Tag: حکایت

  • کپڑے کا نقص اور جعلی دینار

    کپڑے کا نقص اور جعلی دینار

    ایک مرتبہ کوئی گھڑ سوار اپنی سواری کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے شہر مکّہ کے راستے پر جارہا تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کے بال گرد و غبار سے اَٹے ہوئے ہیں اور لگتا تھا کہ وہ کئی میل کی مسافت طے کرتا ہوا یہاں سے گزرا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اسے کسی قافلے کی تلاش ہے۔ کیوں کہ وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے تیزی سے آگے نکل رہا تھا۔

    لوک کہانیاں اور حکایات پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    کئی کوس آگے جانے کے بعد اس گھڑ سوار کو چند راہ گیر نظر آئے تو اس نے اپنا گھوڑا روک لیا اور ان سے کسی قافلے کے بارے میں دریافت کیا۔ کسی نے بتایا کہ اس طرف لوگوں کے ایک قافلے کو جاتے ہوئے دیکھا ہے تو اس نے اپنے گھوڑے کو اسی سمت دوڑا دیا۔ کچھ دور جا کر اسے وہی قافلہ مل گیا جس کی تلاش میں وہ میلوں کا سفر کر کے آیا تھا۔ مقصود کو اتنا قریب دیکھ کر اس کا مرجھایا ہوا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔ اس نے ایک شخص کو مخاطب کر کے اس سے پوچھا: ”کیا آپ نے احمد بن طبیب سے کپڑا خریدا تھا؟“

    اس شخص نے گھڑ سوار کو دیکھا اور کچھ تجسس سے بولا، ”جی ہاں! میں نے خریداری کی تھی۔“

    ”دراصل بات یہ ہے کہ میرے دلال احمد بن طبیب نے آپ کو کپڑا بیچ کر پیسے مجھے دیے تو میں نے اس سے پوچھا کہ کپڑا کسے بیچا ہے؟………..اس نے بتایا کہ ”ایک مسافر کو۔“

    ”میں نے استفسار کیا کہ کیا اس کپڑے کا فلاں عیب اسے بتا دیا تھا؟“ اس پر احمد بن طبیب نے کہا کہ ”وہ تو مجھے یاد ہی نہیں رہا۔“

    نوجوان گھڑ سوار ایک لمحے کو چپ ہوا اور پھر بولنا شروع کیا کہ یہ سن کر مجھے بے حد پریشانی ہوئی، میں اس پر غصے ہوا تو اس کا کہنا تھا، ”میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا بلکہ یہ نسیان کے سبب ہوا، اس لیے جو کچھ ہوا آپ اسے بھول جائیے! آئندہ میں احتیاط کروں گا۔“ لیکن میں اس کے سَر ہو گیا۔ اسے آپ کا پتہ معلوم کرنے کو کہا، بڑی مشکل سے پوچھ تاچھ کی تو آپ کا کچھ ٹھکانہ معلوم ہوا لیکن جب میں اس پتے پر آپ سے ملنے پہنچا، تو معلوم ہوا کہ آپ حاجیوں کے قافلے کے ساتھ مکہ معظمہ روانہ ہو چکے ہیں۔ میں نے ایک برق رفتار گھوڑا کرائے پر لیا اور آخرکار آپ کے سامنے کھڑا ہوں تاکہ آپ کو بتا سکوں کہ کپڑے میں یہ نقص ہے۔

    قافلے کے سبھی لوگ اس نوجوان تاجر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ وہ خریدار جو اس قافلے کے ساتھ حج کے لیے جارہا تھا، ایک عجیب احساس میں گھر چکا تھا۔ وہ کبھی کپڑے کو دیکھتا اور کبھی میلوں دور تک اپنی تلاش میں آنے والے اس تاجر کو، جو محض کپڑے کا نقص بتانے کے لیے اتنی تکلیف اٹھا چکا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموش کھڑا رہا اور پھر کہنے لگا ”کیا وہ دینار جو میں نے آپ کے دلال احمد کو دیے تھے وہ آپ کے پاس ہیں؟“

    تاجر نے جواب دیا ”ہاں یہ لیں۔“ مسافر نے وہ دینار لیے اور دور پھینک دیے اور دوسرے دینار نکال کر اس نوجوان تاجر کی طرف بڑھا دیے۔ تاجر نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا کہ وہ دینار آپ نے کیوں پھینک دیے؟

    مسافر نے جواب دیا کہ ”وہ کھوٹے تھے، لیکن آپ کی راست گوئی اور دیانت داری دیکھ کر میرے ضمیر نے ملامت کی اور مجھے یہ اعتراف کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ میں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا، لیکن اب جب کہ آپ نے دیانت داری کا ایسا مظاہرہ کیا ہے تو میں کیسے پیچھے رہ سکتا ہوں۔ مجھے یہ کپڑا نقص کے ساتھ قبول ہے اور اس کی قیمت حاضر ہے۔“

    (دل چسپ، سبق آموز اور انوکھے واقعات پر مشتمل ایک کتاب سے انتخاب)

  • ایک گناہ اور سہی…

    ایک گناہ اور سہی…

    ایک مسجد میں اجتماع کے موقع پر ایک عالم نیکی و بدی میں تمیز سکھاتے ہوئے جنّت و دوزخ کا نقشہ کھینچ رہے تھے۔ اسی میں امانت و خیانت، ایمان داری و بے ایمانی کا ذکر آگیا۔

    مولوی صاحب نے بڑی بڑی موشگافیاں کیں۔ خوب خوب دادِ تحقیق دی۔ چوری کی ایک ایک کر کے ساری صورتیں بیان کیں۔ ہر ہر پیشہ اور ہنر والوں کے کرتوتوں کو گنوایا، ان کی کھلی ڈھکی چوریوں کو کھول کھول کر حاضرین کے سامنے رکھ دیا۔ یونہی ہوتے ہوتے کہیں درزیوں کا ذکر بھی چھڑ گیا۔ جناب نے ان کے خوب لتے لیے۔ ایسے بخیے ادھیڑے کہ کوئی ٹانکا لگا نہ رہنے دیا۔ گاہکوں کی بے اعتباری اور اس کے نتائج دنیا کے بے ثباتی، آخرت میں خرابی کو پھیلا پھیلا کر دکھایا۔ عقبیٰ کے عذاب، قیامت کے حساب کتاب سے ڈرایا اور یہاں تک فرمایا کہ یہ درزی چھوٹی بڑی چوریاں جتنی کرتے ہیں دنیا میں اگر چھپ بھی جائیں قیامت کے دن سب ’الم نشرح‘ ہو کر رہیں گی۔ یہ لوگ جب اﷲ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں گے۔ ایک بڑا سا عَلَم ہر ایک درزی کے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر عمر بھر کے چرائے ہوئے کپڑے، حتیٰ کہ ذرا ذرا سی کترنیں بھی، لٹکتے ہوں گے۔ ساری خدائی ان کی چوری کا یہ تماشا دیکھے گی اور درزیوں کی بڑی رسوائی ہوگی۔ یہ چوری اس کے لیے عذاب و ایذا کا آلہ بن جائی گی۔

    اتفاق سے اس مجلسِ وعظ میں کسی طرف کوئی درزی بھی بیٹھا تھا۔ اسے نجانے کیوں یہ محسوس ہوا کہ مولوی صاحب نے اُسی کو دیکھ کر اپنی تقریر کا یہ پرداز ڈالا ہے۔ اس نے جو یہ چبھتی ہوئی، حق لگتی ہوئی باتیں سنیں تو دل ہی دل میں بہت کٹا اور توبہ کی کہ چوری کے پاس نہ جاؤں گا۔ بہت دنوں تک وہ اپنے اس عہد پر قائم بھی رہا۔

