Tag: حکایات

  • ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے (انوکھا قصّہ)

    ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے (انوکھا قصّہ)

    یہ بہت پرانا قصّہ اُن دو آدمیوں کا ہے جو کسی زمانے میں پیدل سفر کو نکلے تھے۔ ایک مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا مغرب سے شرق کی جانب۔

    دونوں کی مڈ بھیڑ کسی تالاب پر ایک سایہ دار درخت کے نیچے ہوگئی۔ وہ دوپہر کا وقت تھا۔ چلچلاتی دھوپ تھی۔ دونوں نے درخت کے گھنے اور ٹھنڈے سائے میں کچھ دیر آرام کیا۔ دونوں کو سخت بھوک لگی تھی۔ توشہ دونوں کے پاس تھا۔ مگر کھانے کی نوبت نہیں آرہی تھی۔ وہ دونوں اس انتظار میں تھے کہ دوسرا توشہ دان کھولے اور دستر خوان بچھائے تو اس میں شریک ہو جائے۔ اس انتظار میں کھانے کا وقت نکل گیا۔ دونوں میں سے کسی نے پیٹ بھرنے کے لیے توشہ کھولنے میں پہل نہ کی۔ دراصل وہ دونوں نہایت ہی کنجوس تھے۔

    بڑی دیر کے بعد بادلِ ناخواستہ ایک نے تالاب سے گلاس بھر پانی لیا اور توشہ دان میں سے روٹی نکال کر توڑی، اس نے روٹی کے ٹکڑے کو بڑی پھرتی سے پانی میں ڈبویا اور پھر فوراً توشہ دان میں رکھ لیا۔ البتہ جس پانی میں روٹی کو ڈبویا تھا، اسے غٹا غٹ پی گیا۔ پھر آرام سے ایک طرف لیٹ گیا۔

    اب دوسرے سے بھی شاید رہا نہیں‌ جارہا تھا۔ اس نے بھی برتن میں پانی لیا، لیکن پھر ایک عجیب حرکت کی۔ اس نے روٹی تو نکالی، لیکن نہ تو اسے توڑا اور نہ ہی پانی میں‌ ڈالا بلکہ اس انداز سے روٹی کو برتن کے اوپر پکڑا کہ دھوپ میں اس کا عکس برتن کے پانی پر پڑے۔ اس نے گویا پانی کو روٹی کی پرچھائیں دکھا کر وہ پانی پی لیا۔ اور روٹی توشہ دان میں محفوظ کر دی۔

    وہ آدمی جس نے روٹی کا ٹکڑا پانی میں‌ ڈبویا تھا، اس نے بھی یہ دیکھا اور سوچنے لگا کہ دوسرا آدمی بھی اس جیسا ہی ہے۔ تھے تو دونوں ہی حد درجہ بخیل اور کنجوس، مگر پہلا آدمی جس نے روٹی کو پانی میں بھگویا تھا، دوسرے والے کی حرکت دیکھ کر بہت متاثر ہوا تھا۔

    اب وہ ایک دوسرے کو گویا پہچان چکے تھے اور سخت ضرورت اور بھوک میں بھی کھانا بچا کر رکھنے والی حرکت کرتا دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے خیالات اور طبیعت میں یکسانیت موجود ہے اور تب انہوں نے آپس میں تعارف کرانا ضروری سمجھا۔ انہوں نے اپنے اپنے سفر کا مقصد ایک دوسرے کو بتایا تو دونوں ہی کو بہت خوشی ہوئی، کیوں‌ وہ ایک ہی مقصد لے کر گھروں سے روانہ ہوئے تھے۔

    ان کا مقصد تھا رشتہ تلاش کرنا۔ ایک کو اپنے بیٹے کے لیے رشتہ چاہیے تھا اور دوسرا اپنی بیٹی کو بیاہنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ دونوں نے فیصلہ کر لیا کہ خیالات کی یکسانیت اور طبیعتوں کی ہم آہنگی کے اعتبار سے ان کے خاندانوں کے درمیان مثالی رشتہ قائم ہو سکے گا۔

    یوں‌ ایک کنجوس کے بیٹے کی شادی ایک بخیل کی بیٹی سے ہوگئی۔

    (ماخوذ از قصّۂ قدیم)

  • نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)

    نوسر باز کا قصّہ (عربی ادب سے ماخوذ)

    ایک دفعہ ایک چالاک اور دھوکے باز شخص نے کہیں سے ایک گدھا چوری کیا اور اسے فروخت کرنے کے لیے قریبی بازار لے گیا۔ بازار جانے سے پہلے اس نے گدھے کے منہ میں اشرفیاں ٹھونس کر کپڑے سے اچھی طرح بند کر دیا۔

    بازار کی پُر ہجوم جگہ پر کھڑے ہوکر اس نے گدھے کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا، جیسے ہی کپڑا ہٹا گدھے کے منہ سے اشرفیاں نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ سکّوں کی جھنکار سن کر لوگ متوجہ ہوگئے، اور حیران ہوکر پوچھنے لگے کہ گدھے کے منہ سے سکّے وہ بھی سونے کے! یہ کیا ماجرا ہے؟

    دھوکے باز کہنے لگا، بھائیو یہ ایک عجیب و غریب گدھا ہے اور میں اس سے بہت تنگ ہوں، میں جب بھی پریشان یا اداس ہوتا ہوں تو دن میں ایک بار اس کے منہ سے سونے کی اشرفیاں گرنے لگتیں ہیں۔ اب تو میرے گھر میں اشرفیاں رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچی، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اسے کوئی ضرورت مند اور جانوروں سے پیار کرنے والا تاجر خرید لے۔ لوگوں نے اشرفیاں گرتی ہوئی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھیں اور باقی کا قصّہ سن کر ہر کسی کی خواہش یہی تھی کہ یہ گدھا جتنے میں بھی مل جائے سستا ہے۔

    ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بولیاں لگاتے ہوئے، آخر کار ایک بڑے تاجر نے خطیر رقم کے عوض اسے خرید لیا۔ فروخت کرنے والے نے رقم اور زمین پر گرے ہوئے سکّے سمیٹے اور گھر چلا گیا۔

    جس تاجر نے گدھا خریدا تھا، وہ فخر سے گردن اکڑائے ہوئے چل رہا تھا اور اہلِ قریہ اس کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے اس کے گھر تک پہنچ گئے۔ سارے لوگ مل کر اداس اور پریشان شکلیں بنا کر گدھے کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ لوگ گھنٹوں بیٹھ کر انتظار کرتے رہے اور بالآخر وہ سچ مچ پریشان ہوگئے۔ اس دوران گدھا جو کب سے بھوکا تھا اس نے خوب چارہ کھایا مگر ایک سکّہ تک نہ گرا۔

    آخر وہاں سے کسی دانا کا گزر ہوا۔ اس نے بتایا کہ تمھارے ساتھ دھوکا ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے کہ فروخت کرنے والا بھاگ جائے، فوراً اس دھوکے باز کو پکڑو۔ وہ تاجر اور اہلِ قریہ اکٹھے ہو کر جب اس دھوکے باز کے گھر کے باہر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹا کر اس کے متعلق استفسار کیا تو اندر سے اس دھوکے باز کی بیوی نے کہا کہ وہ تو کہیں کام سے دوسرے گاؤں گئے ہوئے ہیں۔ آپ باہر ہی انتظار کریں میں اپنا پالتو کتّا بھیجتی ہوں، یہ جاکر انہیں آپ کے متعلق بتائے گا اور انہیں ہر صورت ساتھ بھی لے کر آئے گا۔ لوگ دل چسپی سے دیکھنے اور سوچنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کتّا اپنے مالک کو گھر لائے۔

    دراصل اس چالاک شخص نے جب دیکھا کہ تمام لوگ اس کے گھر کے باہر جمع ہیں تو اس نے اپنی بیوی کو کتّے والی پٹی پڑھائی۔ گھر میں پہلے سے بندھے ہوئے کتّے کو آزاد کیا اور خود گھر کی پچھلی سمت سے چپکے سے نکل گیا۔ دور جاکر اس نے کتّے کو پکڑ لیا اور اس کے ساتھ واپس گھر کی طرف چل دیا۔

