Tag: حکایت سعدی

  • حاتم طائی کا امتحان (حکایتِ سعدی)

    حاتم طائی کا امتحان (حکایتِ سعدی)

    دنیا میں عقل و دانائی، حکمت و نصیحت پر مبنی واقعات پر مشتمل کتب میں شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ یہ حکایت انہی سے منسوب ہے اور اپنے وقت کے ایک مشہور دولت مند حاتم طائی کی سخاوت اور فیاضی کا وہ قصّہ ہے جس میں مہمان نوازی اور ایثار و قربانی کا درس ملتا ہے۔

    سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے لنک کھولیں

    حکایت کچھ اس طرح ہے کہ حاتم طائی کے پاس ایک اعلیٰ نسل کا گھوڑا تھا۔ وہ اس قدر خوبصورت قد آور، تیز رفتار اور اصیل تھا کہ جو اس کو دیکھتا تھا دنگ رہ جاتا تھا۔ فی الحقیقت اس برق رفتار جانور کی نظیر نہیں ملتی تھی۔ اس گھوڑے کا شہرہ دور دور تک تھا۔

    ایک دفعہ شاہِ روم کے دربار میں بھی حاتم کی بے مثل سخاوت اور اس کے بے نظیر گھوڑے کا ذکر نکل آیا۔ بادشاہ کا وزیر حاتم طائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس کی شخصیت سے بہت مرعوب نظر آرہا تھا۔ بادشاہ کا موڈ اچھا تھا اور دربار کا ماحول خوشگوار تھا۔ بادشاہ اپنے وزیر کی زبانی حاتم طائی کی تعریفیں سنتا رہا مگر جب گھوڑے کا ذکر ہوا تو اچانک اپنے وزیر سے کہا کہ بغیر دلیل و ثبوت کے ڈینگیں مارنا رسوائی کا باعث بن سکتا ہے۔ میں حاتم سے یہ گھوڑا مانگوں گا۔ اگر اس نے دے دیا تو جانوں گا کہ واقعی وہ بڑا سخی اور ایثار کرنے والا آدمی ہے۔ اگر اس نے دینے سے انکار کیا تو سمجھوں گا کہ اس کی شہرت محض خالی ڈھول کی آواز ہے۔ چنانچہ اس نے ایک عقل مند قاصد آدمیوں کے ہمراہ روانہ کیا کہ وہ حاتم سے اس کا وہ بہترین اور پیارا گھوڑا مانگ لائیں۔ قاصد اور اگر کے ساتھی منزلوں پر منزلیں مارتے حاتم کے قبیلہ میں پہنچے اور رات کو حاتم کے ہاں قیام کیا۔

    اس وقت تیز بارش ہو رہی تھی اور طوفانی ہواؤں کی وجہ سے ہر ذی نفس اپنے گھروں میں محصور تھا۔ گھر سے باہر قدم رکھنا ناممکن تھا۔ حاتم کے مویشیوں کا گلہ گھر سے کافی فاصلے پر چراگاہ میں تھا اور اتنے مہمانوں کے طعام کے لیے اس وقت گھر میں کوئی چیز نہ تھی۔ البتہ وہ مشہورِ زمانہ گھوڑا جس کا ذکر شاہِ روم کے دربار میں اس کے وزیر نے کیا تھا، اس کی قیام گاہ کے مخصوص احاطے میں موجود تھا۔ حاتم کو یہ گھوڑا بہت عزیز تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اسے اپنے کسی دوسرے اصطبل یا چراگاہ میں نہیں چھوڑتا تھا۔ یہ بات حاتم کی سخاوت اور مہمان نوازی سے بعید تھی کہ اس کے گھر آئے ہوئے لوگ بھوکے رہیں یا وہ ان کی خدمت میں کوئی کسر چھوڑے۔ حاتم طائی نے وہی گھوڑا ذبح کردیا اور مہمانوں کے سامنے خوان سجا کر پیش کر دیا۔ سب نے پیٹ بھر کر لذیذ کھانا کھایا اور رات گزاری۔

