Tag: حکایات

  • عربی حکایت: عبادت  گزار  چور

    عربی حکایت: عبادت گزار چور

    جزیرۂ عرب کے بارے میں ایک عام خیال تو یہ ہے کہ وہاں کا معاشرہ تمدن اور ثقافت سے ناآشنا اور لوگ یا تو ان پڑھ تھے یا قدیم عرب میں دنیا کے دیگر خطوں کی طرح تعلیم کا شعور ہی نہ تھا، مگر عربی زبان فصیح اور وسیع ذخیرۂ الفاظ کی حامل ہے جس میں کئی محاورے، قصائص اور حکایات بیان کی گئیں۔

    عرب دنیا سے یہ حکایت آپ کے حسنِ مطالعہ کے لیے پیش ہے۔

    ایک بادشاہ اپنی جوان بیٹی کی شادی کے لیے فکر مند تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ ایسا نوجوان اس کی بیٹی سے نکاح کرے جو عبادت گزار اور نیک سرشت ہو۔ یوں تو بہت سے عبادت گزار نوجوان اس کی نظروں کے سامنے تھے، لیکن بادشاہ ان سے مطمئن نہ تھا۔

    ایک دن اس نے وزیر کو بلایا اور کہا کہ میری بیٹی کے لیے میری رعایا میں سے کسی نہایت عبادت گزار اور نیک انسان کو تلاش کر کے سامنے پیش کرو۔

    وزیر نے چند سپاہیوں کو شہر کی جامع مسجد کے گرد تعینات کر دیا اور کہا چھپ کر دیکھتے رہو جو شخص آدھی رات کو مسجد میں داخل ہو گا، اسے نکلنے مت دینا جب تک میں نہ آ جاؤں۔ سپاہی حکم کی تعمیل میں مسجد کے دروازے پر نظریں لگا کر بیٹھ گئے۔

    ادھر ایک شخص چوری کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا۔ اس کے دل میں آیا کہ آج شہر کی جامع مسجد کا قیمتی سامان چرا لے۔ چور نے اسی خیال کے تحت جامع مسجد کی طرف قدم بڑھا دیے۔ رات کا وقت تھا، اور مسجد خالی پڑی تھی۔ وہ مرکزی دروازے سے اندر چلا گیا۔

    ادھر مسجد کے خادم نے رات گہری ہو جانے پر معمول کے مطابق دروزاہ بند کیا اور قفل لگا کر اپنے گھر چلا گیا۔ اب فجر کے وقت ہی مسجد کا دروازہ کھلنا تھا اور وہ چور اندر موجود تھا۔

    سپاہیوں نے وزیر کو اطلاع دے دی تھی کہ لگتا ہے کوئی عبادت گزار آیا ہے اور اب مسجد کے اندر موجود ہے، مگر دروازے پر قفل لگ چکا ہے جو صبح ہی کھلے گا۔

    وزیر نے بھی یہی سوچا کہ یقینا وہ کوئی عابد اور نہایت پرہیز گار شخص ہو گا جو رات کو عبادت کی غرض سے مسجد میں بیٹھا ہے۔ وہ صبح کی اذان سے پہلے مسجد پہنچ گیا تاکہ دروازہ کھلے تو اندر جائے اور وہاں موجود اس نیک انسان کو بادشاہ کے سامنے پیش کرسکے۔

    جیسے ہی مسجد کھلی وزیر اور سپاہی اندر اندر داخل ہوئے۔ سپاہیوں کو دیکھ کر اندر موجود چور گھبرا گیا۔ اسے بھاگنے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس نے پکڑے جانے کے خوف سے جلدی سے نماز کی نیت باندھ لی۔ وزیر اور سپاہی اس کی نماز ختم ہونے کے انتظار میں تھے، لیکن وہ جوں ہی سلام پھیرتا، کھڑا ہو کر دوبارہ نیت باندھ لیتا۔

    اس عمل نے وزیر کو اس کے نہایت متقی اور عبادت گزار ہونے کا یقین دلا دیا۔ وزیر نے سپاہیوں کو اشارہ کیا کہ وہ جیسے ہی سلام پھیرے اسے اپنے حصار میں لے لیں اور بادشاہ کے روبرو لے چلیں۔ ایسا ہی ہوا۔