    تھوڑی دیر گزری تو لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ وہی شخص جس نے گدھا فروخت کیا تھا، اسی کتّے کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آرہا تھا۔ اب سارے لوگ یہ بات بھول کر کہ وہاں کیوں آئے ہیں، کتّے کے متعلق پوچھنے لگے کہ یہ تو بڑے کام کا ہے، بتاؤ یہ کتنے کا ہے؟ اسے تو ہر صورت خریدنا ہوگا۔

    اس دھوکے باز اور چالاک شخص نے پہلے تو انکار کیا لیکن بعد میں اچھے دام ملنے پر وہ کتّا اسی ہجوم میں سے ایک دوسرے تاجر کو فروخت کر دیا۔ اب لوگ ٹولی کی شکل میں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ کتّا گھر سے گئے ہوئے شخص کو کیسے واپس لے کر آتا ہے اس تاجر کے ساتھ چلتے گئے۔

    تاجر نے گھر جاکر غلام کو کہا کہ تم ساتھ والے گاؤں جاؤ تاکہ کتّا تمھیں ڈھونڈ کر واپس لے آئے۔ غلام جیسے ہی دوسرے گاؤں پہنچا وہاں سے بھاگ نکلا اور کتّا بھی کہیں دور چلا گیا جو واپس نہ آیا۔ جب غلام اور کتّا دونوں واپس نہ آئے تو لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ ایک بار پھر ہمارے ساتھ دھوکا ہوگیا ہے۔

    وہ دوبارہ اکٹھے ہوکر جب اسی دھوکے باز کے گھر گئے تو وہ ایک بار پھر گھر کے پچھلے خفیہ دروازے سے بھاگ نکلا، اور اس کی بیوی کہنے لگی وہ ساتھ والے گاؤں کسی کام سے گئے ہوئے ہیں۔ لوگوں نے کہا کہ آج ہم اس کا گھر کے اندر بیٹھ کر انتظار کریں گے، اور یوں دونوں تاجروں سمیت ارد گرد کے تمام لوگ اس کے گھر میں بیٹھ گئے۔

    کافی دیر جب گزر گئی تو وہی دھوکے باز گھر میں داخل ہوا اور وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے ان کے سامنے جھک جھک کر آداب بجا لانے لگا اور بیوی سے پوچھنے لگا کہ میرے خاص مہمانوں کی تکریم میں تم نے کیا کیا؟ ان مہمانوں کو کچھ کھانے پینے کو دیا یا بھوکا ہی بٹھایا ہوا ہے؟

    وہ لوگ دل ہی دل میں شرمندہ ہونے لگے کہ ہم جسے دھوکے باز سمجھ رہے ہیں وہ تو بڑا سخی اور مہمان نواز بندہ ہے۔ اس کی بیوی نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ان فضول اور فالتو لوگوں کو کون اپنا مہمان بناتا ہے، میں نے تو انہیں پانی تک نہیں پوچھا۔ یہ سن کر وہ شخص غصے میں پاگل ہوگیا اور جیب سے ایک خنجر نکال کر بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ فوراً لہو بہہ نکلا اور اس کی بیوی لہرا کر نیچے فرش پر گر پڑی۔

    وہاں بیٹھے ہوئے لوگ اسے برا بھلا کہنے لگے کہ ہمارے پیسوں کو تو رہنے دو لیکن ہمارے لیے اپنی بیوی کو قتل کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ وہ چالاک اور دھوکے باز کہنے لگا، آپ لوگ فکر نہ کرو یہ ہمارا روزانہ کا کام ہے۔ میں اسے غصے میں آکر قتل کر دیتا ہوں تو دوبارہ اس سینگ سے زندہ بھی کر دیتا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے اس نے دیوار پر ٹنگے ہوئے کسی جانور کے بڑے سے سینگ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر وہ سینگ اتارا اور مری ہوئی بیوی کے پاس بیٹھ کر سینگ کو منہ میں دبا کر سپیروں کی طرح جھوم جھوم کر پھونک مار کر بجانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہی مقتولہ جو کچھ دیر پہلے سب کے سامنے خنجر کے وار سے ہلاک ہوچکی تھی۔ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے، اور ایک بار پھر وہ سب یہ بات بھول کر کہ یہاں کیوں آئے ہیں، اس سینگ کو خریدنے کے درپے ہوگئے۔

    دھوکے باز نے بولی بڑھانے کی خاطر کہنا شروع کردیا کہ یہ طلسماتی سینگ پوری دنیا میں ایک ہی ہے جو صرف میرے پاس ہے اور میں اسے کسی بھی قیمت پر فروخت نہیں کروں گا۔ کرتے کرتے ایک بڑے تاجر نے سب سے زیادہ رقم ادا کرکے وہ سینگ خرید لیا، اور سینگ خرید کر وہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

    جس نے سینگ خریدا تھا، کہنے لگا، میں جو اپنی بیوی کی چخ چخ سے تنگ ہوں، آج اگر اس نے لڑائی کی تو مار دوں گا اور رات سکون سے گزار کر صبح سینگ کی مدد سے زندہ کرلوں گا، لیکن درحقیقت اس دھوکے باز نے جب اپنے گھر کے باہر لوگوں کا اکٹھ دوبارہ دیکھا تھا تو فوراً منصوبہ بنا کر اس میں اپنی بیوی کو شامل کرلیا تھا۔ لال رنگ کو ایک تھیلی میں ڈال کر بیوی کے کپڑوں میں چھپا دیا، پھر ایک خنجر لیا جس کے دستہ میں خفیہ خانہ اور ایک بٹن تھا جس کو دبانے سے خنجر کا پھل اپنے دستے میں غائب ہوجاتا تھا۔ اور ایک پرانا بیکار سینگ لے کر دیوار پر ٹانگ دیا اور خود گھر کے خفیہ رستے سے نکل کر تھوڑی دیر روپوش رہ کر واپس آگیا۔ اور پھر بیوی کو زندہ کرنے کا ڈرامہ رچا کر بیکار سینگ فروخت کردیا تھا۔

    جس نے سینگ خریدا تو جیسے ہی گھر پہنچا تو اس کی بیوی نے حسبِ معمول لڑائی شروع کر دی۔ اس نے بے فکر ہو کر خنجر نکالا اور بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا، خون نکلا، وہ تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ اس نے اٹھا کر کمرے میں لٹا دیا اور پوری رات ایسے ہی رہنے دیا، صبح اٹھ کر اس نے بہتیرا سینگ کو مختلف طریقوں سے بجایا مگر وہ تو مردہ ہوچکی تھی، دھیرے دھیرے اسے اپنی بیوقوفی کا احساس ہونے لگا، وہ پچھتاوے کے احساس کے ساتھ گھر سے نکلا تو باہر تمام لوگ اس کے منتظر تھے کہ پتا کریں رات کیا بیتی اور سینگ نے کیا کمال دکھایا۔ وہ شخص دکھ اور شرمندگی کو چھپانا چاہتا تھا مگر کچھ لوگوں نے جب اصرار کیا تو اصل بات اگلوا ہی لی۔ اب کی بار انہوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ اس نوسر باز کی کسی بات میں نہیں آنا، اور اس کو دیکھتے ہی قابو کرکے ایک بوری میں بند کرکے سمندر برد کر دینا ہے۔

    سب نے اس پر اتفاق کیا، ایک بار پھر وہ لوگ اکٹھے ہو کر اس دھوکے باز کے گھر پہنچے اور اندر جاکر اسے قابو کرلیا، بڑی سی بوری میں ڈال کر سمندر کی طرف چل دیے۔
    سمندر وہاں سے کافی دور تھا۔ بوری میں بند دھوکے باز شخص کو باری باری اٹھاتے ہوئے وہ سب لوگ تھک گئے تھے۔ سمندر سے نصف فاصلے پر پہنچ کر انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر سستا لیتے ہیں، اس کے بعد آرام سے اسے پانی میں پھینک دیں گے۔ وہ لوگ تھکے ہوئے تھے، اس لیے جیسے ہی آرام کرنے کے لیے رکے تو انہیں نیند نے آ لیا اور وہ بے فکر ہو کر سو گئے۔ بوری میں بند شخص نے بھوک اور پیاس سے بے حال ہو کر چیخنا چلانا شروع کر دیا، مگر وہ تمام لوگ تو خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اسی اثناء میں وہاں سے ایک چرواہے کا گزر ہوا اس نے دیکھا کہ لوگوں کا جمِ غفیر آڑھا ترچھا ہوکر سو رہا ہے، اور ایک طرف پڑی بوری سے چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی ہیں۔

