Tag: حکومتی درخواست

  • بجلی کی قیمت میں اضافے  کی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    بجلی کی قیمت میں اضافے کی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کی قیمت میں ساڑھے سات روپے فی یونٹ تک اضافے کی حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں بجلی کی بنیادی قیمت میں ساڑھے 7 روپے فی یونٹ اضافے تک کی حکومتی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    چیئرمین نیپرا نے کہا کہ ٹیرف میں اضافے کی بڑی وجہ روپے کی قدر میں کمی کیپسٹی پیمنٹس ہیں، کس سلیب کے لیے کتنا اضافہ کرنا حکومت کا کام ہے، یہ سیاسی اور انتظامی فیصلہ ہے جو حکومت نے کرنا ہے۔

    ممبر نیپرا رفیق شیخ نے سوال کیا کہ وہ کونساقانون ہے جو حکومت کوسبسڈی دینے کا تعین کرتاہے؟ کس سلیب کو کتنی سبسڈی دینی ہے حکومت کو یہ اختیار کونسا قانون دیتاہے؟

    جس پر حکام پاور ڈویژن نے بتایا کہ حکومت بجلی صارفین کو158ون ارب روپے کی سبسڈی دے گی، 200یونٹ تک کے صارفین کے لیے کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا تو چیئرمین نیپرا نے کہا کہ پروٹیکٹڈ کو سبسڈی دینے سے دیگر صارفین پر بوجھ پڑ رہاہے۔

    دوران سماعت حکام پاور ڈویژن کا کہنا تھا کہ ملک میں40فیصد صارفین خط غربت سے نیچے رہ رہے ہیں،ان بجلی صارفین کو حکومت سبسڈی فراہم کررہی ہے ،جس پر ممبر نیپرا رفیق شیخ نے کہا کہ دنیا میں کیا ریٹس چل رہے ہیں اور پاکستان میں کیا صورتحال ہے۔

    نمائندہ اپٹما نے بتایا کہ ٹیرف میں صرف ایک فیصد اضافے سے بھی برآمدات پر منفی اثرات پڑتا ہے ، کمرشل اور بل بورڈز کوکمرشل ٹیرف دیا جارہاہے، اگر وہ متبادل پر جائیں تو ان کو300روپے فی یونٹ پڑتاہے۔

    نمائندہ اپٹما کا کہنا تھا کہ بجلی کمپنیاں اپنے نقصانات زیادہ ہونے یا ریکوریز کم ہونے پرلوڈشیڈنگ شروع کردیتی ہیں، حالیہ بارشوں کے دوران بجلی کے22 ہزار میٹرز جل گئے کیسے جل گئے؟ جس پر ممبرنیپرا رفیق شیخ نے کہا کہ پاور ڈویژن بجلی صارفین کے لیے سبسڈی کا اکنامک کیس بنا کر بتائے۔

    حکام پاور ڈویژن نے بتایا کہ حکومت90فیصد صارفین کو سبسڈِی دے رہی ہے تو ممبر نیپرا مقصود خان نے کہا کہ گھریلو صارفین کو سبسڈی دے رہے تو انڈسٹری کو بٹھا رہےہیں۔

    حکام کا کہنا تھا کہ کے الیکڑک کے صارفین کے لیے اس سال دو سواٹھاون ارب روپے سبسڈی رکھی ہے، ممبر نیپرا رفیق شیخ نے سوال کیا کہ عام صارف کو بالکل پتا بھی نہیں چلتا کہ ہم کر کیاکررہے ہیں ؟ ریگولیٹر جرمانہ کرتاہے وہ عدالت میں جا کر چیلنج ہوجاتاہے، اس سیکٹر کو بہتر کس نے کرناہے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا۔

    حکام پاورڈویژن نے مزید بتایا کہ تریسٹھ فیصد گھریلوصارفین کے لیے بجلی کا ٹیرف نہیں بڑھایاجارہا، 4.9فیصدصارفین کےلیے ساڑھے7روپے فی یونٹ اضافہ کررہے ہیں۔

    ممبر نیپرا رفیق شیخ نے کہا کہ ہر کسی کو پتا ہے مسئلہ کہاں ہے مسئلہ صرف ہماری نااہلی کا ہے، نیپرا حکام کا کہنا تھا کہ اگر ڈالر مزید مہنگا ہوا تو سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں اس کا بوجھ الگ سے آئے گا۔

