کراچی : آن لائن ٹیکسیوں سے سفرکی سہولت کراچی کے شہریوں کو ملتی رہے گی، نجی ٹیکسی سروس اور حکومت سندھ میں معاہدہ طے پا گیا۔
تفصیلات کے مطابق آن لائن ٹیکسیوں کی سروس کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی، سرکاری وکیل نے عدالت کو معاہدے کے حوالے سے آگاہ کردیا۔
سرکاری وکیل نے بیان میں کہا کہ آن لائن ٹیکسی سروس اور حکومت کی جانب سے ڈرافٹ تیارکرکے محکمہ قانون کو بھیج دیا گیا ہے، موٹر وہیکل آرڈیننس کے لیے عدالت سے اجازت درکار ہوگی۔
عدالت نے سرکاری وکیل کو سُننے کے بعد حکومت سندھ، محکمہ قانون اور دیگرسے ستائیس اپریل تک جواب طلب کرلیا اور حکم دیا کہ تمام معاملات قانون کے مطابق طے کیے جائیں۔
یاد رہے کہ عدالت میں درخواست گزارنے مؤقف اختیار کیا تھا کہ آن لائن ٹیکسی سروس رجسٹریشن کی بغیر کمرشل بنیادوں پر چلائی جارہی ہے، جو موٹروہیکل آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ کارکو کمرشل بنیادوں پرنہیں چلایا جاسکتا۔ درخواست گزار نے استدعا کی تھی کہ آن لائن ٹیکسی سروس کے خلاف کارروائی کی جائے۔
کراچی : حکومت سندھ نے چار روزبعد رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا فیصلہ کرلیا، تین ماہ کی توسیع کا نوٹیفکیشن آج جاری کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق رینجرز کے اختیارات کا معاملہ حل ہو گیا، سندھ حکومت نے رینجرزکے اختیارات میں توسیع کا فیصلہ کرلیا ہے، ذرائع سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ اختیارات میں توسیع کانوٹیفکیشن آج جاری کیا جائےگا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق رینجرز کے اختیارات میں 3 ماہ کی توسیع کی جائے گی، پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو رینجرز کو اختیارات دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔
نو ٹیفکیشن کے اجراء کے بعد رینجرز کو چھاپوں، گرفتاری اورملزمان سے تحقیقات سمیت دیگراختیارات حاصل ہوں گے، محکمہ داخلہ سندھ اختیارات کانوٹیفکیشن وفاقی حکومت کوارسال کریگی جس کے بعد وفاقی حکومت رینجرز اختیارات کی مدت میں توسیع کانوٹیفکیشن جاری کریگی۔
کراچی: ترجمان حکومت سندھ کے مطابق گجر نالےکے اطراف تجاوزات کے خلاف آپریشن آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے، ڈپٹی کمشنرسینٹرل فریدالدین کا کہنا ہے کہ شدید تنقید کے باوجود اپنی ذمے داریوں سے غفلت نہیں برت رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ترجمان حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ مزید بارشوں کے خدشے کے پیش نظرگجرنالےکے اطراف تجاوزات کے خلاف آپریشن تیزی سے آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے، سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں اب تک آٹھ ہزار پانچ سو سےزائدمکانات مسمارکئے گئےہیں۔
ڈپٹی کمشنرسینٹرل فرید الدین کا کہنا ہے کہ شدید تنقید اور مخالفت کے باوجود اپنے فرائص سے کوتاہی نہیں برت رہے ہیں اور اپنی ذمے داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گجرنالا پرقائم تجاوزات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ نالوں کی صفائی کا کام بھی جاری ہے، جس کے بعد نالوں کے اطراف سروس روڈ تعمیر کیا جائے گا، تاکہ نالوں کی مستقل صفائی کا انتظام ہوسکے۔
یہاں پڑھیں:نکاسی آب میں رکاوٹ : گجرنالے پر قائم مکانات اورباڑے مسمار