    اس نے بھیڑ بکریوں کو ایک طرف کھڑا کیا اور آگے بڑھ کر جب بوری کھولی تو اس نے دیکھا کہ اس کے اندر تو کوئی شخص بند ہے۔ چرواہے نے پوچھا کہ ایک شخص تُو کون ہے، یہ ارد گرد سوئے ہوئے لوگ کون ہیں؟ اور تجھے بوری میں کیوں بند کیا ہوا ہے، یہ ماجرا کیا ہے؟

    دھوکے باز نے کہا سنو! یہ تمام لوگ میرے خاندان کے ہیں، یہ میری شادی سمندر پار ایک شہزادی سے زبردستی کرانا چاہتے ہیں، مگر مجھے مال و دولت کی ذرا بھی ہوس نہیں ہے، میں تو اپنی چچا زاد لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔ چرواہا اس کی باتیں سن کر بڑا متاثر ہوا، اور کہنے لگا، بتاؤ کیا میں تمھارے کسی کام آسکتا ہوں؟ دھوکے باز کہنے لگا ہاں ہاں کیوں نہیں، تم میری جگہ اس بوری میں آجاؤ، اور جب شہزادی کے سامنے بند بوری کھلے گی تو پھر اس کا تم سے شادی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ چرواہا یہ سن کر خوش ہوگیا اور ہنسی خوشی اس دھوکے باز کی جگہ بوری میں بند ہوکر بیٹھ گیا۔ دھوکے باز نے وہاں سے چرواہے کی بھیڑ بکریوں کو ساتھ لیا اور واپس اپنے گھر آگیا۔

    وہ لوگ جب نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے بوری کو اٹھایا اور چلتے چلتے آخر کار سمندر میں پھینک دیا، اور مطمئن ہوکر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے۔

    اگلے دن انہوں نے دیکھا کہ دھوکے باز شخص کے گھر کے باہر تین چار سو کی تعداد میں بھیڑ بکریاں بندھی ہوئی ہیں۔ وہ بڑے حیران ہوکر جب وہاں گئے تو دیکھا کہ جس کو سمندر میں پھینک کر آئے تھے وہ تو گھر میں بیٹھا اپنی بیوی سے گپیں لڑا رہا ہے۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ، ہم نے تو تمھیں کل سمندر میں پھینکا تھا، اور آج تم صحیح سلامت اپنے گھر میں ہو اور باہر بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بھی ہے؟

    وہ دھوکے باز شخص کہنے لگا، جب تم لوگوں نے مجھے سمندر میں پھینکا تو وہاں سے ایک جل پری نمودار ہوئی اور وہ مجھے اپنے ساتھ زیرِ سمندر بنے گھر میں لے گئی، وہاں ہیرے جواہرات اور موتیوں سے بنے ہوئے بے شمار محل اور ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی تھے۔

    جل پری نے مجھے مہمانوں کی طرح رکھا اور میری خوب خاطر مدارات کی، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی اور وہاں کا حاکم بنانا چاہتی تھی، مگر جب میں نے کہا کہ میری پہلے سے ایک بیوی ہے اور میں اپنے گھر جانا چاہتا ہوں تو اس نے کہا کوئی بات نہیں اور اپنی طرف سے بھیڑ بکریوں کا تحفہ دے کر کہنے لگی کہ اگر تمھارے علاقے میں کوئی ایسا ہوا جو یہاں کی جل پریوں سے شادی کر کے یہاں عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہتا ہو تو اسے یہاں لے آنا۔ یہ بات سننے کی دیر تھی کہ وہاں آئے ہوئے تمام بوڑھے اور جوان کہنے لگے ہم وہاں جانا چاہتے ہیں اور وہاں جاکر حاکم بننا چاہتے ہیں۔

    اس دھوکے باز شخص نے کہا کہ تم تو صرف چند افراد ہو اگر اس قصبے کے تمام لوگ بھی وہاں چلے جائیں تو پھر بھی کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم قصبے کے ہر شخص کو اپنے ساتھ جانے کے لیے راضی کر لیں گے۔ دھوکے باز نے کہا ٹھیک ہے کل صبح کے وقت سمندر کے کنارے ہر شخص اپنے لیے ایک بوری اور ایک رسی لے کر پہنچ جائے، اور وہاں پہنچ کر ہر شخص ایک دوسرے کو بوری میں بند کرنے میں مدد کرے گا۔

    اگلے روز صبح کے وقت دھوکے باز شخص نے سب کو بوری میں بند کیا اور اپنی بیوی کی مدد سے تمام بوریوں کو سمندر میں پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ بیوقوفوں کے قصبے کا تن تنہا مالک بن گیا۔

    (ماخذ: عربی قصص و عبر مِن قدیم زمان، اردو ترجمہ: توقير بُھملہ)

  • حضرت امیر خسرو اور بچّے

    حضرت امیر خسرو اور بچّے

    بچّو! تم حضرت امیر خسروؒ کو خوب جانتے ہو، اُنھیں اپنے ملک ہندوستان سے بے پناہ محبّت تھی، یہاں کی ہر چیز کو پسند کرتے تھے۔

    ایک بار ایسا ہوا کہ امیر خسرو گھوڑے پر سوار کہیں سے آ رہے تھے۔ مہر ولی پہنچتے ہی اُنھیں پیاس لگی، آہستہ آہستہ پیاس کی شدّت بڑھتی چلی گئی۔ اُنھوں نے اپنے پانی والے چمڑے کا بیگ کھولا اس میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ وہ خود اپنے سفر میں سارا پانی پی چکے تھے۔ مئی جون کے مہینوں میں تم جانتے ہی ہو دلّی میں کس شدّت کی گرمی پڑتی ہے۔

    گرمی بڑھی ہوئی تھی، دھوپ تیز تھی، کچھ دور سے اُنھوں نے دیکھا آم کا ایک گھنا باغ ہے۔ اس کے پاس ہی ایک کنواں ہے، نزدیک آئے تو دیکھا وہاں چند بچّے آم کے ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے رسیلے آم چوس رہے ہیں اور مٹکے سے پانی نکال نکال کر پی رہے ہیں۔ پانی کا مٹکا دیکھ کر حضرت امیر خسروؒ کی پیاس اور بڑھ گئی۔

    یوں تو وہ آم کے دیوانے تھے۔ پھلوں میں سب سے زیادہ آم ہی کو پسند کرتے تھے، لیکن اس وقت آم کا زیادہ خیال نہیں آیا، بس وہ پانی پینا چاہتے تھے۔ گھوڑے پر سوار، آہستہ آہستہ وہ اُن بچّوں کے پاس آئے جو آم چوس رہے تھے اور مٹکے سے پانی پی رہے تھے۔ بچّوں نے اُنھیں فوراً پہچان لیا۔ خوشی سے چیخنے لگے، ’’خسرو بابا خسرو بابا۔’’

    امیر خسرو اُنھیں اس طرح خوشی سے اُچھلتے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ گھوڑے سے اُترے اور بچّوں کے پاس آ گئے۔ بچّوں نے اُنھیں گھیر لیا۔

    ’’خسرو بابا خسرو بابا کوئی پہیلی سنائیے۔’’

    ’’ہاں ہاں کوئی پہیلی سنائیے۔’’ بچوّں کی آوازیں اِدھر اُدھر سے آنے لگیں۔

    ’’نہیں بابا، آج پہیلی وہیلی کچھ بھی نہیں، مجھے پیاس لگ رہی ہے، میری کٹوری میں پانی بھر دو تاکہ میری پیاس بجھے۔ اور میرے گھوڑے کو بھی پانی پلا دو۔’’

    امیر خسرو نے اپنی پیالی بچوّں کی طرف بڑھائی ہی تھی کہ ایک بچّے نے کٹوری اُچک لی اور بھاگ کر مٹکے سے پانی لے آیا۔ حضرت کی پیاس بجھی لیکن پوری نہیں بجھی۔ بولے ’’اور لاؤ پانی ایک کٹوری اور۔’’ بچّے نے کٹوری لیتے ہوئے کہا ’’پہلے آپ ایک آم کھالیں، اِس سے پیاس بھی کم ہو جائے گی۔ یہ لیجیے، یہ آم کھائیے، میں ابھی پانی لاتا ہوں۔’’

