Tag: حکیم اجمل خاں

  • مسیحُ الملک حکیم اجمل خان کا تذکرہ

    مسیحُ الملک حکیم اجمل خان کا تذکرہ

    حکیم اجمل خان کا شمار 20 ویں صدی کے نہایت قابل اور مشہور مسلمان راہ نماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ماہر طبیب اور ایسے نیک سرشت انسان بھی تھے جس نے اپنے پیشے کے ساتھ ساتھ تعلیم اور سماجی بہبود کے شعبوں میں خدمات انجام دے کر لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔

    حکیم محمد اجمل کو متحدہ ہندوستان کے مشہور اور قابلِ‌ ذکر اطبا میں جو امتیاز حاصل ہوا، اس میں ان کی انسان دوستی کا بھی بڑا دخل ہے اور انہی اوصاف کی بناء پر وہ برصغیر ہی نہیں عرب دنیا اور یورپ میں‌ بھی پہچانے گئے۔

    حکیم اجمل خان کی تعلیم و تربیت اس وقت کے فاضل اساتذہ کے زیرِ سایہ ہوئی۔ بعد میں ان کی توجّہ علمِ طبّ کی طرف ہوگئی۔ حکیم اجمل خان کھنڈہ شریفی میں 1868 میں پیدا ہوئے تھے۔ حکیم اجمل خان کے والد کا نام محمود خان تھا جو اپنے بزرگوں کی طرح حکمت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ اجمل خان قرآنِ پاک حفظ کیا اور عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانیں سیکھیں۔ اس زمانے میں طبّی تعلیم عربی مصادرِ طبّ کے ذریعے دی جاتی تھی۔ حکیم صاحب نے اس پیشے میں اپنے علم اور تجربہ کی بدولت بڑا نام پایا۔ وہ رام پور گئے تو وہاں علّامہ محمد طیّب عرب مکی سے خصوصی استفادہ کا موقع ملا۔ علّامہ طیّب کا وطن مکّہ معظمہ تھا، جہاں سے وہ نوجوانی ہی میں رام پور آگئے تھے۔ وہ عربی ادب اور معقولات کے امام تھے۔ تاریخ، انسابِ عرب اور عربی شاعری میں وسیع معلومات رکھتے تھے۔ ایسے ذی علم کی صحبت میں‌ حکیم اجمل نے عربی زبان پر عبور حاصل کیا۔ اجمل خان اس قابل ہوگئے کہ عربی میں تصنیف و تالیف کر کے امتیازی شناخت بنا لی۔ قیامِ رام پور کے دوران حکیم صاحب کو اپنے ذوقِ مطالعہ کی آبیاری کا موقع یوں ملا کہ ریاست کا قدیم اور بے مثال کتب خانہ ان کے سپرد کردیا گیا۔ حکیم صاحب نے اس علمی ذخیرے اور خاص طور پر عربی کتب سے بھرپور استفادہ کیا۔ ان کا ایک اہم علمی کارنامہ یہ ہے کہ اس زمانے میں کتب خانے کی عربی کتابوں کی فہرست تیّار کروا کے اس کی طباعت کروائی تھی۔ اسی زمانے میں حکیم اجمل خان نے طبّی موضوعات پر تصنیف و تالیف کا بھی سلسلہ شروع کیا اور یہ کتب آج بھی طلبہ کی راہ نمائی کرتی ہیں۔ حکیم صاحب کی واحد کتاب رسالۂ طاعون کے علاوہ ان کی تمام تصانیف عربی زبان میں ہیں۔ ان میں القول المرغوب فی الماءُ المشروب، الساعاتیۃ، البیانُ الحسن بشرحِ المعجون المسمّیٰ باکسیرُالبدن، الوجیزۃ، مقدمۃُ اللّغاتُ الطبیۃ و دیگر شامل ہیں۔

    حکیم اجمل کی ان تصانیف میں خاص طور پر آخرُالذّکر بہت اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ وہ کئی پہلوؤں‌ سے افادی ہے جس میں اس کے موضوع طبّ کا احاطہ کرتے ہوئے ہوئے مصنّف نے لغت نویسی کے اصول و مبادی بیان کیے ہیں۔ حکیم اجمل نے اس کتاب میں دونوں موضوعات کو جس خوب صورتی سے جمع کر دیا ہے اور جس دقّت نظری سے اس میں مباحث چھیڑے ہیں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

    حکیم اجمل خان اسلامیانِ ہند کے ایک بڑے خیر خواہ اور اپنے وقت کے قابلِ قدر سیاسی راہ نما بھی تھے جن کی ہندوستان کی سیاست میں رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ حکیم اجمل خان کی کوششوں سے ہندوستان میں طبّی کانفرنس کا انعقاد اور طبّی کالج کا قیام بھی عمل میں آیا۔

    حکیم اجمل نے عالمِ عرب کی سیّاحت بھی کی اور مختلف شہروں میں ہندوستانی حاذق طبیب کی حیثیت سے ان کا جانا ہوا۔ انھوں نے پہلا سفر مارچ 1905ء میں عراق کا کیا، جہاں تقریباً تین ماہ گزارا اور بصرہ، نجف، کربلا اور دیگر متبرک و تاریخی مقامات کی زیارت کی۔ جب کہ 1911ء میں یورپ کی سیر بھی کی جس میں لندن، کیمبرج، آکسفورڈ کے علاوہ فرانس اور جرمنی کے متعدد شہروں میں قیام کیا۔ اپنے اس دورے میں‌ حکیم اجمل خان نے وہاں کے تعلیمی اداروں، اسپتالوں، میوزیم اور لائبریریوں کا معائنہ کیا اور نادر کتابیں اور مخطوطات دیکھے۔ اس سفر کے دوران وہ ترکی اور مصر بھی گئے اور وہاں کی علمی شخصیات سے ملاقات کی اور اہم مخطوطات کے مطالعہ میں وقت گزارا۔