    چور کی حالت غیر ہو رہی تھی، مگر کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ بادشاہ کے سامنے وزیر نے کہا،

    بادشاہ سلامت یہ ہے آپ کا مطلوبہ شخص، اسے مسجد سے لے کر آیا ہوں، رات بھر مسجد میں عبادت کرتا رہا۔

    بادشاہ نے اس شخص سے مخاطب ہو کر کہا،

    اگر میں اپنی بیٹی کی تم سے شادی کر کے تمھیں اپنی سلطنت کا ولی عہد مقرر کر دوں تو کیا تمھیں منظور ہے؟

    چور ہکا بکا اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

    عالی جاہ! یہ کرم نوازی کس لیے؟

    بادشاہ نے کہا تم عابد اور نیک ہو، رات بھر مسجد میں عبادت کرتے رہے۔

    چور نے یہ سنا تو دل ہی دل میں نادم ہوا۔ اس نے اپنے ربّ سے توبہ کرتے ہوئے سوچا کہ میں چوری کی نیت سے گیا، دکھاوے کی نیت سے نماز ادا کی، لیکن تیرے کام تو انسان کی عقل میں نہیں سماتے، تُو نے اس کی سزا دینے کے بجائے اس کے بدلے میں دنیا ہی میرے قدموں میں ڈال دی۔ چور نے سوچا اگر میں سچ مچ عبادت گزار ہوتا اور تہجد کا پابند ہوتا پھر اللہ کا انعام کیا ہوتا۔

    یوں نادم ہو کر وہ شخص چوری سے تائب ہوا اور باقی زندگی عبادت اور نیک کاموں میں گزار دی۔

  • وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    ایک صراف نے عباسی فرماں روا منصور کو عرضی بھیجی کہ میں غریب بندہ ہوں، تھوڑی سی پونجی ایک صندوقچے میں رکھی تھی، وہ چوری ہوگئی۔ اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں۔

    منصور نے صراف کو خلوت میں طلب کر کے دریافت کیا کہ تمھارے گھر میں کون کون رہتا ہے؟

    جواب ملا کہ بیوی کے سوا کوئی نہیں ہے۔

    بادشاہ نے پوچھا، بیوی جوان ہے یا معمر؟

    صراف نے جواب دیا، وہ جوان ہے۔

    خلیفہ منصور نے صراف کو جانے کی اجازت دے دی اور چلتے وقت اسے ایک نایاب عطر کی شیشی عطا کی۔ یہ عطر خلیفہ کے سوا بغداد بھر میں کسی کے پاس نہیں تھا۔

    خلیفہ کے حکم سے شہر کی فصیل کے پہرے داروں کو وہی عطر سنگھوا دیا گیا کہ ایسی خوش بُو کسی شخص کے پاس سے آئے تو اسے گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔

    چند روز بعد سپاہی ایک نوجوان کو پکڑ کر لائے۔ اس کے پاس سے مخصوص عطر کی خوش بُو آرہی تھی۔ خلیفہ منصور نے اس سے دریافت کیا کہ یہ عطر تجھے کہاں سے دست یاب ہوا؟ نوجوان خاموش رہا۔

    خلیفہ نے کہا، جان کی امان چاہتا ہے تو وہ صندوقچہ واپس کر دے جو تجھے صراف کی بیوی نے دیا ہے؟ اس شخص نے چپ چاپ صندوقچہ لاکر پیش کر دیا اور معافی چاہی۔

    بادشاہ نے صراف کو بلا کر صندوقچہ دیا اور سمجھایا کہ بیوی کو طلاق دے دو، وہ تمھاری وفادار نہیں ہے۔

    سید مصطفٰے علی بریلوی

  • چڑیا کے پیٹ میں پاؤ بھر وزنی موتی تھا!

    چڑیا کے پیٹ میں پاؤ بھر وزنی موتی تھا!