    حضرت امیر خسرو نے مسکراتے ہوئے بچّے کا تحفہ قبول کر لیا اور بچّہ ایک بار پھر دوڑ کر پانی لے آیا۔ حضرت نے پانی پی کر سب بچوّں کو دُعائیں دیں۔ بچّوں نے گھوڑے کو بھی خوب پانی پلایا۔

    ’’خسرو بابا، اس سے کام نہیں چلے گا آپ کو آج ہمیں کچھ نہ کچھ سنانا ہی پڑے گا ورنہ ہم آپ کو جانے نہ دیں گے۔‘‘ ایک بچّے نے مچل کر کہا۔

    ’’تو پھر ایسا کرو بچّو، تم لوگ مجھ سے سوال کرو، میں تمھیں جواب دوں گا۔‘‘

    حضرت امیر خسروؒ نے بچّوں کے سامنے ایک تجویز رکھی۔ بچّے فوراً راضی ہو گئے۔

    ’’تو پھر کرو سوال۔‘‘ حضرت امیر خسروؒ نے فرمایا۔ ایک بچّی نے سوچتے ہوئے پوچھا: ’’خسرو بابا، خسرو بابا، آپ کو کون سا پھول سب سے زیادہ پسند ہے؟‘‘

    حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔ ’’یوں تو ہندوستان کے تمام پھول خوب صورت ہیں، سب کی خوشبو بہت اچھّی اور بھلی ہے، لیکن تمام پھولوں میں مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے۔ میں اسے پھولوں کا سرتاج کہتا ہوں۔‘‘

    ’’چمپا تو مجھے بھی بہت پسند ہے، اس کی خوش بُو بہت ا چھّی لگتی ہے‘‘ ایک بچّی نے کہا۔

    ’’خوب! دیکھو نا ہندوستان میں کتنے پھول ہیں، کوئی گِن نہیں سکتا اُنھیں۔ اس ملک میں سوسن، سمن، کبود، گلِ زرّیں، گلِ سرخ، مولسری، گلاب، ڈھاک، چمپا، جوہی، کیوڑا، سیوتی، کرنا، نیلوفر۔ پھر بنفشہ، ریحان، گلِ سفید، بیلا، گلِ لالہ اور جانے کتنے پھول ہیں۔ اپنے مولوی استاد سے کہنا، وہ تمھیں ہر پھول کے بارے میں کچھ نہ کچھ بتا دیں گے۔ مجھے چمپا سب سے زیادہ پسند ہے، یوں چنبیلی بھی مجھے بہت پسند ہے۔‘‘

    ایک دوسرے بچّے نے سوال کیا، ’’خسرو بابا، اور پھلوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا پھل پسند ہے؟‘‘

    ’’آم۔‘‘ حضرت نے فوراً جواب دیا۔

    سارے بچّے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ ’’خسرو بابا، آم ہم سب کو بھی سب سے زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے نا ہم کتنی دیر سے بس آم کھائے جا رہے ہیں، آپ بھی کھائیے نا، ہاتھ پر لے کر کیا بیٹھے ہیں؟‘‘ اُس بچیّ نے کہا۔

    ’’میں اس آم کو تحفے کے طور پر لے جاؤں گا، اپنے بچّوں کا تحفہ ہے نا، گھر پہنچ کر اسے دھو کر اطمینان سے بیٹھ کر کھاؤں گا۔‘‘ حضرت امیر خسرو نے جواب دیا۔

    ’’اس کے بعد کون سا پھل آپ پسند کرتے ہیں؟‘‘ ایک دوسرے بچّے نے پوچھا۔‘‘

    ’’آم کے بعد کیلا۔ کیلا بھی مجھے پسند ہے۔’’حضرت نے جواب دیا۔

    ’’اور خسرو بابا، پرندوں میں کون سا پرندہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟‘‘ ایک تیسرے بچّی نے سوال کیا۔

    ’’پرندوں میں مجھے طوطا بہت ہی پسند ہے، اس لیے کہ طوطے اکثر انسان کی طرح بول لیتے ہیں۔ یوں مجھے مور، مینا، گوریّا بھی پسند ہیں۔ اب آپ لوگ پوچھیں گے، جانوروں میں مجھے کون سا جانور پسند ہے؟ حضرت نے کہا۔

    ’’میں تو ابھی پوچھنے ہی والا تھا۔‘‘ ایک بچّے نے کہا۔

    ’’تو سن لو مجھے ہاتھی، بندر اور بکری پسند ہیں۔‘‘ حضرت نے جواب دیا، پھر خود ہی پوچھ لیا۔

    ’’جانتے ہو بکری مجھے کیوں پسند ہے؟ اور مور کیوں پسند کرتا ہوں؟‘‘

    کیوں؟‘‘ کئی بچّے ایک ساتھ بول پڑے۔’’

    ’’مور اس لیے کہ وہ دُلہن کی طرح سجا سجایا نظر آتا ہے اور بکری اس لیے کہ وہ ایک پتلی سی لکڑی پر چاروں پاؤں رکھ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بچّے کھلکھلا پڑے۔

    ا چھا بچّو، اب میں چلتا ہوں۔ پانی پلانے کا شکریہ اور اس آم کا بھی شکریہ، میرے گھوڑے کو پانی پلایا اس کا بھی شکریہ۔’’

    حضرت امیر خسرو چلنے کو تیّار ہو گئے تو ایک چھوٹے بچّے نے روتے ہوئے کہا۔’’آپ سے دوستی نہیں کروں گا۔’’

    بھلا کیوں بابا، آپ ناراض کیوں ہو گئے؟‘‘ حضرت امیر خسرو نے پوچھا۔’’

    آپ نے کوئی گانا نہیں سنایا۔ وہی گانا سنائیے نا جو آپ حضرت نظام الدین اولیا کے پاس کل صبح گا رہے تھے۔’’

    لیکن تم کہاں تھے وہاں؟’’ حضرت نے حیرت سے دریافت کیا۔

    ’’میں وہیں چھپ کر سن رہا تھا۔‘‘ پھر رونے لگا وہ بچّہ۔

    ’’ارے بابا روؤ نہیں، آنسو پونچھو۔ میں تمھیں وہی گانا سناؤں گا۔‘‘ حضرت نے اسے منا لیا اور لگے لہک لہک کر گانے لگے۔

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملاے کے

    حضرت امیر خسروؒ دیکھ رہے تھے کہ گانا سنتے ہوئے بچّے جھوم رہے ہیں۔ گانا ختم ہوتے ہی بچے چُپ ہو گئے اور پھر اچانک ہنسنے لگے، حضرت بچوّں کو پیار کرنے کے بعد اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ آم کے پیڑوں کے نیچے وہ بچّے جھوم جھوم کر گا رہے تھے:

    چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائے کے

    (شکیل الرّحمٰن کئی کتابوں کے مصنّف اردو میں جمالیاتی تنقید نگاری کے لیے پہچانے جاتے ہیں، ان کا تعلق ہندوستان سے تھا، انھوں نے بچّوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا)

  • سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    ایران کے ایک قدیم شہر کا نام شاید آپ نے بھی سنا ہو، جو خراساں کے صوبے کا صدر مقام رہا ہے۔ یہ شہر ہے نیشا پور۔ اس شہر کے ایک سوداگر کی یہ کہانی سبق آموز ہی نہیں، دل چسپ بھی ہے۔

    نیشا پور میں ایک سوداگر رہتا تھا جو خود کو نہایت عقل مند سمجھتا تھا۔ وہ شہروں شہروں گھوم پھر کر اپنا مالِ تجارت فروخت کرتا اور جو رقم حاصل ہوتی اسے لے کر گھر لوٹ جاتا۔ کبھی وہ قریبی شہروں اور مضافات کا چکر لگاتا اور کبھی کئی دنوں کا سفر کرکے دور کے علاقوں‌ تک بھی چلا جاتا۔ قسمت سے وہ اچھا کمانے لگ گیا تھا۔ اسے تجارت میں‌ زبردست نفع ہوا جس نے اس کا دماغ خراب کردیا۔ وہ خود کو نہایت دانا اور عاقل سمجھنے لگا تھا اور دوسرے لوگوں کو کم عقل۔ اسی زعم میں اس نے خود کو عاقل مشہور کردیا۔ لوگ اسی نام سے اسے جاننے اور پکارنے لگے تھے۔ اس ’’عاقل‘‘ کا اصل نام نصیر الدّین تھا۔

