گیا۔

    بھیڑیا اندر داخل ہوا تو وہاں اس کی ملاقات پرانے دوست چیتے سے ہوگئی جو ایک بکری اڑا رہا تھا۔ بھیڑیے نے اسے دیکھا تو حیرانی سے بولا: ارے تم! کہاں غائب تھے اتنے عرصے سے؟ بڑے مزے آرہے ہیں اکیلے ہی پوری بکری ہڑپ کرو گے کیا۔

    چیتا بولا، ہاں بھائی! شکار کے لئے محنت کی اور اب اس محنت کا پھل کھا رہا ہوں، میرا پیٹ بھر چکا ہے، جو بچا ہے وہ تم کھا سکتے ہو۔ اس دعوت کو بھیڑیے نے غنیمت جانا اور جانور کا بچا کھچا گوشت نوچنے لگا۔ چیتے نے اسے غور سے دیکھا اور بولا، سب خیریت تو ہے؟ بڑے کمزور دکھائی دے رہے ہو حالانکہ پہلے تو اچھے بھلے صحت مند تھے۔

    بھیڑیا اس کی بات سن کر کہنے لگا، بس کیا بتاؤں! تم تو آسانی سے شکار کر کے کھا لیتے ہو مگر مجھے کافی پریشانی ہوتی ہے۔ قریب کے گاؤں سے روزانہ جنگل میں بکریوں کا ایک ریوڑ گھاس چَرنے آتا تو ہے مگر ریوڑ کے ساتھ محافظ کتّے ہوتے ہیں اس لئے میں ان کا شکار نہیں کر پاتا۔

    چیتے بھائی! تم مجھے کوئی آئیڈیا دو کہ میں کس طرح ان بکریوں کا شکار کروں اور واپس پہلے جیسی صحت بنا سکوں؟

    چیتے نے اپنے دوست کی پریشانی سنی تو فوراً دماغ لڑایا اور کہا، میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے، تم اس بکری کی کھال تم لے لو اور کل صبح اسے پہن کر بیٹھ جانا پھر جیسے ہی ریوڑ آئے تم بکری کا بھیس بدل کر اس میں چپکے سے شامل ہو جانا اور آگے کیا کرنا ہے یہ تو تم خود جانتے ہو۔

    سمجھ گیا چیتے بھائی! کیا آئیڈیا دیا ہے آپ نے واہ! چیتے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بھیڑیے نے وہاں سے کھال سمیٹی اور رخصت ہوگیا۔

    پھر روزانہ کی طرح جب اگلے دن بکریوں کا ریوڑ آیا تو بھیڑیا وہ کھال پہن کر چپکے سے بکریوں کے ریوڑ میں شامل ہوگیا اور ان کے باڑے میں پہنچ گیا۔ اس نے یہ راستہ دیکھ لیا تھا اور سب سے آنکھ بچا کر قریب ہی رہنے لگا۔ اس کے ساتھ روزانہ رات کو ایک بکری کو اپنی خوراک بنانا بھی شروع کر دیا۔ بھیڑیا بڑا خوش تھا کیوں کہ وہ بغیر محنت کے کئی روز سے ایک بکری کو اپنی خوراک بنا رہا تھا، کچھ دن گزرے تو مالک کو بکریوں کے کم ہونے پر تشویش ہوئی مگر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ سیکیورٹی ہونے کے باوجود بکریاں کیسے کم ہورہی ہیں؟

    مالک نے ایک چالاک لومڑی کو اس کا کھوج لگانے کی ذمہ داری سونپ دی۔

    چالاک لومڑی ایک رات بکریوں کے باڑے میں گئی۔ اس وقت سب بکریاں آرام کررہی تھیں۔ وہ دور بیٹھ کر ایک ایک بکری کو بغور دیکھنے لگی۔ اچانک اس کی نظر ایک ایسی بکری پر پڑی جو ایک آنکھ سے سو رہی تھی اس طرح کہ ایک آنکھ کھولے دوسری بند کر لے اور دوسری کھولے تو پہلی آنکھ بند کر لے۔ اسے یہ بہت عجیب لگا۔ وہاں سے نکل کر لومڑی نے ساری بات مالک کو بتا دی۔ مالک جانوروں کی عادات سے خوب واقف تھا، اس نے جان لیا کہ اس طرح تو بھیڑیا سوتا ہے۔ اس نے اگلی رات اس دھوکے باز بھیڑیے کو اپنے ساتھیوں کی مدد سے انجام تک پہنچا دیا۔