    صبح ہوئی تو شاہِ روم کے قاصد نے حاتم سے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔ بادشاہ کی خواہش معلوم ہوئی تو حاتم پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ حسرت سے اپنے ہاتھ ملنے لگا اور بہت نادم نظر آیا۔

    حاتم نے قاصد سے کہا، اے نیک بخت! تُو پہلے حرفِ مدعا زبان پر کیوں نہ لایا ؟ وہ گھوڑا تو میں نے گزشتہ شب تمہاری ضیافت کے لیے ذبح کر دیا، رات کو اسی کے کباب تم نے کھائے ہیں۔ افسوس کہ اس کے سوا کل رات میرے گھر کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ اور مجھے یہ گوارا نہ تھا کہ مہمان بھوکے رہیں۔

    یہ سن کر قاصد جذباتی ہوگیا اور بے اختیار حاتم کے ہاتھ چوم لیے۔ حاتم طائی نے ان کو کہا کہ وہ بادشاہ تک اس کی معذرت پہنچائیں اور پھر ان کو بہت سے گھوڑے دے کر رخصت کیا۔

    شاہِ روم کے قاصد کئی منزلیں طے کر کے دربار میں پہنچے اور وہاں یہ سارا قصّہ سنایا تو ہر ایک کی زبان پر حاتم کے لیے تحسین و آفرین کے کلمات تھے۔ شاہِ روم نے وزیر کے سامنے تسلیم کیا سعادت اور سخاوت حاتم طائی پر ختم ہے۔

  • احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    احسان کی رسّی (شیخ سعدی کی حکایت)

    یہ رمز و نکتہ آفریں حکایت شیخ سعدی سے منسوب ہے اور اسے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ سعدی کہیں جارہے تھے اور انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، جس کی ایک بکری اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی آ رہی تھی۔

    شیخ سعدی اسے دیکھنے لگے۔ وہ جوان جس سمت منہ کرتا اور آگے بڑھتا بکری بھی اسی جانب چل پڑتی۔ حضرت سعدی نے اس سے سوال کیا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے اس کی وجہ کیا یہ رسّی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے؟

    شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ میری بات کا جواب دیے بغیر اس جوان نے اپنی بکری کے پٹے کو کھول دیا۔ اب دیکھتا ہوں کہ بکری ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی ہے۔ وہ جوان آگے بڑھ رہا ہے اور پٹے سے آزاد ہونے کے بعد بھی بکری اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے چلتی رہی، کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ بکری نے اس جوان کے ہاتھ سے چارہ کھایا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد وہ جوان سیر کرکے واپس ہوا اور مجھے وہیں راستے میں پایا تو بولا، اے صاحب، اس بکری کو یہ رسّی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔

    جوان مزید بولا، حضرت! ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہٰذا ہمیں برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کرنا چاہیے، کیونکہ جو تیری روٹی کھائے گا وہ کہیں تجھ سے وفا ضرور کرے گا۔

  • آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    آرام کی قدر مصیبت کے بعد ہوتی ہے (حکایتِ سعدی)

    ایک بادشاہ دریا کی سیر کو نکلا تو اس غلام کو بھی ساتھ لے لیا جو چند دن پہلے ہی اس کے پاس آیا تھا۔ اس غلام نے کبھی دریا نہیں دیکھا تھا اور نہ اس کو کشتی پر سوار ہونے کا تجربہ تھا۔ کشتی دریا میں آگے بڑھی تو اس نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور خوف سے اس کا بدن کانپنے لگا۔

    بادشاہ کا ایک وزیر اور دوسرے نوکر جو اس کے ساتھ تھے، وہ اسے نرمی کے ساتھ سمجھانے لگے اور ہر طرح اطمینان دلایا کہ کچھ نہیں‌ ہوتا اور وہ نہیں ڈوبا۔ لیکن وہ خاموش نہیں ہوا۔ اس کے رونے کی وجہ سے بادشاہ کی طبیعت خراب ہوگئی اور سیر و تفریح کا لطف ختم ہو گیا۔ کسی کے سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کس طرح خاموش کرائیں۔ اس کشتی میں ایک دانا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے بادشاہ سے کہا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں ایک ترکیب سے اسے چپ کرا دوں۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی۔