    وہ جس شہر میں نادر و نایاب اشیاء کے بارے میں سنتا، اور مشہور ہنرمندوں یا دست کاروں کے مال کی بات اس کے کانوں میں پڑتی، کوشش کرتا کسی طرح اس تک پہنچ کر مال کا سودا کرلے اور اسے منافع کے ساتھ فروخت کرے۔ واقعی، وہ ایسی اشیاء لے کر آتا کہ دیکھنے والے فوراً متوجہ ہوتے اور منہ مانگے دام دینے کو بھی تیّار ہوجاتے تھے۔

    ایک دن وہ بازار میں بیٹھا اپنے دوست سے باتیں کررہا تھا۔ ایک چڑی مار اس کے قریب سے گزرا جو گا رہا تھا۔

    سونے کی چڑیا
    جادو کی پڑیا
    بجتا ہے گھنٹہ
    دیتی ہے انڈا

    اس نے جو یہ سنا تو اپنے دوست سے رخصت لی اور چڑی مار کے پیچھے چل دیا۔ چڑی مار کے پاس سب پنجرے خالی تھے۔ بس ایک پنجرے میں خاکی رنگ کی چڑیا اپنے پر پھڑپھڑا رہی تھی۔ سوداگر چلتے چلتے سوچنے لگا کہ سونے کی چڑیا مجھے خرید لینی چاہیے۔ اگر یہ واقعی سونے کا انڈا دیتی ہے تو پھر مجھے اتنی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔‘‘ اسے اچانک خیال آیا بچپن میں اس کی دادی اس کی ماں کو میکے جانے پر کہا کرتی تھیں۔

    ’’تم کیا سونے کی چڑیا ہو جو میکے چلی گئیں، تو میرا بیٹا غریب ہوجائے گا۔‘‘

    تو گویا سونے کی چڑیا ہوتی ہے۔ بس اس کی یہ خواہش تھی کاش اس کے پاس وہ چڑیا واقعی ہو۔ ایک مقام پر پہنچ کر سوداگر نے چڑی مار کو روکتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی کیا یہ واقعی سونے کی چڑیا ہے، یہ تو عام سی چڑیا لگ رہی ہے۔‘‘

    چڑی مار نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور جان گیا کہ کوئی بے وقوف شخص ہے جو امیر ہونا چاہتا ہے۔ اس نے نہایت پُراعتماد لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی چڑیا نہیں جادو کی پڑیا ہے۔‘‘

    چودھویں رات کو جب دور کہیں گجر بجتا ہے، یہ سونے کا انڈا دیتی ہے۔ اس چڑیا نے مجھے امیر کردیا ہے۔ میرے گھر میں اب تک دس انڈے دے چکی ہے۔ میرے ملک چلو وہاں میرے بڑے شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہیں۔ میں اسے نہیں بیچتا، مگر یہ اپنے مالک کو صرف دس انڈے دیتی ہے اس کے بعد اگر کوئی اسے خرید لے۔ پھر اس کے پاس مزید دس انڈے اور اسی طرح دوسرے مالک کو پھر دس انڈے دے گی۔‘‘

    سوداگر چڑی مار کی باتوں میں آگیا اور چڑیا خرید لی۔ اس کے بدلے میں‌ اس نے اپنا سب سامانِ تجارت اور گھر بار کا سارا سامان تک چڑی مار کو دے دیا۔ چڑی مار اگلے روز بازار میں پھر کسی کو نظر نہ آیا۔

    سوداگر سارا مال و دولت، گھر بار ایک چڑیا کے عوض چڑی مار کو فروخت کر کے، ایک جھونپڑی میں چڑیا کا پنجرہ رکھ کر رہنے لگا۔ وہ امیر ترین شخص بننے کا خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اسے کچھ پُرخلوص احباب نے سمجھایا کہ ’’اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے اور دھوکہ کھایا ہے۔‘‘ مگر سوداگر کا کہنا تھا،’’ وہ بہت سمجھ دار ہے، وہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا، تم دیکھنا مجھے کتنا فائدہ ہوگا۔

    سوداگر کو بس چودھویں رات کا انتظار تھا۔ آخر وہ رات آگئی۔ سوداگر بہت خوش تھا کہ اس کی چڑیا آج سونے کا انڈا دے گی۔ پوری رات جاگتا رہا۔ چڑیا پنجرے میں کبھی سوتی اور کبھی پر پھڑپھڑاتی رہی۔ آخر صبح ہونے لگی گجر بجا اور سوداگر سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی اور وہ پنجرے کے پاس گیا تو پنجرے میں انڈا نہیں تھا۔ چڑیا اسے بہت عام سا پرندہ لگی۔ وہ اسی طرح پنجرے میں ادھر سے ادھر اڑتی اور پھدکتی پھر رہی تھی۔ آج جانے کیوں سوداگر کو اس میں‌ کچھ بھی خاص نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بہت پچھتایا اور جان گیا کہ چڑی مار نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔

    سوداگر نے سبق سیکھا کہ غرور و تکبر اور دوسروں سے مشورہ نہ کرنے اور کسی کو خاطر میں‌ نہ لانے سے نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ کسی بڑے کام کو کرنے سے پہلے خوب سوچ لینا چاہیے اور اپنے احباب سے مشورہ کرنا چاہیے۔

    (قصّوں اور قدیم حکایات سے انتخاب)

  • بہلول کی باتیں

    بہلول کی باتیں

    کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرتِ شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔

    شیخ نے مریدوں سے پوچھا: ” تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے۔؟”

    لوگوں نے کہا: "حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟”

    شیخ نے جواب دیا: ” ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔” مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا:

    "تم کون ہو؟”

    "میں ہوں جنید بغدادی۔”

    "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟”

    "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔”

    "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟”

    "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔”

    پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔”

    یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔”

    یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔”

    "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔”

    بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا:

    "کون ہو تم؟”

    "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔”

    بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟”

    شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔”

    "تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟”

    "میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلقِ خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔” اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔

    بہلول نے کہا: ” کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔” پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انھوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔” اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا:

    "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟”

    شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔”

    "اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟”

    "جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔” یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انھیں بزرگانِ دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔

    بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔”

    یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا:

    "اے حضرت! میں نہیں جانتا۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔”

    کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔”

    شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔” (اللہ تمھارا بھلا کرے)

    پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تماہرے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔”

    پھر سونے کے متعلق بتایا: ” اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمھارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمھارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبّت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔”

    بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے مں ذرا بھی نہ شرمائے۔

    حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گم راہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

    (معروف مدیر اور بچّوں کے ادیب مسعود احمد برکاتی کے قلم سے)

  • انوکھا بیج

    انوکھا بیج

    ایک تاجر اپنی مستقل مزاجی، لگن اور محنت سے کام یابی کی منازل طے کرتا چلا گیا اور ایک بہت بڑے ادارے کا مالک بن گیا۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اُس نے ادارے کے ڈائریکٹروں میں سے کسی کو اپنا کام سونپنے کی دل چسپ ترکیب نکالی۔

    اس نے ادارے کے تمام ڈائریکٹروں کا اجلاس طلب کیا اور کہا “میری صحت مجھے زیادہ دیر تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت نہیں دیتی، اس لیے میں آپ میں سے ایک کو اپنی ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہوں۔ میں آپ سب کو ایک ایک بیج دوں گا۔ اسے بونے کے ایک سال بعد آپ اس کی صورتِ حال سے مطلع کریں گے جس کی بنیاد پر میں اپنی ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کروں گا۔”

    کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج سے اُگنے والے پودوں کی تعریفیں کرنے لگے سوائے زید کے جو پریشان تھا۔ وہ خاموش رہا اور اپنی خفت کو مٹانے کے لیے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا۔ دراصل زید نے نیا گملا خرید کر اس میں نئی مٹی ڈال کر بہترین کھاد ڈالی تھی اور روزانہ پانی بھی دیتا رہا تھا مگر اس کے بیج میں سے پودا نہ نکلا۔