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ گجر نالے میں تجاوزات کے باعث بارشوں میں پانی کی نکاسی ایک بہت مسئلہ بن گیا ہے ، جس کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کراچی : سندھ کابینہ نے وزیراعلٰی سندھ کوسندھ حکومت کے 300 بنگلوں،فلیٹس اور کوارٹرز پر سابق افسران اور سیاسی شخصیات کے قبضے سے آگاہ کردیا۔
تفصیلات کےمطابق سندھ کابینہ نے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کو حکومت سندھ کے 300 بنگلوں پر غیر متعلقہ افراد کے قبضےسے آگاہ کیا ہے جن میں خصوصاََ باتھ آئی لینڈ میں کئی بنگلے ہیں جن میں سے ایک پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق افسر5سال سےقبضہ کیا ہواہے۔
سندھ کابینہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس کے پیچھے ایک بنگلہ ہے جس پر ایک بااثر شخصیت کا قبضہ ہے اور اس بنگلے میں اس شخصیت کا خاص شخص مقیم ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بتایا گیا کہ ان بنگلوں اور فلیٹس کا ماہانہ کرایہ حکومت سندھ کی جانب سے اداکیا جاتاہے اور جب بھی حکومت سندھ کی جانب سے ان بنگلوں پر سے قبضہ خالی کروانے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں تو کوئی نہ کوئی بااثر سیاسی شخصیت مداخلت کرتی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز ہونے والے سندھ کابینہ کے اجلاس میں یہ بات بتائی گئی تھی اور آج وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے چیف سیکریٹری کو کہا گیا ہے کہ وہ ایک نوٹ بنا کر بھیجیں اور ان بنگلوں کو خالی کروانے کے لیے اقدامات کریں تاکہ ان بنگلوں اور فلیٹس میں موجودہ سرکاری افسران کو ٹھہرایا جا سکے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ کی سربراہی میں کابینہ کا اجلاس ہوا تھا جس میں وزیراعلیٰ سندھ نے شہر میں امن وامان کی موجودہ صورت حال پر عدم اطمینان کا اظہار کیاتھا۔
کراچی :ایم کیوایم کے نومنتخب میئر وسیم اختر نے جیل میں میئر کا دفتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ڈی جی رینجرز اورآئی جی سندھ سے رہنمائی بھی مانگ لی۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما اور کراچی کے نو منتخب میئر وسیم اختر نے کہا ہے کہ آج کراچی کے منڈیٹ کو تسلیم کیا گیا ہے،آج کی جیت پر اہل کراچی کو مبارک باد دیتا ہوں، مشکل حالات میں عوام نے ایم کیو ایم کا ساتھ دیا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ایم کیو ایم کا نہیں کراچی کا میئر ہوں ، ماضی میں جو ہوا اسے بھول جائیں، بہت سی تلخیاں ہیں مگر ان کا ذکر نہیں کرنا چاہتا ہوں، ہم متحد ہونگے تو مسائل حل ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے خلاف بات کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وزیر اعلی سندھ سے بہت امید یں وابستہ ہیں،وہ مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں وزیر اعلیٰ اپنی سربراہی میں ہمیں اپنے ساتھ لیکر چلیں گے تو مسائل جلد حل ہونگے، کراچی میں بہت کام کرنا ہے،ہم رینجرز کے ساتھ ملکر کام کرنا چاہتے ہیں، مجھے ڈی جی رینجر اور آئی جی سندھ کی رہنمائی چاہیئے۔
وسیم اختر کا کہنا تھا کہ کراچی کے تمام لوگوں کو ساتھ لیکر چلیں گے ملکر کام کریں گے تو مسائل حل ہونگے، میں نے تحریک انصاف سے بھی رابطہ کیا ہے، میں جماعت اسلامی اور اے این پی کے لوگوں کے پاس بھی جاوں گا۔