    گاڑھا گزی، ململ لٹّھا، نینونین سُکھ معمولی کپڑوں کا کیا ذکر ہے اچھے اچھے ریشمی کپڑے، مخمل، اطلس، کام دانی، گل بدن کے تھان کے تھان اس کی دکان پر آتے، مگر کتر بیونت کے وقت کبھی اس کو ان میں سے کچھ کتر لینے کا خیال بھی نہ آتا۔

    اتفاق کی بات ایک دن ایک گاہک آیا اور ایک بڑھیا سا تھان کپڑے کا لایا۔ دولھا کا جوڑا بننا تھا۔ وہ ناپ تول دے کر اپنی راہ گیا۔ استاد تھان لے کر بیٹھے الٹ پلٹ کر دیکھا، جی للچایا۔ منہ میں پانی بھر آیا۔ رال ٹپکنے لگی۔ دل نے کہا۔ اس میں تو کچھ بچانا ہی چاہیے۔ ایمان پکارا، خبردار، کیا کرتا ہے، توبہ نہیں کر چکا ہے؟

    درزی نے تھان اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا۔ مگر کپڑا جلدی سی کر دینا تھا، اس لیے پھر اٹھا لیا اور پھر وہی کش مکش شروع ہوگئی۔ آخر پرانی عادت، نئی توبہ پر غالب آگئی اور استاد نے کہا، ایں ہم بر سرِ علَم۔ یعنی جہاں ہزاروں ٹکڑے کپڑے کے قیامت کے دن میرے علَم پر ہوں گے، ان میں ایک یہ بھی سہی۔

    یہ ایک قصّہ ہے جس میں صداقت کچھ نہ ہو، مگر یہ فارسی کی ایک مشہور ضربُ المثل ہے۔ اگر اس کا اردو میں ترجمہ کریں تو اس طرح ہوگا کہ ‘یہ بھی جھنڈے پر سہی۔’ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں ہزاروں گناہوں کی پوٹ سَر پر ہو، ایک گناہ اور سہی۔

    سچ یہ ہے کہ ہمیں اگر کوئی بُری عادت پڑ گئی ہو اور ہم کچھ وقت کے لیے اس عادت کو ترک بھی دیں تو جیسے ہی موقع ملتا ہے وہ یونہی عود کر آتی ہے جیسا کہ اس درزی کے ساتھ ہوا۔

  • بوتل کا قیدی

    بوتل کا قیدی

    وہ ایک بڑا سنسان جزیرہ تھا۔ اونچے اونچے اور بھیانک درختوں سے ڈھکا ہوا۔ جتنے بھی سیاح سمندر کے راستے اس طرف آتے، ایک تو ویسے ہی انھیں حوصلہ نہ ہوتا تھا کہ اس جزیرے پر قدم رکھیں۔ دوسرے آس پاس کے ماہی گیروں کی زبانی کہی ہوئی یہ باتیں بھی انھیں روک دیتی تھیں کہ اس جزیرے میں آج تک کوئی نہیں جا سکا اور جو گیا وہ واپس نہیں آیا۔ اس جزیرے پر ایک انجانا خوف چھایا رہتا ہے۔ انسان تو انسان پرندہ بھی وہاں پر نہیں مار سکتا۔

    یہ اور اسی قسم کی دوسری باتیں سیاحوں کے دلوں کو سہما دیتی تھیں۔ بہتیروں نے کوشش کی مگر انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔

    ایک دن کا ذکر ہے کہ چار آدمیوں کے ایک چھوٹے سے قافلے نے اس ہیبت ناک جزیرے پر قدم رکھا۔ کمال ایک کاروباری آدمی تھا۔ وہ بمبئی کے ہنگاموں سے اکتا کر ایک پرسکون اور الگ تھلگ سی جگہ کی تلاش میں تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ جزیرہ ابھی تک غیر آباد ہے تو اس نے اپنی بیوی پروین، اپنی لڑکی اختر، اپنے لڑکے اشرف جس کی عمر پندرہ سال تھی، ان کو بتایا۔ دونوں بھائی بہن نے جو یہ بات سنی تو بے حد خوش ہوئے۔ کیونکہ ان کے خیال میں اس جزیرے پر ایک چھوٹے سے گھر میں کچھ وقت گزارنا جنت میں رہنے کے برابر تھا۔

    آخر کار وہ دن آہی گیا جب کمال اپنے بچوں کے ساتھ اس جزیرے پر اترا۔ جزیرہ اندر سے بہت خوبصورت تھا۔ جگہ جگہ پھولوں کے پودے لہلہا رہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پھل دار درخت سینہ تانے کھڑے تھے۔ اونچے اونچے ٹیلوں اور سبز گھاس والا جزیرہ بچوں کو بہت پسند آیا۔ مگر اچانک کمال نے چونک کر ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔ اسے ایسا لگا جیسے کسی نے ہلکا قہقہہ لگایا ہو۔ پہلے تو اس نے اس بات کو وہم سمجھ کر دل میں جگہ نہیں مگر دوبارہ بھی ایسا ہی ہوا تو اس کے کان کھڑے ہوئے۔ اس نے دل میں سوچ لیا کہ ماہی گیروں کی کہی ہوئی باتوں میں سچائی ضرور ہے۔ مگر اس نے بہتر یہی سمجھا کہ اپنے اس خیال کو کسی دوسرے پر ظاہر نہ کرے۔ اگر وہ ایسا کرتا تو بچے ضرور ڈر جاتے۔

    جب تک دن رہا وہ سب جزیرے کی سیر کرتے رہے۔ رات ہوئی تو انہیں کوئی محفوظ جگہ تلاش کرنی پڑی جہاں وہ خیمہ لگانا چاہتے تھے۔ آخر ایک چھوٹے سے ٹیلے سے نیچے انہوں نے خیمہ گاڑ دیا۔ مگر کمال بار بار وہی سوچ رہا تھا کہ وہ ہلکے سے قہقہے اسے پھر سنائی دیے۔ کمال کو پریشانی تو ضرور ہوئی مگر وہ اپنی اس پریشانی کو دوسروں پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی بیوی سے کہا، ’’ابھی تو اسی جگہ رات بسر کی جائے۔ صبح کو ایسی جگہ دیکھوں گا جہاں مکان بنایا جا سکے۔‘‘

    ’’مگر سنو کمال۔ کیا تم نے کسی کے ہنسنے کی آواز سنی ہے؟‘‘ پروین نے سہم کر پوچھا۔

    ’’سنی تو ہے۔‘‘ کمال نے آہستہ سے کہا۔ ’’مگر اس بات کو بچوں سے چھپائے رکھنا، میرے خیال میں ماہی گیر ٹھیک کہتے تھے۔ مگر ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ میں اتنا بزدل نہیں ہوں کہ ان معمولی باتوں سے گھبراؤں۔‘‘

    ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اشرف نے سہم کر کہا ’’ابا۔ میں نے کسی کی ہنسی سنی ہے اور یہ ہنسی بہت قریب ہی سے سنائی دی ہے۔ کیا بات ہے؟ کہیں یہاں بھوت ووت تو نہیں ہیں؟‘‘

    ’’پاگل مت بنو اشرف۔ یہ تو کسی پرندے کی آواز ہے۔ میں بھی بہت دیر سے سن رہا ہوں۔‘‘

    کمال نے تو یہ کہہ کر اشرف کو ٹال دیا۔ مگر اشرف سوچ رہا تھا کہ اس جزیرے میں تو ایک بھی پرندہ نہیں ہے۔ پھر آخر ابا جھوٹ کیوں بول رہے ہیں! جب اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو وہ خاموشی سے اندر خیمے میں جاکر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ جب صبح ہوگی تو خواہ مخواہ کا ڈر بھی اس کے دل سے دور ہوجائے گا۔ رات کو تو ایسے ہی اوٹ پٹانگ خیال ذہن میں آیا کرتے ہیں۔