    سچ کہتے ہیں دھوکے بازی اور فریب سے چند روز کا فائدہ تو اٹھایا جاسکتا ہے، مگر دائمی اور مستقل کام یابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں بھی چاہیے کہ عارضی فائدے کے لیے ایسی کوئی کوشش نہ کریں جس کے بعد پچھتانا پڑے۔

    (جانوروں کی حکایات سے انتخاب)

  • دال میں کچھ کالا ہے!

    دال میں کچھ کالا ہے!

    کسی پوشیدہ بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ مثل بولتے ہیں، یعنی جس معاملے میں‌ ظاہراً تو کچھ نہ ہو، لیکن باطن میں کوئی نہ کوئی عیب یا خرابی ضرور ہو۔ اس مثل کو سمجھنے کے لیے یہ کہانی پڑھیے۔

    کہتے ہیں ایک نوعمر تجارت کی غرض سے کسی شہر میں گیا۔ جاتے وقت اس کے محلّے داروں اور خیر خواہوں نے اسے خبردار کردیا تھا کہ جہاں جا رہے ہو وہاں کے لوگ انتہائی جھگڑالو اور شرپسند ہیں۔ ان سے ہوشیار رہنا۔

    یہ نوعمر تاجر اپنا سامان لیے شہر پہنچا تو وہاں ایک سرائے میں قیام کے ساتھ چند دنوں کے لیے ایک مقامی شخص کو اپنے کام نمٹانے کے لیے اجرت پر رکھ لیا۔ ایک دن ہی گزرا تھا کہ کوئی کانا آدمی اس نوعمر سوداگر کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ غالباً آپ کے والد کا انتقال ہو گیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے آپ خود یہاں تشریف لائے ہیں؟ وہ بیچارے جب بھی یہاں تشریف لاتے تو اسی سرائے میں قیام کرتے تھے۔ وہ لڑکا اس کانے شخص کی باتوں سے سمجھ گیا کہ یہ کوئی چالاک اور دغا باز قسم کا انسان ہے، اس لیے وہ ہوشیار ہو گیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد کانے نے کہا۔ آپ کے والد آنکھوں کی تجارت کرتے تھے۔ ان کے پاس میں نے اپنی ایک آنکھ گروی رکھ کر کچھ روپے لیے تھے، اب آپ وہ روپے لے کر میری آنکھ واپس کر دیجے۔ نوعمر سوداگر یہ سن کر بہت گھبرایا اور اس کانے کو کل کا وعدہ کر کے اس وقت تو ٹال دیا۔ اگلے دن جب وہ آیا تو سوداگر خود کو اس کے جواب کے لیے تیار کر چکا تھا۔ اس نے کانے سے کہا کہ میرے پاس والد مرحوم کی گروی رکھی ہوئی سیکڑوں آنکھیں ہیں۔ میں رات بھر تمہاری آنکھ تلاش کرتا رہا لیکن نہ مل سکی۔ اب صرف یہی طریقہ ہے کہ تم دوسری آنکھ بھی مجھے دے دو تاکہ میں اس کے ساتھ ملا کر تلاش کر لوں اور تمہیں دے سکوں۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں کسی دوسرے کی آنکھ بدل نہ جائے۔ کانے نے جب یہ سنا تو سمجھ گیا کہ یہاں دال گلنا دشوار ہے۔ وہ سوداگر بچّے سے اپنی جان چھڑوا کر وہاں سے نکل گیا۔