    کراچی چیمبر نے بجلی قیمت میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ لائن لاسز چوری بدانتظامی کے باعث سرکلر ڈیٹ بڑھ رہاہے، مہنگی بجلی انڈسٹری کوتباہ کررہی اورمزید کرے گی۔

    چیئرمین نیپرا نے کہا کہ طلب ورسد کو دیکھ کر پلاننگ کی جاتی تو صورتحال ایسی نہ ہوتی، دوران سماعت حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ پاورسیکٹرمعاہدوں نےملک کو تباہ کیا مگر نیپرا نے اس کی خلاف کچھ نہیں کیا، نیپراسننےکےبعدکچھ نہیں کرتا،سبسڈی تو حکومت کی نااہلی ہے، کے الیکڑک فرسودہ پلانٹس چلارہاہےاور آپ انھیں پیسے دیتے جارہے۔

    جماعت اسلامی نے بھی بجلی قیمت میں اضافے کو مستردکردیا ، حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ 4سال میں آپ نے کیا کیا، آپ نے ہمیں تباہ کردیاہے۔

    بجلی کی قیمت میں ساڑھے7روپےفی یونٹ تک اضافے پر سماعت مکمل کرلی گئی، نیپرا نے درخواست پرسماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    نیپراتفصیلات کا جائزہ لےکراپنا فیصلہ وفاقی حکومت کو بھجوائے گا ، جس کے بعد وفاقی حکومت بجلی کی قیمت میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کرے گی۔

  • بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا امکان

    بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا امکان

    اسلام آباد: نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کا ٹیرف بڑھانے کے لئے حکومتی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، حکومت نے 1 روپے 95 پیسے فی یونٹ یونیفارم اضافے کی درخواست کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کا ٹیرف بڑھانے کے لئے حکومتی درخواست پر سماعت کی اور حکومت کی درخواست پرسماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔

    نیپرا حکام نے کہا ہے کہ حکومت نے 1 روپے 95 پیسے فی یونٹ یونیفارم اضافے کی درخواست کی جبکہ نیپرا نے 3 روپے 34 پیسے فی یونٹ یونیفارم اضافے کا تعین کیا تھا، حکومت 185ارب روپے سبسڈی صارفین کو فراہم کرے گی۔

    حکام کا کہنا تھا کہ پچھلےسال اوسط ٹیرف13.35روپےتھا اب نئے تعین کے بعد 16.69 روپے فی یونٹ ہوگیا ہے۔

    جوائنٹ سیکرٹری پاور نے کہا کہ حکومت نے اس باراضافہ تمام صارفین کیلئےمانگاہے ، لائف لائن صارفین کاٹیرف بھی1.96 روپے فی یونٹ بڑھےگا، حکومت نے گزشتہ مالی سال 144 ارب روپے کی سبسڈی دی ، اس سال 185 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔

    واضح رہے کہ 21 جنوری کو حکومت نے پیٹرول کے بعد بجلی کی قیمت میں ایک روپے 95 پیسے اضافے کا اعلان کیا تھا۔

    وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے کہا کہ ن لیگ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں دو روپے اٹھارہ پیسے اضافہ ہونا تھا لیکن ہم نے بجلی کی قیمت میں ایک روپے 95 پیسے اضافے کا کہا ہے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے  سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی حکومتی درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو  فیصلہ سنانےسےروک دیا اور حکم دیا خصوصی عدالت پرویز مشرف کو سن کر فیصلہ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر پرویزمشرف کیس کا فیصلہ روکنے کیلئے وزارت داخلہ کی درخواست پر سماعت ہوئی ، جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجربینچ نے سماعت کی ، جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی بینچ کا حصہ ہیں۔

    سماعت میں سیکریٹری قانون کی جگہ جوائنٹ سیکریٹری پیش ہوئے تو عدالت نے حکم دیا کہ آدھے گھنٹے میں سیکریٹری قانون پیش ہوں اور کہا کل حکم  دیا تھا کہ مستند ریکارڈ پیش کریں۔

