Tag: حکایت شیخ سعدی

  • بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا۔ وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔ بادشاہ اس درویش کے قریب سے گزرا لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ بھک منگے بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یاد رکھ! بادشاہی بھی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کرسکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے ان سے نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس کے پاس پہنچا اور عرض کی کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔

    فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔ بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت کرو۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا۔ جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    نیکیاں کر لے اگر تُو صاحبِ ثروت ہے آج
    کل نہ جانے کس کے ہاتھ آئے ترا یہ تخت و تاج

    سبق: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے دل کو حرص اور لالچ سے پاک کر لینے کے بعد ہی انسان کو سچی راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو خدا ایسی جرأت بخش دیتا ہے کہ وہ لاؤ لشکر رکھنے والے بادشاہوں سے بھی خوف نہیں کھاتا۔ نیز یہ کہ مال دار شخص کے لیے سب سے زیادہ نفع کا سودا نیکیاں کرنا ہے۔ اخروی زندگی میں اس کے کام اس کا یہی سرمایہ آئے گا جس مال پر دنیا میں غرور کرتا تھا، اس میں سے کفن کے سوا کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے جاسکے گا۔

    ( منسوب از شیخ سعدی، مترجم: نامعلوم)

  • ادلے کا بدلہ​

    ادلے کا بدلہ​

    ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں انس اس قدر بڑھ گیا کہ ایک دوسرے کے بغیر ان کا وقت گزارنا مشکل ہوجاتا۔

    ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا۔ "کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچّے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ اگر تم یہیں کہیں پاس ہی رہو تو کم از کم میرے بچّوں کا تو خیال رکھو گی۔”

    چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخر کار کوشش کر کے رہائش کے لیے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچّوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔

    کچھ عرصہ خوشی اور عافیت سے گزر گیا۔ ایک دن چیل اور اس کے بچّے بھوکے تھے۔ چیل نے دیکھا کہ لومڑی اپنے گھر میں‌ نہیں‌ ہے۔ اس نے لومڑی کو غائب پاکر اپنا اور اپنے بچّوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اس کا ایک بچّہ اٹھا لیا اور گھونسلے میں لے آئی۔ اس روز چیل نے اپنا اور اپنی اولاد کا پیٹ اپنی سہیلی کے بچّے سے بھرا۔

    جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچّہ غائب پایا۔ اس نے ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر وہ بچّہ نہ ملا۔ لومڑی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے چیل کو اس افتاد کی خبر کی تو وہ بھی دکھاوے کا افسوس کرنے لگی۔

    دوسرے دن لومڑی جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچّہ غائب تھا۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا ایک اور بچّہ غائب ہو گیا۔ چیل لومڑی کے سارے بچّے ایک ایک کرکے کھا گئی تھی۔ لومڑی کو چیل پر شک تو ہوا تھا، جو نجانے کیوں اب یقین میں بدل گیا مگر وہ چپ رہی۔ اس نے چیل سے کوئی گلہ شکوہ نہ کیا اور معمول کی بات چیت جاری رکھی۔ وہ اپنے بچّوں‌ کا غم کھاتی رہتی اور ہر وقت روتی رہتی۔ ساتھ ہی خدا سے فریاد کرتی کہ "اے خدا! مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرما تا کہ میں اپنی سہیلی نما دشمن سے انتقام لے سکوں۔”

    ایک دن شاید لومڑی کی دعا قبول ہوگئی اور خدا نے چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ ایک روز شکار تلاش کرنے کے لیے جب چیل جنگل کے اوپر پرواز کر رہی تھی تو اس کی نظر دھویں پر پڑی جو زمین پر ایک جگہ سے اٹھ رہا تھا۔ چیل اس کی طرف لپکی۔ دیکھا کہ چند انسان آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔

    چیل کافی دیر سے جنگل میں‌ شکار تلاش کررہی تھی اور اب تھکن کے ساتھ بھوک سے اس کا برا حال تھا۔ اس کے بچّے بھی بہت بھوکے تھے اور اسے ان کی فکر ستا رہی تھی۔ اس سے صبر نہ ہوا اور جھپٹا مار کر کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ اس نے دیکھا ہی نہیں‌ کہ اس بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔

    چیل کے گھونسلے میں گھاس اور تنکے تھے اور جیسے ہی اس نے بچّوں کے آگے گوشت کا وہ ٹکڑا رکھا، چنگاریوں نے کام دکھا دیا، وہاں‌ آگ لگ گئی۔ اس کی بدقسمتی کہ گھونسلا جلنا شروع ہوا تو تیز ہوا بھی چلنے لگی۔ اب تو آگ خوب بھڑکی اور اتنی مہلت ہی نہ ملی کہ چیل اپنا اور اپنے بچّوں کا بچاؤ کرسکے۔ وہ گھونسلے سے نکلنے کی کوشش میں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔ لومڑی نے یہ دیکھا تو جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور سب بچّوں کو ہڑپ کرگئی اور چیل بھی اس روز اپنے انجام کو پہنچی۔

    مشہور ہے کہ جو دوسرے کے لیے گڑھا کھودتا ہے، خود اسی میں جا گرتا ہے۔

  • حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کون بَھلا بدل سکتا ہے!

    حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کون بَھلا بدل سکتا ہے!

    بیان کیا جاتا ہے، ایک مسافر اتفاقاً خدا رسیدہ لوگوں تک پہنچ گیا اور ان کی اچھی صحبت سے اسے بہت زیادہ فائدہ پہنچا۔ اس کی بُری عادتیں چھوٹ گئیں اور نیکی میں لذّت محسوس کرنے لگا۔

    یہ انقلاب یقیناً بے حد خوش گوار تھا۔ لیکن حاسدوں اور بد خواہوں کے دلوں کو بھلا کون بدل سکتا ہے۔

    اس شخص کے مخالفوں نے اس کے بارے میں کہنا شروع کر دیا کہ اس کا نیکی کی طرف راغب ہو جانا محض دکھاوا ہے۔ یہ باتیں اس شخص تک پہنچیں تو اسے بہت صدمہ پہنچا۔ وہ واقعی اپنی بری عادات ترک کرچکا تھا اور ایک اچھا اور عبادت گزار شخص بن گیا تھا۔

    اس کا دل ان باتوں سے تھوڑا ہوا تو وہ ایک دن اپنے مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مرشد نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تیرے مخالف تجھے جیسا بتاتے ہیں، تو ویسا نہیں۔ صدمہ کی بات تو یہ ہوتی کہ تو اصلاً برا ہوتا اور لوگ تجھے نیک اور شریف بتاتے۔

    سبق: اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے نہایت لطیف پیرائے میں اپنا محاسبہ کرتے رہنے کی تعلیم دی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ دنیا کی رائے کو ہرگز قابلِ اعتبار نہیں سمجھنا چاہیے اور اپنے راستے پر چلتے رہنا چاہیے۔ یہاں تو اچھوں کو بُرا اور برُوں کو اچھا کہنے کا رواج ہے۔ دوسری عمدہ بات یہ بتائی ہے کہ برائی کرکے اچھا مشہور ہونے کی خواہش کے مقابلے میں یہ بات ہر لحاظ سے مستحسن ہے کہ انسان اچھا ہو اور لوگ اسے برا جان کر اس سے دور رہنا چاہیں‌۔ اس سے عافیت یہ ہے کہ وہ لوگوں‌ کے ہجوم اور بلاوجہ جھگڑوں اور وقت کے ضیاع سے بچا رہتا ہے اور نیکی اور عبادت پر زیادہ توجہ دیتا ہے۔