    جب یہ نوعمر سوداگر منافقوں کے اُس شہر کو چھوڑنے لگا تو اس نے ملازم کو تنخواہ دینا چاہی۔ ملازم نے کہا کہ حضور نے ملازمت دیتے وقت کہا تھا کہ کچھ دیں گے، روپوں کا معاہدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے مجھے روپے نہیں بلکہ کچھ چاہیے۔ سوداگر سوچنے لگا کہ اس سے کیسے چھٹکارا حاصل کروں۔ اس نے ملازم کو بازار بھیج دیا اور اس روز کی پکی ہوئی مسور کی دال ایک کوزے میں بھری۔ پھر تھوڑی سی کالی مرچیں ڈال کر کوزے کو الماری میں رکھ دیا۔

    ملازم جب واپس آیا تو سوداگر بچے نے کہا کہ دیکھو تو الماری میں کیا رکھا ہے؟ حضور اس میں دال ہے۔ نوعمر تاجر نے کہا! اور کیا ہے؟ ملازم بولا۔ کالا کالا معلوم ہوتا ہے۔ سوداگر بولا! کالا کالا کیا ہے؟ ملازم نے کہا، حضور کچھ ہے۔ اسی وقت اس نوعمر سوداگر نے کہا! میں نے جو ‘کچھ’ دینے کا وعدہ تم سے کیا تھا، وہ یہی ہے۔ تم اسے اٹھا لو اور اپنے گھر کا راستہ لو۔ اس وقت سے یہ مثل مشہور ہو گئی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

  • وضو کا برتن اور قیمتی انگوٹھی

    وضو کا برتن اور قیمتی انگوٹھی

    ایک بادشاہ کشتی میں‌ اپنے وزیروں کے ساتھ سفر پر نکلا۔ راستے میں نماز کا وقت ہوا تو کشتی دریا کے ایک کنارے پر لگا کر بادشاہ وضو کرنے لگا۔ اچانک اس کے ہاتھ سے وضو کرنے والا برتن پانی میں گر گیا۔

    بادشاہ نے ایک وزیر کو آواز دی تو اس نے دریافت کیا، بادشاہ سلامت! برتن کس جگہ گرا تھا؟

    بادشاہ نے اپنی ہیرے کی قیمتی انگوٹھی اتاری اور پانی میں پھینک کر کہا کہ اس جگہ پر گرا ہے۔ وزیر نے دریا میں چھلانگ لگا دی اور برتن لے کر باہر آ گیا۔ وزیر جب برتن باہر لے آیا تو حیران ہوا کہ بادشاہ کی انگوٹھی بھی اسی برتن میں پڑی ہے۔ وہ بادشاہ کو دیکھنے لگا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ بادشاہ سلامت آپ کے اس غلام نے کئی سال آپ کی خدمت کی ہے، اب میں بوڑھا ہورہا ہوں اور آپ سے رخصت چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے وزیر کو بہت روکا، لیکن اس کے بے حد اصرار پر اسے جانے کی اجازت دے دی۔

    وزیر اسی وقت بادشاہ کو سلام کر کے جنگل کی طرف چل دیا۔ بادشاہ بھی اپنی کشتی پہ سوار ہو کر آگے کی طرف چل دیا۔ کافی دور جانے کے بعد یکایک دریا میں سیلاب اٹھا اور کشتی غوطہ کھا کر الٹ گئی۔ بادشاہ دریا میں ڈوبنے ہی والا تھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی کا صندوق آگیا۔ بادشاہ اس صندوق پر بیٹھ گیا۔ صندوق تیرتا ہوا کئی میل دور ایک انجان بستی کے ساتھ ساحل پر جا لگا۔ بادشاہ نیچے اترا اور اس بستی میں چلا گیا-بھوک اور پیاس سے بادشاہ کا حال برا تھا۔ اس کے دوسرے خدمت گار اور وزیر نجانے کہاں بہہ کر نکل گئے تھے۔