    اس عقلمند آدمی نے دوسرے ملازموں کو حکم دیا کہ غلام کو دریا میں ڈال دو۔ انھو‌‌‌‌ں نے ایسا ہی کیا۔ اس نے جیسے ہی پانی میں چند غوطے کھائے، اس دانا کے اشارے پر اس کے بال پکڑ کر کشتی میں کھینچ لیا گیا۔ پھر اس کے دونوں ہاتھ رسی سے جکڑ کر کشتی کے پتوار سے باندھ دیا۔ کچھ وقت گزر گیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاموش بیٹھا ہوا ہے۔ بادشاہ کو تعجب ہوا۔ عقلمند آدمی سے پوچھا، بھلا اس میں کیا حکمت تھی کہ غوطہ کھانے اور تکلیف اُٹھانے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ اس نے کہا کہ بادشاہ سلامت اب سے پہلے اس نے کبھی ڈوبنے کا مزہ نہیں چکھا تھا اور نہ اس کو کشتی میں آرام اور اطمینان سے بیٹھنے کی قدر معلوم تھی۔ جان کی حفاظت اور اطمینان کی قدر وہی جانتا ہے جو کبھی کسی مصیبت میں پھنس چکا ہو۔ جس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے اس کو جو کی روٹی اچھی نہیں معلوم دیتی۔ جو چیز ایک شخص کو بری نظر آتی ہے وہی، دوسرے کو بھلی لگتی ہے۔

  • دنیا دار کا پیٹ (حکایتِ‌ سعدی)

    دنیا دار کا پیٹ (حکایتِ‌ سعدی)

    جزیرۂ کیش میں مجھے ایک تاجر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس کے چالیس کارندے تھے اور ڈیڑھ سو اونٹوں پر مالِ تجارت لدا ہوا تھا۔ وہ ایک رات مجھے اپنے گھر لے گیا مگر خیالی پلاؤ پکانے میں نہ تو رات بھر مجھے سونے دیا اور نہ خود سویا۔

    وہ تاجر اُس رات اتنا بولا کہ ہانپ ہی گیا اور ایسا لگتا تھا کہ اب مزید بولنے کی اس میں سکت باقی نہیں‌ رہی۔ کبھی کہتا کہ میرا فلاں مال ترکستان میں پڑا ہے اور فلاں شے ہندوستان میں رکھی ہے۔ کبھی کہتا کہ اسکندریہ چلیں، وہاں کی آب و ہوا بڑی خوش گوار ہے، پھر خود ہی کہہ دیتا جائیں کیسے؟ راستے میں دریائے مغرب بڑا خطرناک ہے۔ کبھی یوں کہتا کہ جس سفر کا میں نے ارادہ کر رکھا ہے اگر وہ پورا ہو جائے تو پھر عمر بھر ایک جگہ گوشۂ قناعت میں بیٹھ کر اللہ اللہ کروں گا۔

    میں نے دریافت کیا، بتائیے تو وہ کون سا سفر ہے؟ کہنے لگا، فارس سے چین میں گندھک لے جاؤں گا، سنا ہے وہاں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے اور چین سے پیالیاں خرید کر روم بھیجوں گا اور وہاں سے ان کے عوض رومی کپڑا ہندوستان لے جاؤں گا۔ پھر ہندوستان سے ہندوستانی فولاد لے کر حلب میں پہنچاؤں گا اور اس کے بدلے میں آئینے خرید کریمن میں لے جاؤں گا اور پھر یمنی چادریں اپنے وطن فارس میں لا کر مزے سے ایک دکان کھول کر بیٹھ جاؤں گا اور سفر کو خیر باد کہہ دوں گا۔