    صبح بھی آ گئی۔ دوسری جگہوں کی طرح یہاں پرندوں کی چہچہاہٹ بالکل نہیں تھی۔ پھولوں پر تتلیاں نہیں منڈلا رہی تھیں۔ ایک پراسرار خاموشی نے پورے جزیرے کو اپنی گود میں لے رکھا تھا۔ کمال نے سب کو اٹھایا اور پھر کہا ’’آؤ جزیرے کے کونے کونے کو دیکھیں۔ ہو سکتا ہے کہ کہیں ہمیں کوئی ایسی جگہ مل جائے جہاں پینے کا پانی بھی ہو اور جو سمندر سے قریب بھی ہو۔ بس ایسی ہی جگہ ہم اپنا چھوٹا سا گھر بنائیں گے۔‘‘

    یہ سن کر سب نے سامان باندھا اور اپنے کندھوں پر لٹکا لیا۔ پھر یہ چھوٹا سا کنبہ گھر بنانے کے لئے جزیرے کے اندر بڑھنے لگا۔ شاید ایک دو فرلانگ چلنے کے بعد ہی کمال ٹھٹھک گیا۔ اس کی نظریں سامنے کی طرف جمی ہوئی تھیں۔ اس جزیرے کے خوبصورت سے جنگل میں ایک نہایت ہی خوبصورت مکان بنا ہوا تھا۔ شاید یہ مکان بہت اونچا تھا۔ کیونکہ اس کا اوپر کا حصہ درختوں میں چھپ گیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ یہ مکان بالکل شیشے کا نظر آتا تھا۔ گو اس کی دیواروں کے آر پار کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن دیواروں کی چمک بتاتی تھی کہ وہ شیشے کی بنی ہوئی ہیں۔ بالکل سامنے ایک دروازہ تھا اور دروازے کے آگے ننھی منی سی روش تھی۔

    ’’ابا۔ یہ مکان کس کا ہے؟‘‘ اختر نے پہلی بار پوچھا۔

    ’’کوئی نہ کوئی یہاں رہتا ضرور ہے۔‘‘ کمال نے جواب دیا۔ ’’ماہی گیر غلط کہتے تھے کہ یہ غیر آباد جزیرہ ہے۔‘‘

    ’’ارے۔ مگر دروازہ تو کھلا ہوا ہے۔‘‘ اشرف نے حیرت سے کہا۔

    ’’آجائیے، اندر آجائیے۔ میں تو برسوں سے آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ ایک بڑی بھاری آواز اندر سے آئی۔

    ’’چلیے۔ اندر چل کر تو دیکھیں کون ہے۔ کوئی ہمیں بلا رہا ہے۔‘‘ پروین نے کمال کے کان میں کہا۔

    کمال نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور پھر اس کے ساتھ ہی ایک کر کے سب اندر داخل ہو گئے۔ اندر کا منظر دیکھ کر وہ حیران رہ گئے کیونکہ اس شیشے کے کمرے میں فرنیچر بالکل نہیں تھا اور کمرہ خالی تھا۔ ان کے اندر داخل ہوتے ہی اچانک دروازہ بند ہو گیا۔ کمال نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دروازہ باہر سے بند ہو گیا ہے اور اب کھل نہیں سکتا۔ یکایک وہی قہقہے پھر سنائی دینے لگے۔ پہلے ان کی آواز مدھم تھی مگر اب بہت تیز تھی۔

    ’’یہ قہقہے کس کے ہیں کون ہنس رہا ہے؟‘‘ کمال نے چِلّا کر پوچھا۔ مگر اس کی آواز شیشے کے مکان میں گونج کر رہ گئی۔

    چند منٹ کے بعد شیشے کی دیواروں کے باہر کا منظر نظر آنے لگا اور کمال نے دیکھا کہ باہر جنگل میں دھواں زمین سے اٹھ رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ دھواں آسمان تک جا پہنچا اور پھر اس دھویں نے انسان کی شکل اختیار کر لی۔ ان لوگوں کو شیشے کے مکان میں دیکھتے ہی اس نے قہقہے لگانے شروع کر دیے۔ اس کے سر پر ایک لمبی سی چوٹی تھی جو اس کے کندھوں پر جھول رہی تھی۔

    ’’میں آزاد ہوں۔ میں آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘ اس لمبے آدمی نے قہقہے لگاتے ہوئے کہنا شروع کیا ’’میں آزاد ہوں۔ اے اجنبی جانتے ہو۔ میں پانچ سو سال سے اس شیشے کی بوتل میں بندھا تھا۔ لیکن اب آزاد ہوں۔ ہاہاہا۔‘‘

    ’’لیکن تم ہو کون اور ہمیں اس طرح قید کرنے سے تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘ کمال نے پوچھا۔

    ’’میں جن ہوں۔ میں دنیا کا ہر وہ کام کر سکتا ہوں جو تم نہیں کر سکتے۔ پانچ سو سال پہلے ایک ماہی گیر نے مجھے ایک موٹی سی بوتل کے قید خانے میں سے نکالا تھا اور جب میں نے اسے کھانے کا ارادہ کیا تھا تو اس کمبخت نے مجھے دھوکے سے بوتل میں بند کر دیا تھا۔ میں وہی جن ہوں اجنبی۔ سمجھے۔‘‘

    ’’مگر یہ تو ایک من گھڑت کہانی ہے۔‘‘ پروین نے کہا۔

    ’’بہت سے افسانے دراصل حقیقتوں سے ہی جنم لیتے ہیں۔‘‘ جن نے کہا’’ ماہی گیر نے مجھے بوتل میں قید کیا تھا وہ پانچ سو سال کے بعد ٹوٹ گئی۔ میں پھر آزاد ہو گیا اور میں نے کچھ ایسے کام کیے جن کی بدولت مجھے بڑی طاقتوں نے پھر سے اس بوتل میں، اس جزیرے میں قید کر دیا۔ میری آزادی کی شرط یہ رکھی گئی کہ ادھر کوئی انسان اس جگہ آکر میری جگہ لے لے تو میں آزاد ہو سکتا ہوں اور اس لیے آج اے بے وقوف اجنبی تم نے مجھے آزاد کیا ہے اور اب میری جگہ تم اس بوتل کے قیدی ہو۔ ہاہا ہا۔‘‘

    ’’خدا کی پناہ۔ تو کیا یہ مکان بوتل کی شکل کا ہے۔‘‘ کمال نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’اب میں دوبارہ قیدی بننے کی غلطی نہیں کروں گا۔‘‘ جن نے کہا ’’اب دوبارہ میں قید نہیں ہوں گا۔ ہا ہا ہا۔‘‘

    یہ سنتے ہی کمال کی بری حالت ہو گئی۔ اس نے دیوانوں کی طرح جلدی سے آگے بڑھ کر اس شیشے کے دروازہ پر زور کی ایک لات رسید کی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ہمت ہار کر وہ بے بسی سے جن کے مسکراتے ہوئے چہرے کو دیکھنے لگا۔

    ’’بے وقوف اجنبی۔ تم اب یہاں سے کبھی باہر نہ نکل سکو گے۔ تم زندگی بھر کے لیے قید ہو گئے ہو۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔ مجھے بہت سے کام کرنے ہیں۔ جب تم خود مجھ سے جانے کے لیے کہو گے اس وقت جاؤں گا۔ اس لیے مجھے اجازت دو۔‘‘

    ’’ابھی آپ کو اجازت نہیں مل سکتی کیونکہ آپ مجھے ایک شریف جن معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اختر نے حوصلہ کر کے کہا۔