    چلتے چلتے اچانک بادشاہ کی نظر ایک شخص پر پڑی جو اپنی ریڑھی پر بھنے ہوئے چنے بیچ رہا تھا۔ بادشاہ اس شخص کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں یہاں مسافر ہوں، میں کشتی میں سفر کر رہا تھا کہ یکایک سیلاب آیا اور میرا تمام ساز و سامان اور اشرفیاں دریا میں بہہ گئیں۔ بڑی مشکل سے جان بچی اور ادھر پہنچا ہوں، اب میرے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔ تمہارا احسان ہو گا کہ کچھ چنے کھانے کو دے دو؟ بادشاہ کی حالت دیکھ کر اس شخص نے کچھ چنے بادشاہ کو دے دیے۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر تم روزانہ جنگل سے لکڑی کاٹ کر مجھے لا دو تو میں اس کے بدلے تمہیں بھنے ہوئے چنے دے دیا کروں گا۔ بادشاہ کو اس انجان بستی میں اپنا پیٹ پالنے کا کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آرہا تھا چانچہ اس نے یہی کام شروع کر دیا۔ وہ رات بھی اسی چنے والے کی کٹیا میں گزارتا اور صبح اٹھ کر جنگل کی طرف نکل جاتا۔ دن بھر کی مشقت کے بعد لکڑیاں کاٹ کر اس چنے والے کو دے دیتا۔ اسی حالت میں کئی سال گزر گئے۔

    ایک دن بادشاہ حسبِ معمول جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر آرہا تھا کہ راستے میں ایک بھنگی اپنا غلاظت سے بھرا ڈبہ اٹھائے جا رہا تھا، جیسے ہی بھنگی پاس سے گزرا تو بادشاہ کی لکڑیاں بھنگی کے ڈبے کو لگیں اور وہ ڈبہ بادشاہ کے اوپر گر گیا اور بھنگی نے پاس سے گزرنے والوں کے ساتھ مل کر بادشاہ کو خوب مارا۔ اس نے ڈبے میں بچی ہوئی غلاظت بھی بادشاہ کے اوپر انڈیل دی۔ یہ سب برداشت کرنا مشکل ہی نہیں‌ ایک بادشاہ کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھا، لیکن وہ مار کھا کر دوبارہ اپنی لکڑیاں اٹھا کے منزل کی طرف چل دیا۔

    چلتے چلتے اچانک اسے شاہی ملبوس میں کچھ آدمی اور گھوڑے نظر آئے۔ بادشاہ کو اندازہ ہوا کہ اس سلطنت کا بادشاہ گزر رہا ہو گا۔ جب وہ شاہی گھوڑے قریب سے گزرے تو مفلوک الحال بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ وزیر جو اسے راستے میں چھوڑ گیا تھا، وہ شاہی سواری پر جارہا ہے۔ وزیر نے ایک نظر اس مفلوک الحال بادشاہ کو دیکھا اور بنا رکے اپنے محل کی طرف چل دیا۔ وہ اب بادشاہ بن چکا تھا۔ محل میں پہنچ کر اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس شخص کو پکڑ کر دربار میں پیش کیا جائے۔ سپاہیوں نے حکم کی تعمیل کی اور اس بادشاہ کو جو اب ایک بدترین زندگی گزار رہا تھا، پکڑ کر دربار میں اس کے سابق وزیر کے سامنے پیش کر دیا۔ وزیر جو اب بادشاہ بنا کھڑا تھا، اس نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے نہلا کر عمدہ لباس پہنایا جائے۔ جب اسے نہلا کر اور عمدہ لباس پہنا کر سپاہیوں نے دربار میں پیش کیا تو وزیر نے بادشاہ کو دیکھ کر کہا کہ واقعی ”ہر عروج کو زوال ہے۔”