    ذرا اس جنون کو تو ملاحظہ فرمائیے! بس اسی طرح بکتے بکتے اس نے رات گزار دی۔ اس نے اتنی بکواس کی کہ پھر گویا بات کرنے کو اس کے پاس کچھ رہا نہیں۔ آخر اس نے میری طرف توجہ کی اور کہا:

    شیخ صاحب! آپ نے بھی دنیا دیکھی ہے، اپنے دیکھے سُنے سے ہمیں بھی تو کچھ بتلائیے۔

    اس کے جواب میں ایک شعر میں نے اسے سنایا:

    گفت چشم تنگِ دنیا دار را
    یا قناعت پرو کند یا خاکِ گور

    اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ دنیا دار کا پیٹ کبھی بھرتا نہیں، اسے یا تو صبر ہی بھرے یا پھر خاکِ گور۔

    (حضرت شیخ سعدی شیرازی سے منسوب ایک حکایت)

  • بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا۔ وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔ بادشاہ اس درویش کے قریب سے گزرا لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ بھک منگے بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یاد رکھ! بادشاہی بھی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کرسکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے ان سے نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس کے پاس پہنچا اور عرض کی کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔

    فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔ بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت کرو۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا۔ جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    نیکیاں کر لے اگر تُو صاحبِ ثروت ہے آج
    کل نہ جانے کس کے ہاتھ آئے ترا یہ تخت و تاج

    سبق: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے دل کو حرص اور لالچ سے پاک کر لینے کے بعد ہی انسان کو سچی راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو خدا ایسی جرأت بخش دیتا ہے کہ وہ لاؤ لشکر رکھنے والے بادشاہوں سے بھی خوف نہیں کھاتا۔ نیز یہ کہ مال دار شخص کے لیے سب سے زیادہ نفع کا سودا نیکیاں کرنا ہے۔ اخروی زندگی میں اس کے کام اس کا یہی سرمایہ آئے گا جس مال پر دنیا میں غرور کرتا تھا، اس میں سے کفن کے سوا کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے جاسکے گا۔

    ( منسوب از شیخ سعدی، مترجم: نامعلوم)

  • خوش بخت کسان

    خوش بخت کسان

    ایک بادشاہ شکار کی غرض سے جنگل کو گیا۔ اسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں‌ ہوا اور شکار کی تلاش میں‌ اسے جنگل میں رات ہو گئی۔ وہ سردی کا موسم تھا۔

    بادشاہ فکر مند تو بہت ہوا، لیکن رات ہو چکی تھی اور اس نے کڑھنے اور خود کو کوسنے کے بجائے جستجو شروع کردی کہ رات گزارنے کے لیے کوئی ٹھکانہ مل جائے۔ اتفاق سے ایک مقام پر اسے کسی کسان کا مکان نظر آگیا۔ بادشاہ نے سوچا کہ شب گزارنے کے لیے یہ مکاں ناموزوں نہیں۔ لیکن جب یہ بات اپنے وزیر کو کہی تو اس نے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ عالی جاہ، یہ بات کسی طرح بھی مناسب نہیں کہ بادشاہ ایک کسان کا مہمان بنے اور اس سے رات بسر کرنے کی اجازت لے۔ ہمارے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ کھلے میدان میں خیمہ زن ہوجائیں، آگ روشن کریں اور مشکل کی یہ گھڑی گزار دیں۔

    بادشاہ نے اس بات سے اتفاق کیا لیکن کسی طرح کسان کو بھی ان کی اس بات چیت سے آگاہی ہو گئی۔ اس نے اپنی حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا کچھ سامان لیا اور بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بہت ادب سے بولا، حضور والا کی شان اس بات سے ہرگز کم نہ ہوتی کہ ایک دہقان کے گھر کو اپنے قدموں سے عزت بخشتے لیکن یہ ناچیز اس عنایت سے ضرور سرفراز ہو جاتا۔

