Tag: حکایت رومی

  • مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    مرا ہوا کبوتر اور ایک درہم

    ایک متقی و صالح شخص کسبِ معاش کے بعد اپنے مال کا ایک تہائی راہِ خدا میں خرچ کردیتے اور ایک تہائی اپنی ضروریات پر۔ اس کے علاوہ وہ اسی مال کا ایک تہائی اپنے ذریعۂ معاش پر لگا دیتے تھے۔ یہ برسوں سے ان کا معمول تھا۔

    ایک دن ان کے پاس ایک دنیا دار شخص آیا اور کہنے لگا کہ شیخ! میں چاہتا ہوں کہ کچھ مال اللہ کی راہ میں خرچ کروں، لہٰذا آپ مجھے کسی مستحق کا پتہ دیجیے۔ انہوں نے اس سے کہا پہلے تو حلال کمانے کی جستجو کرو اور اسے یقینی بناؤ اور پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو، حلال کمائی کو خود مستحق مل جائے گا۔ دنیا دار شخص نے اس بات کو بزرگ کی مبالغہ آرائی پر محمول کیا تو شیخ نے کہا، اچھا تم جاؤ تمہیں جو شخص بھی ایسا ملے جس کے لیے تمہارے دل میں جذبۂ ترحم پیدا ہو اسے صدقہ کا مال دے دینا۔

    چنانچہ وہ شخص جب شیخ کے پاس سے اٹھ کر آیا تو اس نے ایک بوڑھے اندھے کو دیکھا جس کے لیے اس کے دل میں وہ جذبہ پیدا ہوا اور اس نے محسوس کیا کہ یہی وہ مستحق ہے جسے صدقہ خیرات دینا چاہیے۔ اس نے اپنے کمائے ہوئے مال میں سے اسے کچھ حصہ خیرات کر دیا۔ دوسرے دن وہ اسی ضعیف اور نابینا شخص کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اس وقت وہ بوڑھا اپنے ساتھ کھڑے ہوئے ایک آدمی سے بات کررہا تھا اور اسے بتا رہا تھا کہ کل ایک مال دار شخص نے ترس کھا کر مجھے کچھ مال دیا تھا، جسے میں نے فلاں فلاں بدکار شخص کے ساتھ عیاشی اور شراب نوشی میں اڑا دیا۔

    وہ دنیا دار یہ سنتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور سیدھا شیخ کے پاس پہنچا۔ اس نے یہ ماجرا ان کے حضور بیان کیا۔ شیخ نے یہ واقعہ سن کر اپنی کمائی میں سے ایک درہم اسے دیا اور کہا کہ اسے رکھو، اور یہاں سے نکلتے ہی سب سے پہلے تمہاری نظر جس آدمی پر پڑے یہ درہم اسے بطور خیرات دے دینا۔ اس نے یہی کیا اور شیخ کا درہم لے کر گھر سے باہر نکلا اور سب سے پہلے اس کی نظر جس شخص پر پڑی وہ اسے بظاہر پیٹ بھرا اور معقول معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے پہلے تو یہ درہم اُس شخص کو دینے میں‌ ہچکچاہٹ محسوس کی، مگر شیخ کا حکم تھا، اس لیے ہمّت باندھی اور درہم اس آدمی کی طرف بڑھا دیا۔ ادھر اُس نے بھی درہم لیا اور آگے چل پڑا۔ تب وہ دنیا دار جس نے شیخ کے حکم پر یہ عمل کیا تھا، تجسس کے مارے اس کے پیچھے ہو لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ بظاہر خوش حال نظر آنے والا یہ آدمی اس درہم کو کہاں‌ خرچ کرتا ہے۔

    دنیا دار سے خیرات میں‌ درہم حاصل کرنے والا آگے بڑھتا رہا اور ایک کھنڈر کے قریب پہنچ کر اس میں داخل ہوا ور پھر وہاں سے دوسری طرف نکل کر شہر کی راہ پکڑی۔ جب یہ مال دار آدمی اس کے پیچھے کھنڈر میں داخل ہوا تو وہاں اسے کوئی چیز نظر نہ آئی، البتہ ایک مرا ہوا کبوتر اس نے ضرور دیکھا۔

    مال دار آدمی نے کھنڈر سے باہر نکلنے کے بعد کچھ آگے جاکر خیرات لینے والے کو روک لیا اور قسم دے کر پوچھا کہ بتاؤ تم کون ہو؟ اور کس حال میں رہتے ہو؟ اس نے کہا کہ میں ایک غریب انسان ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں، وہ بہت بھوکے تھے، جب مجھ سے ان کی بھوک کی شدت نہ دیکھی گئی تو انتہائی اضطراب اور پریشانی کے عالم میں گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ میں ابھی پریشانی کے عالم میں‌ پِھر رہا تھا کہ مجھے کھنڈر میں یہ مرا ہوا کبوتر نظر آیا، مرتا کیا نہ کرتا؟ میں نے یہ کبوتر اٹھا لیا اور اسے لے کر اپنے گھر کی طرف چلا تاکہ اس کے گوشت سے بچّوں کی کچھ بھوک مٹا سکوں، مگر پھر ایک جگہ اللہ نے تمہارے ذریعے یہ درہم مجھے عنایت کیا تو وہ کبوتر جہاں سے اٹھایا تھا، وہیں پھینک دیا اور اب کھانے پینے کی چیز لے کر اپنے گھر جاؤں‌ گا۔