    بادشاہ سلامت جس دن آپ نے اپنی قیمتی انگوٹھی پانی میں پھینکی تھی، اس دن میں بہت حیران ہوا اور اس سے زیادہ حیران و پریشان میں اس بات پر ہوا کہ وہ انگوٹھی اسی برتن میں جا گری جسے میں‌ نکالنے کے لیے دریا میں‌ کودا تھا۔ اس دن میں سمجھ گیا تھا کہ بادشاہ اپنے عروج کی انتہا پر ہیں اور مجھے یقین تھا کہ اس قدر عروج کو اب زوال پذیر ہونا ہے جس کا وقت قریب ہے۔ چنانچہ میں آپ کو ادھر ہی چھوڑ آیا تھا۔ اور آج آپ زوال کی انتہا پر کھڑے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور پھر بولا، اور اب عروج آپ کا منتظر ہے۔ اس کے بعد وزیر نے بادشاہ کو گھوڑے اور تحائف دے کر اس کی سلطنت کی طرف روانہ کر دیا۔

    (لوک ادب، مصنف نامعلوم)

  • ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک شہنشاہ ایسا، جس کا انت نہ کوئی

    ایک روز شہنشاہ گھوڑے پر سوار شہر میں وارد ہوا تو وہاں ہر سڑک کے کنارے، دائیں بائیں، لوگوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے جو شہنشاہ کے دیدار کے آرزو مند تھے۔

    وہ اس کے گھوڑے کو بھی، جھلک بھر، دیکھنے کے تمنائی تھے۔ بہت سے لوگ بالکل ہی آگے گویا پہلی صف میں کھڑے تھے لیکن ان سے کہیں زیادہ لوگ دوسری، تیسری اور چوتھی صفوں میں ایستادہ تھے اور رہے وہ لوگ جو چوتھی صف کے پیچھے تھے، انھیں تو صف بستہ قرار دینا ہی خارج از بحث تھا۔

    چنانچہ یہ ہوا کہ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ، درشن کو، نہ صرف پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے، نہیں بلکہ انہوں نے اپنی گردنیں بھی اچکائیں، اس قدر، بے تحاشہ اچکائیں کہ شہنشاہ ان کے پاس سے گزر کر اندھیرے میں غائب بھی ہو گیا اور ان کی گردنیں زندگی بھر کے لیے اسی طرح کھنچی کی کھنچی رہ گئیں۔

    لہٰذا اگر کبھی کسی لمبی گردن والے شخص سے ملنے کا اتفاق ہو تو ہمیں چاہیے کہ اسے نہ تو حقارت کی نظر سے دیکھیں، نہ حیران ہو کر گھوریں۔ وہ انھی لوگوں میں سے کسی کا پوتا پڑ پوتا ہے جن پر شہنشاہ کو دیکھنے کا انوکھا جنون سوار تھا جو بعد ازاں بالکل ہی ناپید ہو گیا اور جس کا محرم ہونا اب ممکن نہیں رہا۔

    (عالمی ادب سے انتخاب، مترجم محمد سلیم الرّحمٰن)

  • غم کی شادمانی ( چینی ادب سے ماخوذ)

    غم کی شادمانی ( چینی ادب سے ماخوذ)

    چین کے کسی گاؤں میں ایک بوڑھی عورت رہتی تھی۔ ہر روز وہ اپنے گھر سے مٹی کے دو برتنوں میں پانی لینے قریبی نہر پر جاتی تھی۔ وہ برتنوں کو لکڑی کے نسبتاً لمبے ٹکڑے کے ساتھ لٹکا کر اس لکڑی کو کندھے پر دھر لیتی، یوں پانی کے بھرے ہوئے برتنوں کا وزن ڈھونے میں اسےآسانی ہو جاتی تھی۔

    اس بوڑھی عورت کا ایک برتن تو صحیح سلامت تھا لیکن دوسرے میں دراڑ پڑ چکی تھی جس سے پانی بہنے لگا تھا، اور نہر سے گھر تک آتے آتے اس میں پانی آدھا رہ جاتا تھا۔