    بادشاہ نے اس کے خلوص اور ادب کی قدر کی۔ رات اس کے مکان میں بسر کی اور صبح کے وقت جب اپنے محل کی طرف روانہ ہوا تو دیہاتی کو خلعت اور انعام و اکرام سے نوازا۔ دیہاتی کی خوشی اور عقیدت قابلِ دید تھی۔ وہ بادشاہ کے گھوڑے کے ساتھ چل رہا تھا اور کہہ رہا تھا۔

    شان کچھ بادشاہ کی نہ گھٹے
    وہ اگر مہماں ہو دہقاں کا
    ہاں مگر وہ ہو آفتاب نصیب
    سایہ اس پر پڑے جو سلطاں کا

    حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ ہم مرتبہ لوگوں کے مقابلے میں کم حیثیت لوگوں کے ساتھ معمولی سلوک بھی بہت فائدہ پہنچاتا ہے۔ کیونکہ وہ اسے اپنی خوش نصیبی خیال کر کے زیادہ شکر گزار ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ یہ بات ذی حیثیت لوگوں کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ غریبوں اور کمزوروں کو حقیر جان کر ان سے بے اعتنائی نہ برتیں بلکہ یہ بات تسلیم کریں کہ انسان ہونے کے ناتے وہ بھی کارآمد اور مفید ثابت ہوسکتے ہیں اور باعزت ہوتے ہیں۔

  • قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    قاضی کی عدالت اور مفلوک الحال شخص

    حضرت شیخ سعدی نے ایک واقعہ بیان کیا کہ کسی قاضی کی عدالت میں ایک علمی نکتہ پر گفتگو ہورہی تھی۔ اسی دوران ایک مفلوک الحال شخص عدالت میں داخل ہوا اور ایک مناسب جگہ دیکھ کر وہاں بیٹھ گیا۔

    حاضرینِ مجلس نے اس کی ظاہری وضع قطع اور پھٹے حال کو دیکھ کر خیال کیا کہ وہ کوئی معمولی انسان ہے۔ انھوں نے اسے اٹھا کر جوتوں کے پاس جگہ دے دی۔ وہ درویش اس رویّے سے دلبرداشتہ ہوا، مگر خاموش رہا اور جس علمی مسئلے پر گفتگو ہورہی تھی، وہ جاری رہی۔ درویش نے دیکھا کہ جب اہلِ مجلس اس مسئلے کا مناسب اور منطقی حل بتانے میں ناکام ہوگئے تو ان میں اشتعال پیدا ہو گیا اور وہ ایک دوسرے کو لاجواب کرنے لگے۔ وہ درویش اس دوران خاموش بیٹھا یہ سب دیکھتا اور ان کے دلائل اور گفتگو سنتا رہا اور پھر بلند آواز سے بولا کہ اگر اجازت ہو تو میں اس موضوع پر کچھ عرض کروں۔ قاضی نے اس درویش کو اجازت دے دی۔ اس نے دلائل کے ساتھ اس مشکل علمی مسئلے کا حل بتایا تو اہلِ مجلس حیران رہ گئے۔ وہ اس کی دلیل اور منطق سے قائل ہو چکے تھے۔

    اچانک حاضرین کو درویش کی علمی قابلیت کا اندازہ ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ یہ مفلوک الحال شخص بہت بڑا عالم ہے اور ہم نے اس کو سمجھنے میں‌ غلطی کی ہے۔ اس موقع پر قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنی دستار اتار کر اس درویش کو دی اور کہنے لگا کہ صد افسوس! ہم آپ کے علمی مقام اور مرتبے سے آگاہ نہ ہوسکے۔ آپ اس دستار کے زیادہ حق دار ہیں۔ درویش نے قاضی کی دستار لینے سے انکار کر دیا اور یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا کہ میں غرور و تکبر کی اس نشانی کو ہرگز اپنے سر پر نہ رکھوں گا۔ یاد رکھو کہ انسان کا رتبہ اس کے علم سے معلوم ہوتا ہے اور صرف دستار سَر پر رکھنے سے کوئی عالم اور منصف نہیں بن جاتا۔