نو منتخب میئر وسیم اختر نے کہا کہ میں سیاسی قیدی ہوں، مجھ پر قائم کئے گئے تمام مقدمات قابل ضمانت ہیں، اپنے خلاف مقدمات کو عدالت میں لے جاوں تو 5 منٹ میں تمام کیس ختم ہوجائیں گے ، تمام کیس جھوٹیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افتخار چوہدری کی وجہ سے سانحہ 12 مئی ہوا ، مجھے بند کیا گیا لیکن پھر بھی عوام نے مجھے ووٹ دیا، ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں، کیا مجھے بند کرکے 12 مئی کا کیس حل ہوجائے گا؟مجھے پابند کر کے آپ کو کیا ملے گا؟ ہمت ہے تو 12 مئی کے کیس میں پروز مشرف پر آر ٹیکل 6 لگائیں۔
وسیم اختر نے جیل میں میئر کا دفتر بنانے کا مطالبہ بھی کیا انہوں نے کہا کہ عدالت سے درخواست کروں گا کہ جیل میں بیٹھ کر عوام کے مسائل حل کرنے کی اجازت دی جائے۔
کراچی: سندھ حکومت کی توجہ صفائی کی طرف دلانے کے لیے شہر قائد کے نوجوانوں نے انوکھا قدم اٹھاتے ہوئے کچرا فیسٹیول کا انعقاد کیا اور شہر کو صاف کرنے کا مطالبہ کیا۔
سندھ سرکار کو جگانے کے لیے کراچی کے نوجوانوں نے 14 اگست کے دن پاکستان کی تاریخ کے انوکھے فیسٹیول کا افتتاح کیا۔ اس ضمن میں کچرا فیسٹیول کا پہلا پروگرام گلشن اقبال کے بلاک 13 ڈی 2 ریلوے پٹڑی کے قریب منعقد کیا گیا۔
فیسٹیول میں حصہ لینے والے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ’’یہ تاریخ کا انوکھا فیسٹیول اس لیے ہے کہ ہم خود صفائی کر کے حکومت کا کام سمیٹ نہیں رہے بلکہ حکومت کی آنکھیں کھول رہے ہیں کہ یہ کچرا آپکا منتظر ہے‘‘۔
گلشن اقبال بلاک 13 ڈی 2 ریلوے پھاٹک
کچرا فیسٹیول کے انعقاد کے بعد کراچی کے عوام سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس کا حصہ بن رہے ہیں، عوامی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے سندھ حکومت کے حکام کی جانب سے منتظمین پر دباؤ ہے کہ اس فیسٹیول کے انعقاد کو روکا جائے۔
کچرا فیسٹیول کے منتظمین کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہم صفائی مہم شروع کردیں گے تو حکومت اس کام سے پیچھے ہٹ جائے گی تاہم یہ انوکھا راستہ اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت ہم سے ٹیکسز وصول کرتی ہے اور مہذب معاشرے میں عوام کو بنیادی ضروریات کو پورا کرنا حکومت ہی کی ذمہ داری ہے‘‘۔
فیسٹیول میں شریک مکین
منتظم ارسلان خان کا کہنا ہے کہ ’’ہم عوام کی جانب سے بھیجی گئی تصاویر کا بغور جائزہ لیتے ہیں جس کے بعد کسی بھی مقام کا تعین کر کے ٹیم اُس مقام کا رخ کرتی ہے اور پھر فیسٹیول والے روز ہم وہاں جاکر کچرا سجاتے ہیں اور ڈھول بجاتے ہیں جسے دیکھ کر وہاں کے مکین جمع ہوجاتے ہیں‘‘۔
اُن کا کہنا تھا ’’آگے چل کر اس فیسٹیول کی تقاریب کو بڑھایا جائے گا اور جب تک سندھ حکومت اپنی کارکردگی بہتر نہیں بناتی تب تک اس کا انعقاد جاری رہے گا، اُن کا کہنا تھا کہ ’’فسیٹیول کے انعقاد سے قبل ہم نے وزیر اعلیٰ سندھ اور سندھ حکومت کو خط بھی تحریر کیا تھا تاہم وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا‘‘۔
بچے ڈھول کی تھاپ پر رقص کر کے متعلقین کو توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہوئے۔
فیسٹیول میں حصہ لینے والے نوجوانوں سے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ’’سوشل میڈیا پر احتجاج کے باعث ہم اکٹھے ہوئے ہیں اور ہم حکومت کو جگانا چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا کرے اور عوام کی خدمت کرے‘‘۔
دیگر جماعتوں کی جانب سے صفائی مہم پر نوجوانوں کا کہنا تھاکہ ’’ہم حکومت کا کام آسان نہیں کرنا چاہتے، عوام حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں اگر ہم حکومت کے کام کو آسان کریں گے تو آئندہ حکومت ہر کام سے جان چھڑائے گی‘‘۔