    ’’وہ تو میں ہوں ہی۔ کون کہتا ہے کہ میں شریف نہیں ہوں۔ بھولی؟‘‘

    ’’اگر آپ شریف ہیں تو ٹھہریے اور میرے ایک سوال کا جواب دیجیے۔ یہ ایک پہیلی ہے۔ اگر آپ نے اس پہیلی کا ٹھیک جواب دے دیا تو ہم اپنی مرضی سے یہیں قید ہو جائیں گے اور اگر آپ نے صحیح جواب نہیں دیا تو مجھے امید ہے کہ آپ اپنی شرافت کا مظاہرہ کریں گے اور ہمیں جانے دیں گے۔ کہانیوں میں میں نے یہی پڑھا ہے کہ شریف جن قول دے کر نہیں مکرتے۔ میں آپ کو تین موقع دوں گی۔ اگر تینوں بار صحیح جواب نہ دے سکے تو آپ ہار جائیں گے۔ بولیے منظور ہے؟ آپ خاموش کیوں ہیں۔ کیا آپ ڈرتے ہیں؟‘‘

    یہ سن کر جن بڑے زور سے ہنسا اور اس کی ہنسی سے جنگل کے درخت لرزنے لگے۔ اس کے بعد وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور اپنا منہ شیشے کی دیوار کے پاس لاکر زور سے کہنے لگا۔ ’’میں ڈرتا ہوں! ہاہاہا۔ میں جو پوری دنیا کا مالک ہوں۔ تم جیسی ننھی سی گڑیا سے ڈر جاؤں گا۔ ہاہاہا۔ میں دنیا کا سب سے عقلمند جن ہوں۔ اپنی شرافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں کہ تم مجھ سے اپنی پہیلی پوچھو، بولو وہ کیا پہیلی ہے؟‘‘

    کمال، پروین اور اشرف حیرت سے اختر کو دیکھ رہے تھے جو اتنے بڑے جن سے مقابلہ کرنے کو تیار تھی۔

    ’’وہ کیا چیز ہے جو پوری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ زمین پر، سمندر میں، ہوا میں، خلا میں سب جگہ موجود ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو مگر دیکھ نہیں سکتے۔ تم اسے محسوس کر سکتے ہو مگر محسوس نہیں کر سکتے۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہے تو سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتی ہے اور دنیا کا ہر انسان اسے اچھی طرح جانتا ہے بتاؤ وہ کیا ہے؟‘‘۔

    جن نے یہ سن کر قہقہہ لگایا اور کہا ’’بھولی گڑیا، پہیلی کا جواب یہ ہے کہ وہ چیز ایٹم ہے۔ ایٹم ہر جگہ ہے لیکن ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ صرف سائنس داں دیکھ سکتے ہیں۔ ہم اسے محسوس نہیں کر سکتے لیکن اگر کسی چیز کو چھوئیں تو محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور اگر چاہیں تو سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘

    ’’بالکل غلط۔‘‘ اختر نے مسکرا کر کہا۔ ’’دنیا کے بہت سے آدمی ایٹم کو نہیں جانتے۔‘‘

    یہ سن کر جن بہت گھبرایا اور بولا۔ ’’ٹھہرو، مجھے سوچنے دو، ہاں ٹھیک ہے، اب صحیح جواب مل گیا۔ وہ چیز روشنی ہے۔ روشنی ہر جگہ ہے اور ہر آدمی اسے دیکھ سکتا ہے۔ کیوں۔‘‘

    ’’اب بھی غلط۔ ’’اختر نے خوش ہوکر کہا۔ ’’اندھے آدمی روشنی کیسے دیکھ سکتے ہیں؟‘‘

    ’’بےوقوف لڑکی۔‘‘ جن نے گھبرا کر کہا۔ ’’تم مجھے نادان سمجھتی ہو اور دھوکا دینا چاہتی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ اس پہیلی کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لیے اب میں کوئی جواب نہ دوں گا۔‘‘

    ’’جواب کیوں نہیں ہے؟‘‘ اختر نے کہا۔ ’’اس کا جواب ہے سچ۔ سچ ہر جگہ ہے۔ تم اسے دیکھ سکتے ہو اور محسوس بھی کر سکتے ہو اگر تم سچے ہو اور اگر تم سچے نہیں ہو تو تم نہ اسے دیکھ سکتے ہو اور نہ محسوس کر سکتے ہو۔ دنیا کا ہر شخص سچ کو جانتا ہے۔ سچ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج سے بھی طاقتور ہے اور ایک سوئی کے ناکے میں سے بھی نکل سکتا ہے۔‘‘

    یہ سنتے ہی جن نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور کہا’’تم نے مجھ سے چالاکی سے کام لیا اور میں نے بھی تم سے۔ میں نے بھی چالاکی سے تم سے صحیح جواب معلوم کر لیا۔ تم نے مجھے تین موقعے دیے تھے اور میں نے دو ہی مرتبہ میں تم سے ٹھیک جواب حاصل کر لیا۔ کہو کیسی رہی؟ کیونکہ تم نے تیسرے موقع کا انتظار کیے بغیر ہی صحیح جواب بتا دیا اس لیے تم ہار گئیں۔‘‘

    اختر تو اب چپ ہو گئی مگر کمال نے آگے بڑھ کہا۔’’یہ تمہاری کمزوری کی پہلی نشانی ہے۔ تم نے ایک بچی سے چالاکی سے ٹھیک جواب معلوم کر لیا۔ سچ جتنا بڑا ہے، تم اتنے بڑے نہیں ہو۔ میری بچی نے یہ بات ثابت کر دی ہے۔‘‘

    ’’بکواس مت کرو۔ میں ہر چیز سے بڑا ہوں۔‘‘ جن نے جواب دیا۔

    ’’غلط ہے۔ تم سچ سے بڑے نہیں ہو۔‘‘ کمال نے کہا۔ ’’سچ ایک سوئی کے ناکے میں سے نکل سکتا ہے۔ تم نہیں نکل سکتے۔ ہمارے پاس اس وقت کوئی سوئی نہیں ہے جو ہم اس کا تجربہ کریں لیکن اس دروازے میں تالے کے اندر کنجی ڈالنے کا سوراخ تو ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سوئی کا ناکہ تو پھر چھوٹا سا ہے مگر تم اس بڑے سے سوراخ میں سے بھی نہیں گزر سکتے۔‘‘

    ’’یہ جھوٹ ہے۔ میں سب کچھ کر سکتا ہوں۔ سوئی کے ناکے میں سے بھی گزر سکتا ہوں اور تالے کے سوراخ میں سے بھی۔ لو دیکھو، میں دھواں بن کر ابھی تمہیں یہ تجربہ کر کے دکھاتا ہوں۔‘‘

    اتنا کہتے ہی جن ہوا میں تحلیل ہونے لگا اور پھر دھواں بننے لگا۔ اس کے دھواں بنتے ہی کمال نے جلدی سے اپنی پانی کا چھاگل نکالی اور اس کی ڈاٹ کھول کر سب پانی فرش پر گرا دیا۔ جیسے ہی جن دھواں بن کر تالے کے سوراخ سے اندر آنے لگا۔ کمال نے جلدی سے چھاگل کا منہ اس سوراخ سے لگا دیا۔ جب تمام دھواں چھاگل میں چلا گیا تو کمال نے ڈاٹ مضبوطی کے ساتھ بند کر دی اور ہنس کر کہا ’’ہاں واقعی تم تالے کے سوراخ میں سے نکل سکتے ہو اور پھر چھاگل میں قیدی ہوسکتے ہو۔‘‘

    ’’تم نے مجھے دھوکا دیا۔ چالاکی سے مجھے بند کر دیا۔‘‘ جن نے چھاگل میں سے چلانا شروع کیا۔ ’’مجھے آزاد کرو۔‘‘

    ’’تم نے سچ کی بڑائی کو نہیں مانا اس لیے تم ہار گئے۔‘‘ اتنا کہہ کر کمال نے دروازے کو کھولنا چاہا تو وہ کھل گیا۔ ’’لو دروازہ بھی کھل گیا۔ اب میں تمہیں سمندر میں واپس پھینکے دیتا ہوں تاکہ تم دوبارہ باہر نکل کر کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا کر سکو۔ تم نے ہمیں اس بوتل کا قیدی بنایا تھا۔ لیکن اب تم خود قیدی ہو گئے۔‘‘