    حضرت شیخ سعدی ؒ نے اس حکایت میں علم کی فضیلت بیان کی ہے اور یہ واقعہ انہی کا ہے۔ اس مفلوک الحال کے روپ میں‌ دراصل آپ ہی اس عدالت میں‌ موجود تھے۔ ان کی یہ حکایت انہی کی مشہور تصنیف ”بوستان اور گلستان“ دونوں میں شامل ہے۔

  • حکایت: درویش کی بے خوفی

    حکایت: درویش کی بے خوفی

    ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں اور خدمت گاروں‌ کے ساتھ جنگل میں‌ شکار کی غرض‌ سے گیا، جہاں اس کی نظر ایک فقیر پر پڑی۔

    وہ فقیر گرد و پیش سے بے نیاز اور ہر قسم کے خوف سے آزاد نظر آیا۔ گھنے جنگل میں‌ موذی جانور، حشرات اور درندوں‌ سے تو ہوشیار رہنا ہی پڑتا ہے، مگر بادشاہ نے اس کے چہرے پر خاص اطمینان دیکھا اور اسے اس شخص کی ڈھٹائی اور بے وقوفی تصور کیا۔

    بادشاہ اور اس کے مصاحب جب اس کے قریب سے گزرے تو اس نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    اس نے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے وزیر سے کہا کہ ایسے فقیر بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔

    یاد رہے! بادشاہی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کر سکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے فوری نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس سے کہا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو، تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔ فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔

    اس پر بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت ہی کر دیجیے کہ دنیا اور آخرت دونوں‌ سنور جائیں۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ ابھی جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا اور جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    شیخ سعدیؒ سے منسوب یہ حکایت ہمیں‌ بتاتی ہے کہ حرص اور لالچ ترک کرکے ہی انسان کو قلبی سکون اور دائمی راحت حاصل ہوتی ہے۔

    مال دار اور خوش حال بھی جان لے کہ غریب کی طرح‌ وہ بھی دنیا سے جاتے ہوئے کفن کے سوا کچھ نہ لے جاسکے گا۔

  • عربی حکایت: عبادت  گزار  چور

    عربی حکایت: عبادت گزار چور

    جزیرۂ عرب کے بارے میں ایک عام خیال تو یہ ہے کہ وہاں کا معاشرہ تمدن اور ثقافت سے ناآشنا اور لوگ یا تو ان پڑھ تھے یا قدیم عرب میں دنیا کے دیگر خطوں کی طرح تعلیم کا شعور ہی نہ تھا، مگر عربی زبان فصیح اور وسیع ذخیرۂ الفاظ کی حامل ہے جس میں کئی محاورے، قصائص اور حکایات بیان کی گئیں۔

    عرب دنیا سے یہ حکایت آپ کے حسنِ مطالعہ کے لیے پیش ہے۔

    ایک بادشاہ اپنی جوان بیٹی کی شادی کے لیے فکر مند تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ ایسا نوجوان اس کی بیٹی سے نکاح کرے جو عبادت گزار اور نیک سرشت ہو۔ یوں تو بہت سے عبادت گزار نوجوان اس کی نظروں کے سامنے تھے، لیکن بادشاہ ان سے مطمئن نہ تھا۔

    ایک دن اس نے وزیر کو بلایا اور کہا کہ میری بیٹی کے لیے میری رعایا میں سے کسی نہایت عبادت گزار اور نیک انسان کو تلاش کر کے سامنے پیش کرو۔

    وزیر نے چند سپاہیوں کو شہر کی جامع مسجد کے گرد تعینات کر دیا اور کہا چھپ کر دیکھتے رہو جو شخص آدھی رات کو مسجد میں داخل ہو گا، اسے نکلنے مت دینا جب تک میں نہ آ جاؤں۔ سپاہی حکم کی تعمیل میں مسجد کے دروازے پر نظریں لگا کر بیٹھ گئے۔