    وفاق کی جانب سےایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجدالیاس بھٹی عدالت میں پیش ہوئے ،  تو چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا  آپ نےقانون  پڑھا؟ سیکریٹری قانون کدھرہیں وہ کیوں نہیں آئے؟سیکریٹری قانون کوکہیں ،آدھےگھنٹےمیں پہنچیں ۔

    جسٹس عامر فاروق  نے کہا سیکریٹری قانون کوکل ریکارڈسمیت طلب کیاتھا،  ریکارڈکی اصل دستاویزلیکرآئیں کاپیاں نہ لائی جائیں، آئین کےمطابق ٹرائل شروع ہو تو مکمل کرناآئینی تقاضہ ہے ، کیس میں وفاقی حکومت کا کہنا ہے پراسیکیوشن کیلئےتیارنہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کی آپ سے سوال پوچھ رہے ہیں،  اگرآپ تیار نہیں توآئندہ ہفتے کر دیتے ہیں،  عدالتی حکم پر وزارت قانون ریکارڈ پیش نہیں کر  سکا تو عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی سرزنش  کرتے ہوئے کہا آپ کیس پردلائل دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

    پرویزمشرف آئین شکنی کیس میں جسٹس عامرفاروق نے کہا آپ یہ ذہن میں رکھیں آپ فریق نہیں پٹیشنرہیں، فوٹو کاپیزپیش نہ کریں،اصل ریکارڈ لےکر آئیں، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کےدوران جاری نوٹیفکیشنزبتائیں۔

    ایڈیشنل اےجی  نے بتایا چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سےججزکی تقرری ہوتی رہی، جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ خود کہتاہےشکایت غلط ہے، توپھرآپ وفاق کی حیثیت سےشکایت واپس لیں۔

    عدالت نےمشرف کے وکیل کی سرزنش کرکےروسٹرم سےاٹھا دیا اور کہا کرسی پربیٹھ جائیں،  جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ  ہم رٹ کس کودیں ، وفاق خود  فریق بن گیا ہے ۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس میں کہا ایک شخص عدالت میں آکرکہتاہےجوکیاغلط کیا،  چیف جسٹس  کےمزاحیہ ریمارکس پر  وکلااور سائل ہنس  پڑے، وفاقی حکومت نے پراسیکیوشن ٹیم واپس لےلی ، عدالت کے لئے بھی مسئلہ ہے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار  کیا خصوصی عدالت کا ٹریبونل کب بنا، ان کا نوٹیفکیشن کب ہوا، تو ایڈیشنل اےجی نے بتایا کہ نومبرکو2019 کو ٹریبونل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، خصوصی عدالت 4 اکتوبر 2019  کو تشکیل ہوئی،  ججز میں جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذیر اکبر، جسٹس شاہد کریم شامل تھے۔

    ساجد الیاس بھٹی نے کہا وزارت قانون کے نمائندے فائل لیکر باہرچلےگئے ہیں، جس پر جسٹس محسن اختر  کا کہنا تھا کہ آپ کواتنےسالوں کےبعدمعلوم ہوا  وفاق کی شکایت درست نہیں، اگرایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لےلیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اکتوبر1999کےاقدامات کوبھی غیرآئینی قراردیدیاگیا، آپ الگ شکایت داخل کیوں نہیں کرتے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا اس حوالےسےابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا 3 نومبرکی ایمرجنسی کاٹارگٹ عدلیہ تھی،  سمجھنے کی کوشش کریں یہ غیرمعمولی حالات ہیں، جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ ، آپ کہہ رہے ہیں ٹرائل کیلئےخصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی، اب آپ دلائل سےبتارہےہیں کہ ایسا نہیں ہے،  پھر آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔

    جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ 2013 کے بعد پہلی تبدیلی کب ہوئی،اےاےجی نے بتایا  جس جس تاریخ پرجو تبدیلی آئی اس کے نوٹیفکیشن موجود ہیں ، نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کرتا ہوں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ نے قانون پڑھا ہے؟  کیایہ نوٹی فکیشن واپس لیا جا سکتا ہے؟ تو اے اے جی نے جواب دیا کہ ایسی تشریح نہیں ، جس تک شکایت رہتی ہے واپس نہیں لیتے،جسٹس محسن اختر نے کہا خصوصی عدالت کی تشکیل کےدوران جونوٹی فکیشن ہوئےوہ بتائیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا چیف جسٹس کی مشاورت سےخصوصی عدالت کے ججوں کی تقرری ہوتی رہی،   جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظیربعد میں ملی گی یانہیں،کیا شکایت کرنے والا کہےکہ شکایت غلط ہے۔