    یہ سلسلہ دو برس تک یوں ہی چلتا رہا۔ گھر لوٹنے تک ایک برتن تو بھرا ہوا رہتا لیکن دوسرے میں آدھا پانی ہی بچتا تھا۔ بوڑھی عورت اتنی مشقت بھی اٹھاتی لیکن مٹی کے برتن میں‌ دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے اس کی یہ محنت ضایع ہوجاتی تھی۔ جو برتن صحیح سلامت تھا وہ اس کے اندر تکبر اور رعونت کا احساس پیدا ہو گیا تھا جب کہ ٹوٹا ہوا برتن احساس کمتری کا شکار ہو کر شرمندگی محسوس کرنے لگا تھا۔

    آخر دو سال گزر گئے تو ایک روز دراڑ شدہ برتن کی برداشت جواب دے گئی، اسے بڑی ذلّت محسوس ہوئی کہ بوڑھی عورت اتنی محنت سے پانی لاتی ہے اور اس میں‌ جو شگاف پڑ چکا ہے اس کی وجہ سے اتنا سارا پانی راستے میں ضائع ہو جاتا ہے۔

    آخر یہ شگاف والا برتن اس عورت سے کہنے لگا: "میں بہت شرم سار ہوں کہ تم جو پانی میرے اندر بھرتی ہو اس میں‌ سے آدھا راستے میں بہہ جاتا ہے اور تم اسی طرح‌ گھر پہنچ جاتی ہو، یہ کہہ کر وہ دکھ سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔”

    اس کی بات سن کر وہ بوڑھی عورت مسکرائی اور بولی کہ تم نے غور نہیں‌ کیا، میرے کندھے پر رکھی ہوئی لکڑی کے جس کونے سے تم لٹک کر آتے ہو، اس طرف راستے میں سبزہ اور رنگ برنگے پھول ہیں لیکن دوسری جانب کوئی پھول نہیں ہیں۔ میں اس سے آگاہ ہوں کہ تم میں ایک نقص ہے اور اس چھوٹے شگاف سے پورے راستے پانی بہتا رہتا ہے، تم کو یاد ہو گا کہ ایک دن میں نے تمہارے والے راستے میں پھولوں کے بیج ڈال دیے تھے جن سے اگنے والے پھول آج تم دیکھ ہی سکتے ہو، پورے دو سال میں یہ پھول توڑ کر اپنے گھر کو سجاتی رہی اور اب میرا گھر پھولوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ دوسرا برتن تو بس مجھے پانی ہی دیتا رہا جب کہ تم نے تو مجھے پانی بھی پہنچایا اور پھولوں سے میری منزل اور راستہ بھی سجا دیا۔ اس لیے تم کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں‌ ہے تم تو بہت کمال کے برتن ہو۔

    یہ سن کر خود کو کم تر سمجھنے والا اور اپنے نقص پر شرم سار برتن خوشی سے جھوم اٹھا اور فخر سے سالم برتن پر ایک نگاہ ڈالی جو اب اس سے نظریں‌ چرا رہا تھا۔

  • خلیفہ عبدُالملک بن مروان اور چور

    خلیفہ عبدُالملک بن مروان اور چور

    ’’اموی خلیفہ عبدُالملک بن مروان کے دربار میں ایک آدمی چوری کے جرم میں گرفتار کرکے لایا گیا۔ جرم کی نوعیت ایسی تھی جس میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔

    خلیفہ نے ہاتھ کاٹنے کے احکام جاری کیے اور چور نے یہ سزا سنتے ہی فی البدیہہ دو شعر کہے، جن کا خلاصہ و ترجمہ یہ ہے: امیرُالمؤمنین! میں اپنے ہاتھ کو آپ کے درگزر کے ذریعے بچاتا ہوں، اس ملامت سے جو اسے عیب دار بنادے۔ جب بائیں ہاتھ کو دایاں ہاتھ داغِ مفارقت دے جائے، پھر دنیا اور اس کی نعمتوں میں کوئی بھلائی نہیں۔