    یہ سبق آموز کہانی یا حکایت قدیم دور کی ہے۔
    یہ تو نہیں‌ کہا جاسکتا کہ یہ کس دور کی کہانی ہے اور یہ کس خطے کے باشندے کی اختراع ہے، مگر ہمارے ہاں‌ یہ حکایاتِ رومی کا حصہ ہے۔ اس بات سے قطع نظر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ایسے قصے اور کہانیاں‌ ہر سماج میں‌ اخلاقی تربیت اور کردار سازی میں‌ اہمیت رکھتے ہیں۔ آئیے، چڑیا اور ایک شکاری کی یہ کہانی پڑھتے ہیں۔

    کہتے ہیں‌ کسی شخص نے چڑیا پکڑنے کے لیے جال بچھایا۔ اتفاق سے ایک چڑیا اس میں پھنس گئی۔

    چڑیا نے شکاری سے کہا، اے انسان! تم نے کئی ہرن، بکرے اور مرغ وغیرہ کھائے ہیں، ان کے مقابلے میں میری کیا حقیقت ہے، ذرا سا گوشت میرے جسم میں ہے، اس سے تمہارا کیا بنے گا؟ پیٹ بھی نہیں بھرے گا، لیکن اگر تم مجھے آزاد کر دو تو میں تمہیں تین ایسی باتیں‌ بتاسکتی ہوں‌ جن پر عمل کرنے سے تم کو بہت فائدہ ہو گا۔

    شکاری کے دل میں‌ تجسس پیدا ہوا اور وہ اس کی بات سننے بیٹھ گیا۔ یہ دیکھ کر چڑیا بولی۔

    دیکھو، ایک نصیحت تو میں ابھی کروں گی، مگر دوسری اس وقت جب تم مجھے چھوڑ دو گے اور میں دیوار پر جا بیٹھوں گی۔ اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب دیوار سے اڑ کر سامنے درخت کی شاخ پر جا بیٹھوں گی۔

    اس شخص نے چڑیا کی بات مان لی اور بولا، تم مجھے پہلی نصیحت کرو، تاکہ میں تم کو جال سے نکال کر چھوڑ دوں۔
    چڑیا نے کہا، پہلی نصیحت یہ ہے کہ جو بات ممکن نظر نہ آتی ہو، اس کا یقین بھی مت کرو۔

    یہ سن کر اس آدمی نے چڑیا کو چھوڑ دیا۔ چڑیا سامنے دیوار پر جا بیٹھی اور بولی۔ میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ جو بھی عمل کر گزرو، یا فعل انجام دے دو اس کا کبھی غم نہ کرنا۔

    پھر پھدکتے ہوئے اس چڑیا نے کہا۔ اے بھلے مانس! تم نے مجھے چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی، میرے پیٹ میں پاؤ بھر کا انتہائی نایاب پتھر ہے، اگر تم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تو مالا مال ہو جاتے، تم نے اپنے ہاتھوں‌ دولت گنوائی ہے۔

    اس شخص نے یہ سنا تو افسوس کرنے لگا۔ ملال اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا۔ چڑیا نے اسے یوں‌ پچھتاتا دیکھا تو درخت کی شاخ‌ پر بیٹھے بیٹھے بولی۔ میں نے ابھی تم کو نصیحت کی تھی کہ جو بات ممکن نہ ہو، اس کا یقین بھی نہ کرنا، لیکن تم میری اس بات کا اعتبار کرکے پچھتانے بیٹھ گئے کہ اس پدی سی چڑیا کے پیٹ میں پاؤ بھر وزنی موتی ہو گا، کیا یہ ممکن ہے؟

    میں نے دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ جو بات ہو جائے اس کا غم نہ کرنا، مگر تم نے دوسری نصیحت کا بھی کوئی اثر نہ لیا اور افسوس میں مبتلا ہو گئے کہ چڑیا کو کیوں‌ چھوڑا۔

    اے انسان، تجھے کوئی بھی نصیحت کرنا بے سود ہے۔ تُو نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کب عمل کیا جو تیسری پر کرے گا، سچ ہے تُو اچھی بات کے لائق نہیں۔ یہ کہہ کر چڑیا وہاں‌ سے پرواز کر گئی۔