فیسٹیول کے منتظم نے بتایا کہ ’’کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر 12 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے تاہم حکومت کے پاس صرف 3 ہزار ٹن کچرا اٹھانے کے لیے مشینری موجود ہے باوجود اس کے سندھ میں گزشتہ 8 سال سے اقتدار پر ایک ہی جماعت قابض ہے جبکہ ماضی میں یہی کراچی بلدیاتی نمائندوں کی موجودگی میں صاف ستھرا تھا‘‘۔
منتظمین کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو بھیجے گئے خط کا عکس
نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ’’کراچی میں مسائل کی ایک اہم وجہ مقامی قیادت کے پاس اختیار نہ ہونا ہے، غیر مقامی قیادت کے پاس وزارتیں ہونے کے باوجود صفائی نہ ہونے کی ایک اہم وجہ کراچی سے ناواقفیت بھی ہے‘‘۔
گلشن اقبال بلاک 13 ڈی 2
نوجوانوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں جگہ کا تعین کرنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اعلان کردیا جائے گا تاکہ حکومت سندھ کے منتعلقہ عہدیداران فیسٹیول کے انعقاد سے قبل اگر اپنی کارکردگی بہتر بنا سکتے ہیں تو وہاں سے کچرا صاف کردیں‘‘۔
کراچی: اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’ذمہ دار کون‘ کی ٹیم نے کراچی میں اسٹنگ آپریشن کر کے ناقابل فروخت ویکسی نیشن خرید لیں۔
تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کی ہیپاٹائٹس بی، تپ دق، خسرہ اور پولیو کے امراض کی ناقابل فروخت ویکسینیشن فروخت کی جارہی ہے جس کی نشاندہی آے آر وائی کے پروگرام ’ذمہ دار کون‘ کی ٹیم نے کی جس کے بعد پولیس بھی حرکت میں آگئی۔
یہ ادویات صوبائی حکومت کی جانب سے مختلف امراض کی ویکسینیشن مہمات کے دوران استعمال کی جاتی ہیں اور عام عوام تک ان کی فراہمی مفت کی جاتی ہے۔ تاہم ذمہ دار کون کی ٹیم کو اطلاع موصول ہوئی کہ یہ ادویات فروخت کی جارہی ہیں۔
ان ادویات کی مالیت 8 لاکھ کے قریب تھی۔ خریدی جانے والی ادویات کی قیمت ڈھائی سو سے شروع تھی اور اس کے بعد ان کی قیمت بڑھتی گئی۔ یہ ادویات پرائیوٹ اسپتالوں میں بھی فروخت کی جاتی ہیں جہاں یہ 4 سے 5 ہزار روپے میں عوام کو لگائی جاتی ہیں۔
ٹیم نے ان ادویات کو خریدنے کی کوشش کی جس میں انہیں کامیابی ہوئی جس کے بعد پولیس کو مطلع کیا گیا۔ پولیس اور ذمہ دار کون کی ٹیم نے مشترکہ اسٹنگ آپریشن کرتے ہوئے 3 سرکاری اہلکاروں کو تحویل میں لے لیا۔
ذمہ دار کون کی ٹیم نے ای پی آئی، ایکسٹینڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن اور محکمہ صحت سے بھی رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ یہ ادویات کس ادارے یا اسپتال کو دی گئی تھیں تاکہ اس جرم میں ملوث ذمہ داران کو گرفتار کیا جاسکے تاہم کوئی بھی اس کا تعین کرنے میں ناکام رہا۔
واضح رہے کہ ایک منظم عمل کے تحت یہ ادویات ای پی آئی اسلام آباد سے صوبوں میں آتی ہیں جس کے بعد یہ ٹاؤن اور میونسپلز میں فراہم کی جاتی ہیں اور اس کے بعد یہ سرکاری و نجی ڈسپنسریز میں تقسیم کی جاتی ہیں۔
کراچی : چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والے نمائندوں کو اختیارات دے کر کام کرنے کا موقع دینا چاہیے تاکہ صوبے کے مسائل کو حل کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعلی ہاؤس میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کے اعزاز میں افطار ڈنر تقریب کا اہتمام کا اعلان کیا گیا۔