    جن التجا کرتا رہا مگر کمال نے ایک نہ سنی اور پھر باہر آکر اس نے چھاگل سمندر میں پھینک دی۔ ایک زور دار تڑاخہ ہوا اور شیشے کا وہ قید خانہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا جس کی شکل بوتل کی سی تھی اور جس کا قیدی یہ چھوٹا سا کنبہ تھا۔

    (مصنّف: سراج انور)

  • بغداد کا نعل ساز

    بغداد کا نعل ساز

    بغداد میں ایک نوجوان تھا- وہ بہت خوبصورت تھا اور اس کا کام نعل سازی تھا- وہ نعل بناتا بھی تھا اور گھوڑے کے سموں پر چڑھاتا بھی تھا-

    نعل بناتے وقت تپتی بھٹی میں سرخ شعلوں کے اندر وہ نعل رکھتا اور پھر آگ میں اسے کسی "جمور” یا کسی اوزار کے ساتھ نہیں پکڑتا تھا بلکہ آگ میں ہاتھ ڈال کے اس تپتے ہوئے شعلے جیسے نعل کو نکال لیتا اور اپنی مرضی کے مطابق اسے (shape) شکل دیتا تھا- لوگ اسے دیکھ کر دیوانہ کہتے اور حیران بھی ہوتے تھے کہ اس پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا-

    وہاں موصل شہر کا ایک شخص آیا جب اس نے ماجرا دیکھا تو اس نے تجسس سے اس نوجوان سے پوچھا کہ اسے گرم گرم لوہا پکڑنے سے کیوں کچھ نہیں ہوتا؟

    اس نوجوان نے جواب دیا کہ وہ جلدی میں لوہے کو اٹھا لیتا ہے اور اب اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی ہے کہ میرا ہاتھ اسے برداشت کرنے کا عادی ہوگیا ہے- اور اسے کسی جمور یا پلاس کی ضرورت نہیں پڑتی-

    اس شخص نے کہا کہ میں اس بات کو نہیں مانتا ” یہ تو کوئی اور ہی بات ہے-” اس نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اس کی حقیقت بتاؤ؟

    اس نوجوان نے بتایا کہ بغداد میں ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی اور اس کے والدین عمرے کے لیے گئے، اور کسی حادثے کا شکار ہو کر وہ دونوں فوت ہو گئے- اور یہ لڑکی بے یار و مددگار اس شہر میں رہنے لگی-

    وہ لڑکی پردے کی پلی ہوئی، گھر کے اندر رہنے والی لڑکی تھی اب اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ زندگی کیسے گزارے- آخر کار نہایت غم زدہ اور پریشانی کی حالت میں وہ باہر سڑک پر نکل آئی-

    اس نے میرے دروازے پر دستک دی اور کہا ” کیا ٹھنڈا پانی مل سکتا ہے-” میں نے کہا ہاں اور اندر سے اس لڑکی کو ٹھنڈا پانی لا کر پلایا اور اس لڑکی نے کہا خدا تمہارا بھلا کرے-

    میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں؟ اس لڑکی نے کہا نہیں میں نے کچھ نہیں کھایا- میں نے اس سے اکیلے اس طرح پھرنے کی وجہ پوچھی تو اس لڑکی نے اپنے اوپر گزرا سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں زندگی کیسے بسر کروں- میں نے اس سے کہا کہ تم شام کو یہیں میرے گھر آجانا اور میرے ساتھ کھانا کھانا- میں تمھیں تمہاری پسند کا ڈنر کھلاؤں گا وہ لڑکی چلی گئی-

    اس نوجوان نے بتایا کہ میں نے اس کے لیے کباب اور بہت اچھی اچھی چیزیں تیار کیں وہ شام کے وقت میرے گھر آگئی اور میں نے کھانا اس کے آگے چن دیا-

    جب اس لڑکی نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی اور میری نیت بدل گئی کیوں کہ وہ انتہا درجے کا ایک آسان موقع تھا – جو میری دسترس میں تھا-

    جب میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھائی تو اس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا اور اس نے کہا کہ میں بہت مایوس اور قریبُ المرگ اور اس دنیا سے گزر جانے والی ہوں- اس نے مزید کہا ” اے میرے پیارے بھائی تو مجھے خدا کے نام پر چھوڑ دے-”

    وہ نوجوان کہنے لگا، میرے سر پر برائی کا بھوت سوار تھا- میں نے اس سے کہا کہ ایسا موقع مجھے کبھی نہیں ملے گا میں تمھیں نہیں چھوڑ سکتا- اس لڑکی نے مجھے کہا کہ "میں تمھیں خدا اور اس کے رسول کے نام پردرخواست کرتی ہوں کہ میرے پاس سوائے میری عزت کے کچھ نہیں ہے اور ایسا نہ ہو کہ میری عزت بھی پامال ہو جائے اور میرے پاس کچھ بھی نہ بچے اور پھر اس حالت میں اگر میں زندہ بھی رہوں تو مردوں ہی کی طرح جیئوں گی-”

    اس نوجوان نے بتایا کہ لڑکی کی یہ بات سن کرمجھ پر خدا جانے کیا اثر ہوا، میں نے دروازے کی چٹخنی کھولی اور دست بستہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا کہ "مجھے معاف کر دینا میرے اوپر ایک ایسی کیفیت گزری تھی جس میں میں نبرد آزما نہیں ہو سکا تھا لیکن اب وہ کیفیت دور ہو گئی ہے تم شوق سے کھانا کھاؤ اور اب سے تم میری بہن ہو-”

    یہ سن کر اس لڑکی نے کہا کہ ” اے الله میرے اس بھائی پر دوزخ کی آگ حرام کر دے – ”

    یہ کہ کر وہ رونے لگی اور اونچی آواز میں روتے ہوئی کہنے لگی کہ ” اے الله نہ صرف دوزخ کی آگ حرام کر دے بلکہ اس پر ہر طرح کی آگ حرام کر دے- ”

    نوجوان نے بتایا کہ لڑکی یہ دعا دے کر چلی گئی – ایک دن میرے پاس زنبور (جمور) نہیں تھا اور میں دھونکنی چلا کر نعل گرم کر رہا تھا میں نے زنبور پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ دہکتے ہوئے کوئلوں میں چلا گیا لیکن میرے ہاتھ پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا- میں حیران ہوا اور پھر مجھے اس لڑکی کی وہ دعا یاد آئی اور تب سے لے کر اب تک میں اس دہکتی ہوئی آگ کو آگ نہیں سمجھتا ہوں بلکہ اس میں سے جو چاہے بغیر کسی ڈر کے نکال لیتا ہوں-

    (حکایت از اشفاق احمد، زاویہ)

  • پنسل کی کہانی (تمثیل)

    پنسل کی کہانی (تمثیل)

    پاولو کوئیلو کا ناول الکیمسٹ لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوا اور پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ ایک چرواہے کی یہ کہانی اردو زبان میں‌ بھی کیما گر کے نام سے پڑھی گئی۔ برازیل کے اس ناول نگار کے قلم سے نکلی یہ تمثیل بھی دانائی اور حکمت پر مبنی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک لڑکا اپنی دادی کو خط لکھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ایک موقع پر اس نے پوچھا: "کیا آپ اس کے بارے میں کوئی کہانی لکھ رہی ہیں، جو ہم نے کیا ہے؟ کیا یہ میرے متعلق کوئی کہانی ہے؟” دادی نے خط لکھنے سے ہاتھ روک لیا اور اپنے پوتے سے کہا، "میں در حقیقت تمہارے بارے میں لکھ رہی ہوں، لیکن ان الفاظ سے بھی زیادہ اہم وہ پنسل ہے، جو میں استعمال کر رہی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ جب تم بڑے ہو جاؤ گے، تو تم بھی اس پنسل جیسا بننا پسند کرو گے۔’