    ایک سال بعد ادارے کے سربراہ نے پھر سب ڈائریکٹروں کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا۔ سب خوب صورت پودوں والے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر زید جس کا بیج اُگا نہیں تھا، خالی ہاتھ ہی اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دور والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

    اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا۔ اس اُمید پر کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے۔

    سب کی تقاریر سننے کے بعد سربراہ نے کہا، “ایک آدمی کم لگ رہا ہے۔” اس پر زید جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا، کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا، “جناب، مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج نہیں اگا۔” اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے زید کے ساتھ ہم دردی کا اظہار کیا۔

    چائے کے بعد ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اس کے بعد زید ادارے کا سربراہ ہو گا۔ اس پر کئی حاضرینِ مجلس کی حیرانی سے چیخ نکل گئی۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے بہت محنت اور دیانت داری سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیے اور وہ زید ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانت دار بھی ہے۔

    میں نے آپ سب کو اُبلے ہوئے بیج دیے تھے جو اُگ نہیں سکتے۔ سوائے زید کے آپ سب نے بیج تبدیل کر دیے۔”

    (ماخذ: انوکھا بیج از افتخار اجمل بھوپال)

  • محمد عوفی، سلطان طمغاج اور قصائی

    محمد عوفی، سلطان طمغاج اور قصائی

    تاریخ و سیرت، سفر نامے، احوال و تذکرۂ اقوام، واقعات اور قصائص عام طور پر سبھی کی دل چسپی اور توجہ کا باعث بنتے ہیں۔ ہم نے زیادہ تر قدیم حکایات اور داستانیں فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہیں اور ’’جوامعُ الحکایات و لوامع الرّوایات‘‘ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے جس کے مصنّف محمد عوفی ہیں۔ یہ فارسی زبان میں ان کی تحریر کردہ حکایات کی نادر اور مقبول کتاب ہے جس کی منتخب حکایات کا ترجمہ اختر شیرانی نے کیا تھا۔

    اختر شیرانی کا یہ ترجمہ 1943ء میں انجمنِ ترقی اردو سے شایع ہوا تھا۔ اختر شیرانی نے محمد عوفی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے مفصّل حالات کسی کتاب اور تذکرے میں نہیں ملتے، یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا سنِ پیدائش کیا ہے اور انھوں نے کب وفات پائی۔ ان کا نام محمد اور لقب سدید الدین ہے۔ وہ مشہور صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی اولاد میں سے تھے اور اسی نسبت سے عوفی کہلائے۔

    محمد عوفی کا وطن بخارا تھا جہاں انھوں نے تعلیم و تربیت پائی۔ ایک زمانہ تھا جب بخارا علم و فنون اور نابغہ روزگار شخصیات کا وطن تھا۔ اختر شیرانی لکھتے ہیں، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بخارا کا تعلیمی دور ختم ہونے پر عوفی نے علمی، تعلیمی اور ادبی مذاق کی نشوونما کی خاطر، نیز کسی معقول ذریعہ معاش کی جستجو میں ماوراءُ النہر اور خراسان کے مختلف دیار و احصار مثلاً سمر قند، آموسی، خوارزم، نیشا پور، ہرات، سجتان اور فرہ کا سفر کیا اور ہر زمین کے علما، آئمہ، فضلا، مشائخ اور خاص کر شعرا کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ آئمہ سے روایتِ حدیث کی اجازت حاصل کی اور شعرا سے ان کا کلام سنا۔ ان سیّاحتوں کے دوران وعظ و تذکرہ کا مشغلہ جاری رہا۔ اسی مشغلے کے ذریعے امرا و سلاطین کی خدمت میں رسائی حاصل ہوتی رہی اور انعام و اکرام ملتا رہا۔ ‘‘

    اختر شیرانی لکھتے ہیں کہ خراسان سے عوفی سندھ اور ملتان کے حکم راں، ناصر الدین قباچہ کے دربار میں چلے گئے۔ یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ عوفی کب سندھ پہنچے لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ 617 ہجری (1220ء) سے پہلے یہاں آگئے تھے۔ وہ چند سال قباچہ کے ساتھ رہے۔ انھوں نے اپنی پہلی کتاب ’’لبابُ الالباب‘‘ لکھی اور دوسری ’’جوامع الحکایات‘‘ کی تالیف اور ترتیب بھی شروع کر دی۔

    یہ کتاب تاریخی، مذہبی اور اخلاقی روایتوں اور فارسی لطائف کا مجموعہ ہے۔ خصوصاً اس میں ساتویں صدی ہجری کے واقعات و روایتیں بکثرت موجود ہیں۔ نیز معاصر دنیائے اسلام، بالخصوص ایران کے تاریخی و تمدنی حالات کا بھی ذکر ہے۔ انہی خصوصیات نے اسے بعد کے مصنفین کا مقبول ماخذ بنایا۔ فارسی میں محمد عوفی کی کتاب کی چار جلدیں ہیں جو ایک سو ابواب پر منقسم اور دو ہزار ایک سو تیرہ حکایاتوں پر مشتمل ہیں۔

    محمد عوفی اور ان کی اس مشہور کتاب کے مختصر تعارف کے ساتھ یہاں ہم اسی کتاب سے ایک ایسا واقعہ نقل کررہے ہیں جسے حکایت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

    اس حکایت کا عنوان ہے، ’’قصائی یا رعایا‘‘

    مصنف نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ سمر قند کے سلطان طمغاج خان کی خدمت میں ایک مرتبہ شہر کے قصائیوں نے درخواست کی کہ گوشت کے موجودہ نرخوں میں ہمیں زیادہ فائدہ نہیں ہوتا، کام زیادہ ہے۔ محنت کے مقابلے میں آمدنی بہت کم ہے، اگر بادشاہ گوشت مہنگا کرنے کی اجازت دیں تو ہم نذر کے طور پر ایک ہزار دینار خزانے میں پہنچا سکتے ہیں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ خزانے میں رقم پہنچائی جائے اور گوشت کے نرخ میں اضافہ کر دیا جائے۔

    جب قصائی ایک ہزار دینار شاہی خزانے میں داخل کر کے گوشت کا نرخ بڑھا چکے تو بادشاہ نے شہر میں منادی کرائی کہ جو شخص قصائیوں سے گوشت خریدے گا اسے سزا دی جائے گی چناں چہ لوگوں نے گوشت خریدنا بند کر دیا اور چار چار، چھے چھے آدمی مل کر بکرا خریدنے اور گوشت آپس میں تقسیم کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قصائیوں کی آمدن کا دروازہ بند ہو گیا اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے۔

    آخر تھک ہار کر انھوں نے ایک رقم اور خزانے میں داخل کی اور اسی پچھلے نرخ پر گوشت فروخت کرنے کی ہامی بھری تب بادشاہ نے اپنا حکم واپس لیا اور قصائیوں کی جان اس مصیبت سے چھوٹی۔ کسی نے پوچھا تو طمغاج نے کہا،’’یہ اچھی بات نہ تھی کہ میں اپنی رعایا کو ایک ہزار دینار میں قصائیوں کے ہاتھ بیچ دیتا۔‘‘

  • خوشامد

    خوشامد

    کسی جنگل میں ایک پیڑ کے نیچے لومڑی آرام کررہی تھی کہ کہیں‌ سے ایک کوّا اڑتا ہوا آیا اور درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ گیا۔ لومڑی نے دیکھا کہ کوّے کی چونچ میں ایک بڑا سا گوشت کا ٹکڑا دبا ہوا ہے۔ اس کا جی بہت للچایا اور وہ ترکیب سوچنے لگی کہ اسے کیسے ہڑپ کرسکے۔

    ادھر کوّا اس بات سے بے خبر اپنا سانس بحال کررہا تھا کہ اس کے لائے ہوئے گوشت کے ٹکڑے پر لومڑی کی نیّت خراب ہوچکی ہے۔

    کوّا اس وقت چونکا جب لومڑی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک واہ وا شروع کردی۔ وہ ایک سانس میں‌ بولے جارہی تھی کہ سبحان اللہ جیسی تیری صورت ہے، ویسی ہی سیرت بھی تُو نے پائی ہے۔ تیرے پر کیا خوش رنگ ہیں اور اس کی سیاہی کیسی چمک دار ہے۔ تیرے گلے پر کیسا اجلا نشان ہے اور تیری چونچ کتنی مضبوط اور حسین ہے۔