    جسٹس عامر کا کہنا تھا کہ  شکایت غلط ہےتوٹھیک کس نےکرنی ہے،وفاقی حکومت نےکرناہےناں،  جبکہ جسٹس محسن اختر نے کہا کیاوفاقی حکومت پرویز مشرف کوپراسیکیوٹ نہیں کرناچاہتی،  جس پر ساجد الیاس بھٹی نے جواب دیا کہ    نہیں، ایسا نہیں ۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں؟جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ یوں کہیں پرویز مشرف کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے،  کیاآج وفاقی حکومت پرویزمشرف کےخلاف ٹرائل نہیں کرناچاہتی؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے  استدعا کی خصوصی عدالت کیس کا فیصلہ نہ سنائے۔

    چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ  کا کہنا تھا کہ آپ زیادہ باتیں نہیں کریں،  جبکہ جسٹس محسن اختر  نے کہا وزارت قانون کی کیا ضرورت ہےاس قوم کو، جو  بھی وزارت قانون نے نوٹیفکیشن کیے غلط کیے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا 4 دسمبر کوپراسیکوشن ٹیم کےسربراہ کو نوٹیفائی کیا گیا اور 30 جولائی 2018 کو پراسیکیوشن کےسربراہ نےاستعفی دیا، ٹیم کو   23 اکتوبر 2019 کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کیس کی سماعت کب تھی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت 24 اکتوبر 2019 کو تھی، عدالت نے کہا ایک سال سے آپ نےہیڈآف پراسیکوشن کوکیوں تعینات نہیں کیا،  ہیڈآف پراسیکیوشن کو کس نےتعینات کرنا تھا، جوڈیشری یاایگزیکٹو نے؟  جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل بت بتایا  تعینات ایگزیکٹو نےکرنا تھا۔

    جسٹس محسن اختر نے استفسار کیا وزرات قانون انصاف کے سیکرٹری کے آنے کی ضرورت ہے؟  وزارت قانون جو نوٹی فکیشن جاری کرتی ہےوہ غلط ہوتا ہے ،  سزا پھر ساری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہناتھا ایک شخص جس نےعدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اس کا کیس ہے، وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہے،  ہم نے اس  کے فیئر ٹرائل کےتقاضے پورے کرنے ہیں، جسٹس عامرفاروق نے کہا سربراہ پراسیکیوشن ٹیم کےاستعفےکےبعدوفاق نےنئی تقرری نہیں کی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سیکرٹری قانون عدالتی حکم پر پیش کیوں نہیں ہوئے ؟ وفاقی سیکرٹری قانون عہدے کا اہل نہیں۔

    عدالتی حکم پر سیکرٹری قانون اسلام آبادہائی کورٹ میں پیش ہوئے  ، چیف جسٹس نے  سیکرٹری قانون سے استفسار  کیا آپ نےکل فائل پڑھ لی ہے، سیکریٹری  قانون نے کہا  آپ آرڈر کریں، نوٹی فکیشن کے حوالے سے، جس پرجسٹس عامرفاروق نے کہا  ہائیکورٹ کےپاس سوموٹو ایکشن کےاختیارات نہیں۔

    پرویزمشرف آئین شکنی کیس سےمتعلق درخواستوں پرسماعت میں پرویزمشرف کے وکیل روسٹرم پر آ گئے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ  کے کیس کے دلائل  تووفاق کے وکیل نے دے دیے، جس پروکیل پرویزمشرف کا کہنا تھا کہ  جی !میں مزید دلائل دینا چاہتا ہوں۔