    حیرت اور دل چسپی سے لڑکے نے پنسل کی طرف دیکھا۔ ‘اس میں ایسی کوئی خاص بات تو نہیں، یہ تو بالکل ویسی ہی ہے جیسی ایک عام پنسل ہوتی ہے۔‘

    "یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ تم چیزوں کو کس طرح دیکھتے ہو۔ اس میں پانچ ایسی خوبیاں ہیں، جن کو اگر تم خود میں پیدا کر لو تو تم ایک ایسے شخص بن جاؤ گے، جو دنیا کے ساتھ ہمیشہ امن اور سکون سے رہتا ہے۔”

    "پہلی خوبی، تم بہت کچھ کرنے کے اہل ہو، لیکن تمہیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک ایسا ہاتھ بھی ہے، جو ہمیشہ تمہارے قدموں کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہم اس ہاتھ کو خدا کہتے ہیں، اور وہ ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق ہماری رہنمائی کرتا ہے۔”

    ” دوسری خوبی، جب اس کا لکھنے والا حصہ گِھس جاتا ہے، تو ہمیں لکھنا چھوڑ کر ایک شارپنر استعمال کرنا پڑتا ہے، اس سے پنسل کو تھوڑی سی تکلیف ضرور پہنچتی ہے، لیکن اس کے بعد، وہ زیادہ تیز ہو کر دوبارہ لکھنے کے قابل بن جاتی ہے۔ لہٰذا تمہیں بھی لازمی طور پر کچھ تکالیف اور دکھ برداشت کرنا سیکھنا چاہیے، کیونکہ وہ تمہیں ایک بہتر انسان بنائیں گے۔”

    "تیسری خوبی، پنسل ہمیشہ ہمیں کسی غلطی کو مٹانے کے لیے ایک ربڑ استعمال کرنے کی سہولت دیتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی کسی غلطی کو سدھارنے میں کوئی برائی نہیں ہے، یہ بات ہمیں ہمیشہ انصاف کی راہ پر گامزن رکھنے میں مدد کرتی ہے۔”

    "چوتھی خوبی، پنسل میں جو چیز واقعی اہمیت رکھتی ہے وہ اس کی باہر کی لکڑی نہیں بلکہ اندر کا گریفائٹ ہے۔ لہٰذا اہم یہ ہے کہ تمہارے اندر کیا ہے؟ ہمیشہ اس پر توجہ دو، جو کچھ تمہارے اندر ہو رہا ہے۔”

    "اور آخر میں، پنسل کی پانچویں خوبی، یہ ہمیشہ نشان چھوڑتی ہے۔ بالکل اسی طرح، تمہیں بھی یہ جان لینا چاہیے کہ تم زندگی میں جو کچھ کرتے ہو، وہ ایک نشان چھوڑ جائے گا، لہٰذا اپنے ہر عمل میں اس سے آگاہ رہنے کی کوشش کرو۔”

    (مترجم: امَر گُل)

  • حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کون بَھلا بدل سکتا ہے!

    حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کون بَھلا بدل سکتا ہے!

    بیان کیا جاتا ہے، ایک مسافر اتفاقاً خدا رسیدہ لوگوں تک پہنچ گیا اور ان کی اچھی صحبت سے اسے بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔ اس کی بُری عادتیں چھوٹ گئیں اور نیکی میں لذّت محسوس کرنے لگا۔

    یہ انقلاب یقیناً بے حد خوش گوار تھا۔ لیکن حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کو بھلا کون بدل سکتا ہے۔

    اس شخص کے مخالفوں نے اس کے بارے میں کہنا شروع کر دیا کہ اس کا نیکی کی طرف راغب ہو جانا محض دکھاوا ہے۔ یہ باتیں اس شخص تک پہنچیں تو اسے بہت صدمہ پہنچا۔ وہ واقعی اپنی بری عادات ترک کرچکا تھا اور ایک اچھا اور عبادت گزار شخص بن گیا تھا۔

    اس کا دل ان باتوں سے تھوڑا ہوا تو وہ ایک دن اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مرشد نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تیرے مخالف تجھے جیسا بتاتے ہیں، تو ویسا نہیں۔ صدمہ کی بات تو یہ ہوتی کہ تو اصلاً برا ہوتا اور لوگ تجھے نیک اور شریف بتاتے۔

    سبق: اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے نہایت لطیف پیرائے میں اپنا محاسبہ کرتے رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ دنیا کی رائے کو ہرگز قابلِ اعتبار نہیں سمجھنا چاہیے اور اپنے راستے پر چلتے رہنا چاہیے۔ یہاں تو اچھوں کو بُرا اور برُوں کو اچھا کہنے کا رواج ہے۔ دوسری عمدہ بات یہ بتائی ہے کہ برائی کرکے اچھا مشہور ہونے کی خواہش کے مقابلے میں یہ بات ہر لحاظ سے مستحسن ہے کہ انسان اچھا ہو اور لوگ اسے برا جان کر اس سے دور رہنا چاہیں‌۔ اس سے عافیت یہ ہے کہ وہ لوگوں‌ کے ہجوم اور بلاوجہ جھگڑوں اور وقت کے ضیاع سے بچا رہتا ہے اور نیکی اور عبادت پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔

  • خوش بخت کسان

    خوش بخت کسان

    ایک بادشاہ شکار کی غرض سے جنگل کو گیا۔ اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں‌ ہوا اور شکار کی تلاش میں‌ اسے جنگل میں رات ہو گئی۔ وہ سردی کا موسم تھا۔

    بادشاہ فکر مند تو بہت ہوا، لیکن رات ہو چکی تھی اور اس نے کڑھنے اور خود کو کوسنے کے بجائے جستجو شروع کردی کہ رات گزارنے کے لیے کوئی ٹھکانہ مل جائے۔ اتفاق سے ایک مقام پر اسے کسی کسان کا مکان نظر آگیا۔ بادشاہ نے سوچا کہ شب گزارنے کے لیے یہ مکاں ناموزوں نہیں۔ لیکن جب یہ بات اپنے وزیر کو کہی تو اس نے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ عالی جاہ، یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ بادشاہ ایک کسان کا مہمان بنے اور اس سے رات بسر کرنے کی اجازت لے۔ ہمارے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ کھلے میدان میں خیمہ زن ہوجائیں، آگ روشن کریں اور مشکل کی یہ گھڑی گزار دیں۔

    بادشاہ نے اس بات سے اتفاق کیا لیکن کسی طرح کسان کو بھی ان کی اس بات چیت سے آگاہی ہو گئی۔ اس نے اپنی حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا کچھ سامان لیا اور بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بہت ادب سے بولا، حضور والا کی شان اس بات سے ہرگز کم نہ ہوتی کہ ایک دہقان کے گھر کو اپنے قدموں سے عزت بخشتے لیکن یہ ناچیز اس عنایت سے ضرور سرفراز ہو جاتا۔

    بادشاہ نے اس کے خلوص اور ادب کی قدر کی۔ رات اس کے مکان میں بسر کی اور صبح کے وقت جب اپنے محل کی طرف روانہ ہوا تو دیہاتی کو خلعت اور انعام و اکرام سے نوازا۔ دیہاتی کی خوشی اور عقیدت قابلِ دید تھی۔ وہ بادشاہ کے گھوڑے کے ساتھ چل رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔

    شان کچھ بادشاہ کی نہ گھٹے
    وہ اگر مہماں ہو دہقاں کا
    ہاں مگر وہ ہو آفتاب نصیب
    سایہ اس پر پڑے جو سلطاں کا

    حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ ہم مرتبہ لوگوں کے مقابلے میں کم حیثیت لوگوں کے ساتھ معمولی سلوک بھی بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ کیونکہ وہ اسے اپنی خوش نصیبی خیال کر کے زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ بات ذی حیثیت لوگوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ غریبوں اور کمزوروں کو حقیر جان کر ان سے بے اعتنائی نہ برتیں بلکہ یہ بات تسلیم کریں کہ انسان ہونے کے ناتے وہ بھی کارآمد اور مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور باعزت ہوتے ہیں۔

  • شاہی اصطبل اور ماشکی کا گدھا

    شاہی اصطبل اور ماشکی کا گدھا

    یہ ایک غریب اور محنت کش کی کہانی ہے جو اپنے گدھے پر مشکیں لاد کر لوگوں کے گھروں تک پانی پہنچاتا اور ان سے اپنی محنت اور اس مشقّت کا معاوضہ وصول کرتا۔ سب اسے ماشکی کہتے تھے جو اس کام سے اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بمشکل ہی بھر پاتا، لیکن کوئی دوسرا ذریعہ معاش اس کی سمجھ نہیں‌ آتا تھا، اس لیے برسوں‌ سے یہی کام کیے جارہا تھا۔

    ایک طرف یہ ماشکی صبح سے دن ڈھلنے تک یہ کام کرتے ہوئے تھک جاتا تھا تو دوسری طرف اس کا گدھا بھی پانی سے بھری ہوئی مشکوں‌‌ کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے نڈھال ہوجاتا تھا۔ شہر کے ایک کنویں‌ کے علاوہ کچھ فاصلے پر جنگل کے قریب ایک میٹھے پانی کا چشمہ تھا، جہاں‌ دن میں‌ کئی چکر لگانے پڑتے تھے۔ اب اس گدھے کی حالت ابتر ہوگئی تھی۔ اکثر اسے کھانے کو پیٹ بھر کچھ نہ ملتا اور کام بہت زیادہ کرنا پڑتا تھا۔ اس کی پیٹھ پر زخم پڑ جاتے یا کبھی کوئی چوٹ لگ جاتی تو ماشکی دوا دارو، مرہم پٹّی پر توجہ نہ دیتا اور گدھا تکلیف برداشت کرنے پر مجبور تھا۔ وہ بے زبان ان حالات سے تنگ آکر ہر وقت اپنی موت کی آرزو کرنے لگا۔

    ایک دن اس گدھے کو شاہی اصطبل کے داروغہ نے دیکھا تو اس کی حالت پر بڑا رحم آیا۔ اس نے محنت کش سے کہا،’’تمھارا گدھا قریب المرگ ہے، اس کی حالت تو دیکھو، اسے کچھ دن آرام کرنے دو اور پیٹ بھر کر کھانے کو دو۔‘‘ ماشکی نے مؤدبانہ انداز اختیار کرتے ہوئے عرض کیا، ’’مائی باپ! گدھے کو کہاں سے کھانے کے لیے دوں؟ خود میری روٹیوں کے لالے پڑے ہیں، دن رات محنت کرنے کے باوجود بال بچوں کو دو وقت پیٹ بھر کر روٹی نہیں‌ کھلا پاتا۔‘‘

    یہ سن کر داروغہ کو اور ترس آ یا۔ کہنے لگا، ’’میاں ماشکی، تم چند روز کے لیے اپنے گدھے کو میرے حوالے کر دو، میں اسے شاہی اصطبل میں رکھوں گا۔ وہ تر و تازہ گھاس ، چنے اور جو کا دانہ کھا کھا کر دنوں میں پھول کر موٹا تازہ ہو جائے گا۔‘‘ ماشکی یہ سن کر خوش ہو گیا اور اپنا مریل گدھا اس کے سپرد کر دیا۔ داروغہ نے اسے لے جا کر شاہی اصطبل میں باندھ دیا۔ وہاں جاکر گدھے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

    ہر طرف ترکی اور عربی النّسل گھوڑے نہایت قیمتی ساز و سامان کے ساتھ اپنے اپنے تھان پر بندھے ہوئے تھے۔ ہر گھوڑے کا بدن خوب فربہ تھا اور ان کی کھال آئینے کی طرح چمک رہی تھی۔ چار چار آدمی ایک ایک گھوڑے کی خدمت میں لگے ہوئے تھے۔ کوئی کھریرا کر رہا تھا، کوئی مالش، کوئی دانہ کھلا رہا تھا، کوئی پیٹھ پر محبت سے تھپکیاں دینے میں مصروف تھا۔ پھر گدھے نے یہ بھی دیکھا کہ گھوڑوں کے تھان نہایت صاف ستھرے ہیں۔ لید کا نام و نشان نہیں۔ لوہے کی بڑی بڑی ناندوں میں ہری ہری گھاس، جَو اور چنا بھیگا ہوا ہے۔

    یہ دیکھ کر گدھے نے اپنی تھوتھنی اٹھائی اور خدا سے فریاد کی ’’یا الٰہی! یہ کیا تماشا ہے، بے شک میں گدھا ہوں، لیکن کس جرم کی پاداش میں میرا برا حال ہے اور کس لیے میری پیٹھ زخموں سے بھری ہوئی ہے؟ کیا میں تیری مخلوق نہیں ہوں؟ کیا تُو نے مجھے پیدا نہیں فرمایا اور کیا تُو میرا ربّ نہیں ہے؟ پھر کیا سبب ہے کہ یہ گھوڑے اتنی شان و شوکت سے رہیں، دنیا کی بہترین نعمتیں ان کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں اور میں دن بھر بوجھ ڈھو کر بھی اپنے مالک کی مار پیٹ اور گالیاں کھاؤں؟‘‘

    ابھی گدھے کی یہ فریاد ناتمام ہی تھی کہ اصطبل میں ہلچل مچی۔ گھوڑوں کے نگہبان اور خدمت گار دوڑے دوڑے آئے، ان پر زینیں کسیں اور ٹھیک کر کے باہر لے گئے۔ اتنے میں طبلِ جنگ بجنے لگا۔ معلوم ہوا کہ سرحد کے قریب گاؤں میں ایک بڑے گروہ سے جھڑپ چھڑ گئی ہے اور ان سے نمٹنے کے لیے فوجی گھوڑوں پر سوار ہو کر گئے ہیں۔

    شام کے وقت گھوڑے میدانِ جنگ سے اس حال میں واپس آئے کہ ان کے جسم زخموں سے چور اور لہو میں رنگین تھے۔ بعض گھوڑوں کے بدن تیروں سے چھلنی ہو رہے تھے اور تیر ابھی تک ان کے جسموں میں گڑے تھے۔ اپنے تھان پر واپس آتے ہی تمام گھوڑے لمبے لمبے لیٹ گئے اور ان کے پیر مضبوط رسوں سے باندھ کر نعل بند قطاروں میں کھڑے ہوگئے۔ پھر گھوڑوں کے بدن میں پیوست تیر کھینچ کھینچ کر نکالے جانے لگے۔ جونہی کوئی تیر باہر آتا، گھوڑے کے بدن سے خون کا فوارہ بلند ہوتا۔

    جب گدھے نے یہ تماشا دیکھا تو مارے ہیبت کے روح کھنچ کر حلق میں آگئی۔ بدن کا ایک ایک رونگٹا کانپنے لگا۔ خدا سے عرض کی کہ مجھے معاف کر دے، میں نے اپنی جہالت اور بے خبری سے تیرے حضور میں گستاخی کی۔ میں اپنے اس حال میں خوش اور مطمئن ہوں۔ میں ایسی شان و شوکت اور ایسے کروفر سے باز آیا جس میں بدن زخموں سے چور چور ہو اور خون پانی کی طرح بہے۔