    یہ سن کر خلیفہ نے کہا: ’’یہ تو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اور یہ سزا بہرصورت جاری ہوگی۔‘‘ چور کی بوڑھی ماں جو موقع پر موجود تھی، اس نے خلیفہ کا ارادہ بھانپ لیا کہ یہ اس کے بیٹے کو سزا ہی دے گا تو اس نے کہا: ’’امیر المؤمنین! یہ میرا ایک ہی بیٹا ہے جو میرے لیے جدوجہد کرتا ہے، محنت کرتا ہے اور کما کر مجھے کھلاتا ہے۔ میرے بڑھاپے کی لاج رکھتے ہوئے اسے مجھے ہدیہ کر دو۔ ‘‘خلیفہ نے کہا: ’’ہرگز نہیں! تمہارا کمانے والا بیٹا بُرا مال کمانے والا ہے اور تمہارا محنت کرنے والا بیٹا بری محنت کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا کو میں نہیں ٹال سکتا۔‘‘

    بڑھیا کہنے لگی: ’’امیرالمؤمنین! بے شک اس طرح کرنا گناہ ہوگا، لیکن آپ اسے ان گناہوں میں سے ایک گناہ بنا دیجیے، جس پر بعد میں استغفار کرسکتے ہیں۔‘‘خلیفہ کو یہ سن کر رحم آگیا اور مجرم کی رہائی کا حکم جاری کر دیا۔

    ( حکایت از امام اصمعیؒ )

  • قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    حضرت شیخ سعدی نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کسی قاضی کی عدالت میں ایک علمی نکتہ پر گفتگو ہورہی تھی۔ اسی دوران ایک مفلوک الحال شخص عدالت میں داخل ہوا اور ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہاں بیٹھ گیا۔

    حاضرینِ مجلس نے اس کی ظاہری وضع قطع اور پھٹے حال کو دیکھ کر خیال کیا کہ وہ کوئی معمولی انسان ہے۔ انھوں نے اسے اٹھا کر جوتوں کے پاس جگہ دے دی۔ وہ درویش اس رویّے سے دلبرداشتہ ہوا، مگر خاموش رہا اور جس علمی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی، وہ جاری رہی۔ درویش نے دیکھا کہ جب اہلِ مجلس اس مسئلے کا مناسب اور منطقی حل بتانے میں ناکام ہوگئے تو ان میں اشتعال پیدا ہو گیا اور وہ ایک دوسرے کو لاجواب کرنے لگے۔ وہ درویش اس دوران خاموش بیٹھا یہ سب دیکھتا اور ان کے دلائل اور گفتگو سنتا رہا اور پھر بلند آواز سے بولا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس موضوع پر کچھ عرض کروں۔ قاضی نے اس درویش کو اجازت دے دی۔ اس نے دلائل کے ساتھ اس مشکل علمی مسئلے کا حل بتایا تو اہلِ مجلس حیران رہ گئے۔ وہ اس کی دلیل اور منطق سے قائل ہو چکے تھے۔

    اچانک حاضرین کو درویش کی علمی قابلیت کا اندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ مفلوک الحال شخص بہت بڑا عالم ہے اور ہم نے اس کو سمجھنے میں‌ غلطی کی ہے۔ اس موقع پر قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنی دستار اتار کر اس درویش کو دی اور کہنے لگا کہ صد افسوس! ہم آپ کے علمی مقام اور مرتبے سے آگاہ نہ ہوسکے۔ آپ اس دستار کے زیادہ حق دار ہیں۔ درویش نے قاضی کی دستار لینے سے انکار کر دیا اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا کہ میں غرور و تکبر کی اس نشانی کو ہرگز اپنے سر پر نہ رکھوں گا۔ یاد رکھو کہ انسان کا رتبہ اس کے علم سے معلوم ہوتا ہے اور صرف دستار سَر پر رکھنے سے کوئی عالم اور منصف نہیں بن جاتا۔

    حضرت شیخ سعدی ؒ نے اس حکایت میں علم کی فضیلت بیان کی ہے اور یہ واقعہ انہی کا ہے۔ اس مفلوک الحال کے روپ میں‌ دراصل آپ ہی اس عدالت میں‌ موجود تھے۔ ان کی یہ حکایت انہی کی مشہور تصنیف ”بوستان اور گلستان“ دونوں میں شامل ہے۔