    پرویزمشرف کےوکیل  یرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا یہ آپ کےلیے ٹیسٹ کیس ہے، میں نےمؤکل کی طرف سےدرخواست نہیں دی،  ملزم اشتہاری ہو  جائے تو اس کی طرف سےوکالت نامہ داخل نہیں کرایا جا سکتا،   پرویز مشرف کے لیےمقرروکیل عمرے پر گئے ،انہیں بھی نہیں سنا گیا،  اشتہاری کو دوسرا  وکیل  دیا جا رہا ہےتومجھے پیش ہونے کی اجازت کیوں نہیں ۔

    ،بیرسٹرسلمان صفدر کا کہنا تھا کہ  9 اکتوبر 2018 کووکالت نامہ داخل کیا،اس وقت پرویز مشرف مفرور تھے اور 12 جون 2019 کو مجھے پرویز مشرف کی طرف سے پیش ہونے سے روک دیا گیا۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ تودرخواست گزار ہیں خوداپنی غلطیوں پر عدالت کو توجہ دلا رہے ہیں،  جب پرویز مشرف وردی میں تھےتو مکا دکھا رہےتھے، اب مشرف بہت ہی کمزور ہیں۔

    عدالت نے آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنےکی درخواستیں قابل سماعت ہونےپرفیصلہ محفوظ  کرلیا،  مشرف کیس کافیصلہ روکنےکی درخواستوں پر فیصلہ  آج ہی سنائےجانےکاامکان ہے۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نےڈویژن بینچ میں مقررتمام کیس ملتوی کردیے تھے ، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس میں وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرلی اور خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانےسےروک دیا، ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کو سن کر فیصلہ کرے  اور خصوصی عدالت کچھ دیر کیلئے پرویز مشرف کامؤقف سن لے۔

    گذشتہ سماعت میں عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا تھا ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا کہ مشرف اشتہاری ہیں، ہم آپ کو بطور  فریق نہیں سن سکتے۔

    مزید پڑھیں : آئین شکنی کیس، فیصلہ رکوانے کیلئے حکومتی درخواست پر سیکرٹری قانون کل ذاتی طور پرطلب

    چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کے وکیل سے پوچھا سپریم کورٹ نے اس کیس سے متعلق جو فیصلہ دیا، کیا وہ آپ کو معلوم ہے؟ آپ کو تو حقائق ہی معلوم نہیں، وزارت داخلہ کے وکیل نےجواب دیا تھا انھیں ابھی فائل دی گئی ہے، جس پر عدالت نے سیکریٹری قانون کو طلب کرلیا تھا۔

    یاد رہے گذشتہ روز حکومت اور سابق صدر پرویز مشرف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست کی تھی ، وزارت داخلہ کی جانب سے درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے اور نئی پراسکیوشن ٹیم تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو فیصلے سے روکا جائے اور فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ بھی معطل کیا جائے۔

    واضح رہے 19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

  • شاہراہ دستور پرہلاکتیں، وزیرِاعظم پر مقدمے کا حکم چیلنج

    شاہراہ دستور پرہلاکتیں، وزیرِاعظم پر مقدمے کا حکم چیلنج

    اسلام آباد: وزیرِاعظم سمیت گیارہ شخصیات کے خلاف مقدمے کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے، پی اے ٹی نے وزیرِاعظم سمیت اکیس افراد کی گرفتاری کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔

    سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کی جانب سے درخواست دائرکی گئی۔ جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شاہراہِ دستور پر ہلاکتوں پر سیشن جج کا انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آر کا حکم غیر قانونی ہے، سیشن جج نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے اعلیٰ عدالت سے استدعا کی کہ سیشن جج کا حکم کالعدم قرار دیا جائے۔

    اسلام آباد کی عدالت نے پی اے ٹی کی درخواست پر شاہراہِ دستور پر تین افراد کے قتل کا مقدمہ وزیرِاعظم سمیت گیارہ شخصیات کے خلاف درج کرنے کا حکم دیا تھا،جس کے بعد مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔

    دوسری جانب پاکستان عوامی تحریک نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کی گرفتاری کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عدالت کے حکم پر وزیرِاعظم اور وزیرِاعلٰی سمیت اکیس افراد کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا لیکن ابھی تک نہ تو کسی ملزم کو گرفتار کیا گیا نہ تفتیش کی گئی، ملزمان کے خلاف کارروائی کی بجائے انہیں پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