    کوّا اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھول گیا۔ پہلے کبھی کسی نے اس کی ایسی تعریف نہیں‌ کی تھی۔ ادھر لومڑی بولے ہی جارہی تھی۔‌ اے پرند تُو اپنی سیرت میں بھی یکتا ہے اور میں‌ نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ تُو بڑا دور اندیش بھی ہے، مگر قدرت نے ایک صفت سے تجھے محروم رکھا ہے تاکہ تُو اپنی اوقات میں رہے اور کسی میں کوئی کمی دیکھے تو اسے حقیر جان کر طعنہ نہ دے سکے۔ کوّا جس نے اب تک اپنے لیے صرف تعریفی کلمات سنے تھے، اچانک ایسی بات سن کر تڑپ اٹھا اور یہ جاننے کے لیے فوراً اپنا منہ کھول دیا کہ وہ کس صفت سے محروم ہے؟

    کوّے نے جیسے ہی منہ کھولا، اس کی چونچ سے گوشت کا ٹکڑا نکلا اور لومڑی کے سامنے آ گرا جس نے اسے ہڑپ کرنے میں‌ بس اتنی ہی دیر لگائی جتنی دیر میں‌ کوئی پلک جھپکتا ہے۔ کوّا سمجھ گیا تھا کہ لومڑی نے اسے بے وقوف بنایا ہے۔

    لومڑی نے کوّے سے کہا، اے کم عقل، تُو کس صفت سے محروم ہے، سچ پوچھ تو مجھے بھی اس کا کچھ علم نہیں‌، لیکن میں‌ یہ ضرور جانتی ہوں کہ خوشامد سے سو کام نکل سکتے ہیں۔

    (ماخوذ از حکایت)

  • ہرن کیوں‌ پچھتایا؟

    ہرن کیوں‌ پچھتایا؟

    ایک جنگل میں‌ ہرن کو پیاس لگی تو وہ اپنے محفوظ ٹھکانے سے نکلا اور ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ آس پاس کوئی درندہ تو چھپا ہوا نہیں‌ ہے۔ اطمینان کرنے کے بعد وہ دریا کی طرف بڑھنے لگا۔

    قسمت اچّھی تھی، راستے میں کسی سے مڈ بھیڑ نہ ہوئی اور وہ دریا کنارے پہنچ گیا۔ دریا کے صاف شفاف اور میٹھے پانی سے سیراب ہونے کے لیے اس نے اپنا منہ ڈالا تو اُس آبِ زُلال میں اپنا سر نظر آیا۔

    وہ اپنے سَر پر موجود سینگوں کو دیکھنے لگا اور کچھ دیر بعد دکھ، غصّے اور بے بسی کی ملی جلی کیفیت میں افسوس سے کہنے لگا کہ اگر میرے دبلے دبلے پاؤں اس خوب صورت شاخ دار سَر کی مانند ہوتے تو میں اپنے دشمنوں کو خاطر میں‌ نہ لاتا۔ ان کے لیے مجھے ہڑپ کرنا یوں آسان نہ ہوتا اور منہ کی کھاتے۔

    وہ ہرن اسی سوچ میں‌ گم تھا کہ اچانک شکاری کتّوں کے بھونکنے کی آواز اُس کے کان میں‌ پڑی جو لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی جارہی تھی۔ ہرن گھبرایا اور سوچا کہ اب کیا کروں، کتے اس کے قریب آچکے تھے۔ اس نے چوکڑی بھری اور ذرا فاصلے پر موجود درختوں کے جھنڈ میں گُم ہونے کے ارادے سے گھستا چلا گیا۔

    ہرن تیز رفتار اور پھرتیلا جانور تھا، وہ انھیں کہیں کا کہیں پیچھے چھوڑ چکا تھا، لیکن کتے اس کے تعاقب میں تھے۔ درختوں کے درمیان پہنچ کر اسے ایک جگہ جھاڑیاں نظر آئیں اور اس نے لمحوں میں فیصلہ کیاکہ وہ ان کے اندر سے ہوتا ہوا مزید آگے نکل جاسکتا ہے۔ وہ جیسے ہی جھاڑیوں میں گھسا، اس کے سینگ کانٹوں میں اُلجھ گئے۔ اس نے اپنے سَر کو بارہا جھٹکا، لیکن سینگ ان جھاڑیوں میں ایسے پھنسے کہ چھڑا نہ سکا۔

    اسی کوشش کے دوران اس نے دیکھا کہ چار پانچ کتے اس کے سَر پر پہنچنے کو ہیں۔ آخر کتوں نے ہرن پر حملہ کردیا اور اسے شکار کرکے اپنا پیٹ بھرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    کتوں کے حملہ کرنے کے بعد جب ہرن نے دیکھا کہ اب اس کی موت یقینی ہے، تب اس نے ٹھنڈی آہ بھری اور نہایت افسوس سے کہنے لگا! دوستوں کو میں نے دشمن سمجھا اور دشمنوں کو دوست۔ میں اپنی شاخوں(سینگوں) پر فریفتہ ہوا تھا، مگر انھوں نے مجھے اس مصیبت میں گرفتار کیا، اور اپنے پاؤں کی طرف حقارت سے دیکھا تھا، لیکن پاؤں ہی کے سبب تو دریا سے بھاگ کر جنگل تک آیا تھا اور ہر بار یہی تو میری جان بچاتے رہے ہیں۔

    ہرن کو خیال آیا کہ وہ تو اس بار بھی اپنی ٹانگوں ہی کی بدولت سارا میدان طے کر آیا تھا، لیکن جب اس نے قدرت کی صنعت گری میں تعجب کیا اور عیب نکالا تو اس کا یہ حال ہوا۔

    کہتے ہیں، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس کی صنعت و تخلیق میں عیب تلاش کرنے والا نادان دراصل اس کی حکمتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔

    (ماخذ: کتاب جوہرِ اخلاق)

  • چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ

    چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ چیونٹیوں نے ایک ویران گھر کے کھنڈر میں اپنا گھروندا بنالیا۔ وہ ایک مدّت سے یہاں رہ رہی تھیں۔ ایک روز چند تند، سرخی مائل بھڑیں بھی وہاں آپہنچیں اور اُنھوں نے اسی ویران گھر کی دیوار میں اپنا چھتّا بنالیا۔ چیونٹیاں اور بھڑیں اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتی تھیں اور امن چین سے زندگی گزار رہی تھیں۔

    چیونٹیاں تعداد میں بہت تھیں۔ یوں اُس ڈھنڈار میں باپ، مائیں، ان کے بچے بچیّاں، نواسے، نواسیاں، پوتے پوتیاں اور پَر نواسے، ایک وسیع اور تہ در تہ گھر میں زندگی بسر کررہے تھے اور جیسا کہ ان کا ہے، وہ گرمیوں کے دنوں میں باغوں، صحراؤں اور کونوں کھدروں میں پھیل جاتیں اور صبح سے رات تک دانہ دنکا اکٹھا کرتیں، اپنے ذخیرے کو بھرتی جاتیں اور سردیوں کے دنوں میں مزے سے زندگی گزارتیں۔

    ایک دن بزرگ بِھڑ دیوار پر بیٹھی اِدھر اُدھر نگاہ کررہی تھی۔ کیا دیکھتی ہے کہ ایک چیونٹی خشک تُوت کو دانتوں میں تھامے، اسے اپنے گھروندے تک لے جانا چاہتی ہے، مگر چونکہ کم زور ہے، نیچے آرہی ہے۔ اب وہ دانے کو اپنے دانتوں میں دابے دیوار کی بلندی کی جانب کھینچ رہی تھی۔ ابھی وہ آدھے رستے تک بھی نہ پہنچ پائی تھی کہ خشک تُوت اس کے منہ سے پھر گر گیا۔

    چند بار ایسا ہی ہوا کہ بیچاری چیونٹی اسے زمین سے اُٹھاتی، آدھی راہ طے کرتی اور وہ زمین پر آ رہتا۔ آخرِ کار ایک بار وہ دانے کو دیوار کے آخر تک لے جانے میں کام یاب ہوگئی۔ اب اس نے دانہ لبِ بام رکھا اور اس کے پہلو میں کھڑی ہوگئی۔ تھکن سے چُور اس نے لمبا سانس لیا اور بولی: ہائے افسوس، میرے مولا، میں تو تھکن سے نڈھال ہوگئی!