    انھوں نے تیسرا سفر بھی یورپ کا کیا اور یہ بات ہے 1925ء کی۔ وہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سوئٹزر لینڈ میں رہے۔ واپسی میں وہ مصر، شام، فلسطین اور لبنان گئے جہاں‌ کی اہم علمی و ادبی شخصیات اور قابل اطبا و اساتذہ سے ملاقات کرتے ہوئے ان کے علمی کارناموں اور کتابوں کی معلومات اکٹھی کرکے وطن لوٹے۔

    29 دسمبر 1927ء کو طبِّ یونانی کے اس ماہر اور مشہور طبیب کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔ وہ دہلی میں اپنے خاندانی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

    حکیم اجمل خان کو مسیحُ الملک کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

  • شبلی کی "الفاروق” اور طبلچی

    شبلی کی "الفاروق” اور طبلچی

    "ذکرِ آزاد” عبدالرّزاق ملیح آبادی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ہے۔

    یہ اُن اڑتیس برسوں کی یادیں ہیں جس میں مصنّف نے برصغیر کی بلند مرتبہ ہستی مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ وقت گزارا۔ اس کتاب میں انھوں نے مولانا شبلی نعمانی کا ایک دل چسپ واقعہ مولانا آزاد کی زبانی بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    جیل میں ایک دن مولانا (ابوالکلام آزاد) نے مرحوم شبلی نعمانی کے متعلق ایک دل چسپ لطیفہ سنایا۔ کہنے لگے، مولانا شبلی نہایت زندہ دل صاحبِ ذوق آدمی تھے، حسن پرست بھی تھے اور موسیقی وغیرہ فنونِ لطیفہ سے گہری دل چسپی رکھتے تھے مگر مولوی تھے، عام رائے سے ڈرتے تھے اور بڑی احتیاط سے اپنا ذوق پورا کرتے تھے۔

    ایک دفعہ موصوف دہلی میں حکیم اجمل خاں مرحوم کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے کہ خواجہ حسن نظامی ملنے آئے اور کہنے لگے، آج میرے ہاں قوالی ہے، دہلی کی ایک مشہور طوائف (میں نام بھول گیا ہوں) گائے گی۔ محفل بالکل خاص ہے،م یرے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ ہوگا۔

    مولانا شبلی نے دعوت قبول کر لی، کشمیری شال اوڑھی، وضع بدلی، بند گاڑی میں بیٹھے اور خواجہ صاحب کے ہاں پہنچ گئے۔ واقعی کوئی تیسرا آدمی مدعو نہ تھا، قوالی شروع ہوئی اور مولانا نے اپنے آپ کو محتسبوں سے محفوظ پا کر ضرورت سے زیادہ آزادی سے کام لیا۔ دل کھول کر گانے کی اور گانے والی کی تعریف کی۔ طوائف سے ہنستے بھی رہے اور اسے چھیڑتے بھی رہے۔

    طوائف کا طبلچی ایک لحیم شحیم سن رسیدہ آدمی تھا۔ سر پر پٹّے تھے اور منہ پر چوکور بڑی سی داڑھی، پٹے اور داڑھی خضاب سے بھونرا ہو رہے تھے۔ محفل جب برخاست ہونے لگی تو طبلچی دونوں ہاتھ بڑھائے مولانا کی طرف لپکا اور بڑے جوش سے مولانا کے ہاتھ پکڑ لیے، چومے، آنکھوں سے لگائے اور جوش سے کہنے لگا، "کس منہ سے خدا کا شکر ادا کروں کہ عمر بھر کی آرزو آج پوری ہوئی، مولانا سبحان اللہ، ماشاء اللہ، آپ نے "الفاروق” لکھ کر وہ کام کیا ہے جو نہ کسی سے ہوا نہ ہو سکے گا۔ بخدا آپ نے قلم توڑ دیا ہے، بندے کی کتنی تمنا تھی کہ حضرت کی زیارت سے مشرف ہو، سو آج بائی جی اور خواجہ صاحب کی بدولت یہ سعادت اس گنہگار کو نصیب ہوگئی۔”

    مولانا آزاد نے فرمایا، علامہ شبلی بڑے ذکی الحس تھے، اس غیر متوقع واقعہ نے ان کی ساری خوشی کرکری کر دی۔ شرم سے عرق عرق ہو گئے، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں؟ طبلچی کو کیا جواب دیں؟ کس طرح محفل سے غائب ہو جائیں؟ بے جان بت کی طرح بیٹھے رہ گئے۔ خواجہ صاحب نے موقع کی نزاکت محسوس کی اور طائفے کو رخصت کر دیا مگر علّامہ کو سخت ذہنی صدمہ پہنچ چکا تھا، ہفتوں شگفتہ نہ ہو سکے۔

    مولانا نے فرمایا، یہ واقعہ خود علاّمہ شبلی نے ان سے بیان کیا تھا۔ بیان کرتے وقت بھی متاثر تھے اور بار بار کہتے تھے، کاش "الفاروق” میرے قلم سے نہ نکلی ہوتی اور نکلی تھی تو اسے پڑھنے والا طبلچی اس قوالی سے پہلے ہی ناپید ہو چکا ہوتا، یہ نہیں تو مجھے موت آ گئی ہوتی کہ اس ذلت سے بچ جاتا۔”