    سچ ہے کہ میں ان سے بہت بہتر ہوں، مار کھاتا ہوں‌، تیر تو جسم میں‌ پیوست نہیں ہوتے، ڈنڈے پڑنے سے میری ہڈیاں‌ درد کرتی ہیں، لیکن بھاگتے ہوئے ایسے نہیں‌ گرتا کہ ہڈی چور چور ہو جائے، اکثر میری کھال کٹ پھٹ جاتی ہے، لیکن ایسا تو نہیں‌ ہوتا جو ان گھوڑوں کے ساتھ ہوا ہے، میرا مالک دن ڈھلنے پر مجھے ایک کونے میں‌ چھوڑ کر جیسے بھول جاتا ہے اور میں اپنی مرضی سے اپنی جگہ پر گھوم پھر لیتا ہوں، لیکن ان گھوڑوں کے خدمت گار تو دن رات ان کے ساتھ ہی چمٹے رہتے ہیں۔

    چند دنوں بعد داروغہ نے ماشکی کو بلا کر گدھا اس کے حوالے کر دیا۔ گدھا پہلے کی نسبت کافی بہتر لگ رہا تھا۔ اس کے مالک نے سوچا کہ اس کا سبب اچھی خوراک اور آرام و سکون ہے، مگر گدھا جانتا تھا کہ اصطبل میں‌ رہ کر‌ اسے جن نعمتوں کے ساتھ اپنی حیثیت اور مقام کا جو احساس ہوا ہے، وہ یہ سب دیکھنے سے پہلے کبھی نہیں‌ ہوا تھا۔ گدھا یہ سمجھ چکا تھا کہ جو جہاں‌ ہے، وہیں‌ عافیت اور چین سے ہے اور ہر چیز کی آرزو نہیں‌ کرنا چاہیے۔

  • "کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں”

    "کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں”

    ایک راستہ ہے، اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں، ایک آدمی بے احتیاطی سے اس راستے میں گھس جاتا ہے۔ اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں، کپڑا پھٹ جاتا ہے، اپنی منزل پر پہنچنے میں اسے تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔

    اب وہ آدمی کیا کرے گا، کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کرے گا؟

    کانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شایع کرے گا؟

    وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کرے گا کہ دنیا کے تمام درختوں سے کانٹوں کا وجود ختم کر دیا جائے تاکہ آئندہ کوئی مسافر اس مسئلے سے دو چار نہ ہو!

    کوئی سنجیدہ اور باہوش انسان کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اس کے برعکس وہ صرف یہ کرے گا کہ اپنی نادانی کا احساس کرے گا۔

    وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو الله تعالیٰ نے جب دو آنکھیں دی تھیں، تو تم نے کیوں نہ ایسا کیا کہ کانٹوں سے بچ کر چلتے، تم اپنا دامن سمیٹ کر کانٹوں والے راستے سے نکل جاتے۔ اس طرح تمہارا جسم بھی محفوظ رہتا اور تم کو منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی۔

    الله تعالیٰ نے درختوں کی دنیا میں یہ مثال رکھی تھی تاکہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے اس سے سبق لیا جائے، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی اس آیت کو کبھی کسی نے نہیں پڑھا، خدا کے اس پیغام کو سن کر کسی نے اس سے سبق نہیں لیا۔

    آج کی دنیا میں آپ کو بے شمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں اور جب کانٹے ان کے جسم کے ساتھ لگ کر انھیں تکلیف پہنچاتے ہیں تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر کانٹوں کو برا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔

    وہ اپنی ناکامی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو جاننا چاہیے کہ جس طرح درختوں کی دنیا سے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں، اسی طرح سماجی دنیا سے کانٹے دار انسان بھی ختم نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

    اس دنیا میں محفوظ اور کام یاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں!

    (معروف اسکالر مولانا وحید الدین کی فکر)

  • دل شکستہ اور بادشاہ سے مایوس لوہار کی کہانی

    دل شکستہ اور بادشاہ سے مایوس لوہار کی کہانی

    وہ قفل بنانے کا کام کرتا تھا۔ اسے اپنے کام کا ماہر مانا جاتا تھا۔

    وہ ایسا شخص تھا کہ بادشاہ بھی اس کام میں اُس کی مہارت کا قائل اور کاری گری کا معترف ہو گیا۔ قفال کو اس بات پر بڑا فخر تھا کہ عام لوگ ہی نہیں بلکہ بادشاہ بھی اس کا قدر دان ہے۔

    وہ اکثر بادشاہ کے دربار میں حاضری دیتا اور اپنے تیار کردہ تالے اور مختلف قفل اس کے سامنے رکھتا اور بادشاہ سے اپنی تعریف سن کر خوشی سے پھولا نہ سماتا۔

    وہ قفال بہت محنتی تھا اور دل لگا کر اپنا کام کرتا تھا۔ بادشاہ کو معلوم تھا کہ وہ ایک محنتی اور صابر شخص ہے اور وہ بھی اس کی تعریف معاملے میں بخل سے کام نہ لیتا۔

    ایک روز دربار میں بادشاہ سب سے ملاقات کر رہا تھا۔ وہاں یہ قفال جسے سب لوگ قفال شاشی کہتے تھے، خاموشی سے بیٹھا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے پاس چند نہایت نفیس اور بناوٹ کے اعتبار سے شان دار قفل موجود تھے جو دراصل اس کی محنت اور صناعی کا نمونہ تھے۔ وہ یہ تالے بادشاہ کو دکھانا چاہتا تھا۔

    کچھ دیر بعد قفال شاشی کی باری آگئی۔ ابھی بادشاہ نے اس کی کاری گری کے نمونے دیکھنا شروع ہی کیا تھا کہ غلام نے کسی خاص ملاقاتی کی آمد کی اطلاع دے دی۔ غلام کی بات سنتے ہی بادشاہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا وہ قفل ایک طرف رکھا اور اس شخصیت کی تعظیم میں کھڑا ہو گیا۔

    دربار میں آنے والی شخصیت کو بادشاہ نے اپنے برابر جگہ دی۔ یہ نہایت عزت اور احترام کی علامت تھا اور ظاہر ہوتا تھا کہ بادشاہ اس شخصیت سے مرعوب ہے اور اس کی تعظیم لازمی سمجھتا ہے۔

    ادھر قفال شاشی یہ سوچنے پر مجبور تھاکہ بادشاہ نے اس کی ہزار ہا تعریف کی مگر کسی کی یہ تکریم اور ایسی تعظیم تو اس نے کبھی نہیں دیکھی۔ قفال شاشی کے دل کو دھچکا لگا۔

    آخر وہ کون ہیں اور ان کے پاس ایسا کیا ہنر ہے جو بادشاہ نے انھیں اس قدر عزت دی ہے؟ قفال جو بادشاہ سے اپنی تعریفیں سن کر بہت فخر محسوس کرتا تھا، آج کچھ دل گرفتہ اور مایوس سا تھا۔

    معلوم ہوا کہ وہ شہر کے مشہور عالم ہیں۔

    اس روز ناشاد و مایوس قفال شاشی نے گھر لوٹ کر اپنے اوزار ایک طرف رکھے اور زندگی کا اہم ترین فیصلہ کیا جس کے بعد ان کا نام اور مقام ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔

    قفال شاشی نے لوہے کو پگھلانے، کوٹنے اور اوزاروں سے چھیل چھال کر اسے قفل کی شکل دینے کا کام چھوڑ دیا اور حصولِ علم میں جٹ گئے۔

    امام ابو بکر ابن علی ابن اسمٰعیل القفال الشاشی ایک متبحر عالم، اسلامی دنیا کی قابل شخصیت اور صرف و نحو کے ماہر مشہور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ جنوبی عراق کے سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص تھے۔

    قفال شاشی نے ایک بادشاہ کا دنیاوی دربار مایوسی کے عالم میں چھوڑا تھا، لیکن جب اللہ ربُ العزت کی بارگاہ میں سَر جھکایا اور اس کے دین کو سیکھا سمجھا اور دوسروں تک پہنچایا تو ہر طرف ان کی عزت اور عظمت، مرتبہ و مقام بلند ہوا۔