بلاول بھٹو نے وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ہدایات جاری کیں کہ الیکشن کمیشن سے بات کر کے سندھ کے بلدیاتی اتنخابی عمل کو مکمل کروائیں تا کہ عوامی مسائل کو حل کریں‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی بلدیاتی انتخابات چاہتی ہے اس میں تاخیر کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، کراچی میں عوام کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے ، ان تمام مسائل کو اتحاد کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے ۔
اس موقع پر چیئرمین پیپلزپارٹی نے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن اور سید سردار سے مصافحہ کیا اور اُن کی خیریت بھی دریافت کی۔
کراچی: محکمہ تعلیم میں اسکول سربراہوں کی تقرریوں میں بے ضابطگیوں پر سیکریٹری تعلیم نے اسکروٹنی کے لیے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی جو غیرقانونی طریقے سے نوکری حاصل کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کرے گی۔
تفصیلات کے مطابق محکمہ تعلیم حکومت سندھ میں تعلیمی سال 2014 کے لیے خواتین اور مرد اسکول سربراہوں کی تقرریوں میں بے ضابطگیوں پر سیکریٹری تعلیم نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے جبکہ اس حوالے سے خط چیف سیکریٹری سندھ کو ارسال کردیا گیا ہے۔
سیکریٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو کے خط کے مطابق سال 2014ء میں خواتین و مرد ہیڈ ماسٹرز کی تقرریوں میں بے ضابطگیاں پائی گئیں جس کے تحت متعدد امیدواروں نے حتمی تاریخ کے بعد اپنے کاغذات جمع کرائے تھے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ اسکول سربراہان کی اسامی کے لیے 5086 امیدواروں نے ٹیسٹ میں شرکت کی جس میں سے 1080 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی تھی سیکریٹری تعلیم نے بھرتیوں کی اسکروٹنی کے لیے پانچ رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی۔
کراچی: وفاقی محتسب ادارے کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں کام کرنے والی خواتین کو دفاتر میں ہراساں کرنے کے مقدمات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حکومت نے سندھ کے کچھ محکموں میں اعلی افسران ساتھ کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے میں ملوث ہیں۔
وفاقی محتسب کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے چارماہ میں خواتین کو ہراساں کرنے کے کم از کم 57 کیسز کی رپورٹ درج کی گئی ہیں جبکہ 2013 سے بعد سے اب تک درج مقدمات کی تعداد 213 تک پہنچ چکی ہے۔
رواں سال کی خواتین کو ہراساں کرنے کی رپورٹس سب سے زیادہ ڈسٹرکٹ ساؤتھ سے موصول ہوئی ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین سول اسپتال اور سندھ سیکریٹریٹ میں نشانہ بنایا گیا ہے۔
صوبائی محتسب نے کہا ہے کہ سرکاری اور نجی اداروں میں خواتین ملازمین کو پریشان کرنے کے جرم میں کئی افسران کو سزا دی گئی ہے جبکہ سول اسپتال کے دو ڈاکٹرز کو برطرف کیا جا چکا ہے۔
حکومت سندھ نے کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے جون 2012 میں تحفظ کے لیے صوبائی محتسب ادارے میں شعبے کا افتتاح کر کے اس کی ذمہ داریاں ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پیر علی شاہ کو سونپی گئیں تھیں۔
واضح رہے حکومت سندھ نے صوبائی سطح پر دورانِ ملازمت خواتین کے ساتھ بدسلوکیوں کی شکایات میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے متاثرہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور ہراساں کرنے والے افراد کے خلاف شکایت درج کروانے کا اور ایسے افراد کے خلاف قانونی مدد فراہم کرنے کے حوالے سے فورم کا آغاز کیا تھا۔