    ادھر ایک شخص چوری کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلا۔ اس کے دل میں آیا کہ آج شہر کی جامع مسجد کا قیمتی سامان چرا لے۔ چور نے اسی خیال کے تحت جامع مسجد کی طرف قدم بڑھا دیے۔ رات کا وقت تھا، اور مسجد خالی پڑی تھی۔ وہ مرکزی دروازے سے اندر چلا گیا۔

    ادھر مسجد کے خادم نے رات گہری ہو جانے پر معمول کے مطابق دروزاہ بند کیا اور قفل لگا کر اپنے گھر چلا گیا۔ اب فجر کے وقت ہی مسجد کا دروازہ کھلنا تھا اور وہ چور اندر موجود تھا۔

    سپاہیوں نے وزیر کو اطلاع دے دی تھی کہ لگتا ہے کوئی عبادت گزار آیا ہے اور اب مسجد کے اندر موجود ہے، مگر دروازے پر قفل لگ چکا ہے جو صبح ہی کھلے گا۔

    وزیر نے بھی یہی سوچا کہ یقینا وہ کوئی عابد اور نہایت پرہیز گار شخص ہو گا جو رات کو عبادت کی غرض سے مسجد میں بیٹھا ہے۔ وہ صبح کی اذان سے پہلے مسجد پہنچ گیا تاکہ دروازہ کھلے تو اندر جائے اور وہاں موجود اس نیک انسان کو بادشاہ کے سامنے پیش کرسکے۔

    جیسے ہی مسجد کھلی وزیر اور سپاہی اندر اندر داخل ہوئے۔ سپاہیوں کو دیکھ کر اندر موجود چور گھبرا گیا۔ اسے بھاگنے کا کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ اس نے پکڑے جانے کے خوف سے جلدی سے نماز کی نیت باندھ لی۔ وزیر اور سپاہی اس کی نماز ختم ہونے کے انتظار میں تھے، لیکن وہ جوں ہی سلام پھیرتا، کھڑا ہو کر دوبارہ نیت باندھ لیتا۔

    اس عمل نے وزیر کو اس کے نہایت متقی اور عبادت گزار ہونے کا یقین دلا دیا۔ وزیر نے سپاہیوں کو اشارہ کیا کہ وہ جیسے ہی سلام پھیرے اسے اپنے حصار میں لے لیں اور بادشاہ کے روبرو لے چلیں۔ ایسا ہی ہوا۔

    چور کی حالت غیر ہو رہی تھی، مگر کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ بادشاہ کے سامنے وزیر نے کہا،

    بادشاہ سلامت یہ ہے آپ کا مطلوبہ شخص، اسے مسجد سے لے کر آیا ہوں، رات بھر مسجد میں عبادت کرتا رہا۔

    بادشاہ نے اس شخص سے مخاطب ہو کر کہا،

    اگر میں اپنی بیٹی کی تم سے شادی کر کے تمھیں اپنی سلطنت کا ولی عہد مقرر کر دوں تو کیا تمھیں منظور ہے؟

    چور ہکا بکا اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

    عالی جاہ! یہ کرم نوازی کس لیے؟

    بادشاہ نے کہا تم عابد اور نیک ہو، رات بھر مسجد میں عبادت کرتے رہے۔

    چور نے یہ سنا تو دل ہی دل میں نادم ہوا۔ اس نے اپنے ربّ سے توبہ کرتے ہوئے سوچا کہ میں چوری کی نیت سے گیا، دکھاوے کی نیت سے نماز ادا کی، لیکن تیرے کام تو انسان کی عقل میں نہیں سماتے، تُو نے اس کی سزا دینے کے بجائے اس کے بدلے میں دنیا ہی میرے قدموں میں ڈال دی۔ چور نے سوچا اگر میں سچ مچ عبادت گزار ہوتا اور تہجد کا پابند ہوتا پھر اللہ کا انعام کیا ہوتا۔

    یوں نادم ہو کر وہ شخص چوری سے تائب ہوا اور باقی زندگی عبادت اور نیک کاموں میں گزار دی۔