    اب اس مال دار پر یہ بھید کُھلا کہ شیخ کا وہ قول محض جذباتی بات اور مبالغہ آرائی نہیں تھا بلکہ حقیقت یہی ہے کہ حلال مال اللہ کی مرضی سے ضرور حقیقی ضرورت مند اور مستحق تک پہنچتا ہے جب کہ حرام اور ناجائز طریقے سے ہاتھ آیا مال بُری جگہ خرچ ہوتا ہے۔

    (باب صدقہ کی فضیلت، روایت از شیخ علی متقی عارف باللہ)

  • دو درویش اور دنیا داری

    دو درویش اور دنیا داری

    یہ ایک درویش کا قصہ ہے، ایک بہت پرہیز گار اور نیک انسان کا جنھوں نے خود کو ایک آزمائش میں‌ ڈال لیا تھا، مگر جلد ہی ان پر اپنے کیے کی حقیقت کھل گئی اور انھوں نے خدا کے کاموں میں مصلحت کو سمجھا اور اپنے دنیا میں آنے کا مقصد جان لیا۔

    کہتے ہیں اس بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ محنت کیے بغیر حلال رزق عطا ہو اور ان کا زیادہ وقت عبادت میں گزرے۔ بزرگ نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے روز کی مشقت سے بچا اور حلال رزق عطا فرما، میں زیادہ عبادت نہیں کر پاتا۔ کیوں کہ دن کا خاصا وقت معاش کی بھاگ دوڑ میں‌ گزر جاتا ہے۔

    اس رات جب بزرگ سوئے تو خواب میں کسی پہاڑ کے نزدیک جنگل دیکھا جس میں ایک جگہ بہت سے پھل دار درخت تھے، ان کی دعا قبول ہو گئی تھی اور یہ خواب ایک اشارہ تھا۔

    بزرگ نے جنگل جاکر بہت سے پھل توڑ لیے اور گھر لے آئے۔ وہ نہایت میٹھے اور فرحت بخش تھے اور ان کا شکم بھرنے کو بہت تھے۔

    درویش نے محسوس کیا کہ ان پھلوں کو کھانے سے ان کی گفتگو اور لب و لہجے میں بڑی تاثیر اور شیرینی پیدا ہو گئی ہے اور ان کا کلام سن کر لوگ بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں‌ اور ان سے بڑی محبت کرنے لگے ہیں۔ اب انھیں چاہنے والے ہر وقت گھیرے رہتے اور یوں ان کو عبادت کا وقت نہ ملتا۔

    بزرگ کے دل میں ایک اور خیال آیا اور انھوں دعا کی کہ اے پروردگار! مجھے وہ انعام عطا فرما جو سب سے پوشیدہ ہو۔ اس دعا کے بعد ان کی قوتِ گویائی جاتی رہی۔

    بزرگ کے دل کو اطمینان ہوا کیوں کہ پہلے ان کی گفتگو سننے کے لیے ہر وقت لوگ ان کے پاس حاضر رہتے تھے، لیکن اس طرح رفتہ رفتہ سب دور ہوگئے اور یوں ان کو عبادت کا زیادہ سے زیادہ موقع ملنے لگا اور قربِ خداوندی میں لطف آنے لگا۔

    اب بزرگ روزی کمانے اور محنت و مشقت کی فکر سے آزاد تھے اور لوگوں سے بھی چھٹکارا مل گیا تھا۔

    بزرگ کے پاس کمائی کے دنوں کا ایک درہم بچا ہوا تھا جسے انھوں نے اپنی آستین میں سی رکھا تھا۔ ایک مرتبہ ان کا گزر جنگل کے قریب سے ہوا جہاں ایک لکڑہارے کو دیکھا جو بہت تھکا ہوا اور پسینے میں شرابور تھا، بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ یہ درہم اسے دے دوں؟ مجھے تو اللہ پاک رزق دے رہا ہے، لیکن اس درہم سے یہ لکڑہارا دو چار روز کی مشقت اور روزی کے غم سے بچ جائے گا۔

    جنگل میں ملنے والا وہ لکڑہارا دراصل ایک روشن ضمیر اور متقی تھا۔ اللہ تعالیٰ کا اس پر خاص کرم تھا، بزرگ نے خود یہ واقعہ بتایا کہ اس نے کشف سے میرے دل کی ہر بات جان لی اور غصے سے بھر گیا۔

    اس نے اپنی لکڑیوں کا گٹھا زمین پر رکھا اور دعا کی یہ سب سونے کی بن جائیں، اور ایسا ہی ہوا۔ یہ دیکھ کر مجھے ہوش نہ رہا جب حواس بحال ہوئے تو وہ ولی اللہ دعا مانگ رہا تھا کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری کرامت میری شہرت کا باعث نہ بن جائے، اس لیے ان لکڑیوں کو اپنی اصل حالت پر کر دے۔ اور اس بار بھی اس کی دعا قبول ہوئی، اس مرد نے مجھے دیکھا اور لکڑیاں لاد کر اپنی راہ چل دیا۔

    بزرگ نے کہا کہ میں نے اس واقعے کا بھید پا لیا، قدرت نے مجھے سمجھایا تھا کہ اس کا ایک باقاعدہ نظام ہے جس سے ہٹنا مسائل پیدا کرتا ہے۔ تب سے میں دوبارہ محنت کے ساتھ حلال روزی کی جستجو کرنے لگا اور جو وقت ملتا اس میں خشوع خضوع سے عبادت کرتا۔

    اس حکایت کو حضرت رومی سے منسوب کیا جاتا ہے جو ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ عبادات اور دنیاوی زندگی دونوں‌ میں توازن پیدا کرنا چاہیے اور دین میں فکرِ معاش اور حلال روزی کی کوشش ترک کرنے کو پسند نہیں‌ کیا گیا ہے۔