    بزرگ بِھڑ جو چیونٹی کے صبر اور حوصلے پر حیران تھی، اپنی جگہ سے اُڑی اور چیونٹی کے پاس آبیٹھی اور کہنے لگی: معاف کرنا، یہ تو تمھیں یقیناً معلوم ہوگا کہ ہم، ہم ہمسائے ہیں اور اسی دیوار کے ایک سوراخ میں رہتے ہیں۔

    چیونٹی بولی، ہاں ہاں مجھے معلوم ہے، آپ کا شکریہ۔ اصل میں ہر کوئی اپنے اپنے کام میں جُتا ہوا ہے۔ بھڑ بولی: بے شک زندگی ہے تو یہ سب کُچھ ہے، مگر یہ کیا کام ہوا کہ تم چیونٹیاں کرتی رہتی ہو؟

    ”کون سا کام“؟ چیونٹی بولی: آخر ہم کیا کام کرتی رہتی ہیں کہ تمھیں عجیب لگا“ بِھڑ بولی: بالکل بیکار، تمھارا کام یہی تو ہے کہ سارا سال یہاں وہاں سے کھانے کے لیے دانے اکٹھا کرتی ہو اور بڑی دقّت سے انھیں کھینچ کھانچ کر اپنے گھروندے میں لے جاتی ہو اور وہاں ذخیرہ کرلیتی ہو۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس ننھے سے پیٹ کے لیے تم کس قدر حرص اور لالچ سے کام لیتی ہو!

    چیونٹی بولی: مجھے نہیں معلوم تم کہنا کیا چاہتی ہو۔ کیا اس کام کے سوا، جو ہم کرتی ہیں، کوئی اور کام بھی ہے؟ ہم گرمیوں کے پورے موسم میں کام میں جُتی رہتی ہیں اور سردیوں کے دنوں میں اپنے گھر میں نیند لیتی ہیں اور اپنے جمع شدہ غلّے کو کام میں لاتی ہیں۔ ایسے میں تمھارا طرزِ عمل کیا ہوتا ہے؟

    بِھڑ نے کہا: ہم کبھی دانے کھینچنے اور انھیں ذخیرہ کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہم گرمیوں کے موسم میں بہترین خوراک کھاتے ہیں اور اس قدر کھاتے ہیں کہ سارے موسمِ سرما میں سیر رہتے ہیں اور سوئے رہتے ہیں، حتّٰی کہ دوبارہ گرمیوں کا موسم آ جاتا ہے!

    چیونٹی بولی: بہت خوب، تمھارا اپنا رنگ ہے، ہمارا اپنا ڈھنگ۔ سب ایک جیسے تو نہیں ہوتے نا۔ ہر کسی کا اپنا اپنا طریقہ اور راہ و رسم ہے۔

    تم لوگ تکلیف نہیں اُٹھاتے، لوگوں کا مال کھاتے ہو اور لوگ تمھارے ہاتھوں تنگ ہیں۔ ہر کوئی تمھیں برا بھلا کہتا ہے، لیکن ہمارا رزق حلال ہے، صحراؤں میں گرے پڑے دانے، گری پڑی شکر اور حیوانوں اور پرندوں کی بچی کھُچی خوراک۔ ہمیں لوگوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شاعر نے بھی ہماری تعریف میں شعر کہا ہے:

    دانہ کش چیونٹی کو مَت سَتا مرے بھائی
    وہ بھی جان رکھتی ہے اور جان ہے پیاری

    اس کے برعکس تمھیں لوگ برے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

    کوئی یہ بھِڑ سے کہے جاکے اے ہمہ آزار!
    جو شہد دے نہیں سکتی تو ڈنک بھی مت مار

    بِھڑ کہنے لگی: ایسی باتیں کم زور لوگ کیا کرتے ہیں۔ تم لوگ اپنا دل یہ سوچ کر خوش کرتے ہو کہ چیونٹیاں ہو اور بے آزار ہو اور شاعر نے تمھاری تعریف کی ہے، لیکن تم نے اِس زندگی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔

    تم نے قصّاب کی دکان کا گوشت کبھی نہیں کھایا اور انگور کی بیلوں سے لٹکے انگوروں کے رس کا مزہ کبھی نہیں چکھا۔ ایک دن تمھاری زندگی اختتام کو پہنچ جائے گی اور تم مرجاؤ گی، زندگی کا لطف اٹھائے بغیر! لیکن جب ہم مریں گے تو دھوکا کھائے ہوئے لوگوں میں سے نہیں ہوں گے۔

    ہم نے دنیا کے عیش بھی کیے ہیں اور اپنے ڈنک سے لوگوں سے انتقام بھی لیا ہے۔ ہمارے ایک دن کی قدر و قیمت تمھاری عمر کے ایک برس سے بڑھ کر ہے۔ میں تو چاہتی ہوں کہ کوئی ستّر سالہ بدبخت شاعر ہماری تعریف نہ کرے۔

    چیونٹی نے تعجب سے کہا: اچھا تو تم لوگ قصّاب کی دکان کا گوشت بھی کھاتے ہو؟

    بھڑ نے کہا: ارے واہ! اگر تمھیں نہیں معلوم تو میرے ساتھ آؤ تاکہ تمھیں معلوم ہو کہ ہم کیا کیا کارنامے کرتے ہیں۔

    چیونٹی نے کہا: تمھیں معلوم ہے میں تمھارے ساتھ پرواز نہیں کرسکتی۔ اگر سچ کہتی ہو تو مجھے اپنے ساتھ اڑا لے چلو تاکہ میں دیکھوں اور یاد رکھوں۔

    مغرور بِھڑ، چیونٹی کو اپنے کارناموں سے آگاہ کرنا چاہتی تھی۔ اس نے چیونٹی کو اپنے دانتوں سے پکڑا اور قصاب کی دکان پر لاکر زمین پر بٹھا دیا اور کہا: یہیں رہ اور دیکھ۔ پھر وہ اڑی اور بھیڑ کی دُم پر آ بیٹھی جسے قصّاب نے ذبح کرکے لوہے کے حلقے کے ساتھ لٹکا رکھا تھا۔

    جونہی قصّاب گوشت لینے کے لیے اٹھا، بِھڑ خوف زدہ ہوکر اوپر کو اُڑی۔ قصّاب بھڑوں کی روز روز کی مصیبت سے تنگ آچکا تھا۔ اس نے اپنا بُغدہ اٹھایا اور بھیڑ کے جسم پر کچھ اس طرح مارا کہ کئی بِھڑیں ضرب کھا کر مر گئیں اور کئی نیم جان ہوکر زمین پر گرگئیں۔ چیونٹی کی ہمسایہ بِھڑ بھی انہی میں تھی۔

    چیونٹی جو اُس وقت ایک طرف دیکھ رہی تھی، آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور اپنی ہمسایہ بھِڑ کا کھوج لگالیا۔ پھر اس سے کہنے لگی: مجھے بڑا دکھ ہے۔ ہم چیونٹیاں اس طرح کی زندگی جس میں ہر لمحہ خطرہ جان ہو، پسند نہیں کرتیں جب تک کہ کوئی بڑا مقصد ہمارے سامنے نہ ہو۔ تب تک ہمسایہ بھڑ مرچکی تھی اور جواب دینے سے قاصر!

    چیونٹی مردہ بِھڑ کا پاؤں منہ میں تھام اسے کھینچ کھانچ اپنے گھر میں لے آئی اور اسی دیوار پر چڑھ کر اوپر لے گئی۔ پھر اُسے خشک توت کے ساتھ رکھ کر دوسری چیونٹیوں کو اطلاع کی اور کہا: آؤ اس بِھڑ کے بدن کو تکّہ تکّہ کریں۔ اس کے اندر موجود زہر کہیں دور پھینک دیں اور اس کا گوشت ذخیرہ کرلیں، موسمِ سرما میں کام آئے گا۔

    (صدیوں پرانی سبق آموز کہانی جسے ڈاکٹر تحسین فراقی نے فارسی زبان سے اردو میں ڈھالا ہے)